بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مغرب میں دہریت کا فروغ اور موٹیویشنل اسپیکرز کا کردار 

مغرب میں دہریت کا فروغ اور موٹیویشنل اسپیکرز کا کردار 

دہریت کے مبلغ یا الفاظ کے مداری

 

اپنی مدد آپ کے موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں سے برپا ہونے والا فتنہ 

کسی بھی موضوع پر قلم اٹھانے کی ضرورت تب پیش آتی ہے جب اس موضوع سےمتعلق مثبت یا منفی اثرات شدت اختیار کرجائیں۔ پچھلے دنوں جب پاکستان کے ایک معروف موٹیویشنل اسپیکر’’قاسم علی شاہ صاحب‘‘ کا غلط فہمی پر مبنی یہ بیان سننے میں آیا کہ Self help یعنی ’’اپنی مدد آپ‘‘ کے موضوع پر لکھی جانے والی پہلی کتاب ’’نیپولین ہل‘‘ کی ’’Think and grow rich‘‘ یعنی ’’سوچو اور امیر ہو جاؤ ‘‘ ہے، جو کہ ۱۹۳۷ء میں شائع ہوئی تھی، جبکہ یہ بات درست نہیں ہے۔
لیکن اُن کے اس بیان سے یہ ضرور ثابت ہوگیا کہ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی موٹیویشنل اسپیکنگ کے اس شعبے کو اختیار کرنے یا اس سے متاثر ہونے والوں کا اس کے بارے میں علم بہت ہی محدود ہے۔ تو اب شاہ صاحب کی اس بات نے یہ تحریر لکھنے پر اس لیے مجبور کیا، کیونکہ اس سے اندازہ ہوا کہ پاکستان کے موٹیویشنل اسپیکر خود بھی اس راستے کی حقیقت سے واقف نہیں، لیکن وہ نہ صرف یہ کہ خود اس راستے پر چل رہے ہیں، بلکہ دوسروں کو بھی اس راستے پر چلا کر ایک ’’اَن دیکھی تباہی‘‘ کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ 
اور یقیناً اس شعبے کے ذریعے معاشرے پرمرتب ہونے والے اثرات سے بھی اکثر موٹیویشنل اسپیکر خود بھی بے خبر ہیں۔ پچھلے ڈیڑھ سو سال کے دوران مغرب میں آنے والے لادینیت یعنی Atheism کے سیلاب میں ان ’’Self help‘‘ یعنی ’’اپنی مدد آپ‘‘ کے موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں اور ان کتابوں کے نظریات پر بات کرنے والے موٹیویشنل اسپیکرز کا بہت بڑا ہاتھ ہے، جنہوں نے بلامبالغہ مادی کامیابی کو اصل کامیابی ثابت کرنے، صرف اپنی ذاتی کامیابی پر پوری توجہ مرکوز کرنے اور خدا کے تصور کو ختم کر کے لوگوں کو لادینیت و مادہ پرستی کی طرف لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 
لادینیت کو فروغ دینے والوں نے اس کے لیے جو طرزِ عمل اختیار کیا وہ نہایت ہی سادہ اور بہت ہی مؤثر اور مہلک تھا۔ اس کے لیے سب سے پہلے عوام اور مذہبی رہنما ؤں کے درمیان مختلف طریقوں سے فاصلہ پیدا کیا گیا، پھر ان کو اپنے مذہبی رہنماؤں سے جدید مسائل کے پیچیدہ ہونے کا تأثر دےکرمزید دور کیا گیا۔
یہ ذہن میں رکھیے کہ یہاں بات اسلام یا مسلمانوں کی نہیں، بلکہ تمام مذاہب کی ہو رہی ہے، کیونکہ ان کتابوں اور افراد نے خدا کا تصور رکھنے والے تمام مذاہب کو متأثر کیا ہے۔
پھر خدا کے تصور کے چھوٹ جانے سے پیدا ہونے والے روحانی خلا کو پُر کرنے کے لیے ان ’’سلف ڈویلپمنٹ کی کتابوں‘‘ اور ’’موٹیویشنل اسپیکرز‘‘ کا سہارا لیا گیا جو کہ آگے چل کے ایک فتنے کی شکل اس وقت اختیار کرگئے جب تقریباً ہر مذہب کے لوگوں نے اپنے مذہبی عقائد اور تعلیمات کو ان نظریات کی بنیاد پرجانچنا شروع کردیا جو کہ ’’Pseudoscience‘‘ یعنی ’’مفروضوں پر مبنی سائنس‘‘ کی ان کتابوں اور موٹیویشنل اسپیکرز کی تقریروں کے ذریعے سے ان تک پہنچے تھے۔
اس سارے سلسلے میں انفرادی کامیابی Individual success کو ہی اصل کامیابی سمجھنے کے نام پر کئی مالدار لوگوں کی مثالیں دے کر مذہب کے ذریعہ ملنے والی کامیابی کی تشریح کو یکسر تبدیل کر دیا گیا۔
آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ موٹیویشنل اسپیکرز کی حکمت سے بھرپور تقریروں میں جہاں بھی کامیابی کا ذکر آتا ہے تو یہ عام طور پر ان لوگوں کی مثالیں دیتے ہیں جو بہت زیادہ مالدار تھے اور انہوں نے پیسہ کمانے میں اپنی زندگیاں صرف کی تھیں، اور جب ان سے اس کی حقیقت پوچھی جائے کہ آیا پیسہ کمانا اور مالدار ہو جانا ہی اصل کامیابی ہے؟ تو موٹیویشنل اسپیکرز یہ کہہ کر راہِ فرار اختیار کر لیتے ہیں کہ ہر کسی کی کامیابی کی تشریح الگ ہوتی ہے، جیسے کوئی مشہور ہونے کو کامیابی سمجھتا ہے تو کوئی امیر ہونے کو کامیابی سمجھتا ہے اور کوئی نیک اور دیندار ہونے کو کامیابی سمجھتا ہے۔
اب اگر دوبارہ بات کی جائے شاہ صاحب اور دیگر کئی موٹیویشنل اسپیکرز کے اس دعوے کی کہ ’’اپنی مدد آپ‘‘ کے موضوع پر لکھی جانے والی پہلی کتاب نیپولین ہل کی ’’Think and grow rich‘‘ یعنی ’’سوچو اور امیر ہوجاؤ‘‘ تھی جو کہ ۱۹۳۷ء میں شائع ہوئی۔ (جبکہ ہماری تحقیق کے مطابق یہ کتاب ’’Plagiarism‘‘ یعنی ’’ادبی چوری‘‘ کی ایک بہترین مثال بھی ہے۔) تو اس موضوع کی تفصیل میں جانے کے لیے شاید ہمیں بات تو شروع کرنی چاہیے ’’پرینٹیس مولفورڈ‘‘ کی ۱۸۸۸ء میں شائع ہونے والی کتاب ’’Your Forces and How to Use Them‘‘ سے، یعنی ’’آپ کی توانائیاں اور ان کا استعمال کیسے کریں؟‘‘ یا ۱۸۸۹ء میں شائع ہونے والی کتاب ’’Thoughts are Things‘‘ یعنی ’’خیالات اشیاء ہیں‘‘ سے یا پھر ’’Law of attraction ‘‘ کے اصل موجد ’’Phineas Parkhurst Quimby‘‘ سے، لیکن اس طرح تو بات چلی جائے گی انیسویں صدی پہ، جب کہ شاہ صاحب نے تو شاید بیسویں صدی کی بات کی تھی۔ (یعنی نپولین ہل کی کتاب سے تقریباً پچاس سال پہلے بھی اس موضوع پر کتابیں لکھی جاچکی تھیں) تو ہم یہاں بات صرف بیسویں صدی کی کرتے ہیں، تو اس اعتبار سے نیپولین ہل کی ’’Think and grow rich‘‘ سے ۳۴ سال پہلے یعنی ۱۹۰۳ء میں ’’جیمز ایلن‘‘ کی کتاب ’’As a Man Thinketh‘‘ یعنی ’’جیسا کہ انسان سوچتا ہے‘‘ کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ (لیکن جیمز ایلن کی اصل تصانیف کی فہرست تو بہت لمبی ہے) اور ’’جیمز ایلن‘‘ کے بعد جو ایک بڑا نام بیسویں صدی کے شروع میں آتا ہے، وہ ’’والیس ڈیلوس واٹلس‘‘ کا ہے، جس نے ’’ Self development‘‘ یعنی خود کو ترقی دینے کے موضوع پر دو اہم کتابیں تصنیف کیں، جوکہ شاید دانستہ طور پر وقت کے ساتھ منظرِ عام سے ہٹا دی گئیں، جس کی بڑی وجہ شاید ان مختصر اور جامع کتابوں میں بیان کیے گئے قدرت کے وہ قانون ہیں جو دنیاوی اعتبار سے کامیابی کے لیے تقریباً تمام مذاہب میں مختلف اسلوب سے بیان کیے گئے ہیں۔ 
ان کتابوں کو منظرِ عام سے غائب کرنے کی شاید یہ وجہ ہو کہ اگر یہ کتابیں عام دستیاب رہتیں تو پھر Self Help کی کتابوں کا کاروبار اور موٹیویشنل اسپیکرز کی دکانیں نہ چل پاتیں، لیکن ہم ان اندیشوں کو زیادہ اہم نہیں سمجھتے، کیونکہ اس وقت کے معاشرے میں موٹیویشنل اسپیکرز کا کوئی خاص کردار نظر بھی نہیں آتا۔ لیکن درحقیقت ان کتابوں کے منظرِ عام سے غائب ہونے کی دو بڑی وجوہات تھیں: ایک تو جو لادینیت کے مبلغین کو متوقع نقصان ان کتابوں کے عام ہونے سے ہوسکتا تھا، وہ یہ تھا کہ اگر یہ کتابیں صحیح استاذ سے پڑھی جائیں تو پھر انسان کا خدا کے تصور کے ساتھ تعلق مزید مضبوط ہوسکتا تھا۔ (لیکن جب انہی کتابوں کے نظریات کو غلط ہاتھوں میں دے دیا جائے تو یہی نظریات خدا کے تصور سے دور کرنے کا ذریعہ بن سکتے تھے)۔
اور دوسرا بڑا نقصان جو ان کتابوں کے عام ہونے سے ہوتا، وہ سرمایہ دارانہ نظام یعنی Capitalism کو ہوتا۔ خیر! بغیر ان نقصانات کی تفصیل میں جائے کہ یہ کیا ہو سکتے تھے، ہم واپس آجاتے ہیں اپنے موضوع پر، تو ’’والیس ڈیلوس واٹلس‘‘ کی پہلی کتاب جو کہ ۱۹۰۷ء میں ’’How to get what you want‘‘ کے نام سے منظر عام پر آئی تھی، یعنی ’’آپ جو چاہتے ہیں اسے کیسے حاصل کریں؟‘‘، اور دوسری کتاب ’’The Science of Getting Rich‘‘ یعنی ’’ امیر ہونے کی سائنس‘‘ ہے جو کہ ۱۹۱۰ء میں منظرِ عام پر آئی۔ اور اس کتاب کی اشاعت کے اگلے ہی سال یعنی ۱۹۱۱ء میں والیس ڈیلوس واٹلس کا انتقال ہو گیا۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ’’والیس ڈیلوس واٹلس‘‘ کی اس آخری کتاب نے ہی New thought movement کے نظریے ’’Law of attraction ‘‘یعنی ’’کشش کے قانون‘‘ کو اتنے احسن طریقے سے بیان کیا تھا کہ وہ آگے چل کے ہزاروں لوگوں کی زندگی پر اثر انداز ہوا، یہاں تک کہ ’’رونڈابرن‘‘ کی کتاب’’The Secret‘‘ یعنی ’’ایک راز‘‘ کے لکھے جانے کی بنیادی وجہ بھی ’’والیس ڈیلوس واٹلس‘‘ کی یہی آخری کتاب ’’The Science of Getting Rich‘‘ بنی تھی اور ’’سٹیفن کووی‘‘ کی کتاب ’’The Seven Habits of Highly Effective People‘‘ میں بھی اسی کتاب کے نظریات کو عملی جامہ پہنایا گیا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ہماری ’’اسلامک اکیڈمی آف کمیونیکیشن آرٹس‘‘ نے چند سال پہلے والیس ڈیلوس واٹلس کی کتاب ’’How to get what you want‘‘ کے ترجمے کے بعد ایک مکمل کورس تیار کیا اور ساتھ ہی ’’سٹیفن کووی‘‘ کی کتاب ’’ The Seven Habits of Highly Effective People‘‘ یعنی ’’ انتہائی مؤثر لوگوں کی سات عادات‘‘ کتاب کے اردو خلاصہ پر مبنی کورس بھی جاری کیا۔مگر اس موضوع کے حساس ہونے کی وجہ سے ہم نے اس کورس کی تشہیر اور عام فروخت کو روک دیا، کیونکہ یہ موضوع براہِ راست سیشن میں ’’دین کی سمجھ رکھنے والے استاذ‘‘ سے ہی پڑھنے کے لائق ہے، اس طرح سے کہ بعد میں بھی استاذ کی رہنمائی میسر ہو، ورنہ وہی نقصان ہوگا جو کہ مغرب میں ان کتابوں سے ہوچکا ہے، یعنی لادینیت کا فروغ۔
اب 1911ء میں والیس ڈیلوس واٹلس کےانتقال کے بعد قصہ شروع ہوتا ہے اس شخص کا جو آج کے دور کے موٹیویشنل اسپیکرز کا پیشوا یا امام بھی سمجھا جا سکتا ہے، یہ وہی شخص ہے جس کا ذکر قاسم علی شاہ صاحب نے کیا تھا، جس کی وجہ سے یہ تحریر لکھنے کی ضرورت پیش آئی۔ لیکن ہم اوپر بھی ذکر کر چکے ہیں کہ ہماری تحقیق کے مطابق یہ اپنی معروف کتابوں کے معاملے میں ’’Plagiarism‘‘ یعنی ’’ادبی چوری‘‘ کا مرتکب رہا ہے، یعنی دوسروں کی کتابوں سے مواد لے کر اپنے ساتھ منسوب کرکے اپنی کتابیں لکھتا رہا۔ اس شخص کا اصل نام’’ Oliver Napoleon Hill‘‘ تھا، لیکن یہ عمومی طور پر صرف ’’Napoleon Hill‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اکثر لوگ اس شخص کی وجہ شہرت صرف اس کی ایک کتاب ’’ Think and Grow Rich‘‘ یعنی ’’سوچو اور امیر ہو جاؤ‘‘ کو سمجھتے ہیں جوکہ۱۹۳۷ء میں منظرِعام پر آئی، جبکہ اس کتاب کے شائع ہونے سے بارہ سال پہلے اس نے ایک اور کتاب لکھی تھی جس کا نام ’’The Law of Success in 16 Lessons ‘‘ یعنی ’’16اسباق میں کامیابی کا قانون‘‘ تھا۔ یہاں اصل موضوع نیپولین ہل نہیں ہے، اس لیے یہاں نیپولین کے کئی ناکام کاروباری منصوبوں اور دھوکہ دہی اور فراڈ کے کئی مقدمات کا ذکر کرنا ضروری محسوس نہیں ہو رہا، اگر آپ چاہیں تو اس پر خود تحقیق کر سکتے ہیں۔ بس یہاں اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ نپولین ہل کی کتابیں پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اس نے بہت کچھ New thought movement کے Law of attraction سے سیکھا تھا اور ’’پرینٹیس مولفورڈ‘‘، ’’ جیمز ایلن‘‘ اور ’’والیس ڈیلوس واٹلس‘‘ کی اوپر ذکر کی گئی کتابیں بھی اس کی نظر سے کسی وقت گزری تھیں، جن سب کو استعمال کرکے اس نے اپنی کتابیں لکھنا شروع کیں۔
مگر اس نے اپنی ان تمام معلومات (جو ان کتابوں سے اُسے حاصل ہوئی تھیں) کو ایک کہانی کی شکل دے کر ایک فرضی تحقیق سے منسوب کر دیا جو کہ اُس کے مطابق ’’ Andrew Carnegie‘‘ کے کہنے پر اس نے تقریباً بیس سال میں مکمل کی تھی، جس کا کوئی دستاویزی ثبوت بھی نہیں ہے، اور اس کا یہ دعویٰ بھی کارنیگی کے انتقال کے بعد سامنے آیا تھا، بس یہ معلوم ہو سکا کہ ۱۹۲۲ء میں کہیں شکاگو کے ایک اسٹور میں آگ لگنے سے وہ سارے دستاویزی ثبوت ضائع ہوگئے تھے، جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ نپولین کا معروف مالدار شخصیات سے کوئی رابطہ ہوا تھا، یعنی اس کتاب ’’ Think and Grow Rich‘‘ لکھے جانے سے تقریباً ۱۵سال پہلے وہ ساری تحقیق ضائع ہو چکی تھی۔اب اگر کوئی ایسی بیس سال پر مبنی تحقیق ہوئی بھی تھی تو وہ اب صرف نپولین کے ذہن میں یادداشتوں کی شکل میں تھی نہ کہ کسی تحریرکی شکل میں اور پھر ۱۹۲۲ء میں اُن دستاویزات کے جل کر ضائع ہو جانے کے بعد نپولین نے کوئی کتاب نہیں لکھی اور نہ ہی ان تحقیقاتی دستاویزات میں موجود معلومات کو اپنی یادداشت سے نکال کر تحریری شکل میں لاکر محفوظ کرنے کی کوشش کی۔
لیکن اس تحقیق کے دعویٰ پر ایک اور سوال اس لیے بھی پیدا ہوتا ہے کہ ۱۹۲۲ء سے سات سال پہلے یعنی ۱۹۱۵ء میں نپولین نے شکاگو میں ’’جارج واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ آف ایڈورٹائزنگ‘‘ کی بنیاد رکھی، جہاں اس نے ’’کامیابی اور خود اعتمادی کے اصول سکھانے‘‘ کا ارادہ کیا۔ 
اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ۲۰؍ سال کی تحقیق پر مبنی کتاب ’’ Think and Grow Rich‘‘ تو ۱۹۳۷ء میں چھپی، جبکہ اس سے ۲۲ سال پہلے بھی نپولین اسی موضوع کو پڑھانے کی پوزیشن میں تھا۔
’’اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ اس کی اپنی تحقیق پر مبنی نظریات نہیں، بلکہ کہیں اور سے سیکھے ہوئے نظریات تھے۔‘‘جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا کہ ’’نپولین ہل‘‘ کی اس ساری کارگزاری کو دیکھ کراور اس کی کتابیں پڑھ کے واضح اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس کی سوچ اور فکر بھی انہی نظریات پر مبنی ہے، جن پر اوپر ذکر کی گئی کتابوں میں بات کی گئی ہے اور اس سب کی بنیاد new thought movement کے نظریے law of attraction یعنی ’’کشش کے قانون‘‘ پر ہی تھی۔
نپولین ہل کے قصے کو یہیں ختم کرتے ہیں اور دیگر کئی کتابوں کا ذکر چھوڑ کر سیدھا آ جاتے ہیں سٹیفن کووے کی کتاب ’’The 7 Habits of Highly Effective People‘‘یعنی ’’کامیاب افراد کی سات عادات‘‘ پر۔یہاں اس کتاب اور اس کے کچھ پس منظر کا ذکر اس لیے کر رہے ہیں کہ برِصغیر پاک و ہند کے اکثر موٹیویشنل اسپیکر صرف اس پر ہی گزارہ کر لیتے ہیں۔ اس کتاب کے مصنف ’’Stephen R Covey‘‘ نے اپنی کتاب میں دنیا کے کامیاب ترین افراد کی سات اہم عادات کا ذکر کیا ہے۔ Self helpکی دیگر کتابوں کی طرح اس کتاب کی بھی طوالت لوگوں کے اس کو پڑھنے میں رکاوٹ بنتی ہے، جس کا فائدہ اُٹھا کر اکثر موٹیویشنل اسپیکر اس کتاب کی تعلیمات اپنی تقریروں میں ذکر کرتے ہیں اور عوام ان کی باتوں کو حکمت سے بھرپور سمجھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔وہ سمجھتے ہیں کہ یہ حکمت کی باتیں جو یہ لوگ کر رہے ہیں شاید ان موٹیویشنل اسپیکرز کی اپنی ہیں، جبکہ وہ نہیں جانتے کہ یہ اُنہی کتابوں کے نظریات پر مبنی باتیں ہیں جنہوں نے کہ یورپ اور امریکہ میں دہریت کو عام کیا اور لوگوں کو خدا کے تصور سے دورکرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔’’Stephen R Covey‘‘ کی سوچ اور فکر پر انہی سیلف ہیلپ کی کتابوں کا جو انہوں نے پہلے سے پڑھ رکھی تھیں (جن کا ذکر اوپر ہوا) اور’’کال رینسم روجر‘‘ کی تعلیمات کا زیادہ اثر نظر آتا ہے، لیکن اگرچہ موٹیویشنل اسپیکنگ انڈسٹری میں سٹیفن آر کووے کی اس کتاب کی اہمیت کے پیش نظر یہ ایک چھوٹا سا نقطہ جو ’’کارل رینسم راجرز‘‘ کے نظریات سے متاثر ہونے کا ہے، دراصل انتہائی خطرناک نقطہ ہے۔
 ’’کال رینسم روجر‘‘ کی ’’Theory of the self‘‘ پہلے سے ہی’’ Humanist‘‘ یعنی انسان پرست سمجھی جاتی ہے، جس کو گہرائی سے پڑھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان جو کر رہا ہے، اسی سے اس کا مقدر بن رہا ہے، جبکہ یہاں خدا کا کوئی تصور نظر نہیں آتا۔اور یہ اور ایسے دیگر نظریات ہی مغربی معاشرے میں Self help کی کتابوں اور موٹیویشنل اسپیکنگ انڈسٹری کی وجہ سے خدا کے تصور کے ختم ہونے کا باعث بنے ہیں۔ 
جو لوگ تعلیمی اداروں میں لادینیت کے ماحول، میڈیا کے ذریعے سے پہنچنے والے اثرات اور Self Help کی کتابوں کے ذریعے سے مذہب سے کنارہ کش ہو گئے، انہوں نے اپنے خدا کے تصور کے خلا کو پر کرنے کے لیے ان نظریات کو استعمال کیا اور وہ اپنے بے دین ہونے پر مطمئن ہو گئے ہیں۔ اب ہمارے لیے مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس وقت سب سے خطرناک وہ لوگ ہیں جو دینی اصطلاحات اور قرآن و حدیث کے حوالوں کو انہی نظریات کے ساتھ خلط ملط کرکے لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ یہ دیکھنے اور سننے میں تو ہمارے ہمدرد لگتے ہیں، لیکن عموماً ان کی سوچ اور فکر بھی مادیت کے حصار میں قید ہوتی ہے۔ یہ بھی کامیابی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے انفرادیت کے نظریات کو ہی مختلف انداز سے بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ اور ساتھ میں یہ قرآن اور حدیث کا سہارا لے کر سننے والوں کو دھوکے میں ڈال دیتے ہیں۔ فکر کی بات یہ ہے کہ اب یہ لوگ مختلف شکلوں میں ہمارے دینی مدارس، مساجد، سرکاری و غیرسرکاری اداروں، سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں یہاں تک کہ حساس اداروں تک بھی رسائی حاصل کر چکے ہیں۔ ہر شعبے میں یہ ان نظریات کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کر رہے ہیں جو کہ آگے چل کے خود پسندی، مادہ پرستی اور لادینیت کے فروغ کا ذریعہ بنیں گے۔
ان ساری کتابوں کو دیکھنے اور نظریات کو بغور پڑھنے کے بعد میں اس بات پر قسم اُٹھا سکتا ہوں کہ اللہ رب العزت نے قرآن اور حدیث کے ذریعے ہمیں جو علم کا نور عطا فرمایا ہے، وہ دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کرنے کے حوالے سے ان نظریات سے کئی گنا زیادہ طاقتور اور سارے عالم کے لیے خیر و برکت کا باعث اور اللہ رب العزت کے ہاں زیادہ مقبول ہے۔
آخر میں یہ تحریر پڑھنے والوں سے میری گزارش ہے کہ اپنی اور اپنی آگے آنے والی نسلوں کی خیر خواہی کے لیے زندگی گزارنے کے اصول اور ضابطے قرآن اور حدیث سے سیکھیں، نہ کہ ایسی کتابوں سے کہ جن کے اندر اگرچہ خیر ہو گی، مگر ان کے اندر موجود شر اُس خیر سے کئی گنا زیادہ ہے، جیسا کہ آج بچھو کے زہر سے بہت قیمتی ادویات بنتی ہیں، مگر یہی زہرعام لوگوں کو ہلاک کر دینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین