بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

معیارِ انسانیت (اُسوۂ صحابہؓ)

معیارِ انسانیت

اُسوۂ صحابہؓ


قرآن پاک کے اولین مخاطب،اسلام اور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے سب سے پہلے محافظ و خادم، ’’أُولٰئِکَ ہُمُ الرَّاشِدُوْنَ‘‘ ، ’’أُولٰئِکَ ہُمُ الْفَائِزُوْنَ‘‘ ، ’’أُولٰئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا‘‘ ، ’’أُولٰئِکَ کَتَبَ فِيْ قُلُوْبِہِمُ الْإِیْمَانَ‘‘ ، ’’رَضِيَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ‘‘ ، ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ أَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ۔‘‘ جیسی سینکڑوں آیات کے حقیقی مصداق، اُمت کے سب سے پہلے محسنین، اُمت اور نبوت کا درمیانی واسطہ، دینِ اسلام کو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے لے کرباقی اُمت تک پہنچانے والے سچے اور ایماندار لوگ، عشقِ رسالت کی معراج، وفا اور صدق و صفا کے پیکر، یعنی قدسی صفات جماعت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم   کو اللہ تعالیٰ نے پوری اُمت کے لیے کامل نمونہ بنادیا۔
نماز کیسے پڑھیں؟ جیسے صحابہ کرامؓ نے پڑھ کر دکھلائی۔ حج کیسے کریں؟ جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے احکامات کے مطابق صحابہ کرامؓ نے کیا۔ عشقِ رسالت کا معیار کیا ہے؟ صحابہ کرامؓ کا طرزِ عمل۔ مسلمانوں کے آپسی تعلقات کیسے ہونے چاہئیں؟ جیسے صحابہ کرامؓ کے آپسی تعلقات تھے۔ کفار سے برتائو کیسے کریں؟ جیسے صحابہ کرامؓ نے حکمِ نبوی کے مطابق برتائو کیا۔ دین کی حفاظت کیسے کی جائے؟ جیسے صحابہ کرامؓ نے کی۔ اسلام کا تعلیمی و تدریسی منہج کیا ہے؟ جو صحابہ کرامؓ کا تھا۔ حکومت اور حکمرانی کا طرز کیا ہونا چاہیے؟ جو صحابہ کرامؓ کا تھا۔ جہاد کب، کہاں اور کیسے کیا جائے؟ جب جہاں اور جیسے صحابہ کرامؓ نے کیا۔ 
یعنی وہ نور جو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے قلبِ اقدس پر اُتارا گیا، اس نور کو صحابہ کرام ؓ کے ذریعے پوری کائنات پر صدقہ کردیا گیا۔ علم کی خیرات صحابہ کرام ؓ کے ہاتھوں پوری اُمت میں بانٹی گئی۔ محبت و مودت کے زمزمے انہی کے ہاتھوں سے لٹائے گئے۔ انہی کے سینوں نے تیر کھاکرنبوت کا دفاع کیا۔ وہ نبوت کی آنکھیں جو دیدارِ الٰہی سے منور ہوئیں تو اُن مطہر آنکھوں کا دیدار انہی کے حصہ میں آیا۔ نبوت سے لمعانیت (روشنی) لے کر پوری کائنات کو منور کرنا انہی کا خاصہ تھا۔ یہ تو ستارے تھے جنہوں نے اپنے چاند سے روشنی لے کر ظلمت کدۂ عالم میں ہدایت کی روشنیاں بکھیر دیں اور ان کے حصے میں نبوت کی گواہی آئی۔ 
نبوت کے چلنے سے لے کر اندازِ تکلم، طرزِ تخاطب تک، عدالتی فیصلوں سے لے کر محبت کی ضیاء پاشیوں تک، عبادات اور معاشرت سے لے کر معاملات کی باریکیوں تک، جہاد سے لے کر حکومت کی دقیقہ سنجیوں تک، علم کی شناوری سے لے کر عمل کی گہرائیوں تک، ہر چیز کی چشم دید گواہی بھی انہی کے حصے میں آئی۔
میں، میرے ماں باپ، میری آل و اولاد قربان ان مقدس ہستیوں پر کہ جنہوں نے میری زباں اور میرے دل کو کلمے سے بہرہ ور کرنے کے لیے اپنی جوانی کی حسین راتیں گھوڑوں کی پیٹھوں پر گزاردیں۔ اپنے حسین دن جون جولائی کی سخت دوپہروں کی نذر کردیئے۔ اپنی خواہشات کو تج دیا۔ اپنی دولت کو نبوت کے قدموں میں ڈھیر کرکے اپنے گھروں کو خدا کے سپرد کردیا۔ پائوں میں جوتی نہیں، پیٹ میں کھانا نہیں، ہاتھ میں سواری نہیں، لیکن نبوت کے حکم کی تعمیل میں ایک لحظہ کی بھی تاخیر برداشت نہیں کی، اپنے کاروبار، اپنی آل واولاد قربان کردی۔ پھر کیوں نہ ان کے قدموں کا کھٹکا جنت میں سنائی دے، اُن کی مدحت کے ترانے سات آسمانوں پر گائے جائیں، قانونِ قدرت سے جنت کی بشارتیں ملیں، نبوت کی مطہَّر زبان اُن کی تعظیم کے پروانے جاری کرے اور پھر کیوں نہ قرآن اُن کی مدحت سرائی کرے۔ قدسی صفات جماعت کے اوصافِ حمیدہ کو قرآن پاک نے کچھ یوں بیان کیا ہے :
۱:-’’کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہ۔‘‘                                                                                      (آلِ عمران:۱۱۰) 
’’(مومنو! اے صحا بہ کرام ؓ!) جتنی اُمتیں لو گو ں میں ہو ئیں تم ان سب سے بہتر ہو کہ نیک کام کرنے کا حکم دیتے ہو اور برا ئی سے رو کتے ہو اور خدا پر ایما ن رکھتے ہو ۔‘‘
۲:-’’وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا۔‘‘                                                           (البقر ۃ۱۴۳) 
’’ اس طر ح ہم نے تم کو امت معتد ل بنایا، تا کہ تم ( روزِ قیا مت )اور لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر (آخر الزمان  صلی اللہ علیہ وسلم )تم پر گو اہ بنیں۔‘‘
۳:-’’وَاعْلَمُوْا أَنَّ فِیْکُمْ رَسُوْلَ اللّٰہِ لَوْ یُطِیْعُکُمْ فِيْ کَثِیْرٍ مِّنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ إِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِيْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ اُولٰئِکَ ہُمُ الرَّاشِدُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَنِعْمَۃً وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔‘‘        (الحجرات :۷)
’’اور جا ن ر کھوکہ تم میں اللہ کے پیغمبر ہیں،اگر بہت سی با تو ں میں تمہا را کہا مان لیا کر یں، تو تم مشکل میں پڑجا ئو، لیکن خدا نے تمہا ر ے لیے ایما ن کو عزیز بنا د یا اور اس کو تمہا ر ے دلو ں میں سجا دیا، کفر، گناہ اور نافرمانی سے تم کو بیزا ر کر دیا، یہی لو گ راہِ ہدا یت پر ہیں، یعنی خدا کے فضل اور احسا ن سے اور اللہ تعا لیٰ بہت جا ننے وا لے ہیں اور حکمت وا لے ہیں ۔‘‘
۴:-’’وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجَاہَدُوْا فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ آوَوْا وَّنَصَرُوْا أُولٰئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقَّا لَہُمْ مَّغْفِرَۃُ وَّرِزْقٌ کَرِیْم ٌ۔‘‘                             (الانفال: ۱۰)
’’اور جو لو گ ایما ن لا ئے اور و طن سے ہجرت کر گئے اور خدا کی را ہ میں لڑائیاں کرتے رہے اور جنہو ں نے (ہجرت کر نے وا لو ں کو )جگہ دی اور ان کی مدد کی، یہی لو گ سچے مسلمان ہیں، ان کے لیے (خدا کے ہا ں) بخشش اور عزت کی روزی ہے۔‘‘
۵:-’’لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَومِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَادَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ کَانُوْا آبَاؤَہُمْ أَوْ أَبْنَائَ ہُمْ أَوْ عَشِیْرَتَہُمْ أُولٰئِکَ کَتَبَ فِيْ قُلُوْبِہِمُ الْإِیْمَانَ وَأَیَّدَہُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ وَیُدْخِلْہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ أُولٰئِکَ حِزْبُ اللّٰہِ أَلاَ إِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔‘‘       (المجادلۃ:۲۲) 
’’جو لو گ خدا پر اور روزِ قیا مت پر ایما ن ر کھتے ہیں تم اُن کو خدا اور رسو ل کے دشمنوں سے دو ستی کرتے ہو ئے نہ دیکھو گے، یہی وہ لوگ ہیں،جن کے دلوں میں خدا نے ایمان (پتھر کی لکیر کی طرح) تحریر کردیا ہے اور فیض بخشی سے ان کی مدد کی ہے اور اللہ ان کوایسی بہشتوں میں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں‘ داخل کرے گا۔ یہ ہمیشہ اُن میں ر ہیں گے، خدا اُن سے خو ش ہے اور وہ خدا سے خوش ہیں، یہی گروہ خدا کا لشکر ہے (اور) سن رکھو کہ خدا ہی کا لشکر مراد حا صل کرنے والا ہے۔‘‘
۶:-’’ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ أَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ۔‘‘  (الفتح:۲۹)
’’محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) خدا کے پیغمبر ہیں اور جو لو گ ان کے سا تھ ہیں وہ کا فرو ں کے حق میں تو سخت ہیں اور آ پس میں ر حمد ل ۔‘‘
۷:-’’ اَلصَّابِرِیْنَ وَالصَّادِقِیْنَ وَالْقَانِتِیْنَ وَالْمُنْفِقِیْنَ وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْأَسْحَارِ۔‘‘  (آل عمران:۱۷)
’’یہ (صحابہؓ) صبر کرنے وا لے ہیں اور را ست با ز ہیں اور فر وتنی کرنے وا لے ہیں اور خرچ کر نے والے ہیں اور پچھلی را ت میں گنا ہو ں سے بخشش چا ہنے والے ہیں ۔‘‘ 
۸:-’’ فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِاہْتَدَوْا فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا ہُمْ فِيْ شِقَاقٍ۔‘‘  (البقرۃ:۱۳۷)
’’تو اگر یہ لو گ بھی اسی طر ح ایما ن لے آ ئے جس طر ح تم ایما ن لے آ ئے تو ہدایت یا ب ہو جائیں گے اور اگر منہ پھیر لیں اور نہ ما نیں تو وہ (گمرا ہی ) میں ہیں ۔‘‘
آج کے اس نازک دور میں کہ جب ان عظیم ہستیوں کو متنازع بناکر پوری اسلام کی عمارت گرانے کی ناکام اور مذموم سازشیں کی جارہی ہیں، ایسے وقت میں نہایت ضروری ہے کہ صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں کو پڑھا جائے، اُن کی قربانیوں سے عوام کو آگاہ کیا جائے،ان روشن ستاروں سے روشنی لے کر اپنی زندگی کو سنوارا جائے، اپنے معاملات اور معاشرت کو بہتر کیا جائے،اپنا طرزِ حکمرانی درست کیا جائے اور ایک ایسا معاشرہ قائم کیا جائے جو عہدِ نبوی کا پرتو ہو، کیونکہ وہ ایسا کامیاب اور کامران معاشرہ تھا کہ دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے۔ تاریخِ انسانیت میں یہ بہت بڑا انقلاب تھا جو برپا ہوچکا تھا اور دنیا ششدر و حیران تھی۔ 
آج بھی ہمیں اپنے مذہبی و سیاسی، سماجی و معاشرتی مسائل کے حل کے لیے شاگردانِ رسالت( رضی اللہ عنہم ) کی لمعہ افروزیوں سے اپنے چمن پاکستان کو سجانا اور منور کرنا ہوگا، تا کہ ہمارا پیارا وطن پاکستان ناصرف اپنے مسائل سے نکلے، بلکہ پوری دنیا کی قیادت و سعادت کے منصبِ جلیلہ پر فائز ہو، جو کہ اس کی بنا کا اصل مقصد اور حقیقی خواب تھا۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین