بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی ایک حکمت!


معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی ایک حکمت!

(پیغمبر  صلی اللہ علیہ وسلم  ہرچہ گفت، دیدہ گفت )


l    سماعت و بصارت کی صلاحیتیں عطائے خداوندی ہیں اور انسانی بصیرت اور اِذعان کے فروغ کے لیے بے حد اہم سماعت کا آلہ کان ہے اور بصارت آنکھ کا وظیفہ ہے اور سمع و بصر کی صلاحیتیں کارِ دنیا کی انجام دہی میں ہر سطح پر بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ 
l    یہ بات بھی انسانی تجربہ سے سامنے آتی ہے کہ اگرچہ سماعت (یعنی کسی واقعہ اور حقیقت کے بارے میں سن لینا) بھی نہ سننے سے بہتر ہے، مگر سننے سے جس درجے کا یقین پیدا ہوتاہے وہ کسی واقعہ اور حقیقت کو دیکھنے جیسے یقین و اطمینان کا حامل نہیں ہوتا، اسی لیے فارسی زبان کی یہ کہاوت حکمت کا ایک موتی ہے کہ ’’شنیدہ کے بود مانند دیدہ؟‘‘  یعنی ’’سنی ہوئی بات آنکھ سے دیکھی ہوئی بات کے کیسے برابر ہو سکتی ہے؟‘‘ 
l    اسی وجہ سے باصلاحیت انسان دوردراز کے سفر کر کے علاقوں، تہذیبوں، قبیلوں، زبانوں اور زمینی حقیقتوں کے بارے میں خود مشاہدہ کرکے معلومات جمع کرتے ہیں۔ اسی جذبے کے تحت یہ بات بھی آئے گی کہ کسی بڑی نامور شخصیت کی مختلف واسطوں سے سنی ہوئی بات کی بجائے مذکورہ بات خود اس سے کسی نے سنی ہو یا کسی بات کے کہنے والے اور سننے والے کے درمیان جتنے واسطے (راوی) کم ہوں گے اتنی ہی وہ بات ثقہ ہوگی۔ 
l    علم کی تلاش اور حقیقت کی جستجو میں مگن طلبہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہوں یا دینی مدارس اور جامعات میں تحصیلِ علم میں مشغول ہوں، سب کے لیے یہ بات نہایت اہم ہو جاتی ہے کہ سینئر اساتذہ جو پڑھارہے ہیں وہ انہوں نے کہاں سے سیکھا ہے؟ اور کس کتاب کے مصنف سے متعلق معلومات کس استاذ کے پاس کم سے کم واسطوں (راویوں) کے ذریعے پہنچی ہیں۔ 
l    کلاس روم میں کوئی استاذ یہ فرمادے کہ میں نے اس کتاب کے مصنف کو دیکھا ہے، اس سے ملاقات کی ہے، اس سے مجھے شرفِ تلمذ حاصل ہے تو طلبہ متوجہ ہوجاتے ہیں اور بات کو غور سے سنتے ہیں کہ مصنف کے منشا اور مقصود کو یہ استاذ بہت بہتر انداز میں سمجھتے ہیں، اور یہ اِن کا اعزاز ہے۔ 
l    مزید برآں کوئی استاذ کلاس میں یہ بیان کردے کہ کسی صفحہ پر جو فلاں علاقہ، مقام اور تاریخی عمارت کا ذکر ہے، وہ میں نے خود جا کر دیکھی ہے تو نتیجتاً طلبہ کا شوقِ سماعت دیدنی ہوجاتاہے اور ہمہ تن متوجہ ہو کر سنتے ہیں۔ 
....................................................
l    اوپر درج چند بنیادی باتوں کو ذہن میں رکھ کر جب ایک مسلمان (یا حق کا متلاشی کوئی غیرمسلم) قرآن پڑھتاہے اور ساتھ ہی اُسے ہمارے آقا حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کے واقعۂ معراج سے متعلق بھی معلوم ہو تو جو وعظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمائے، ان کا براہِ راست اثر (IMPACT) اس کی فطرت اور باطنی کیفیات پر پڑتا ہے۔ تصور کیا جاسکتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامعین (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) کتنے انہماک اور توجہ سے سنتے ہوں گے اور بات عین الیقین تک پہنچ جاتی تھی، مثلاً حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  نے قرآن مجید کے وہ حصے بیان فرمائے جن میں حضرت موسیٰ   علیہ السلام  کے واقعات ہیں یا مسجدِ اقصیٰ کا ذکر فرمایا، یا حضرت ابراہیم علیہ السلام  سے متعلق آیات تلاوت فرمائیں ، ساتھ ہی یہ بات معراج کے حوالے سے سامنے رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ شب معراج حضرت موسیٰ علیہ السلام  سے ملاقات ہوئی، ان سے گفتگو ہوئی ہے اور خاصی بے تکلّفانہ گفتگو رہی، مسجد اقصیٰ میں نے دیکھی ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام  سے میں ملا ہوں، حضرت آدم علیہ السلام  سے ملاہوں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام  سے ملا ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اندازِ گفتگو میں اذعان و یقین اور ASSERTION کا درجہ امکانی حد تک ثریا سے بھی بلند ہوگیا ہے کہ یہ کوئی سنی سنائی بات نہیں ہے، بلکہ حقیقت ہے کہ ان انبیاء کرام علیہم السلام  سے میری ملاقات آسمانوں پر ہوئی، مسجد اقصیٰ میں میں نے تمام انبیاء علیہم السلام کی امامت کی ہے۔ 
l    آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو وحیِ خداوندی یعنی ’’وحیِ جلی‘‘ اور ’’وحیِ خفی‘‘ پر جتنا یقین آپ کی شان کے مطابق تھا، وہ اپنی جگہ، پھر اس میں اہم شخصیات سے ملاقات اوراہم مقامات کی ’’سیر‘‘ اور ’’مشاہدہ‘‘ نے اس یقین کو مزید آبدار بنادیا تھا، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  جو بات فرمائیں، وہ اتنے گہرے یقین سے فرمائیں کہ گویا یہ میرا مشاہدہ ہے تو اس یقین کا براہِ راست اثر سامعین کی سماعت پر ہوگا اور اسی درجے میں اعلیٰ ایمان (آپ کے ان ’’چشم دیدہ‘‘ حقائق کے بیان سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے مخاطبین میں پیدا ہونا ایک ایسی فطری بات ہے جس کا انکار ممکن نہیں (وہ سامعین جو سننا ہی نہیں چاہتے تھے یا بنی اسرائیل یعنی یہود سے مراسم کی وجہ سے ان سے متأثر تھے اور منافق تھے، ان کے علاوہ) تمام مخلص متلاشیانِ حق اس اندازِ گفتگو اور اظہارِ حقیقت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ 
l    قارئین کرام! ذرا سوچئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قرآن مجید لوگوں کو پڑھایا، اس میں جنت کا ذکر آیا ہے اور دوزخ کا ذکر آیا ہے۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے مہبطِ وحی ہونے کے ناطے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خداداد اعلیٰ انسانی صلاحیتوں کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  حتمی یقین کے ساتھ یہ بات بیان فرما کر اپنے سامعین کے دل موہ لیتے تھے۔ ہر استاذ، مربی، مرشد اور شیخ کے اندازِ گفتگو میں زیرِ تربیت لوگوں کے لیے لہجہ ہی متاثر کرتا ہے، ایک عام آدمی آج جنت اور دوزخ کی بات کرے تو اس کا یقین اس کے لہجے سے چھلکے گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کا یقین ان کے لہجے سے چھلکتا تھا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کا ہمالیہ جیسا یقین بھی ان کے لہجے ہی سے چھلکتا تھا اور ہر سامع کو گھائل کر دیتا تھا۔ یہ عین الیقین تھا، جس پر حق الیقین کا گمان ہونا فطری امر ہے۔ 
l    اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اندازِ گفتگو اور لب و لہجہ کو بے مثال اور اعلیٰ ترین درجے کی شان کا حامل بنانے کے لیے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو شبِ معراج میں جنت، دوزخ، سدرۃ المنتہیٰ کی سیر کرائی۔ زمین سے پہلے آسمان تک کی حقیقتوں سے آشنا کر کے حق کی معرفت کے وجدان سے مالا مال کردیا، کائنات کی ’’حقیقت‘‘ کو روبرو کردیا تھا،گویا وقت کے ساتھ سائنسی اور انسانی تجرباتی علوم کے انکشافات کو اللہ تعالیٰ کا ’’فعل‘‘ دیکھنا ضروری ہے۔
l    گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قرآن مجید کی جو تشریح فرمائی اور صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  سے ہم تک احادیث کی صورت میں پہنچی، وہ ایک ایسے کامل ترین انسان کی آپ بیتی اور بچشمِ سر مشاہدہ پر مبنی ہے، جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے اپنے اعلیٰ فہم کے درجات کے مطابق (جو غیرانبیاء کو حاصل ہوسکتے ہیں اور کسبی ہیں) سمجھا، یاد رکھا اور بیان کیا، تا آنکہ آج ہمارے پاس محفوظ بھی ہے۔ 
l    یہ بات حتمی ہے کہ مشاہدئہ حق کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے پہلے اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد قرآن مجید کے حقائق و معارف کا ایسا بیان ممکن ہی نہیں، بالفاظِ دیگر قرآن پاک میں مذکورہ ہر شخصیت، ہر تاریخی جگہ، تما م تاریخی آثار، ورثۃ الانبیاء سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو آگہی بخشی گئی اور شعوری (بحالت بیداری) ادراک عطا فرمایا گیا۔ 
l    قرآن مجید کے بھیجنے والے خود خالقِ کائنات نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو اعلیٰ ترین انسانی سطح پر ممکنہ ملاقات کا اعزاز بخشا، جسے ہمارے بعض اکابرین دیدارِ خداوندی کہہ دیتے ہیں اور بعض اسی کیفیت کو دیدار قرار نہیں دیتے (واللہ اعلم)۔ کلامِ خداوندی اور وحیِ خداوندی کا مہبط ہونے اور آخری کلام کا وصول کنندہ( RECIPIENT) ہونے کے شرف پر اضافی طور پر ’’خاص کیفیت‘‘ کے ساتھ  ملاقات (جسے عام انسانی محسوسات کسی درجے میں تصور نہیں کرسکتے) سے بہرہ یاب فرمادیا، اَللّٰہُمَّ زِدْ فَزِدْ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اس ملاقات کا معاملہ یقیناً جنت میں اللہ تعالیٰ کے دیدار کی کیفیات کے مقابلے میں ’’عکوس فی المرایا‘‘ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام  کے اظہارِ شوقِ دیدارِ الٰہی کے جواب کے تابع ہی ہیں، اس فرق کے ساتھ کہ ان تجلیات کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر حضرت موسیٰ علیہ السلام  جیسی کیفیات سامنے نہیں آئیں)۔ 
l    مزید برآں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی نبوت و رسالت چونکہ تاقیامت ہے، لہٰذا مستقبل کے حالات اور وقت کے ساتھ ساتھ سائنسی انکشافات اور انسانی علوم کی فراوانی کے نتیجے میں (جیسے آج ہے) جو نئے نئے فتنے جنم لیں گے، تباہ کن ہتھیار بنیں گے، علوم کی ترقی سے مصنوعی موسم، مصنوعی وائرس، مصنوعی جراثیم اور مصنوعی بیماریاں، مصنوعی بارشیں، مصنوعی خشک سالی، مصنوعی خوراک، مصنوعی اور فرضی جنگیں، اسلحے کی تیاری اور فروخت کا مقابلہ، سودی کاروبار کی لعنت، بے حیائی، بے لباسی، عریانیت، شراب، منشیات جیسے انسان دشمن فتنے سراُٹھائیں گے، اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان فتنوں سے آگاہی بھی عطا فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو قیامت تک اور جنت کے داخلے اور جنت کے حالات بھی مشاہدہ کرائے گئے، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ’’پیغمبر ہرچہ گوید دیدہ گوید‘‘ کے مصداق‘ تن ورتی، آپ بیتی اور آنکھوں دیکھی ان کیفیات کو زبان پر لائیں اور یقین سے لوگوں کو دعوت دیں۔ 
l    اسی خلائی سفر کے آغاز میں زمین سے بلند ہوکر جلد ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جو منظر دیکھا اور زمین کا ایک دور سے نظارہ فرمایا، اس کا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس روح افزا انداز میں تذکرہ فرمایا ہے: 
’’اِنَّ اللہَ زَوٰی لِيَ الْاَرْضَ فَرَاَیْتُ مَشَارِقَہَا وَ مَغَارِبَہَا، وَ إِنَّ اُمَّتِیْ سَیَبْلُغُ مُلْکُہَا مَا زُوِيَ لِیْ مِنْہَا ۔ ‘‘                                       (مسلم، عن ثوبانؓ)
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین کو لپیٹ دیا، چنانچہ میں نے اس کے تمام مشارق و مغارب دیکھے اور یقیناً میری اُمت کا اقتدار وہاں تک پہنچے گا جہاں تک زمین کو میرے لیے لپیٹا گیا۔‘‘ 
یہ فرمان اُن خوش خبریوں میں سے ایک ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قربِ قیامت میں اسلام کے عالمی غلبے اور نظامِ خلافت کے قیام کی خبر دی ہے۔ 


اہلِ بیت کرام رضی اللہ عنہم  اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کا باہمی تعلق

اہلِ بیت رضی اللہ عنہم  کے محترم نفوسِ قدسیہ اور حضرات صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کے درمیان باہمی رشتہ داریاں، تعلق، محبت، احترام واکرام اور اس کا اظہار ایک تاریخی حقیقت ہے۔ بعض ناعاقبت اندیش اس کے برعکس تاریخ سے ڈھونڈ کر من گھڑت اور بے بنیاد روایات کو بنیاد بنا کر اُن نفوسِ قدسیہ کی طرف ایسی باتوں کی نسبت کرتے ہیں جن سے اُن کا دامن صاف تھا۔ آج کی تحریر میں تصویر کے اصل اور حقیقی رخ کی ایک جھلک دکھانی ہے اور مستور حقائق کو واضح کرنا ہے، تاکہ اہل بیتؓ اور صحابہ کرام ؓ کے ماننے والے بھی باہمی محبت ومودت اور احترام کے ساتھ معاشرت کا مظہر بن سکیں۔ خاص طور پر اہلِ بیت کرامؓ اور خلیفۂ اول، خلیفۂ بلا فصل سیدنا ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ  کے درمیان محبت ومودت کا جو تعلق تھا، اس کا ذکر نہ صرف اہلِ سنت علماء کرام نے کیا، بلکہ اہلِ تشیع کے علماء نے بھی اسے بیان کیا۔ اس تحریر میں صرف شیعہ حضرات کی کتب سے اس حقیقت کو واضح کرنا ہے، تاکہ اہلِ بیت عظامؓ سے محبت کا دعویٰ کرنے والے حضرات اُن کے نقشِ قدم پر چلیں اور معاشرہ میں اسی محبت ومودت کو فروغ مل سکے۔
اہلِ بیت رضی اللہ عنہم  کا حضرت ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کے نام پر اپنے بچوں کا نام رکھنا
یہ عام فہم اور معقول بات ہے کہ آدمی اپنی اولاد اور بچوں کے نام ہمیشہ باکردار، پسندیدہ، نیک سیرت اور صالح لوگوں کے نام پر رکھتا ہے اور جس نام کا انتخاب کیا جاتا ہے، وہ عقیدت، محبت ومودت اور احترام کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ ایک عام انسان بھی کسی ناپسندیدہ شخصیت اور اپنے دشمنوں کا نام اپنے بچوں کو نہیں دیتا، یہی وجہ ہے کہ اہلِ بیت کرامؓ کے مقدس نفوس نے بھی خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے عقیدت و محبت اور مودت کا اظہار مختلف طرح سے کیا، ان میں سے ایک طریقہ یہ اختیار کیا کہ ان کے نام پر اپنے بچوں کا نام رکھا۔
ابو الائمہ حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کا طرزِ عمل
 اہلِ بیتؓ میں سب سے پہلے ابو الائمہ سیدنا حضرت علی بن ابی طالب  رضی اللہ عنہ  نے اسی محبت ومودت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک بیٹے کا نام سیدنا حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ  کے نام پر ’’ابوبکر‘‘ رکھا، مشہور شیعہ عالم ’’شیخ مفید‘‘ نے امیر المومنینؓ کی اولاد، ان کے نام اور تعداد کے عنوان سے لکھا ہے:
’’۱۲-محمد الأصغر المکنی بأبي بکر ، ۱۳-عبید اللہ، الشہیدان مع أخیہما الحسین (ع) بألطف أمہما لیلی بنت مسعود الدارمیۃ۔‘‘(۱)
یعنی ’’حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کے صاحب زادوں میں سے محمد اصغر جن کی کنیت ابو بکر تھی اور عبید اللہ جو کہ لیلیٰ بنت مسعود دارمیہ کے بطن سے تھے، دونوں اپنے بھائی حضرت حسین رضی اللہ عنہ  کی معیت میں شہید کیے گئے۔‘‘
مشہور شیعہ مؤرخ ’’یعقوبی‘‘ نے لکھا ہے :
’’وکان لہ من الولد الذکور أربعۃ عشر ، ذکر الحسن والحسین ۔۔۔ وعبید اللہ وأبو بکر لا عقب لہما أمہما لیلی بنت مسعود الحنظلیۃ من بني تیم ۔‘‘ (۲)
یعنی ’’حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کی ۱۴ نرینہ اولاد تھی، ان میں حضرات حسنین کریمین  رضی اللہ عنہما  کا تذکرہ کیا اور ان میں سے عبید اللہ اور ابوبکر کا نام بھی ذکر کیا، جن کی کوئی اولاد نہ تھی اور ان کی والدہ بنو تیم کی لیلیٰ بنت مسعود حنظلیہ تھیں۔‘‘
شیعہ عالم ابو الفرج اصفہانی نے ’’مقاتل الطالبیین‘‘ میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ  اور اُن کے ساتھ کربلا میں شہید ہونے والے اہلِ خانہ کے عنوان سے لکھا ہے:
’’وکان منہم: أبو بکر بن علي بن أبي طالب وأمہ لیلٰی بنت مسعود۔‘‘ (۳)
یہی بات ’’کشف الغمۃ‘‘ میں ہے اور مجلسی نے ’’جلاء العیون‘‘ (۴) میں اسی طرح لکھا ہے۔
دلیلِ عقیدت ومحبت
کیا یہ اس بات پر دلیل نہیں کہ حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کو حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ سے عقیدت تھی اور اُن کے درمیان محبت ومودت اور بھائی چارے کا رشتہ تھا ، تبھی انہوں نے اپنے بیٹے کا نام ابو بکر رکھا؟!
یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کے یہ صاحب زادے حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ  کو خلیفۂ اول مقرر کیے جانے کے بعد پیدا ہوئے تھے، بلکہ حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ کے اس دنیا سے جانے کے بعد اُن کی ولادت ہوئی تھی، کیا آج حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کے نام لیوا اور اُن کی محبت کا دم بھرنے والے شیعہ حضرات میں کوئی ایک بھی ایسا شخص ہے جو حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کی اتباع میں اپنے کسی بیٹے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھ سکے؟!کیا وہ حضرت علی  رضی اللہ عنہ سے موالات رکھتے ہیں یا عملی طور پر اُن کی مخالفت کرتے ہیں؟!
حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کی اولاد کا طرزِ عمل
خلیفۂ اول حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ  سے محبت ومودت کا یہ سلسلہ صرف حضرت علی  رضی اللہ عنہ  تک محدود نہیں تھا، بلکہ اُن کے بعد ان کی آل واولاد نے اپنے والد بزرگوار کی پیروی کی اور انہی کا طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے اپنے بچوں کا نام حضرت ابو بکر  رضی اللہ عنہ  کے نام پر رکھا۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ  کے صاحبزادے کا اسم گرامی
حضرت علی  رضی اللہ عنہ  اور حضرت فاطمہ  رضی اللہ عنہا  کے بڑے صاحب زادے، نواسۂ رسول حضرت حسن رضی اللہ عنہ  جن کو شیعہ‘ امامِ ثانی اور امامِ معصوم کا درجہ دیتے ہیں، انہوں نے اپنے ایک بیٹے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا، تاریخِ یعقوبی اور منتہی الآمال میں ہے:
’’وکان للحسن من الولد ثمانیۃ ذکور وہم الحسن بن الحسن وأمہ خولۃ  وأبوبکر وعبد الرحمٰن لأمہات أولاد شتی وطلحۃ وعبید اللہ۔‘‘(۵)
یعنی ’’حضرت حسن رضی اللہ عنہ  کی آٹھ نرینہ اولاد تھی، جن میں سے حسن بن حسنؓ کی والدہ کا نام خولہ تھا، عبد الرحمٰن اور ابو بکر اُمِ ولد سے تھے، طلحہ اور عبید اللہ بھی آپ کے صاحبزادے تھے۔‘‘
اصفہانی نے ’’مقاتل الطالبیین‘‘(۶) میں لکھا ہے کہ ابو بکر بن حسن بن علی بن ابی طالب بھی اپنے چچا حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ کربلا میں شہید ہونے والوں میں سے تھے، انہیں عقبہ غنوی نے شہید کیا تھا۔
حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما  کے صاحبزادے کا اسمِ گرامی
حضرت حسین بن علی  رضی اللہ عنہما  نے بھی اپنے ایک صاحب زادے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا تھا، معروف شیعہ مؤرخ نے ’’التنبیہ والإشراف‘‘ میں شہداء کربلا کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: 
’’وممن قتلوا في کربلاء من ولد الحسین ثلاثۃ، علي الأکبر وعبد اللہ الصبي وأبوبکر بنوا الحسین بن عليؓ۔‘‘ (۷)
یعنی ’’حضرت حسین  رضی اللہ عنہ  کی اولاد میں سے آپ کے تین صاحب زادے علی الاکبر، عبد اللہ اور ابوبکر کربلا میں شہید ہوئے۔‘‘
امام زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ  کی کنیت
’’کشف الغمۃ‘‘ میں لکھا ہے کہ :’’امام زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ  کی کنیت ’’ابوبکر‘‘ تھی۔‘‘ (۸)
حضرت حسن بن حسن بن علیؓ کے صاحبزادے کا نام
حضرت حسنؒ بن الحسنؓ بن علیؓ بن ابی طالب نے اپنے ایک صاحب زادے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا تھا، چنانچہ ’’مقاتل الطالبیین‘‘ (۹) میں اصفہانی کی محمد بن علی حمزہ علوی سے روایت ہے کہ: ’’ابراہیم بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب کے ساتھ شہید ہونے والوں میں ابو بکر بن حسن بن حسن بھی تھے۔‘‘
ساتویں امام کے بیٹے کا نام
شیعہ کے ساتویں امام موسیٰ  ؒبن جعفر جن کا لقب کاظم ہے، انہوں نے بھی اپنے پیش رو بزرگوں کی طرح اپنے ایک بیٹے کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا۔ (۱۰)
آٹھویں امام کی کنیت
 اصفہانی نے ذکر کیا ہے کہ( شیعہ کے آٹھویں امام علی رضا  ؒ کی کنیت ’’ابوبکر‘‘ تھی، اسی کتاب میں عیسیٰ بن مہران کی ابو الصلت ہروی سے روایت ہے کہ ایک دن مامون نے مجھ سے ایک مسئلہ پوچھا، میں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ: ’’ ہمارے ’’ابوبکر‘‘ نے کہا۔‘‘ عیسیٰ بن مہران کہتے ہیں کہ میں نے ابو الصلت سے پوچھا کہ آپ کے ابو بکر سے کون مراد ہے؟ انہوں نے کہا کہ علیؒ بن موسی الرضاؒ، ان کی کنیت ’’ابوبکر‘‘ تھی۔ (۱۱)
امام موسیٰ کاظمؒ کی بیٹی کا نام
یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ امام موسیٰ کاظمؒ نے اپنی ایک بیٹی کا نام حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  کی صاحبزادی حضرت عائشہ ؓ کے نام پر عائشہ رکھا تھا، مشہور شیعہ عالم شیخ مفید نے موسیٰ بن جعفرؒ کے احوال واولاد کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ: ’’ابو الحسن موسیٰ کے سینتیس(۳۷) بیٹے اور بیٹیاں تھیں، بیٹیوں میں فاطمہ، عائشہ اور اُمِ سلمہ تھیں۔‘‘ (۱۲)
حضرت علیؒ بن حسینؓ کی صاحبزادی کا نام
حضرت علیؒ بن حسین ؓ نے بھی اپنی ایک صاحب زادی کا نام ’’عائشہ‘‘ رکھا تھا۔(۱۳)
دسویں امام کا طرزِ عمل
شیعہ حضرات کے دسویں امام علی بن محمد الہادی نے بھی اپنی ایک بیٹی کا نام ’’عائشہ‘‘ رکھا تھا، چنانچہ شیخ مفید نے لکھا ہے :
’’وتوفي أبو الحسن علیہما السلام في رجب سنۃ أربع وخمسین ومائتین، ودفن في دارہ بسرّ من رأی، وخلف من الولد أبا محمد الحسن ابنہ وابنتہ عائشۃ۔ ‘‘ (۱۴)
یعنی ’’ابو الحسنؒ رجب ۲۵۴ ہجری میں فوت ہوئے اور ’’سُرَّ مَنْ رَاٰی‘‘ میں اپنے گھر میں دفن کیے گئے، انہوں نے اولاد میں بیٹا ابو محمد حسن اور بیٹی عائشہ چھوڑی۔‘‘
اس کے علاوہ بنو ہاشم کے کئی بزرگوں نے اپنے بچوں کا نام ’’ابوبکر‘‘ رکھا تھا۔‘‘ (۱۵)
دعوتِ غور وفکر
آلِ بیت کے ان مقدس نفوس کا اپنی اولاد کا نام ’’ابوبکر‘‘ اور ’’عائشہ‘‘ رکھنا اِن ناموں سے عقیدت ومحبت اور احترام ومودت کی دلیل ہے اور یہی حقیقت ہے۔ اللہ تعالیٰ اہلِ بیت ( رضی اللہ عنہم ) کے نام لیوا اور محبت کا دم بھرنے والوں کو اپنے اکابر وائمہ کی زندگی کے اُن روشن پہلوؤں سے رہنمائی لینے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
 میں اہلِ تشیع حضرات کو خاص طور پر تعلیم یافتہ اور نوجوانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ تصویر کے اس رُخ پر بھی غور کریں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ ائمہ کرام کی زندگی کے ان حقائق کو ان سے کیوں چھپایا جارہا ہے؟!۔
حوالہ جات
۱:-الارشاد، ص:۱۸۶                ۲:-تاریخ الیعقوبی، ج: ۲، ص:۲۱۳
۳:-مقاتل الطالبیین ، ص:۱۴۲، ط: دار المعرفۃ، بیروت        ۴:-کشف الغمۃ، ج: ۲، ص: ۲۶۔ جلاء العیون، ص:۵۸۲ 
۵:-تاریخ الیعقوبی، ج: ۲، ص: ۲۲۸۔ منتہی الآمال، ج: ۱، ص: ۲۴۰    ۶:- مقاتل الطالبیین، ص:۸۷
۷:- التنبیہ والاشراف، ص: ۲۶۳            ۸:-کشف الغمۃ، ج: ۲، ص: ۷۴
۹:- مقاتل الطالبیین، ص:۱۸۸، ط: دار المعرفۃ ، بیروت        ۱۰:-دیکھیے :کشف الغمۃ، ج: ۲، ص:۲۱۷
۱۱:-مقاتل الطالبین، ص:۵۶۱-۵۶۲            ۱۲:-الارشاد، ص:۳۰۲-۳۰۳، الفصول المہمۃ، ص:۲۴۲۔ 
۱۳:-دیکھیے: کشف الغمۃ، ج: ۲، ص: ۹۰            ۱۴:-کشف الغمۃ، ص:۳۳۴۔ الفصول المہمۃ، ص:۲۸۳ 
۱۵:-تفصیل کے لیے دیکھیے :مقاتل الطالبیین، ص:۱۲۳

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین