بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

معاملات سے ابہام دور کیجیے!

معاملات سے ابہام دور کیجیے!


اسلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری دین ہے، جس پر ایمان لانا تاقیامت آنے والی تمام اقوامِ عالَم کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے۔ اسلام ایک جامع دین ہے جو عقائد، عبادات، اخلاقیات، معاملات، غرض انسان کی انفرادی واجتماعی زندگی کے ہرشعبہ کے متعلق انہیں صحیح و مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اوپر ذکر کیے گئے اُمور میں سے چند ایک پر عمل کرکے دیگر میں شرعی تعلیمات کو نظر انداز کرنا اسلامی رو سے نقصان فی الدین ہے۔ کامل دین دار شخص وہی ہے جو عقائد سے لے کر معاملات تک تمام شعبہ ہائے زندگی میں اسلام تعلیمات کو اپنے اوپرلاگو کرتا ہو، تب ہی وہ اپنے مقصدِ تخلیق یعنی رضائے الٰہی کے مطابق زندگی گزارنے کی سعادت کا مستحق ٹھہرے گا۔
معاملاتِ انسانی زندگی کی اہم ضرورت ہیں، ہر انسان کو روزانہ متعدد لوگوں سے معاملات کرنا ہوتے ہیں، کیونکہ انسان اپنی تمام ضروریات خود پورا کرنے پر قادر نہیں ہے، انسانوں میں من جانب اللہ ذمہ داریاں تقسیم کردی گئی ہیں، ہر شخص کسی نہ کسی انسان کی کوئی نہ کوئی ضرورت مہیا کرنے کی خدمت میں لگا ہوا ہے۔ انسانی زندگی کے چوبیس گھنٹوں میں روزانہ اُسے سینکڑوں معاملات کرنے ہوتے ہیں، اس لیے اپنی پوری زندگی اللہ کی رضا میں گزارنے کا محض یہی طریقہ ہے کہ عقائد وعبادات کے ساتھ ساتھ معاملات میں بھی شرعی تعلیمات کی پابندی کی جائے۔
معاملات کے متعلق اسلامی تعلیمات کا باب طویل ہے۔ ان میں سے ایک اہم بنیادی اُصول یہ ہے کہ معاملہ کرتے ہوئے اُس میں کسی قسم کا ابہام باقی نہ رہنے دیا جائے۔ معاملہ کی تمام شقیں صاف واضح، متعین ہوجانا ضروری ہیں۔ معاملات میں ابہام نہ صِرف یہ کہ بعد میں نزاع اور لڑائی جھگڑے کا باعث بنتا ہے، بلکہ گناہ بھی ہے۔
قرآن مجید کا ارشادِ گرامی ہے:
’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا۔‘‘ (الأحزاب: ۷۰) 
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرو، اور سیدھی بات کیا کرو۔‘‘
یعنی صاف صاف بات کیا کریں، گول مول، غیر واضح اور مبہم بات نہ کریں۔ یہ تعلیم ہر اُس معاملہ پر منطبق ہوتی ہے جو زبان یا تحریر سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔ہر معاملہ کو تمام شرائط طے کرکے واضح کردیا جائے۔ ہمارے ہاں بہت سے معاملات میں بنیادی اُصولوں اور ضروری اُمور کو ایک دوسرے پراعتماد کرنے یا دوسرے کی ناراضگی کے خوف سے مبہم رہنے دیا جاتا ہے، بعد میں اس کا نتیجہ لڑائی جھگڑے اور معاملات کی انتہائی پیچیدگی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ معاملات میں ابہام کی بہت سی صورتیں ہمارے ہاں رائج ہیں، ان میں سے چند کا ذیل میں ذکر کیاجاتا ہے:

عارضی طور پر زمین بیٹے کے نام کرانے کا مسئلہ

بسا اوقات والد کسی وجہ سے زمین یا گھر وغیرہ محض کاغذات کی حد تک کسی بیٹے ، بیٹی کے نام کرادیتے ہیں، مالک بنانا مطلوب نہیں ہوتا۔ لیکن یہ بات دستاویزی صورت میں گواہوں کے سامنے واضح نہیں کی جاتی، مبہم رہنے دیا جاتا ہے۔ بعد میں کسی موڑ پر اختلافات ہوجاتے ہیں، جس کے نام عارضی طور پر کرائی گئی تھی، وہ اپنے مالک ہونے کے مدعی ہوکروالد کو واپس دینے یا والدکے انتقال کے بعد دیگر ورثاء کو اُس میں سے حصہ دینے سے انکار کردیتے ہیں۔
اس لیے ایسا معاملہ کرتے ہوئے ضروری ہے کہ گواہوں کے سامنے دستاویزی صورت میں وضاحت کر دی جائے کہ جس کے نام کرائی جارہی ہے، یہ عارضی طور پر ہے، بطورِ ہبہ و ملکیت کے نہیں ہے۔ 

اولاد کو کاروبار میں شامل کرنے کا مسئلہ

ابہام کی ایک مروجہ صورت یہ ہے کہ والد اپنے چلتے کاروبار میں بیٹے کو شامل کرتا ہے، بیٹا والد کے ساتھ کام کرتا ہے، وقت دیتا ہے، ذمہ داری سنبھالتا ہے، لیکن کچھ طے نہیں کیا جاتا کہ بیٹا اِس کاروبار میں کس حیثیت سے شریک ہورہا ہے؟ آیا صرف والد کا معاون ہے، تنخواہ دار کی حیثیت سے ہے؟ یا کاروبار میں سے کچھ حصہ اُس بیٹے کی ملکیت میں دیا گیا ہے؟ اِس غیر مبہم معاملہ کی وجہ سے بعد میں یہ فسادات پیدا ہوتے ہیں:
۱:-    اِس بیٹے کی زندگی والد کے کاروبار میں معاونت کرتے ہوئے صَرف ہوجاتی ہے، جبکہ دیگر بیٹے الگ سے کاروبار یا تعلیم میں مصروف رہ کر اپنا کیرئیر بنالیتے ہیں، والد کے انتقال کے بعد پوری زندگی والد کے ساتھ بطورِ معاون کام کرنے والا اور دیگر اولاد کاروبار میں برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں، جب کہ دیگر اولاد نے الگ سے اپنا بزنس، ملازمت سے بھی بہت کچھ حاصل کر لیا ہوتا ہے۔
۲:-    بسا اوقات ایسی صورت حال میں کاروبار میں کام کرنے والا بیٹا تمام کاروبار کو اپنی ملک سمجھ کر خود قابض ہوجاتا ہے، دیگر ورثاء کو کچھ بھی دینے سے انکار کردیتا ہے۔
شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ بیٹے کو کاروبار میں شامل کرتے وقت دستاویزی صورت میں درج ذیل اُمور طے کر لیے جائیں:
الف:-    بیٹے کی حیثیت ملازم کی ہے تو اُس کی یو میہ،ماہانہ یا سالانہ تنخواہ طے کر دی جائے۔ اس صورت میں بیٹا طے شدہ تنخواہ کا حق دار ہوگا، کاروبار کے مالک والد ہوں گے، اُن کے انتقال کے بعد تمام ورثاء میں شرعی حصہ کے بقدر تقسیم ہوگا۔
ب:-    کاروبار میں ساتھ کام کرنے والے بیٹے کا کاروبار میں کچھ ملکیتی حصہ طے کر کے اسے مالک بناکر شریک کردیا جائے اور منافع کی تقسیم فیصدی تناسب یا ملکیت کے اعتبار سے طے کر لی جائے۔
ج:-    اگر بیٹے کو کاروبار میں کام کے لیے شامل کرتے وقت اُس کی تنخواہ یا ملکیت وغیرہ کچھ طے نہیں کیے گئے، تو بیٹے کی حیثیت محض معاون کی ہوگی، تمام کاروبار والد کی ملکیت میں رہے گا، اس کی مزید تفصیل سطورِ بالا میں عرض کی گئی ہے۔
اگر یہ صورتیں واضح کر دی جائیں تو بعد میں جھگڑوں سے یا غیرشرعی کاموں کے ارتکاب سے بچا جاسکتا ہے۔

اولاد کو کاروبار کے لیے رقم مہیا کرنے کا مسئلہ

ہمارے ہاں کثرت سے رائج ایک صورت وہ ہے جب والد اولاد کو یا اولاد میں سے کسی ایک کو کاروبار شروع کرنے کے لیے رقم مہیا کرتے ہیں۔ والد کی طرف سے مہیا کی گئی رقم سے کاروبار میں جب ترقی ہوتی ہے، تو بھائیوں میں جھگڑے ہوتے ہیں ، کاروبار کرنے والا اسے محض اپنا ذاتی کاروبار سمجھتا ہے، دیگر بھائی بہن وراثت میں سے ہونے کے مدعی ہوتے ہیں،اور صورتِ حال کسی پر بھی واضح نہیں ہوتی، اِس نوبت سے بچنے کی یہی صورت ہے کہ ابتداء میں کاروبار شروع کرنے کے لیے رقم مہیا کرتے ہوئے والددرج ذیل تصریح کر دے:
الف:- یہ رقم بطورِ قرض کے ہے ۔        ب:- بطورِ گفٹ کے ہے۔
ج:- اس طور پر ہے کہ بیٹا والد کا معاون بن کر والد کا کاروبار شروع کردے۔ 
پہلی دو صورتوں (الف اور ب) میں کاروبار کا مالک بیٹا ہوگا،البتہ الف کی صورت میں قرض واپس کرنے کا پابند ہوگا۔ 
تیسری(ج)صورت میں کاروبار کے مالک والد ہوں گے، بیٹا اُن کا معاون یا تنخواہ دار ہوگا، اس صورت میں بیٹے کے کام کرنے کی حیثیت الگ سے متعین کرنا ضروری ہے۔

بیٹے کی کمائی سے خریدی گئی جائیداد کا مسئلہ

بیٹا بیرونِ ملک کمائی کرتا ہے، اپنی آمدن گھر بھیجتا رہتا ہے، جسے بعض اوقات زمین، جائیداد وغیرہ کی خریداری میں صَرف کیا جاتا ہے۔ بیٹے کی کمائی سے حاصل شدہ رقم سے خریداری کرتے ہوئے یہ ابہام دور نہیں کیا جاتا کہ یہ زمین کس کی ملک کی ہے؟ کمائی کرنے والے بیٹے کی ہے، یا والد،والدہ کی؟ بلکہ بعض مرتبہ یہ زمین کسی اور بھائی کے نام کر دی جاتی ہے۔
والد کے انتقال کے بعد یا جب کمائی کرنے والا بیٹا واپس آتا ہے تووہ مطالبہ کرتا ہے کہ میری کمائی سے خریدی گئی جائیداد اُس کی ملکیت ہے،قابض بہن بھائی انکاری ہوجاتے ہیں، اِس لیے ابتداء سے ہی ان باتوں کی وضاحت لازمی ہے:
۱:-     اسے بیرونِ ملک بھیجنے پر جو رقم خرچ کی جارہی ہے، یہ بطورِ قرض کے ہے یا بطورِ تبرع و احسان؟
۲:-    بیٹا اپنی آمدن گھروالوں کو کس حیثیت سے دیتا ہے، آیا بطورِ امانت کے بھیجتا ہے یا کسی کو مالک بنا دیتا ہے، مالک بناتا ہے تو کسے مالک بناتا ہے؟
۳:-    بیٹے کی آمدن سے جو جائیداد خریدی گئی، اِس کا مالک کون ہے؟والد نے اپنے لیے خریدی یا اُسی بیٹے کے لیے خریدی؟
یہ اُمور ابتداء سے ہی واضح ہوں تو بعد کے تمام معاملات خوش اسلوبی سے نمٹ جاتے ہیں، ورنہ صورت حال اتنا پیچیدہ ہوتی ہے کہ مفتی کو معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کے لیے پریشانی لاحق ہوجاتی ہے۔

گھر کے سربراہ کے کاروبار کے لیے رقم مہیا کرنے کا مسئلہ

ابہام کی ایک پیچیدہ صورت یہ بھی پیش آتی ہے کہ گھر کے سربراہ کے چلتے کاروبار میں گھر کے کسی فرد کی رقم لگائی جاتی ہے، مثلاً بیٹے کی ذاتی کمائی یا خواتین کے زیور بیچ کر حاصل شدہ رقم کاروبار میں لگادی جاتی ہے، اور واضح طے نہیں کیاجاتا کہ یہ رقم کاروبار میں کس حیثیت سے شامل کی گئی ہے، نہ ہی رقم شامل کرنے کی کوئی دستاویز بنائی جاتی ہے۔ آگے چل کر معاملات گھمبیر ہوجاتے ہیں ، اولاً تو دیگر ورثاء رقم کی شمولیت سے مُنکر ہوتے ہیں، اور اگر اسے تسلیم کر بھی لیں تو اِس میں اختلاف ہوجاتا ہے کہ وہ رقم قابلِ واپسی تھی یا گفٹ تھی؟ رقم قابلِ واپسی ہونا تسلیم کر لیں تو اگلا اختلاف ہوجاتا ہے کہ اِس رقم کے منافع بھی ملیں گے یانہیں؟
ان تمام خرابیوں سے بچنے کے لیے ابتداء سے ہی درج ذیل تفصیلات واضح کرنا ضروری ہیں:
۱:-    رقم کی شمولیت باقاعدہ مصدقہ دستاویز کی صورت میں لکھ لی جائے۔
۲:-    طے کر لیا جائے کہ رقم کس حیثیت سے شامل کی جارہی ہے؟ گھر کا فرد‘ سربراہ کو وہ رقم ہبہ کر رہا ہے یا بطورِ قرض کے دے رہا ہے ؟ 
۳:-    اور اگر وہ رقم بطورِ پارٹنر شپ کے دی جارہی ہے تو واضح کیا جائے کہ مجموعی کاروبار میں اِس رقم کا تناسب کیا ہے؟ بالفاظِ دیگر کاروبار میں اِس فرد کی ملکیت کتنا ہوگی؟ اِس صورت میں منافع کی تقسیم کس تناسب سے ہوگی؟ یہ طے کرنا بھی ضروری ہے ۔

مشترکہ فیملی کے افراد کی آمدن کا مسئلہ

معاملات کی پیچیدگی اور غیرواضح ہونے کی کثیرالرائج صورت جوائنٹ فیملی سسٹم میں پیش آتی ہے، مثلاً ہر بھائی کی اپنی آمدن ہے، ہر بھائی اپنی آمدن گھر کے سربراہ (والد ، والدہ، یا بھائی) کے پاس جمع کرادیتے ہیں، جس سے گھر کے اخراجات بھی ہوتے ہیں، اور اُس سے جائیداد وغیرہ بھی خریدی جاتی ہے، کاروبار بھی شروع کیے جاتے ہیں۔ یہ مشترکہ سسٹم بسااوقات شدید اختلاف پر منتج ہوتا ہے۔ جس بھائی کی آمدن زیادہ تھی، وہ جائیداد میں سے زیادہ کا مطالبہ کرتا ہے، دیگر بھائی برابری کے دعویدار ہوتے ہیں۔ ایسی صورت حال سے بچنے کا بھی یہی طریقہ ہے کہ شروع میں یہ طے کر لیا جائے:
۱:-    تمام بھائی سربراہ کو وہ رقم مالک بنا کر دیتے ہیں؟ اِس صورت میں اُس رقم سے خریدی گئی جائیداد وغیرہ اُسی سربراہ کی ہوگی اور اُس کی موت کے بعد اُس کے شرعی ورثاء میں بقدرِ حصہ تقسیم ہوگی۔
۲:-    سربراہ کو دی جانے والی رقم بطورِ تملیک کے نہیں، بلکہ جائیداد وغیرہ کی خریداری اور اخراجات کے لیے ہے۔ اِس صورت میں اخراجات کے بعد ہر ایک کی رقم کا الگ حساب رکھنا ضروری ہے، اگر اُس سے کوئی جائیداد وغیرہ خریدی گئی تو حساب رکھنا ضروری ہے کہ کس بھائی کی کتنی رقم خرچ ہوئی، اسی رقم کے اعتبار سے جائیداد میں ملکیت کا تناسب ہوگا۔
جوائنٹ فیملی سسٹم میں بہتر، غیرپیچیدہ طریقہ یہ ہے کہ کچن وغیرہ روز مرہ کے اخراجات میں چاہے مشترکہ سسٹم رہے، اور اس کے لیے باقاعدہ ایک فنڈ قائم کیاجائے،جس میں ہر بھائی اپنے زیرِ کفالت افراد کے اعتبار سے یا برابر برابر رقم جمع کرادیں، وہ رقم روز مرہ کے اخراجات میں خرچ ہوگی۔ ان اخراجات کے علاوہ ہر بھائی اپنی دیگر آمدن کا خود مالک ہوگا، وہ چاہے خرچ کرے، محفوظ کرے، جائیداد خریدے، وہ اسی کی شمار ہوگی۔ اِس صورت میں کم زیادہ آمدن کے پیچیدہ مسائل پیدا نہیں ہوں گے۔

وراثتی گھر کی مرمت پر خرچ

اسی طرح بہن بھائیوں میں مشترکہ وراثتی گھر کی مرمت وغیرہ پر کوئی ایک بھائی خرچ کرتا ہے، یہ خرچ اگر واپسی کی نیت سے بطورِ قرض کے ہو توخرچ کرنے سے پہلے تمام ورثاء پر واضح کرنا ضروری ہے۔

بہو کو سُسرال کی طرف سے زیور پہنانے کا مسئلہ

خاتون کو اُس کے سُسرال، شوہر کی طرف سے زیور پہنائے جاتے ہیں، بعض جگہ تو معروف ہوتا ہے کہ یہ زیور بطورِ عاریت کے ہوتے ہیں،اصل مالک شوہر ہی رہتا ہے۔ بعض جگہ ہبہ کا عُرف ہوتا ہے، بیوی مالکہ بن جاتی ہے۔ لیکن بعض جگہ یہ عُرف نہیں ہوتا،ایسی صورت میں واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ زیور خاتون کو مالک بناکر دیا جارہا ہے، یا صرف استعمال کے لیے؟ عُرف یا وضاحت نہ ہونے کی صورت میں طلاق یا موت کے بعد اختلافات ہوجاتے ہیں۔ ان اختلافات سے بچاؤ کی یہی صورت ہے کہ پہلے سے معاملہ واضح کر دیا جائے۔
سطورِ بالا میں مبہم معاملات کی وہ صورتیں ذکر کی گئی ہیں، جو عموماً گھر والوں کے آپس کے معاملات میں پیش آتی ہیں،ان کے علاوہ دیگر معاملات بیع، اجارہ، نکاح وغیرہ میں بھی ابہام باقی رکھنے کا رواج بہت زیادہ ہے، جو بالآخر جھگڑوں پر منتج ہو کردلوں کی دوری کا باعث بنتے ہیں، اس لیے تمام معاملات میں ابہام کو دور کرنا چاہیے۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین