بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

معاشرے کی اصلاح و بگاڑ پر مالی رویوں کے اثرات (چوتھی اور آخری قسط)

معاشرے کی اصلاح و بگاڑ پر مالی رویوں کے اثرات

 

 (چوتھی اور آخری قسط)


 اصلاحِ معاشرہ میں نظامِ وقف کاکردار

معاشرے میں انفاق کے ذریعے اصلاح کا چھٹا طریقہ ’’وقف‘‘ ہے۔ اسلام کے معاشی نظام میں اس کے اجراء اور توسیع کی کافی ترغیب دی گئی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں کچھ زمین ملی تو آپؓ نے عرض کیا کہ: یا رسول اللہ! مجھے خیبر میں زمین ملی ہے اور مجھے کبھی اس سے عمدہ مال نہیں ملا ہے، آپ مجھے (اس کے بارے میں) کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم چاہو تو اس کی اصل روک لو اور اس کے فوائد صدقہ کر دو، اس طرح کہ اصل کونہ تو فروخت کیا جائے، نہ ہبہ کیا جائے اور نہ اس میں وراثت جاری ہو، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ زمین فقراء، رشتہ داروں، غلاموں کی آزادی اور ابنِ سبیل (مسافروں) کی مہمان نوازی کے لیے وقف کر دی۔ (مسلم:۱۶۳۲) 
اس سے فقہائے کرام نے وقف کی یہ تعریف مستنبط فرمائی کہ وقف کسی چیز کو خدا کی ملکیت میں کردینا ہے، تاکہ اس سے بندوں کو منفعت پہنچے، پس وہ چیز واقف کی ملک میں نہیں رہتی، بلکہ خدا کی ملک ہوجاتی ہے، نہ اس کی بیع درست ہے، نہ ہبہ، نہ رہن اور نہ اس میں وراثت جاری ہوتی ہے۔ 
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس حکم کواپنے عمل سے استحکام بخشااوراپنی وسیع جائیدادیں، اموال اور کنویں عام لوگوں کے نفع کے لیے وقف کیے، جس نے معاشرے کی مالی اصلاح میں بھرپور کردار ادا کیا۔ جس طرح مادی فوائد کی اشیاء کو وقف کرنا درست ہے، اسی طرح علمی فوائد مثلاً اسکول ومدارس کی تعمیر یاکتابیں وغیرہ وقف کرنا بھی باعثِ اجر اور معاشرے کی تعمیر و ترقی کا باعث بنتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ وقف‘ فقراء، رشتہ داروں، قیدیوں کی آزادی، ابنِ سبیل وغیرہ کے ساتھ مخصوص ہو، بلکہ ہر کارِ خیر کے لیے وقف ہو سکتا ہے، مثلاً: ملک کے حفاظتی کاموں، مساجد و مدارس، قبرستان، سڑکوں اور پلوں کی تعمیر وغیرہ۔ الغرض اسلام کے نقطۂ نظرسے یہ ایک وسیع ترین مالی مد ہے، جس سے کام لے کر معاشرے میں مالی فساد و بگاڑ اور معاشی خرابیوں و ناہمواریوں کا بڑی حد تک ازالہ کیا جاسکتا ہے۔ 

 ہبہ وہدیہ اوراصلاحِ معاشرہ میں اس کاکردار

انفاق کے ذریعے معاشرے کی مالی اصلاح کا ساتواں طریقہ ’’ہبہ اور ہدیہ‘‘ ہے۔ ہبہ کا مفہوم یہ ہے کہ کسی کو اس طرح چیز کا مالک بنانا کہ نہ عوض مطلوب ہو اور نہ کوئی اور غرض ہو۔ ہبہ اور ہدیہ میں یہی فرق ہے کہ ہدیہ سے مقصود ثواب کے ساتھ ساتھ قربت ومودت (محبت) میں اضافہ کرنا ہوتا ہے اورہبہ میں کوئی غرض بجز ثواب کے پیشِ نظر نہیں ہوتی۔ اسلامی لٹریچرمیں ہمیں ہبہ کی ترغیب اور احکام تفصیل سے ملتے ہیں کہ کسی کو اس کی ضرورت کے پیشِ نظرکوئی شے ہبہ کر دی جائے اوروہ اس سے اپنی معاشی اصلاح میں کام لے یا کسی اور ضرورت میں صرف کردے۔ اس طریقہ سے معاشرے میں غربت کابڑی حد تک انسداد ہو سکتا ہے۔ بعض اوقات غرباء وفقراء کو کسبِ حلال کے معمولی ذرائع بھی میسر نہیں ہوتے، اگر انہیں محنت ومزدوری اور صنعت و پیشہ کے معمولی اوزار و آلات بھی مہیا کر دئیے جائیں تو وہ معاشرے پر بوجھ بننے کی بجائے اپنی معاشی کفالت بخوبی کر سکتے ہیں۔ مال دار طبقہ انفرادی و اجتماعی سطح پر اسلام کے اس سنہرے طریق کو کام میں لا کر بڑی حد تک معاشی اصلاحات کا بیڑا اُٹھا سکتا ہے۔ ہبہ سے قریب تر ایک اصطلاح ’’منیحہ‘‘ کا ذکر بھی اسلامی لٹریچر میں موجود ہے۔ دورِ نبویl میں تعاونِ باہمی کے تحت دودھ کا جانور دوسرے مسلمان بھائی کو مفت دے دیا جاتا، تاکہ اس سے اپنی کفالت کر سکے اور دودھ کے انقطاع (ختم ہونے) پر واپس کر دیا جاتا، یعنی یہاں جانور کے بعض منافع بطورِ ہدیہ دئیے جاتے۔ تکافلِ باہمی میں اس سے ہبہ کے کردارکی بخوبی وضاحت ہوتی ہے۔ 

 عاریت اوراصلاحِ معاشرہ میں اس کاکردار

اسلام نے معاشرے میں ایک دوسرے کی معاشی خبرگیری کے لیے ا ٓٹھواں طریقہ ’’ماعون یا عاریت‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ عاریت کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو گھریلو یا عام افادیت کی حامل کوئی چیز محض اس کے نفع کے حصول کے لیے دی جائے، وہ اس سے اپنی ضرورت پوری کر لے اور پھر مالک کو واپس لوٹا دے۔ ابوبکر جصاص رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ ضرورت کے وقت عام افادیت کی چیزیں دینا فرض ہے اور نہ دینے والا مذموم حرکت کا مرتکب ہوتا ہے اور اس کی مذمت کی جانی چاہیے۔ (احکام القرآن ، جصاصؒ) 
اسلام میں عاریت کاقانون فقر و غنیٰ میں محدود نہیں۔ اس سلسلے میں شریعت نے کسی ایک گروہ کو ترجیح نہیں دی اور نہ ہی کسی کا خاص لحاظ کیاہے، بلکہ ایک مقصدکے لیے متحد ہوجانے والے پورے معاشرے کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ اس طریق کو کام میں لا کر معاشرے کے بہت سارے حاجت مند افراد کی بعض معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ ہلکا کیا جا سکتا ہے۔ 

 معاشرتی اصلاح میں صدقاتِ نافلہ کا حصہ

معاشرے کی معاشی واخلاقی اصلاح میں انفاق کاسب سے وسیع الجہات اورمؤثر ترین طریقہ ’’صدقاتِ نافلہ‘‘ کے ذریعے حاجت روائی اورخبرگیری کاہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں اس کا اپنے ہاں ضابطہ جاتی معاوضہ ایک کے بدلے سات سو بیان کیا ہے اور اخلاص کے کمال، قوت اور بڑھوتری پر مزید اضافے کا اعلان فرمایا ہے۔ ماقبل میں بیان کیے گئے انفاق کے بعض طریقے بھی صدقہ ہی کے ذیل میں آتے ہیں، لیکن اس عنوان سے اس کو مستقل اہمیت دے کر ذکر کرنے کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ اسلامی مصطلحات میں آج اس کااصلی معنی فراموش کر لیا گیا ہے اور لفظِ ’’صدقہ‘‘ احسان اور بخشش کا ہم معنی بن گیا ہے۔ عوام کی نظرمیں صدقہ کرنے والااحسان وبخشش کرنے والا ہے، اس لیے وہ قابلِ ستائش ہے، جبکہ صدقہ قبول کرنے والادوسرے کے احسان کا بار اُٹھا رہا ہے، اس لیے یہ تقاضا غیرت کے خلاف ہے۔ صدقہ کا یہ تصور اسلامی مزاج کے بالکلیہ خلاف اور معاشی اصلاحات کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اسلام نے صدقہ میں احسان جتلانے کی اس آمیزش کو ’’رِئَاءَ النَّاسِ‘‘ اور ’’مَنّ وأذیٰ‘‘ کا عنوان دے کر گھٹیا حرکت کے طور پر متعارف کروایا ہے، یعنی جو آدمی صدقہ دے کر صدقہ وصول کرنے والے پر جتائے، اسے تکلیف دے تو ایسے شخص کو ایمانی بصیرت سے تہی دامن سمجھا ہے۔ 
صدقاتِ نافلہ کے طریق سے معاشرے میں وسیع تر رفاہیانہ سرگرمیوں کی تشکیل اس طور پر کی جاسکتی ہے کہ نجی یااجتماعی سطح پر زائد از ضرورت مال و دولت کو معاشرے کی معاشی ترجیحات معلوم کرکے خرچ کرنے کی منظم منصوبہ بندی کی جائے۔ اس کے لیے موجودہ دورمیں بے روزگاری ختم کرنے کے منصوبے، صحت کی سہولیات بہم پہنچانے کے واسطے فری ڈسپنسریوں اور ہسپتالوں کا قیام، معذور اور مکمل تہی دست افراد کے لیے مستقل بنیادوں پر غذائی بندوبست، بے گھر اور حوادث سے متاثرہ افراد کے لیے رہائشی ضروریات کی فراہمی، ناخواندہ اور دیہی علاقوں میں دینی اور عصری تعلیمی منصوبوں کا اجراء اور زندگی کی بنیادی ضروریات یعنی لباس و پوشاک وغیرہ مہیا کرنے کی ترتیبات صدقاتِ نافلہ کے ترجیحی اوراہم مصارف ہوسکتے ہیں۔ گو ان کاموں کے لیے معاشرے میں کئی این جی اوز سرگرم ہیں اور انفاق کی مدات سے کام لے رہی ہیں، لیکن انفاق کے اسلامی فلسفہ اور مقاصد کو پیشِ نظر رکھ کر اسلامی نظریۂ حیات سے ہم آہنگ طریق کے موافق اس کے اجراء کی ضرورت ہے، تاکہ یہ سلسلہ مزید مستحکم ہو اور اس کے نتائج و ثمرات سے معاشرہ پوری طرح بہرہ ور ہو، وطنِ خداداد کی حد تک ہمارے اربابِ مال کویہ منصوبے مدِنظر رکھ کر منظم خطوط پر آگے بڑھنا چاہیے، تاکہ طُرُقِ انفاق سے معاشرے کی اصلاح و تعمیر کا زیادہ سے زیادہ کام لیا جا سکے۔ 

 قرضِ حسنہ اورمعاشرے کی معاشی اصلاح

اسلام کے نظامِ ا نفاق کی ایک اور شق اور دسواں طریقہ ’’قرضِ حسنہ‘‘ ہے۔ باہمی حسنِ سلوک اور ہمدردی کی بنیاد پر بغیر کسی نفع کے اپنا مال کچھ مدت کے لیے کسی کو دینا، تاکہ وہ اپنی ضرورت سے سبک دوش ہو، انسانیت پر اسلام کا احسان ہے۔ آج سود کی لعنت نے اس اہم اسلامی حکم کی بیخ کنی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، جس سے معاشرے میں استحصالی رویّے پروان چڑھے ہیں اور افراد سے لے کر ملکوں تک اس گرداب میں سسک رہے ہیں۔ اسلام نے قرض خواہ کو ترغیب دی ہے کہ قرض کی وصولیابی میں قرض دار کی معاشی پوزیشن پیشِ نظر رکھے اور اسے مہلت دے، تاکہ وہ تکمیلِ ضرورت کے بعد اپنی معاشی حالت سدھار لے۔ اس سے معاشی استحکام میں قرضِ حسنہ کے کردار پر روشنی پڑتی ہے اور اس سے کام لینے میں اسلام کی ترغیب اور دلچسپی کا پتہ چلتا ہے۔ موجودہ دور میں اگر قرضِ حسنہ کو نجی و اجتماعی سطح پر رواج دیا جائے تو معاشرے میں بے روزگار افراد کی ایک بڑی تعداد کو روزگار کی فراہمی اور معاشرتی اصلاح میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار کیا جا سکتا ہے۔ 
یہ انفاق کے دس طریقوں کاایک مختصرساجائزہ تھا۔ ان طریقوں کے اجراء سے بنیادی فائدہ تو یہ ہوگا کہ بخل و شح، اسراف و تبذیر اور ان کی کوکھ سے جنم لینے والے مہلک عناصر اور فسادات کا انسداد ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کی معیشت کا ایجابی رُخ بھی سنور سکے گا۔ 
یہاں یہ بات خصوصیت اور توجہ کے ساتھ پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے ان مادی اثرات و نتائج سے بالاتر ہو کر انفاق کے حکم کو پورا کرنا مسلمان کی شرعی ذمہ داری ہے اور ہمیشہ اسی پہلو کو مقدم رکھنا اس کا فریضہ ہے۔ جہاں تک معاشرے پر پڑنے والے اس کے مادی اور معاشی اثرات کا تعلق ہے۔ یہ اِنفاق کی خصوصیات ہیں، جب اِنفاق کو وجود ملے گا تو ضمناً یہ خصوصیات و اثرات خود وجود میں آئیں گی۔ آج مادیت کے تباہ کن اثرات، غربت، گداگری، مہنگائی، بدامنی اور حرام خوری سے بچاؤ کا واحد راستہ یہی ہے کہ ایسی علمی مجالس کے ذریعے عوام کی تربیت اور اس حوالے سے شعوری لٹریچر کی تیاری اور اشاعت کی طرف اہلِ علم متوجہ ہوں، تاکہ اسلام کے ان سنہرے اصولوں سے کام لے کر معاشرہ کی تعمیر و ترقی کا فریضہ بخوبی انجام دیا جاسکے۔ 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین