بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

معاشرے کی اصلاح و بگاڑ پر مالی رویوں کے اثرات  (دوسری قسط)

معاشرے کی اصلاح و بگاڑ پر مالی رویوں کے اثرات

 (دوسری قسط)

 

 اسراف و تبذیر

 معاشرے کے بگاڑمیں اسراف وتبذیرکاکرداربھی کچھ کم نہیں، جب ’’شُحّ‘‘ کے رویّے نے انسان کو زیادہ سے زیادہ مالی و سائل کی بڑھوتری کے لیے ہمہ قسم بندشوں سے آزاد کر دیا تو اس رویّے کے حاملین نے انسان کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لیے اپنی مصنوعات کو دنیا میں اس انداز سے پھیلایا کہ ان کی موجودگی میں کسی اور کو پنپنے کا موقع نہ مل سکے اور لوگ انہی سے مال خریدنے پر مجبور ہوں۔ دوسری طرف انہوں نے انسان کی فطری کمزوری یعنی خواہشِ نفس کو اُبھارنے کی اشتہار بازی کے ذریعے پوری منصوبہ بندی کی اوراس کی فکروسوچ کواس سطح پر لایا کہ وہ روزمرہ ضروریات کی تکمیل کے لیے ضرورت کی بجائے سہولت وآسائش، بلکہ اس سے آگے بڑھ کرنمائش اور تعیُّش کو ترجیح دے، جیسا کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کا طرزِ عمل سب کے سامنے ہے۔ اس سے ہماری ثقافت اورکلچرمیں بنیادی تبدیلیاں آئی ہیں۔ پہلے لوگ موچی سے جوتے بنواتے تھے جو سال ہا سال استعمال ہوتے تھے، اب ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مہنگے، نمائشی، بنے بنائے جوتوں کا رواج ہو چلا ہے، جن کی مضبوطی ہاتھ سے بنائے ہوئے جوتوں سے کم ہے، مزید یہ کہ ہر مہینے نیا ڈیزائن آ رہا ہے اور انسانی فطرت اور خواہشِ نفس قناعت کو پرے پھینک کر ’’کُلُّ جَدِیْدٍ لَذِیْذٌ‘‘ (ہر نئی چیز لذیذ ہوتی ہے) کے تحت اسے حاصل کرنے کے لیے بے چین ہوتی ہے۔ ہماری ثقافت سے درزی ختم ہوتا جارہا ہے اور ان کمپنیوں کے ریڈی میڈ لباس نے انسان کو خواہش کا پجاری اور تن آسان بنا دیا ہے۔ کبھی گوالا بھی ہماری ثقافت کا حصہ تھا، اب شہروں میں تو وہ ڈھونڈے سے نہیں ملتا، ملٹی نیشنل کمپنیوں کا بدذائقہ اور مضرِ صحت دودھ بڑے شوق سے خریدا اور استعمال کیا جا رہاہے۔ ان دودھوں میں سے اکثر سرے سے دودھ ہی نہیں، بلکہ مختلف کیمیکل چیزوں کا مجموعہ ہیں۔ ہماری ذہنی پستی کا اندازہ لگائیں کہ قدرتی دودھ کو جراثیم زدہ اور کیمیکل سے آلودہ ڈبوں کو آبِ حیات باور کرایا جا رہا ہے۔ 
اب وہ دور گیا کہ گھر کی خواتین بیٹھ کر اونی دھاگوں سے سویٹر بن لیں، یا مرچیں کوٹ کر دیسی مصالحہ بنا لیں، اب تو ملٹی نیشنل کمپنیوں کا راج ہے اور یہ ساری چیزیں انتہائی ناقص، ہم سے دس گنا زیادہ قیمت وصول کر کے صرف چمکیلی پیکنگ میں ہمیں دے دی جاتی ہیں۔ یہ رویہ ’’شُحّ‘‘ کے حاملین کا وہ گھناؤنا وار ہے کہ مال ہتھیانے کے واسطے اسراف و تبذیر اور عدمِ قناعت کے کلچر کو فروغ دیا جائے۔ آج معاشرے کو غربت کے جس عفریت نے گھیر رکھا ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عام آدمی کو اشیائے ضرورت اصل قیمت پر مہیا نہیں اور وہ نمائش کے جملہ اخراجات برداشت کر کے ہی اسے حاصل کر سکتا ہے، حتیٰ کہ صابن کی ٹکیہ خریدنے والے پربھی اس کی عمدہ اور مہنگی پیکنگ، لاکھوں کے اشتہارات اور اس کی نمائش کرنے والی ماڈل گرلز کی فیسوں کا بوجھ آپڑتا ہے ا ور اس جرعۂ زہر آب (زہر کے گھونٹ) کے بغیر وہ ضرورت کی تکمیل نہیں کر پاتا۔ یہی حال تقریباً ساری ملکی و غیر ملکی مصنوعات کا ہے۔ 
اسلام نے تکمیلِ ضرورت میں ’’نمائش‘‘ کے درجہ کو اسراف کہا ہے اور اس سے بچنے کی تلقین کی ہے، کیونکہ اس کی کوکھ سے وسیع پیمانے پر غربت جنم لیتی ہے۔ اسراف کا ایک بڑا درجہ یہ بھی ہے کہ ضرورت سے زیادہ چیزیں بلا مصرف ضائع کر دی جائیں۔ آج گھروں اور ہوٹلوں میں روٹی سالن کے ضیاع سے لے کر عالمی سطح تک قیمتی چیزوں کی پامالی فیشن کی شکل اختیار کر چکی ہے اور اس روگ سے کوئی خال خال ہی بچا ہوا نظر آتا ہے۔ 
اسراف سے بڑھ کر خطرناک رویہ ’’تبذیر‘‘ ہے۔ ’’تبذیر‘‘ بذر سے ماخوذ ہے، اس کا معنیٰ تخم ریزی کا آتا ہے، کسان جس طرح تخم ریزی کرتے وقت اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ دانہ کھیت میں کہاں گر رہا ہے، اسی طرح ’’مُبَذِّر‘‘ بھی مال کے خرچ کرنے میں اس شعور سے عاری ہوتا ہے کہ میرے مال کا مصرف حلال ہے یا حرام۔ قرآن مجید نے اس رویّے کا نقشہ کھینچتے ہوئے ’’مُبَذِّرِیْن‘‘ کو ’’إخوان الشیاطین‘‘ کا لقب دیا ہے، چونکہ شیطانی قویٰ شر و برائی کا سر چشمہ ہوتی ہیں، اس لیے ’’تبذیری رویہ‘‘ بھی انسان کو اپنے مالی وسائل ناجائز خواہشات کی تکمیل اور غیرقانونی اعمال و افعال پر صرف کرواتا ہے۔ معاشرے میں بخل وشح اوراسراف وتبذیرکے اجتماعی اِرتقا سے تقسیمِ دولت کی ناہمواری، غربت، چوری، ڈاکہ زنی، جوابازی، کرپشن، رشوت خوری، خودکشی، قتل و غارت گری اور بدامنی جیسے مہلک عناصر کو بڑی تیزی سے تقویت ملی ہے اور نجی سطح سے لے کر عالمی سطح تک کے معاشرتی فسادات میں ان رویوں کا بنیادی کردار ہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان رویُّوں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے فسادات کا حل یہی ہے کہ تیسرے رویہ ’’اقتصاد و انفاق فی سبیل اللہ‘‘ کو رواج دیا جائے اوراس سے معاشرتی فلاح وبہبود میں کام لیا جائے۔ 

 اقتصاداورمعاشرے پراس کے اثرات

 اقتصاد سے ہماری مراد اسلام کا معاشی عدل و اعتدال ہے، جس کی طرف حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشادِ گرامی سے رہنمائی ملتی ہے:’’اَلْاِقْتِصَادُ فِيْ النَّفَقَۃِ نِصْفُ الْمَعِیْشَۃِ۔‘‘ (مشکوٰۃ) ۔۔۔۔۔ ’’خرچ میں میانہ روی آدھی معیشت ہے۔‘‘
اقتصاد کامطلب یہ ہے کہ انسان اپنی ضروریات کی تکمیل کا دائرہ اتنا ہی رکھے جتنے اس کے مالی وسائل ہیں اور مالی وسائل کی بہتات کی صورت میں وہ ضرورت پوری کرنے میں سہولت اور آسائش کے درجے سے آگے نہ بڑھے۔ کسب میں افراط سے بچے اور تمام خدائی و اخلاقی پابندیوں کا پاس رکھے، کسی حلال روزگار سے نہ کترائے۔ آج ہماری ایک بڑی نسل معاشرے پر اس لیے معاشی بوجھ ہے کہ انہوں نے زندگی گزارنے کا ایک معیار طے کر لیا ہے۔ اگر اس معیار کی نوکری اور معاشی وسائل انہیں دستیاب نہ ہوں تو وہ عضوِ معطل ہی بنے رہتے ہیں، حالانکہ وہ معمولی تجارت، کھیتی باڑی اور عام ذرائعِ روزگار اختیار کر کے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکتے ہیں۔ دورِ نبویؐ اور دورِ صحابہؓ میں نوجوان جانور پالتے، تجارت اور کھیتی باڑی کرتے، جنگل سے لکڑیاں لا کر بیچتے اور خواتین چرخہ کاتتیں۔ یہی طرز بعد کی خلافتوں میں رہا۔ اسراف و تبذیر کی روش اسلامی معاشرے میں عیب اور چھچھورپن کی علامت تھی اور اسے خود سر اُمراء اور بادشاہوں کا وطیرہ سمجھا جاتا۔ اگر آج بھی مسلم معاشرہ ’’اقتصاد‘‘ کے گراں قدر وصف سے کام لیتا ہے تومعاشرے میں عوامی سطح پر اسراف و تبذیر اور ان کے مہلکات پر کسی قدر قابو پایا جاسکتا ہے اور غربت و معاشی ناہمواری کا بھی تدارک ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں معاشرے کامال دار طبقہ انفاق فی سبیل اللہ سے کام لے کر غرباء و مساکین کو اس سطح پر لائے کہ وہ معاشرے پر’’معاشی بوجھ‘‘ کے دائرے سے نکلیں۔ لیکن یہ بات پیشِ نظر رہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے بل بوتے پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مصنوعات کا جو جال بچھا ہے اس نے دیسی ساختہ اشیاء اور عام پیشوں کو نابود کر دیا ہے، اس لیے عوامی سطح پر خود اعتمادی اور خود انحصاری کے شعور کو جلا بخشنے کی ضرورت ہے اور ان کے بائیکاٹ اور اپنی مصنوعات کو فروغ دیناہے، تاکہ ’’اقتصاد‘‘ کے ثمرات کا حصول پوری طرح ممکن ہوسکے۔ 

انفاق فی سبیل اللہ اور اصلاحِ معاشرہ پر اس کے اثرات

انفاق فی سبیل اللہ کے دو پہلو ہیں: ایک وجوبی اور دوسرا استحبابی۔ وجوبی پہلو کے دائرے میں زکوٰۃ، عشر، خراج، صدقۂ فطر، قربانی، میراث، کفالت کی بعض شقیں اور کفارات وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ استحبابی پہلو کا تعلق ایمان کی استعدادی حالت سے ہے۔ ایمان و یقین اور اللہ تعالیٰ سے محبت و تعلق میں جوں جوں اِرتقا ہوتا ہے، اسی حساب سے زائد از ضرورت مال و دولت کو معاشرہ کی اجتماعی بھلائی کے کاموں میں استعمال کرنے کا شعور بڑھتا جاتا ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعے معاشرتی اصلاح کا طریق یہ ہے کہ مال کسی مصیبت کو دور کرنے، زیردستوں کی نگہداشت اور کسی عمومی مصلحت کی تکمیل میں صرف کیا جائے۔ اسلام نے اس مقصد کے حصول کے لیے جونظام ہمیں دیا ہے، اس کامختصرجائزہ پیشِ خدمت ہے۔ 

معاشرتی اصلاح میں زکوٰۃ کا کردار

زکوٰۃ اسلام کے ارکانِ پنج گانہ میں سے ایک بنیادی رکن اور معاشرے کی مالی اصلاح کے لیے ایک وسیع تر مَدّ ہے۔ قرآن کریم نے کئی مقامات پر اس فریضے کو ’’نماز‘‘ کے ساتھ ذکر کیا ہے، اسلام نے زکوٰۃ کا دائرہ چار اصنافِ مال میں بند کیا ہے۔ یعنی مویشی، فصلیں اور پھل، سونا، چاندی اور سامانِ تجارت، گو کہ اب معاملات کاغذی کرنسی سے سر انجام پاتے ہیں، اس لیے زکوٰۃ نکالتے وقت ان کی قیمت کی تحدید چاندی کی قیمت و نصاب سے کی جائے گی۔ 
مویشی، سونا، چاندی اور سامانِ تجارت جب بقدرِ نصاب ہوں تو سال گزرنے پر مخصوص حصہ دوسرے ضرورت مند افراد پر خرچ کرنا لازمی ہوگا، جب کہ فصل و پھل کی زکوٰۃ بوقتِ کٹائی واجب ہوگی۔ معاشرے کی مالی اصلاح میں زکوٰۃ کے کردارکااندازہ درج ذیل نکات سے لگایا جا سکتا ہے۔ 
۱:- اسلام میں مال داری کی حد بظاہر کم مقدار پر مبنی ہے جس کی وجہ سے زکوٰۃ دہندگان کے دائرے میں اکثر افراد داخل ہو جاتے ہیں۔ اس سے معاشرہ کے مالی بگاڑکی اصلاح پر اسلام کی گہری توجہ اور ترکیز کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس سے عام واجب کی رعایت کے احساس میں عوامی قاعدہ کی تنظیم ہوتی ہے اور شعور و احساسِ پختگی کے ایسے مرحلے پر پہنچ جاتا ہے، جہاں معاشرہ انفرادی سم رسیدگی سے محفوظ ہوکر اجتماعی نظام میں زندگی گزارنے کے قابل ہو جاتاہے اور اس کے ساتھ ہی اجتماعی حقوق ایک عام انسانی رشتہ سے وابستہ کردئیے جاتے ہیں، اس کی طرف قرآن مجیدنے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’وَالَّذِیْنَ فِيْ أَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ۔‘‘ (المعارج:۲۴، ۲۵) 
ترجمہ:’’ اور جن کے مال میں حصہ مقرر ہے مانگنے والے اور محروم کا۔ ‘‘
۲:- اسلامی معاشرہ کے اجتماعی تکافل کی ذمہ داری میں زکوٰۃکے مستحکم کردار کا اندازہ اسی سے لگائیں کہ یہ اسلام کے بنیادی پانچ ارکان میں شامل ہے اور اسلام نے اسے نفس اور مال کی پاکیزگی کا ذریعہ بنایا ہے۔ اس شعور و احساس کے تحت جب زکوٰۃ دہندہ زکوٰۃ دیتا ہے تو اس کے ذہن میں خدا کی بندگی کا تصور راسخ ہوتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت میں فطری جوش و دلچسپی کا مظاہرہ کرتا ہے، جس سے اس کی روحانیت پر خوشگوار اثرات پڑتے ہیں، گویا یہ اسلام کے نصب العین (یعنی معرفتِ الٰہی و تعلُّقِ بندگی کی استواری) کا بنیادی مظہر ہے، جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے:
’’خُذْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِمْ بِہَا وَصَلِّ عَلَیْْہِمْ۔‘‘ (التوبہ:۱۰۳) 
ترجمہ: ’’ ان کے مال میں زکوٰۃ لو اور اس کے ذریعے ان کو پاک اور با برکت کرو اور دعا دو اُن کو۔ ‘‘
۳:- اجتماعی تکافل اور معاشرے کے بگاڑ کی اصلاح میں اس بنیادی کردار کے پیشِ نظر اس فریضے کی ادائیگی میں سختی برتی گئی ہے۔ اگر کوئی فرد یا جماعت زکوٰۃ ادا نہ کرے تو حکومتِ وقت اس جرم پر اُسے سزا دے گی اور اس سے بزورِ زکوٰۃ لی جائے گی۔ 
۴:- اس کے کردار کا اندازہ اس حکم سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ زکوٰۃ فرض و واجب ہونے کے بعد ساقط نہیں ہوتی اور اگر کسی سال اس کی ادائیگی میں کوتاہی برتی گئی تو آئندہ اس کا ادا کرنا ضروری ہو گا۔ 
۵:- مزیدبراں اس فریضے میں کوتاہی پر اُخروی سزا اور وعید بھی آئی ہے، تاکہ اس کے فوائد و ثمرات کے حصول میں معاشرے کے اندر کسی بھی پہلو سے کوتاہی نہ برتی جائے۔ ارشادِ خداوندی ہے:
’’وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنْفِقُوْنَہَا فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ أَلِیْمٍ یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْْہَا فِيْ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکْوٰی بِہَا جِبَاہُہُمْ وَ جُنُوْبُہُمْ وَ ظُہُوْرُہُمْ ہٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تََکْنِزُوْنَ۔ ‘‘ (التوبہ:۳۴- ۳۵) 
’’جو لوگ سونے اور چاندی کو جمع کر کے رکھتے ہیں اور اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کو آپ دردناک عذاب کی خبر سنا دیجئے، جس دن اس دولت کو جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا، پھر اس سے ان کی پیشانیوں اور پہلوؤں کو داغا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ وہ مال ہے جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا۔ سو چکھو، جسے تم جمع کرتے تھے۔ ‘‘
۶:- قرآن کریم نے زکوٰۃ کے آٹھ مصارف مقرر کرکے معاشرتی اصلاح کے لیے اس کا دائرہ خوب پھیلادیااوران میں وجہِ استحقاق کی قدرِ مشترک ’’ناداری‘‘ اور افلاس کو بیان کیا، تاکہ معاشرے میں کہتری کے شکارطبقات تک مال کی رسائی کاقانونی بندوبست ہو۔ اسلام نے مصارفِ ِزکوٰۃ میں اس پہلو کی خصوصی رعایت کی ہے کہ معاشرے میں افراد کی حفاظت و نگہبانی ہو، تاکہ وہ اقتصادی اور انسانی ہر دو پہلو سے اپنی خدمات میں اضافہ کرتے رہیں۔ 
۷:- قرآن کریم نے ان مصارف میں سے فقراء و مساکین کو بیان فرمایا ہے۔ علامہ ماوردیؒ لکھتے ہیں کہ فقراء و مساکین کو اس قدر دینا ضروری ہے کہ ان کی فقر و مسکنت ختم ہوجائے اور غناء کے کم از کم درجہ (یعنی غنائے شرعی سے قدرے کم درجہ) تک پہنچ جائیں، تاکہ وہ عملی جدوجہد میں شریک ہو سکیں۔ (تفسیرماوردی، ج:۲، ص:۳۷۴) 
اس میں اس امر کی نشاندہی ہے کہ یہ مقصود نہیں کہ غریب کو صرف کھانے پینے کی ضرورتیں فراہم کر دی جائیں، بلکہ مراد یہ ہے کہ اس کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ تجارت، صنعت اور زراعت کے ذریعے معاشرے کی ایک پیداوری اور نفع بخش قوت بنے اور اپنے دائرۂ عمل میں اکتساب پر قادر ہو جائے۔ اسی کی طرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول میں بھی راہنمائی ملتی ہے کہ میں اعراب کو بار بار صدقہ دیتا رہوں گا، خواہ ان میں ہر ایک کے پاس سو اونٹ ہو جائیں۔ (کتاب الاموال لابی عبید، ص:۵۶۵) 
۸:- ان مصارف میں ’’الرقاب‘‘ یعنی غلاموں اور قیدیوں اور ’’غارمین‘‘ یعنی قرض داروں کی خلاصی کو بطور مصرف ذکر کرنے سے بھی اس پہلو پر کافی روشنی پڑتی ہے، کیونکہ غلام کے مقومات ضائع ہو کر رہ جاتے ہیں اور وہ اپنے ارادہ و اختیار سے کچھ نہیں کر سکتا، اسی طرح قیدی بھی دشمن کے ہاتھوں مجبورِ محض بن جاتاہے، لہٰذا ان کی آزادی کے لیے زکوٰۃ کی رقم لگانے کا حکم دے دیا، تاکہ ان کی صلاحیتوں سے معاشرہ آزادانہ طور پر مستفید ہو۔ اگر اس صورت کو معطل رکھا جاتا تو معاشرے کے اقتصادیات میں فساد کا دائرہ یقینا بڑھ جاتا۔ زکوٰۃ اس فساد کو ختم کرنے میں بنیادی کردار پیش کرتی ہے۔ 
۹:- زکوٰۃ کا ایک مصرف ’’غارم‘‘ ہے۔ غارم کی تعریف میں وہ شحص داخل ہے جس نے کوئی مالی بوجھ برداشت کر لیا ہو۔ یہ اس کی مروت و حق پروری کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔ شریعت نے اس کو زکوٰۃ کا مصرف بنا کر اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ کہیں کرم نوازی و حق پروری کی عقلی و معنوی صلاحیت مرجھا نہ جائے۔ دوسری طرف یہ پہلو بھی پیشِ نظرہے کہ وہ اس بوجھ سے خلاصی پا کر معاشرے میں از سرِنو صحت مند کردار کا حامل ہوجائے۔ علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں کہ: اگر غارم نے کسی نیکی اور اصلاح کے کام کے لیے مالی بوجھ برداشت کر لیا ہو تو اسے زکوٰۃ سے اس کا خرچ کیا ہوا مال دیا جائے گا، اگرچہ وہ غنی ہو۔ (تفسیرقرطبی، ج:۸، ص:۱۸۴) 
کیونکہ اس طرح کے لوگ دراصل سماجی زندگی کے لیے بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ زکوٰۃ معاشرے میں مضبوط اقتصادی اورسماجی کرداروں کو زندہ رکھنے، ان کی حوصلہ افزائی اور نشوونما میں کس قدر مؤثر اور نمایاں کردار ادا کرسکتی ہے۔ 
۱۰:- زکوٰۃ کا ایک مصرف ’’مؤلفۃ القلوب‘‘ ہے۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانے کی توقع ہو، یا جن سے وقار اور دبدبہ میں اضافہ ہو، یا جو اُمت کے مصالح کو بروئے کار لائیں اور اس کی مدافعت کریں اور اس کے دشمن پر نظر رکھیں، خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیرمسلم۔ یہ مصرف اُمت کے سیاسی واقتصادی مصالح میں زکوٰۃ کے کردار پر دلالت کرتا ہے اور یہ بات واضح کرتا ہے کہ اسلام نے کس طرح انسانی معاشرے کی ضروریات کا اِحاطہ کرکے ان کو اپنے دامن میں سمیٹا ہے، گو کہ جمہور فقہاء کے ہاں اسلام کو سیاسی غلبہ ملنے کے بعد سے یہ مصرف قابلِ عمل نہیں رہا۔ 
زکوٰۃ کے دیگر مصارف میں بھی یہی پہلو پیشِ نظر ہے کہ معاشرے کے کمزور یا سماج کے لیے مفید بعض طبقات کا معاشی بوجھ برداشت کیا جائے، اس مختصر سے جائزے سے معاشرے کی اصلاح میں زکوٰۃ کے کردار پر اِجمالی روشنی پڑتی ہے۔ نظامِ زکوٰۃ کے رواج و نفاذ سے معاشرے میں ضروریات کی فراوانی اور سہولت کی ارزانی یقینی ہے۔ اس نظام کے قیام کا مقصد لوگوں کے درمیان زندگی کو بلند کرنا، عام افراد کو آسائش و سہولت بہم پہنچانا اور ان کے درمیان اعتماد و محبت کا رشتہ استوار کرنا بھی ہے اور یہ تبھی ممکن ہے کہ مال و دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر نہ رہے، بلکہ معاشرے کے زیادہ سے زیادہ افراد کے ہاتھوں تک پہنچے اور ممکن حد تک ہر ایک کے پاس کچھ نہ کچھ سرمایہ موجود ہو، تا کہ افزائش اور بار آوری کا عمل تیز اور وسیع ہو سکے۔ 

صدقۂ فطر و قربانی اور معاشرتی اصلاح میں ان کا کردار

انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعے معاشرتی اصلاح کا دوسرا طریقہ صدقۂ فطر اور قربانی ہیں۔ اسلام نے اپنے پیروؤں کو خوشی منانے کے لیے دو تہواردئیے ہیں: ایک عیدالفطر اور دوسرا عیدالاضحٰی۔ پھر ان دونوں تہواروں میں اللہ تعالیٰ نے مالدار مسلمانوں پر مالی و ظائف رکھ دئیے۔ عیدالفطر کی نماز سے پہلے ہر مال دار مسلمان پر اپنا اور اپنے زیرِ کفالت بعض افراد کا صدقۂ فطر دینا واجب قرار دیا ہے، اس کے لیے نصاب کا نامی ہونا اور سال گزرنا بھی شرط نہیں، لہٰذا اس کا دائرہ زکوٰۃ سے بھی زیادہ وسیع ہو جاتا ہے اور اس کے ذریعے اجتماعی مسرت کے موقع پر زیادہ سے زیادہ مساوات پیدا کی جا سکتی ہے۔ صدقۂ فطر معاشرے کے ان غریب طبقات پر خرچ کیا جائے گا جن کے پاس ایسے مواقع پر خوشی کے اسباب اختیار کرنے کی وسعت و گنجائش یا تو ہوتی نہیں یا بہت محدود ہوتی ہے، تاکہ یہ طبقات احساسِ کمتری کا شکار نہ ہوں اور ان مقدس ایام میں اپنے اوراپنے بچوں کے کھانے پینے اور لباس کا مناسب بندوبست کرسکیں۔ اسی طرح عیدالاضحی میں صاحبِ استطاعت مسلمانوں پر جانور کی قربانی واجب قرار دی گئی ہے، چونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہمانی کے ایام ہیں، تاکہ اس کے بندے گوشت کی پُرلطف غذا سے محظوظ ہوں، اس لیے صاحبِ ثروت لوگوں کو ترغیب دی گئی کہ وہ معاشرے کے غریب و لاچار لوگوں کو اس خوشی میں اپنے ساتھ شریک کریں، تا کہ وہ اس قدر احساسِ کمتری کا شکار نہ ہوں کہ انہیں زندگی کی جائز خوشیاں بھی نہ مل سکیں۔                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                (جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین