بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

معاشرے کی اصلاح و بگاڑ پر مالی رویوں کے اثرات (تیسری قسط)

معاشرے کی اصلاح و بگاڑ پر مالی رویوں کے اثرات

(تیسری قسط)


معاشرتی اصلاح میں میراث کا کردار

انفاق کے ذریعے معاشرتی اصلاح کا تیسرا طریقہ ’’تقسیمِ میراث‘‘ کا قانون ہے۔ اسلام کا نظامِ وراثت مالی طور پر معاشرے کے استحکام، تکافلِ باہمی اور معاشی انصاف میں ایک بنیادی امتیاز رکھتا ہے۔ وراثت کی مرتکز تقسیم سے جو معاشرتی فسادات جنم لیتے ہیں اور جو معاشی ناہمواری پیدا ہوتی ہے وہ اہلِ نظر پر واضح ہے۔ یورپ میں عام طور پر سب سے بڑے بیٹے کی جانشینی کا طریقہ رائج ہے جس میں سارا ترکہ بڑے بیٹے کو مل جاتا ہے اور باقی سب محروم رہ جاتے ہیں۔ بعض مقامات پر اگر مرنے والا چاہے تو کسی دوسرے شحص کے نام اپنے سارے ترکے کی وصیت کرسکتا ہے، یوں اسے مذکر اولاد کو بھی محروم کرنے کا حق ہے، اس طریقہ سے دولت سمٹتی چلی جاتی ہے اور متعدد معاشی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔ 
اسلام نے تقسیمِ وراثت کا ایسا نظام بنایا ہے کہ تمام معاشی خرابیوں کا انسداد ہو جاتا ہے اور مرد، عورت اور بچوں کو ان کی معاشی ذمہ داریوں کے بقدر بھرپور حصہ مل جاتا ہے۔ اگر اس کو سوسائٹی میں عام طور پر رواج دے دیا جائے اور اس اہم قرآنی حکم کا معاشرتی سطح پر احیا ہو تو نہ اس سے سرمایہ دارانہ مزاج کی پذیرائی ہوگی اور نہ ہی افراد و اشخاص کے درمیان افلاس وفاقہ مستی کو فروغ ملے گا، کیونکہ یہ ایک ایسا نظام ہے جس سے مال ودولت ہروقت گردش میں رہتی اور ایک ہاتھ سے نکل کر دوسرے ہاتھ میں پہنچتے رہنے کی وجہ سے کم وبیش ہر فرد کو فائدہ بخشتی رہتی ہے۔ معاشی کفالت میں اسلامی میراث کی چند خصوصیات یہ ہیں، جومعاشرے کی مالی اصلاح اور لوگوں کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے میں ممد و معاون بنتی ہیں۔ 
 ۱:- اسلام نے عورت کو بھی میراث میں شریک ٹھہرایا ہے۔ 
۲:-چھوٹی بڑی اولاد کے حصص میں کوئی فرق نہیں برتا۔ 
۳:-کسی وارث کے لیے اپنے حصۂ میراث کے علاوہ وصیتِ مال کی ممانعت کر دی ہے۔ 
۴:-مرنے والے کے لیے کسی وارث کو عاق کرنے کااختیار نہیں دیا گیا۔ 
۵:-اپنے ورثاء کے علاوہ ایک ثُلث ترکے کے بقدر معاشرے کے دیگر طبقات کے لیے بھی وصیت کرنے کی اجازت دی ہے۔    (اسلام کانظامِ تقسیمِ دولت:۲۲) 

 معاشرے کی اصلاح میں نظامِ کفالت کاکردار

معاشرے کی اصلاح میں انفاق کے چوتھے طریقے کو ’’نظامِ کفالت‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کا مفہوم کسی کے نان نفقہ، مالی حوائج اور ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے ذمہ لینا ہے۔ اسلام نے اپنے پیروؤں پر حاجت مند طبقات کی کفالت لازمی و ضروری قرار دی ہے۔ اس سلسلے میں ایک طائرانہ جائزے سے چار طبقات سامنے آتے ہیں جن کی کفالت کا حکم دیا گیا ہے۔ 
۱:- بعض افراد کے نان نفقہ، رہائش وپوشاک اور دیگر مالی حاجات کی کفالت شرعاً واجب ہے۔ اس دائرے میں آدمی کی بیوی، نا بالغ بچے اور بوڑھے والدین شامل ہیں۔ آدمی پر لازم ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال اور بوڑھے والدین کی بنیادی معاشی ضروریات یعنی خوراک، پوشاک، رہائش اور علاج اپنی مالی استطاعت اور حیثیت کے مطابق مناسب اور معروف طریقے سے مہیا کرتا ر ہے۔ 
۲:- دوسرے درجے کے مستحقینِ کفالت وہ لوگ ہیں جن کا استحقاق مذکورہ بالا افراد سے کم ہو۔ اس دائرے میں محتاج بہن بھائی یا ان کی محتاج اولاد، چچا، ماموں اور خالائیں وغیرہ داخل ہیں۔ بشرطِ استطاعتِ مالی ان کی نگہداشت بھی ایک ضروری فریضہ ہے۔ 
۳:- تیسرے درجہ میں وہ عام اعزہ داخل ہیں جنھیں ذی رحم محرم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اگر ایسے رشتہ دار محتاج ہوں یا نا بالغ ہوں یا مفلس ہوں یا اپاہچ و معذور ہوں یا طالب علم ہوں یا جہل و بیوقوفی وغیرہ اعذار کی وجہ سے کمانے پر قادر نہ ہوں تو بشرطِ استطاعتِ مالی ان کی کفالت بھی شرعی ذمہ داری ہے، اگر مال دار شخص ان لوگوں پر خرچ نہ کرے تو اس کو خرچ کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ 
۴:- چوتھے درجہ میں عام اہلِ مذہب واہلِ وطن داخل ہیں۔ اگر ان میں کوئی مالی کہتری کا شکار ہو جائے اور تہی دستی وقلاشی کے باعث اپنی مالی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو مال داروں کی ذمہ داری ہے کہ ایسے افراد کی معاشی کفالت کا بندوبست کریں۔ 
علامہ یوسف قرضاوی لکھتے ہیں: ’’اسلام نے دولت مند رشتہ داروں پر نان نفقہ واجب قرار دے کر معاشرتی تحفظ کی بنیاد رکھی ہے، اسلام نے اسے مستحب قرار نہیں دیا، بلکہ ایک ایسا حق کہا ہے جس کے ادا کرنے کا حکم خود ذاتِ باری تعالیٰ نے دیا ہے۔ اسلامی کفالت کے یہ احکام نہ قدیم شریعتوں میں کہیں ملتے ہیں اور نہ آج کے جدید قوانین میں اس کا خیال پایا جاتا ہے۔ اسلام نے غریب وتنگ دست مسلمان کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنے امیر وخوش حال رشتہ داروں پر نان نفقے کا دعویٰ دائر کر سکتا ہے، یہ وہ حق ہے جسے ہم اسلامی معاشرے میں ایک معمولی اور قدرتی بات سمجھتے ہیں، کیونکہ ہم نے اسے دین ہونے کی حیثیت سے جانا ہے، لیکن غیرمسلموں کے لیے یہ بات انتہائی حیرت انگیز اور باعثِ تعجب ہوسکتی ہے۔‘‘                                                           (مشکلات الفقر و کیف عالجھاالاسلام: ۲۳، ۲۴) 
کفالت کے ابواب کے ذیل میں اسلام نے مہمان کی کفالت کا حکم بھی بڑی تاکید سے ذکر کیا ہے۔ ابو داؤد کی روایت ہے کہ :’’جو شخص اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو وہ اپنے مہمانوں کی مہمان نوازی کرے، ایک شب و روز کا انعام و اکرام اور سہ روزہ ضیافت۔‘‘                (ابوداؤد) 
علامہ ابن حزم ؒکہتے ہیں: ’’ضیافت شہری اور دیہاتی، تعلیم یافتہ اور جاہل ہر ایک پر فرض ہے، جس میں ایک روز خصوصیت کے ساتھ اور تحفہ کے ساتھ اور تین دن محض ضیافت اور اس سے زائد فرض نہیں۔‘‘                                                             (المحلیٰ لابن حزم،ج:۹،ص:۱۷۴) 
اسلامی معاشرے میں معاشی ضروریات کی تکمیل کے لیے مسلمانوں نے اس فرض کو بڑی فراخ دلی سے ادا کیا۔ اسلام کا یہ حکم ہوٹلوں، آرام گاہوں، سفر کی تیز رفتاری اور اس کی جملہ سہولتوں اور رسل و رسائل کی دیگر آسانیوں کے وجود میں آنے سے پہلے کا ہے کہ یہ تمام سہولتیں اور تمدنی آسانیاں ابن السبیل کی وضع اور کیفیت کو کم کر دیتی ہیں، لیکن اگر آج بھی قرونِ اُولیٰ کی طرح اس حکم کا بھر پور احیاء اور معاشرتی رواج ہو تو اس سے معاشرے کی معاشی اصلاح پر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ 
غرض باہمی کفالت کا اسلامی نظام کوئی ایسی شے نہیں کہ کسی وقتی ضرورت کے تحت کوئی امدادی کارروائی عمل میں آگئی، بلکہ یہ مستقل اور ہمہ گیر نظام ہے جس میں تمام افرادایک دوسرے کی خبر گیری، تعاون اور افادیت کے ذمہ دار ہیں اور وجدان اور عمل ہر اعتبار سے اس فرض کے پورا کرنے کے پابند ہیں، اس رفاہیت کا تعلق جہاں معاشرے کی اجتماعی بھلائی، امن و سکون اور خوشی و راحت سے ہے، وہاں فرد کی ذاتی زندگی سے بھی ہے، کیونکہ اس کے بھائی کو جو بھی فوائد حاصل ہوں گے اور جن نقصانات کا اسے سامنا ہوگا، بالآخر یہ بھی ان سے متاثر ہوگا۔ چنانچہ حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کا فرمان ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے مال داروں کے اموال پر فقراء کی کفالت کے بقد ر لازم کیا ہے، اگر فقیر بھوکے ننگے اور زحمت میں ہوں اور اغنیاء ان کو نہ دیں تو اللہ تعالیٰ ضرور قیامت کے دن ان سے حساب لے گا اور ان کو عذاب دے گا۔‘‘  (کتاب الاموال لابی عبیدؒ:۵۶۵) 
علامہ ابن حزم ؒفرماتے ہیں: ’’ہر شہر کے اغنیاء پر اپنے شہر کے فقراء کی کفالت فرض ہے اور حکومت انہیں مجبور کرسکتی ہے۔ اگر فقراء کو زکوٰۃ کافی نہ ہوتو اغنیاء پر لازم ہو گاکہ انہیں گرمی سردی کا لباس فراہم کریں، مناسب غذا دیں اور بارش، گرمی اور سردی سے تحفظ کے لیے ان کی رہائش کا ایسا بندوبست کریں کہ گزرنے والوں کی ان پر نگاہ نہ پڑے۔‘‘                (اسلام اوردولت وثروت:۲۶۶) 
حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  نے فی کس ماہانہ غذا کی مقدار معلوم کی اور تیس آدمیوں کو بلا کر صبح وشام سیر ہو کر کھلایا، جن پر دو جریب غلہ صرف ہوا، اسی سے آپ نے اندازہ لگایاکہ ایک شخص ایک ماہ میں دوجریب غلہ کھاتا ہے، لہٰذا آپ نے ایک فرد کی کفالت کے لیے دوجریب غلہ مقرر فرمایا۔‘‘    (کتاب الاموال:۲۴۷) 
انسانیت کی پوری تاریخ میں کفالتِ باہمی کا ایسا نظام نہیں دیکھا گیا جو اسلام نے دیا، اسلام نے مال داروں کو یہ شعور بخشا ہے کہ مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہے، جیساکہ ارشادِ خداوندی ہے:
’’لَیْسَ الْْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰـکِنَّ الْبِرَّ مَنْ أٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْأٰخِرِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ وَأٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِیْ الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَفِیْ الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَأٰتَی الزَّکٰوۃَ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ إِذَا عٰہَدُوْا وَالصّٰبِرِیْنَ فِیْ الْبَأْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَ حِیْنَ الْبَأْسِ أُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَأُولٰٓـئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ۔ ‘‘   (البقرۃ:۱۷۷) 
ترجمہ: ’’نیکی کچھ یہی نہیں کہ منہ کرو اپنا مشرق کی طرف یا مغرب کی طرف، لیکن بڑی نیکی تو یہ ہے جو کوئی ایمان لائے اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور سب کتابوں پر اور پیغمبروں پر اور دے مال اس کی محبت پر رشتہ داروں کو اور یتیموں کو اور محتاجوں کو اور مسافروں کو اور مانگنے والوں کو اور گردنیں چھڑانے میں اور قائم رکھے نماز اور دیا کرے زکوٰۃ اور پورا کرنے والے اپنے اقرار کو جب عہد کریں اور صبر کرنے والے سختی میں اور تکلیف میں اور لڑائی کے وقت۔ یہی لوگ سچے اور یہی ہیں پرہیزگار۔ ‘‘
امام قرطبی ؒفرماتے ہیں کہ: ’’وَأٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ‘‘ کا مقصود زکوٰۃ سے جدا ہے۔ وہ اس روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھا گیا: مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی کوئی حق ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ہاں! مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہے اور پھر آپ نے مذکورہ بالا آیت تلاوت فرمائی۔‘‘   (تفسیر قرطبی،ج:۲،ص:۲۴۱) 
فقہاء نے اس حق کی وضاحت کی ہے کہ جب اُمت پر کوئی ایسی ضرورت آجائے جو خزانۂ عام سے پوری نہ ہو سکتی ہو، مثلاً: جنگ، قحط سالی، وبا اور سیلاب وغیرہ تو اُمت کے مال داروں پر ایسے وقت میں عام رعایا اور مملکت کے مصالح کے لیے کفالت کا بوجھ پڑے گا۔    (تفسیرقرطبی، ج:۲، ص:۲۴۲) 
اسلام کے ان سنہرے اصولوں سے اس دور میں بھی بھرپور رہنمائی ملتی ہے، جب خزانۂ عام سے غرباء کی کفالت تو درکنار، انہیں ٹیکسوں کے بھاری بھر کم بوجھ تلے داب دیا گیا ہو اور وہ زندگی کی بنیادی اور لازمی ضرورتوں کے لیے ترس رہے ہوں تو اسلام کا نظامِ کفالت ہی خبرگیری اور دادرسی کا وہ بہترین منہاج ثابت ہوسکتا ہے جو معاشرے میں معاشی نا ہمواریوں اور اس کے نتیجے میں برپا فساد و بگاڑ کا بخوبی ازالہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر اہلِ اسلام اس طریقے سے کام لیتے ہیں تو معاشرے میں غربت کے خاتمے، امن و سکون اورعدل ومساوات کی بالا دستی کا سنہرا دور پھر سے دیکھا جاسکتا ہے۔ 

 کفارات اورمعاشرہ کی معاشی اصلاح

معاشرے میں معاشی اصلاح کے لیے انفاق کا پانچواں طریقہ ’’کفارات‘‘ ہیں۔ اسلام نے معاشرے کے کمزور افراد تک دولت کی رسائی کا یہ ایک مستقل ذریعہ مقرر کیا ہے، کوئی شخص بلاعذر رمضان کا روزہ توڑ دے، کسی مسلمان کو بغیر قصد کے قتل کر دے، اپنی بیوی سے ظہار یا ایلا کر لے، قسم کھاکر اسے توڑ دے، حاجی ممنوعاتِ احرام کا ارتکاب کر لے تو بعض صورتوں میں لازمی اور بعض صورتوں میں اختیاری طور پر اسے حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے مال کا مخصوص حصہ ناداروں پر خرچ کرے۔ یہ نقد روپیہ کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے اور کھانے اور کپڑے کی صورت میں بھی۔ کفارات کے نظام سے غرباء کو معاشی سہارے کا ایک مضبوط اور مسلسل ذریعہ بہم پہنچایا گیا ہے، جن سے مالی ضروریات کی تکمیل میں بھرپور مدد ملتی ہے۔                                                        (جاری ہے)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین