بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

معاشرہ میں احسان وایثار کا اُسوۂ رسولِ اکرم ( صلی اللہ علیہ وسلم )

معاشرہ میں احسان وایثار کا اُسوۂ رسولِ اکرم ( صلی اللہ علیہ وسلم )

’’حدیثِ جابر  رضی اللہ عنہ ‘‘ سے مستنبط فقہی رہنما اصول


ابتدائے آفرینش سے یومِ ازل تک قائم سلطنت ومملکت کے مالک ومختار نے اس طلسماتی کارخانۂ عالم میں مختلف طبائع ومزاج کے حامل افراد کو عدم سے وجود بخشا، اور ان کی انفرادیت کو اجتماعیت کے سانچے میں ڈھالنے کی غرض سے ان کے مابین اُلفت ومحبت کا بیج بویا، جس کے ساتھ منسلک قرابت، اُخوت ورفاقت جیسے گراں قدر رشتوں کی پاسداری اور انہیں نبھانے کا تاکیدی حکم صادر کیا۔ اس نظامِ اجتماعیت کے قیام کو برقرار رکھنے کے لیے باہمی حسنِ سلوک اور رواداری کا درس دیا، جس نے ایک ایسے معاشرے وسوسائٹی کو وجود بخشا جس میں ایثار وہمدردی کے جذبات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور عملی زندگی کا حصہ بنایا جاتا تھا۔
اسی طرح نبی پاک  صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی اجتماعیت کو برقرار رکھنے اور اس گلدستۂ رنگ وبو میں مزید حسن و نکھار پیدا کرنے کے لیے اپنے اصحابؓ کو احسان وایثار کا حکم دیا، اور اس سلسلہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے بنفسِ نفیس مالی اعتبار سے کمزور و خستہ حال اصحابؓ کے ساتھ خصوصی تعاون کیا، جس کی ایک نظیر حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  کا مفصل واقعہ ہے۔ معرکۂ اُحد میں والد کی شہادت سے سرفرازی، ان کےسابقہ قرض وحقوق کی ادائیگی کابار او ردیگر خانگی مشکلات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کےساتھ رحم وشفقت کا معاملہ کیا، جیسا کہ درج ذیل حدیث میں ہے:
’’عن جَابِر بْن عَبْدِ اللہِ رَضِيَ اللہُ عَنْہُ اَنَّہٗ کَانَ يَسِيْرُ عَلٰی جَمَلٍ لَہٗ قَدْ اَعْيَا، فَاَرَادَ اَنْ يُسَيِّبَہٗ، قَالَ: فَلَحِقَنِي النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ فَدَعَا لِيْ، وَضَرَبَہٗ، فَسَارَ سَيْرًا لَمْ يَسِرْ مِثْلَہٗ، قَالَ:بِعْنِيْہِ بِوُقِيَّۃٍ، قُلْتُ: لَا، ثُمَّ قَالَ: بِعْنِيْہِ، فَبِعْتُہٗ بِوُقِيَّۃٍ، وَاسْتَثْنَيْتُ عَلَيْہِ حُمْلَانَہٗ إِلٰی اَہْلِيْ، فَلَمَّا بَلَغْتُ اَتَيْتُہٗ بِالْجَمَلِ، فَنَقَدَنِيْ ثَمَنَہٗ، ثُمَّ رَجَعْتُ، فَاَرْسَلَ فِيْ اَثَرِيْ، فَقَالَ: اَتُرَانِيْ مَاکَسْتُکَ لِآخُذَ جَمَلَکَ؟ خُذْ جَمَلَکَ، وَدَرَاہِمَکَ فَہُوَ لَک۔‘‘ (۱)
ترجمہ: ’’حضرت جابر بن عبداللہ  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ وہ ایک اونٹ پر جا رہے تھے جو تھک گیا تھا، انہوں نے اسے (جنگل میں) آزاد کرنا (یعنی چھوڑدینا) چاہا۔ حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  نے کہا: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  مجھ سے آکر ملے اور میرے لیے دعا کی اور اونٹ کو مارا، پھر وہ ایسا چلا کہ وہ ایسا کبھی نہیں چلا تھا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: اس کو میرے ہاتھ ایک اوقیہ پربیچ ڈال ۔ میں نے کہا: نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کو میرے ہاتھ بیچ دو۔‘‘ میں نے ایک اوقیہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہاتھ بیچ دیا اور اپنے گھر تک اس پر سواری کی شرط لگائی۔ جب میں اپنے گھر پہنچا تو اونٹ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس لے کر آیا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کی قیمت میرے حوالے کی، میں واپس لوٹا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے بلا بھیجا اور فرمایا: ’’کیا تو یہ سمجھتا ہے کہ میں تجھ سے تیرا اونٹ لینے کے لیے قیمت کم کراتا تھا؟ اپنا اونٹ اور پیسے لے جا، یہ تیرے لیے ہے۔‘‘
 اس مفصل واقعہ سے کم و بیش تیس فقہی و اِصلاحی فوائدـبفضل اللہـ مستنبط ہوتے ہیں، جو ہدیۂ قارئین ہیں:
1-نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کاظاہری معجزہ : متعدد طرق سے مروی اس واقعہ میں صراحت ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ  کا اونٹ شدید تھکاوٹ کی بنا پرچلنےسے عاجز آگیا تھا، نیز اب اس کے ساتھ آئندہ منازل و مراحل کو طے کرنا نہایت دشوار معلوم ہوتا تھا، نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جب اس پوری صورت حال کو دیکھا تو اس اونٹ کے قریب تشریف فرما ہوکر اسے کچوکہ لگایا، جس سے وہ برق رفتار تیز دوڑنے لگا۔ (۲)
اس کے علاوہ دیگر متعدد مواقع پر اس قسم کے معجزات کا ظہور ہوا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی نبوت ورسالت پر شاہد ہیں، جیسا کہ غزوۂ حنین سے قبل کفار کی جانب سے حملہ کی اطلاع ملنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نہایت جرأت ودلیری کے ساتھ تن تنہا حضرت ابوطلحہؓ کے گھوڑے پر سوار ہوکر اس مقام کا جائزہ لیا، حالانکہ وہ گھوڑا چلنے کے قابل نہ رہا تھا، اور واپسی پر ارشاد فرمایا کہ میں نے تو اس گھوڑے کو گویا سمندر میں تیز رفتار دوڑتا محسوس کیا ۔ (۳)
2- اکابر کا اصاغر کی نگہداشت کرنا ا ور امور مہمات میں اپنی تجرباتی آراء سے مطلع کرنا، جیسا کہ اس واقعہ میں حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  کے ماموں نے اونٹ فروخت کیے جانے پر ناگواری کا اظہار کیا،اس ناگواری کی وجہ سے متعلق صاحبِ ’’فتح المنعم‘‘ لکھتے ہیں:
’’درحقیقت عرب معاشرے میں اونٹ کا وجود ایک گراں قدر سرمایہ تصور کیا جاتا تھا، نیز حضرت جابر رضی اللہ عنہ  کے پاس زمین سیرابی کے واسطہ کوئی دوسرا جانور میسر نہ تھا۔ بعض حضرات نے جو یہ رائے پیش کی کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کو قیمتِ مستحقہ سے کم ادا کیا، جس پر انہیں مستحقِ ملامت سمجھا گیا، یہ بات صریح البطلان ہے (چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  جیسی فیاض ذات سے یہ بات نہایت بعید ہے)۔‘‘ (۴)
3- مشتری کا مالک سے اس کی مملوکہ شئے کی بیع کے مطالبہ کرنے کا جواز: اس واقعہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوری صورت حال کا بغور جائزہ لیا اور بیع کا از خود مطالبہ کیا۔ (۵)
4-عقدِ بیع میں مساوَمہ(بھاؤ تاؤ) کرنا درست ہے، جیسا کہ اس قصہ میں ہے: ’’ أتراني ماکستک لآخذ جملک، خذ جملک، ودراھمک، فھو لک‘‘(۶)
المماکسۃ: ثمن میں کمی کے مطالبہ کو کہا جاتا ہے، اسی سے ’’مکس الظالم‘‘ جبراً ٹیکس وصولی کو کہتے ہیں۔ (۷)
5-کنواری عورت سے نکاح مستحب ہے۔ یہی وجہ ہے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سےاستفہامِ انکاری کے ساتھ دریافت کیا: ’’أفلا تزوجتَ بکرا تلاعبھا وتلاعبک؟‘‘
اسی روایت کو مدار بناتے ہوئے امام ترمذی ؒ نے اپنی کتاب میں ’’باب ما جاء في تزویج الأبکار‘‘ کے عنوان سے ’’ترجمۃ الباب‘‘ قائم کیا۔
اس کی حکمت علماء نے زوجین کےمابین اُلفت ومحبت میں اضافہ ذکر کی ہے۔
6- اس واقعہ سے حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  کے مرتبہ وفضیلت کا اظہارہوتا ہے، جنہوں نے خانگی حالات ومصلحتِ عیال کو نفس اور اس کے طبعی تقاضوں پر مقدم رکھا، جیسا کہ انہوں نے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو ایسی عورت سے نکاح کی وجہ بیان کی، فرمایا: 
’’استشھد والدي، ولي أخوات صغار، فکرھت أن أتزوج إليہن مثلھن، فلاتؤدبہن ولاتقوم علیھن، فتزوجّتُ ثیّبًا لتقوم علیھن وتؤدبھن۔‘‘
یعنی میرے والد جنگ اُحد میں شہید ہوگئے تھے، میری چھوٹی بہنیں تھیں، انہی کے برابر نوعمر لڑکی کو نکاح میں لانا مجھے ناگوار ہوا، چونکہ وہ ان کی دیکھ بھال اور آداب ومعاشرت کےحوالے سے تلقین میں کامل نہیں ہوگی، لہٰذا میں نے ایسی عورت سے نکاح کو ترجیح دی جو شادی شدہ ہو، تاکہ وہ ان کی تعلیمِ آداب ومعاشرت پر توجہ دے سکے۔ (۸)
اس سے ثابت ہوا کہ آج بھی اگر کوئی شخص خانگی احوال ومصلحت کے پیشِ نظر ثیّبہ عورت سے نکاح کرتا ہے تو یہ نکاح حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  کے اس مبارک طرزِ عمل کی بنا پر باعثِ سعادت ہوگا۔
7- سفر سے واپسی پر مسجد میں دو گانہ رکعت سے ابتدا کرنے کے استحباب کا ثبوت ملتا ہے، نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا عام معمول بھی یہی تھا، جیسا کہ معجمِ طبرانی کی روایت میں ہے:
’’عَنْ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ -رَضِيَ اللہُ عَنْہُ- قال: کَانَ رَسُوْلُ اللہِ - صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ- لَا يَقْدَمُ مِنَ السَّفَرِ إلَّا نَہَارًا فِيْ الضُّحٰی، فَإِذَا قَدِمَ بَدَاَ بِالْـمَسْجِدِ فَصَلّٰی فِيْہِ رَکْعَتَيْنِ ثُمَّ جَلَسَ فِيْہِ۔‘‘
چنانچہ فقہاء نے اس عمل کو مستحب لکھا ہے۔(۹)
8-اس واقعہ سے ایک ضابطۂ معروف کی جانب بھی اشارہ ملتا ہے، وہ ’’الدال علی الخیر والإرشاد إليہ من أبواب البرّ‘‘ ہے۔
حدیث نبوی میں اس مفہوم کو ان الفاظ سے بیان کیا گیا ہے: 
’’من دلّ علی خیر فلہٗ مثل أجر فاعلہٖ۔‘‘ (۱۰)
9- اس واقعہ سے نبی پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سخاوت وفیاضی کا علم ہوتا ہے، جیسا کہ حضرت انس  رضی اللہ عنہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اوصاف بیان فرماتے ہیں:
’’کان النّبيّ صلی اللہ عليہ وسلم أحسنَ الناس، وأجودَ الناس، وأشجعَ الناس۔‘‘ (۱۱)
10- اس واقعہ سے انبیاء وصلحاء کے ہدایا کا تبرک اور ان کو حفاظت واہتمام سے رکھنے کی اصل معلوم ہوتی ہے، جیسا کہ حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  کے الفاظ روایات میں ملتے ہیں:
’’أعطاني أوقیّۃ من ذھب، وزادني قیراطًا، فقلت: لاتفارقني زیادۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فکان في کیس لي،فأخذہٗ أہل الشام یوم الحرّۃ، وفي روایۃ:’’ لاأنفق أبدا۔‘‘ (۱۲)
’’نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے ایک سونے کا اوقیہ دیا، اور ایک قیراط اضافی مرحمت کیا، میں نے اس وقت دل میں عہد کیا کہ اس اضافی ثمن کو اپنے سے کبھی علیحدہ نہ ہونے دوں گا۔ ایک روایت میں ہے کہ اس ثمن کو کبھی خرچ اوراستعمال میں نہیں لاؤں گا۔‘‘
 بہرحال اس کو بطور حفاظت ایک تھیلی میں رکھا، مگر حرۃ کی لڑائی کے دن جو سن ۶۳ ہجری کو پیش آئی، جس میں اہلِ شام نے اہلِ مدینہ کے خلاف زور آزمائی کی تو میری وہ تھیلی اُٹھالے گئے،چنانچہ حکیم الامت حضرت تھانوی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اس روایت کو تبرک بآثار الصالحین کی اصل قرار دیا ہے۔(۱۳)
11- امیرِ لشکر کی اجازت سے بعض افراد کا دیگر رفقاء سے قبل اپنے مسکن لوٹنا درست ہے، جیسا کہ حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  نے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے رخصت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اجازت مرحمت فرمائی۔ (۱۴)
12- قرض کی ادائیگی اور حقوقِ واجبہ کی سپردگی میں کسی دوسرے شخص کو وکیل مقرر کرنا درست ہے، اس واقعہ میں صراحت ملتی ہے کہ نبی پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت بلال  رضی اللہ عنہ  کو اپنی طرف سے وکیل بناکر ثمن کی ادائیگی کا حکم دیا۔ نیز یہ مسئلہ فقہاء کرام کے نزدیک بھی مسلم ومتفق علیہ ہے۔(۱۵)
13- اپنے اصحاب واقرباء کو دعا ؤں سے نوازنا چاہیے، چنانچہ اس واقعہ سے متعلق سننِ ترمذی میں واقع ایک طریق میں ہے کہ حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں:
’’ استغفرلي رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  لیلۃ البعیر خمسًا وعشرین مرۃً۔‘‘ (۱۶) 
’’نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اونٹ کے بیع وشراء کے معاملہ والی رات میں مجھے پچیس دفعہ دعائے مغفرت سے نوازا۔‘‘
اس روایت کو اپنی سنن کا حصہ بناکر امام ترمذی ؒ اس رحم وشفقت کی وجہ کچھ یوں بیان فرماتے ہیں:
’’دراصل حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  کے والد نے معرکۂ اُحد میں جامِ شہادت نوش کیا، ان کی متعدد بیٹیاں تھیں، جن کی دیکھ بھال وپرورش کی ذمہ داری یک دم حضرت جابر رضی اللہ عنہ  کے سر آئی، اس بنا پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ان کے ساتھ شفقت کا معاملہ فرماتے تھے۔‘‘
14- مشکل حالات میں مالی تعاون: نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے رفقاء و اصحاب کے ساتھ مشکل حالات وگھڑی میں مالی تعاون کا عملی نمونہ پیش کیا،چنانچہ حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ اونٹ کی بیع وشراء کے معاملہ سے مقصود تعاون تھا، لہٰذا یہ حقیقتاً بیع نہیں تھی، بلکہ صورتاً اس پر بیع کا اطلاق کیا گیا، جیسا کہ امام طحاوی  رحمۃ اللہ علیہ  کی تصریح ہے:
’’قلتُ: فدلّ ذٰلک (إعادۃ المبیع مع الزیادۃ في الثمن) أن ذٰلک القول الأول لم یکن علی التبایع۔‘‘(۱۷)
نیز اس کی تائید حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  کے ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے:
’’فَلَمْ يَقْبَلْ مِنِّيْ إِلَّا بِثَمَنٍ رِفْقًا بِيْ۔‘‘ (۱۸)
15- ان روایات کے ظاہر سے بیع بالشرط کا جواز معلوم ہوتا ہے، جس کو امام احمدؒ اور ان کے متبعین نے اختیار کیا ہے۔
البتہ جمہور ائمہ اس مسئلہ میں دیگر مستدلات وضوابطِ کلیہ کی روشنی میں اس کے عدمِ جوا زکے قائل ہیں، جیسا کہ روایت میں ہے:
’’نَھٰی رَسُوْلُ اللہِ  صلی اللہ علیہ وسلم  عَنْ بَیْعٍ وَّشَرْطٍ۔‘‘ (۱۹)
نیز ایک روایت میں ہے: ’’أنَّہٗ نَھٰی عَنْ بَیْع الثنیا۔‘‘(۲۰)
بہرحال اس موضوع سے متعلق روایات کوپیشِ نظر رکھتے ہوئے ذکر کردہ روایات میں تاویل و توجیہ ضروری ہے، تاکہ ان تمام روایات کے معانی ومفاہیم میں کسی قسم کا تعارض باقی نہ رہے ۔(۲۱)
16-معمولی باتوں پر دل کو مکدر کرنا اور طبیعت پر بوجھ لینا یہ شرفِ انسانی کے خلاف ہے، اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  نےنبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ خاص تعلق کے باوجود نکاح وولیمہ میں مدعو نہ کیا، مزید یہ کہ اطلاع ملنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ذرا بھر بھی ناراضی کا احساس نہ ہونے دیا، بلکہ ان کےساتھ سخاوت وفیاضی کا معاملہ کیا، یہی صورت حال حضرت عبدالرحمٰن بن عوف  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ پیش آئی، اس پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ناگواری کا اظہار نہیں فرمایا۔ (۲۲)
17-بڑا بھائی اہل وعیال کی نگہداشت وکفالت میں بمنزلہ والد کے ہوتا ہے، اس مفہوم کی ادائیگی کے لیے معجم طبرانی میں یوں الفاظ ملتے ہیں :
’’الکبیر من الإخوۃ بمنزلۃ الوالد۔‘‘(۲۳)
واقعۂ مذکورہ میں حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  نے ایک مشفق باپ کی طرح سے اپنے خانگی مسائل وحالات کو طبعی و ذاتی تقاضوں پر مقدم رکھ کر سبق آموز داستان رقم کی۔
18-گائے میں سنت عمل ذبح کرنا ہے، جبکہ اونٹ میں اس کے برعکس نحر کرنا ہے، جیسا کہ اسی واقعہ سے متعلق تفصیلی روایات میں ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے واپسی پر مدینہ منورہ کے تین میل فاصلہ پر واقع صرار مقام پر گائے کے ذبح کا حکم دیا، جس کو تمام اصحابؓ نے شکم سیر ہوکر کھایا۔ (۲۴)
چنانچہ اس سلسلہ میں فقہاء احناف کا بھی یہی مسلک ہے۔(۲۵)
19-ثمن کی عدم موجودگی یا فی الفور عدم دستیابی کی صورت میں بیع کے جواز کا ثبوت : چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  کو موضعِ عقد پر ثمن حوالہ نہیں کیا، بلکہ مدینہ منورہ پہنچنے پر اونٹ حاضرِ خدمت کرنے پر اُن کو ثمن سپرد کیا۔ (۲۶)
چنانچہ مشہور عالم متبحر وفقیہ علاء الدین حصکفی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں :
’’صح بیعہٗ بثمن حال و مؤجل إلی معلوم۔‘‘(۲۷)
20-بڑوں کی بات کو توجہ سے سننا اور اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا، جیسا کہ واقعہ مذکورہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے معجزہ سے جب اونٹ برق رفتار تیزدوڑنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت جابرؓ کو سوار ہونے کا حکم دیا، ابھی کچھ ہی لمحے گزرےتھے کہ وہ اپنی جگہ سے تیز رفتاری کے ساتھ دوڑ پڑا، نبی پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  ان سے بیع کی بات کرنے کے لیے قریب تشریف لانے کی کوشش کرتے، اور دوسری جانب حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  آپ کی گفتگو کو سننے کی غرض سے گھوڑے کی لگام کو قابو کرنے کے لیے کوشاں تھے، جیسا کہ روایت میں الفاظ ملتے ہیں: ’’فَکُنْتُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَحْبِسُ خِطَامَہٗ لِأسْمَعَ حَدِيثَہٗ، فَمَا اَقْدِرُ عَلَيْہِ۔‘‘ (۲۸)
21- روایت بالمعنی کے ثبوت پر دلیل: یہ واقعہ متعدد طرق واسانید سے مروی ہے، جن میں اونٹ کی قیمت کے بیان میں رواۃ کا شدید اختلاف پایا جاتا ہے، ایک، تین، پانچ اور سات اوقیہ مختلف تعداد منقول ہیں، جن میں تطبیق قدرےدشوار ہے، جیسا کہ حضرت انور شاہ کشمیریؒ فرماتے ہیں :
’’واختلف الرواۃ في ثمن البعیر علی ستۃ أو سبعۃ أوجہ، ولاحاجۃ عندي إلٰی طلب التوفیق بینھما۔‘‘ (۲۹)
نیز قاضی عیاض مالکیؒ اس اختلاف کے بنیاد ی سبب پر کچھ یوں روشنی ڈالتے ہیں:
 ’’وغایۃ سبب الاختلاف أنھم رووا بالمعنی۔‘‘(۳۰)
اس اختلاف کا منشا ومنتہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بالمعنی روایت کو نقل کرنا ہے۔
22- نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا منشا ومقصد حضرت جابر رضی اللہ عنہ  کے ساتھ اس طور پر تعاون واحسان کرنا تھا کہ کسی دوسرےشخص کے دل میں اس کی طمع پیدا نہ ہو، چنانچہ عقدِ بیع کے بعد بھی اونٹ کو ان کے قبضہ میں برقرار رکھا، اور ثمن کی ادائیگی میں اضافہ فرمایا۔ (۳۱)
23- الفاظِ کنایات کے استعمال پر ثبوت: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  سے فرمایا: ’’ھو لک۔‘‘ (۳۲)
اس بات سے کم وبیش ہر صاحبِ عقل بخوبی واقف ہےکہ کنائی الفاظ سے معنی مرادی کا سمجھنا قدرے سہل ہوتا ہے، جس سے انسان نفس میں راحت وخوشی محسوس کرتا ہے۔ 
24- قرض کی ادائیگی کرتے ہوئے رقم میں بدون شرط اضافہ کرنا اور وزن کو جھکتا تولنا طریقۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  ہے، اس واقعہ میں آپ نے حضرت بلال  رضی اللہ عنہ  کواونٹ کے ثمن سمیت اضافی اوقیہ دینے کا حکم دیا۔
سوید بن قیس رضی اللہ عنہ  کی روایت سنن ترمذی میں ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  ہمارے پاس تشریف لائے، اور شلوار سے متعلق بھاؤ تاؤ کرنے لگے، بہرحال معاملہ طے ہونے پر ثمن وزن کرنے والے کو حکم دیا کہ اس ثمن کو وزن کرو اور جھکتا تولو ۔ (۳۳)
25- بڑوں کےسامنے ایسے مبہم جملوں کے استعمال سے احتراز کرنا چاہیے جو دائرہ ادب سے خارج معلوم ہوں، اس واقعہ میں حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  کا نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے مطالبۂ بیع پر انکار کا جملہ اسی وہم کو پیدا کرتا ہے، اگرچہ یہ ان کی مراد کے معارض ہے، جیسا کہ دیگر طرق سے عیاں ہوتا ہے: ’’ثَبَتَ قَوْلُ جابرؓ ’’لَا‘‘، ولکن معناہ ’’ لاأبیعہ بل أھبہ لک، والنفي یتوجہ لترک البیع، لا لکلام رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  والدلیل علیہ روایۃ وھب بن کیسان عن جابرؓ عند أحمد: أتبيعني جملک ہٰذَا يَا جَابر؟ قلت: بل أہبہٗ لَک۔‘‘ (۳۴)
26- عقدِ بیع کی صحت سے متعلق ایک ضروری شرط ثمن کا متعین ہونا ہے، جس پر تمام ائمہ متفق ہیں۔(۳۵) اس واقعہ میں اونٹ کی قیمت سے متعلق مختلف الفاظ ملتے ہیں، جن پر تبصرہ کرتے ہوئے امام قرطبی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں: 
’’اختلفوا في ثمن الجمل اختلافًا لایقبل التلفیق، وتکلف ذٰلک بعید عن التحقیق۔۔۔۔ ثم قال: وإنما تحصل من مجموع الروایات أنہٗ باعہ البعیر بثمن معلوم بینھما، وزادہٗ عند الوفاء زیادۃ معلومۃ۔‘‘
یعنی اونٹ کی حقیقی قیمت سے متعلق روایات میں اس قدر شدید اختلاف ملتا ہے کہ جس میں تطبیق کی صورت ممکن نہیں، اور تطبیق کی بے جا کوشش تکلف سے خالی نہیں۔ چند سطور بعد فرماتے ہیں: ’’مجموعۂ روایات سے یہ قدرے مشترک نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ انہوں نے ثمن متعین کے ساتھ بیع کی،اور اضافۂ معلوم سے بھی نوازا۔ (۳۶)
27- صلحاء کی برکت سے زندگی سنور جاتی ہے اور حسنِ خاتمہ نصیب ہوتا ہے، اس سلسلہ میں ابن عساکر نے بسندِ ابو الزبیر حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  سے نقل کیا ہے کہ وہ اونٹ عہدِ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد عہدِ فاروقی  رضی اللہ عنہ  تک میرے پاس رہا، لیکن جب وہ عمر رسیدہ ہوگیا تو میں اس سمیت حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  کی خدمت میں حاضر ہوا، اور اس کا مکمل واقعہ عرض کیا، خلیفہ ثانی  رضی اللہ عنہ  نے حکم دیا کہ اس کو بیت المال کے سرکاری اونٹوں کا حصہ بناکر عمدہ چراہ گاہ میں چرنے چھوڑ دیا جائے، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا، حتیٰ کہ اس نے آخری سانس لیا ۔ (۳۷)
28- بڑوں کے سامنے حق بات یا اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے ان کے مرتبہ کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، جیسا کہ حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  نے مدینہ تک پہنچنے کے لیے اونٹ کے سپرد نہ کرنے کی شرط لگائی: ’’فَبِعْتُہٗ عَلٰی اَنَّ لِيْ فَقَارَ ظَہْرِہٖ، حَتّٰی اَبْلُغَ الْمَــدِيْنَۃَ۔‘‘
اس واقعہ سے زیادہ حدیثِ بریرۃؓ اس قاعدہ کو واضح کرتی ہے۔(۳۸) 
29- اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جس ساتھی کے ساتھ بے تکلفی ہو، اس سے کسی چیز کا سوال یا مطالبہ کرنا درست ہے، جیسا کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  سے مطالبہ کیا۔
30- مسلمان بھائی کا ہدیہ قبول کرنا طریقۂ مسنونہ ہے۔(۳۹)

حواشی وحوالہ جات

۱: صحیح مسلم، الاستسقاء، باب البعیر واستثناء رکوبہ، رقم الحدیث:۴۰۹۷
۲: صحیح مسلم، الاستسقاء، باب البعیر واستثناء رکوبہ،رقم الحدیث: ۴۰۹۷
۳: اس قسم کے متعدد واقعات کو قاضی عیاض مالکی ؒنے ’’الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ﷺ، فصل في کرامتہ وبرکاتہ وانقلاب الأعیان لہٗ فیما لمسہ أو باشرہٗ ﷺ‘‘ میں یکجا کیا ہے، ملاحظہ ہو: ۱/۳۳۰، ط: دار الفکر للطباعۃ والنشر والتوزیع
۴: فتح المنعم، ص:۶/۴۳۱، ط: دار الشروق
۵: صحیح مسلم، الاستسقاء، باب البعیر واستثناء رکوبہ، رقم الحدیث:۴۱۰۰
۶: صحیح مسلم، باب البعیر واستثناء رکوبہ، رقم الحدیث:۴۰۹۷
۷: النھایۃ لابن الاثیر: ۴/۳۴۹، المکتبۃ العلمیۃ
۸: صحیح مسلم، باب البعیر واستثناء رکوبہ، رقم الحدیث:۴۱۰۰
۹: الدر المختار وحاشیۃ ابن عابدین: ۲/۲۴، ط: دار الفکر، بیروت
۱۰: سنن الترمذي، أبواب العلم، باب ما جاء الدال علی الخیر کفاعلہ، رقم الحدیث :۲۶۷۱
۱۱: الکواکب الدراري، لشمس الدین الکرماني: ۱۲/۳۹، دار إحیاء التراث العربي
۱۲: صحیح مسلم، باب البعیر واستثناء رکوبہ، رقم الحدیث: ۴۱۰۰
۱۳: التکشف عن مہمات التصوف، ص:۴۵۹، ادارۃ تألیفات اشرفیہ
۱۴: شرح النووي: ۱۱/۳۶، ط۔ دار إحیاء التراث العربی، بیروت
۱۵: البحر الرائق في شرح کنز الدقائق: ۷/۱۴۳، ط: دار الکتاب الإسلامي
۱۶: سنن ترمذي، کتاب المناقب، رقم الحدیث: ۳۸۵۲
۱۷: شرح معاني الآثار: ۴/۵۶۴۷، ط: عالم الکتب
۱۸: فتح الباري لابن حجر في شرحہ: ۵/۳۱۹ ، دار المعرفۃ بیروت، لبنان
۱۹: معجم الأوسط، رقم الحدیث :۳۳۶۱، ط : دار الحرمین، القاھرۃ
۲۰: سنن الترمذي، رقم الحدیث :۱۲۹۰
۲۱:  شرح معاني الآثار: ۴/۵۶۴۷
۲۲: سنن الترمذي: ۳۳۵۳
۲۳: المعجم الکبیر للطبراني، ص: ۱۳/۴۳۹۲، ط:مکتبۃ الإصالۃ والتراث
۲۴: مسلم، باب بیع البعیر واستثناء رکوبہ، رقم الحدیث:۴۱۰۰
۲۵: الدر المختار وحاشیۃ ابن عابدین: ۶/۳۰۳، دار الفکر، بیروت، لبنان
۲۶: صحیح مسلم، باب البعیر واستثناء رکوبہ، رقم الحدیث:۴۰۹۸
۲۷: الدرالمختار شرح تنویر الأبصار، ص :۳۹۶، ط: دار الکتب العلمیۃ
۲۸: صحیح مسلم، باب البعیر واستثناء رکوبہ، رقم الحدیث :۴۱۰۰
۲۹: فیض الباري، ص:۴/۱۱۱، ط:دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان
۳۰: الکنز المتواري للشیخ زکریا الکاندھلوي: ۱۲/۱۴۸
۳۱: فتح الباري لابن حجرؒ في شرحہ:۵/۳۱۹، ط: دار المعرفۃ بیروت، لبنان
۳۲: صحیح مسلم، باب البعیر واستثناء رکوبہ، رقم الحدیث :۴۰۹۷
۳۳: سنن الترمذي، باب ما جاء في الرجحان في الوزن:۱۳۰۵
۳۴: عمدۃ القاري: ۱۴/۲۹۴، دار إحیاء  التراث العربي، بیروت
۳۵: بدائع الصنائع : ۵/۱۵۶، ط: دارالکتب العلمیۃ
۳۶: فتح الباري: ۵/۳۲۱، دار المعرفۃ، بیروت، لبنان
۳۷: تاریخ ابن عساکر: ۱۱/۲۲۵، ط: دار الفکر
۳۸: صحیح البخاري، کتاب البیوع، باب البیع والشراء مع النساء، رقم الحدیث:۲۱۵۶
۳۹: الھدایۃ:۳/۲۲۲، دار إحیاء التراث العربي، بیروت
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین