بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

مصافحہ ایک ہاتھ سے یا دو ہاتھ سے؟!

مصافحہ ایک ہاتھ سے یا دو ہاتھ سے؟!

مصافحہ دو ہاتھ سے کرنا مسنون عمل ہے، آپ aنے حضرت عبداللہ بن مسعود q سے دو ہاتھ سے مصافحہ کیا۔ نیز عقلاً بھی اپنے مسلمان بھائی سے دو ہاتھ سے مصافحہ کرنے میں جس قدر تواضع، انکساری، الفت ومحبت، اور بشاشت کی جو کیفیت پائی جاتی ہے وہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے میں نہیںہے۔ امیر المؤمنین فی الحدیث امام بخاری v نے ’’ صحیح بخاری‘‘ میں دو باب قائم کیے :۱:۔۔۔۔۔ باب المصافحۃ ، ۲:۔۔۔۔۔ باب الأخذ بالیدین المصافحۃ ۔ اس باب میں امام بخاری v نے یہ بتلا یا کہ مصافحہ کرنا سنت عمل ہے، اس کے لیے آپ نے چار دلیلیں نقل کیں : ۱:۔۔۔۔۔ حضرت عبداللہ بن مسعود q فرماتے ہیں کہ: آپ a نے مجھے تشہد سکھایا اس حالت میں کہ میرا ہاتھ آپ a کے دو ہاتھوں کے درمیان تھا: ’’وَقَالَ ابْنُ مَسْعُوْدٍؓ:عَلَّمَنِیْ النَّبِیُّ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ التَّشَہُّدَ ، وَکَفِّی بَیْنَ کَفَّیْہِ۔‘‘(۱)  ۲:۔۔۔۔۔ حضرت کعب بن مالک q فرماتے ہیں کہ میں مسجد ِنبوی میں آیا تو رسول اللہ a کی موجودگی میں حضرت طلحہ بن عبیداللہ q  کھڑے ہوئے اورانہوں نے مجھ سے مصافحہ کیا اور مجھے مبارک باد دی: ’’قَالَ کَعْبُ بنُ مَالِکٍ :حَتَّی دَخَلْتُ المَسْجِدَ، فَإِذَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ حَوْلَہُ النَّاسُ، فَقَامَ إِلَیَّ طَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ یُہَرْوِلُ حَتّٰی صَافَحَنِیْ وَہَنَّأَنِیْ۔‘‘(۲) ۳:۔۔۔۔۔ حضرت قتادہؒ نے حضرت انس q سے پوچھا کہ کیا نبی کریم a کے صحابہؓ میں مصافحہ کا رواج تھا؟ تو حضرت انس q نے فرمایا: جی ہاں! ضرور تھا: ’’عَنْ قَتَادَۃَؒ قَالَ:قُلْتُ لِأَنَسٍؓ: أَکَانَتِ الْمُصَافَحَۃُ فِیْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ۔‘‘(۳) ۴:۔۔۔۔۔ عبداللہ بن ہشام q فرماتے ہیںکہ ہم نبی اکرم a کے ساتھ تھے اور آپ a نے حضرت عمر q کا ہاتھ پکڑا ہو اتھا: ’’کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَہُوَ أٰخِذٌ بِیَدِ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ۔‘‘(۴) ان چاروں دلیلوں سے امام بخاری v یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مصافحہ کرنا مسنون عمل ہے۔ نیز امام بخاری v نے اپنی کتاب ’’الأدب المفرد‘‘میں بھی باب قائم کیا ہے: ’’باب المصافحۃ‘‘ اور اس کے تحت دو احادیث نقل کی ہیں۔ علامہ ابن بطال v فرماتے ہیں کہ اکثر علماء کے نزدیک مصافحہ کرنا بہترین عمل ہے۔ امام نووی v فرماتے ہیں کہ ملاقات کے وقت مصافحہ کرنا سنت ہے، اور اس پر ( اہلِ علم ) کا اجماع ہے: ’’قَالَ ابنُ بَطَّالٍؒ الْمُصَافَحَۃُ حَسَنَۃٌ عِنْدَ عَامَّۃِ الْعُلَمَائِ....وَقَالَ النَّوَوِیُّ: الْمُصَافَحَۃُ سُنَّۃٌ مُجْمَعٌ عَلَیْہَا عِنْدَ التَّلَاقِیْ۔‘‘(۵) اما م بخاری v نے اس کے بعد دوسراباب قائم کیا ہے: ’’باب الأخذ بالیدین‘‘ اس باب میں امام بخاری v نے مصافحہ کا طریقہ بتلا یا کہ مصافحہ دو ہاتھوںکے ساتھ ہونا چاہیے، اس کے لیے امام بخاری v نے بطورِ دلیل دو کبار محدثین کا عمل پیش کیا کہ وہ دو ہاتھ سے مصافحہ کرتے تھے: ’’وَصَافَحَ حَمَّادُبْنُ زَیْدٍ،ابْنَ المُبَارَکِ بِیَدَیْہِ۔‘‘ ’’حماد بن زیدv نے حضر ت عبداللہ بن مبارکv سے دو ہاتھوں سے مصافحہ کیا۔ ‘‘ امام بخاری v نے اس بات کو کہ امام حماد بن زید v نے حضرت عبداللہ بن مبارک v سے دو ہاتھوںسے مصافحہ کیا، اپنی معروف کتاب ’’ التاریخ الکبیر‘‘ میں اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ کے ترجمہ میںان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے : ’’إِسْمَاعِیل بن إِبْرَاہِیم بن المُغِیرۃ الجُعفی،أَبوالْحَسَن رأی حماد بْن زید صافح ابْن المبارک بکلتا یدیہ۔‘‘(۶)     نیز اس بات کو فن رجال اور حدیث کے دو مشہور ائمہ علامہ شمس الدین ذہبیv (متوفی ۸۴۷ھ) اور حافظ ابن حجر عسقلانیv( متوفی ۲۵۸ھ) نے بغیر کسی نکیر کے نقل کیا ہے: دیکھئے تفصیلاً: سیر أعلام النبلائ، ترجمۃـ:أبو عبداللہ البخاری محمد بن اسماعیل، ج: ۲۱، ص: ۲۹۳۔ تہذیب التہذیب : حرف الألف، ترجمۃ : اسماعیل بن ابراہیم بن المغیرۃ، ج: ۱ ص: ۴۷۲۔ دو ہاتھ سے مصافحہ کرنے والے امام حماد بن زید v کا مقام محدثین کی نظر میں کس قدر کا ہے، اس کا اندازہ اما م ذہبی vکے القابات اور محدثین کے ان کے متعلق اقوال سے لگائیں،چنانچہ امام ذہبی v ان کے ترجمے کا آغاز ان القابات کے ساتھ کرتے ہیں: ’’العَلاَّمَۃُ،الحَافِظُ،الثَّبْتُ،مُحَدِّثُ الْوَقْتِ، أَحَدُ الْأَعْلَامِ۔‘‘ امام عبدالرحمن بن مہدی v فرماتے ہیں کہ: لوگوں کے امام اپنے اپنے زمانے میں چار حضرات تھے، کوفہ کے امام سفیان ثوریؒ، حجاز کے امام مالکؒ، شام کے امام اوزاعیؒ، بصرہ کے امام حماد بن زیدw: ’’قَالَ عَبْدُالرَّحْمَنِ بنُ مَہْدِیٍّ: أَئِمَّۃُالنَّاسِ فِیْ زَمَانِہِمْ أَرْبَعَۃٌ : سُفْیَانُ الثَّوْرِیُّ بِالْکُوْفَۃِ ، وَمَالِکٌ بِالْحِجَازِ، وَالْأَوْزَاعِیُّ بِالشَّامِ ، وَحَمَّادُ بنُ زَیْدٍ بِالْبَصْرَۃِ ۔‘‘ امام احمد بن حنبل v فرماتے ہیں کہ امام حماد بن زیدv مسلمانوں کے ائمہ میں سے ہیں: ’’وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ:حَمَّادُبنُ زَیْدٍ مِنْ أَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ۔‘‘ امام احمد بن عبداللہ عجلی v فرماتے ہیں کہ: امام حماد بن زید v ثقہ ہیں اور انہیں چار ہزار احادیث حفظ تھیں، اور ان کے پاس کوئی کتاب نہیں تھی، (یعنی ایسے حافظ الحدیث تھے کہ بغیر کتاب کے احادیث کا اپنے حافظے سے زبانی املاء کر واتے تھے) : ’’وَقَالَ أَحْمَدُ بنُ عَبْدِاللّٰہِ الْعِجْلِیُّ : حَمَّادُ بنُ زَیْدٍ ثِقَۃٌ ، وَحَدِیْثُہٗ أَرْبَعَۃُ آلاَفِ حَدِیْثٍ، کَانَ یَحْفَظُہَا، وَلَمْ یَکُنْ لَہٗ کِتَابٌ۔‘‘ ان کے متعلق مزید کبار محدثین کے تو صیفی وتوثیقی اقوال کے لیے تفصیلاً دیکھیں: سیر اعلام النبلاء ، ترجمۃ حماد بن زید بن درھم، ج: ۷، ص: ۶۵۴- ۷۵۴۔ امام بخاری v نے اس اثر کے بعد یہ حدیث نقل کی کہ حضرت عبداللہ بن مسعود q فرماتے ہیں کہ مجھے نبی کریم a نے تشہد اس حالت میں سکھا یا کہ میرا ہاتھ آپ a کے دو ہاتھوں کے درمیان تھا: ’’عَلَّمَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَکَفِّی بَیْنَ کَفَّیْہِ التَّشَہُّدَ۔‘‘ امام بخاری v  ’’باب الأخذ بالیدین‘‘ کے تحت اس حدیث کو نقل کرکے یہ بتلانا چاہ رہے ہیں کہ مصافحہ دو ہاتھوں سے ہوگا،جیسے آپ a نے حضرت ابن مسعود q سے دو ہاتھوں سے مصافحہ کیا۔ اس حدیث میں قابلِ غور جملہ ’’کفی بین کفیہ‘‘ میرا ہاتھ آپa کے دو ہاتھوں کے درمیان تھا، معلوم ہوا کہ سنت ِنبویہ دو ہاتھوں سے مُصافحہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود q نے اپنے ایک ہاتھ کا ذکر اس وجہ سے کیا کہ یہ ہاتھ اس قدر خوش قسمت ہے کہ حضورa کے دو ہاتھوں کے درمیان تھا۔ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ نبی دو ہاتھوں سے مصافحہ کرے اور صحابی ایک ہاتھ سے؟  یہاں حضرت ابن مسعود q اپنی خصوصیت اور قابلِ فخر اعزاز کو بیان کررہے ہیں، یہ مطلب نہیں ہے کہ انہوں نے دوسرے ہاتھ سے مصافحہ نہیں کیا۔ امام العصر علامہ انورشاہ کشمیری v فرماتے ہیں کہ یہ حدیث نبی کریم a کی جانب سے دو ہاتھ سے مصافحہ کرنے کے بارے میں صریح ہے، باقی رہی بات حضرت ابن مسعود q کی کہ انہوں نے ایک ہاتھ سے مصافحہ کیا، تویہاں راوی نے ایک ہاتھ کے ذکر پر اکتفاء کیا، ورنہ حضرت ابن مسعود q کے بارے میں یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ایک ہاتھ سے مصافحہ کریں، جب کہ آپ a اپنے دو بابرکت ہاتھوں کے ساتھ انہیں مصافحہ کریں، حضرت ابن مسعود q کے متعلق یہ بہت باب بہت ہی مُستبعد ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہاں راوی نے ایک ہاتھ کے ذکر پر اکتفاء کیا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ راویوں کا تعبیرات میں بڑا اختلاف ہوتا ہے، پس وہ مختلف اعتبارات سے تعبیرات پیش کرتے ہیں، بعض ایسے ہیں جو مجمل کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں، اور بعض ایسے ہیں جو مفصل شئے کو اجمال کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ (۷) امام بخاری v نے ’’الأدب المفرد‘‘ میں روایت نقل کی ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن رزینؒ فرماتے ہیں کہ ہم ربذہ نامی مقام کے پاس سے گزرے، ہمیں یہ بتلایا گیا کہ یہاں صحابی رسول حضرت سلمہ بن اکوع q ہیں، میں ان کی خدمت میں گیا اور انہیں سلام کیا، تو انہوںنے( سلام کا جواب دیا اور) دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا، اور فرمایا: میں نے آپ a کے ہاتھ پر بیعت ( بھی اس طرح) دونوں ہاتھوں سے کی تھی: ’’عن عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ رَزِیْنٍ قَالَ : مَرَرْنَابِالرَّبَذَۃِ فَقِیْلَ لَنَا : ہَاہُنَا سَلَمَۃُ بْنُ الْأَکْوَعِ فَأَتَیْتُہٗ فَسَلَّمْنَا عَلَیْہِ فَأَخْرَجَ یَدَیْہِ فَقَالَ : بَایَعْتُ بِہَاتَیْنِ نَبِیَّ اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔‘‘(۸)  اس حدیث میں ہے کہ صحابی رسول ؐ حضرت سلمہ بن اکوع q نے دونوں ہاتھوں کے ساتھ مصافحہ کیا، پھر فرمایا: میں نے انہی دونوں ہاتھوں کے ساتھ آپ a کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ خلاصہ یہ ہوا کہ آپ a نے دو ہاتھوں سے مصافحہ کیا۔ اسی طرح صحابی رسول حضرت سلمہ بن اکوع q نے بھی دو ہاتھوں سے مصافحہ کیا۔ کبار محدث امام حماد بن زید v نے بھی دو ہاتھوں سے مصافحہ کیا۔ امام بخاریv کے نزدیک بھی اولیٰ اور بہتر یہی ہے کہ دو ہاتھوں سے مصافحہ ہو، اس لیے آپ نے اس پر مستقل باب بھی قائم کیا اور اس سے متعلق روایات وآثار اپنی تینوں کتابوں :صحیح البخاری، الأدب المفرد، التاریخ الکبیرمیں نقل کیے، جیسا کہ ماقبل میں کئی حوالہ جات گزرچکے ہیں۔ حضرت ابو اُمامہ q سے روایت ہے کہ نبی کریم a نے ارشاد فرمایا: ’’عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِذَا تَصَافَحَ الْمُسْلِمَانِ لَمْ تَفْرُقْ أَکُفُّہُمَا حَتّٰی یُغْفَرَ لَہُمَا۔‘‘(۹) ’’جب دو مسلمان مصافحہ کرتے ہیں تو ان کے ہاتھوں کے جدا ہونے سے پہلے ان کے گناہوں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ ‘‘ فائدہ: اس حدیث کے متعلق علامہ ناصر الدین البانی v اپنی کتاب ( صحیح الجامع الصغیروزیادتہ ،ج :۱، ص: ۷۳۱، رقم الحدیث : ۳۳۴ )میں فرماتے ہیں کہ یہ روایت صحیح ہے۔ اس حدیث میں لفظ ’’أَکُفُّہُمَا‘‘ جمع استعمال ہوا ہے، لفظ ’’ أَکُفُّ ‘‘ ۔۔۔’’ کف‘‘ کی جمع ہے۔ حدیث کا مفہوم یہ ہے ہاتھوں کے جدا ہونے سے پہلے ان کی مغفرت کردی جاتی ہے، تو یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ مصافحہ دوہاتھ سے ہونا چاہیے، اس لیے کہ اگر ایک ہاتھ سے مصافحہ ہوتا تو حدیث میں جمع کا لفظ استعمال نہ ہوتا، بلکہ تثنیہ کا ہوتا کہ ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ سے ملایا جائے، اس کے لیے ’’کَفَّاھُمَا‘‘ صیغہ تثنیہ ہونا چاہیے تھا، نہ کہ جمع۔ حضرت انس q فرماتے ہیںکہ آپ a نے فرمایا: ’’عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ نَبِیِّ اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَامِنْ مُسْلِمَیْنِ الْتَقَیَا، فَأَخَذَ أَحَدُہُمَا بِیَدِ صَاحِبِہٖ ، إِلَّاکَانَ حَقًّاعَلٰی اللّٰہِ أَنْ یَّحْضُرَ دُعَائَ ہُمَا، وَلَایُفَرِّقَ بَیْنَ أَیْدِیْہِمَا حَتّٰی یَغْفِرَلَہُمَا۔‘‘(۱۰) ’’ جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پر یہ حق ہوجاتا ہے کہ ان کی دُعاؤں کو سُنے اور ان دونوں کے ہاتھوں کے جدا ہونے سے پہلے ( اللہ تعالیٰ ان کی) مغفرت فرمادیتے ہیں۔ اس حدیث میں یہ جملہ ’’لَایُفَرِّقَ بَیْنَ أَیْدِیْہِمَا‘‘ ان دونوں کے ہاتھوںکے جدا ہونے سے پہلے ان کی مغفرت کردی جاتی ہے، اس حدیث میں’’أَیْدِیْہِمَا‘‘ جمع استعمال ہوا ہے، اگر مصافحہ صرف ایک ہاتھ سے ہوتا تو یہاں تثنیہ’’یَدَیْہِمَا‘‘  استعمال ہوتا ہے، حالانکہ یہاں جمع ذکر ہوا ہے۔ اسی طرح حضرت انس q سے روایت ’’مسند أبی یعلی‘‘ میں ان الفاظ کے ساتھ ہے: ’’عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَامِنْ مُسْلِمَیْنِ الْتَقَیَا فَأَخَذَ أَحَدُہُمَا بَیَدِ صَاحِبِہٖ إِلَّاکَانَ حَقًّا عَلٰی اللّٰہِ أَنْ یُّجِیْبَ دُعَائَ َہُمَا وَلَایَرُدَّ أَیْدِیَہُمَا حَتّٰی یَغْفِرَلَہُمَا۔‘‘(۱۱) اس حدیث میں بھی ’’أَیْدِیَہُمَا‘‘ جمع استعمال ہوا ہے۔ قاضی عیاض مالکی v( متوفی ۴۴۵ھ) فرماتے ہیں کہ سلام اور ملاقات کے وقت مصافحہ دونوں ہاتھوں کے ساتھ ہوگا: ’’اَلْمُصَافَحَۃُ بِالْأَیْدِیْ عِنْدَ السَّلَامِ وَاللِّقَائِ ۔‘‘(۱۲) نیز ائمہ فقہ کی تصریحات بھی اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مصافحہ دو ہاتھوں کے ساتھ سنت ہے، چنانچہ علامہ حصکفی v  فرماتے ہیں: ’’السُّنَّۃُفِی الْمُصَافَحَۃِ بِکِلْتَا یَدَیْہِ۔‘‘ مصافحہ میں سنت یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کے ساتھ ہو۔ علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ملاقات کے وقت سلام کے بعد بغیر کسی حائل کے چاہے وہ کپڑا ہو یا اس کے علاوہ ہو، دونوں ہاتھوں کے ساتھ مصافحہ کرنا سنت ہیـ: ’’وَالسُّنَّۃُأَنْ تَکُوْنَ بِکِلْتَا یَدَیْہِ ، وَبِغَیْرِحَائِلٍ مِنْ ثَوْبٍ أَوْ غَیْرِہٖ وَعِنْدَ اللِّقَائِ بَعْدَ السَّلَامِ۔‘‘(۱۳) نیز ’’ مجمع الأنھر فی شرح ملتقی الأبحر‘‘ میں بھی دو ہاتھوں کی صراحت ہے : ’’وَالسُّنَّۃُ فِیْ الْمُصَافَحَۃِ بِکِلْتَا یَدَیْہِ۔‘‘(۱۴) فائدہ: ہر زبان میںواحد کا صیغہ دو طرح سے استعمال ہوتا ہے: ۱:۔۔۔ بطور مفرد یعنی اس سے ایک ہی مراد ہو۔ ۲:۔۔۔ بطورِ جنس اس وقت صیغہ واحد کا ہوتا ہے، لیکن اس سے متعدد افراد مراد ہوتے ہیں۔ قرآنِ کریم میںہے: ’’وَلَاتَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً إِلٰی عُنُقِکَ‘‘۔(۱۵) اس آیت میں لفظ ’’ید‘‘ اسمِ جنس استعمال ہوا ہے۔ اس طرح احادیث ِمبارکہ میں بھی کئی ایک اس کی مثالیں موجود ہیں، مثلاً آپ a نے فرمایا: ’’المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہٖ وَیَدِہٖ ۔‘‘(۱۶) ’’مسلمان وہ ہے جس کے زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔ ‘‘ اس طر ح آپ a نے فرمایا: ’’مَنْ رَأٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ۔‘‘(۱۷) ’’جو تم میں سے برائی کو دیکھے پس وہ اس کو اپنے ہاتھ سے مٹائے۔‘‘     ان دونوں احادیث میںلفظ ’’ ید‘‘ مفرد استعمال ہوا ہے، لیکن یہاں یہ قطعاً مراد نہیں ہے کہ مسلمان کے ایک ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں، اور دوسرے ہاتھ سے نہ ہوں۔ اسی طرح کسی برائی کو دیکھو تو اُس کا سدِّباب صرف ایک ہاتھ سے کرو دوسرے ہاتھ سے نہ کرو۔ ان احادیث سے صرف ایک ہاتھ کا معنی امت میں کسی نے مراد نہیں لیا، بلکہ محدثین یہی فرماتے ہیں کہ یہاں لفظِ ’’ید‘‘ اسم جنس ہے، تو اسی طرح وہ احادیث جو مصافحہ سے متعلق ہیں اور وہاں لفظِ ’’ید‘‘ استعمال ہوا ہے تو وہ بھی اسمِ جنس کے لیے ہے۔ اسی طرح ماقبل میں حدیث گزری ہے کہ مصافحہ کرنے سے گناہ جھڑتے ہیں، تو کیا صرف ایک ہاتھ سے گناہ جھڑتے ہیں؟ دوسرے ہاتھ کے گناہ نہیں جھڑتے ؟ ’’أَللّٰہُمَّ اجْعَلْ فِیْ قَلْبِیْ نُوْرًا وَّ فِیْ بَصَرِیْ نُوْرًا وَّفِیْ سَمْعِیْ نُوْرًا۔‘‘(۱۸) ’’اے اللہ! میرے دل میں نور پیدا فرما اور میری آنکھوں میں نور پیدا فرما اور میرے کانوں میں نور پیدا فرما۔ ‘‘ اس حدیث میں صیغے مفرد کے ہیں، لیکن یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اے اللہ! میری صرف ایک آنکھ اور ایک کان میں نور پیدا فرما اور دوسرے کان اور آنکھ میں نہ فرما، بلکہ یہ اسمِ جنس کے معنی میں ہے۔ اگر بالفرض ’’ید‘‘ سے اسمِ جنس والا معنی مراد نہ لیں، بلکہ ایک ہاتھ مرادلیں، تو لغت ِعرب میں ’’ید‘‘ کا اطلاق انگلیوں سے لے کر کندھوں تک ہوتا ہے، تو کیا اگر دو آدمی بو قت ِسلام دونوں بائیں کہنیاں یا دونوں بائیں کندھے یا دائیں ہاتھ کی کہنیاں یا کندھے ملائیں تو کیا مصافحہ والی احادیث پر عمل ہوجائے گا یا نہیں؟ کیوں کہ بایاں ہاتھ بھی تو ’’ید‘‘ ہی ہے، پائوں تو نہیں۔ نیز اگر ’’ید‘‘سے ایک ہاتھ بھی مراد ہوتو دو ہاتھ سے مصافحہ کی صورت میں تمام روایات پر عمل ہوجائے گا، جس طرح تین دفعہ اعضاء کو دھونے سے ایک، دو اور تین مرتبہ دھونے والی تمام احادیث پر عمل ہوجائے گا۔ باقی رہی یہ بات کہ لغت کی کتابوں میں مصافحہ کی تعریف ’’إلصاق صفحۃ الکف بالکف‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’ایک ہتھیلی کو دوسری ہتھیلی کے ساتھ ملانا‘‘ سے کی گئی ہے۔ لغت کی ان تعریفات سے بھی ایک ہاتھ سے مصافحہ ثابت نہیں ہوتا، اس لیے کہ یہ تعریف تو بائیں ہاتھ پر بھی صادق آرہی ہے، لہٰذا اگر دو آدمی بائیں ہتھیلیوں کے ساتھ مصافحہ کریں تو لغۃً یہ تعریف ان پر بھی صادق آرہی ہے کہ ہتھیلی کو ہتھیلی کے ساتھ ملا رہے ہیں، حالانکہ امت میں کوئی بھی اس مصافحہ کا قائل نہیں ہے۔ نیز اگر کوئی لفظ معنی شرعی اور لغوی کے درمیان دائر ہو جائے تو اس وقت معنی شرعی کا لحاظ رکھا جائے گا، نہ کہ معنی لغوی کا، جیسے صلوٰۃ کا معنی لغوی دُعا ہے، صوم کا معنی رکنا ہے، حج کا معنی قصدوارادہ کرنا ہے تو اب ان الفاظ ِ شرع سے ان کے معانی شرعیہ مراد ہوں گے نہ کہ معانیِ لغویہ، اگر لغوی معنی کا ہر جگہ لحاظ رکھا جائے اور وہی مراد لیا جائے تو شرعیت کا نقشہ بدل جائے گا۔ ’’یَدُوْرُ اللَّفْظُ بَیْنَ مَعْنَیَیْنِ ہُوَ فِیْ أَحَدِہِمَا حَقِیقَۃٌ لُغَوِیَّۃٌ وَفِیْ الْأٰخَرِ حَقِیْقَۃٌ شَرْعِیَّۃٌ فَالشَّرْعِیَّۃُ أَوْلٰی۔‘‘(۱۹) ’’أَلْفَاظُ الشَّارِعِ مَحْمُوْلَۃٌ عَلٰی عُرْفِہٖ لِأَنَّہٗ الْمُحْتَاجُ إِلَیْہِ فِیْہِ لِکَوْنِہٖ بُعِثَ لِبَیَانِ الشَّرْعِیَّاتِ لَالِبَیَانِ مَوْضُوْعَاتِ اللُّغَۃِ۔‘‘(۲۰) بہر حال اب تک کوئی ایسی صحیح اور صریح روایت بندے کے سامنے نہیں آئی جس میں آپ a نے صرف دائیں ہاتھ سے مصافحہ کا حکم دیا ہو، یا آپ a نے خود عملاً دائیں ہاتھ سے مصافحہ کیا اور بائیں ہاتھ کو دور رکھا ہو ہاتھ نہ لگایا ہو، نہ ہی آپa کے سامنے کسی نے اس طرح کیا ہے، نہ ہی’’ ید‘‘ کے ساتھ ’’واحدۃ‘‘ کی قید کسی حدیث میں ہے، لہٰذا بندے کے نزدیک احادیث وآثار اور عقل کی روشنی میں دو ہاتھ سے مصافحہ کرنا مسنون اور بہتر عمل ہے، واللّٰہ أعلم بالصواب ۔ حوالہ جات ۱:…صحیح بخاری : کتاب الا ستئذان، باب المصافحۃ، ج :۸ ،ص: ۹۵            ۲:…ایضاً ۳:…ایضاً                            ۴:…ایضاً ۵:…فتح الباری: کتاب الا ستئذان، باب المصافحۃ، ج:۱۱، ص: ۵۵        ۶:…التاریخ الکبیر:ج: ۱، ص: ۲۴۳، رقم : ۴۸۰۱ ۷:…فیض الباری: کتاب الاستئذان، باب المصافحۃ، ج :۶، ص: ۴۰۲     ۸:…الأدب المفرد: باب تقبیل الید، ص: ۲۴۵ ۹:…المعجم الکبیر للطبرانی : باب الصاد، ج: ۸، رقم الحدیث : ۶۷۰۸        ۱۰:…مسند احمد: مسند أنس بن مالک، رقم الحدیث: ۱۵۴۲۱۔ ۱۱:…مسند أبی یعلی: مسند أنس بن مالک، ج:۷، ص: ۵۶۱، رقم الحدیث : ۹۳۱۴     ۱۲:…مشارق الأنوار علی صحاح الآثار: حرف الصاد، مادۃ:(ص ف ح) ج: ۲، ص: ۹۴ ۱۳ :…رد المحتار : کتاب الحظرو الاباحۃ، باب الاستبرائ، ج: ۶، ص: ۲۸۳      ۱۴:…مجمع الانھر: کتاب الکراھیۃ، باب أحکام النظر، ج:۲،ص:۱۴۵ ۱۵:… الاسرائ:۹۲                ۱۶:…صحیح بخاری : کتاب الایمان، باب: المسلم من سلم المسلمون الخ، ج: ۱، ص: ۱۱ ۱۷:…صحیح مسلم : کتاب الایمان، ج: ۱،ص: ۹۶، رقم الحدیث : ۹۴        ۱۸:…صحیح بخاری: کتاب الدعوات، ج: ۸، ص: ۹۶، رقم الحدیث : ۶۱۳۶ ۱۹:…البرھان فی علوم القر آن : النوع الحادی والأربعون، ج: ۲،ص :۷۶۱    ۲۰:…فتح الباری: کتاب الاذان، ج: ۲ ،ص: ۷۳۲

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین