بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مسند ِ بنوری ؒکے جانشین اُن کی یادیں، اُن کی باتیں اور مستقبل کا لائحہ عمل

   مسند ِ بنوری ؒکے جانشین  اُن کی یادیں، اُن کی باتیں اور مستقبل کا لائحہ عمل 

ماضی کے دریچوں میں جھانک کر کچھ تلخ یادیں تازہ کرنے کے لئے قلم ہاتھ میں لیا تو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ابتداء کہاں سے کروں؟ میں سوچ رہا تھا کہ ایک عظیم مفتی اور لاجواب مدرس اور انتہائی شیریں زباں ،دھیمے لہجے کے مالک حضرت مفتی محمد عبد المجید دین پور ی شہید رحمہ اللہ کے تیار ہونے میں کم و بیش ساٹھ برس لگے۔ اللہ رب العزت اور تقدیر کے فیصلے پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں اور کوئی اعتراض کر بھی کیسے کر سکتا ہے ؟ اور کیونکر ؟(کہ ایسا کیوں ہوا؟ )لیکن بہر حال ساٹھ برس تک کتنے افراد کی کتنی محنت، کتنے لوگوں کا سرمایہ ،کتنے اساتذہ کی شب و روز کی تھکا دینے والی محنتوں کے بعد اتنا بڑا ایک انسان تیار ہوا، لیکن ظالم درندوں کی صرف بیس سیکنڈ کی درندگی نے اس عظیم ہستی کو ہم سے چھین لیا۔بس! یوں سمجھئے کہ اندھیری رات کے تھکے ہارے، تندو تیز ہوائوں اور موسموں کے ستائے ہوئے ،راہ سے بھٹکے ہوئے مسافروں کو نشانِ منزل بتلانے والے، ایک جلتے دیپ کو پھونک مار کر گل کر دیا گیا۔حضرت دین پور ی شہید رحمہ اللہ کے وہ الفاظ ابھی تک گویا میری سماعتوں کے ساتھ ٹکرا رہے ہیںکہ’’ میری بڑی صاحب زادی آئی ہوئی تھی تو مجھے کہنے لگی: ابو! آپ ذرا باہر جاتے ہوئے خیال کیا کریں، اپنی حفاظت کا بہت زیادہ خیال کیا کریں۔ تو میں نے جواب دیا:’’ میڈی دھی!جیڑھی رات قبر اچ لکھی ہے، اوہ باہروں نئیں آسکدی،تے جیڑھی رات باہروں لکھی ہے، اوہ قبر اچ نئیں آسکدی‘‘( بیٹی! جو رات قبر میں لکھی ہوئی ہے، وہ کبھی باہر نہیں آسکتی اور جو باہر لکھی ہوئی ہے، وہ کبھی قبر میں نہیں آسکتی)۔جی ہاں! اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ رات ان کی قبر ہی میں لکھی ہوئی تھی، وہ بھی شہادت جیسی عظیم موت پا کر، میں تو سچ بتائوں !کہ ان کی قسمت پر ناز کرتا ہوں کہ ٹھیک ہے جانا تو ہر کسی نے ہے ،لیکن امیر المومنین سید نا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وہ تمنا اور دعا  :’’ أللّٰھم ارزقنی شہادۃً فی سبیلک واجعل موتی فی بلد حبیبک‘‘اسلام کے غلبہ پا جانے کے بعد مدینہ کے اندر رہ کر شہادت کی تمنا کرنابظاہر ایک عجیب وغریب بات تھی، لیکن جب اللہ رب العزت کی طرف سے قبولیت ہو جائے تو پھر تمام بند دروازے کھل جایا کرتے ہیں اور راستے کی تمام رکاوٹیں خود بخود دور ہو جایا کرتی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وہ دعا قبول فرمائی اور’’ جعل موتہ فی  بلد حبیبہ‘‘ کر دیا۔  حضرت دین پور ی شہید رحمہ اللہ نہ صرف یہ کہ تگڑے اور بہترین مدرس اور ہر دل عزیز شخصیت تھے، بلکہ وہ ایک انتہائی کہنہ مشق مفتی بھی تھے اور عافیت کے گوشوں میں بیٹھے ہوئے ایک مدرس و مفتی کے لئے ان کاموں کو جاری رکھے ہوئے بظاہر جہاد کے میدانوں میں جانا اور شہادت جیسے عظیم مرتبہ کو حاصل کرنا ایک ناممکن سی بات ہے۔میں نہیں سمجھتا کہ حضرت دین پوری شہید رحمہ اللہ نے کبھی مقبول شہادت کی دعا نہ مانگی ہو۔ بطورِ جملہ معترضہ درمیان میں حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کی ایک بات یاد آئی کہ’’ جب بھی اللہ سے دعا مانگو تو یوں مانگو: اے اللہ! مجھے سعادت کی طویل زندگی اور شہادت کی مقبول موت عطاء فرما ، اس لئے کہ جہاں شہادت ایک عظیم نعمت ہے وہیں زندگی بھی تو اللہ تعالیٰ کا ایک خاص اور عظیم عطیہ ہے، لیکن جب زندگی سعادت کی مل جائے توجتنی طویل ہو کم ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس باسعادت زندگی میں اپنے دینِ عالی کے بڑے بڑے کام کرنے کی توفیق عطاء فرمائیں گے جس میں اپنا بھی دنیا و آخرت کا فائدہ ہے اور پوری امت مسلمہ کا بھی ۔ اللہ رب العزت نے حضرت لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کے حق میں یہ دعا کس خوبی سے قبول فرمائی ،واقفانِ حال سے مخفی نہیں، اسی طرح اللہ رب العزت نے حضرت دین پوری شہید رحمہ اللہ کے حق میں بھی حضرت سیدنا فاروق اعظمؓ کی دعا اس انداز میں کہ اپنے مقام پر رہتے ہوئے دیگر دینی کاموں کے ساتھ ساتھ قبول فرمائی، اور ایسے ہی حضرت لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کی دعا بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت دین پوری شہید رحمہ اللہ کے حق میں احسن انداز میں قبول فرمائی، ان کی دعا تو قبول ہو گئی، اور ان کی جدائی پر ہمارے دل غمزدہ اور افسردہ بھی ہیں ،لیکن غم کی اس شدید ترین گھڑی میں بھی ان شاء اللہ تعالیٰ! زبان سے وہی الفاظ نکلیں گے جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہو۔ جنابِ نبی کریم ا کے پیارے بیٹے ابراہیمؓ جب اس دنیا سے تشریف لے گئے تو آنحضرت ا کی آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں اور دل غمگین تھا، لیکن زبان سے ’’ ولا نقول إلا بمایرضی بہ ربنا وإنا بفراقک یا إبراھیم!لمحزونون‘‘ ۔ ویسے دیکھا جائے تو حضرت بنوری رحمہ اللہ کے گلشن کی یہ خاص خصوصیت ہے کہ اس گلشن کے متعلقین کو اللہ تعالیٰ شہادت جیسی نعمت عظمیٰ سے تسلسل کے ساتھ نوازتے چلے آرہے ہیں،یہ سلسلہ حضرت مولانا حبیب اللہ مختار شہید رحمہ اللہ تعالیٰ سے شروع ہوا اور حضرت مفتی عبد السمیع شہیدؒ اور پھر حضرت لدھیانوی شہیدؒ اور حضرت مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ،حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری شہید رحمہم اللہ تعالیٰ اور اب حضرت مفتی محمد عبد المجید دین پوری شہید رحمہ اللہ تعالیٰ بھی اس قافلۂ شہداء میں شامل ہو گئے ،نہ معلوم یہ سلسلہ کہا جاکر رکے گا؟اس لئے حضرت بنوری رحمہ اللہ کے اس گلشن کے بارے میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا: یہ روح پیاسی ہمیں ورثے میں ملی ہے دُکھ درد سے رشتہ ہے صدیوں سے ہمارا یہ سُرخ لباسی ہمیں ورثے میں ملی ہے  اپنی شہادت سے ٹھیک پندرہ دن قبل جمعرات کے روز حضرت دین پوری شہید رحمہ اللہ تعالیٰ ہمارے جامعہ میں تشریف لائے، اُن کے ساتھ مولانا مفتی شعیب عالم اور مفتی رفیق احمدبالا کوٹی صاحب بھی تھے،قبل از عصر تقریب تقسیم انعامات تھی، اس کے بعد حضرت نے مختصر مگر انتہائی پر مغز بیان فرمایا ،نمازِ عصر کے بعد حضرت کی خواہش پر قریبی ساحلِ سمندر پر چلے گئے، وہیں ساحل پر کچھ احباب جوس وغیرہ لے کر آگئے، میرے چھوٹے بھائی مولانا مفتی محمد امتیاز بڑے ہی خوش مزاح و خوش طبع واقع ہوئے ہیں،حضرت کے ساتھ وہیں پر تھوڑی دیر کے لئے ظریفانہ گفتگو کی محفل جم گئی، حضرت مغرب تک ان کی گفتگو سے محظوظ ہوتے رہے ،مغرب کی نماز وہیں قریبی مسجد میں ادا کی اور واپس جامعہ میں چلے آئے اور پھر مغرب کے بعد کھانے پر بھی مجلس بڑی ہی پر لطف رہی ،عشاء کی نماز یہیں ادا کی اور نمازِ عشاء کے بعد ایک پرانی اور بوسیدہ سی کار میں رات دس بجے کے قریب بنوری ٹائون واپس تشریف لے گئے۔میں آج نگاہِ تصور میں اس پرانی اور بوسیدہ سی کار میں روانہ ہونے والے جنت کے اس تھکے ہارے مسافر کو رخصت ہوتے ہوئے دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ واقعتا ساٹھ سال کا طویل ترین سفر طے کرنے والا تھکا ہوا مسافر آج یقینا اللہ تعالیٰ کی میزبانی سے اس کی جنت میں لطف اندوز ہو رہا ہوگا۔أللّٰھم اغفرہ وارحمہ ولا تعذبہ واحشرہ فی زمرۃ الصالحین ، اللّٰھم اجعل قبرہ روضۃ من ریاض الجنۃ ، أللّٰھم ارزقہ فردوس الأعلیٰ،آمین یارب العالمین!۔ حضرت دین پوری شہید رحمہ اللہ تعالیٰ تو اپنی زندگی کا وہ خاردار سفر جو مشقتوں ،پریشانیوں اور رنج و الم سے پُر تھا، مکمل کر کے اعلیٰ علیین میں پہنچ گئے، لیکن ہمارے لئے بلکہ پوری امت مسلمہ کے لئے چبھتے ہوئے کچھ سوالات چھوڑ کر چلے گئے: ٭…کیا علمائے امت کا خون ڈیڑھ کروڑ کی آبادی رکھنے والے اس شہر میں اتنا سستا ہو گیا کہ پیاز ،ٹماٹر اور آلو کی قیمت سے بھی گر گیا کہ وہ پھر بھی چالیس ،پچاس روپے کلو میں فروخت ہوتے ہیں، لیکن علمائے امت کا خون صرف تیس روپے کی ایک گولی کے برابر ہو گیا؟ ٭ …کیا شہرِ قائد کی ان گلیوں میں آئندہ بھی ان علماء کا خون دن دَہاڑے اسی طرح بہتا رہے گا؟ ٭… سردی گرمی ،دھوپ بارش، آندھی طوفان، غرض حالات کچھ بھی ہوں مساجد و مدارس کو أللّٰہ أکبر اور قال اللّٰہ و قال الرسول کی زمزمہ بار صدائوں سے آباد رکھنے والے ان علماء کی زندگیاں ان خطرات سے ایسے ہی دو چار رہیں گی؟ یا پھر وہ علماء و مشایخ اپنے ہی وطن عزیز میں رہتے ہوئے بھی ہجرت پر مجبور کر دیئے جائیں گے؟ ٭…ان علماء کا مستقبل کیا ہوگا؟ اور اس شہر ِکراچی کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا یہ علماء اور شہر ِقائد کے باسی اسی طرح خوف کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور رہیں گے؟جہاں نہ ان کا مال محفوظ ہے اور نہ ہی جان ،موٹر سائیکل سے لے کر لینڈ کروزر تک کسی گلی محلہ کے کھوکے (کیبن) سے لے کر بڑی انڈسٹری اور شوروم تک ،دیہی علاقوں کی کچی گلیوں کے خستہ حال مکانوں کے مکینوں سے لے کر ،ڈیفنس اور کلفٹن کے بنگلوں اور محلات تک ،ہر کوئی ڈکیتی، راہ زنی اور بھتہ کے عفریت سے محفوظ نہیں، آخر ان کا مستقبل کیا ہوگا؟ تو آئیے ! ان سوالات کے جوابات تاریخ کے اوراق، صحابہؓ و تابعین کی زندگی اور حضورا کی سیرتِ طیبہ میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مکہ کے تپتے صحرا ،دوپہر کا وقت،جسموں کو  جھلسا دینے والی لُو، لیکن آقائے مدنی ا کا ایک غلام جس کو بلال حبشیؓ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، پتھر کی بھاری چٹانوں تلے دبا ہوا، صحرا کے ذروں کی پیاس اپنے پسینے سے بجھاتے ہوئے’’ أحد ، أحد‘‘ کی صدائیں بلند کرتا ہوا، قیامت تک آنے والے آقا ئے مدنی کے نام لیوائوں کو درسِ عشق سکھا رہا تھا کہ: اے مرغِ سحر! عشق زِ پروانہ بیاموز کاں سوختہ را جاں شد و آواز نیامد وہ مرد نہیں جو ڈر جائے حالات کے خونی منظر سے جس حال میں جینا مشکل ہو اس حال میں جینا لازم ہے  ایک طرف ایمان کی قوت اور دوسری طرف پہاڑوں کے دل دہلا دینے والی بربریت، لیکن عشق تو عشق ہوتا ہے حقیقی ہو یا مجازی ،جب کسی سے عشق ہو جاتا ہے تو پھر انجام کی پرواہ ختم ہو جایا کرتی ہے کہ اے اہل اسلام! قربانیاں دینا تو ہماری روایت ہے، تم حالات کا شکوہ کیوں کر رہے ہو ؟ سینہ تان کر میدا ن میں نکل کر: دشمن سے کہو اپنا ترکش چاہے تو دوبارہ بھر لائے اس سمت ہزاروں سینے ہیں اُس سمت اگر ہیں تیر بہت اس سے بھی تھوڑا سا آگے بڑھ کر ذرا اس منظر کو بھی دیکھئے !کہ دونوں جہانوں کے سردار ، آقائے نامدار، سید الاولین والآخرین حضرت محمد مصطفی ا آخر حالات سے اتنے تو دلبر داشتہ ہو گئے تھے اور مکہ والوں کے مظالم سے اتنے تو تنگ آگئے تھے کہ مجبور ہو کر اپنے ساتھیوں کے لئے جائے پناہ تلاش کرنے کے لئے طائف کا رُخ کیاکہ کہیں میرے ساتھی صبر کا دامن چھوڑ نہ بیٹھیں، لیکن اس کا انجام کراچی کے آج کے حالات سے کہیں زیادہ بھیانک نکلا، آقا ئے نامدار فداہ ابی وامی ا کے جوتے خون سے رنگین ،طائف کی گلیوں کے پتھر اور ذرات آقائے مدنی ا کے لہو سے منہ دھو کر قیامت تک کے لئے آنے والے امتیوں کو سبق سکھا گئے   ؎ تندیٔ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب! یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لئے  اور خاص کر وہ منظر تو تاریخ کبھی بھلائے سے بھی نہ بھولے گی کہ رسول اللہ ا کعبہ کے سائے میں نماز پڑھنے میں مشغول اور قوم کا ایک بد بخت لعین اٹھا اور جا کر اونٹ کی اوجھڑ ی اور انتڑیاں اٹھا کر لے آیا اور امام الانبیاء ا کے سجدے میں جانے کا انتظا ر کرنے لگا، جب امام الانبیاء ا سجدے میں گئے تو اس بدبخت نے وہ سارا گند آپ علیہ الصلوۃ والسلام پر ڈال دیا۔ آہ۔۔۔۔۔ ! کتنا بے بسی اور بے کسی کا عالم کہ حضور انور ا اونٹ کی اوجھڑی تلے دبے پڑے ہیں، لیکن’’اللہ رب العزت کا فیصلہ ہے کہ ’’تلک الأیام ندا ولھا بین الناس‘‘بالآخر آسمان نے وہ منظر بھی تو دیکھا جب رسولِ پاک اچھڑی لے کر قلیبِ بدرمیں ایک ایک بدبخت کی لاش کے اوپر چڑھ کر اس کو مار رہے تھے اور کہہ رہے تھے: ’’ہل وجد تم ما وعد ربکم حقا‘‘اور یہ بھی کہ جس مکہ سے آنحضرت ا کو راتوں رات چپکے سے نکلنے پر مجبور کیا گیا تھا ،پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ اسی مکہ میں دس ہزار صحابہؓ  کا لشکر لے کر فاتح بن کر مکہ میں داخل ہو رہے تھے۔ ذرا سا سوچئے! کہ پوری امت کے سارے علمائ، فقہائ، مجتہدین، محدثین، مفسرین، غوث،  قطب، ابدال اور اولیاء کا خون ایک طرف اور امام الانبیاء ا کے خون کا ایک قطرہ ایک طرف، کیا مناسبت ہے دونوں میں؟ یہاں تقابل کا تو امکان ہی نہیں، لیکن کیا طائف کی وادی میں پتھر کھانے نے، ابوبکر صدیق ؓ کے مارمار کرزخمی ہونے نے،بلال حبشی ؓ کے گھسیٹے جانے نے، سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو چیر کر دو ٹکڑے کر دیئے جانے نے،اور ایک نہیں ،دو نہیں،چار نہیں بلکہ ستر قراء کے جنازے اٹھانے نے ،غرض یہ کہ ان تمام مصائب اورآلام نے سر ورِ دو عالم ا کے حوصلے کیا پست کر دیئے تھے؟ اور کیا دیگرتمام صحابہ کرام ؓ اس ظلم و بربریت کو دیکھ کر اپنے مشن سے پیچھے ہٹ گئے تھے ؟کیا ان کی ہمتیں جواب دے گئی تھیں؟ اور کیا آج کراچی کے حالات اور دشمن کا ظلم و ستم اُس وقت کے ظلم و بربریت سے بڑھ گیا ہے؟ نہیں! ہر گز نہیں! اور یقینا نہیں! تو پھر ہمارے حوصلے کیوں پست ہو رہے ہیں ؟اور ہماری ہمتیں کیوں جواب دے رہی ہیں؟حوصلے تو ان قوموں کے پست ہوا کرتے ہیں جن کے سامنے کوئی منزل نہ ہو یا اُن کو منزل تک پہنچنے کا یقین نہ ہو،ہماری تو منزل بھی متعین ہے اور منزل پر پہنچنے کا یقین بھی ہے، ہمارے لئے ناکامی تو ہے ہی نہیں، جب تک اللہ تعالیٰ اپنے دین کا کام لے اس کی مرضی، اور جب شہادت جیسی عظیم موت سے سرفراز فرما دے تو زہے نصیب!  ہم تو دعا ہی اسی موت کی کرتے ہیں، اس سے بڑھ کر نعمتِ عظمیٰ اور کیا ہو سکتی ہے؟ دشمن کے نزدیک جو سب سے بڑا نتقام او رسب سے بڑی سزا ہے وہی تو ہماری منزل ہے۔ہاں! شرعی حدود اور اپنی وسعت میں رہتے ہوئے اسباب اور احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنا بھی ہمیں ہماری شریعت اور ہمارے مذہب نے سکھایا ہے، باقی موت تو ایک دن آنی ہی ہے، اس کا وقت تو متعین ہے، اس سے توکوئی مفر نہیں’’ أَیْنَ مَا تَکُوْنُوْا یُدْرِکْکُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَۃٍ‘‘۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ہر عالم کی شہادت ہمارے جذبوں کو اور جوان کرے، ہر طالب علم کی موت ہمارے حوصلوں کو اور جِلا بخشے ،ہر مسلمان کی مظلومانہ جدائی ہمیں آگے بڑھنے کا نیا جذبہ اور نیا ولولہ دے، حضرت دین پور ی شہید رحمہ اللہ اپنے قول اور عمل کے سچے نکلے کہ ’’جیڑھی رات قبر اچ لکھی ہے او باہروں نئیں آسکدی،تے جیڑھی رات باہروں لکھی ہے او قبر اچ نئیں آسکدی‘‘۔ خطرات کے باوجود وہ خدمتِ دین اور اپنے مشن سے پیچھے نہ ہٹے ،کراچی شہر کے ان سلگتے حالات میں بھی وہ اپنی دھن میں مگن رہے،ذرہ بھر بھی پیچھے نہ ہٹے اور اپنے عمل سے ہمیںیہ بتلا گئے    ؎ کلیوں کو میں خونِ جگر دے کے چلا ہوں صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی مصائب سے اُلجھ کر مسکرانا میری فطرت ہے مجھے ناکامیوں پر اشک برسانا نہیں آتا لیکن کوئی بات نہیںاے اہلِ باطل! یہ تمہارے دن ہیںاور وہ دن دور نہیں جب تاریخ اپنے آپ کو دُہرائے گی اور ہاتھ ہمارا ہوگا اور گردن تمہاری۔ اگر یہاں نہیں تو کہیں تو ہوگا،اللہ کے ہاں دیر توہے، اندھیر نہیں۔ رُسوائے زمانہ ’’پرویز مشرف ‘‘کے الفاظ شاید آپ ابھی تک بھولے نہیں ہوں گے:’’ لال مسجد والے سرنڈر ہو جائیں، میرے پاس بہت طاقت ہے،ورنہ سب مارے جائیں گے‘‘ طاقت کے نشے میں اس بد مست ہاتھی کو آج اپنی دھرتی بھی جگہ دینے کے لئے تیار نہیں اور اُمید ہے کہ یہ دھرتی اُس کو جگہ دے گی بھی نہیں، جس طرح کہ جنرل سکندرمرزا کو اس دھرتی نے جگہ نہیں دی اور پھر بڑی مشکل اور منت سماجت کے بعد ایران میں اس کی ’’اَرتھی‘‘ کو مٹی تلے دبا دیا گیا اور پھر ایرانی انقلاب نے اس کی مٹی کی ڈھیری کو بھی صفحۂ ہستی سے مٹا ڈالا۔فاعتبروا یٰأولی الأبصار، فاعتبروا یٰأولی الأبصار، فاعتبروا یٰأولی الأبصار۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین