بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

 مسلمانوں کے لیے لائحہ عمل!

 مسلمانوں کے لیے لائحہ عمل!


آئیے! ان تازہ حقائق کی روشنی میں غور کریں کہ مسلمانوں کا آئندہ لا ئحہ عمل کیا ہونا چا ہیے، مسلمانوں پر حق تعالیٰ شانہٗ کا یہ عظیم احسان ہے کہ ان کے پاس ہر شعبۂ زندگی کی طرح صلح و جنگ کے لیے بھی آسمانی ور بانی ہدایات موجود ہیں۔ سورۂ انفال اور سورۂ تو بہ میں صلح وجنگ اور اعداء اسلام اور منافقین کے مقابلہ کا مفصل دستور العمل موجود ہے، قرآن کریم کا کتنا صاف اعلان اور واضح مطالبہ تھا:
’’وَأَعِدُّوْالَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّاللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ وَأٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ لَاتَعْلَمُوْنَھُمُ اللّٰہُ یَعْلَمُھُمْ وَمَاتُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یُوَفَّ إِلَیْکُمْ وَأَنْتُمْ لَاتُظْلَمُوْنَ۔‘‘                                      (الانفال:۶۰) 
 ’’اور ان کا فروں کے لیے جس قدر تم سے ہو سکے ہتھیار سے اور پلے ہوئے گھوڑوں سے سامان درست رکھو اور اس کے ذریعہ تم رعب جمائے رکھو اُن پر، جو کہ اللہ کے دشمن ہیں اور تمہارے دشمن ہیں اور ان کے علاوہ د وسروں پر بھی جن کو تم نہیں جانتے، ان کو اللہ ہی جانتا ہے اور اللہ کی راہ میں جو کچھ بھی خرچ کر و گے وہ تم کو پورا دے دیا جائے گا اور تمہارے لیے کچھ کمی نہیں ہو گی۔‘‘                                  (ترجمہ حضرت تھانویؒ) 
یہ ارشادِ ربانی مسلمانوں پر بطور خاص یہ فریضہ عائد کرتا ہے کہ ان کے پاس ہمہ وقت اتنی قوت موجود رہنا ضروری ہے جس سے اعداء اسلام مر عوب، خائف اور لر زہ براندام رہیں اور پوری مسلم قوم کو اس کی تیاری میں مصروف رہنا چاہیے۔
 مگر مسلمانوں پر صد یوں سے ایک جمود سا طاری ہے اور وہ نفس پر ستی، عیش کو شی اور اغراض پرستی کی دلدل میں کچھ ایسے پھنسے ہیں کہ عرصہ درازسے مسلمان حکومتوں نے اس فریضۂ الٰہی سے تغافل اختیار کر رکھا ہے اور سورۂ تو بہ وانفال کی واضح ہدایات کے ہوتے ہوئے غفلت وجہالت کی وادیوں میں بھٹک رہے ہیں، جبکہ اعداء اسلام ‘اسلام دشمنی سے کبھی غافل نہیں ہوئے۔ اس در دناک غفلت وبے عملی کے جو نتائج سا منے آنے تھے وہ ظا ہر ہو کررہے، جس طرح دو اؤں اور غذا ؤں کے خواص ہیں، اسی طرح اعمال کے بھی خواص ہیں ،جو شخص زہر کھاتا ہے وہ ہلاک ہوگا، اسی طرح ان ارشادات سے روگر دانی کی سزا کو سمجھ لیجئے۔
 حق تعالیٰ نے مسلمانوں کو کلیدی مقامات عطا فرمائے، دنیا کے نقشہ پر نظر ڈالو تو معلوم ہوگا کہ دنیا کا قلب اب بھی مسلمانوں کے حیطۂ اقتدار میں ہے اور قدرت نے نقشہ کچھ ایسا رکھا کہ تمام عالمِ اسلام باہم مر بو ط اور ایک اسلامی ملک کی سرحدیں دوسرے سے ملی ہوئی ہیں، پھر مسلم ممالک خصوصاً عرب ممالک کو مادی وسائل کی وہ فراوانی عطا فرمائی کہ عقل حیران ہے، اگر ان وسائل کو اسلامی ترقی اور فوجی طاقت مہیا کرنے پر صرف کیا جاتا تو عالمِ اسلام کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا اور آج یہ روزِ بد نہ دیکھنا پڑتا، اب اگر عرب اور مسلم ممالک یہ چاہتے ہیں کہ ان کفار اور دشمنانِ اسلام کی سازشوں سے محفوظ رہیں، تو مندرجہ ذیل تد بیر پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے:
 الف:… قومیت، وطنیت اور جنسیت کے مادی روابط سے بالا تر ہوکر صرف اسلام کے ’’العر وۃ الوثقٰی‘‘ اور’’ حبل متین‘‘ کو مضبوطی کے ساتھ تھاما جائے اور مغرب کی تمام لعنتوں کو خیر باد کہہ کر نئے سرے سے اسلام سے وفاداری کا عہد کیا جائے اور باہمی اتفاق واتحاد کے رشتے مضبوط کیے جائیں، تمام اسلامی ممالک یکجان دو قالب ہو کر ہر قسم کے باہمی نفاق وشقاق اور حسد وکبر کو دل سے نکال دیں، یہ یقین دلوں میں جا گز یں ہونا چاہیے کہ مسلمانوں کی عزت اسلام اور اسلامی زندگی کے اپنانے میں منحصر ہے، اسلام سے انحراف کر کے اور اس کی ہدایات کو پسِ پشت ڈال کر یہ قوم کبھی سر خرو اور کا میاب نہیں ہوسکتی۔
 ب:… حق تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے جو مادی وسائل نصیب فرمائے ہیں، ان کے ذریعہ اسلحہ سازی کے کار خانے قائم کریں اور پوری کو شش کر یں کہ جد ید سے جد ید اسلحہ میں خود کفیل ہوجائیں۔ بلاشبہ اس میں دیر لگے گی، لیکن بیس پچیس سال میں نقشہ ہی بدل جائے گا، اس مقصد کے لیے جرمن، چین اور جاپان سے فنی اعانت حاصل کی جاسکتی ہے اور زیادہ سے زیادہ معاوضہ دے کر ما ہر ین کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ کا فروں کی خوشامدیں کرنے ان سے بھیک مانگنے اور ان کے رحم وکرم پر زندگی بسر کرنے کے بجائے جب تک مسلمان اپنے وسائل پر انحصار نہیں کریں گے، تب تک نہ باعزت اور مستغنی قوم کی حیثیت سے دنیا کے نقشہ پر اُبھر سکتے ہیں، نہ ذلت کی وادیوں سے قدم باہر نکال سکتے ہیں۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے، جو قوم چالیس پچاس سال پہلے افیونی قوم مشہور تھی اور اپنی بے مائیگی میں ضرب المثل تھی، آج وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئی کہ امر یکہ اور روس بھی اس سے خائف اور اس کے مقابلہ میں منا فقا نہ ملی بھگت پر مجبور ہیں ، ان کی تر قی کا راز سوشلزم نہیں، جیسا کہ ہمارے جہلاء اس کا پروپیگنڈہ کرتے ہیں، بلکہ اتحادو اتفاق، غیروں سے استغناء اور اپنے وسائل پر انحصار چین کی ترقی کا باعث ہے۔ الغرض جب تک عرب اور مسلم ممالک اپنے پاؤں پر کھڑے نہ ہوں گے اور ان اعداء اسلام کفار: امریکہ، روس، بر طا نیہ، فر انس سے بے نیازنہ ہوں گے اس وقت تک یہی صورت حال قائم رہے گی، جس کا افسوسناک نقشہ ہمارے سامنے ہے۔
ج:… آج کل عالمِ اسلام کے اتحاد کی باتیں بہت کی جاتی ہیں، اس کے لیے کا نفر نسیں ہوتی ہیں، مقالے پڑھے جاتے ہیں، تجاویز سوچی جاتی ہیں، لیکن اس نکتے سے سب غافل ہیں کہ جب تک سب کا ایک مر کز نہ ہو اور تمام سربراہانِ مملکت اور عوام اپنے مفادات، اپنی ذاتی اغراض اور اپنی انا کو چھوڑ کر ایک مر کزِ ثقل پر جمع ہونے کے لیے آمادہ نہ ہوں ان منتشر ٹکڑوں میں اتحاد کیسے پید اہوسکتا ہے؟! شاید آج کے ماحول میں یہ بات ’’دیوانے کی بڑ‘‘ سمجھی جائے گی، لیکن خدا لگتی بات یہ ہے کہ جب تک مسلمان خلافتِ اسلامیہ کا احیاء نہیں کریں گے، جسے بر طانیہ کی سازش اور کمال اتا ترک کی بداندیشی نے ذبح کر ڈالا تھا، اس وقت تک عالمِ اسلام نہ متحد ہوگا، نہ اُن کا کوئی مسئلہ حل ہوگا، اب مسلمان چاہیں تو خواہ یہ کام آج کرلیں کہ سب متحد ہو کر ایک ’’خلیفۃ المسلمین‘‘ بنائیں اور سب کے سب اس کے جھنڈے تلے جمع ہوجائیں یا کچھ عرصہ مز ید ذلیل وخوار ہو لیں، کا فروں کی کند چھری سے ذبح ہوتے رہیں اور بعد میں جو زندہ رہے گا وہ یہ کام کر لے گا۔ بہر حال مسلمانوں کے مسائل کا آخری حل خلافت کی تاسیس واحیاء ہے۔
مسلمانوں نے ایک بہتر ین اور بے نظیر قوم کی حیثیت سے دنیا پر حکومت کی ہے، صفحۂ ہستی پر نہایت خوشنما نقوش چھوڑے ہیں اور تاریخِ عالم پر اپنے کار ناموں کے زریں باب رقم کیے ہیں، لیکن آج باوجودیکہ قرآن جیسا آسمانی ہدایت نامہ ان کے ہاتھ میں ہے اور خاتم الا نبیاء رحمتہ للعالمینa جیسا ہادیِ بر حق ان کا رسول ونبی اور مقتداء وپیشوا ہے، مگر آج اس کی ذلت ونکبت اور بے حسی وبے غیرتی کا تماشا دیکھو کہ یہود وہنود سے مار کھانا پسند کرتے ہیں، لیکن اپنے طویل جمود، عیش پرستی وتن آسانی، آپس کے کبر و غرور اور انانیت و لن ترانی کو چھوڑ نے پر آمادہ نہیں ہو پاتے۔ زمین کے خزانے اور دنیا بھر کے وسائل ان کے قبضہ میں ہیں، مگر انہیں کہاں خرچ کیا جارہا ہے؟ اسلام اور مسلمانوں کی تر قی اور جہاد فی سبیل اللہ پر نہیں، بلکہ تماشوں اور سینماؤں پر، تفریحوں اور کھیلوں پر، ریڈیو اور ٹیلیویژن پر، کلبوں اور ہو ٹلوں پر، إنا للّٰہ۔ حق تعالیٰ کا ارشاد گو یا آج ہی ان کے حق میں نازل ہوا ہے:
’’فَلَمَّا أٰتٰھُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ بَخِلُوْا بِہٖ وَتَوَلَّوْا وَّھُمْ مُّعْرِضُوْنَ فَأَعْقَبَھُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِھِمْ إِلٰی یَوْمِ یَلْقَوْنَہٗ بِمَا أَخْلَفُوْا اللّٰہَ مَا وَعَدُوْہُ وَبِمَا کَا نُوْا یَکْذِبُوْنَ۔‘‘  (التوبۃ:۷۶،۷۷) 
’’سو جب اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل سے (بہت سامال) دے دیا تو وہ اس میں بخل کرنے لگے اور روگردانی کرنے لگے اور وہ تو روگردانی کے عادی ہیں، سو اللہ تعالیٰ نے اس کی سزا میں ان کے دلوں میں نفاق قائم کردیا جو خدا کے پاس جانے کے دن تک رہے گا، اس سبب سے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ سے اپنے وعدہ میں خلاف کیا اور اس سبب سے کہ وہ اس وعدہ میں شروع ہی سے جھوٹ بولتے تھے۔‘‘
اس آیتِ کر یمہ کو بار بار پڑھئے اور غور کیجئے کہ جو ممالک ان کفار مستعمرین کے انتداب سے آزاد ہو ئے خواہ وہ فر انس ہویا بر طانیہ، مر اکش سے لے کر پاکستان تک کیا ان ممالک نے وعدے پورے کرلیے؟ کیا صحیح اسلامی حکومت قائم کی؟ یا اس کے لیے کوشش کی؟ کوشش تو کیا اس کی خواہش بھی کی؟ جواب نفی میں ملے گا۔ درحقیقت یہ تو ’’بِمَا أَخْلَفُوْا اللّٰہَ مَا وَعَدُوْہُ وَبِمَا کَا نُوْا یَکْذِبُوْنَ‘‘کی سزا ہے جو روزا فزوں تنزل اور ذلت کے گڑھوں میں گر تے جا رہے ہیں۔
الغرض مسلمانانِ عالم کو چاہیے کہ تمام قدرت کے عطاکردہ وسائل، اپنی فوجی قوت و طاقت مہیا کرنے پر خرچ کریں اور غریب حکومتیں جہاد کا فنڈ قائم کرکے مسلمانوں سے جہاد کے لیے مال جمع کریں اور صرف اسی صحیح مقصد پر خرچ کر یں اور اتفاق واتحاد پر اپنی پوری توجہ مرکوز کریں۔
 ان سب تدابیر واسباب کو اختیار کرنے کے بعد تو کل واعتما دصرف حق تعالیٰ ہی کی ذات، نصرتِ الٰہی اور اس کی غیبی امداد پر ہو، ان وسائل کو حاصل کرنا اس لیے ضروری تھا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد اور حکم یہی ہے، ایک رستہ تو مسلمانوں کی ذلت کو عزت سے بد لنے کا یہ معلوم ہوتا ہے۔
 اس کے سوا ایک راستہ اور بھی ناقص خیال میں آتا ہے، عرب وعجم کے سب مسلمان اسلامی دعوت وتبلیغ کے لیے وقف ہوجائیں، یہ مقصد نہیں کہ تمام کاموں کو چھوڑ کر اس میں لگ جائیں، بلکہ مقصد یہ ہے کہ ہر ملک اور ہر قوم کا کافی حصہ کفر کے ممالک میں اسلامی اصولوں پر دعوت وتبلیغِ دین کا کام شروع کرے اور قافلے کے قافلے ہر طرف پھیل جائیں، زیادہ تر تو جہ ان ممالک پر مرکوز رکھیں جن قوموں کو اسلام سے سخت عداوت نہ ہو اور ان میں کبر و غرور بھی نہ ہو اور وہ اپنی زندگی سے اُکتا چکے ہیں، سکونِ قلب مفقود کرچکے ہیں، پر یشان ہیں، ان کو اسلام کی دعوت دے کر مسلمان بنانے کی کوشش کریں، ان کوششوں کا زیادہ تر دائرہ افر یقی ممالک کے علاوہ چین وجاپان کو بنائیں، ہوسکتا ہے کہ کسی وقت یہ طا قتور قومیں اسلام کی حلقہ بگوش ہوجائیں اور مسلمانانِ عالم کا نقشہ ہی بدل جائے:
’’وَإِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَیْرَکُمْ ثُمَّ لَا یَکُوْنُوْا أَمْثَالَکُمْ۔‘‘              (محمد:۳۸) 
’’اور اگر تم منہ پھیر لو تو اللہ تعالیٰ تمہاری جگہ کوئی دوسری قوم لے آئیں گے، پھر وہ تم جیسے نہیں ہوں گے۔‘‘
 کا نمونہ سامنے آئے، نبی کریم علیہ صلوات اللہ وسلامہٗ نے کیا یہ دعا نہیں فرمائی؟!:
’’اللّٰھم أید ھذا الدین بأحب الرجلین إلیک أبی جھل وعمر۔‘‘(سنن الترمذی، ابوب المناقب،مناقب ابی حفص عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ، ج:۲، ص:۲۰۹، ط:فاروقی کتب خانہ) 
’’ اے اللہ! اس دینِ اسلام کو دو آدمیوں میں سے جو آپ کو پسند ہو، اس کے ذریعہ قوت عطا فرمادیجئے۔‘‘
 آج ہم بھی اس سنتِ نبوی کی روشنی میں چین وجاپان کی ہدایت کے لیے یہ دعا کرسکتے ہیں، تبلیغی راستوں سے اس تدبیر میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔
الغرض میرے ناقص خیال میں یہی دو تدبیریں ہیں اور اگر دونوں کو جمع کرلیا جائے تو سبحان اللہ! حکمران پہلی تد بیر پر عمل کریں اور علماء اُمت اور عوام دوسری پر عمل پیرا ہوں، اگر یہ اسلامی طریقے اختیار کیے جائیں تو تو قع ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ان کو ششوں کو ضائع نہیں فرمائے گی، اور کم ازکم آخرت کی مسئو لیت سے تو سبکدوش ہوجائیں گے، انسان کوشش ہی کا مکلف ہے، نتائج حق تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہیں :
 

إن أرید إلا الإصلاح ما استطعت وما تو فیقی إلا باللّٰہ وحدہ علیہ تو کلت وإلیہ أنیب

وصلی اللّٰہ علی خاتم النبیین وسید المر سلین محمد وآلہٖ وأصحابہٖ أجمعین إلٰی یوم الدین

(ذوالقعدہ۱۳۹۳ھ/دسمبر۱۹۷۳ء)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین