بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مسلمانوں اور عالم اسلام کی غلامانہ ذہنیت

 

مسلمانوں اور عالم اسلام کی غلامانہ ذہنیت

    بحمد اللہ ہمیں نہ امراء ووزراء سے ملاقات کا شوق، نہ یہ داستان لذیذ و مر غوب، دراصل اس وقت میرے بصائر و عبر کا موضوع مندرجہ بالا فقرہ ہے، اس سے قبل جو کچھ لکھا گیا وہ اس کی تمہید تھی۔ جی چا ہا کہ یہ نصیحت جو ایک خاص مو قع پر ایک خاص شخص کو کی گئی تھی‘ پیغامِ عام کی شکل میں ہر عام و خاص کے گوش گزار کردی جائے۔      عالمِ اسلام اور اسلامی ممالک ایک عرصہ سے زبوں حالی وپسماند گی اور زوال واضمحلال کا شکار ہیں، مسائل پر مسائل پیدا ہوتے چلے آتے ہیں اور ہمارے اربابِ اقتدار اور سربر اہانِ مملکت ہر نئے مسئلہ پر دنیا کی تر قی یا فتہ قوموں کے سامنے کشکولِ گدائی لے کر حاضر ہوجاتے ہیں۔ ان کی ظا ہری شان وشوکت، ان کے سر مایہ ودولت، ان کی فوجی وعسکری طاقت، ان کی مادی و سائنسی بر تری، ان کی سیاسی قیادت اور حربی سیادت سے عالم اسلام اتنا مرعوب ہے جس کی حد نہیں۔ ہمارے حکمرانوں میں مر عوبیت اور احساسِ کہتری کا عارضہ وبائی صورت اختیار کرچکا ہے۔ کہنا چاہیے کہ جو جتنے بڑے عہدے اور منصب پر فائز ہے اور جس کی جتنی ذمہ داریاں زیادہ ہیں، وہ اتنا ہی احساسِ مر عوبیت کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ آج تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ ہم تر قی یا فتہ قوموں کے بغیر بھی حکومت کر سکتے ہیں اور یہ سوچا تک نہیں جاسکتا کہ ان کی دوستی کے بغیر بھی ہمارا نظام حکومت چل سکتا ہے۔ اسلامی ممالک جو پسماندہ اور ترقی پذیر ہیں، محض عالمی طاقتوں کے رحم و کرم پر جینے کے عادی ہوگئے۔ کروڑں روپے کے مصارف سے اعلیٰ پیما نے پر سفارت خانوں کا تکلف کیا جاتا ہے، لا کھوں کے خرچ سے امراء ووزراء کے دورے ہوتے ہیں، و فد پر وفد بھیجے جاتے ہیں، ان طا غوتی قوتوں کے سربراہوں اور نمائندوں کو تشریف آوری کی دعو تیں دی جاتی ہیں، اس پر بڑی فراخدلی سے قومی سرمایہ صرف کیا جاتا ہے اور ان کی قدم رنجہ فرمائی کو مایۂ افتخار سمجھا جاتا ہے۔ یہ سارے پاپڑ اِس لیے بیلے جاتے ہیں کہ یہ عالمی طاقتیں ہم سے خوش رہیں، ان سے دوستانہ روابط قائم رہیں اور آڑے وقت میں ان سے مدد طلب کی جاسکے۔ گویا عالم اسلام اور اس کے سربراہوں کے نزدیک بطور اصولِ موضوعہ یہ بات طے ہو چکی ہے کہ امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس اور چین کی نظرِعنایت جب تک ہمارے شاملِ حال نہ ہو، نہ ہم عزت وآبر و سے زندہ رہ سکتے ہیں، نہ اپنے مسائل حل کر سکتے ہیں، نہ ترقی کرسکتے ہیں۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔     اگر یہ دوستی برابر کی دوستی کی حد تک رہتی تو بھی ایک بات تھی، آفت تو یہ ہے کہ ہم خود اعتمادی کے وصف سے یکسر محروم ہوکر نہایت گھٹیا قسم کی مقلدانہ روش بلکہ مجھے تلخ نوائی پر معاف رکھا جائے تو عرض کروں کہ ہم غلامانہ ذہنیت میں مبتلا ہیں۔ گویا ہمارے پاس نظری و فکری سرمایہ کچھ نہیں۔ ہم بات بات میں ان کی تقلید کرتے ہیں، بات بات پر ان کے حوالے دیتے ہیں، اور زندگی کے ایک ایک خدوخال کو ان کے نقشوں پر ڈھالنا چاہتے ہیں۔ قانون ہو تو ان کا، تہذیب ہو تو ان کی، معاشرہ ہو تو ان کاسا، بول چال اور لب ولہجہ ہو تو ان جیسا، نشست و برخاست ہو تو ان کے طرز پر، خورد و نوش ہو تو ان کے ڈھب کی، لباس کی تراش خراش ہو تو ان سے پوچھ کر، سیاست ہو تو ان سے سیکھ کر، معیشت ہو تو ان سے مانگ کر۔ الغرض زندگی کا وہ کون سا شعبہ ہے جس میں ہماری غلاما نہ ذہنیت اور اندھی تقلید کار فرما نہیں؟     اپنے گھر میں خدا کا دیا سب کچھ ہے، مگر عالم اسلام کی حرص وآز اور جبلت ِگداگری کا کیا کیا جائے کہ ان بددین، بے خدا اور بے تہذیب قوموں سے امداد پر امداد اور قرض پر قرض لے کر عالم اسلام مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔ وہ باربار ہمیں اپنے دروازوں سے دھتکارتے ہیں اور موقع بے موقع امداد اور قرض بند کردینے کا اعلان کر تے ہیں، لیکن ہم ہیں کہ اس کے باوجود بھی صدائے فقیرانہ لگانا ضروری سمجھتے ہیں اور اگر ایک دروازے سے دھکا مل جائے تو دوسرے دروازے پر حاضر ہوجاتے ہیں، کیونکہ اصول یہ طے ہوگیا ہے کہ ترقی پذیر قومیں، ترقی یافتہ قوموں کی خیرات کے بغیر شاہراہِ تر قی پر گامزن نہیں ہوسکتیں، مگر یہ اصول طے کرتے وقت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ قومیں جو آج تر قی یافتہ کہلاتی ہیں، یہ کس کی خیرات پر پل کر ترقی یافتہ ہوئیں اور کس سے قرضے لے کر انہوں نے اپنے ترقیاتی منصو بے پایۂ تکمیل تک پہنچائے۔ نہ ہمیں یہ بات یاد رہتی ہے کہ جب ہم زندہ قوم تھے کس سے امداد لے کر ہم نے اقوام عالم کو فتح کیا تھا۔ اسی طرزِ فکر اور طرزِ عمل کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پورا عالم اسلامی دولت کی ریل پیل کے باوجود معاشی بحران کا شکار ہے۔ ہمارے کارخانۂ معیشت کے بٹن پر ان طاغوتی طاقتوں کا ہاتھ ہے، وہ جب چاہتے ہیں اس بٹن کو دبا دیتے ہیں اور ہماری معیشت کا پہیہ وہیں جام ہوکر رہ جاتا ہے۔  اقوامِ متحدہ اور عالم اسلام     سیاسی محاذ پر بھی ہم انہی طاغوتوں کے ہاتھ کا کھلو نا ہیں۔ بات بات پر جمعیت الا قوام (اقوام متحدہ) کا دروازہ کھٹکھٹانا فرض سمجھتے ہیں۔ ہندو پاک کا جھگڑا ہو یا بحرین و خلیج کا، فسلطین کا مسئلہ ہو یا قبرص کا، بیت المقدس کا المیہ ہو یا نہرسویز کا، کشمیر کا تنازعہ ہو یا اسرائیل کا، ہر مسئلہ میں ہماری کا میاب سیاست یہ ہے کہ ہم اس کی رَپٹ اقوام متحدہ کے تھا نے میں درج کرا آئیں۔ اگر ان تر قی یا فتہ قوموں میں اپنے مفادات سے ہٹ کر خالص انسانی بنیادوں پر عالمی مسائل حل کر نے کا جذبہ ہوتا تب بھی ہمارے اس سیاسی کا ر نامہ کے لیے کوئی وجہ جواز ہوتی، مگر بار بار کے تجربوں نے ثابت کردیا ہے کہ یہ منافق جن کو مادی ترقی نے اقوام عالم کا چودھری بنادیا ہے اور یہ کفن چور جنہوں نے مظلوم اور پسماندہ قوموں کے کفن چھین چھین کر اپنی معیشت کا جامہ تیار کیا ہے، انہوں نے اپنے مفاد سے ہٹ کر کسی مظلوم کی آہ و بکا اور کسی ناتواں نیم بسمل کی سسکیوں پر کبھی کان نہیں دَھرا، بلکہ کمزور مظلوم کے مقابلہ میں انہوں نے ہمیشہ طاقت وَر ظالم کو تھپکی دی ہے۔ مسلمانوں کو آپس میں لڑانا اور عالم اسلام میں نفرت و بیزاری کے کانٹے بونا، ان شیا طین کا مستقل وطیرہ ہے۔ اقوام متحدہ کا ادارہ جب سے وجود میں آیا ہے اس نے عالم اسلام کے ایک بھی مسئلہ کو حل نہیں کیا، بلکہ اس میں نئی گرہوں کا اضافہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ میں جو مسئلہ گیا وہ ہمیشہ کے لیے ایسا الجھا کہ نا خنِ تدبیر اُسے سلجھانے سے ہمیشہ کے لیے قاصر ہے۔     ان تمام حقائق و تجربات کے بعد بھی ہم سیٹو، سنٹو دولت ِمشترکہ اور اقوام متحدہ سے چمٹے رہنے کو ضروری سمجھتے ہیں، خدا معلوم! وہ کون سا سحرِسامری ہے جس سے دیکھنے، سننے اور سوچنے کی صلاحیتیں جاتی رہیں، گویا عقلیں مسخ ہیں اور آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہیں۔ حدیث میں تو آتا ہے کہ: ’’لا یلدغ المؤ من من جُحر واحدٍ مر تین۔‘‘  (صحیح البخاری، کتاب الادب، ج:۲، ص:۹۰۵، ط:قدیمی)  مو من ایک ہی سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا      لیکن آج ہم دعویٰ ایمان کے باوجود اس سوراخ سے بار بار ڈسے جانے کی مشق کررہے ہیں۔ قرآن کریم کی یہ آیات گویا آج کی صورتِ حال کے بارے میں نازل ہوئی ہیں: ’’یَا أَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِکُمْ لَا یَأْلُوْنَکُمْ خَبَالاً وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَائُ مِنْ أَفْوَاھِھِمْ وَمَاتُخْفِیْ صُدُوْرُھُمْ أَکْبَرُ قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الْأٰیٰتِ إِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ۔‘‘   (آلِ عمران: ۱۱۸) ’’اے ایمان والو! اپنے سوا کسی کو صاحب خصوصیت مت بناؤ، وہ لوگ تمہارے ساتھ فساد کرنے میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہیں رکھتے۔ تمہاری مضرت کی تمنا رکھتے ہیں، واقعی بغض ان کے منہ سے ظاہر ہو پڑتا ہے اور جس قدر ان کے دلوں میں ہے وہ تو بہت کچھ ہے، ہم علامات تمہارے سامنے ظاہر کر چکے اگر تم عقل رکھتے ہو۔ ‘‘        ( ترجمہ حضرت تھانویؒ) ’’کَیْفَ وَإِنْ یَّظْھَرُوْا عَلَیْکُمْ لَا یَرْقُبُوْا فِیْکُمْ إِلًّا وَّ لَاذِمَّۃً یُرْضُوْنَکُمْ بِأَفْوَاھِھِمْ وَتَأْبٰی قُلُوْبُھُمْ وَأَکْثَرُھُمْ فَاسِقُوْنَ‘‘۔                                     (التوبۃ:۸) ’’کیسے؟ حالانکہ ان کی یہ حالت ہے کہ اگر وہ کہیں تم پر غلبہ پائیں تو تمہارے بارے میں نہ قرابت کا پاس کریں اور نہ قول و قرار کا۔ یہ لوگ تم کو اپنی زبانی باتوں سے راضی کر رہے ہیں اور ان کے دل نہیں مانتے اور ان میںزیادہ آدمی شریر  ہیں ۔‘‘ ( ترجمہ حکیم الامت تھانویؒ)     اس قسم کی بیسیوں آیات ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا کسی کافر پر اعتماد کرنا ان کی پہلی غلطی ہے۔ عالم اسلام اور مسلم سربراہوں کو کس پر اعتماد کرنا چاہیے؟     الغرض عالم اسلام اور اس کے سربراہوں پر زبوں حالی، سراسیمگی اور احساسِ کمتری کی جو فضاء مسلط ہے، اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میں نے صدر ناصر مرحوم سے وہ جملہ کہا تھا کہ جن سہاروں کے بھروسے ہم آج تک جی رہے تھے وہ نہایت بودے ،نکمے اور ناکارہ ثابت ہوئے۔ آج عالم اسلام کو خوابِ غفلت سے بیدار ہوکر انگڑائی لینے کی ضرورت ہے۔ آج وقت کی پکار عالم اسلام سے ایک انقلاب کا مطالبہ کررہی ہے: یقین وایمان کا انقلاب، تعلق مع اللہ کا انقلاب، ترقی یافتہ طاغوتوں کے لات و منات کو توڑ پھینکنے کا انقلاب۔ آج ضرورت ہے کہ عالم اسلام کے سربراہ اپنے قلب وذہن، سیرت و کردار، اخلاق و اعمال، فکر و نظر، جذبات و احساسات اور تدبیر و سیاست کا رُخ قبلۂ مغرب سے بدل کر پیغام نبوت کی طرف پھیریں۔ طاغوتی قوتوں سے کٹ کر ایک اللہ تعالیٰ کی ذات سے دلوں کا تعلق پیدا کریں۔ کعبۂ دل سے تین سو ساٹھ بتوں کو ہٹاکر توحید کے انوار و تجلیات سے منور کریں۔ یورپ کی تقلیدی سیاست چھوڑ کر محمد رسول اللہ a اور آپa کے خلفائے راشدینsسے سیاست وحکمرانی کا سبق سیکھیں۔ اصلی و حقیقی ایمان و یقین     کاش! ہمیں کلمۂ اسلام ’’لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کا صحیح یقین نصیب ہوجائے، یعنی پوری کی پوری کا ئنات کا معبود اور خالق ومالک صرف ایک اللہ ہے۔ ہر چیز میں صرف اسی کی مشیت کار فرما ہے۔ آسمان وزمین کی ایک ایک چیز اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ کائنات کا ذرہ ذرہ اسی کا تابعِ فرمان ہے۔ اسی کے چاہنے سے سب کچھ ہوتا ہے، وہ نہ چا ہے تو کچھ نہیں ہوتا۔ عزت وذلت، فتح وشکست، صحت ورزق اور قوت و ناتوانائی اسی کے قبضے میں ہے ۔      اور یہ کہ امت ِمسلمہ کی نجات صرف محمد رسول اللہ a کے قدموں میں ہے۔ آپ a ہی کا یقین، آپ a ہی کا عزم، آپ a ہی کا عمل، آپ a ہی کی سیرت اور آپ a ہی کا پیغام ہمارے لیے فلاح وکامرانی کا ذریعہ ہے: ’’فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ‘‘ کا ئنات کی ساری طاقتیں ہمارے ساتھ ہوں، مگر خدا ہمارے ساتھ نہ ہو تو ہم ذلیل ہو کر رہیں گے اور کائنات کی ہر طاقت ہمارے خلاف ہو، مگر خدا سے ہمارا تعلق صحیح ہو تو بھری دنیا ہمارا کچھ نہیں بگاڑسکتی۔ ہم رسول اللہ a کے نقش قدم پر ہوں تو دریا ہمیں راستہ دے سکتے ہیں،جنگل کے شیر ہماری راہنمائی کرسکتے ہیں، ہوا کی لہریں ہماری آواز ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچا سکتی ہیں، ہماری تاریخ میں اس کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔  عالم اسلام کی کمزوری کا سبب     یہ طاغوتی طاقتیں جو آج ہم پر مسلط ہیں اور عالم اسلام کی نکیل جدھر چاہتی ہیں موڑ دیتی ہیں، یہ صرف اس لیے طا قت وَر ہیں کہ ہم کمزور ہیں اور ہم اس لیے کمزور ہیں کہ ہمارا اعتماد خالق کائنات کو چھوڑ کر ناکارہ اور کمزور مخلوق پر رہ گیا ہے۔ بخدا! اگر اس قوی ذات سے ہمارا تعلق قوی ہو تو ہم آج بھی امر یکہ وروس کا غرور‘ قیصر وکسریٰ کی طرح خاک میں ملاسکتے ہیں۔ ان کے ایٹم ان کی سائنسی ترقی اور ان کے تمدنی کروفر کی ساری عمارت آج بھی پیوند ِ زمین ہوسکتی ہے، مگر اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کی خاطر اپنی خوا ہشات ترک کردیں۔ اس کے احکام پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنے کا عہد و پیمان کریں اور اس کی رضا کے مقابلہ میں کسی کی رضامندی و ناراضگی کی پروا نہ کریں۔      حدیث میں آتا ہے کہ حضرت امیر معاویہ q نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہt کی خدمت میں خط لکھا کہ مجھے کوئی وصیت لکھ بھیجئے، مگر زیادہ طویل نہ ہو، جواب میں حضرت ام المؤمنین tنے لکھا : ’’سلام علیک! أمابعد: فإنی سمعتُ رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: من التمس رِضٰی اللّٰہ بسخط الناس کفاہ اللّٰہ مؤنۃَ الناس ومن التمس رِضٰی الناس بسخط اللّٰہ وَکَّلَہٗ اللّٰہُ إلٰی الناس، والسلام‘‘۔    (سنن الترمذی،باب ماجاء فی حفظ اللسان) ’’ السلام علیکم! اما بعد : میں نے رسول اللہ a سے سنا ہے، فرماتے تھے کہ: جو شخص لوگوں کو ناراض کر کے اللہ کی رضا مندی ڈھو نڈتا ہے، اللہ تعالیٰ لوگوں کے شر سے اس کی خود کفایت فرماتے ہیں اور جو شخص اللہ تعالیٰ کو ناراض کر کے انسانوں کی رضا مندی چاہتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے انسانوں کے سپر د کر دیتے ہیں۔ (اور ان ہی کے رحم و کر م پر چھوڑ دیتے ہیں)۔‘‘  الغرض اگر مسلمانوں کا ایمان پختہ اور مضبوط ہو، حق تعالیٰ سے ان کا تعلق صحیح ہو، اس کی ذات پر کامل بھروسہ اور یقین ہو، طا غوتی طا قتوں سے بیزار ہو کر وہ اپنے وسائل پر انحصار کریں اور کلمۂ اسلام کی سربلندی کے لیے ہر قسم کی قر بانی کے لیے تیار ہوجائیں تو حق تعالیٰ کا وعدہ یقینا پورا ہوگا، ارشاد ہے: ’’وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُا لْمُؤْمِنِیْنَ‘‘۔(الروم:۴۷) ۔۔۔۔۔۔’’ اور ہمارے ذمہ ہے مومنوں کی مدد کرنا۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔ ’’وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ‘‘۔ (آل عمران:۱۳۹) ۔۔۔۔۔۔’’ اور تم ہی اونچے رہو گے بشر طیکہ تم مو من ہو۔‘‘۔۔۔۔۔۔ ’’وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ‘‘۔ (آل عمران:۱۲۶) ۔۔۔۔۔۔ ’’ اور مدد تو صرف اللہ عزیز وحکیم کے پاس سے ملتی ہے۔‘‘      اگر مسلمان ان ارشادات ربانی کو سینے سے لگائیں، فسق وفجور کی متعفن زندگی چھوڑ کر توبہ و انابت کا راستہ اختیار کریں تو حق تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوں گی اور راحت و سکون اور عزت و سربلندی کی بھی نعمتیں نصیب ہوں گی، جن کا ظہور قرونِ اولیٰ میں ہوچکا ہے۔ حق سبحانہٗ و تعالیٰ ہمارے قلوب کی اصلاح فرمائیں، عالم اسلام کی حفاظت فرمائیں اور اسلام کے تمام بدخواہوں کو ذلیل و خوار کریں۔  وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی صفوۃ البریۃ محمد وآلہٖ وصحبہٖ وأتباعھم أجمعین، أٰمین

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین