بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

مسلم عائلی قوانین آرڈیننس ۱۹۶۱ء کی دفعہ ۴ (یتیم پوتے وغیرہ کی میراث) (چوتھی اور آخری قسط)

مسلم عائلی قوانین آرڈیننس ۱۹۶۱ء کی دفعہ ۴

(یتیم پوتے وغیرہ کی میراث)

اسلامی احکام کی روشنی میں تحقیقی جائزہ      (چوتھی اور آخری قسط)

 

عائلی قوانین کی دفعہ۴:’’وراثت‘‘ اصول اربعہ کی روشنی میں

حب ہم ان اصولِ اربعہ ثابتہ بالکتاب والسنۃ کی روشنی میں عائلی قوانین کی دفعہ ۴:’’وراثت‘‘ کا جائزہ لیتے ہیں تویہ صورت حال سامنے آتی ہے کہ اس دفعہ میں ان تمام اصولوں کی کھلی خلاف ورزی لازم آتی ہے۔
پہلے اصل کی خلاف ورزی
’’مورث کی وفات کے وقت زندہ موجود ورثاء وارث ہوتے ہیں۔‘‘ اس اصل کی خلاف ورزی اس لحاظ سے کی گئی ہے کہ اس دفعہ کی روح یہ ہے کہ ترکہ میں سے مرنے والے بیٹے یا بیٹی کے حصے کا حقدار اس کی اولاد قراردی گئی، یعنی مرنے والے کابیٹا یا بیٹی وارث ہے، اور پوتوں/ نواسوں کے حصہ مقرر کرنے میں معیار بیٹے یا بیٹی کا حصہ ہے۔ درحقیقت بیٹے یا بیٹی کے حصے کے حقدار پوتے/ نواسے ہیں، چونکہ پوتوں/ نواسوں کا اپنا حصہ تو ہے نہیں اور اگر بعض صورتوں میں ان کا حصہ ہے بھی، تو وہ یہی حصہ نہیں، اس کی حیثیت اور مقدار مختلف ہے، اس کا حاصل یہ ہوا کہ (مرحوم) بیٹے ہی کو وارث و حقدار قراردیا گیا ہے۔ اس میں دوخرابیوں میں سے ایک خرابی ضرور ہے: اگر تو یہ فرض کرلیا جائے کہ مرحوم بیٹا اپنی حیات میں اپنے والد (دادا) کی میراث و ترکہ میں سے حقدار ٹھہر گیا تھا، جو اس کی وفات کے بعد اس کی اولاد (پوتوں/ نواسوں) کو ملے گا، تو لازم آئے گا کہ زندہ شخص کے مال کو ترکہ قراردیا گیا، حالانکہ جب تک کوئی شخص زندہ ہوتا ہے اس کا مال ترکہ نہیں ٹھہرتا۔ اور اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ مرحوم (بیٹا) والدکی وفات پر حقدار ٹھہرگیا تو لازم آئے گا کہ مرے ہوئے شخص کو وارث قرار دیا گیا۔ اور دونوں صورتیں اس شرعی اصل کے خلاف ہے کہ زندہ شخص کا مال ترکہ نہیں بن سکتا اور مرا ہوا شخص وارث نہیں بن سکتا۔

دوسرے اصل کی خلاف ورزی

’’ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہوتا ہے۔‘‘ عائلی قوانین کی دفعہ۴: ’’وراثت‘‘ کی رو سے ایک شخص (دادا) کا صلبی بیٹا مرتا ہے اور وہ اپنے پیچھے ایک بیٹی (پوتی) چھوڑ جاتا ہے تو دادا کی وفات کے وقت اس پوتی کو دادا کے مال (ترکہ) میں سے اپنے والد کا حصہ ملے گا۔ ایسی صورت میں عین ممکن ہے کہ اس بچی کو مرد کے حصے کے برابر حصہ ملے، نہ کہ آدھا، مثلاً:
                                                                                                                                                                                                                                                          خالد(دادا)

                                                                                                                                                               حمید (مرحوم) بیٹا                                                                                                                      مجید (زندہ بیٹا) ایک حصہ

                                                                                                                                                        سلمیٰ (پوتی) ایک حصہ
عائلی قانون کی رو سے سلمیٰ(پوتی) کو اپنے مرنے والے والد حمید (مرحوم بیٹا) کاحصہ پورا ملے گا، جو مجید (دوسرا زندہ بیٹا) کے حصے کے برابر ہوگا، جو کہ’’ لِلذَّکَرِمِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ‘‘ کے قرآنی اصول سے مکمل طور پر متصادم ہے۔

تیسرے اصل کی خلاف ورزی

’’صلبی اولاد کی طرح دیگررشتہ دار بھی وارث ہوتے ہیں۔‘‘ عائلی قوانین کی دفعہ۴: ’’وراثت‘‘ میں اس اصل کی اس طرح خلاف ورزی کی گئی ہے کہ اس دفعہ کی روسے مرنے والے بیٹے/ بیٹی کی صرف اولاد کو وارث قراردیاگیا ہے، حالانکی قرآنی نصوص میں صراحۃً مذکور ہے کہ اولاد کی طرح دوسرے رشتہ داروں (ماں، باپ ،بیوی، شوہر اور کلالہ کی صورت میں بھائی اور بہن) کو بھی وارث بنایا ہے۔
اگر زیرِ بحث دفعہ کی روسے مرنے والے بیٹے (بیٹی کو والد (دادا) کے انتقال کے وقت زندہ فرض کرکے اس کی اولاد (پوتے/ نواسے) کو وارث بنایا گیا ہے تو پھر اس کے دیگر رشتہ داروں کو بھی وارث قرار دیا جائے، اس لیے کہ دیگر رشتہ داروں کو وارث قراردینے کی ٹھوس بنیاد موجود ہے، اس لیے کہ اگر تو پوتے/نواسے کا استحقاقِ میراث قرابت داری کی بنیاد پر ہو تو قرآن نے دیگر قرابت داروں کو مستحقِ میراث تسلیم کیا ہے۔ اور اگر پوتے/نواسے کا استحقاقِ میراث ہمدردی کی بنیاد پر ہو تو دیگر رشتہ دار بھی ہمدردی کے محتاج ہیں، بلکہ بعض اوقات تو پوتے/نواسے سے زیادہ محتاجِ ہمدردی ہوتے ہیں، مثلاً: مرنے والے کی بوڑھی ماں اور بے سہارا بیوہ بھی تو آخر محتاجِ ہمدردی ہیں۔ بہرحال اس حوالے سے اس دفعہ میں تیسرے اصل کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

چوتھے اصل کی خلاف ورزی

’’ ہر وارث وارث ہوتا ہے خواہ اس کی اولاد ہو یا نہ ہو۔‘‘
عائلی قوانین کی دفعہ ۴: ’’وراثت‘‘ میں اس اصل کی خلاف ورزی اس حوالے سے کی گئی ہے کہ مرحوم بیٹے کو اس صورت میں اپنے والد (دادا) کا وارث قرار دیا گیا ہے، جبکہ اس کی اولاد (پوتے/نواسے)ہوں، اگراس کی اولاد نہ ہو تو اس صورت میں وہ وارث نہیں، چنانچہ اگر ایک شخص کا بیٹا اس کی حیات میں لاولد ہوکر مرتا ہے، یعنی شادی سے پہلے مرجاتا ہے یا شادی کے بعد، لیکن اولاد چھوڑ کرنہیں مرتا، تواس دفعہ کی روسے وہ مستحقِ میراث نہیں ٹھہرتا اور اگر اولاد چھوڑ کر مرتا ہے تو وارث ٹھہرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے وارث بننے میں اس بات کو دخل ہے کہ اس کی اولاد ہے یا نہیں، حالانکہ قرآن مجید میں ورثاء کے حصے مقررکرنے میں اس بات کو ہرگز دارومدار نہیں بنایا گیا ہے کہ وہ وارث بننے والا شخص صاحبِ اولاد ہے کہ نہیں، لیکن اس دفعہ میں یہی فرق روا رکھا گیا ہے، جو قرآنی احکام پر اپنی طرف سے اضافہ کرنے کے مترادف ہے۔
غرض یہ کہ زیرِبحث دفعہ مکمل طور پر قرآن وحدیث سے متصادم ہے۔ صلبی اولاد اور پوتوں کے متعلق میراث کے واضح شرعی احکام کے مقابلے میں انسانوں کا وضع کردہ حکم ہے، جس پر عمل کرنے کی صورت میں جہاں پوتے سے متعلق احکام کی خلاف ورزی ہوتی ہے، وہاں میراث کے دیگر کئی ایک ضابطوں، اصول اور احکام کی خلاف ورزی بھی ہوتی ہے، لہٰذا اس کو تبدیل کرنا اور قرآن وسنت کی روشنی میں دوبارہ مرتب کرنا ملکی آئین کا تقاضا ہے، جس کے آرٹیکل(ا) میں طے کیا گیا ہے:
’’ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو قرآن پاک اور سنت میں منضبط اسلامی احکام کے منافی ہو اور موجودہ قوانین کو ان احکام کے مطابق بنایا جائے گا۔‘‘
یاد رہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے مؤرخہ۵ جنوری۲۰۰۰ء کواپنے تفصیلی فیصلے میں دفعہ۴کو خلافِ اسلام قرار دیتے ہوئے صدرِ پاکستان کو اسلامی احکام کے مطابق نئی دفعہ شامل کرنے کا کہا، تاہم اس فیصلے کے خلاف شریعت اپلیٹ بنیچ، سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی، جو تاحال زیرِ التواء ہے۔(۱)
مزید برآں! اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اسی دفعہ کو خلافِ اسلام قراردینے کی سفارش کی ہے، تاہم وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل دونوں نے اپنے فیصلے اور سفارش میں اس بات کا بھی اضافہ بھی کیا ہے کہ دادا وغیرہ پر لازم ہے کہ وہ یتیم پوتا وغیرہ کے لیے وصیت کرے، بصورتِ دیگر ورثاء پر لازم ہوگا کہ وہ مذکورہ اولاد کو نفقہ ادا کریں۔ (۲)
خلاصۂ بحث
۱:-عائلی قوانین ء کی دفعہ کے رو سے صلبی اولاد کی موجودگی میں یتیم پوتا وغیرہ دادا کی میراث کا مستحق ہوتا ہے۔
۲:-شریعت کے رو سے میراث کا استحقاق قرابت، نکاح اورولاء پر ہے۔
۳:-ورثاء کے تین درجات (اقسام) ہیں:۱:- ذوی الفروض ۔۲:-عصبات۳:-ذوی الارحام
۴:-احکامِ میراث قرآن وسنت میں مذکور حسبِ ذیل دو قواعد پر مبنی ہیں:
(الف)اقرب (قریبی رشتہ دار) کی موجودگی میں ابعد (دور کا رشتہ دار) محروم ہوتا ہے۔
(ب) بیک وقت تمام رشتہ دار میراث کے مستحق نہیں ہوتے، بلکہ وراثت میں حجب کا قانون جاری ہوتا ہے۔
۵:-ان اصول کی روشنی میں صلبی اولاد کی موجودگی میں پوتا، اگرچہ یتیم ہو، دادا کی میراث کا مستحق نہیں ہوتا۔
۶:-پوتے کے مستحقِ میراث نہ ہونے کا مسئلہ فتاویٰ صحابہؓ میں صراحتاً مذکور ہے، جیسا کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔
۷:-فقہ کے چاروں مکاتبِ فکر(حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی) کا صلبی پوتے کی میراث سے محرومی پر اجماع ہے۔
۸:-صلبی اولاد کی موجودگی میں پوتے وغیرہ کو میراث دینے کے نتیجے میں عملی طور پر دیگر تمام مستحق ورثاء کے حصے متاثر ہوتے ہیں۔
۹:-احکامِ میراث کے مزید چار اصول ہیں، دفعہ۴ کو برقرار رکھنے کی صورت میں چاروں اصول کی خلاف ورزی لازم آتی ہے۔
۱۰:- وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل نے دفعہ ۴کو غیر اسلامی قراردیا ہے، تاہم متبادل کے طور پر وصیتِ لازمہ کی صورت تجویز کی ہے۔
۱۱:-اس لیے مسلم عائلی قوانین آرڈیننس۱۹۶۱ ء کی دفعہ:۴ اسلامی احکامِ شریعت سے متصادم ہے، آئین کی دفعہ ۲۲۷ قرار دیتی ہے کہ قرآن وسنت کے منضبط احکام کے مطابق قانون سازی کی جائے گی، لہٰذااس دفعہ کو ختم کرنا شرعی و آئینی تقاضا ہے۔
۱۲:-یتیم پوتے/پوتیوں کے ساتھ مالی تعاون کی متبادل صورتیں ریاست کی ذمہ داری ہیں، اس سلسلے میں متعدد صورتیں ممکن ہیں۔

مقالہ میں مستعمل بعض اصطلاحات کی توضیح

۱:-ترکہ

وہ مال جس کا میت وفات کے وقت مالک ہو اور اس کے ساتھ براہ راست کسی اورشخص کاحق متعلق نہ ہو، خواہ وہ مال پاکستان میں ہو یا بیرونِ پاکستان ہو۔

۲:-ذوی الفروض

 وہ ورثاء ہیں جن کے حصص قرآن، سنت اور اجماعِ امت میں متعین ہیں۔

۳:-عصبہ نسبیہ

میت کے وہ رشتہ دار ہیں جو ذوی الفروض سے بچا ہوا ترکہ لے لیتے ہیں اور ذوی الفروض نہ ہوںتوتمام ترکہ کے مستحق ہوتے ہیں۔

۴:-عصبہ بنفسہ

وہ تمام قرابت دار مرد جن کی متوفی کے ساتھ سلسلۂ قرابت میں کوئی عورت حائل نہیں ہوتی۔

۵:-عصبہ بغیرہ

 یہ چار عورتیں (بیٹی،پوتی،حقیقی بہن اور باپ شریک بہن) ہیں جو بحیثیت ذوی الفروض ہونے کے نصف یا دوتہائی کی مستحق ہوتی ہیں، لیکن اپنے بھائیوں کے ساتھ ہوکر عصبات میں داخل ہوجاتی ہیں اور مذکر عصبہ کی بہ نسبت آدھے کی مستحق ہوتی ہیں۔

۶:-عصبہ مع غیرہ

 وہ وارث عورت ہے جو دوسری وارث عورت کے ساتھ مل کر عصبہ ہوجاتی ہے، عصبات کی اس صنف میں صرف دو عورتیں حقیقی اور علاتی بہن داخل ہیں جو بیٹی اور پوتی کے ساتھ عصبہ بنتی ہیں۔

۷:-عصبہ سببیہ

اس سے مولی العتاقہ یعنی غلام کو آزاد کرنے والا مراد ہے۔ سبب سے مراد تعلق ہے۔معتق یعنی آزاد کرنے والے کا غلام سے نسبی رشتہ نہیں ہوتا، مگر آزاد کرنے کا تعلق ہوتا ہے۔اگر میت کو آزاد کرنے والا فوت ہوگیا ہو تو ترکہ اس کے عصبہ بنفسہ یعنی اس کے بیٹے،باپ،بھتیجے، چچا اور چچا زادوں کو ملے گا۔ اگر یہ بھی نہ ہوں تو اگر آزاد کرنے والاکسی کاغلام تھا تو اس آزاد کرنے والے آقا کو ملے گا۔

۸:-ذوی الارحام

 میت کے وہ رشتہ دار جو نہ اصحاب ِفروض ہوں اورنہ ہی عصبہ ہوں۔

حوالہ جات

۱:-اللہ رکھا بنام وفاق پاکستان، ۲۰۰۰ء ، وفاقی شرعی عدالت پی ایل ڈی ۲۰۰۰ء -۵
۲:-دیکھئے اسلامی نظریاتی کونسل، سالانہ رپورٹ ۲۰۱۴ء -۲۰۱۳ء ،ص: ۱۷۷                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                 [انتہیٰ]

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین