بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مسلم عائلی قوانین آرڈیننس ۱۹۶۱ء کی دفعہ ۴ (یتیم پوتے وغیرہ کی میراث) (دوسری قسط)

مسلم عائلی قوانین آرڈیننس ۱۹۶۱ء کی دفعہ ۴

(یتیم پوتے وغیرہ کی میراث)

اسلامی احکام کی روشنی میں تحقیقی جائزہ         (دوسری قسط)


فتاویٰ صحابہؓ    میں پوتے کی میراث

اقربیت اور حجب کے متذکرہ بالا قاعدہ کی پوتے کی میراث پر تطبیق صراحۃً فتاویٰ صحابہؓ میں مذکور ہے، جس کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے، فرماتے ہیں:
’’باب میراث ابن الابن إذا لم یکن ابن، وقال زید: ولد الأبناء بمنزلۃ الولد، إذا لم یکن دونہم ولد ذکرہم کذکرہم، وأنثاہم کأنثاہم، یرثون کما یرثون، ویحجبون کما یحجبون، ولا یرث ولد الابن مع الابن۔‘‘(۱)
’’حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: پوتے اورپوتیاں بمنزلہ اولاد کے ہیں، جبکہ لڑکے موجود نہ ہوں، لڑکے لڑکوں کی طرح ہوں گے اور لڑکیاں لڑکیوں کی طرح۔ وہ اس طرح وارث ہوں گے جس طرح اولاد وارث ہوتی ہے، اور اسی طرح محروم ہوتے ہیں جس طرح اولاد محروم ہوتی ہے۔ اور پوتابیٹے کی موجودگی میں وارث نہیں ہوگا۔‘‘

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے فتوے کی وضاحت واہمیت

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے اس فتویٰ میں پہلے تو اس بات کو ذکرکیا ہے کہ احکامِ میراث میں پوتا پوتی کے احکام وہی ہیں جو بیٹابیٹی کے احکام ہیں۔ ایک تو اس حیثیت سے کہ ذکورت وانوثت کے اعتبار سے جو احکام بیٹا بیٹی کے ہیں وہی احکام پوتا پوتی کے ہیں۔ دوسرا اس اعتبار سے کہ استحقاق اور حجب وحرمان کے اعتبار سے جو احکام بیٹابیٹی کے ہیں وہی احکام پوتا پوتی کے ہیں، لیکن اس حوالے سے یہ بنیادی فرق پایاجاتا ہے کہ بیٹا بیٹی ’’بلاواسطہ‘‘ صلبی اولاد ہیں، جو میت کے قریب ہیں ،جبکہ پوتا پوتی ’’بالواسطہ‘‘ میت کے رشتہ دار ہیں، اس لیے ان پر احکامِ میراث کا اجراء اس وقت ہوگا، جب بیٹا نہ ہو، اور اگر بیٹا ہو تو اس صورت میں یہ محروم ہوں گے، چنانچہ فتویٰ کے آخر میں صراحۃًفرمایا کہ: ’’ولایرث ولد الابن مع الابن‘‘ ۔۔۔۔۔۔ ’’پوتا بیٹے کی موجودگی میں وارث نہیں ہوگا۔‘‘
میراث کے احکام میں حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ کے اس فتویٰ کی اہمیت اس حوالے سے ہے کہ رسولa نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ: ’’أفرضکم زید‘‘ (تم میں سب سے زیادہ علمِ فرائض/ میراث جاننے والے زید بن ثابت ہیں) یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس بات پر اجماع تھا کہ فرائض(میراث) میں حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ امام ہیں، اور عملاًبھی جب کسی مسئلے میں اختلاف یا اشتباہ ہوتاتوزیدبن ثابت رضی اللہ عنہ کا قول ہی قولِ فیصل ہوتا۔ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ماکان عمرؓوعثمانؓ یقدمان علٰی زیدٍ أحدًا فی الفتوی والفرائض والقراء ۃ۔ ‘‘ (۲)
’’حضرت عمر اور حضرت عثمان  رضی اللہ عنہما  فتویٰ، فرائض اور میراث میں حضرت زید رضی اللہ عنہ پر کسی اور کو مقدم نہیں کرتے تھے۔‘‘
اس بنیاد پر اُمت کا اجماع ہے، جیسا کہ علامہ ابویوسف ستائی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے محمدعبدالحی کتانی رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے، فرماتے ہیں:
’’قال أبویوسف الستائيؒ فی شرح التلمسانیۃ: الاختیار أن یوخذ في الفرائض بمذھب زیدبن ثابت رضی اللّٰہ عنہ فإنہ أفرض ہٰذہ الأمۃ بشہادۃ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔  ‘‘(۳)
’’پسندیدہ یہی ہے کہ فرائض کے بارے میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے قول کو اختیار کیا جائے، کیونکہ وہ جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی شہادت کے مطابق علمِ میراث کے سب سے زیادہ جاننے والے ہیں۔‘‘
دوسرا اس حوالے سے کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے اس فتوے کی بنیاد قرآن وحدیث کی صریح نصوص پر ہے۔
 تیسرااس حوالے سے کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ کے اس فتوے پر پوری اُمت کا اجماع ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے اس سے اختلاف نہیں کیا، جبکہ ائمہ فقہاء نے بالاتفاق یہی مذہب اختیار کیا ہے، جیسا کہ آگے تفصیل آرہی ہے۔ ان نصوص کی روشنی میں اُمت کا اس بات پر اجماع ہے کہ بیٹے کی موجودگی میں پوتا محجوب (محروم) ہوتا ہے اوراگر ذوی الفروض نہ ہوں تو عصبہ ہونے کی حیثیت سے سارا مال بیٹے کو ملے گا،اور اگر ذوی الفروض ہوں تو باقی ماندہ بیٹے ہی کو ملے گا۔ ابوالولیدالباجی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کامسلک نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’إنَّہٗ لَا مِیْرَاثَ لِابْنِ الِابْنِ مَعَ الِابْنِ؛ لِأَنَّہٗ أَقْرَبُ سَبَبًا مِنْہُ إلَی الْمَیِّتِ وَہُمَا یُدْلِیَانِ بِالْبُنُوَّۃِ؛ وَلِأَنَّ ابْنَ الِابْنِ یُدْلِيْ بِالِْابْنِ وَمَنْ یُدْلِيْ بِعَاصِبٍ فَإِنَّہُ لَا یَرِثُ مَعَہٗ، ۔۔۔وَعَلٰی ہٰذَا جَمْہُوْرُ الْفُقَہَائِ مِنَ الصَّحَابَۃِ وَالتَّابِعِیْنَ۔  ‘‘  (۴)
’’بیٹے کے ساتھ پوتے کو میراث نہیں ملتی، اس لیے کہ بیٹاپوتے کی نسبت میت سے زیادہ قریب ہے، اور اس لیے کہ پوتا بیٹے کی وساطت سے میت کی طرف منسوب ہے۔ اور جو رشتہ دار کسی عصبہ کی وساطت سے میت کی طرف منسوب ہو، تو اس عصبہ کے ہوتے ہوئے وہ وارث نہیں ہوتا، اور یہی جمہور فقہاء صحابہؓ وتابعینؒ کا قول ہے۔‘‘
چنانچہ فقہاء اربعہؒ نے یہی قول اختیار کیا ہے، عبارات ملاحظہ ہوں:

فقہ حنفی

’’ (و) الثانی (أن من أدلی بشخص لا یرث معہٗ) کابن الابن لا یرث مع الابن۔ ‘‘ (۵)
’’دوسرا: کوئی اور شخص کے ذریعے رشتہ دار ہو تو اس کے ہوتے ہوئے وہ وارث نہیں بنتا۔‘‘

فقہ مالکی

’’فَنَقُولُ لَا یَحْجُبُ ابْنَ الِابْنِ إِلَّا الِابْنُ۔‘‘(۶)
’’ہم کہتے ہیں کہ پوتے کو بیٹا ہی محجوب(محروم) بناتا ہے۔‘‘

فقہ شافعی

’’والحجب عشرۃ لا یرثون مع عشرۃ: ابن الابن لا یرث مع الابن۔‘‘(۷)
’’حجب دس ہیں، جو دس کے ساتھ وارث نہیں ہوتے۔ پوتا‘ بیٹے کے ساتھ وارث نہیں ہوتا۔‘‘

فقہ حنبلی

’’ولا یرث ولد الإبن مع الإبن بحال۔‘‘(۸)
’’پوتا کسی حالت میں بھی بیٹے کے ساتھ وارث نہیں ہوتا۔‘‘

اہل تشیع کا بھی یہی مسلک ہے:
’’ولایرث ابن الابن ولابنت الابنۃ مع ولد الصلب ولا یرث ابن ابن ابن مع ابن ابن وکل من قرب نسبہٗ فھو أولٰی بالمیراث ممن بعد۔ ‘‘(۹)
’’پوتا اور نواسی صلبی اولاد کی موجودگی میں وارث نہیں ہوتی اور نہ پوتے کا بیٹا پوتے کی موجودگی میں وارث ہوتا ہے اور قاعدہ یہ ہے کہ جس کانسب قریب ہو وہ دور کے رشتہ دار سے زیادہ میراث کا مستحق ہے۔‘‘
اور الاستبصار میں لکھا ہے:
’’ابن الابن إذا لم یکن من صلب الرجل أحد قام مقام الابن۔‘‘(۱۰)
’’پوتا بیٹے کے قائم مقام ہوجاتا ہے، جبکہ میت کی صلب سے کوئی اولاد نہ ہو۔‘‘
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ قرآن مجید، احادیثِ نبویہ، فتاویٰ صحابہؓ میں بصراحت یہ بیان ہوا ہے کہ بیٹے کی موجودگی میں پوتا محجوب (محروم) ہوتا ہے اور فقہاء کرام نے بالاتفاق اس مسئلے کو اختیار کیا ہے، جس پر اُمت کا اجماع ہے، جبکہ عائلی قوانین کی دفعہ :۴ وراثت کی روسے ایسی صورت میں پوتا‘ دادا کے مال میں بیٹے جتنے حصہ کا حق دار ٹھہرتا ہے۔ یوں دونوں باتوں میں کھلا تناقض وتصادم ہے۔

حوالہ جات

۱:-البخاری، محمد بن إسماعیل ،الجامع الصحیح، کتاب الفرائض،باب میراث ابن الابن إذا۔۔۔۔۔، رقم الحدیث :۶۷۳۲ (دار طوق النجاۃ ،۱۴۲۲ھ) جلد:۸،ص:۱۵۱۔
۲:-الہندی، علاء الدین علی بن حسام الدین متقی ، م:۹۷۵ھـ، کنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال (مؤسسۃ الرسالۃ، ۱۴۰۱ھ) رقم الحدیث:۳۷۰۵۰،جلد:۱۳،ص:۳۹۳
۳:-کتانی ،محمدعبدالحی بن عبدالکبیر،نظام الحکومۃ النبویۃ،دارالکتب العلمیۃ،ص:۳۵۸
۴:-باجی، أبو الولید سلیمان بن خلف، م:۴۷۴ھ، المنتقی شرح الموطأ،(مطبعۃ السعادۃ- مصر ، ۱۳۳۲ھ)جلد:۶،ص:۲۲۶۔
۵:-ابن عابدین،ردالمحتار، ۱۴۱۲ھ،جلد:۶،ص:۷۹
۶:-القرافی،أبو العباس أحمد بن إدریس المالکی، م:۶۸۴ھ، الذخیرۃ، دار الغرب الإسلامی-بیروت، متوفی:۱۹۹۴، جلد:۱۳، ص:۴۲۔
۷:-المحاملی، أبو الحسن أحمد بن محمد ، م:۴۱۵ھ، اللباب فی الفقہ الشافعی (دار البخاری، المدینۃ المنورۃ، -السعودیۃ، ۱۴۱۶ھ)ص:۲۷۳۔
۸:-ابن تیمیۃ، ابو البرکات عبد السلام بن عبداللہ الحرانی، م:۶۵۲ھ، المحرر فی الفقہ علی مذہب الإمام احمد بن حنبل (مکتبۃ المعارف- الریاض، ۱۴۰۴ھ) جلد:۱،ص:۳۹۶۔
۹:-الشیخ الصدوق، من لایحضرہ الفقیہ، (طہران،دارالکتب الاسلامیۃ، ۱۳۹۱ھ) جلد:۲، ص:۲۴۔
۱۰:-الطوسی، ابوجعفر محمد بن حسن الشیخ الإستبصار، (طہران، دارالکتب الاسلامیۃ، ۱۳۹۱ھ) جلد:۴، ص:۶۷۔                                                                                                                                           (جاری ہے)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین