بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

مسلم عائلی قوانین آرڈیننس ۱۹۶۱ء کی دفعہ ۴ (یتیم پوتے وغیرہ کی میراث) (تیسری قسط)

مسلم عائلی قوانین آرڈیننس ۱۹۶۱ء کی دفعہ ۴

(یتیم پوتے وغیرہ کی میراث)

اسلامی احکام کی روشنی میں تحقیقی جائزہ      

(تیسری قسط)

 

دوسری صورت

یتیم پوتی دادا کی وارث بن جائے، جبکہ اس کی پھوپھی یعنی دادا کی بیٹی موجود ہو، اور دادا کی بہن بھی موجود ہو۔
صورتِ مسئلہ یہ ہے کہ اگرفرض کرلیا جائے کہ دادا کی وفات کے وقت اس کے رشتہ داروں میں بیٹی، بہن اور یتیم پوتی موجود ہیں تو عائلی قوانین کی دفعہ وراثت کی رو سے پوتے کو دادا کے مال میں سے اپنے مرحوم والد کا پورا حصہ مل جائے گا، جو بیٹی کے حصہ کا دگنا ہو گا، اس لیے کہ ’’لِلذَّکَرِمِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ‘‘ میں یہی حکم ہے۔ یوں پوتی کو دوحصے اور بیٹی کو ایک حصہ مل جائے گا، جبکہ بہن محروم رہ جائے گی۔
جبکہ شریعتِ مطہرہ کی روسے کل مال کا آدھا بیٹی کو مل جائے گا، سدس (چھٹاحصہ) پوتی کو مل جائے گا اور باقی ماندہ حقیقی بہن کو مل جائے گا۔ ظاہر ہے کہ دونوں تقسیمیں ایک دوسرے کے بالکل برعکس ہیں۔ بہرحال اس تقسیم کی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حسبِ ذیل حدیث شریف ہے:
’’عَنْ ہُزَیْلِ بْنَ شُرَحْبِیْلَ، قَالَ: سُئِلَ أَبُوْ مُوْسٰی عَنْ بِنْتٍ وَابْنَۃِ ابْنٍ وَأُخْتٍ، فَقَالَ: لِلْبِنْتِ النِّصْفُ، وَلِلْأُخْتِ النِّصْفُ، وَأْتِ ابْنَ مَسْعُودٍ، فَسَیُتَابِعُنِيْ، فَسُئِلَ ابْنُ مَسْعُودٍ، وَأُخْبِرَ بِقَوْلِ أَبِيْ مُوْسٰی فَقَالَ: لَقَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُہْتَدِیْنَ، أَقْضِيْ فِیہَا بِمَا قَضَی النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لِلاِبْنَۃِ النِّصْفُ، وَلِابْنَۃِ ابْنٍ السُّدُسُ تَکْمِلَۃَ الثُّلُثَیْنِ، وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ فَأَتَیْنَا أَبَا مُوْسٰی فَأَخْبَرْنَاہُ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ، فَقَالَ: لَا تَسْأَلُوْنِيْ مَا دَامَ ہٰذَا الْحِبْرُ فِیْکُمْ۔ ‘‘(۱)
’’ہزیل بن شرحبیلؒ سے روایت ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیاکہ بیٹی، پوتی اور بہن وراث ہوں (توکتنا حصہ ملے گا ؟)فرمایا:آدھا بیٹی کو اورآدھا بہن کومل جائے گا ۔(اورسائل سے کہاکہ) : ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس جایئے، وہ ضرور میری موافقت کریں گے۔ جب ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ مسئلہ پوچھا گیا،اور ان کوابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کاقول بھی بتایا گیا،توآپؓ نے فرمایا: (اگر میں بھی یہی بات کروں تو) پھر تو میں گمراہ ہوجاؤں گا اور ہدایت پر نہیں رہوں گا۔ میں وہی فیصلہ کروں گا جونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے: ’’بیٹی کو آدھا اور پوتی کو چھٹا ملے گا، تاکہ دو ثلث مکمل ہوجائیں اور باقی ماندہ بہن کو ملے گا‘‘ توہم ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان کوابن مسعود رضی اللہ عنہ کاقول بتایا، تو (اپنے قول سے رجوع کرتے ہوئے) فرمایا: جب تک یہ بڑا عالم تمہارے اندر موجود رہے، تم مجھ سے نہ پوچھا کرو۔‘‘
اس حدیث شریف میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ صراحتاً معلوم ہوگیا کہ صلبی بیٹی کی موجودگی میں پوتی کو چھٹا حصہ ملے گا، اور بہن عصبہ ہوگی، یعنی ان دونوں کا حصہ دینے کے بعد جو بچے گا وہ بہن کو ملے گا، بیٹی کی موجودگی میں بہن کا عصبہ ہونا اجماعی مسئلہ ہے۔
امام خطابی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’فِيْ ہٰذَا بَیَانُ أَنَّ الْأَخَوَاتِ مَعَ الْبَنَاتِ عَصَبَۃٌ وَہُوَ قَوْلُ جَمَاعَۃِ الصَّحَابَۃِؓ وَالتَّابِعِیْنَ وَعَامَّۃِ فُقَہَائِ الْأَمْصَارِ۔‘‘(۲)
 ’’اس حدیث میں اس امر کا بیان ہے کہ بہنیں بیٹوں کی موجودگی میں عصبہ ہوتی ہیں اور یہ صحابہؓ، تابعینؒ اور تمام فقہاء امصار کا قول ہے۔‘‘
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کا فیصلہ نقل کرتے ہیں:
’’بَابٌ: مِیْرَاثُ الْأَخَوَاتِ مَعَ الْبَنَاتِ عَصَبَۃٌ: عَنِ الأَسْوَدِ، قَالَ: قَضَی فِیْنَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: النِّصْفُ لِلْاِبْنَۃِ وَالنِّصْفُ لِلْأُخْتِ۔‘‘(۳)
’’بہنوں کی میراث ،بیٹوں کے ساتھ عصبہ ہوتی ہیں۔ اسودؒ سے روایت ہے، فرمایا کہ عہدِ رسالت میں حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کیا کہ آدھا بیٹی کو ملے گا اور آدھا بہن کو ملے گا۔‘‘
قاعدہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کسی صحابیؓ کا فیصلہ حدیث مرفوع کے حکم میں ہے، جو حدیثِ تقریری کہلاتی ہے، چنانچہ اس مسئلے میں بھی فقہاء کا اجماع ہے۔ عبارات ملاحظہ ہوں:

فقہ حنفی:

’’فَإِنَّ الْأَخَوَاتِ مَعَ الْبَنَاتِ عَصَبَۃٌ فَیَکُوْنُ لِلْأُخْتِ مَا بَقِيَ۔‘‘(۴)
’’بہنیں بیٹیوں کے ساتھ عصبہ ہوتی ہیں، پس بہن کو باقی ماندہ ملے گا۔‘‘

فقہ مالکی

’’وَالْأَخَوَاتُ الشَّقَائِقُ وَلِلْأَبِ عَصَبَۃٌ مَعَ الْبَنَاتِ۔‘‘(۵)
’’سگی بہنیں اور علاتی(باب شریک) بہنیں بیٹیوں کے ساتھ عصبہ ہوتی ہیں۔‘‘

فقہ شافعی

’’قَالَ الشَّافِعِيُّ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی:’’ وَلِلْأَخَوَاتِ مَعَ الْبَنَاتِ مَا بَقِيَ إِنْ بَقِيَ شَیْئٌ وَإِلَّا فَلَا شَیْئَ لَہُنَّ وَیُسَمَّیْنَ بِذٰلِکَ عَصَبَۃَ الْبَنَاتِ‘‘ قَالَ الْمَاوَرْدِيُّ: ۔۔۔الْأَخَوَاتُ مَعَ الْبَنَاتِ عَصَبَۃٌ لَا یُفْرَضُ لَہُنَّ وَیَرِثْنَ مَا بَقِيَ بَعْدَ فَرْضِ الْبَنَاتِ۔‘‘ (۶)
’’امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: بیٹیوں کے ساتھ بہنیں آجائیں، تو ان کو باقی ماندہ ملے گا، اگر باقی ماندہ ہو، ورنہ ان کو کچھ نہیں ملے گا۔ اس طرح ان کو عصبۃالبنات کہاجاتا ہے۔ ماوردی فرماتے ہیں: بہنیں بیٹیوں کے ساتھ عصبہ ہیں، جن کا حصہ مقرر نہیں، وہ بیٹیوں کے مقررہ حصے کے بعد باقی ماندہ کی وارث ہوتی ہیں۔‘‘

فقہ حنبلی

’’وَإِنِ اجْتَمَعَ الْأَخَوَاتُ مَعَ الْبَنَاتِ، صَارَ الْأَخَوَاتُ عَصَبَۃً، لَہُنَّ مَا فَضُلَ۔‘‘(۷)
’’اگر بیٹیوں کے ساتھ بہنیں جمع ہو جائیں، تو بہنیں عصبہ بن جاتی ہیں، ان کو باقی ماندہ ملتا ہے۔‘‘
حاصل یہ ہوا کہ قرآن وسنت کی نصوص اور فتاویٰ صحابہؓ کی روشنی میں منعقد ہونے والے اجماعِ اُمت کے مطابق تو زیرِ بحث صورت میں پوتی کو سدس(چھٹا) حصہ ملتا ہے اور بہن بھی وارث ہوتی ہے، لیکن عائلی قوانین کی دفعہ ۴کے مطابق پوتی کو حصے، یعنی بیٹی سے بھی زیادہ ملے گا، اور بہن محروم ہوگی، لہٰذا اس حیثیت سے بھی دفعہ ۴شرعی احکام سے بالکلیہ متصادم ہے۔

تیسری صورت

یتیم نواسے/ نواسیاں نانا کے مال میں وارث بن جائیں، جبکہ ان کے ماموں/خالہ یعنی نانا کی صلبی اولاد موجود ہو۔
صورتِ مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص کا انتقال ہو جائے، اس کے رشتہ داروں میں صلبی اولاد بیٹے/ بیٹیاں موجود ہوں اور یتیم نواسے/ نواسیاں بھی موجود ہوں، تو عائلی قوانین کی دفعہ کی رو سے نواسوں/ نواسیوں کو میراث ملے گی، جس کی مقدار یہ ہوگی کہ اگر ان کی والدہ حیات ہوتی، اس کو اپنے والد کے مال میں سے جتنا حصہ ملتا، مثلاً بھائیوں سے نصف، تو یہ حصہ اب اس کے بچوں ، یعنی مرنے والے کے نواسوں/ نواسیوں کو ملے گا۔
جبکہ شریعتِ مطہرہ کی رو سے اس صورت میں نواسے/ نواسیاں وارث نہیں ٹھہرتے، اس لیے کہ وہ نہ تو ذوی الفروض ہیں، جن کا حصہ قرآن میں مقرر ہے اور نہ عصبات ہیں کہ وہ باقی ماندہ کے وارث بنیں، بلکہ ذوی الارحام ہیں۔ اور ذوی الارحام کے وارث بننے کے حوالے سے دو قول ہیں: ایک قول حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ کا ہے کہ ذوی الأرحام کسی صورت میں وارث نہیں ہوتے۔ صحابہ کرامs کی ایک جماعت اور فقہاء میں سے امام مالکؒ وامام شافعیؒ نے یہی قول اختیار کیا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ آیات المواریث میں ذوی الفروض وعصبات کی میراث کاذکر تو ہے، لیکن ذوی الارحام کاذکرنہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوی الارحام وارث نہیں۔
دوسراقول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ہے ،جس کے مطابق ذوی الفروض اور عصبات کے موجود نہ ہونے کی صورت میں ذوی الأرحام وارث بنتے ہیں۔ اس قول کو صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کی ایک جماعت اور فقہاء میں سے ائمہ احناف نے لیا ہے۔ اس قول کی بنیاد سورۂ انفال کی حسب ذیل آیتِ کریمہ ہے:
’’وَأُولُوْ الْأَرْحَامِ بَعْضُہُمْ أَوْلٰی بِبَعْضٍ۔‘‘(۸)
’’ناتے والے (رشتے دار) آپس میں حقدار زیادہ ہیں ایک دوسرے کے اللہ کے حکم میں۔‘‘
چند احادیث سے بھی استدلال کیا گیا۔ (۹)
بہرحال جس قول کے مطابق ذوی الارحام وارث بنتے ہیں، اس کی تفصیل یہ ہے کہ ذوی الفروض (سوائے زوجین کے) اور عصبات موجود نہ ہونے کی صورت میں ذوی الارحام وارث بنتے ہیں۔ ’’الدرالمختار‘‘میں ہے:
’’بَابُ تَوْرِیْثِ ذَوِی الْأَرْحَامِ (ہُوَ کُلُّ قَرِیْبٍ لَیْسَ بِذِیْ سَہْمٍ وَلَا عَصَبَۃٍ) فَہُوَ قِسْمٌ ثَالِثٌ حِیْنَئِذٍ (وَلَا یَرِثُ مَعَ ذِیْ سَہْمٍ وَلَا عَصَبَۃٍ سِوَی الزَّوْجَیْنِ) لِعَدَمِ الرَّدِّ عَلَیْہِمَا۔فَہُمْ أَرْبَعَۃُ أَصْنَافٍ جُزْئُ الْمَیِّتِ، ثُمَّ أَصْلُہُ ثُمَّ جُزْئُ أَبَوَیْہِ ثُمَّ جُزْئُ جَدَّیْہِ۔‘‘(۱۰)
’’باب: ذوی الارحام کا وارث بننا: ذوی الارحام وہ رشتہ دار ہیں، جو ذوی الفروض اور عصبہ میں سے نہ ہوں۔ یہ تیسری قسم ہے۔ ذوی الارحام‘ ذوی الفروض اور عصبہ کے ساتھ وارث نہیں بنتے، سوائے زوجین کے (کہ ان کے ساتھ وارث بنتے ہیں) اس لیے زوجین پر رد نہیں ہوتا۔ ذوی الارحام چارقسم پر ہیں: ۱:-میت کا جزء، ۲:-میت کا اصل، ۳:-میت کے والدین کا جزء، ۴:- والدین کے دادا یادادی کا جزء ۔‘‘
اب تک کی بیان کردہ تفصیل کا حاصل یہ ہوا کہ دفعہ۴ ’’وراثت‘‘ کو درست ماننے کی صورت میں عملی طور پر تین صورتیں ممکن ہیں۔ ان میں سے ہر صورت کے متعلق قرآن وسنت کے احکام کچھ اور ہیں، جبکہ دفعہ ۴ کی رُو سے اس کے احکام بالکل بدل جاتے ہیں، اس لیے اس دفعہ کوتسلیم کرنے کی صورت میں ان تمام شرعی احکام کو پسِ پشت ڈالنا ہوگا۔ لہٰذا اس دفعہ کے مطابق میراث کی تقسیم قرآن وسنت میں تحریف کے مترادف ہے، جو انتہائی خطرناک عمل ہے۔
علاوہ ازیں! میراث کے دیگرکئی اصول اور شرعی احکام ہیں۔ اس دفعہ پر عمل کرنے کی صورت میں ان تمام اصول واحکام کی خلاف ورزی لازم آئے گی۔ تفصیل ملاحظہ ہو:

کتاب وسنت سے ماخوذ احکامِ میراث کے بنیادی اُصول

پہلااصل:مورث کی وفات کے وقت زندہ موجود ورثاء وارث ہوتے ہیں۔
دوسرااصل:ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصہ کے برابر ہوتا ہے۔
تیسرااصل:صلبی اولاد کی طرح دوسرے رشتہ داربھی وارث ہوتے ہیں۔
چوتھا اصل:ہر وارث وارث ہوتا ہے، خواہ اس کی اولاد ہو یا نہ ہو۔

متذکرہ بالا اُصول کی توضیح وتشریح

پہلااصل:مورث کی وفات کے وقت زندہ موجودہ ورثاء وارث ہوتے ہیں۔
 اس اصول کے دوجزء ہیں: 
الف:- کسی شخص کا مال وفات کے وقت میراث بنتا ہے، وفات سے پہلے نہیں۔ 
ب:- زندہ موجود رشتہ داروں کامیراث میں حصہ ہوتا ہے، وفات شدگان کا نہیں۔ یہ اصول درج ذیل آیاتِ خداوندی میں بیان ہوا ہے:
’’إِنِ امْرُؤٌ ہَلَکَ لَیْسَ لَہٗ وَلَدٌ وَّلَہٗ أُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَکَ وَہُوَ یَرِثُہَا إِنْ لَمْ یَکُنْ لَہَا وَلَدٌ۔‘‘(۱۱)
’’اگر کوئی مرد مر گیا اور اس کا بیٹا نہیں اور اس کی ایک بہن ہے تو اس کو پہنچے آدھا اس کا جو چھوڑا اور وہ بھائی وارث ہے اس بہن کا اگر نہ ہو اس کے بیٹا ۔‘‘
’’وَلَکُمْ نِصْفُ مَا تَرَکَ أَزْوَاجُکُمْ إِنْ لَمْ یَکُنْ لَہُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ کَانَ لَہُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُوصِیْنَ بِہَا أَوْ دَیْنٍ وَلَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ إِنْ لَمْ یَکُنْ لَکُمْ وَلَدٌ فَإِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ۔‘‘(۱۲)
’’ تمہارا ہے آدھا مال جو کہ چھوڑ مریں تمہاری عورتیں اگر نہ ہو ان کے اولاد اور اگر ان کے اولاد ہے تو تمہارے واسطے چوتھائی ہے اس میں سے جو چھوڑ گئیں بعد وصیت کے جو کر گئیں یا بعد قرض کے، اور عورتوں کے لیے چوتھائی مال ہے اس میں سے جو چھوڑ مرو تم اگر نہ ہو تمہاری اولاد، اور اگر تمہاری اولاد ہے تو ان کے لیے آٹھواں حصہ ہے اس میں سے جو کچھ تم نے چھوڑا۔‘‘
ان آیاتِ کریمہ میں دو امرمذکور ہیں: پہلا یہ کہ:یہاں تین کلمات استعمال ہوئے ہیں: ۱:-ھلک، ۲:-ترک، ۳:-ترکتم، جس کے معنی یہ ہیں کہ جب کوئی آدمی مر جائے اور مال چھوڑجائے تو اس میں کسی وارث کو نصف یا ربع ملے گا، گویا جب تک کوئی شخص زندہ ہے اس کے مال میں کسی وارث اور رشتہ دار کاکوئی حصہ نہیں ہوتا۔
 دوسرا یہ کہ :زندہ موجود رشتہ داروں کا حصہ بیان کیا گیا ہے، یعنی ’’وَلَہَا أُخْتٌ‘‘(اس کی بہن ہو) ’’وَلَکُمْ نِصْفُ‘‘ اور ’’وَلَہُنَّ الرُّبُعُ‘‘ ۔ جبکہ ’’إِنْ لَمْ یَکُنْ لَہَا وَلَدٌ‘‘ اور ’’إِنْ لَمْ یَکُنْ لَہُنَّ وَلَدٌ‘‘ اور ’’إِنْ لَمْ یَکُنْ لَکُمْ وَلَدٌ‘‘ میں تین مرتبہ کہا گیا ہے کہ اولاد نہ ہو۔ اس میں یہ صراحت ہے کہ غیر موجود اولاد (خواہ پیدا ہی نہ ہوئی ہو ، یا پیداہونے کے بعد مرگئی ہو) حصہ دار نہ ہوگی، بلکہ ان کی غیر موجودگی کی وجہ سے موجود ورثاء کے حصے مختلف ہوتے رہتے ہیں۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ’’کتاب الام‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’وَکَانَ مَعْقُوْلًا عَنِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ثُمَّ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ- صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ- ثُمَّ فِيْ لِسَانِ الْعَرَبِ وَقَوْلِ عَوَامِّ أَہْلِ الْعِلْمِ بِبَلَدِنَا أَنَّ امْرَأً لَا یَکُوْنُ مَوْرُوْثًا أَبَدًا حَتّٰی یَمُوْتَ، فَإِذَا مَاتَ کَانَ مَوْرُوْثًا وَأَنَّ الْأَحْیَائَ خِلَافُ الْمَوْتٰی فَمَنْ وَرِثَ حَیًّا دَخَلَ عَلَیْہِ- وَاللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ - خِلَافَ حُکْمِ اللّٰہِ  عَزَّ وَجَلَّ  وَحُکْمِ رَسُوْلِ اللّٰہِ  صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ  فَقُلْنَا: وَالنَّاسُ مَعَنَا بِہٰذَا لَمْ یَخْتَلِفْ فِيْ جُمْلَتِہٖ۔‘‘(۱۳)
’’اور وہ امر جو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ، پھر عربی زبان اور ہمارے وطن(مکہ معظمہ) کے اہلِ علم کے قول سے سمجھا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ کوئی شخص کبھی موروث(مورث) نہیں ہوسکتا تاوقتیکہ وہ مرنہ جائے۔ پھر جب وہ مرجائے گا تو موروث قراردیا جائے گا۔ اوربلا شبہ زندہ کے احکام مردوں سے الگ ہیں، لہٰذا جو شخص کسی زندہ کو مورث قراردیتا ہے، وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم میں مداخلت کرتا ہے، چنانچہ ہم اور ہمارے ساتھ سب لوگ اسی بات کے قائل ہیں اور اس میں سرے سے کسی کا اختلاف نہیں۔‘‘
دوسرا اصل:ایک مرد کا حصہ دوعورتوں کے برابر ہے: یہ اصل انہی الفاظ میں قرآن مجید کی حسبِ ذیل آیتِ کریمہ میں بیان کیا گیا ہے: ’’لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَیَیْنِ۔‘‘(۱۴)
تیسرا اصل: صلبی اولاد کی طرح دیگر رشتہ دار بھی وارث ہوتے ہیں، مثلاً: والدین، بیوی، شوہر،اور کلالہ (جس کے نہ والدین ہوں اور نہ اولاد)کی صورت میں بہن اور بھائی، یہ بات آیات المواریث میں صراحتاً بیان کی گئی ہے۔
چوتھا اصل:وارث اپنے مورث کا وارث ہوتا ہے، خواہ وہ صاحبِ اولاد ہو یا نہ ہو۔
 اس اصل کا مفہوم یہ ہے کہ مرنے والے کے ورثاء اس میت کی میراث کے مطلقاً وارث ہوتے ہیں، قطع نظراس سے کہ وارث خود صاحبِ اولاد ہو یا نہ ہو۔ قرآن وحدیث میں ایسی کوئی قید نہیں، کہ اگر وارث صاحبِ اولاد ہو تو وہ وارث ہوگا اور اگر صاحبِ اولاد نہ ہو تو وارث نہیں ہوگا۔

حوالہ جات

۱:- محمد بن إسماعیل البخاری،الجامع الصحیح، کتاب الفرائض، باب میراث ابنۃ الابن مع بنت، رقم الحدیث:۶۷۳۶، جلد:۸،ص:۱۵۱۔
۲:-الخطابی،أبو سلیمان احمد ابن محمد، ـ معالم السنن، شرح سنن أبی داؤد،(المطبعۃ العلمیۃ، حلب، ۱۳۵۱ھ) جلد:۴،ص :۹۴۔
۳:-محمد بن إسماعیل البخاری، ۱۴۲۲ھ، رقم الحدیث:۶۷۴۱، جلد:۸،ص:۱۵۱ (دار طوق النجاۃ، ۱۴۲۲ھ)
۴:-السرخسی ، المبسوط، ۱۴۱۴ھ، جلد :۲۹، ص:۲۰۔
۵:-الغرناطی، أبوالقاسم محمد بن أحمد ، متوفی:۷۴۱ھ، القوانین الفقہیۃ ، جلد:۱،ص:۲۵۴۔
۶:-الماوردی، أبو الحسن علی بن محمد المزنی،الحاوی الکبیر فی فقہ مذہب الامام الشافعی، شرح مختصر المزنی (دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۴۱۹ھ)جلد:۸،ص:۱۰۷۔
۷:-المقدسی،أبو محمد موفق الدین محمد بن قدامۃالحنبلی،م:۶۲۰ھ، الکافی فی فقہ الإمام أحمد،(دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۱۴ھ) جلد: ۲، ص:۳۰۰۔
۸-الأنفال:۸۔                ۹:-دیکھئے: السرخسی ، المبسوط، ۱۴۱۴ھ، جلد:۴، ص:۳-۸۔
۱۰:-ابن عابدین، ردالمحتار، ۱۴۱۲ھ، جلد:۶، ص:۷۹۳۔        ۱۱:-النساء :۱۷۶۔
۱۲:-النساء :۱۲۔                ۱۳:- کتاب الأم ،جلد:۴،ص :۷۸۔
۱۴:-النساء :۱۷۶۔                                                                                                    (جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین