بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

بینات

 
 

مسجد ِاقصیٰ کی حرمت اور علمائے کرام کی ذمہ داری!


مسجد ِاقصیٰ کی حرمت اور علمائے کرام کی ذمہ داری!

 

الحمد للہ وسلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی

فلسطین خصوصاً اہلِ غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور ان کی نسل کشی کو آج ان سطروں کی تحریر کے وقت تک چار ماہ سے زیادہ ہوچکے ہیں، اور اسرائیل مسلسل ان پر وحشیانہ بمباری کر رہا ہے، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس میں ڈیڑھ سو سے دو سو تک اہلِ غزہ شہید نہ کیے جا رہے ہوں۔ حد تو یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کی سب سے اعلیٰ عدالت ( جسے عالمی عدالتِ انصاف کہا جاتا ہے ) کے سترہ ججوں میں سے پندرہ ججوں کی اکثریت نے اسرائیل کو حکم دیا ہے کہ وہ غزہ میں نسل کشی روکے، غزہ میں انسانی امداد پہنچانے کی اجازت دی جائے۔ عدالت نے جنوبی افریقہ کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، یہ مقدمہ خارج نہیں کریں گے، لیکن اسرائیل کی ہٹ دھرمی دیکھیے کہ وہ آج بھی کہہ رہا ہے کہ نسل کشی کے الزامات جھوٹے اور اشتعال انگیز ہیں، نعوذ باللہ من شرّھم ! 
ان حالات میں مسلم حکمرانوں اور خصوصاً عوام الناس کو کیا کرنا چاہیے؟ اس کے لیے کراچی کی حد تک اہلِ سنت کے تمام مکاتبِ فکر کے علمائے کرام، مشائخِ عظام، خطباء اور واعظین حضرات کا ایک عظیم الشان اجتماع منعقد کیا گیا۔ کراچی کے علماء اور زعماء کا یہ متحدہ اجتماع مسجدِ اقصیٰ کی حرمت، فلسطین کے حقوق اور علماء کرام کی ذمہ داری کے موضوع پر مؤرخہ ۳؍ رجب المرجب ۱۴۴۵ھ مطابق ۱۵؍جنوری ۲۰۲۴ء بروز پیر کراچی کے ہوٹل ریجنٹ پلازہ میں منعقد ہوا، جس میں کراچی کے مختلف مکاتبِ فکر کے نمائندہ علماء اور دانشوروں نے اپنی باوقار تقریروں میں مسجدِ اقصیٰ کی آزادی اور فلسطینی بھائیوں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا اور آخر میں درج ذیل اعلامیہ متفقہ طور پر جاری کیا گیا:ـ
1- اسرائیل اپنے ناجائز قیام کے وقت سے فلسطین کے باشندوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور آج اس وحشیانہ ظلم و ستم اور اس کے خلاف مجاہدینِ حماس کی سرفروشانہ مزاحمت کو پورے سو دن ہوچکے ہیں۔ اس دوران اسرائیل نے غزہ میں تاریخ کے بدترین قتلِ عام کا ارتکاب کرتے ہوئے تیس ہزار سے زیادہ بے گناہ شہریوں کو انسانیت سوز ظلم کا نشانہ بناکر شہید کیا ہے، جن میں ستر فیصد عورتیں اور بچے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ۱۴۲ مسجدوں، تین کلیسائوں اور غزہ کے بیشتر ہسپتالوں کو براہِ راست نشانہ بنایا ہے، جس میں سینکڑوں نومولود بچوں کو بھی موت کے گھاٹ اُتار دیا ہے، یہاں تک کہ ۱۱۷ ؍صحافیوں اور ۴۵ ؍شہری دفاع کے کارکنوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ ۶۹۲۰۰ عمارتوں کو مکمل طور پر اور ۲۹۰۰۰۰ عمارتوں کو جزوی طور پر تباہ کر دیا ہے۔
2- پورا فلسطین وہاں کے اصل باشندوں کا ہے اور ان کو بے گھر کرکے مختلف ممالک سے صہیونیوں کی جو بستیاں قائم کی گئی ہیں، وہ سراسر ظلم اور ناانصافی پر مبنی ہیں اور اہلِ فلسطین کو اس جارحیت کے خلاف ہر طرح کی جدوجہد کا پورا حق حاصل ہے، لیکن مسجدِ اقصیٰ جو ہمارا قبلۂ اول اور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے سفرِ معراج کی مقدس جگہ ہے، وہ پوری اُمتِ مسلمہ کی امانت ہے، جسے اسرائیل سے آزاد کرانا پوری اُمت کی ذمہ داری ہے۔
3- حماس کی موجودہ جنگ خالص اسلام کی بنیاد پر ایک عظیم الشان دفاعی جہاد ہے، جس کا اعلان حماس کے جانباز اور سرفروش مجاہدوں نے بار بار کیا ہے اور اس کا مقصد مسلمانوں کے قبلۂ اول اور خاتم الانبیاء  صلی اللہ علیہ وسلم  کے مقامِ معراج کو صہیونی تسلط سے آزاد کرانا ہے۔ مغربی طاقتوں، بالخصوص امریکہ کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ مجاہدین جو کسی کافرانہ طاقت سے آزادی کی جدوجہد کرتے ہیں، انہیں ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے کر بدنام کیا جاتا ہے۔ حماس کو بھی یہ لقب دیا گیا ہے، حالانکہ وہ کثرتِ رائے سے منتخب سیاسی قوت ہے، جو اپنی سرزمین کو اسرائیل کے تسلط سے آزاد کرانے کے لیےسالہاسال سے جدوجہد کررہی ہے، جسے اس کا پورا حق حاصل ہے۔
4- اسرائیل کے ساتھ یہ پہلی جنگ ہے جس میں مجاہدین نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسرائیل کے دبدبے کو خاک میں ملاکر رکھ دیا ہے اور فضائی طاقت کے فقدان کے باوجود اسے بھاری جانی اور مالی نقصان پہنچایا ہے۔ گزشتہ سو دنوں کے دوران کسی بھی مرحلے پر اسرائیل ان پر تسلط حاصل نہیں کرسکا، بلکہ کئی مقامات پر اس نے پسپائی کی ذلت اُٹھائی ہے۔
5- علماء کرام کا یہ اجتماع شریعت کا حکم واضح کرنا چاہتا ہے کہ جب مسلمانوں کی زمین پر کوئی حملہ یا غاصبانہ تصرف کرے تو اس جگہ کے مسلمانوں پر پہلے جہاد فرض ہوجاتا ہے اور اگر وہ جہاد کے لیے کافی نہ ہوں تو اس کے قریب لوگوں پر درجہ بدرجہ جہاد فرض ہوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ دشمن کے ظلم کا خاتمہ ہوجائے، اس کے علاوہ مسجدِ اقصیٰ کو ظالموں کے تسلط سے آزاد کرانے کی ہر ممکن کوشش اُمت ِ مسلمہ پر فرض ہے۔
6- یہ اجتماع اس بات کو شدت سے محسوس کرتا ہے کہ یہ تاریخ کی ایسی فیصلہ کن گھڑی ہے جس کا تقاضا یہ تھا کہ پورا عالمِ اسلام جو انڈونیشیا سے مراکش تک پھیلا ہوا ہے اور قدرتی اور تزویراتی وسائل سے مالا مال ہے، اس وقت ایک مضبوط اور مشترک دفاعی موقف اختیار کرتا اور اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ تمام مسلمان چاہے کسی بھی ملک میں آباد ہوں، ایک جسم کی حیثیت رکھتے ہیں، افسوس ہے کہ حکومت کی سطح پر عالمِ اسلام اس حقیقت کا عملی ادراک نہیں کررہا ہے کہ اسرائیل کے اعلان کردہ عزائم پورے شرقِ اوسط کو نگلنے پر مشتمل ہیں اور اس موقع کی نزاکت کا احساس کرکے فلسطین کا ساتھ نہ دینا عالمِ اسلام کے مستقبل کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ قرآن کریم کی ایک آیت اور اس کا ترجمہ یہ ہے کہ:
’’وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ أَخْرِجْنَا مِنْ ہٰـذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ أَہْلُہَاج وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّاج وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا ط الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِج وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ فَقَاتِلُوْآ أَوْلِیَآءَ الشَّیْطٰنِج إِنَّ کَیْدَ الشَّیْطٰنِ کَانَ ضَعِیْفًا‘‘ (النساء: ۷۵، ۷۶)
ترجمہ: ’’اور تمہارے پاس کیا جواز ہے کہ اللہ کے راستے میں اور ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو یہ دعا کررہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہمیں اس بستی سے نکال لائیے جس کے باشندے ظلم توڑ رہے ہیں اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی حامی پیدا کردیجئے اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی مددگار کھڑا کردیجئے۔ جو لوگ ایمان لائے ہوئے ہیں وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے وہ طاغوت کے راستے میں لڑتے ہیں، لہٰذا تم شیطان کے دوستوں سے لڑو، شیطان کی چالیں درحقیقت کمزور ہیں۔‘‘ 
7- حکومتِ پاکستان نے غزہ کے لیے جو امدادی جہاز بھیجے ہیں وہ قابلِ تعریف ہیں، لیکن ہم حکومت سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ عام مسلمانوں کے لیے بھی اپنے بھائیوں کو امداد پہنچانے کے لیے سہولتیں فراہم کریں۔
8- ہم مسلمانوں اور تمام انصاف پسند انسانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف اپنے پُرامن مظاہرے دنیا بھر میں جاری رکھیں اور دنیا کو اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں سے باخبر کرکے اس کی غیر انسانی سرشت کو آشکار کریں۔
9- ہم مسلمانوں اور تمام انصاف پسند انسانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ ان میں سے جن کے سفارتی تعلقات اسرائیل سے قائم ہیں، وہ اسرائیل سے اپنے سفارتی اور تجارتی تعلقات ختم کریں اور ان کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں۔
10- ہم مساجد کے ائمہ اور خطباء سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ عام مسلمانوں کے ذہن میںمسجدِ اقصیٰ کے فضائل اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت فاروق اعظم  رضی اللہ عنہ  کی فتحِ بیت المقدس اور سلطان صلاح الدین ایوبی  ؒ کی فتوحات بیان کریں اور مسجدِ اقصیٰ کو آزاد کرانے کے فریضے سے عوام کو روشناس کرائیں۔ فلسطین کے مسئلے کو زندہ رکھنے اور اس کے بارے میں عوامی آگاہی پیدا کرنے کے لیے اپنے جمعہ کے خطبوں میں مسئلے کی اہمیت واضح کریں اور اسرائیلی مصنوعات اور ایسی غیر ملکی مصنوعات کا ممکن حد تک مکمل بائیکاٹ کرنے پر زور دیں، جن کا فائدہ بلاواسطہ یا بالواسطہ اسرائیل کو پہنچتا ہو۔
11- ائمہ اور خطباء سے یہ بھی درخواست ہے کہ غزہ کے مصیبت زدہ باشندوں اور مجاہدین کو زیادہ سے زیادہ مالی امداد پہنچانے کی جو کوششیں مختلف بااعتماد اداروں کی طرف سے ہورہی ہیں، ان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اس کو ایک دینی فریضے کے طور پر انجام دینے کے لیے ایسی مہم چلائیں کہ ساری عوام اس میں شریک ہو۔‘‘
اللہ تبارک و تعالیٰ اہلِ غزہ کی مشکلات کو دور فرمائے، تمام مسلمانوں کو اتحاد و اتفاق نصیب فرمائے۔ ملک، قوم اور ملت کے لیے ہم سب کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنے اور انہیں بروئے کار لانے کی توفیق عطا فرمائے، آمین بجاہ سیّد المرسلین۔

وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد و علٰی آلہٖ و صحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین