بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

بینات

 
 

مسجد ِ اقصیٰ کی تولیت اور عمار خان ناصر صاحب کی تحریر ات (تفصیلی و تنقیدی جائزہ)       (دوسری قسط)

مسجد ِ اقصیٰ کی تولیت اور عمار خان ناصر صاحب کی تحریر ات

(تفصیلی و تنقیدی جائزہ)       (دوسری قسط)

 

اہل کتاب کے مقاماتِ مقدسہ میں داخل ہونے کے جواز وعدمِ جواز کی بحث
اس کے علاوہ اس عنوان کے تحت آنجناب نے ایک لمبی بحث کی ہے ،جس میں مشرکین و اہل ِ کتاب کے مساجد اور مقامات ِ مقدسہ میں داخل ہونے کے جواز و عدم ِ جواز کی بحث فقہاء کے مذاہب کی روشنی میں کی ہے۔ کیا حق ِ تولیت اور کسی مقام میں داخل ہونے کی اجازت کا مفہوم ایک ہے؟تعجب ہے کہ اس مقام پر آنجناب نے اس حوالے سے فقہاء کے مذاہب اور ’’إنما المشرکون ‘‘والی آیت کے عموم و خصوص میں مفسرین کے اختلافات تو تفصیل سے بیان کیے، لیکن مسجد ِاقصیٰ کی تولیت کے اثبات و نفی پر کوئی ایک دلیل نہیں دی۔زیادہ سے زیادہ یہ بات ثابت کی ہے کہ حنفیہ کے ہاں مسجد ِ اقصیٰ میں اہل ِ کتاب کے داخل نہ ہونے کے حوالے سے کوئی نص نہیں ہے۔ کیا اس سے اہل ِ کتاب کی تولیت ثابت ہوگئی؟نیز جس جزیئے سے آنجناب نے حق ِ تولیت کو اہل ِ کتاب کے لیے ثابت ہونے کے بارے میں استدلال کیا ہے، اُسے لطیفہ ہی کہا جاسکتا ہے۔آنجناب کا’’کمال ‘‘ہے کہ یہود کے لیے حق ِ تولیت کے اثبات کے لیے تو فقط’’جزئیات ‘‘سے استدلال کریں ،لیکن امتِ مسلمہ کے لیے اسے ثابت کرنے کے لیے دو ٹوک اور واضح نص کا مطالبہ کریں۔اور جزئیات بھی ایسی ہیںجو کسی اور سیاق میں بیان ہوئی ہیں اور شاید ان کے واضعین کے حاشیہ و خیال میں بھی یہ بات نہ ہو کہ کوئی ’’ذہین و فطین‘‘ان جزئیات سے یہود کے لیے مسجد ِ اقصیٰ کی تولیت ثابت کرے گا اور مزید یہ کہ ان واضعین کا موقف بھی یہ ہو کہ مسجدِ اقصیٰ کی تولیت امت ِ مسلمہ کا حق ہے ،کیونکہ مسجد ِ اقصیٰ پر یہود کے حق ِ تولیت کی بقا امت ِ مسلمہ میں آنجناب کے علاوہ کسی کا مسلک نہیں ہے۔ جس جزئی پر آنجناب نے استدلال کی عمارت کھڑی کی ہے ،اس میں صرف اتنی بات بیان ہوئی ہے کہ اگر کوئی ذمی مسجد ِ اقصیٰ کے لیے کوئی چیز وقف کرے تو اس کا یہ وقف درست ہو گا یا نہیں؟تو فقہاء نے لکھا ہے کہ چونکہ اہل ِ کتاب کے ہاں بھی مسجد ِ اقصیٰ محترم ہے ، اس لیے وقف کے بنیادی اصول کے مطابق ان کا یہ وقف درست سمجھا جائے گا۔اب قارئین بتائیں کہ اس سے ان کی تولیت کیسے ثابت ہوتی ہے؟آنجناب نے اس سے یہ ’’نتائج ‘‘اخذ کیے ہیں :
نتیجہ نمبر:۱
 اس جزئیے سے ثابت ہو اکہ فقہاء مسجد ِ اقصیٰ کو اہل ِکتاب اور مسلمانوں کی مشترکہ عبادت گاہ مانتے ہیں(تعجب ہے کہ فقہاء جب اس کو اہل کتاب کی بھی عبادت گاہ مانتے ہیں تو اس کے لیے فقہاء نے اس جزئیے کے علاوہ پوری فقہ اسلامی میں اور کوئی حکم بیان نہیں کیا ہے!کہ اہل ِکتاب کو اپنی اس عبادت گاہ میں وقف کے علاوہ اور کون کون سے اختیارات حاصل ہیں؟)
نتیجہ نمبر:۲
اشتراک سے ثابت ہوا کہ ان کا حقِ تولیت بھی باقی ہے ،کیونکہ تولیت کو مانے بغیر اشتراک کا تصور نہیں ہو سکتا۔
(تعجب ہے کہ ایک وقف کے دو متولی کیسے ہوں گے؟خصوصاًجبکہ ان کی ملتیں بھی مختلف ہوں۔ہر متولی جب اس کو اپنے دین کے مطابق استعمال کرنا چاہے گا تو اس کا حشر کیا ہو گا ؟آنجناب بتائیں! اور اگر اس سے صرف اہل ِکتاب کی تولیت ثابت ہوتی ہے، تو عجیب تضاد ہے کہ اہل ِکتاب کا وقف درست ہونا توان کی تولیت کی دلیل ہے اور مسلمان کا وقف درست ہونا اس کی تولیت کی دلیل بالکل نہیں ہے؟یا للعجب) قارئین اس سے جناب عمار صاحب کے استدلال کی’’ مضبو طی‘‘ کا اندازہ لگائیں۔
۴:…بحث چہارم
اس طرح کی ’’لاحاصل ‘‘بحث کے بعدآنجناب نے عنوان باندھا ہے ’’مسلمانوں کے حقِ تولیت کے شرعی دلائل کا جائزہ‘‘اس عنوان کے بعد آنجناب نے یہ عبارت رقم کی ہے:
 ’’ہم اوپر تفصیل کے ساتھ واضح کر چکے ہیں کہ مسجد ِاقصیٰ کی تولیت کے منسوخ ہونے کا کوئی اشارہ تک قرآن و سنت اور کلاسیکل فقہی لٹریچر میں نہیں ملتا‘‘۔
 جناب عما ر صاحب کا ’’کمال ‘‘ہے کہ آپ ا کو اللہ نے بیت المقدس میں تمام انبیاء ؑکا امام بنا کر نماز پڑھوائی،آپ ا کے لیے مخصوص مدت کے لیے قبلہ بنایا،آپ ا نے مسجد ِ اقصیٰ کے لیے سفر کو باعثِ ثواب قرار دیا،اس میں ’’نماز‘‘پڑھنے کی ترغیب دی،مسجد ِاقصیٰ کو ان بقعات میں شمار کیا جس میں دجال (یہود کا سربراہ)داخل نہیں ہو سکے گا۔(۱)(اور جناب عمار صاحب دجال کے متبعین کو یہ مقدس مقام دینے پر زور دے رہے ہیں)اور قرب ِ قیامت میں مومنین کے اس میں(یہود کے مرکز ِ عبادت میں) محصورہونے کی پیشین گوئی فرمائی(۲) فقہاء نے اس میں (یہود کی عباد ت گاہ میں)اعتکاف کے احکامات بیان کیے۔(۳) مسجد ِاقصیٰ اور حرمین شریفین میں افضلیت کی بحثیں کیں(۴) حضرت عمرؓ نے اس کو فتح کر کے اس میں نماز پڑھی، حالانکہ آپؓ نے دیگر عبادت گاہوں میں ان کی درخواست کے باوجود نماز نہیں پڑھی ،وہاں مسجد بنوائی۔(۵)(یہود کے مرکز ِ عبادت میں مسجد بنوانا؟یاللعجب)اس فتح کے بعدصدیوں تک اس کی تولیت مسلمانوں کے پاس رہی،پھر جب عیسائیوں نے اس پر قبضہ کیا تو ’’یہود کے مرکز ِ عبادت‘‘کے لیے امت ِمسلمہ نے جانیں دیں،اور یہود در پردہ عیسائیوں کی مدد کرتے رہے۔ان سب کے باوجود آنجناب کا ’’دعویٰ ‘‘ہے کہ نصوص میں امت ِ مسلمہ کی تولیت کا ’’اشارہ ‘‘تک نہیں ہے۔ہم آنجناب سے پوچھتے ہیں کہ ان تمام مواقع پر اللہ تعالیٰ،نبی پاک ا ،اورامت ِ مسلمہ کے علماء و فقہاء نے یہ ضرورت کیوں محسوس نہیں کی کہ کہیں امت مسلمہ اس عبادت گاہ پر ’’قبضہ ‘‘نہ کر لے اور ’’استحقاق کی نفسیات سے مغلوب‘‘نہ ہو جائے ،اس لیے ساتھ اس کی بھی وضاحت کردی جائے کہ یہود کا حق ِتولیت منسوخ نہیں ہو ا،اس لیے ان کو بنیاد بنا کر اس عبادت گا پر قابض نہ ہو جائو۔کیا آنجناب یہود کے حق ِتولیت کے باقی رہنے اور منسوخ نہ ہونے پر کوئی واضح دلیل دے سکتے ہیں؟
آنجناب کے استدلال کا ’’عالم‘‘تو یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ کے مسجد ِ اقصیٰ میں نماز پڑھنے سے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ یہود کا حق ِ تولیت باقی ہے اور استدلال اس بات سے کر رہے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے ایک خاص جگہ صخرہ سے ہٹ کر نماز پڑھی(حالانکہ اس کی اصل وجہ کتب ِتاریخ میں منقول ہے)مسجد ِاقصیٰ کی اصل بنیادوں کو تلاش نہیں کیا،معلوم ہوا کہ یہود کا حقِ تولیت باقی ہے۔تعجب ہے کہ حضرت عمر ؓ نے اس موقع پر مختلف ارشادات فرمائے،حضرت کعب احبارؒ سے استفسارات کیے ،لیکن یہود کے حق ِ تولیت کے بارے میں ایک جملہ بھی ارشاد نہیں فرمایا اور ایک خاص جگہ پر نماز پڑھ کر امت پر چھوڑ دیا کہ خود ’’استنباط‘‘کرلو کہ یہود کا حق باقی ہے (اگرچہ حقِ تولیت کے لیے’’ صریح دلیل ‘‘کی ضرورت ہے،یا للعجب)
 اپنے ’’دلائل‘‘ کا تو یہ عالم ہے، لیکن واضح نصوص کو رد کر کے کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کے پاس اشارہ تک نہیں۔کیا علمی دنیا میں ’’غیر جانبدارانہ تحقیق‘‘اسی کا نام ہے؟صاف واضح ہے کہ آنجناب یہودیوں کا ’’تاریخی و مذہبی حق ‘‘تسلیم کر کے اس کے لیے ’’مواد ‘‘اکٹھا کر رہے ہیں۔
آنجناب کے تعقبات و اعتراضات کا اجمالی جواب
 آنجناب نے اپنے ’’زعم ‘‘کے مطابق مسجد ِ اقصیٰ کی تولیت کے ’’دلائل ‘‘پر اعتراضات وارد کیے کہ ان دلائل سے یہود کا حق ِتولیت کو منسوخ کرنا درست نہیں ہے،ان تمام تعقبات کی بنیاد دو باتوں پر ہے:
پہلی بات:
آنجناب نے جو خود ساختہ مقدمہ اپنے مضمون کی ابتدا میں ’’تراشا‘‘تھا کہ کسی مذہب کی عبادت گاہ کی تولیت لینے کے لیے کسی واضح نص کی ضرورت ہے،اس بنیاد پر آنجناب نے تقریباً تمام دلائل کو اجمالاًرد کردیا کہ ان میں سے کوئی بھی صریح نہیں ہے۔ اس مقدمے کی حقیقت ہم ماقبل میں واضح کرچکے ہیں کہ اس کی جملہ شقیں آنجناب کی ’’ایجاد‘‘ ہیں۔نیز مسجد ِ اقصیٰ پر یہ تعریف ہی صادق نہیں آتی کہ وہ محض کسی خاص مذہب کا’’ مرکزِعبادت‘‘ ہے ،بلکہ یہ تودنیا کے ان مقدس مقامات میں سے ہے ،جن کی تولیت کے بارے میں تمام ادیان کے بارے میں یہ ضابطہ چلا آرہا ہے کہ وہ ہر زمانے کے اہل ِ حق کو ملتے ہیں۔
دوسری بات:
آنجناب کے ان تمام اعتراضات میں ایک بنیادی ’’غلطی‘‘یہ ہے کہ آنجناب نے ان تمام واقعات اور نصوص کو یہود کے حق ِ تولیت کی منسو خی کے ’’دلائل ‘‘قرار دیا اور انہیں باقاعدہ ’’دلائل‘‘ اور’’اعلانات‘‘ فرض کر کے ان پر اعتراضات کی ایک لمبی فہرست تیار کرلی ، حالانکہ یہ واقعات و نصوص سرے سے دلائل کے ’’زمرے ‘‘میں ہی نہیں آتے، بلکہ یہ تو امت ِ مسلمہ کو اس مقدس مقام کی تولیت ملنے کے’’ مظاہر‘‘اس حق کے ’’نتائج‘‘اور اس کے ’’ثمرات‘‘ہیں ۔حق ِ تولیت کی دلیل تودنیا کے ان چند مقدس مقامات کے بارے میں وہ ’’سنت اللہ ‘‘اور تمام ادیان ِ سماویہ میں مسلم ’’اللہ تعالیٰ کا وہ قانون ‘‘ ہے، جس کی وضاحت ہم بار بار کر چکے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہماری پوری علمی تاریخ میں مسجد ِ حرام اور مسجد ِ اقصیٰ کی تولیت کے بارے میں ’’دلائل ‘‘بیان کرنے کا یہ طرز نظر نہیں آتا۔ کتب ِتفسیر، کتب ِ حدیث ،اور کتب ِ فقہ کے اس پورے ذخیرے میں ان مقامات ِ مقدسہ کے دلائل تو کجا یہ مسئلہ ہی بیان نہیں ہوا، حالانکہ ان کتب میں ہر چھوٹے سے چھوٹا مسئلہ با لتفصیل بیان ہوا ہے ۔آنجناب نے چونکہ مسجد ِ حرام کی تولیت کو بھی ’’صریح دلیل ‘‘کا نتیجہ قرار دیا ہے ،ہم آنجناب سے ایک سوال کرتے ہیں کہ وہ مسجد ِ حرام کی تولیت کے ’’دلائل‘‘ اور اس ’’مسئلے‘‘ کی نشاندہی تفسیر ،حدیث و شروحِ حدیث اور فقہ اسلامی کے چاروں مکاتب کی کتب ِ فقہ میں سے کسی ایک قدیم کتاب میں کردیں ،تو ہم آنجناب کے ممنون ہو ںگے۔تعجب کی بات ہے کہ سورۂ براء ت کی جن آیتوں کو آنجناب نے مسجد ِ حرام کی تولیت کی ’’دلیل ‘‘بنایا، اس کے تحت بھی مفسرین نے اس مسئلے کا ذکر نہیں کیا ہے۔
 واقعۂ اسراء اور سورۂ بنی اسرائیل کی ابتدائی آیات
اسلامی تاریخ میں اسراء و معراج کا واقعہ مختلف وجوہات کی بنا پر ایک ممتاز واقعہ ہے،اس تاریخی واقعے کو اللہ تعالیٰ نے سورۂ بنی اسرائیل کی ابتدائی آیات میںبیان کیا۔یہ واقعہ بے شمار حکم و مصالح اور اسرار و رموز پر مشتمل ہے ۔یہ یادگار معجزہ اور اس کو بیان کرنے کے لیے مذکورہ سورت کی ابتدائی آیات درج ذیل وجوہ سے اس بات کا سب سے بڑا مظہر ہیں کہ حرمین کے بعد دنیا کے مقدس ترین مقام مسجد ِ اقصیٰ کی تولیت خیر الامم کے پاس ہے۔پہلے ان وجوہات کا ذکر کرتے ہیں، پھر آنجناب کے ’’اعتراضات ‘‘پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
وجہ نمبر:۱…اس واقعے میں آپ ا کو مسجد ِ اقصیٰ کا سفر کرانااور وہاں انبیاء ؑکی امامت کا تاج آپ ا کے سر پر رکھنا اس بات کامظہر ہے کہ اس گھر میں جہاں یہ نبی امام ہے ،وہاں ان کو ماننے والی امت بھی باقی ملتوں کی امام اور اس مقدس گھر کی تولیت کی ذمہ دار ہے ۔
وجہ نمبر:۲…مسجد ِ اقصیٰ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص نشانیوں میں شمار کیا ،اس سے اس مقام کی اہمیت، فضیلت،تقدس اور آفاقیت خود بخود آشکارا ہوتی ہے۔ اس سے آنجناب کے اس ’’مفروضے‘‘ کی تردید ہو تی ہے کہ مسجد ِ اقصیٰ کی حیثیت صرف ایک مذہب کے مرکز ِ عبادت کی ہے۔ جب یہ ایک آفاقی مقدس مقام ہے تو اس کی تولیت ’’سنت اللہ‘‘کے مطابق ہر زمانے کے اہل ِ حق کو ملے گی۔
وجہ نمبر:۳…اس وا قعے کے ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس مقدس مقام سے یہود کی اپنے معاصی اور سرکشی کی بدولت دو بار جلا وطنی کا ذکر کیا ،جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ان مقدس مقامات کے بارے میں اپنی اس خاص سنت کی طرف اشارہ کیا اورمفسرین کے نزدیک اس موقع پراپنی خاص سنت کو ذکر کرنے کے دوبڑے مقصد ہیں:
۱:… مشرکین ِ مکہ کو تنبیہ کرنی مقصود ہے کہ مسجد ِ حرام بھی اللہ کے انہی مقدس مقامات میں سے ہے ،اس لیے اگر تم اپنے کفر و شرک سے باز نہ آئے ،تو تم اللہ کی اٹل سنت کے مطابق اس گھر کی تولیت اور خدمت سے محروم کر دیے جائو گے۔
۲:…مسلمانوں کو بھی تنبیہ ہے کہ اگر تم نے اللہ کی نافرمانی اختیار کر لی تو تم کو بھی اللہ مسجد ِ اقصیٰ کی تولیت سے بطور ِ سزا اسی طرح محروم کر دے گا ،جیسا کہ یہود کو اپنی نافرمانی کے نتیجے میں اللہ نے محروم کردیا۔  (۶)
وجہ نمبر:۴…اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ضابطے اور سنت کو’’صراحۃً‘‘ بیان کیا، چنانچہ ان واقعات کے ذکر کے بعد فرمایا:
’’ عَسٰی رَبُّکُمْ أَنْ یَّرْحَمَکُمْ وَإِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا ‘‘۔                             (الاسراء:۸)
ترجمہ:’’عین ممکن ہے کہ (اب ) تمہارا رب تم پر رحم کرے ،لیکن اگر تم پھر وہی کام کرو گے تو ہم پھر وہی کام کریں گے‘‘۔
اس آیت کی تفسیر مفسرین نے یہ کی ہے کہ اس میں اللہ کی ’’رحمت ‘‘سے مراد آپ ا کی بعثت ہے اور ’’إن عدتم ‘‘سے مراد پچھلے انبیاء ؑکی طرح آپ ا کی تکذیب اور آپ ا کو اسی طرح ستانا ہے، جیسا کہ اس ’’مغضوب علیہم‘‘ قوم نے اس سے پہلے حضرت ِموسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ستایا تھا۔اور ’’عدنا‘‘ سے مراد تیسری مرتبہ اس گھر کی تولیت اور اس ارضِ مقدسہ سے اخراج ہے۔ گویا خلاصہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ: دو بار جلا وطنی کے بعد اللہ تمہیں ایک موقع اور دیں گے اور آپ ا کو مبعوث کریں گے ،پھر اگر تم نے اسی خاتم الانبیاء ؑکو اسی طرح ستا یااور ان کی تکذیب کی جیسا کہ اس سے پہلے تم دو جلیل القدر پیغمبروں کے ساتھ کرچکے ہو تو ہم اپنے اصول کے مطابق تمہیں دوبارہ اس گھر کی تولیت سے محروم کر دیں گے۔امام رازی ؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’ أی فعل ما لا ینبغی وھو التکذیب لمحمد ا و کتمان ما ورد فی التوراۃ فعاد اللّٰہ علیہم التعذیب علی أیدی العرب‘‘۔  (۷)
امام طبری ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس کی تفسیر یوں نقل کی ہے:
’’ فعادوا فسلط اللّٰہ علیہم المؤمنین‘‘۔  (۸)
مفسر ابن ابی حاتم ؒنے امام ضحاکؒ سے اس کی تفسیر یوں نقل کی ہے:
’’  کانت الرحمۃ التی وعدہم بعث محمد ا ‘‘۔  (۹)
اس آیت کی یہی تفسیر حافظ ابن کثیر ؒنے تفسیر ابن کثیر میں (۱۰) علامہ آلوسی ؒ نے روح المعانی میں (۱۱) امام قرطبی ؒ نے تفسیرقرطبی میں (۱۲) امام بغویؒ نے معالم التنزیل میں (۱۳) امامِ اہل سنت امام ماتریدی ؒنے تاویلات اہل السنۃ میں (۱۴) اور دیگر تقریباً تمام متقدمین و متاخرین نے بیان کی ہے۔
 آنجناب نے اس آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ ’’یہودی رہتے ہوئے‘‘تم کو یہ گھر دو بارہ اللہ کی رحمت سے مل سکتا ہے ،آنجناب کی یہ تفسیر ’تحریف ‘‘کہلانے کی زیادہ مستحق ہے۔ آنجناب سے گزارش ہے کہ اس کی تائید خلف و سلف میں سے کسی ایک مفسر سے دکھا دیں۔ نیز آیت کی یہ تفسیر کرنے سے تو خود اس کاا وپر والی آیت کے ساتھ کھلا تعارض لازم آتا ہے کہ عام ’’معاصی‘‘ پر تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اس گھر کی تولیت سے محروم کر دیا ،لیکن اللہ کے آخری پیغمبر کی تکذیب کے باجود وہ اللہ کی رحمت کے مستحق ہیں اور انہیں یہ گھر مل سکتا ہے۔اپنے ذہنی ’’مقدمات ‘‘سے کتاب اللہ کی من مانی تفسیر کے نتیجے میں اس طرح کے ’’تضادات‘‘اور ’’عجائبات‘‘اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ صرف جناب عمار صاحب ہی نہیں، بلکہ تمام متجددین،اپنی عقل کی بنیاد پر شریعت کے متفقہ مسائل پر از سرِ نو ’’تحقیق‘‘ کرنے والوں اور سلف کے فہم ِ دین کی تغلیط کرنے والوں کی تحریرات ’’ایسی ہی شاہکار ‘‘ہوتی ہیں ۔
آنجناب کے ’’اعتراضات‘‘
آنجناب کے خود ساختہ مقدمہ کے اعتبار سے حق ِ تولیت کی منسوخی کے لیے چونکہ ’’صریح دلیل‘‘کی ضرورت ہے اور یہ چونکہ صریح نہیں ہے ،اس لیے آنجناب نے اس کو رد کر دیا ۔دوسراآنجناب نے کہا ہے کہ اس واقعے سے امت ِ مسلمہ کی تولیت کی حکمت سلف میں کسی نے بیان نہیں کی ،تو اس کا جواب یہ ہے کہ اولاً: شرعی احکام کی حکمتوں کے بیان کے لیے سلف کی پابندی کی قطعاً ضرورت نہیں ہے، بشرطیکہ وہ دوسرے نصوص کے معارض نہ ہو اور یہ حکمت چونکہ معارض نہیں ہے ،اس لیے کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ثانیاً:مسجد ِ اقصیٰ کی تولیت کی بحث چونکہ آج کی ’’پیداوار‘‘ہے ،اس لیے زمانہ حال کے اکابر نے شرعی نصوص کے اس پہلو کو بھی اجا گر کیا،اس کی مثال یہ ہے کہ آج کے علماء قرآن کی بہت ساری آیتوں کو ختم ِ نبوت کی دلیل بناتے ہیں،حالانکہ سلف میں کسی نے ان کو اس مسئلے کے لیے دلیل کے طور پر ذکر نہیں کیا، اس کی وجہ یہی تھی کہ چونکہ یہ مسئلہ یوں اٹھا نہیں تھا، اس لیے ان آیتوں کے اس پہلو کی طرف کسی کاذہن نہیں گیا۔اس کے علاوہ چونکہ آنجناب کے نزدیک یہ حق ِ تولیت کی منسوخی کی ’’باقاعدہ دلیل‘‘ہے ، اس لیے آنجناب نے یہ نکات اٹھائے:
نکتہ:۱…مسجد ِ حرام کی تولیت سے پہلے اس کی تولیت کیوں منسوخ کی؟ حالانکہ وہ بہرحال اس سے افضل اور اہم ہے ۔(حالا نکہ ہم وضاحت کر چکے ہیں کہ یہ تولیت کی منسوخی کے’’ اعلانات‘ ‘ نہیں ہیں، بلکہ تولیت کی منسوخی تو ’’سنت اللہ ‘‘کے نتیجے میں ہوگئی،یہ تو فقط اس کے مظاہر ہیں)
نکتہ:۲…مسجد ِ حرام کی تولیت کو ’’۹ھ‘‘میں ’’صراحۃً‘‘ بیان کیا، اس کو اشارۃً کیوں بیان کیا؟ (اس پر ہم تفصیل سے بحث کر چکے ہیں )
نکتہ:۳…اگر اسراء کے موقع پر ہی اس کی تولیت منسوخ ہوگئی تو تحویل ِ قبلہ کے مقاصد میں سے بڑا مقصد تالیف ِ یہود کیونکر حاصل ہو سکتا ہے؟ جبکہ ان کو اس پر تولیت کاحق ہی نہیں ہے۔(اس پر بحث آگے کرتے ہیں )
تحویل ِ قبلہ کا واقعہ 
 مسجد ِ اقصیٰ پر امت ِمسلمہ کی تولیت کے مظاہر میں سے دوسرا بڑا مظہر تحویل ِ قبلہ کا واقعہ ہے ۔نبی پاک ا کی جو صفات پچھلی کتابوں میں بیان ہوئی تھیں ،ان میں ایک صفت ’’نبی القبلتین‘‘کا بھی ذکر تھا،چنانچہ اس پیشین گوئی کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے سولہ سترہ مہینے امت ِ مسلمہ کا قبلہ بیت المقدس کو بنایا  (۱۵)  اور خاص طور پر یہ حکم مدینہ منورہ میں اس لیے آیا تاکہ یہود کی تالیف قلب کا مقصد بھی حاصل ہو اور انہیں اسلام کے قریب لایا جائے۔تحویل ِ قبلہ سے ان کے اسلام کے قریب آنے کی دو وجہیں تھیں:
پہلی وجہ: چونکہ ان کی کتابوں میں آپ ا کی ایک صفت ’’نبی القبلتین‘‘ کا بیان ہوا تھا، اس لیے جب آپ ا بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھیں گے، تو انہیں اپنے صحف کی پیش گوئی سچی نظر آئے گی اور یوں یہود آپ ا کو نبی ماننے پر آمادہ ہو سکتے تھے ،جن کی خوشخبری اُن کی الہامی کتب میں بار بار بیان ہوئی تھی۔
دوسری وجہ: عمومی طور پر یہود کا گمان تھا کہ ’’نبی مبشر‘‘ان میں سے ہوگا ،لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ یہ نبی تو بنی اسماعیل میں سے آیا تو انہیں مختلف وجوہ کی بنا پر آپ ا کو ماننے میں تامل ہوا اور وہ آپ ا کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے، تو اس موقع پر تحویل ِ قبلہ کا حکم آیا، تا کہ انہیں اس بات کا اندازہ ہو کہ یہ پیغمبر اگرچہ بنی اسماعیل میں سے ہے ،لیکن پچھلے انبیاء ؑکے تبرکات اور مقدس مقامات کا احترام بھی ان کے مشن کا مقصد ہے۔گویا یہ نبی ایک اعتبار سے سابقہ انبیاء ؑکے مشن کی تکمیل ہی کے لیے آیا ہے۔اس طرح سے ان کاوہ بغض کافی حد تک کم ہو سکتا تھا،جس کا وہ ہر موقع پر اظہار کرتے تھے اور وہ مشرکین کی بجائے مسلمانوں کے قریب ہو سکتے تھے اور یہی اس حکم کے مقاصد میں سے ایک مقصد تھا۔اب اس حکم کی مختلف حیثیتیں ہو گئیں۔
۱:…آپ ا کو نبی القبلتین کا تاج پہناناکہ دنیا کے دو مقدس گھر جو پہلے انبیاء ؑمیں تقسیم ہوئے تھے ،اب یہ آخری نبی اان دونوں گھروں کے وارث اور والی ہیں۔اور ظاہر ہے کہ یہ ایک ایسی خصوصیت ہے ،جو گزشتہ تمام انبیاء ؑمیں سے کسی کو نہیں ملی تھی۔ا ور اس کے ضمن میں اس امت کی فضیلت اور اس کا خیر الامم ہونا بالکل واضح ہے کہ دنیا کے دو مقدس گھر اس امت کے لیے اللہ نے قبلہ بنائے اور انہیں ان دونوں کا ذمہ دار بنایا، حالانکہ اس سے پہلے یہ خصوصیت کسی امت کو نہیں ملی تھی،چنانچہ اس واقعے کے نتیجے میں اس امت کا خیر الامم کے منصب پر فائز ہونا اللہ تعالیٰ نے ’’صراحۃً‘‘بیان کیا:
’’وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَّسَطًا ‘‘۔                (البقرۃ:۱۴۲)
ترجمہ:’’ اور اسی طرح ہم نے تم کو ایک معتدل امت بنایا‘‘۔ 
 ’’وسطاً‘‘کاایک مطلب مفسرین نے جہاں معتدل اور افراط وتفریط سے پاک بیان کیا ہے، وہاں اس کا مطلب ’’ خیر‘‘یعنی بہترین بھی بیان کیا ہے ۔امام رازیؒ و علامہ زمخشری نے اس دوسرے مطلب کو مختلف وجوہ کی بنا پر راجح قرار دیا ،کیونکہ خیر کے اندر اعتدال والا معنی خود بخود آگیا۔  (۱۶)
۲:…اس واقعے سے یہود کو اسلام کے قریب کرنا تھا ،مذکورہ واقعے سے تالیف ِیہود کا مقصد کیونکر حاصل ہو ا ،اس کو ہم پیچھے ذ کر کر چکے ہیں ۔
۳:…کمزور ایمان والے مسلمانوں اور منافقین کا امتحان لینا مقصد تھا کہ وہ پختہ مسلمانوں کی طرح اس حکم کی اتباع کرتے ہیں یا وہ اس پر گوناگوں اعتراضات و شبہات کرتے ہیں ،کیونکہ یہ واقعہ اسلام میں نسخ کے ابتدائی واقعات میں سے ہے۔’’إَلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ ‘‘سے اس حکمت کی طرف بھی اشارہ ہے۔
حوالہ جات
۱…مسند احمد، ۳۳؍۳۴۹۔                ۲…ایضاً۔
۳…بدائع ،۲؍۱۶۴۔                ۴…فتح الباری۳؍۶۵۔
۵…البدایہ و النہایہ ،۹؍۶۵۵۔            ۶…معارف القرآن ،۵؍۴۵۱۔
۷…تفسیر ِکبیر ،۲۰؍۱۶۱۔                ۸…تفسیر طبری ،۱۴؍۵۰۶۔
۹…تفسیر ِابن ِابی حاتم ،۴؍۲۲۱۔            ۱۰…تفسیر ابن کثیر ،۸؍۴۴۰۔
۱۱…روح المعانی ،۱۵؍۲۱۔                ۱۲…تفسیر قرطبی ،۱۳؍۲۳۔
۱۳…معالم التنزیل ،۵؍۸۰۔            ۱۴…تاویلات اہل ِالسنہ ،۷؍۸۔
۱۵…روح المعانی ،۲؍ ۱۰۔                ۱۶…تفسیر ِکبیر،۴؍ ۱۰۸۔

(جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین