بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مستشرقین اور اعداء اسلام کی قرآن کریم میں معنوی تحریف کی کوشش

مستشرقین اور اعداء اسلام کی قرآن کریم میں معنوی تحریف کی کوشش

    متن قرآن کریم کی حفاظت کا تو اعلان ہوچکا ہے، اس کا امکان نہیں تھاکہ قرآن کے الفاظ میں ردوبدل کیا جاسکے، اس لیے دشمنان اسلام جو ہمیشہ اسلام کو مٹانے کے درپے رہے، قرآن کریم سے تو مایوس ہوگئے، انہوںنے قرآن کی معنوی تحریف کے لیے یہ چوردروازہ تلاش کیا کہ حدیث نبوی l کو جو معانیِ قرآن کی محافظ ہے، ناقابل اعتبار ثابت کریں۔ یورپ کے مستشرقین اور دشمن اسلام ملاحدہ نے اپنے تمام وسائل اور دماغی وقلمی تمام طاقتیں احادیث کو بے وقعت بنانے کے لیے صرف کرنا شروع کردیں اور مسلمانوں میں ’’منکرین حدیث‘‘ کے نام سے منافقین کا جوگروہ آج موجود ہے غلام احمد پرویز وغیرہ انہوںنے انہی دشمنان اسلام کی راہنمائی میں اس مہم کو اور آگے بڑھایا ’’وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَیْھِمْ إِبْلِیْسُ ظَنَّہٗ‘‘ چنانچہ نئی نسل کے بہت سے افراد جو دینی تعلیم وتربیت سے بے بہرہ تھے، ان خیالات کا شکار ہوگئے۔ تاریخ فتنۂ انکارِ حدیث     انکار حدیث کے فتنہ کی تاریخ بہت قدیم ہے، سب سے پہلے خوارج نے اس کی بنیاد رکھی، صحابہ کرام s کی تکفیر کر کے ان کی روایت کردہ احادیث کا انکار کیا اور صرف کتاب اللہ کو مانا۔ ان کے بالمقابل شیعہ نے کتاب اللہ کی تحریف اور احادیث کے انکار کا راستہ کھولا اور دین کا انحصار اپنے ائمہ کی روایت پر رکھا۔ معتزلہ نے تاویل کے راستہ سے فتنۂ انکار حدیث کو مزید قوت بہم پہنچائی، مگر یہ دور اسلام کی شوکت وعزت کا دور تھا، ان کی مساعی ناکام رہیں اور مسلمانوں نے جس طرح قرآن کو سینے سے لگایا اور علوم قرآن کی خدمت کو سرمایۂ سعادت سمجھا، اسی طرح احادیث نبویہ کو سر آنکھوں پر رکھا اور علوم حدیث کی خدمات اس محنت وعقیدت سے انجام دیں کہ تاریخ عالم اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے اور حضرت رسول اللہ a کے انفاسِ قدسیہ کی وہ حفاظت کی کہ عقل حیران ہے۔     حدیث نبوی l سے مسلمانوں کاشغف دیکھ کر اس وقت اعداء اسلام نے وضع احادیث کا چور دروازہ نکالا اور من گھڑت روایات پھیلانا شروع کیں، تاکہ حق وباطل خلط ملط ہو کر حقیقت ملتبس ہوجائے۔ مگر حق تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت کے لیے ایسے رجال کا رپیدا کیے جنہوںنے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کر کے رکھ دیا، انہوںنے فن رجال اور جرح وتعدیل مرتب کیا اور روایات کی چھان بین کر کے تمام اعداء اسلام یہودیوں، سبائیوں اور ملحدوں کی اس سازش کو خاک میں ملادیا۔ امتِ محمدیہ l نے اپنے رسول a کی احادیث کی حفاظت کے کام کو اتنا آگے بڑھایا کہ اصول حدیث کے مختلف فنون کی تعداد ایک سو کے قریب پہنچ گئی۔ بلاشبہ دین اسلام ابدی دین تھا، قیامت تک کی نسل انسانی کے لیے سرچشمۂ ہدایت تھا، ضروری تھا کہ دین اسلام کی یہ دونوں مشعلیں کتاب وسنت قیامت تک روشن اورہر قسم کی آندھیوں اور جھگڑوں سے محفوظ رہیں، تاکہ ہر دور میں اللہ کی حجت قائم رہے اور قرآن کریم کی یہ آیت ہر وقت صادق رہے: ’’وَکَیْفَ تَکْفُرُوْنَ وَأَنْتُمْ تُتْلٰی عَلَیْکُمْ أٰیٰتُ اللّٰہِ وَفِیْکُمْ رَسُوْلُہٗ‘‘۔   (آل عمران:۱۰۱) ’’اور تم کس طرح کافر ہوتے ہو اور تم پر تو پڑھی جاتی ہیں آیتیں اللہ کی اور تم میں اس کا رسول ہے‘‘۔ فرمانِ نبویؐ میں اس حقیقت کا اظہار اس طرح فرمایا گیا ہے: ’’ ترکت فیکم أمرین، لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللّٰہ وسنۃ رسولہ‘‘۔(۱) ’’میں نے تم میں دوچیزیں چھوڑی ہیں، جب تک ان کو مضبوطی سے پکڑے رہو گے کبھی گمراہ نہ ہوگے، ایک کتاب اللہ اور دوسری اس کے رسول (a)کی سنت‘‘۔ قرآن کریم اور حدیثِ نبویہ l     الغرض اس کا کوئی امکان نہیں کہ قرآن وحدیث کو ایک دوسرے سے جدا کیا جاسکے، نہ یہ ممکن ہے کہ قرآن کریم پر ایمان ہو اور حدیث نبوی سے انکار، کیونکہ قرآن کریم بار بار اس حقیقت کا اظہار کرتا ہے کہ حضرت رسول اللہ a کی اتباع میں تمہاری نجات ہے اور آپ a کی نافرمانی تباہی وبربادی کا موجب ہے، آپ a کی مخالفت پر قرآن کریم سخت سے سخت وعیدیں سناتا ہے، آپ a کی زندگی کو امت کے لیے اسوہ ونمونہ قرار دیتا ہے، قرآن کی تعلیم وتشریح اور اس کے اجمال کی تفصیل کو قرآن آپ a کا فرض منصبی بتاتا ہے، حاصل یہ کہ دنیا وآخرت کی نجات وسعادت اور فلاح وبہبودی آپ a کی پیروی میں ہے اور حق تعالیٰ کی محبت واطاعت کا معیار بھی آنحضرت a کی متابعت کے سوا کچھ نہیں: ’’قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ‘‘۔ (آل عمران:۳۱)

’’ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرمائے گا‘‘۔ حاشیہ:(۱)    یہ حدیث سند کے اعتبارسے معضل ہے، یعنی دو واسطے ساقط ہیں، لیکن مستدرک حاکم میں ابن عباس r کی روایت اور سنن بیہقی میں ابوہریرہ qکی روایت اور مستدرک میں معقل بن یسار q کی حدیث اس حدیث کی صحت کے شواہد ہیں۔ فرقِ باطلہ اور حدیث     بہر حال تمام فرقِ باطلہ خوارج، شیعہ، معتزلہ، قدریہ، جہمیہ اور مرجئہ وغیرہ نے احادیث کے خلاف جوہرزہ سرائی کی تھی (اور امام ابوحنیفہv، امام شافعیv، امام احمدvاور دیگر محدثین ومتکلمین نے جس کا دندان شکن جواب دے کر ان کے حوصلے پست کر دیئے تھے) ہر دور میں ملاحدہ اسے جدید شکل وصورت میں پیش کرتے رہے ہیں، چنانچہ مستشرقین یورپ نے بھی اسی محاذ سے اسلام کی بیخ کنی شروع کی اور اس کے لیے ایک منظم مہم چلائی۔ جو زہر قدیم باطل پرستوں نے اگلا تھا، اسی کو دوبارہ نئی بوتلوں میں بھر بھر کر جدید نسل کے حلق سے اتار نے کی کوشش کی، کبھی کہا کہ احادیث تو دو سو سال بعد قلم بند ہوئی ہیں، ان کا کیا اعتبار؟ کبھی حاملین حدیث پر اعتراضات کیے، کبھی عقلی شبہات ووساوس پیش کیے اور ان راستوں سے نماز، اس کے اوقات، زکاۃ، روزہ، حج، قربانی وغیرہ، تمام عبادات میں شکوک وشبہات پیدا کیے، احکام شرعیہ کو اعتراضات کا نشانہ بنایا، ملائکہ،جنات، شیاطین، ارواح وغیرہ میں تاویل باطل کا راستہ کھولا، اس طرح کوشش کی گئی کہ خدانخواستہ اسلام کی بنیادوں کو ہلادیا جائے، مگر لسانِ نبوت سے یہ اعلان پہلے صادر ہوچکا تھا: ’’ یحمل ھذا العلم من کل خلف عدولہ  ینفون عنہ تحریف الغالین وانتحال المبطلین وتأویل الجاھلین ‘‘۔ ’’ہر آنے والی نسل میں کچھ عادل وثقہ حضرات اس علم دین کے حامل ہوں گے جو غلو کرنے والوں کی تحریف، باطل پرستوں کے غلط ادعا اور جاہلوں کی تاویل کو صاف کریں گے‘‘۔ سنت وحدیث پر مطبوعہ کتابیں     الحمدللہ! اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں ایسے رجال کار پیدا کیے، جنہوںنے باطل پرست جاہلوں کے اٹھائے ہوئے گردوغبار سے سنت کا چہرہ صاف کیا۔ امام شافعی v سے ابن وزیر یمانی صاحبv ’’الروض الباسم‘‘اور شیخ جلال الدین السیوطی صاحبv ’’ مفتاح الجنۃ فی الاحتجاج بالسنۃ‘‘ تک اور ان سے آج تک نہ صرف عربی اردو میں، بلکہ انگریزی اور یورپ کی دوسری زبانوں میں بھی قابل قدر تالیفات وجو د میں آئیں۔ گزشتہ پچاس سال کے عرصہ میں اہل علم نے بیسیوں گرانقدر تصنیفات سے علمی کتب خانوں میں بیش بہا اضافہ کیا۔ قدمائے امت نے جو کتابیں تصنیف فرمائیں، ان کی طویل فہرست راقم الحروف کی کتاب ’’عوارف المنن مقدمۃ معارف السنن‘‘ میں مذکور ہے جو ان شاء اللہ! عنقریب طبع ہوگی۔ اس تیس چالیس برس میں جو ذخیرہ اس موضوع پر مدون ہوا، ان میں چند کتابوں کا نام بطور نمونہ درج ذیل ہے: ۱ الحدیث والمحدثون محمد محمد أبوزہو عربی ۲ السنۃ قبل التدوین محمد عجاج خطیب عربی ۳ الأنوارالکاشفۃ شیخ عبدالرحمن یمانی عربی ۴ ظلمات أبی ریہ شیخ محمدعبدالرزاق حمزہ عربی ۵ کتاب السنۃ موسیٰ جار اللّٰہ قازانی عربی ۶ فی الحدیث النبوی شیخ مصطفی زرقاء شامی عربی ۷ تدوین حدیث مولانا مناظراحسن گیلانی مرحوم اردو ۸ بصائر السنۃ مولانا امین الحق صاحب طوری اردو ۹ فتنہ انکار حدیث افتخار احمد بلخی اردو ۱۰ فتنہ انکار حدیث مولانا سرفراز صاحب اردو ۱۱ سنت قرآن کریم کی روشنی میں مولانا غفارحسن اردو ۱۲ حدیث قرآن کریم کی نظر میں ازراقم الحروف اردو   (۱) ۱۳ احادیث النبی الکریمa پروفیسر روحی اردو ۱۴ سنت کا تشریعی مقام مولانا محمدادریس میرٹھی اردو ۱۵ Studies in Early hadith Literature ڈاکٹر مصطفیٰ اعظمی انگریزی مدرسہ عربیہ اسلامیہ کراچی کے درجہ تخصص کے رفقا نے حسب ذیل مقالات کتابی شکل میں مرتب کیے ہیں: الف السنۃ النبویۃ والقرآن الکریم للأستاذ محمد حبیب اللہ المختار    عربی،اردو ب وسائل حفظ الحدیث وجھودالأمۃ فی ذلک ازمولوی عبدالحکیم سلہٹی اردو ج علم مصطلح الحدیث وأسماء الرجال وثمراتہ از مولوی عبدالحق دیروی عربی د کتابۃ الحدیث وأدوارتدوینہ از مولوی محمداسحق سلہٹی اردو ھ الکتب المدونۃ فی الحدیث وأصنافھاوخصا ئصھا از مولوی محمد زماں کلاچوی عربی و الصحابۃؓ ومارووہ من الأحادیث مولوی حبیب اللہ مہمندی عربی یہ چھ کتابیں ابھی تک زیورِ طبع سے آراستہ نہیں ہوئیں، جس وقت امت کے سامنے یہ ذخیرہ آئے  گا دنیا حیرت میں رہ جائے گی۔ اسی قیمتی ذخیرہ کی ایک قابل قدر کتاب الشیخ مصطفی سباعی مرحوم کی تالیف: ’’السنۃ ومکانتھا فی التشریع الإسلامی ‘‘ اپنے موضوع پر اہم ترین کتاب ہے جو گیارہ سال قبل قاہرہ میں طبع ہوئی تھی۔ مؤلف موصوف اپنے وقت کے بہترین خطیب اور پرجوش صاحب قلم تھے، موصوف نے ازہر سے عالمیت واستاذیت کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے یہ موضوع اختیار کیا  حاشیہ:(۱)    مقالہ شائع شدہ ماہ نامہ دارالعلوم دیو بند ۱۳۵۶ھ تھا، چنانچہ پورے ایک سو مآخذ سے یہ کتاب نہایت فصیح وبلیغ زبان اور شیریں وشگفتہ اسلوب میں تحریر کی۔ یہ کتاب تیس کے قریب بڑے بڑے عنوانات پر مشتمل ہے جن میں سنتِ نبوی lکے ہر گوشہ پر شافی بحث کی گئی ہے، ضمنی بحثیں نہایت عمدہ اور عجیب وغریب آتی ہیں۔ مستشرقین کی خرافات وشبہات کے نہایت مؤثر اور فاضلا نہ ومحققانہ جوابات کتاب کا بہترین اور قیمتی حصہ ہیں، اگر اس کتاب میں اس کے سوا اور کچھ نہ ہوتا تو اس کتاب کی قیمت کے لیے کافی تھا۔     مدرسہ عربیہ اسلامیہ کراچی کے دارالتصنیف نے چاہا کہ اس گنج گراں مایہ کواردو میں منتقل کیا جائے، تاکہ نئی نسل میں یورپ کے پھیلائے ہوئے زہر کے لیے تریاق کا کام دے اور جدید افکار میں سرایت کردہ سمّیت کے لیے اکسیر عظیم اور کبریت احمر ثابت ہو، ترجمہ کے لیے ہمارے مدرسہ کے درجۂ تکمیل کے فارغ التحصیل مولانا احمد حسن ایم اے کاانتخاب کیاگیا اور اس پر مولانا محمد ادریس میرٹھی استاذ حدیث مدرسہ عربیہ کی نظر اصلاحی نے سونے پر سہاگہ کا کام دیا، جلد اول طبع ہوچکی اور جلد دوم عنقریب زیور طبع سے آراستہ ہوگی۔ دعا ہے کہ حق تعالیٰ ہماری نئی نسل کو نئے فتنوں سے بچائے اور شیاطین یورپ ان کی متاعِ ایمانی کو لوٹنے کی جو تدبیریں کر رہے ہیں، اُنہیں خاک میں ملا دے۔ وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ صفوۃ البریۃ سیدنا محمد وآلہٖ وصحبہٖ وبارک وسلم

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین