بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مسافرانِ آخرت کا تذکرہ

 

مسافرانِ آخرت کا تذکرہ

 

گزشتہ دو تین ماہ میں اتنے علماء کرام، مشائخ عظام اور دین واہل دین سے محبت کرنے والے مسلمان اس تیزی سے اس دنیا فانی سے رخصت ہوکر عالمِ آخرت کی طرف منتقل ہوئے ہیں کہ گزشتہ کئی سالوں میں اتنی تعداد میں اس دنیا سے رخصت نہیں ہوئے ہوںگے۔ اس سے لگتا یوں ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس دنیا سے علم قبض کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ جب کہ یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ ’’موت العالِم موت العالَم‘‘ ایک عالم کی موت پورے جہاں کی موت ہے اور یہاں تو ایک نہیں دو درجن سے زائد علماء، بزرگ، مشائخ اور اہلِ علم سے محبت کرنے والے اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں، سب کے حالات کو تفصیل سے لکھنے کی نہ تو گنجائش ہے اور نہ ہی فرصت، اس لیے مختصر کچھ حضرات کے حالات لکھے جاتے ہیں:

حضرت مولانا حافظ صغیر احمد رحمۃ اللہ علیہ 

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجرمدنی قدس سرہٗ کے خلیفہ مجاز حضرت مولانا حافظ صغیر احمدؒ ۱۶ شوال المکرم ۱۴۴۱ھ مطابق ۸ جون ۲۰۲۰ء بروز پیر انتقال کرگئے۔
حضرتؒ کی پیدائش ۱۳۵۵ھ مطابق یکم اپریل ۱۹۳۶ء دہلی میں ہوئی، بچپن میں قرآن کریم حفظ کیا، تقسیم کے بعد لاہور میں قیام پذیر ہوئے۔ میٹرک تک عصری تعلیم حاصل کی۔ ادیب عالم کا امتحان دیا۔ مدینہ اسٹیشنری انار کلی لاہور میں اپنے والد کے ساتھ کام شروع کیا۔ ۱۹۶۷ء میں حج پر تشریف لے گئے تو وہاں حضرت شیخ الحدیثؒ سے بیعت کا شرف حاصل کیا۔ حضرت شیخ الحدیثؒ نے کچھ عرصہ بعد آپ کو خلافت سے سرفراز کیا۔ چوبرجی لاہور میں آپ نے خانقاہ قائم کی، وہاں پر مسجد الاحسان اور مدرسہ دارالاحسان قائم کیا، جس کو آپ کے صاحبزادے حضرت مولانا انیس احمد مظاہری جنہوں نے مظاہر العلوم سہارن پور سے فراغت حاصل کی ہے، وہ چلارہے ہیں۔ آپ کی اولاد حافظ وعالم ہے اور ان کی اولادیں بھی الحمد للہ! دین کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔
آپ بیک وقت کئی کاموں کی سرپرستی فرمارہے تھے، دعوت وتبلیغ، خانقاہی خدمات، مساجد ومکاتب، مدارس کی سرپرستی کے علاوہ اشاعتِ درود شریف کا آپ کوخوب ذوق تھا، ختمِ نبوت کی کانفرنسوں میں خصوصاً لاہور اور مضافات میں آپ بنفسِ نفیس شریک ہوئے۔ اور ختمِ نبوت کانفرنس چناب نگر بھی کئی بارتشریف لائے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی تمام خدمات کو قبول فرمائے اور آپ کے لیے ان کو صدقۂ جاریہ بنائے، آمین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت مولانا قاری نسیم الدین رحمۃ اللہ علیہ 

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے قدیم استاذ حضرت مولانا قاری نسیم الدینؒ ۱۹ شوال ۱۴۴۱ھ مطابق ۱۱ جون ۲۰۲۰ء کو انتقال فرماگئے، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔
حضرت قاری صاحبؒ کی پیدائش ۱۹۴۷ء میںپاکستان بننے سے دو ماہ پہلے میرٹھ میں ہوئی، تقسیم کے بعد اپنے والدین کے ہمراہ کراچی میں جمشید روڈ سکونت اختیار کی، پھر پاپوش نگر کے محلہ اورنگ آباد میں منتقل ہوئے۔ تعلیم کا آغاز مدرسہ اشاعت القرآن سے کیا۔ حفظ کی تکمیل میرے شاہ صادق آباد میں ہوئی، پھر درجۂ کتب کے لیے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ لیا۔ کچھ درجات دوسرے مدارس میں پڑھنے کے بعد دورہ حدیث دارالعلوم کبیروالا سے کیا۔ فراغت کے بعد آپ نے قرآن کریم قراء ت وتجوید پڑھانے میں گزاردی۔ ابتداء ً آپ نے ۶ ماہ جامعہ فاروقیہ میں پڑھایا، پھر ۱۶ سولہ سال جمعیت تعلیم القرآن سے وابستہ رہے، ۱۹۸۶ء سے اپنی وفات تک تقریباً ۳۴ سال جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کی شاخ مدرسہ تعلیم القرآن سہراب گوٹھ میں استاذ رہے۔ آپ کی نمازِ جنازہ آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت مولانا عبدالملک العتیق نے پڑھائی۔ آپ کے پسماندگان میں ۲ بیوائیں، دس بیٹے، دو بیٹیاں موجود ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کی قرآنی خدمات کو قبول فرمائے اور آپ کے پسماندگان کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ آمین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت مولانا عبدالرؤف ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ 

 

عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت اسلام آباد کے امیر، جمعیت علمائے اسلام اسلام آباد کے سرپرست، کئی مدارس کے شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالرؤف ہزارویؒ ۱۴جون کو اسلام آباد میں راہیِ عالمِ آخرت ہوگئے، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔
حضرت مولانا عبدالرؤفؒ ۱۹۳۵ء میں بٹگرام میں پیدا ہوئے، آپ نے ابتدائی تعلیم کا آغاز اپنے علاقہ سے کیا، پھر آپ کے ماموں آپ کو لاہور میں لائے۔ درجہ ثالثہ تک یہاں پڑھا، پھر درجہ رابعہ سے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں پڑھا اور دورہ حدیث جامعہ اشرفیہ لاہور سے ۱۹۵۶ء میں کیا۔ دورہ تفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری نور اللہ مرقدہٗ سے پڑھا۔ کئی مدارس میں آپ نے تقریباً ساٹھ سال تک تدریس فرمائی۔ جامعہ مسجد حنفیہ اسلام آباد کے بانی اور خطیب تھے، یہیں سے آپ کا جنازہ اُٹھا۔ اللہ حضرت مولانا کی تمام خدماتِ حسنہ کو قبول فرمائے، اورآپ کے لیے رفعِ درجات کا ذریعہ بنائے، آمین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت مولانا مفتی محمد نعیم رحمۃ اللہ علیہ 

 

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے فاضل، جامعہ بنوریہ عالمیہ رئیس وشیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد نعیم صاحب ۲۰ جون ۲۰۲۰ء رات نوبجے فانی دنیا چھوڑ کر راہیِ عالمِ آخرت ہوگئے، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ما أخذ ولہٗ ما أعطٰی وکل شیء عندہٗ بأجل مسمّٰی۔ 
حضرت مولانا مفتی محمد نعیم رحمۃ اللہ علیہ ۱۹۵۸ء میں کراچی میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم اپنے والد سے پائی اور اعلیٰ تعلیم جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن سے حاصل کی۔ ۱۹۷۹ء میں دورہ حدیث کیا، چونکہ آپ ذہین، محنتی اور امتحانات میں اعلیٰ پوزیشن سے کامیاب ہوتے تھے ، اس لیے اساتذہ کے مشورے سے ان کو جامعہ میں استاذ مقرر کیا گیا۔ آپ تقریباً ۱۶ سال جامعہ میں استاذ رہے۔ آپ کا مختصر المعانی اور مقامات کا سبق بڑا مشہور تھا، آپ کے والد صاحب جو پہلے سائٹ ایریا میں ایک مسجد کے امام تھے، وہاں انہوں نے حفظ کا مدرسہ کھولا، حضرت مفتی صاحب نے وہاں رات کے وقت درجۂ کتب کا آغاز کیا اور یہ مدرسہ چلتے چلتے بڑے درجات تک پہنچا تو آپ نے جامعہ سے تدریس چھوڑ کر کل وقتی اپنے اس ادارہ کو وقت دینا شروع کیا اور الحمد للہ آج وہاں دورہ حدیث سمیت کئی تخصصات کے درجات اپنا کام کررہے ہیں۔ حضرت مفتی صاحب پہلے سے بیمار تھے، وفات سے پہلے آپ کے سینے میں درد ہوا، ہسپتال لے جاتے ہوئے آپ نے راستے ہی میں داعیِ اجل کو لبیک کہا اور اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اگلے دن ۲۱ جون ۲۰۲۰ء مطابق بعد نمازِ عصر جامعہ بنوریہ کے قریب آپ کی نمازِ جنازہ ہوئی، جس میں کثیر تعداد میں علماء، طلبہ ، مشائخ، شہر کے معززین اور کاروباری حضرات نے شرکت کی۔حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم نے جنازہ کی امامت کرائی۔
آپ نے پسماندگان میں تین بیٹے، دو بیٹیاں، ایک بیوہ، پانچ بھائی، تین بہنیں سوگوار چھوڑی ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضرت مفتی صاحبؒ کی حسنات کو قبول فرمائے، ان کے پسماندگان کو صبرِ جمیل کی توفیق عطا فرمائے اور مفتی صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے۔ آمین

 

حضرت مولانا پیرعزیزالرحمن ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ 

 

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجرمدنی قدس سرہٗ کے خلیفہ مجاز، ہزاروں متوسلین کے شیخ حضرت مولانا پیرعزیزالرحمن ہزارویؒ ۲۳ جون ۲۰۲۰ء کو الشفاء ہسپتال راولپنڈی میں اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچ گئے، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔
حضرت مولانا پیرعزیزالرحمنؒ حضرت مولانا صاحبزادہ محمد ایوبؒ کے ہاں فروری ۱۹۴۸ء کو پیداہوئے۔ اپنے دادا صاحبزادہ حضرت مولانا عبدالمنانؒ سے تعلیم کا آغاز کیا، ان کے وصال کے بعد اپنے والد سے پڑھتے رہے۔ مختلف مدارس میں پڑھنے کے بعد ۱۹۷۱ء میں دورہ حدیث دارالعلوم اکوڑہ خٹک سے کیا۔ فراغت کے بعد راولپنڈی میں ایک مسجد میں امامت وخطابت کی۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا قدس سرہٗ سے آپ نے بیعت کی۔ محرم الحرام ۱۴۰۱ھ میں حضرت شیخ نے آپ کو خلافت دی۔ آپ رمضان المبارک کا اعتکاف حضرت شیخ کے طرز پر کیا کرتے تھے۔ آپ نے حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی قدس سرہٗ کی بہت زیادہ خدمت کی اور آپ کے اندر جو مجاہدانہ صفات تھیں وہ حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی قدس سرہٗ کی خدمت وصحبت کی بدولت تھیں۔ آپ نے پاکستان کی ہر تحریک میں اول دستے کا کردار ادا کیا۔ عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت سے آپ کوخصوصی تعلق ولگاؤ تھا۔ آپ اپنے مریدین کو درود شریف زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی ترغیب دیتے تھے۔ 
آپ نے راولپنڈی میں اپنے شیخ کے نام سے دارالعلوم زکریا کے نام سے ایک ادارہ کی بنیاد رکھی اور آج بڑے اداروں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ آپ کی نمازِ جنازہ خانقاہ کربوغہ شریف کے سجادہ نشین حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی ؒ کے خلیفہ حضرت مولانا مفتی سید مختارالدین شاہ صاحب نے پڑھائی، جس میں ایک بڑی خلقت نے شرکت کی۔ اللہ تعالیٰ حضرت کی ان محنتوں، جدوجہد اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے آپ کی قربانیوں کو قبول فرمائے، لغزشوں کو معاف فرمائے اورجنت الفردوس کا مکین بنائے، آمین۔
ان کے علاوہ بہت سے حضرات ہیں ، ان کے صرف نام لکھے جاتے ہیں، تاکہ قارئین ان مرحومین کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں اور ان کے لیے بھی ایصالِ ثواب کرتے رہیں: الحاج صوفی محمد مسکینؒ (کراچی) ، مولانا ڈاکٹر عبدالقیوم گلگتیؒ (مکہ مکرمہ) ، مفتی خرم رئیس صاحبؒ (مدینہ مسجد، کلفٹن کراچی)، جماعتِ اسلامی کے سابق امیر سید منور حسنؒ (کراچی)، جناب حافظ عبدالرشیدؒ (کراچی)، جامعہ خیرالمدارس ملتان کے استاذِ حدیث حضرت مولانا منظور احمدؒ (ملتان)، حضرت مولانا عزیز احمد بہلویؒ (شجاع آباد)، دارالعلوم مدنیہ بہاولپور کے پہلے فاضل مولانا عبدالعزیزؒ، شیخِ طریقت مولانا عبدالہادیؒ خلیفہ مجاز مولانا عبدالکریمؒ( بیرشریف)، مولانا عبدالمہیمن قریشیؒ، مولانا خواجہ محمد اسلمؒ، معروف خطیب مولانا عبیدالرحمن ضیاءؒ (ملتان)، جامعہ حنفیہ جہلم کے استاذ حضرت قاری عتیق الرحمنؒ، محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری قدس سرہٗ کے تلمیذ مولانا ہارون عباس عمرؒ (جنوبی افریقہ)، جامعہ نظامیہ بہاولپور کے بانی ومہتمم حضرت مولانا شمس الدین انصاریؒ، فاضل دارالعلوم دیوبند مولانا قاضی عبدالحقؒ (سابق شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ سکھر)۔ ان کے علاوہ بھی کئی حضرات نے اس دنیا سے رحلت فرمائی ہے، لیکن فی الوقت حافظہ میں ان کے نام نہیں آرہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
’’إذا مات الإنسان انقطع عنہ عملہٗ إلا من ثلاثۃ : إلا من صدقۃ جاریۃ، أو علم ینتفع بہٖ، أو ولد صالح یدعولہ ، رواہ مسلم۔‘‘(بحوالہ مشکوٰۃ، کتاب العلم، ص:۳۲، طبع: قدیمی)
ترجمہ:’’ جب انسان مرجاتا ہے تو سوائے تین اعمال کے اس کے ہرعمل کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے، سوائے صدقۂ جاریہ کے ، یا علم نافع کے، یا ایسی نیک اولاد کے جو اس کے لیے دعا کرتی رہے۔‘‘
ہمارے اکابر اس حدیث کا صحیح اور سو فیصد مصداق ہیں، اس لیے کہ جب تک یہ اکابر اس دنیا میں رہے تو ساری زندگی تعلیم وتعلم، درس وتدریس، وعظ وتبلیغ، تقریر وتحریر اور طاعت وعبادت میں مصروف ومشغول رہے اور جب اس دنیا کو چھوڑ کر عالمِ عقبیٰ کی طرف تشریف لے گئے تو اپنے بعد اپنے شاگردوں، متوسلین اور متعلقین کے جم غفیر کے علاوہ اپنی تحریرات اور علومِ دینیہ کا اتنا ذخیرہ چھوڑ گئے، جو تاقیامت ان کے لیے صدقۂ جاریہ ، اُمت کے لیے ہدایت وراہنمائی کا ذریعہ، ان حضرات اکابر کی نیکیوں میں رو ز افزوں ترقی واضافہ اور آخرت میں رفعِ درجات کا ذریعہ بنے گا، ان شاء اللہ!
اللہ تبارک وتعالیٰ ان تمام علمائے کرام کو اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے، ان کے پسماندگان، متعلقین، مسترشدین اور تلامذہ کو صبرِجمیل کی توفیق دے اور ہم سب کو آخرت کی فکر اور تیاری کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔ 

ادارہ بینات اپنے قارئین سے ان تمام مرحومین کے لیے ایصالِ ثواب کی درخواست کرتا ہے۔

وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین