بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

بینات

 
 

مساجد کی اہمیت اور ائمہ کرام کی ذمہ داریاں


مساجد کی اہمیت اور ائمہ کرام کی ذمہ داریاں

 

’’۲۴؍ شعبان ۱۴۴۶ھ مطابق ۲۳؍ فروری ۲۰۲۵ء بروز اتوار جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے مساجد سے متعلق شعبہ علامہ بنوری ٹرسٹ/ ایسوسی ایشن کے تحت جامعہ سے ملحق مساجد کے ائمہ کرام اور ارکانِ کمیٹی کا ایک اجلاس منعقد کیا گیا، جس میں جامعہ کے اکابر اساتذہ اور شعبہ کے ذمہ داران نے متعلقہ موضوعات پر مختلف نصائح اور گزارشات ارشاد فرمائیں، جامعہ کے نائب رئیس اور نائب صدر علامہ بنوری ٹرسٹ/ ایسوسی ایشن حضرت مولانا سید احمد یوسف بنوری مدظلہٗ نے بھی صدارتی خطاب فرمایا، افادۂ عام کے لیے اس خطاب کو تحریری صورت میں شائع کیا جارہا ہے۔‘‘                     (ادارہ)


أعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم: ’’وَلَوْلَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللہِ کَثِیْرًا ۝۰ۭ وَلَیَنْصُرَنَّ اللہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ ‘‘                     (الحج:۴۰)
محترم ومکرم، قابلِ صد احترام وافتخار ائمہ کرام، معاونین، ارکانِ کمیٹی، صدور وجنرل سیکرٹریز !
حضرات! واقعہ یہ ہے کہ اگر ہمیں اس شہر کے بلکہ ملک کے معززین کی فہرست بنانی پڑے یا ملت کے سرکردہ افراد کی کوئی ایسی فہرست بنانی پڑے، جو اُمت میں قرار واقعی تبدیلی کا باعث ہوں، نیز اُمت کے مسائل کے حل کی کلید جن کے پاس ہو اور جنہیں اُمت کی ناؤ کا ناخدا کہا جاسکے، تو یقیناً اس فہرست میں آپ حضرات کا نام شمار ہوگا، کیونکہ جس ادارے کو اس کی اصلاح کی بنیاد بننا ہے، وہ مسجد ہے۔
آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خصوصیتوں میں سے اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے ساتھ کامل و مکمل نظام لے کر آئے، جس کے بارے میں وعدۂ خداوندی تھا کہ دیگر تمام نظاموں پر غالب آئے گا: 
’’ہُوَالَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ۝۰ۙ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ‘‘  (الصف:۹)
’’ (چنانچہ) وہ اللہ ایسا ہے جس نے (اس اتمامِ نور کے لیے ) اپنے رسول کو ہدایت (کا سامان یعنی قرآن ) اور سچا دین (یعنی اسلام) دے کر بھیجا ہے، تاکہ اس (دین ) کو تمام (بقیہ) دینوں پر غالب کردے (کہ یہ اتمام ہے) گو مشرک کیسے ہی ناخوش ہوں ۔‘‘    (بیان القرآن)
اس خدائی فیصلہ کے ساتھ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے نبوت کا اعلان کیا تھاکہ یہ خانۂ خدا اللہ کا روئے زمین پر پہلا گھر ہے، حضرت ابراہیم  علیہ السلام  نے اس کی بنیاد رکھی ہے۔ تم نے اس کو شرک کا مرکز بنادیا ہے، کل کائنات کے لیے یہ توحید کا مرکز ہوگا، یہاں سرزمینِ عرب میں دوسرا کوئی نظام قائم نہیں رہے گا، یہاں تک کہ کوئی حکومت بھی قائم نہیں رہے گی، صرف اللہ کے ماننے والوں کے نظامِ حکومت کو دوام حاصل ہوگا۔
 سارے پیغمبر اللہ کے ہاں محبوب تھے، سارے پیغمبر اللہ کے ہاں مقرب تھے، سب پر ہمارے لیے ایمان لانا ضروری ہے، جس طرح حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  پر ایمان لانا ضروری ہے، کوئی پیغمبراپنی دعوت میں ناکام نہیں ہوا، ہر پیغمبر اپنی دعوت میں اسی طرح فائز المرام ہوا جس طرح کی کامیابی پیغمبروں کے لیے وعدۂ خداوندی ہے، لیکن تاریخی طور پر یہ واقعہ ہے کہ پیغمبروں کے ماننے والے بعض چار تھے، بعض تین تھے، بعض اتنے تھے کہ ایک کشتی میں سماگئے، بعض کے ساتھ یہ صورت حال ہوئی تھی کہ ان کے مخاطبین کی طبیعت ایسی بنجر زمین تھی کہ اپنی بیوی تک نے ایمان لانے سے روگردانی کی، لیکن رسالت مآب  صلی اللہ علیہ وسلم  اس حال میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ سوا لاکھ صحابہؓ آپ کی بات پر لبیک کہنے کے لیے تیار تھے، پورے جزیرۂ عرب میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی حکومت بالفعل اور عملاً قائم تھی، جزیرۂ عرب رقبہ کے لحاظ سے تقریباً یورپ کے برابر علاقہ ہے، یہ پورا جزیرۂ عرب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی زیرِ حکومت تھا، پھر خلافتِ راشدہ میں اس کی توسیع ہوتی چلی گئی، برِاعظم کے برِاعظم آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے نظام کے دست نگر ہوگئے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے دین کا سکہ چلا اور عملاً چلا۔
 ہم غور کریں کہ اس ساری کامیاب تحریک کے پیچھے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کونسا ادارہ قائم کیا؟ تو وہ مسجد ہے، منبر ومحراب کو آپ نے نظمِ اجتماعی کا مرکز ٹھہرایا۔حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ  جو انبیاء کرام  علیہم السلام  کے بعد افضل البشر ہیں، ان کی افضلیت کی دلیل یہ دی گئی تھی کہ رسالت مآب  صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں جب ہماری مسجد کا امام بنایا، تو وہی ہماری دنیا کی امامت کے بھی مستحق ہیں۔ یہ ہے امامت کا درجہ ۔ مسجد اَساس ہے، مجھے عرض کرنے دیجیے: مسجد کا نظام منصوصی ہے، مدرسہ کا نظام مستنبط ہے۔ مدارس کا نظام علماء کرام ، فقہاء عظام نے زمانہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے اس کا استنباط کیا ہے، لیکن مساجد کی اہمیت منصوص ہے۔
یہ جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن جس کا فیض پوری دنیا میں پہنچ رہا ہے، اس کے بانی مبانی حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے: میرے ادارے میں مرکزی حیثیت مسجد کو حاصل ہونی چاہیے، حضرت بنوریؒ جب تشریف لائے تو مسجد کی بنیادیں رکھی جاچکی تھیں، مدرسہ کی جگہ خالی تھی، حضرت نے دریافت کیا کہ خالی جگہ کے بارے میں کیا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا: مدرسہ کے قیام کی خواہش ہے، مگروسائل نہیں ہیں، حضرتؒ نے فرمایا: یہ جگہ میرے حوالہ کردو، اس کا قیام میں خود کروں گا، چنانچہ اس ادارے کا قیام ایسے عمل میں لایا گیا کہ اس میں مرکزی حیثیت مسجد کو حاصل ہے، اس کے اردگرد باقی شعبے ہیں۔
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمۃ اللہ علیہ جن کا فیض پوری دنیا میں پہنچ رہا ہے فضائلِ اعمال اور دیگر کتب کی صورت میں، انہوں نے حضرت بنوریؒ کو خط لکھا کہ آج کل میں جو روحانی اَبتری دیکھ رہا ہوں، اس لحاظ سے مجھے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مدار س کے اندر خانقاہ کا نظام بھی قائم ہو، اور روز باقاعدہ ذاکرین کی ایک مخصوص تعداد ہو جو ذکر میں مشغول رہے، اس کا انتظام وانصرام اگر باہر سے نہ ہو تو اخرجات مدرسہ برداشت کرے۔ حضرت بنوریؒ اگرچہ منازلِ تصوُّف کے شناور ہیں، حضرت شفیع نگینویؒ (جو حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے خلیفہ ہیں) اُن کے خلیفہ ہیں، حضرت تھانویؒ سے مجازِ صحبت ہیں، حضرت مدنیؒ سے خلافتِ استرشاد حاصل ہے، مگر آپ نے جواباً فرمایا کہ: میری نظر میں مدرسہ میں پڑھنے والے یہ ناظرہ کے چھوٹے بچے جو قرآن مجید پڑھتے ہیں ان سے وہی برکات حاصل ہوں گی جو خانقاہوں سے ہوتی ہیں۔ اپنے اساتذہ سے یہ سنا ہے کہ حضرت بنوریؒ کی خاص چاہت تھی کہ میرے مدرسہ میں جو آئے اس کی پہلی نگاہ مدرسہ میں ان حفظ وناظرہ کے بچوں پر پڑے، ہمارا تعارف یہ ہوں، اس لیے ناظرہ اور حفظ کی درسگاہیں علیحدہ مقرر نہیں کی گئیں، بلکہ مسجد میں ہی ان کا نظم کیا گیا۔
آپ جانتے ہیں کہ یہ اکثر نابالغ بچے ہوتے ہیں، جو بہت زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے، اس لیے عام طور پر مدارس والے چاہتے ہیں کہ ہمارا پہلا تعارف وہ نہ بنیں، مگر حضرت کی منشا تھی کہ مدرسہ میں داخل ہونے والا سب سے قبل انہی کو دیکھے، ہمارا تعارف یہ مسجد میں پڑھنے والے بچے بنیں۔
عزیزانِ گرامی! یہ ہے مسجد کی اہمیت جس کے بارے میں ابوالحسن علی ندویؒ نے ایک جگہ لکھا ہے: ’’ھو قطب رحی تدور حولہٗ حیاۃ المسلمین‘‘ کہ یہ وہ چکی کا پاٹ ہے جس کے اردگرد پورا اسلامی معاشرہ گھومتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مدارسِ اسلامیہ کے خلاف سازشیں ہوتی ہیں، مگر بنظرِ غائر دیکھا جائے تو مدارس سے بڑھ کر یہ ائمہ کرام کی آزادی ہے جو اغیار کی آنکھوں میں کھولتی ہے، انہیں شدید کج ہے کہ یہاں کے منبر ومحراب سرکار کے تابع نہیں ہیں، یہاں کے امام کو لکھا ہوا خطبہ نہیں ملتا، یہ نظام برِصغیر پاک وہند کی برکت ہے، حجازِ مقدس جیسی مقدس سرزمین کے ائمہ کو یہ سہولت حاصل نہیں ہے، یہ آپ کو اور ہمیں حاصل ہے۔
عزیزانِ گرامی! یہ تو مساجد کی اہمیت اور ان کے سرخیل ائمہ کی اہمیت اور فضیلت ہوئی۔ اب اس نشست کے دوسرے مخاطب ہیں ہمارے ارکان کمیٹی، آج کے اجلاس کی اہم غرض یہ ہے کہ آپ حضرات سے ہمارا براہِ راست تعارف ہوسکے۔
عزیزانِ گرامی! آپ حضرات کو اپنی اہمیت اور درجہ سے آگاہ ہونا چاہیے، آپ کی خدمات معمولی حیثیت کی نہیں ہیں، اسلامی معاشرے میں جو دین اور سیرتِ طیبہ کی روشنی میں اگر کسی تقسیم کی طرف رہنمائی ملتی ہے تو اس کے عنوان ہیں: مہاجرین اور انصار۔
انصار‘ وہ حضرات جنہیں خدا کی تقسیم کے مطابق خلافت کا تاجور بننا تو نصیب میں نہیں تھا، لیکن دین کی مدد و نصرت کا فریضہ اس شان سے ادا کیا کہ ان کا نام من حیث القوم انصار رکھا گیا، گویا یہ سبق ملا کہ ضروری نہیں ہے کہ ہر انسان کو قیادت کا موقع ملے، لیکن جو لوگ انصار کی طرح اخلاص کے ساتھ تعاون کریں، ان کا درجہ بھی کسی سے کم نہیں۔
آپ دیکھیں کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے انصار کو ایسے نوازا کہ جب فتح مکہ ہوگیا اور آپ کے لیے مکہ مکرمہ میں رہنا ممکن ہوگیا، مگر آپ نے انصار کے شہر کو ہی ہمیشہ کے لیے اپنا مسکن بنایا، حالانکہ مکہ مکرمہ کو چھوڑنا آپ پر نہایت شاق تھا، یہاں تک کہ ہجرت کے موقع پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  مڑ مڑ کر خانۂ خدا کو دیکھتے تھے اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی زبان کے الفاظ کتب میں نقل ہوئے ہیں کہ اگر یہ ظالم مجھے مجبور نہ کرتے تو میں تم سے کبھی جدائی اختیار نہ کرتا ۔ اس موقع پر آپ کی تسلی کے لیے قرآن مجید کی یہ آیت بھی نازل ہوئی:
’’اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ‘‘          (القصص: ۸۵) 
’’جس اللہ نے قرآن اُتارا ہے وہ پوری شان کے ساتھ آپ کو واپس لائے گا۔‘‘
لیکن جب فتح نصیب ہوئی، اللہ تعالیٰ نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو مکہ مکرمہ میں رہائش کا موقع نصیب فرمادیا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے انصار کا ساتھ نہیں چھوڑا۔
تو اس بات کو ذہن نشین رکھیں کہ یہ کام اور دین کی خدمت کی تقسیم ہے، یا یوں کہیے کہ اسلامی معاشرہ کی تقسیم دو طبقوں میں ہوئی: ایک مہاجر ، دوسرے انصار۔ انصار وہ ہیں جو دستِ تعاون دراز کریں، اپنے دروازے کھول دیں، آپ حضرات جو کمیٹی سے تعلق رکھتے ہیں آپ دوسرے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں، جنہیں انصار کہا جاتا ہے،آپ دین کی خدمت کے لیے اپنے دروازے کھولتے ہیں، اپنا مال خرچ کرتے ہیں، امامت کسی اور کی ہوگی اور اس کا پورا پورا ثواب آپ کو مل رہا ہوگا۔ آپ لوگ خوش نصیب ہیں جو اپنا وقت اس کام کے لیے صرف کرتے ہیں، اللہ فرماتا ہے: ’’وَلَیَنْصُرَنَّ اللہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ‘‘ جو اللہ کی مدد کرے گا، اللہ کو تو مدد کی ضرورت نہیں، یعنی اللہ کے دین کی مدد کرے گا، تو اللہ اس کی مدد کرے گا، آپ ائمہ کا خیال رکھیں گے، اللہ تعالیٰ آپ کا خیال رکھے گا، حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: جب تک بندہ اللہ کی مدد میں ہوتا ہے، اللہ اس بندے کی مدد میں ہوتا ہے۔ آپ ائمہ کے بچوں کا خیال رکھیں گے، اللہ آپ کے بچوں کا خیال رکھے گا۔ 
یاد رکھیں! جب کوئی تعمیر ہوتی ہے ہر چیز مینارے پر نہیں سجتی، ہر چیز محراب میں نہیں لگتی، عمارت قائم ہوتی ہے بنیادوں سے، دارالعلوم دیوبند کے بانی مبانی کون ہیں؟ مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ، مگر تاریخ میں ہمیں ایک دوسرا نام بھی ساتھ ملتا ہے حاجی عابد، جنہوں نے یہ جگہ وقف کی، ہماری تقسیم میں دیوبند سے پڑھنے والوں کی نسبت قاسمی ہے ، مگر اللہ کی بارگاہ میں تو حاجی عابد کا نام بھی درج ہوگا۔ 
عزیزانِ گرامی! ائمہ اور مسجد کی انتظامیہ کا جوڑ اس معاشرے کی اَساس ہے، اس سے مسجد مضبوط ہوگی اور ایک مسجد کئی اداروں کے وجود میں آنے کا باعث ہوگی، اسی طرح گزارش ہے کہ ہمیں چاہیے اپنی مساجد کو تربیت گاہ بنائیں۔
محترم ائمہ! علماء کرام! آپ خود داعیان ہیں، آپ کو نصیحت کرنا مقصد نہیں ہے، خود کو سنانا مقصد ہے۔ آپ یہ جذبہ پیدا کریں گے، تو اس کے اثرات دیکھیں گے۔ تو گزارش یہ ہے کہ آپ حضرات مختلف پروگرام اور کورس کی ترتیب بنائیں، ہماری جامعہ کے ناظم تعلیمات اور ہم سب کے محبوب استاذ تھے حضرت مولانا عطاء الرحمٰن شہیدؒ ، انہوں نے ایک کورس بنایا ہے جس کا عنوان ہے ’’تعلیم و تربیت‘‘ جو عموماً گرمیوں کی چھٹیوں میں اسکول کے طلبہ کو کرایا جاتا ہے، اس کا اہتمام کریں۔ اسی طرح درسِ قرآن اور درسِ حدیث کا اہتمام ہو۔ جو بات سب سے اہم ہے، وہ ہے اُمت میں جوڑ، دیکھیں! دکھ کی بات ہے کہ جو گناہوں کی جگہیں ہیں، وہ لوگ آزادی سے جمع ہوجاتے ہیں، کلفٹن کے بیچ میں، ہسپتال میں ہر کوئی چلا جاتا ہے، مسجدوں میں آتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ ہمارا تعارف نہیں ہے، امام صاحب نہیں جانتے، کوئی اور نہیں جانتا، تو مساجد میں مسلمانوں کا اتفاق نہیں ہوگا تو کہاں اتفاق ہوگا؟ 
آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بتایا ہے کہ مسجدوں میں آوازیں بلند ہونے لگیں گی، اس سے مراد منبر ومحراب سے جو صدائے حق بلند ہوتی ہے وہ نہیں ہے۔ اس سے مراد وہ آوازیں ہیں جو آپس کے اختلاف کی وجہ سے شور شرابہ کی وجہ سے بلند ہوتی ہیں، اختلاف تو اتنی منحوس چیز ہے کہ سب سے مقدس اور بابرکت رات لیلۃ القدر جو رمضان میں نازل ہوئی، اسی اختلاف کی وجہ سے اس کی تعیین نہ ہوسکی۔ مسجدیں جوڑ کی جگہ ہوں، مسجدیں ہمدردی کی جگہ ہوں، مسجدیں غم خواری کی جگہ ہوں، آپس میں ایک دوسرے کے غم میں شریک ہوں ۔
اس کا ذکر کرنا بھی باعثِ خیر ہے کہ یہ سارا شعبہ ہمارے اکابر کی برکات ہیں، حضرت اقدس مفتی احمد الرحمٰن صاحب رحمہ اللہ، حضرت مفتی عبدالسمیع صاحب شہیدؒ جیسے حضرات تھے کہ جن کی جاں گسل محنتوں سے یہ نظم قائم ہوا اور آج شہر میں شعبہ خدمات انجام دے رہا ہے۔
ایک اور اہم بات کی طرف آپ کو متوجہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ شعبہ صرف فصلِ نزاعات اور دفعِ خصومات کے لیے نہیں قائم کیا گیا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس شعبہ سے اللہ تعالیٰ اس سلسلے میں بہت کام لے رہا ہے، کیونکہ نزاع دور کرنے کی دو صورتیں ہوتی ہیں کہ یا تو قانون اور طاقت کے جبر سے معاملہ حل کیا جائے یا کسی کے احترام اور لحاظ میں معاملہ رفع ہو جائے ۔
اسی احترام کو معاشرے میں باقی رکھنے کی غرض سے دین میں جھوٹی قسمیں کھانے پر سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں، اس لیے کہ ایک مرتبہ معاشرہ میں اگر اللہ کریم کے نام کی حرمت ختم ہو جائے تو سارا نظم تہہ و بالا ہو جاتا ہے، تو یہاں شعبہ میں کسی جبر کے ذریعہ نہیں بلکہ ادارے کے احترام کے باعث یہ جھگڑے نمٹ جاتے ہیں، ہمارے دار الافتاء میں بھی بڑے سے بڑا کاروباری معاملہ اسی اصول پر حل ہوجاتا ہے، جو لوگ سالوں میں عدالتوں میں پریشان ہوتے رہتے ہیں، یہاں ہفتوں میں وہ معاملہ شرعی اصولوں کے مطابق نمٹ جاتا ہے۔ لیکن بہرکیف یہ شعبہ صرف حلِ نزاع کے لیے قائم نہیں ہوا، یہ صرف جھگڑے نمٹانے کے لیے قائم نہیں ہوا، یہ صرف فساد رفع کرنے کے لیے قائم نہیں ہوا، یہ ادارہ آپ کا ادارہ ہے، اس کا دارالافتاء آپ کا دارالافتاء ہے، ان سے استفادہ کرنا ہے، ان کے اکابر سے استفادہ کرنا ہے، یہاں سے تربیت کا سبق لے کر جانا ہے، یہ اس کی اصل غرض ہونی چاہیے۔
 یہی آج کی نشست کا مقصد ہے، ہمارے اس شعبہ کے اہم ذمہ دار ہیں قاری محمد اقبال صاحب، ان کو اللہ کریم نے شہر کے مختلف حلقوں میں ایک مقام عطا کیا ہے، مگر قاری صاحب صرف اس کام کے لیے نہیں ہیں کہ آپ کے جھگڑوں میں استعمال ہوں، وہ ان شاء اللہ! آپ کے غموں میں بھی آپ کے ساتھ ہوں گے، اپنے احوال ان کو بتائیں، آپ کی فہرست ہمارے پاس ہو، ہم سے رابطہ میں رہیں، جو نہیں آسکے ان کو بتائیں، اس کی خیر آگے تک پہنچے۔
واقعہ یہ ہے کہ ہماری بدقسمتی ہے، مجبوری ہے، اس وقت ہم انگریزی قانون کے تحت جی رہے ہیں، ہم ڈیڑھ سو سال سے انگریز کے قانون کے تحت چل رہے ہیں، مساجد اور مدارس بھی انگریزی قانون کے ماتحت ہیں، لیکن اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، آپ جانتے ہیںکہ دارالعلوم دیوبند ، تھانہ بھون ، تبلیغی جماعت یہ ساری خدمات ہمارے اکابر نے انگریز کے دور میں ان کی حکومت میں کرکے بتائیں، یہاں برسبیلِ تذکرہ اس بات کا ذکر کرنا مفید معلوم ہوتا ہے کہ اس شعبہ مساجد کے تحت جو مساجد ملحق ہیں وہ قانونی نظم کے لحاظ سے دو حصوں پر منقسم ہیں، کچھ مساجد ٹرسٹ کے تحت رجسٹرڈ ہیں اور کچھ سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہیں۔
ہم نے آج کی نشست میں صرف ان مساجد کے منتظمین اور ائمہ کو مدعو کیا ہے جو سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہیں، دیگر سے نشست کی ترتیب ان شاء اللہ اگلی مرتبہ کی جائے گی۔نیز قانونی ضرورت کا تقاضا بھی سمجھ لینا چاہیے، اب مساجد کو ایسوسی ایشن کے تحت ہی خود کو رجسٹرڈ ہونا چاہیے۔
ایک چیز کی وضاحت بہت ضروری ہے، عزیزانِ گرامی! جامعہ سے منتسب کوئی وکیل نہیں ہے۔ جامعہ کے ترجمان قاری محمد اقبال صاحب ہیں، مولانا اکمل صاحب ہیں، قاری اسامہ صاحب ہیں، مولانا عدیل شاہ صاحب ہیں۔ ہم بھی کسی وکیل کے پاس جاتے ہیں، تو کلائنٹ اور کسٹمر کی حیثیت سے جانتے ہیں، ان کو فیس دیتے ہیں، نہ ہم کسی وکیل کے نمائندہ ہیں، اور نہ کوئی وکیل ہمارا نمائندہ ہے۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیں، کسی نے کہا کہ آپ نے فلاں جگہ نام لکھا ہے، وہ قانونی مجبوری ہے، جیسے آپ کلائنٹ کے طور پر کسی کا نام لکھیں، یہ مجبوراًلکھنا پڑا، کوئی وکیل ہمارا نمائندہ نہیں ہے۔ آپ معاملہ کریں اس طرح جیسے اکابر نے سکھایا ہے۔ تول کر معاملہ کریں، کلائنٹ کی حیثیت سے معاملہ کریں، جس سے آپ کے حقوق وابستہ ہوں وہ معاملہ کریں۔ ہم یہ تو نہیں کرسکتے کہ وکیل بھی ہم فراہم کریں، ہم جامعہ میں وکیل تیار نہیں کرتے، ہم جامعہ میں علماء تیار کرتے ہیں، ہمارا اصل مقصد یہ ہےکہ مساجد میں وہی حقیقی کام ہو، جس کے لیے یہ مساجد قائم کی گئی ہیں، اور وہ ہے تربیت۔
آخر میں اپنے اس ارادے کا اظہار بھی ہم اللہ کریم کے سہارے کر رہے ہیں کہ ان شاء اللہ ہر سال شعبان میں اس نوعیت کی نشست کا اہتمام کریں گے۔ دعا کریں کہ اللہ عزوجل ہم سب کو اس کی توفیق دے۔ عزیزانِ گرامی! اب استفادہ کرنا آپ کا کام ہے۔ رابطہ رکھیں، بھرپور رابطہ رکھیں، یہاں کے دارالافتاء سے استفادہ کریں، یہاں کے اساتذہ اور علماءسے استفادہ کریں۔ آپ چاہیں تو اس ادارے کو اینٹ گارے کا مجموعہ جان لیں اور چاہیں تو اسے اپنے علمی اور عملی استفادہ کا ذریعہ بنالیں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی آمد قبول فرمائے، کوئی سخت سست بات ہوگئی ہو تو معذرت خواہ ہوں، آپ کا احترام ہم پر واجب ہے، اللہ تعالیٰ تمام معاونین کو ،ارکانِ کمیٹی خواہ صدر ہوں، جنرل سیکرٹری ہوں، یا عام رکن ہوں یا عام نمازی ہوں، سب کو جزائے خیر عطا فرمائے، آپ نے بڑی زحمت کی، وقت دیا، اللہ تعالیٰ آپ کے آنے کو اور اس مجلس کو معاشرہ کے لیے،بلکہ پوری امت کے لیے خیر اور ہدایت کی ہوائیں چلانے کا ذریعہ بنائے، آمین 

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین