بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

مساجد ومدارس کو سوئی گیس بم سے نشانہ بنانے کی افسوسناک کوشش

مساجد ومدارس کو سوئی گیس بم سے نشانہ بنانے کی افسوسناک کوشش

اللہ رب العزت نے وطن عزیز پاکستان کو ۱۹۵۰ء کی دہائی میں سوئی گیس کی نعمت سے نوازا تھا۔ یہ وہ نعمت ہے جو پاکستان کو کسی غیر ملک سے خریدنی نہیں پڑتی، بلکہ یہ قدرت کا انمول عطیہ مفت میں عنایت کیا گیا ہے۔ پاکستان میں سوئی گیس کا استعمال ۱۹۵۰ء کی دہائی کے آخر میں شروع ہوگیا تھا۔ اس وقت سے لے کر اب تک یعنی گذشتہ ۵۰ سال سے زائد عرصہ کے دوران مساجد ، مدارس اور دیگر دینی اداروں کو سوئی گیس کی فراہمی عام گھریلو صارفین کی طرح کی جارہی تھی۔ ہم عرصۂ دراز سے حکومتِ وقت سے یہ مطالبہ کرتے آرہے تھے کہ چونکہ مساجد اور مدارس فلاحی ادارے ہیں، جو حکومت کی امداد کے بغیر گرانقدر خدمات سرنجام دے رہے ہیں اور انہوں نے لوگوں کی دینی ضروریات پوری کرنے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے، اس لئے ان دینی اداروں کو سوئی گیس کی فراہمی عام گھریلو صارفین کے مقابلہ میں رعایتی نرخوں پر ہونی چاہئے۔ ہمارے اس دیرینہ جائز مطالبہ کو تسلیم کرنے کی بجائے حکومتِ پاکستان کے ذیلی ادارے ’’اوگرا‘‘ نے ۲۲؍ ستمبر ۲۰۱۲ء سے مساجد، مدارس اور دیگر دینی اداروں کو عام گھریلو صارفین کے زمرے سے نکال کر اسلام دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ظالمانہ طور پر ان اداروں پر ناقابلِ برداشت معاشی بوجھ ڈال دیا ہے، چنانچہ مساجد ودینی مدارس میں گیس کنکشن حاصل کرنے کا خرچہ ۳۰۰۰ ہزار روپے سے بڑھا کر ۳۱۰۰۰ ہزار روپے کردیا ہے، یعنی سروس لائن کی رقم ۱۵۰۰ روپے سے بڑھا کر ۵۰۰۰ ہزار روپے اور سیکورٹی کی رقم ۱۵۰۰ روپے سے بڑھا کر ۲۶۰۰۰ ہزار روپے کردی ہے، یعنی اگر کوئی اپنی کوٹھی یا مکان پر گیس کنکشن لگوائے تو اسے محض ۳۰۰۰ ہزار روپے دینے ہوںگے اور اگر اللہ کے گھر کے لئے گیس کنکشن لیا جائے تو ۳۱۰۰۰ ہزار روپے دینے ہوںگے۔ عام گھریلو صارفین کے لئے سوئی گیس کے تین نرخ ہیں، یعنی ۱۰۰ روپے فی یونٹ، ۲۰۰ روپے فی یونٹ اور ۵۰۰ روپے فی یونٹ، لیکن مساجد ومدارس وغیرہ کے لئے ایک ہی نرخ ہے یعنی ۵۰۰ روپ فی یونٹ، وہ جتنی بھی گیس استعمال کریں گے ان کو ساری مقدار پر ۵۰۰ روپے فی یونٹ کے حساب سے ادائیگی کرنا ہوگی۔ ان دینی اداروں کو سستے نرخوں یعنی ۱۰۰ روپے فی یونٹ اور ۲۰۰ روپے یونٹ سے محروم کردیا گیا ہے۔  عام گھریلو صارفین کے لئے کم سے کم بل کی رقم تقریباً ۲۰۰ روپے ہے اور گزشتہ ماہ تک مساجد ومدارس وغیرہ کے لئے بھی کم سے کم بل کی رقم ۲۰۰ روپے ہی تھی، مگر حکومت کے ذیلی ادارے ’’اوگرا‘‘ نے اسلام دشمنی میں ظالمانہ طور پر ۲۲؍ ستمبر ۲۰۱۲ء سے دینی اداروں کے لئے کم سے کم بل کی رقم ۲۰۰ روپے سے بڑھا کر ۳۶۰۰ روپے کردی ہے۔ مساجد میں وضو کے گرم پانی کے لئے تین ماہ یعنی دسمبر، جنوری اور فروری میں سوئی گیس استعمال کی جاتی ہے، باقی ۹ ماہ یعنی مارچ سے نومبر تک مساجد میں گیس کا استعمال نہیں ہوتا، چنانچہ ان ۹ ماہ کے دوران گیس استعمال نہ کرنے کے باوجود ۳۶۰۰ روپے ماہوار کے حساب سے ۹ ماہ کا کم از کم بل ۳۲۴۰۰ روپے ادا کرنا ہوگا اور اس کے علاوہ گیس کے استعمال کے حساب سے بھی فی یونٹ پانچ سو روپے مزید ادائیگی بھی کرنی پڑے گی۔ مساجد ومدارس کے ساتھ یہ ظالمانہ اور غیر مساویانہ طرزِ عمل اسلام دشمنی اور ظلم کی انتہاء نہیں تو اور کیا ہے؟ اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آنے والی اس مملکت میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ لوگوں کی دینی، علمی، روحانی اور اسلامی ضروریات پوری کرنے کے لئے مساجد ومدارس کے جملہ اخراجات اور انتظامات ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہوتی۔ اگر ریاست تمام تربوجھ اور ذمہ داری اٹھانے کی سکت نہیں رکھتی تو کم از کم بجلی اور گیس کی سہولت تو مفت مہیا کی جاتی، لیکن یہاں تو الٹی ہی گنگا بہتی ہے۔ اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آنے والی اس ریاست میں دین پر عمل کرنے کو روز بروز مشکل سے مشکل بنایاجارہا ہے، جبکہ گناہ کرنا دن بدن آسان سے آسان ترہوتا چلا جارہا ہے۔ وہ چیزیں جن کی وجہ سے نسلِ نو کے بہکنے اور بے راہ روی کا شکار ہونے کے امکانات زیادہ ہیں، اُنہیں سستا کیا جارہا ہے، ان تک رسائی آسان ہوتی چلی جارہی ہے اور وہ ہر آدمی کی پہنچ میں ہیں، لیکن وہ دینی مدارس جو اس قوم کے بچوں اور بچیوں کو علومِ نبوت سے روشناس کروانے والے ہیں اور وہ مساجد جو ایک مسلمان کی ایمانی اور روحانی زندگی کے لئے از حد ضروری ہیں، ان کا انتظام مشکل سے مشکل تربنایا جارہا ہے۔ حکومت کے اس ظالمانہ اور غیر منصفانہ فیصلے کے بارے میں عوام الناس میں مختلف قسم کی آراء پائی جاتی ہیں۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ یہ اس عالمی استعماری ایجنڈے کا حصہ ہے جس کے تحت دینِ اسلام سے نسبت رکھنے والی ہر علامت ، ہر ادارہ اور ہرمرکز دشمن کا ہدف ہے اور وہ ہر اس عمل کو روکنا چاہتے ہیں جو اسلام کے غلبے اور مسلمانوں کی کامیابی کی ضمانت دیتا ہو اور جس کے ذریعے لوگ دین سے مزید قریب ہوسکیں، یہی وجہ ہے کہ کبھی مساجد میں بم دھماکے کرواکرلوگوں کو خوف زدہ کردیا جاتا ہے اور انہیں مسجدوں میں جانے سے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے، کبھی دینی مدارس کو ہدفِ تنقید بنایاجاتا ہے، مدارس کی کردار کشی کی مہم چلائی جاتی ہے، مدارس کے اساتذہ وطلباء کو شہید کیا جاتا ہے، مدارس پر بلا جواز چھاپے مارے جاتے ہیں، مدارس کے ساتھ تعاون کرنے والوں کو ہراساں کیا جاتا ہے اور اب ایک وار گیس کے بلوں کی شکل میں کیاگیا۔ اس سے قبل بجلی کے بلوں میں بھی غیر اعلانیہ طور پر اس قسم کی وارداتوں کو محسوس کیاگیا اور اب گیس کے بلوں کی شکل میں نقب زنی کی کوشش کی جارہی ہے، جسے ان شاء اللہ! کسی صورت میں کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ جبکہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ یہ واردات کسی ایسے بے دین، سیکولر اور قادیانی مزاج بابو کے شاطرانہ دماغ کا شاخسانہ ہے، جس نے مساجد ومدارس کو ہدف بناکر مسلمانوں کے ایمان وعقیدے اور مذہبی وابستگی پر ضرب لگانے کی کوشش کی ہے، لیکن اللہ کی ذات سے امید ہے کہ اس ملک کے کروڑوں اہلِ ایمان اس کوشش کو ناکام بنا کردم لیںگے۔ اس ظالمانہ فیصلے کی اطلاعات ملنے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر غور کرنے کے لئے ابتدائی مرحلے میں ہم نے ’’اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان‘‘ کے پلیٹ فارم پر تمام مکاتب فکر کی سرکردہ شخصیات کو جمع کرکے باہمی مشاورت کی اور حکمت عملی طے کرلی ہے کہ اس ظالمانہ جسارت کی ہرسطح پر، ہرطریقے سے، ہرممکنہ مزاحمت کی جائے گی۔ ابتدائی مرحلے میں ہم صدرِ پاکستان، وزیر اعظم پاکستان، وفاقی وزیر پٹرولیم پاکستان اور چیئرمین ’’اوگرا‘‘ سے خطوط، مضامین، اخبارات اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے مطالبہ کرتے ہیں کہ فی الفور مساجد ومدارس کے سوئی گیس بلوں میں اضافہ کو واپس لیا جائے اور اس ظالمانہ وجانبدارانہ فیصلہ کے ذمہ داروں کو معطل کرکے عبرتناک سزا دی جائے۔ اسی طرح چیف جسٹس آف پاکستان سے بھی گزارش ہے کہ وہ اس اقدام پر سوموٹو نوٹس لیں، تاکہ اربابِ مساجد ومدارس اور پوری قوم میں پایا جانے والا اضطراب ختم ہوسکے۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین