بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مسئلہ تقدیر ۔۔۔۔۔ اور حضرت عمر بن عبد العزیز  رحمۃ اللہ علیہ  کا ایمان افروز خط

مسئلہ تقدیر 

اور حضرت عمر بن عبد العزیز  رحمۃ اللہ علیہ  کا ایمان افروز خط


مسئلہ تقدیر کی وضاحت

تقدیرربِ کائنات کی وہ دستاویز ہے، جس میں کائنات کی ہر چیز کے متعلق مکمل تفصیل موجود ہے،ابتدائے آفرینش سے قیامت تک ہونے والے تمام چھوٹے، بڑےواقعات کی جزئیات لکھی جاچکی ہیں، انسان کی عمر، رزق، رہائش، موت، اس کی سعادت مندی، اور بدبختی کے فیصلے دنیا کے وجود سے پچاس ہزار سال پہلے قلم بند ہوچکے ہیں۔(۱)
تقدیر رب العالمین کا ایک پوشیدہ راز ہے، جس کی خبر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں، یہی وجہ ہے کہ انسان بالخصوص مسلمان کو تقدیر کے معاملہ میں جستجو کرنے، اس کی ٹوہ میں لگنے، اس کے متعلق مناظرے کرنے، اور اس کی حقیقت جاننے کی کوشش کرنے سے روکا گیا ہے۔ سنن ترمذی میں روایت ہے کہ ایک روز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تقدیر کے مسئلہ میں باہم گفتگو فرما رہے تھے،جو بحث و مباحثہ کی صورت اختیار کر گئی،جس پر حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے سخت کلفت وناراضگی کا اظہار فرمایا،اور اس نا راضگی کا اثر چہرۂ مبارک پر ایسا محسوس ہونے لگا، جیسے ابھی کسی نے انار نچوڑا ہو، اور فرمایا:
’’أبہٰذا أمرتم، أم بہٰذا أرسلت إليکم؟ إنما ہلک من کان قبلکم حين تنازعوا في ہٰذا الأمر۔‘‘ (۲)
’’کیا تمہیں اسی( بحث و مباحثہ) کا حکم دیا گیا ہے؟ یا میں یہی چیز دے کر بھیجا گیا ہوں؟ یقیناً تم سے پہلی قومیں تقدیر میں جھگڑنے کی وجہ سے ہلاک ہوچکی ہیں۔‘‘
حضرت علی  رضی اللہ عنہ  سے کسی شخص نے تقدیر کے بارے میں سوال کیا ،تو آپ  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا: ’’طريق مظلم لاتسلکہٗ‘‘ یعنی ’’یہ اندھیری راہ ہے، اس پر مت چلو۔‘‘
 اس شخص نے دوبارہ سوال کیا، تو فرمایا: ’’بحرٌ عميقٌ لاتلجہ‘‘ یعنی گہرا سمندر ہے، اس میں مت داخل ہو۔ اس نے ایک بار پھر سوال کیا ، تو فرمایا: ’’سرّ اللہ قد خفي عليک فلاتفتشہ‘‘ یعنی اللہ کا راز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تجھ سے مخفی رکھا ہے؛ لہٰذا اس کی تفتیش و جستجو میں مت پڑو۔ (۳)
ایک ضعیف روایت میں ہے کہ جس نے تقدیر کے معاملہ میں گفتگو کی (یعنی اس کی جستجو میں لگا) قیامت کےروز اس سے پوچھ ہوگی۔ (۴)
جس طرح شریعتِ مطہرہ میں ایک انسان کو دوسرے انسان کے راز چھپانے کی ترغیب دی گئی ہے، اور اپنے مومن بھائی کے پیچھے لگ کر اس کے رازوں تک رسائی حاصل کرنے سے منع کیا گیا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے راز کی ٹوہ میں لگنے سے روکا گیا ہے، بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی ذات انسان سے بلند تر ہے، تو اس کے راز پانے کی دھن میں رہنا کیوں کر روا ہوسکتا ہے؟

تقدیرِالہٰی پر ایمان 

تقدیر پر ایمان لانا مسلمانوں کے اہم فرائض میں سے ایک فریضہ ہے، اور اس پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ دل میں یہ یقین کر لینا کہ خیر و شر کا مالک اللہ تعالیٰ ہے، انسان کو جو خوشیاں، اور مصیبتیں ملتی ہیں،وہ سب اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے ملتی ہیں۔ انسان کے رزق میں کشادگی اور وسعت اسی کے ہاتھ میں ہے، ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ: ’’رزق انسان کوایسے ہی تلاش کرتا ہے، جیسے موت اسے تلاش کرتی ہے۔‘‘ (۵)
تقدیرِ خداوندی کے سامنے عقلاء کی عقلیں اور ماہرین کی تدبیریں سب خاک ہیں۔ تقدیر پر ایمان، دلی اطمینان کا باعث، دنیاوی ہموم و غموم کے خاتمہ کا ذریعہ اور پرسکون زندگی کا سبب ہے۔
تقدیر پر تمام انبیاء  علیہم السلام ایمان رکھتے تھے،اوراس پر ایمان لانے کی طرف دعوت دیتے چلے آئے ہیں،نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی اپنی حیاتِ طیبہ میں تقدیر پر ایمان لانے کو لازم قرار دیا،اور تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اس پر ایمان لائے،اور اس عقیدے پر تمام امتِ مسلمہ کا اجماع ہے۔

انکارِ تقدیر کی ابتدا، اور پیشِ نظر خط کا پس منظر

امام مسلمؒ کتاب الایمان کے شروع میں روایت نقل فرماتے ہیں: 
’’یحییٰ بن یعمر سے روایت ہے کہ: سب سے پہلے جس نے تقدیر میں گفتگو کی (بصرے میں) وہ معبد جہنی تھا، میں اور حمید بن عبدالرحمٰن حمیری دونوں حج یا عمرے کے لیے چلے اور ہم نے کہا: کاش! ہمیں کوئی صحابیِ رسول( رضی اللہ عنہ ) مل جائے جس سے ہم اس بات کا ذکر کریں جو یہ لوگ تقدیر کے بارے میں کہتے ہیں۔ ہمیں حضرت عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما  مسجد میں داخل ہوتے ہوئے مل گئے۔ میں اور میرا ساتھی ان کے داہنے اور بائیں طرف ہو گئے۔ میں سمجھا کہ میرا ساتھی مجھے بات کرنے دے گا، تو میں نے عرض کیا: اے ابو عبدالرحمٰن! ہماری طرف کچھ ایسے لوگ پیدا ہوگئے ہیں جو قرآن پڑھتے ہیں اور علم میں باریکیاں بھی نکالتے ہیں (اور ان کا باقی حال بھی بیان کیا) اور یہ بھی بتایا کہ وہ کہتے ہیں کہ: تقدیر کوئی چیز نہیں اور سب کام ناگہاں اور نئے سرے سے ہو رہے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  نے فرمایا: تم جب ایسے لوگوں سے ملو تو کہہ دینا کہ میں ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے(بری ہیں)۔ اور اللہ تعالیٰ کی قسم کھا رہا ہوںکہ ایسے لوگوں (یعنی تقدیر کے منکرین)میں سے اگر کسی کے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو، پھر وہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرے تو اللہ قبول نہیں کرے گا جب تک تقدیر پر ایمان نہ لائے ۔‘‘   ( صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان الایمان والاسلام والاحسان الخ)
عہدِ رسالت کے بعد خلفائے اربعہؓ کے آخری دور میں اطرافِ مدينہ میں کچھ لوگ تقدیر کا انکار کرنے لگے، اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ فتنہ پروان چڑھتا گیا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، اور تابعین رحمہم اللہ تعالیٰ نے قرآن و سنت کی روشنی میں مسئلہ تقدیر کو واضح کر کے امت کے سامنے پیش کیا، اور جو تشویش اس فتنہ کی وجہ سے پھیل رہی تھی وہ تھمنا شروع ہو گئی، ایک شخص نے حضرت عمر بن عبد العزیز  رحمۃ اللہ علیہ  کو خط لکھا، جس میں اس مسئلہ کی وضاحت مطلوب تھی، آپؒ نے اس فتنہ کو بدعت قرار دیا ،اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی اتباع کو اصلِ شریعت قرار دیا،اور اسی کو نجات ِ آخرت کا ذریعہ بتلایا۔
یہ اثرسنن ابی داوٗد کی ’’کتاب السنۃ‘‘ میں ہے،اور اس مکتوب کی عبارات مشکل شمار کی جاتی ہیں،اس کا اردو ترجمہ پیشِ خدمت ہے، درمیان میں کچھ تشریحی کلمات کا اضافہ بھی ہے،اورآخر میں سہولت و آسانی کی غرض سے خط سے حاصل ہونے والے فوائد بھی درج کر دیے گئے ہیں۔ (۶)

خط کا سلیس ترجمہ

’’ایک شخص نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالیٰ کو خط لکھ کر ’’تقدیر‘‘ کی بابت سوال کیا!
 آپ ؒ نے جواب میں لکھا :
 حمد و ثناء کے بعد! میں آپ کو(چار چیزوں کی) وصیت کرتا ہوں:
۱: اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔
۲:اس ذات کے معاملے میں میانہ روی اختیارکرو ( اللہ تعالیٰ کے احکامات میں کمی بیشی مت کرو)۔
۳: اس کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت کی پیروی پر قائم رہو۔
۴: سنت کے ثابت ہوجانے اور اس کی مشقت سے مستغنی ہونے کے بعد مبتدعین کی بدعتوں سے بچتے رہو۔ (اللہ تعالیٰ نے دین میں نئی باتیں پیدا کرنے کا بوجھ لوگوں کے کندھوں پرنہیں ڈالا، بلکہ اپنے دین کو کامل و مکمل بنایا، تاکہ بعد میں انہیں دین میں کوئی نیا حکم نہ نکالنا پڑے)، لہٰذاتم سنت کی مکمل طور پر پیروی کرتے رہو، کیوں کہ تمہارے لیے(اللہ تعالیٰ کے حکم سے) اسی میں پناہ ہے۔

بدعت کے خلاف قرآن و سنت میں دلائل موجود ہیں

پھر جان لو! لوگ جو بھی بدعت کرتے ہیں، اس کے خلاف پہلے سے(قرآن و سنت میں) حجت قائم ہو چکی ہے، یا وہ (قرآن و سنت میں )نشانِ عبرت بن چکی ہے؛ کیوں کہ سنت اس ذات نے جاری کی ہے، جو سنت کے خلاف(بدعات) کی غلطی، لغزش، کم فہمی اور اس کی شدت سے واقف ہے۔( یعنی بدعات میں جو برائیاں اور کوتاہیاں ہیں، اللہ تعالیٰ اور حضور  صلی اللہ علیہ وسلم   انہیں پہلے سے جانتے تھے، اسی لیے ان کی برائی کو قرآن وسنت میں کھول کر بیان کر دیا گیا ہے، اب سمجھنے والے کو سمجھنا چاہیے کہ فلاں بدعت کے خلاف فلاں آیتِ قرآنی ہے، اور فلاں بدعت کی ضلالت آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی فلاں حدیث سے عیاں ہے)۔ 

نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کا راستہ ہی پسندیدہ راستہ ہے
 

اپنے لیے اسی راستے کو پسند کرو! جسے قوم (حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  اور ان کے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم ) نے اپنے لیے پسند کیا ہے، کیونکہ وہ (عظیم الشان) علم سے آگاہ ہو چکے تھے، اور کامل بصیرت کے ساتھ (بدعتوں اور مُحْدَثات) سے رُکے ہوئے تھے، وہ (بعد والوں سے زیادہ ) دینی احکامات کے اظہار کی قوت رکھتے تھے، اور اپنی فضیلت اور شرافت کی بناپر دین کے (فہم کے) زیادہ حق دار تھے، اگر وہ ہدایت ہے جس پر تم ہو، تو گویا تم ان سے بھی سبقت لے گئے (یعنی اگر تمہاری بدعت کو دین سمجھ لیا جائے، اور یہ گمان کیا جائے کہ سلف صالح تو اس سے واقف نہ تھے، نہ انہوں نے اس پر عمل کیا، تو گویا تم دین و تقویٰ کے اعتبار سے ان سے بڑھ کر ہو، اور تمہاری فضیلت ان سے زیادہ ہے، جبکہ یہ بات قرآن و سنت کے خلاف ہے کہ بعد کے لوگ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے فضیلت، اور دین داری میں آگے بڑھ جائیں)۔
 

سلف صالحین کی دینی تشریحات‘ امت کے لیے کافی ہیں 

سوال: اگر تم یہ کہتے ہو کہ جو چیزیں (بدعات )بعد میں پیدا ہوئیں، وہ تو انہی لوگوں نے پیدا کی ہیں جنہوں نے پہلوں کے راستے سے الگ راہ اختیار کی ہے، اور خود کو ان پر ترجیح دی (یعنی انہوں نے ایسی راہ اختیار کی ہے ،جس پر سلف صالحین کا گزر ہی نہیں ہوا، اسی وجہ سے ان مسائل میں ان کی اقتدا کرنا بھی لازم نہیں، کیوں کہ ان کا اتباع تب لازم ہوتا، جب راستہ ایک ہوتا،اور جب راہ الگ ہے، تو ان کی پیروی بھی واجب نہیں، لہٰذاان محدثات کو اپنانا قابلِ اعتراض نہیں ہونا چاہیے)۔
جواب: (یہ بات بالکل درست نہیں )کیوں کہ وہی(سلف صالحین اسلام میں) سبقت لینے والے ہیں، اور وہ اس دین میں ضرورت کی حد تک گفتگو کر چکے ہیں،اور (بعد میں آنے والوں کے لیے) قابلِ اطمینان معلومات فراہم کرچکے ہیں( یعنی دین کے حوالہ سے ان کے راستہ کے علاوہ دوسری راہ اختیار کرنا ہی غلط ہے)، ان کی احتیاط کے بعد دین میں کسی احتیاط (کمی ) کی گنجائش نہیں، اور ان کی تفصیلات سے اوپر کوئی تفصیل بیانِ محتاج نہیں، اور ایک قوم نے سلف صالحین سے زیادہ احتیاط کی تو وہ پستی میں جاپڑی، اور دوسروں نے ان سے زیادہ دین کی تشریح کرنی چاہی، تو وہ غلو میں مبتلا ہو گئے۔ اور وہ لوگ (دونوں راہوں یعنی افراط و تفریط ) کے درمیان سیدھی ہدایت پرتھے۔

تقدیر کا عقیدہ زمانۂ جاہلیت میں

آپ نے تقدیر کے اقرار کے متعلق پوچھا ہے!یقیناً (اللہ تعالیٰ کےحکم سے )آپ نےایک باخبر آدمی سے ہی سوال کیا ہے! لوگوں نے جتنی نئی باتیں گھڑی ہیں، اور جتنی بدعات کو فروغ دیا ہے، ان سب میں تقدیر کے اقرار سے زیادہ واضح، اورثابت شدہ حکم میرے علم میں نہیں ہے، تقدیر کا ذکر تو زمانۂ جاہلیت میں جہلاء (کے کلام) میں بھی پایا جاتاتھا، وہ اپنی گفتگو اور شعر و شاعری میں اس کے متعلق کلام کیا کرتے تھے، اسی کے ذریعہ فوت شدہ افراد واشیاء کے بارے میں خود کو تسلی دیتے تھے۔

عقیدہ ٔ تقدیر کی اسلام میں حیثیت
 

پھر اسلام نے آکر اس نظریہ کو مزید پختگی دی(کہ اس عقیدہ کو لازم قرار دیا) ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک دو سے زیادہ احادیث میں اس کا ذکر فرمایا ہے، صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے سنتے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی حیاتِ طیبہ میں اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے وصال کے بعد اس بارے میں آپس میں گفتگو کرتے تھے، (لیکن) اپنے رب پر یقین رکھتے ہوئے اور اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اور اس بات کو محال گردانتے ہوئے کہ (کائنات میں) کوئی چیز ایسی ہے کہ جس کا علم اللہ تعالیٰ کو نہ ہو، لوحِ محفوظ نے اسے محفوظ نہ کیا ہو، اور اس پر اللہ تعالیٰ کی تقدیر نہ چل سکتی ہو، ان تمام باتوں (جاہلیت کےشعراء کے کلام، حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث، اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے آثار) کے باوجود یہ مسئلہ تقدیر، اللہ تعالیٰ کی محکم کتاب (قرآن پاک ) میں موجود ہے، اسی سے انہوں نے لیا ہے، اور اسی کتاب سے یہ عقیدہ سیکھا ہے۔

سلف صالحین آیات ِ قرآنیہ کی صحیح تاویل و تفسیر کا علم رکھتے تھے

اور اگر تم یہ کہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے (اس بارے میں کوئی) آیت کیوں نازل فرمائی؟ اور یہ کیوں فرمایا؟ ( یعنی وہ آیات جن میں اسباب اختیار کرنے کا بیان ہے، وہ تو تقدیر کے منافی ہیں، تو جان لیجیے کہ) ان (صحابہ رضی اللہ عنہم،اور سلف صالحین رحمہم اللہ تعالیٰ) نے بھی ان آیات کو پڑھا ہے، جن کی تم تلاوت کرتے ہو، (لیکن) وہ اس کی (صحیح) تفسیر کا علم رکھتے تھے جس سے تم نا واقف ہو، ان تمام باتوں کے بعد بھی وہ تقدیر اور لوحِ محفوظ کتاب کے قائل رہے۔ 

تقدیر پر ایمان لانے کا خلاصہ

بد بختی و بدقسمتی لکھی جا چکی ہے، اور جو مقدر ہو چکا ، وہ ہو کر رہے گا ،اللہ تعالیٰ جو چاہتے ہیں وہ ہو کر رہتا ہے اور جو نہیں چاہتے وہ نہیں ہوتا، اور ہم اپنی ذات کے لیے کسی نقصان کے مالک ہیں، نہ نفع کے ،اس کے (ان چیزوں کا علم رکھنے کے) بعد بھی وہ (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین) نیک اعمال میں رغبت رکھتے تھے اور (برے اعمال سے) ڈرتے تھے۔‘‘

مذکورہ مکتوب سے حاصل شدہ فوائد

1- دین کی بنیاد چار چیزوں پر ہے:q-اللہ تعالیٰ سے ڈرنا۔w-اللہ تعالیٰ کے احکامات میں معتدل راہ اختیار کرنا۔e- سنت کی پیروی کرنا۔  رضی اللہ عنہما -بدعت سے بچتے رہنا۔
2- بدعت کے خلاف قرآن و سنت میں دلائل موجود ہیں۔
3- صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نے جس مسئلہ میں جو راہ اختیار کی، وہی سب سے بہترین راہ ہے۔
4- سنت کی پیروی میں پناہ اور حفاظت ہے۔
5-جس ذات نے شریعت مقرر کی ہے،وہ بدعت کی خرابیوں سے واقف تھی، اسی لیے اس نے اسے دین نہیں بنایا۔
6-اگر دین میں نئی چیز پیدا کرنا فضیلت کا کام ہوتا، تو صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  اپنے علم و فضل،اور مرتبہ کی وجہ سے اس کے زیادہ مستحق ہوتے۔
7-سلف صالحین نے دین کی جو تشریح بیان کی، وہی قابلِ اطمینان ہے۔
8-سلف صالحین سے زیادہ دین میں احتیاط برتنا ضلالت،اور ان سے زیادہ پر عمل کرناغلو ہے۔
9-دینی بات اہلِ علم اور اس فن کے ماہر ہی سے دریافت کرنی چاہیے۔
10- تقدیر کو ماننے کا نظریہ زمانۂ قدیم سے چلا آرہا ہے،عہدِ جاہلیت کے شعراء بھی یہی عقیدہ رکھتے تھے۔
11-تقدیر پر ایمان لانے کا فائدہ یہ ہے کہ گزری ہوئی چیز یا کسی کی جدائیگی کازیادہ افسوس نہیں ہوتا۔
12-تقدیر پر ایمان لانا دین کے اہم ترین فرائض میں سے ہے۔
13-دنیا میں کوئی کام ایسا نہیں ،جس کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس لوح محفوظ میں نہ ہو۔
14-کائنات کی کوئی چیز قدرتِ خداوندی سے باہر نہیں۔
15-تقدیر کا ذکر کتاب اللہ (قرآن مجید،فرقان حمید )میں موجود ہے۔
16-جن آیات میں اسباب اختیار کرنے کا حکم ہے ،وہ تقدیرپر ایمان لانے کے خلاف نہیں، یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام اور سلف صالحین ( رضی اللہ عنہم ) ان آیات کو پڑھتے اور سمجھتے تھے، پھر بھی تقدیر پر ایمان رکھتے تھے،اور اعمالِ صالحہ کو نجات کا ذریعہ گردانتے تھے۔

حواشی وحوالہ جات

۱- صحيح مسلم، کتاب القدر، باب حجاج آدم وموسی عليہما السلام، الرقم: ۲۶۵۳، ج:۲۰۴۴، دار إحياء التراث العربي، بيروت.
۲- سنن الترمذي، أبواب القدر عن رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم، باب ما جاء في التشديد في الخوض في القدر، رقم الحديث: ۲۱۳۳، دار الغرب الاسلامي، ۱۹۹۸ء. 
۳- الشريعۃ للآجرِّيِّ، باب ذکر ما تأدی إلينا عن أبي بکر وعمر رضي اللہ عنہما من ردہما علی القدريۃ، وإنکارہما عليہم، الرق:۴۲۲، ج:۲: ۸۴۴، دار الوطن، ط: الثانيۃ ۱۴۲۰ھ
۴-سنن ابن ماجۃ، باب في القدر، رقم الحديث:۸۴، ۱/۶۲، دار الرسالۃ العالميۃ، ط: الأولی، ۱۴۳۰ھ.
۵-صحيح ابن حبان، باب ذکر الأخبار عما يجب علی المرء من قلۃ الجد في طلب رزقہ بما لايحل، رقم الحديث:۳۲۳۸،:۸/۳۱، مؤسسۃ الرسالۃ بيروت، ط: الأولی ۱۴۰۸ھ۔
۶-أبو داود ،سليمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشير بن شداد بن عمرو الأزدي (المتوفی: ۲۷۵ھ)، سنن أبي داود، کتاب السنۃ، باب لزام السنۃ، رقم الحديث:۴۶۱۲، ۷/۲۴، دار الرسالۃ العالميۃ، الأولی، ۱۴۳۰ھ۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین