بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

مروَّجہ تکافل اور ایک مغالطہ!

مروَّجہ تکافل اور ایک مغالطہ!

 

 

الحمد للّٰہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علٰی سید المرسلین وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین ، أما بعد :

’’مروَّجہ تکافل کمپنی‘‘ کو جائز کہنے والے حضرات یوں تو تکافل اورمعیشت کے موجد ومجدد کہلاتے ہیں، حضرت ڈاکٹر عبدالواحد صاحب کے بقول اب تو تکافل کمپنیوں میں اتنی فقاہت آگئی ہے کہ وہ اپنے موجودہ بزرگوں سے بھی مستغنی ہوچکی ہیں، مگر کبھی کبھار مشکل حالات میں ’’توسل بآثار الصالحین‘‘ کا سہارا بھی لیا جاتا ہے اور یہ صراحت کہیں کہیں ملتی ہے کہ مروَّجہ تکافل کی بنیاد ’’وقف‘‘ پر قائم ہوگی۔ اس لیے کہ ’’مجلسِ تحقیقِ مسائلِ حاضرہ‘‘ کے اکابر حضرت مفتی محمد شفیع ؒ، محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ ،حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی ؒ اور حضرت مولانا سلیم اللہ خان w نے انشورنس کے متبادل کے طور پر وقف اور مضاربت کی بنیاد پر ادارے کے قیام کی تجویز دی تھی، چنانچہ دسمبر ۲۰۰۲ء کو ’’شرکات التکافل‘‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والی مجلسِ مشاورت کی روئیداد کے مؤقر مرتب ’’تکافل کی شرعی حیثیت‘‘نامی کتابچے میں تحریر فرماتے ہیں:

’’اس کے بعد متعدد اہل علم نے اپنی آراء بیان فرمائیں اور طویل بحث کے بعد مجلس نے یہ طے کیا کہ اس وقت اسلامی ممالک میں جو تکافل کمپنیاں اسلامی اُصولوں کے مطابق کام کررہی ہیں یا کام کرنا چاہتی ہیں، ان سب کی بنیاد ’’حملۃ الوثائق‘‘(پالیسی ہولڈرز یا بالفاظِ دیگر پریمیم قسط ادا کنندگان) کی طرف سے ’’تبرع‘‘ پر رکھی گئی ہے اور اس تبرع کی بنیاد پر وہ اپنے متوقع مالی خطرات کا ازالہ کرتے ہیں۔ مجلس نے محسوس کیا کہ وقف کے بغیر تبرع کی بنیاد پر تکافل کمپنیوں کے قیام میں متعدد اشکالات ہیں، لیکن مجلس کو خیال ہوا کہ اس مسئلہ میں مزید تحقیق کی ضرورت ہوگی ، اگر فی الحال ترجیحاً ان کمپنیوں کی بنیاد تبرع کے بجائے وقف پر رکھی جائے تو اس قسم کے اشکالات سے حفاظت ہوسکتی ہے۔

اس سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ ۱۳۸۴ھ میں ’’مجلسِ تحقیقِ مسائلِ حاضرہ‘‘ نے حضرت مولانا مفتی محمد شفیع، حضرت مولانا محمد یوسف بنوری، حضرت مولانا ولی حسن رحمہم اللہ اور دیگر اکابر کی سرپرستی میں بیمۂ زندگی کے متبادل کے طور پر جو نظام تجویز کیا تھا، اس کی بنیاد بھی وقف اور مضاربت پر رکھی تھی۔  (دیکھئے ’’بیمۂ زندگی‘‘ مؤلفہٗ: حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہٗ، ص:۲۵)

ان جلیل القدر اکابر کی تجویز کردہ بنیاد ’’وقف‘‘ پر اگر تکافل کمپنی قائم کی جائے تو نسبۃً اشکالات کم پیش آئیں گے، لہٰذا مجلس نے تبرع کے مقابلے میں وقف کی بنیادوں پر قائم ’’شرکۃ التکافل‘‘ کے قیام کی صورت کو ترجیح دی، جس میں اولاً مساہمین (شئیرہولڈرز یعنی تکافل کمپنی حصہ داران) اپنے طور پر اُصولِ ثابتہ (اموالِ غیرمنقولہ) یا نقول یا دونوں کو شرعی اصول وضوابط کے مطابق وقف کریں گے جنہیں محفوظ رکھا جائے گا اور ان کے لیے آخری جہت ’’قربت‘‘ یعنی فقراء اور مساکین پر تصدق ہوگی، پھر ’’حملۃ الوثائق‘‘ (پالیسی ہولڈرز) اس وقف میں جو رقوم دیں یا وقف کے جتنے منافع یا زوائد ہوں گے وہ سب وقف کے مملوک ہوں گے اور وقف کو وقف کے طے شدہ اُصول وضوابط کے مطابق ان مملوکات ومنافع میں تصرف کا مکمل اختیار ہوگا۔‘‘    (تکافل کی شرعی حیثیت، ص:۱۳۶،۱۳۷)

مروَّجہ تکافل کمپنیوں پر اشکالات کے جوابات کے ضمن میں درج بالا مضمون کو دوبارہ یوں ذکر فرمایا گیا ہے:

’’تکافل سے متعلق ذکر کردہ اشکالات کا جواب دینے سے پہلے یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ہمارے ہاں تکافل یعنی اسلامی انشورنس کا جو نظام رائج ہے، وہ تنہا حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم کی رائے پر قائم نہیں ہوا، بلکہ اس کا تصور آج سے اکتالیس سال پہلے ۱۳۸۴ھ میں پاکستان کے مستند علمائے کرام اور مفتیانِ عظام پر مشتمل مجلس ’’مجلسِ تحقیقِ مسائلِ حاضرہ ‘‘ نے پیش کیا۔ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہٗ کی کتاب ’’بیمۂ زندگی‘‘ میں اس کی تفصیل موجود ہے۔اس متبادل کے صحیح ہونے پر دارالعلوم کے علماء کے علاوہ حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ، حضرت مولانا مفتی محمد ولی حسن ٹونکیؒ، حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب مدظلہم کے تصدیقی دستخط بھی موجود ہیں ۔‘‘ (بیمۂ زندگی،ص:۲۷)

اس کے بعد آج سے چھ سال قبل دسمبر ۲۰۰۲ء میں جامعہ دارالعلوم کراچی میں پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش اور شام کے اہل علم اور اہل فتویٰ کا جو اجتماع ہوا، اس میں بھی اس متبادل کو جائز بلکہ بہتر قرار دیا گیا، نیز اس سے متعلق ابتدائی خاکے پر بھی اتفاق کیا گیا، اس کی وضاحت احقر نے اپنی کتاب ’’تکافل- انشورنس کا متبادل اسلامی طریقہ‘‘ کے اندر بھی کی ہے۔‘‘                                             (تکافل کی شرعی حیثیت، ص:۱۴۳، ۱۴۴)

درج بالا دونوں اقتباسات سے یہ تأثر مل رہا ہے کہ وقف پر مبنی مروَّجہ تکافل کے قیام، جواز، بلکہ بہتری واستحسان کو مذکورہ دونوں مجلسوں میں باقاعدہ طے کیا گیا تھا، اس بات کی پوری حقیقت جاننے کے لیے اور درج بالا حوالوںکے پسِ منظر کا اندازہ لگانے کے لیے بزرگوں کی تحریر وتجویز تو بعینہٖ نقل کی جائیں گی، جبکہ ۲۰۰۲ء والی مجلس کی روئیداد کے بارے میں سرِدست ضمناً گفتگو ہوگی اور اس کی تفصیل کسی مستقل نشست میں عرض کی جائے گی۔

بزرگوں کی ۱۹۶۴ء والی تحریروں کو بعینہٖ نقل کرنے سے قبل ان کے پسِ منظر سے ہم بات شروع کرتے ہیں، تاکہ انشورنس کی اسلام کاری اور انشورنس کے اسلامی متبادل کے درمیان حدِ امتیاز جاننے اور سمجھنے میں خلط وخبط سے بچا جاسکے۔ ان تحریروں کا باعث یہ تھا کہ ۱۹۶۴ء میں ’’مجلسِ تحقیقاتِ شرعیہ ندوۃ العلماء لکھنؤ‘‘ کی طرف سے مجلس کے کنوینر حضرت مولانا محمد اسحاق سندیلوی  رحمۃ اللہ علیہ   (۱)نے انشورنس سے متعلق ایک مفصل سوال نامہ بھیجا تھا۔ 

حضرت سندیلوی  رحمۃ اللہ علیہ   نے جو سوال نامہ بھیجا تھا، اس میں انشورنس کے تعارف، اغراض ومقاصد کے علاوہ عرب کے معاصر علماء کرام کی فقہی آراء اور ان کے دلائل بھی ذکر فرمائے تھے اور اس پر دیگر اہلِ علم کے علاوہ پاکستان کے اکابر حضرت مفتی اعظم مفتی محمد شفیع صاحب، محدثُ العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری اور حضرت مولانا مفتی محمد ولی حسن خان ٹونکی w سے استفتاء کیا گیا اور ان حضرات پر مشتمل ’’مجلسِ تحقیقِ مسائلِ حاضرہ‘‘ نے انشورنس کے جواز اور متبادل کے بارے میں مولانا سندیلوی  رحمۃ اللہ علیہ   کے سوال نامہ کا مفصل جواب تحریر فرمایا،جو ۱۳۸۹ھ میں ’’بیمۂ زندگی۔۔۔۔ مشتمل بر دو فتویٰ از مفتی محمد شفیع صاحب واز مفتی ولی حسن صاحب‘‘ کے نام سے شائع ہوا اور بعد میں حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ کے فقہی مقالات کے مجموعہ ’’جواہر الفقہ‘‘ کی اشاعتوں میں شامل چلا آرہا ہے اور متداول ہے۔ الغرض یہ جواب دو تحریروں پر مشتمل ہے، ایک تحریر حضرت مفتی اعظم مفتی محمد شفیع  رحمۃ اللہ علیہ   کی ہے، جو ’’جواہر الفقہ‘‘ کے صفحات کے حساب سے تقریباً ۱۳؍ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ جواب نہایت جامع، مختصر اور منقح ہے اور اُسے ابتدائی تجویز اور خاکہ فرمایا گیا ہے ۔

دوسرا جواب حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی  رحمۃ اللہ علیہ   کا تحریر فرمودہ ہے، جو تقریباً ۴۸؍ صفحات پر مشتمل ہے، یہ اپنے موضوع پر محیط ومفصل ہے۔ 

اس تحریری مجموعہ کے مطابق ہمارے اکابر کے جوابات میں ’’انشورنس‘‘ کے حرام ہونے کی 

 

حاشیہ(۱) حضرت سندیلوی صاحبؒ جو بعد میں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی سے وابستہ رہے اور اقتصاد ومعاش اور سیاسیات سے متعلق اہم تحریریں بھی لکھیں اور جامعہ کے شعبۂ تخصص فی الدعوۃ والارشاد کے مشرف ومسؤل بھی رہے، بڑے بڑے نامی گرامی علماء نے آپ سے اس دوران استفادہ بھی فرمایا تھا، جو آپ کی باقیات صالحات کے طور پر اب بھی بقیدِ حیات ہیں۔

وجوہ اور جائز کہنے والوں کے دلائل کا تجزیہ اوررَد بھی شامل ہے۔

انشورنس کو جائز کہنے والے حضرات کے دلائل کی بنیاد یہ تھی کہ انشورنس اِک ضرورت ہے، تعاون و امدادِ باہمی کی اِک شکل ہے۔ انشورنس عقدِ موالات کی طرح کسی نقصان کی تلافی کے لیے معاہدے کا دوسرا نام ہے، انشورنس کو تبرع واحسان کی اِک صورت قرار دیا جاسکتا ہے۔ انشورنس کی اسلام کاری یا فقہی حیثیت سے بحث کرنے والے معاصر علماء عرب میں مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی، استاذ ابوزہرہ مصری، استاذ حلاف، استاذ مصطفی الزرقائ، استاذ محمد علی عرفہ، ڈاکٹر سعد واصف وغیرہ کے اسماء گرامی نمایاں ہیں۔ ان حضرات میں سے استاذ ابوزہرہ انشورنس کو علی الاطلاق حرام کہتے تھے اور بقیہ حضرات جائز کہتے تھے۔ استاذ الزرقاء صرف غیرسودی ہونے کی شرط لگاتے تھے۔ ان علماء کرام کے موقف اور ان کے دلائل کا خلاصہ حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی  رحمۃ اللہ علیہ   کے الفاظ میں ملاحظہ ہو:

’’ ایک مختصر تعداد کا خیال ہے کہ ہر قسم کا بیمہ جائز ہے، یہ حضرات بیمہ کے موجودہ نظام کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی حلت اور جواز کے قائل ہیں۔ان حضرات کے دلائل کا خلاصہ یہ ہے:

الف:… بیمہ امدادِ باہمی کی ایک شکل ہے، تعاون اور امدادِ باہمی اسلامی حکم ہے۔

ب:…جس طرح بیع بالوفاء کو گوارا کرلیا، اسی طرح اس کو بھی گوارا کرلیا جائے۔

ج:… بیمہ کمپنی ضرورت مندوں کو جوقرض دیتی ہے اور اس پر جو سود لگاتی ہے یا بیمہ دار کو اصل مع منافع دیا جاتا ہے وہ شرعی رِبا (سود) نہیں ہے۔

دوسرا گروہ: جس کی قیادت استاذ الزرقاء کے ہاتھ میں ہے، اس کا خیال ہے کہ غیر سودی بیمہ جائز ہے، بیمہ میں اگر قباحت ہے تو وہ سود ہے، اس کو ختم کرنے کے بعد بیمہ کی ہمہ اقسام جائز ہیں۔ ان حضرات کے دلائل کا تجزیہ اس طرح کیا جاسکتا ہے:

الف:… عقدِ موالاۃ پر قیاس کہ اس میں ایک غیرشخص دیت وغیرہ کی ذمہ داری قبول کرلیتا ہے اور اس کے معاوضہ میں میراث کا حصہ دار ہوجاتا ہے، اسی طرح بیمہ کو بھی سمجھ لیا جائے۔

ب:… ’’ودیعۃ بأجر‘‘ اور مسئلہ ’’ضمان خطر الطریق‘‘ میں بیمہ کی بعض صورتوں کو داخل کیا جاسکتا ہے۔

ج:… مالکیہ کے نزدیک اگر کوئی شخص کسی سے وعدہ کرے بدون کسی عقد کے، تو وہ وعدہ لازم ہوجاتا ہے اور نقصان کی صورت میں وعدہ کرنے پر معاوضۂ نقصان ضروری ہوتا ہے۔

تیسرا گروہ: جس کی قیادت استاذ ابوزہرہ کے ہاتھ میں ہے، اس کا قائل ہے کہ بیمہ مطلقاً ناجائز ہے، خلاصۂ دلائل یہ ہے:

۱:… بیمہ اپنی اصل وضع میں یا تو قمار ہے، جب کہ مدتِ مقررہ کے اختتام کے قبل ہی بیمہ دار کی موت واقع ہوجائے یا رِبا ہے ، جب کہ کل اقساط کی ادائیگی کے بعد بیمہ دار بیمہ شدہ رقم مع منافع حاصل کرے، قمار اور رِبا دونوں حرام ہیں۔ 

۲:… بیمہ میں ’’صفقتان فی صفقۃ‘‘ پایا جاتا ہے، اس کی مخالفت نصِ حدیث سے ثابت ہے اور اس کی ممانعت پر ائمہ اربعہ کا اتفاق واجماع ہے۔

۳:… بیمہ سے نظامِ میراث درہم برہم ہوجاتا ہے، کیونکہ بیمہ دار کے نامزد کردہ شخص کو بیمہ کی رقم دی جاتی ہے، جب کہ ہر شرعی وارث مالِ متروکہ کا حق دار ہے۔

۴:… عقدِ صرف ، جس میں مجلس میں قبضہ ضروری ہوتا ہے اور یہاں یہ شرط مفقود ہے۔

۵:… عقیدۂ تقدیر پر ایمان کا تقاضا ہے کہ پیش آنے والے حوادث اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیئے جائیں اور یہاں بیمہ کرانے والے اس عقیدہ سے فرار کرتے ہیں، کیونکہ وہ پہلے سے حوادث وموت کی پیش بندیاں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔‘‘

                                (جواہر الفقہ، ج: ۴، ص: ۴۸۶تا۴۸۸، طبع: مکتبہ دارالعلوم، کراچی)

انشورنس کی اسلام کاری کے اس انداز، استدلال اور طرزِ استدلال کے بارے میں اکابر کے نظریات وخیالات کو بھی ذرا دیکھتے جائیے! تاکہ مروَّجہ تکافل کا استدلالی منہج اور استنادی رُخ سمجھنے میں آسانی ہو، چنانچہ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب  رحمۃ اللہ علیہ   کا ارشاد ہے:

’’ بعض تجدد پسند علماء عصر نے جو اس (انشورنس)کو امدادِ باہمی کا معاہدہ قرار دے کر مولیٰ الموالات کے احکام پر قیاس فرمایا اور عقدِ موالات کی طرح اس کو بھی جائز قرار دیا ہے، وہ بالکل قیاس مع الفارق ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’درحقیقت مروَّجہ بیمہ کو امدادِ باہمی کہنا اِک دھوکہ ہے اور بیمہ اور سٹہ سے سودی کاروبار پر آنے والی نحوست کو پوری قوم کے سرپر ڈالنے کا ایک خوبصورت حیلہ ہے۔‘‘ 

                                       (جواہر الفقہ، ج: ۴، ص: ۴۷۱، طبع: مکتبہ دارالعلوم، کراچی)

’’ان علماء کا کردار بھی قابلِ مذمت ہے جو یورپ کے ماہر اقتصادی نظام کی چند خوبیاں یا خوشنما پہلؤوں کو دیکھ کر جواز اور حلت کا فتویٰ دینے میں جری ہیں۔‘‘

                                       (جواہر الفقہ، ج: ۴، ص: ۴۹۱، طبع: مکتبہ دارالعلوم، کراچی)

بیمہ کی اسلام کاری سے متعلق اکابر کے اس بنیادی نظریہ وفکر کو ملحوظ رکھنے کے بعد بیمہ سے متعلق سوالات کے جوابات جس نظریئے پر قائم تھے، وہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے، چنانچہ جوابات شروع کرتے ہوئے حضرت مفتی اعظم مفتی محمد شفیع  ؒ نے اس سوچ وفکر کے ساتھ جواب کا آغازفرمایا تھا:

’’الجواب:۔۔۔۔۔۔۔ ظاہر ہے کہ محض نام بدل دینے سے کسی معاملہ کی حقیقت نہیں بدلتی۔‘‘ 

                                       (جواہر الفقہ، ج: ۴، ص: ۴۶۷، طبع: مکتبہ دارالعلوم، کراچی)

حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی  ؒ لکھتے ہیں:

’’شریعت میں حقیقت کا اعتبار ہوتا ہے، ’’تسمیہ‘‘ (نام رکھ لینے) کا نہیں۔‘‘  (۱)

                                      (جواہر الفقہ، ج: ۴، ص: ۵۱۳، طبع: مکتبہ دارالعلوم، کراچی)

اپنے اکابر کے جوابات اور انشورنس کے متبادل کے لیے ان کے نظریات جاننے کے بعد اب اَکابر کی جوابی تحریر اور اُن کی طرف سے وقف پر مبنی مجوزہ متبادل کی بابت خود اکابر کی اپنی رائے کو بھی ذرا دیکھ لیاجائے، تاکہ یہ سمجھنا آسان ہوسکے کہ اکابر کے ہاں مجوزہ متبادل نظام کی حیثیت خود اَکابر کی نگاہ میں کیا تھی؟ اور شروع میں ذکرکردہ اقتباسات سے جو تأثر مل رہا ہے، اس کی حیثیت وحقیقت کیا ہے؟ تاکہ ہم اکابر کی رائے کے بارے میں خود اُن کا ’’حتمی موقف‘‘ یا ’’غیر حتمی تجویز‘‘ ہونے کافیصلہ کرنے میں کسی اِبہام اور غلط فہمی سے محفوظ رہ سکیں، چنانچہ بزرگوں کی تحریر کے درجۂ استناد کے بارے میں حضرت مفتی محمد شفیع  رحمۃ اللہ علیہ   کاارشاد ملاحظہ ہو:

’’دوسرے: بیمہ کی دوسری اقسام کو جمع کرنے اور اس کے مکمل احکام بیان کرنے کا داعیہ بھی تھا، جس کے نتیجہ میں آج تک یہ اِرادہ ‘ اِرادہ ہی رہا، عملی صورت اختیار نہ کرسکا، پھر مشاغل وذَواہل نے فرصت نہ دی اور روزبروز قویٰ کے انحطاط اور ضعف نے ارادہ کو بھی اسی نسبت سے ضعیف کردیا۔ جناب کے مرسلہ سوال نامہ نے معاملہ کی نوعیت کو پوری طرح واشگاف بیان کردیا اور اس کی تمام اقسام کو بھی واضح انداز میں ذکر کرکے کچھ لکھنے کی ہمت پیدا کردی، خصوصاً اس لیے کہ اب یہ میرا جواب کوئی آخری فیصلہ نہیں، دوسرے علماء کے سامنے پیش ہوکر اس کی اصلاح بھی ہوسکے گی۔‘‘            (جواہر الفقہ، ج: ۴، ص: ۴۶۷، طبع: مکتبہ دارالعلوم، کراچی)

حضرت مفتی اعظم  رحمۃ اللہ علیہ   کے اس ارشاد کی روشنی میں دو باتیں قابل توجہ ہیں:

۱:… بزرگوں نے اپنی اس تحقیقی کاوش کو حتمی فتاویٰ اور رائے قرار نہیں دیا تھا، بلکہ اسے اصلاح وترمیم کی ضرورت وگنجائش کے ساتھ علماء کے مزید غوروخوض کے لیے پیش فرمایا تھا۔ اس مجوزہ نظام کے بارے میں اسی لچک دار موقف کی بنیاد پر بزرگوں نے اظہارِ خیال کی ہمت فرمائی تھی، انہیں اپنی رائے پر جزم تھا، نہ دوسروں کی آراء سے مستغنی تھے، جیسا کہ حضرت مفتی اعظم  رحمۃ اللہ علیہ   کے ارشاد میں واشگاف ہے۔

۲:…سوبزرگوں کی ایسی تحریرات جو انہوں نے حتم وجزم کی نفی اور فتویٰ وفیصلہ کا درجہ دیئے بغیر نقل فرمائی ہوں، اُنہیں ان بزرگوں کا ’’حتمی فیصلہ‘‘ اور ’’واضح فتویٰ‘‘ ہونے کا تأثر دے کر مجمل الفاظ 

 

حاشیہ(۱) ’’شریعت کا مشہور قاعدہ ہے کہ ’’إنما العبرۃ فی العقود للمعانی لاللألفاظ‘‘ یعنی کسی معاملہ کی حقیقت کا اعتبار ہوگا اور اس کے لحاظ سے شرعی احکام جاری ہوں گے، نام رکھنے سے کچھ نہیں ہوگا، رِبا کا نام اگر منافع رکھ دیا جائے تو اس سے وہ حلال نہیں ہوگا، بنی اسرائیل پر جب چربی حرام ہوگئی تھی تو انہوں نے اس کا دوسرا نام رکھ دیا تھا اور کھانا شروع کردیا تھا۔‘‘ 

                                                                    (جواہر الفقہ، ج: ۴، ص: ۵۱۳، طبع: مکتبہ دارالعلوم، کراچی)

میں نقل کرنا ہمارے خیال میں نقل وحکایت کے آداب سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اور اگر ایسی غیرواضح، غیرحتمی آراء پر کسی نظام کی بنیاد رکھ کر اُسے رواج دیا جائے اور اس کی باقاعدہ دعوت دی جائے تو اُسے ہر حال میں انشورنس کے جواز کا ’’دیرینہ جذبہ‘‘ اور اس کی ’’خفیہ تدبیر‘‘ یا ’’خوبصورت حیلہ‘‘ کہنے میں حرج محسوس نہیں ہوتا،بلکہ یہ طرزِ عمل ‘ ان علماء عرب کے طرزِ استدلال سے ہم رنگ معلوم ہوتا ہے جو ہرحال میں انشورنس کی اسلام کاری کی وجہ سے ہمارے اکابر کی درج بالا نکیر کا مورد ٹھہرے تھے۔

اس تفصیل کی روشنی میں اب بزرگوں کی ان تحریرات کی طرف آتے ہیں جو انہوںنے انشورنس کے صحیح متبادل اور جائز حل کے طور پر پیش فرمائی تھیں، اور مؤقر اہل علم کی طرف سے ان کا حوالہ دیا جاتا ہے، اور اہلِ علم فیصلہ فرمائیں کہ مجوزہ تکافلی نظام‘ علماء عرب کی جوازی سرگرمیوں سے کتنا دور اور اکابر کے نظریات سے کتنا قریب ہے۔ مروَّجہ تکافل کی بابت ہمارا استدلال وطرزِ استدلال اپنے اکابر کی اقتداء میں جاتا ہے یا ان کی درج بالا ’’نکیر‘‘کی زَد میں آتا ہے؟ چنانچہ مروَّجہ انشورنس کے صحیح متبادل کی نشان دَہی کی تجویز اور ابتدائی خاکہ پیش کرتے ہوئے حضرت مفتی محمد شفیع  رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں:

’’مروَّجہ بیمہ کا صحیح بدل

۱:… بیمہ پالیسی کی حاصل شدہ رقوم کو مضاربت کے شرعی اُصولوں کے مطابق تجارت پر لگایا جائے اور معینہ سود کے بجائے تجارتی کمپنیوں کی طرح تجارتی نفع تقسیم کیا جائے۔ نقصان سے بچنے کے لیے لمیٹڈ کمپنیوں کی طرح اس کی نگرانی پوری کی جائے اور پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کیا جائے۔ سودخوری کی خودغرضانہ اور غیرمنصفانہ عادت کو گناہِ عظیم سمجھاجائے کہ دوسرے شریک کا چاہے سارا سرمایہ ضائع ہوجائے، ہمیں اپنا رأس المال مع نفع کے اس سے وصول کرنا ضروری ہے۔ یہی وہ منحوس چیز ہے جس کے سبب نصِ قرآنی کے مطابق سود کا مال اگرچہ گنتی میں بڑھتا ہوا نظرآئے، مگر معاشی فوائد کے اعتبار سے وہ گھٹ جاتا ہے اور انجام کار تباہی لاتا ہے اور یہ گنتی کا فائدہ بھی پوری قوم سے سمٹ کر چند افراد یا خاندانوں میں محصور ہوجاتا ہے، ان کے علاوہ پوری قوم مفلس سے مفلس تر ہوتی چلی جاتی ہے۔

۲:…بیمہ کے کاروبار کو امدادِ باہمی کا کاروبار بنانے کے لیے بیمہ پالیسی خریدنے والے اپنی رضامندی سے اس معاہدہ کے پابند ہوں کہ اس کاروبار کے منافع کا ایک معتدبہ حصہ نصف یا تہائی، چوتھائی ایک ریزروفنڈ کی صورت میں محفوظ رکھ کر وقف کریں گے، جو حوادث میں مبتلا ہونے والے افراد کی امداد پر خاص اصول وقواعد کے ماتحت خرچ کیا جائے گا۔

۳:…بصورتِ حوادث یہ امداد صرف ان حضرات کے ساتھ مخصوص ہوگی جو اس معاہدہ کے پابند اور اس کمپنی کے حصہ دار ہیں۔ اوقاف میں ایسی تخصیصات میں کوئی مضائقہ نہیں، وقف علیٰ الاولاد اس کی نظیر موجود ہے۔

۴:…اصل رقم مع تجارتی نفع کے ہر فرد کو پوری پوری ملے گی اور وہی اس کی ملک اور حقیقت سمجھی جائے گی ۔ امدادِ باہمی کا ریزروفنڈ وقف ہوگا جس کا فائدہ وقوعِ حادثہ کی صورت میں اس وقف کرنے والے کو بھی پہنچے گا اور اپنے وقف سے خود فائدہ اِٹھانا اُصولِ وقف کے منافی نہیں، جیسے کوئی رفاہِ عام کے لیے ہسپتال وقف کرے، پھر بوقتِ ضرورت اس سے خود بھی فائدہ اُٹھائے، یا قبرستان وقف کرے ، پھر خود اس کی اور اس کے اقرباء کی قبریں بھی اس میں بنائی جائیں۔

۵:… حوادث پر امداد کے لیے مناسب قوانین بنائے جائیں، جو صورتیں عام طور پر حوادث کہی اور سمجھی جاتی ہیں ان میں پسماندگان کی امداد کے لیے معتدبہ رقم مقرر کی جائے اور جو صورتیں عادۃً حوادث میں داخل نہیں سمجھی جاتیں، جیسے کسی بیماری کے ذریعہ موت واقع ہوجانا، اس کے لیے یہ کیا جاسکتا ہے کہ متوسط تندرستی والے افراد کے لیے ساٹھ سال کو عمر طبعی قراردے کر اس سے پہلے موت واقع ہوجانے کی صورت میں بھی کچھ مختصر امداد دی جائے، متوسط تندرستی کو جانچنے کے لیے جو طریقہ ڈاکٹری معائنہ کا بیمہ کمپنی میں جاری ہے وہ استعمال کیا جاسکتا ہے، بیمار یا ضعیف آدمی کے لیے اسی پیمانہ سے عمرِ طبعی کا ایک انداز مقرر کیا جاسکتا ہے۔

۶:… چند قسطیں ادا کرنے کے بعد سلسلہ بند کردینے کی صورت میں دی ہوئی رقم کو ضبط کرلینا ظلم صریح اور حرام ہے، اس سے اجتناب کیا جائے۔ ہاں! کمپنی کو ایسے غیرمحتاط لوگوں کے ضرر سے بچانے کے لیے معاہدہ کی ایک شرط یہ رکھی جاسکتی ہے کہ کوئی شخص حصہ دار بننے کے بعد اپنا حصہ واپس لینا چاہے، یعنی شرکت کو ختم کرنا چاہے تو پانچ یا سات یا دس سال سے پہلے رقم واپس نہ کی جائے گی اور ایسے شخص کے لیے تجارتی نفع کی شرح بھی بہت کم رکھی جاسکتی ہے، بلکہ یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ کل معہودہ رقم کے نصف ہونے تک کوئی نفع نہیں دیا جائے گا، نصف کے بعد ایک خاص شرح نفع کی متعین کردی جائے، مثلاً روپیہ میں ایک آنہ، دوآنہ، یہ سب امور منتظمہ کمیٹی کی صوابدید سے طے ہوسکتے ہیں، ان کا اثر معاملہ کے جواز وعدمِ جواز پر نہیں پڑتا۔

یہ ایک سرسری مختصر اِجمالی خاکہ ہے، اگر کوئی جماعت اس کام کے لیے تیار ہو تو اس پر مزید غوروفکر کرکے زیادہ سے نافع بنانے اور نقصانات اور نقصانات سے محفوظ رکھنے کی تدبیریں سونپی جاسکتی ہیں اور سال دو سال تجربہ کرکے ان میں بھی شرعی قواعد کے ماتحت تغیر وتبدل کیا جاسکتا ہے۔

بینکنگ اور بیمہ کا موجودہ نظام بھی تو کوئی ایک سال میں قابلِ عمل نہیں ہوا، ایک صدی سے زیادہ اس میں غوروفکر اور تجربات کی بناپر رد وبدل کرنے کے بعد اس شکل میں آیا ہے جس پر اطمینان کیا جاسکتا ہے، اگر صحیح جذبہ کے ساتھ اس کا تجربہ کیا جائے اور تجربات کے ساتھ شرعی قواعد کے ماتحت اصلاحات کا سلسلہ جاری رہے تو یقینا چند سال میں بلاسود کی بینکاری اور بیمہ وغیرہ کا نظام شرعی اُصول پر پورے استحکام کے ساتھ بروئے کار آسکتا ہے۔

نظامِ مضاربت کے تحت بینکاری کا ایک لازمی اثر یہ بھی ہوگا کہ ملک کی دولت سمٹ کر چند افراد یا خاندانوں میں محصور ہوکر نہیں رہ جائے گی، بلکہ تجارتی نفع کی شرح سے پوری قوم کو معتدبہٖ فائدہ حاصل ہوگا، اس وقت صرف اس اجمالی خاکہ ہی پر اکتفا کیاجاتا ہے، واللّٰہ المستعان وعلیہ التُکلان۔    (جواہر الفقہ، ج: ۴، ص: ۴۷۵تا۴۷۷، طبع: مکتبہ دارالعلوم، کراچی)

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت مفتی اعظم  رحمۃ اللہ علیہ   کے ارشاد کے نتائج بمع تبصرہ

۱:… بیمہ کا صحیح متبادل سود کی بجائے شرعی تجارت ہے، حقیقی کاروبار اور حقیقی نفع اور اس نفع کا مخصوص حصہ وقف برائے تلافی نقصانات ہو۔ ’’ریزروفنڈ‘‘ میں جمع کی جانے والی رقم کے علاوہ بقیہ نفع بیمہ دار کو ملتا رہے۔

۲:…بیمہ کے کاروبار کو امدادِ باہمی بنانے کے لیے معتد بہ حصہ معاہدہ کے تحت ریزروفنڈ کی صورت میں محفوظ کرکے وقف کریں، جو متأثرہ افراد کی خاص اصولوں کے تحت مدد کرے، یہ امداد مخصوص افراد کے لیے ہوگی، اس میں مضائقہ نہیں۔وقف علیٰ الاولاد اس کی نظیر ہے۔ 

یہ دونوں باتیں مجوزین کے دعویٰ کے حق میں بظاہر صریح معلوم ہوتی ہیں، البتہ یہ فرق فراموش نہ رہے کہ یہاں حقیقی تجارتی کمپنی کے حقیقی نفع کا مختص حصہ ریزروفنڈ بن کر وقف قرار پاتا ہے، جبکہ مجوزین کے ہاں کمپنیوں کے بانی حضرات کے ابتدائی سرمایہ کے کچھ حصوں کو وقف قرار دیا جاتا ہے اور تکافل پالیسی لینے والوں کی قسط وار رقم کو چندہ برائے وقف کے نام پر ’’وقف‘‘ کی ملکیت قرار دیا جاتا ہے اور سرمایہ کاری کی بنیاد یہی چندہ ہوتا ہے، بہرحال ان پر تبصرہ اگلے صفحات میں تکرار کی ناگواری کے ساتھ عرض کریں گے۔ 

۳:…متوسط تندرستی کو جانچنے کا ڈاکٹری طریقہ استعمال ہوسکتا ہے جو تخمینی ہے۔ پھر بیمار وغیرہ کے لیے عمرِ طبعی کا اندازہ مقرر کرنا روایتی لائف انشورنس سے ممتاز ہونے کے لیے کافی محنت مانگتا ہے، اس کی تخریج کی طرف اشارہ بھی نہیں فرمایا گیا۔

۴:…نمبر :۶ کے تحت پوری خط کشیدہ عبارت قابلِ غور ہے۔ حصہ داری اگر شرکت ہے تو شرکاء جب چاہیں شرکت ختم ہوسکتی ہے، جیسا کہ نمبر:۴ کے شروع میں لکھا ہے کہ اصل رقم مع نفع ہر فرد کو پوری ملے گی اور نمبر:۶ کے ابتدائی حصہ میں لکھا گیا ہے کہ رقم کو ضبط کرنا ظلم ہے، تو ’’حبس‘‘کرنا بھی ظلم ہی ہوگا، پھر پانچ سات سال سے پہلے رقم واپس نہ کرنا، تجارتی نفع کی شرح بہت کم رکھنا، بلکہ معہودہ رقم کے نصف ہونے تک نفع نہ دینا، یہ قیودات‘ بظاہر حضرات اہلِ علم کے غور کے لیے بیان فرمائی گئی تھیں اور ان میں کافی غور کی گنجائش ہے، مثلاً پانچ یا سات سال تک رقم واپس نہ کرنا، مالک کی اجازت کے بغیر وکالت بنتی ہے یا نہیں؟ اس صورت میں بیع وتجارت میں ’’تراضی‘‘ کا لحاظ رہے گا یا نہیں؟ مزید یہ کہ ایسے مالک کی رقم دیگر شرکاء کے ساتھ برابر تجارت میں زیر استعمال رہی تو پھر اس کو نفع میں کم حصہ دینا، اس کی جلد بازی کی مالی سزا کے زُمرے میں آسکتا ہے یا نہیں؟ حضرت مفتی اعظم کی مذکورہ تجویز میں ان کی اجازت سے یہ پہلو اہلِ علم کے غور کے تاحال مستحق ومحتاج ہیں۔

۵:… مذکورہ تحریر کے بارے میں حضرت مفتی صاحب  رحمۃ اللہ علیہ   کا اپنا ارشاد ہے جس پر دیگر بزرگوں کے توثیقی دستخط بھی ہیں کہ یہ تحریر ’’اجمالی خاکہ ہے‘‘، ’’یہ اجمالی خاکہ پر اکتفاء ہے‘‘۔اس میں کمال کے رنگ بھرنے کے لیے ایک جماعت تیار ہو وہ غوروفکر کرکے زیادہ نافع بنانے ، نقصانات سے محفوظ رکھنے کی تدبیریں کرے۔ ہمارے علم کے مطابق بزرگوں کی اس تجویز پر ان کے حسب منشأ اس پائے کی کوئی ایسی جماعتِ علماء سامنے نہیں آسکی، جس نے یہ غور کیا ہو، اس لیے وقف پر مبنی متبادل نظام کی بابت بزرگوں کی مذکورہ تجاویز‘ معمول بہٖ اور مفتیٰ بہ رائے کے درجہ تک نہیں پہنچ سکیں۔ان کی تجاویز کو جتنے جزم کے ساتھ اُن کا طے شدہ حتمی موقف بتایا گیا ہے، وہ علم وبیان کے بنیادی تقاضوں سے خالی محسوس ہورہا ہے۔

۶:…بزرگوں کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ انشورنس کا متبادل مضاربت پر مبنی ’’تجارتی انجمن‘‘ ہوسکتی ہے، جس کے منافع میں سے مخصوص حصہ حوادث کے لیے مختص کیاجائے اور اس کے اسلامی ہونے کی نشانی یہ ہوگی کہ سرمایہ کا بھاؤ اور نفع چند افراد میں محصور نہ ہو، یعنی مجوزہ متبادل میں ایسا نظامِ مضاربت اپنایا جانا چاہیے جو دولت کو چند افراد اور خاندانوں میں محصور ہونے سے بچائے، نفع سے پوری قوم کو معتد بہ فائدہ حاصل ہو۔ ہمارے مجوزہ نظامِ تکافل میں جو مضاربت شو کی جاتی ہے، کیا اس میں اس شرط کا کوئی معمولی عنصر بھی سونگھنے کے لیے ملتا ہے؟ نیز یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اس قسم کا مضاربہ سسٹم حضرت مفتی اعظم  رحمۃ اللہ علیہ   کی تجویز نمبر:۲ اور نمبر:۳ سے کیسے ہم آہنگ ہوگا؟! یقینا اہلِ علم جب حضرت کے ارشاد کی تعمیل میں اجمالی خاکہ سے تفصیل کی طرف جائیں گے، تو جب ہی یہ تشنگی دور فرماسکیں گے۔

۷:…حضرت مفتی اعظم  رحمۃ اللہ علیہ   کی تحریرمیں تجویز نمبر:۲ اور نمبر:۳مجوزین کے موقف کی بنیاد بننے میں بظاہر صریح ہیں، اس حد تک ان کا دعویٰ صحیح ہے کہ بیمہ کے متبادل کے لیے بیمہ پالیسی خریدنے والے اپنی رضامندی سے کاروبار کے منافع کا ایک معتدبہ حصہ ریزروفنڈ کے لیے مخصوص کرکے وقف کریں، جو حوادث کی صورت میں مخصوص شرائط کے تحت مخصوص لوگوں کے نقصان کی تلافی کرے، مگر اس مجمل دعویٰ کی صحت‘ شروع میں ذکر کردہ بنیادی فرق پر مستزاد درج ذیل تفصیل کے بغیر بیان کرنا مناسب نہیں ہے:

۱:- اس دعویٰ کو صرف حضرت مفتی صاحبؒ کی تحقیق کہہ کر بیان کیا جانا چاہیے تھا، اُسے پوری مجلس کی تحقیق وفیصلہ کہنا درست نہیں تھا، دیگر تمام بزرگوں کے دستخط محض تائیدی دستخطوں کے طور پر بتائے جاتے اور یہ کہ دیگر بزرگوں کی تائید کا تعلق مذکورہ تجویز کے ’’اجمالی خاکہ‘‘ اور قابلِ غور پہلو سے بتانا چاہیے تھا، نہ کہ’’ طے شدہ فیصلہ‘‘ سے، جیسے مجوزین فرمارہے ہیں۔

۲:- وقف پر مبنی متبادل نظام کی جو پوزیشن خود مفتی صاحب کے الفاظ میں بیان کی گئی تھی، اسے محض تجویز کہنا چاہیے تھا، ’’حتمی فیصلہ، فتویٰ اور رائے‘‘ کا تأثر نہیں دینا چاہیے تھا، بلکہ اہلِ علم کے غوروفکر کی احتیاج ظاہر کرنا تھا جو کہ مجوزین کے اجمالی بیان میں دستیاب نہیں ہے ۔ 

۳:-حضرت مفتی صاحبؒ کی جو رائے محض ابتدائی واجمالی خاکہ تھا اُسے اہلِ علم کے غور کے لیے پیش فرمایا تھا، اس پر حسبِ منشأ کام ہوسکا یا نہیں؟ اس کی کوئی پکی سچی اطلاع تاحال سامنے نہیں آئی، آئندہ جب اہلِ علم ‘ حضرت کے ارشاد کی تعمیل فرمائیں گے تو ان کا غوروفکر کس نتیجہ پر پہنچے گا؟ یہ قبل از وقت بات ہے، البتہ حضرت مفتی اعظم  رحمۃ اللہ علیہ   کے اپنے شرکاء مجلسِ اکابر کی بعض تحریرات وتصریحات سے یوں محسوس ومترشح ہوتا ہے کہ ان اکابر کو حضرت مفتی صاحبؒ کی رائے کے مطابق مضاربہ سسٹم کے تحت تجارتی نفع کے ریزروفنڈ کے وقف پر مبنی نظام سے بظاہر ایسا اتفاق نہیں تھا جس کا تأثر عام کیا جاتا ہے، بلکہ ان کے اتفاق اور تصویب کا تعلق محض قابلِ غور تجویز کی حد تک سمجھا جاسکتا ہے، کیونکہ ’’مجلسِ تحقیقِ مسائلِ حاضرہ‘‘ کے دوسرے بڑے رکن حضرت مفتی ولی حسن  رحمۃ اللہ علیہ   نے بیمہ کا جو مفصل متبادل پیش فرمایا ہے، وہ حضرت مفتی محمد شفیع  رحمۃ اللہ علیہ   کی مذکورہ بالا تجویز سے کافی حد تک الگ تھلگ محسوس ہورہا ہے، جسے اگلے صفحات میں نقل کیا جارہا ہے، جس کے نظر گزار ہونے سے اندازہ ہوگا کہ مجوزین کی بیان کردہ تفصیل کی روشنی میں حضرت مفتی ولی حسن  رحمۃ اللہ علیہ   بیمہ کے متبادل کے بارے میں حضرت مفتی اعظم  رحمۃ اللہ علیہ   کی تجویز اور ابتدائی خاکے سے بظاہر جداگانہ رائے رکھتے تھے۔ اسی طرح شیخ المشائخ حضرت مولانا سلیم اللہ خان  رحمۃ اللہ علیہ   کا نام بھی ذکر فرمایا گیا ہے، جو اکابر والی ’’مجلسِ تحقیقِ مسائلِ حاضرہ‘‘ کے رکن تھے اور وقف ومضاربہ پر مبنی تکافل کی بنیادی مجلس میں شریک تھے، اُنہیں حضرت مفتی اعظم ؒ کی ’’وقف پر مبنی تکافل‘‘ والی تجویز کے حتمی رائے ہونے اور طے شدہ نظام ہونے پر متفق بتانا اس وقت درست ہوتا جب شروع تا آخر علانیہ اس رائے سے متفق رہے ہوتے یا کم از کم خاموش رہے ہوتے، تو بھی ان کا نام مروَّجہ تکافلی نظام کی تائید میں ذکر کرنا درست ہوتا، مگر انہوںنے ۲۰۰۸ء میں ہمارے مجوزین حضرات کے معاشی نظریات سے برملا اختلاف فرمایا تھا اور اسلامک بینکنگ وغیرہ کے بارے میں نہ صرف یہ کہ برملا عدمِ جواز کا موقف اختیار کیا، بلکہ اس موقف کے سرخیل بھی وہی تھے اور ان کی نگرانی میں ان کے ادارے سے مجوزہ تکافل نظام پر بھی رد لکھا گیا۔ اگر وہ ہمارے مجوزین کی طرح حضرت مفتی اعظم  رحمۃ اللہ علیہ   کی تجویز کو حتمی رائے کے طورپر مان رہے ہوتے اور مجوزہ نظام کو اسی بنیاد پر قائم سمجھ رہے ہوتے تو تکافلی نظام کے بارے میں ان کا یہ تردیدی و تنقیدی انداز ہرگز نہ ہوتا، بلکہ مروَّجہ تکافل کی بابت ان کا طرزِ عمل‘ صراحت ہے اس بات پر کہ حضرت شیخ   ؒنے مفتی صاحبؒ کے حسبِ منشأ غور کرکے ان کی تجویز اور خاکہ سے عدمِ اتفاق فرمایاتھا، اس کے باوجود اُنہیں مؤید ظاہر کرنا یہ معیار بنتا ہے دیگر تائیدی دستخطوں کے لیے، واللہ اعلم

۸:… مروَّجہ تکافل کمپنی میں اصل وقف کمپنی بنانے والے حضرات کی ابتدائی رقم شمار ہوتی ہے، بقیہ لوگوں کا چندہ اس وقف کی ملکیت شمار کرکے کاروبار میں لگایاجاتا ہے، پھر اس وقف سے حسبِ شرائط وقواعد مستفید ہونے والے اپنے نقصانات کی تلافی کرائیں گے۔ یہ مشروط و مقید معاملہ ہے اور کمپنی بنانے والوں اور چندہ دینے والوں کو پکے معاہدے اور طے شدہ قواعد وضوابط کے تحت ’’وقف‘‘ ’’عطاء مستقل‘‘ اور ’’لزومِ عہد ووعد‘‘کے نام پر جو مراعات ملتی ہیں، اس مصنوعی عمل کو ہسپتال وقبرستان وقف کرکے ہسپتال سے اتفاقی اور قبرستان سے یکبارگی استفادہ کے استحقاق پر قیاس کرنا‘ اپنے بزرگوں کے وقف پر مبنی نظام کے زیادہ قریب ہے؟ یا انشورنس کی اسلام کاری کے قابلِ نکیر طرزِ عمل کے زیادہ قریب ہے؟ جنہوں نے انشورنس کو عقدِ موالات پر قیاس کرکے جائز قراردیا تھا اور اکابر نے اُسے قیاس مع الفارق قراردیا تھا۔

اکابر نے تو یہ کہا تھا کہ انشورنس کا متبادل مضاربت پر کام کرنے والی تجارتی کمپنی یا انجمن ہوگی، اس تجارتی انجمن کے منافع میں سے ایک معتد بہ حصہ ریزروفنڈ میں محفوظ ہوکر نقصانات کی تلافی کے لیے امدادِ باہمی کے طور پر جمع رہے گا، جبکہ مروَّجہ تکافل میں انشورنس کمپنی کے طرز پر تکافل کمپنی کے بانی اپنے شئیرز کو وقف کا نام دیتے ہیں، اس سے وقف فنڈ شخصِ معنوی وجود میں آتا ہے، وہ شخص معنوی انشورنس کمپنی کی طرح لوگوں سے پریمیم وصول کرتا ہے، جسے ادا کرنے والے چندہ برائے وقف کا نام دے دیتے ہیں، ایمان داری کے ساتھ دیکھا جائے کہ اکابر میں سے حضرت مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ   کی عبارت کو سامنے رکھیںاور مجوزین کی اس تطبیق وتکییف کا تقابل کرکے دیکھیں تو نئے اور پرانے وقف کے تقابلی جائزے سے دونوں کے رُخ واضح ہوجائیںگے۔ببیں ایں تفاوت را از کجا تابکجا!

 ہم مزید وضاحت کے لیے حضرت مفتی ولی حسن  رحمۃ اللہ علیہ   کا پیش کردہ متبادل بھی خدمت گزار کیے دیتے ہیں۔ یہ متبادل حل اس مجموعہ کا حصہ ہے جس سے وقف پر مبنی تکافلی نظام کے وقف ہونے پر استدلال فرمایا گیا ہے، مگر اس متبادل حل کا تذکرہ وحوالہ مروَّجہ نظام میں نہیں ملتا، حالانکہ مفتی ولی حسن رحمۃ اللہ علیہ   کی رائے حتم وجزم کے ساتھ بیان ہوئی تھی اور ان کے پیش کردہ متبادل اور حضرت مفتی اعظمؒ کے پیش کردہ متبادل کے درمیان مروَّجہ ٹرسٹوں کے طرز پر رفاہی ادارے کے قیام کی صورت میں وحدت کا قول بھی اختیار کیا جاسکتا ہے، یعنی حضرت مفتی اعظم  رحمۃ اللہ علیہ   کے ہاں ریزروفنڈ وقف کا مقصد مجوزین کی بیان کردہ تفصیل کے علی الرغم رفاہی تعاونی ٹرسٹ کو قرار دیا جائے تو دونوں بزرگوں کی بات کا حاصل ایک ہی بنتا ہے اور یہ تطبیق مجوزین کی تصریح کی بنسبت زیادہ واضح بھی ہے اور انشورنس کے متبادل کے طور پر اس تجویز کی طرف آنا وقف پر مبنی نظام کے مقابلے میںزیادہ آسان اور ناقابل اشکال بھی ہے۔ اس تجویز پر عمل کرتے ہوئے وقف پر مبنی نظام والے تکلفاتِ باردہ کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ 

 حضرت مفتی ولی حسن صاحب  رحمۃ اللہ علیہ   کا پیش کردہ متبادل حل ملاحظہ ہو:

’’بیمہ کا شرعی حل

طالبِ بیمہ کے حسب ذیل مقاصد بیان کیے جاتے ہیں:

۱:… اس کا سرمایہ محفوظ رہے۔ ۲:… اضافۂ مال بذریعہ سود یا تجارت۔ ۳:… حوادث کی صورت میں مالی معاونت۔ موجودہ زمانہ میں حادثوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے، آئے دن ہولناک قسم کے حوادث ہوتے رہتے ہیں، جن میں جانی اور مالی دونوں قسم کے حوادث سے بے اندازہ نقصان ہوتا ہے۔ ۴:… پسماندگان کی مالی امداد۔

اب ان کا ترتیب وار حل درج ہے:

۱،۲:… ان دونوں باتوں کا حل یہی ہے کہ غیرسودی بینک جاری کیے جائیں، جن کی اَساس شرکت اور مضاربت پر قائم کی جائے۔ اس طرح سرمایہ کی حفاظت بھی ہوگی اور مال میں بھی جائز طریقوں سے اضافہ ہوتا رہے گا۔ اسلام کے معاشی نظام کا جس شخص نے بغور مطالعہ کیا ہوگا وہ ضرور اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ اسلام ’’ارتکازِ دولت‘‘ کا حامی نہیں ہے کہ روپیہ ایک جگہ جمع کردیاجائے اور بدون تجارت اس سے منافع حاصل کیا جائے، روپیہ سے روپیہ حاصل کرنا اسلام کے نقطۂ نظر سے صحیح نہیں ہے۔ سرمایہ میں جو لوگ اضافہ چاہتے ہیں، ان کے لیے تجارت کی شاہراہ کھلی ہوئی ہے۔ تجارت سے سرمایہ دار کا بھی فائدہ ہے کہ تجارت کو فروغ ہوگا، سرمایہ تجوریوں سے نکل کر منڈیوں اور بازاروں میں پہنچے گا، صنعت اور انڈسٹری کی کثرت ہوگی، مزدوروں اور ملازمت پیشہ لوگوں کو کام ملے گا۔ واضح رہے کہ اسلام اپنے معاشی نظام کی بنیاد زکوٰۃ پر رکھتا ہے، برخلاف سرمایہ دارانہ نظام کے کہ وہاں سود ریڑھ کی ہڈی کا حکم رکھتا ہے۔ قرآن کریم نے اسلام کے معاشی نظام کو مختصر سے مختصر لفظوں میں اس طرح سمجھایا ہے:

’’کَیْ لَایَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْنَ الْأَغْنِیَائِ مِنْکُمْ۔‘‘         (الحشر،پارہ۲۸)

’’تاکہ نہ آئے لینے دینے میں صرف دولت مندوں کے تم میں سے ۔‘‘

آیتِ کریمہ کا حاصل یہ ہے کہ یہ مصارف (اس سے پہلے مصارف بتلائے گئے ہیں) اس لیے بتلائے ہیں کہ ہمیشہ یتیموں ، محتاجوں، بے کسوں اور عام مسلمانوں کی خبرگیری ہوتی رہے اور عام اسلامی ضروریات سرانجام پاسکیں۔ یہ اموال محض چند دولت مندوں کے اُلٹ پھیر میں پڑ کر ان کی مخصوص جاگیر بن کر نہ رہ جائیں، جس سے صرف سرمایہ دار اپنی تجوریوں کو بھرتے رہیں اور غریب فاقوں سے مریں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۳:…’’دنیا حوادث کی آماجگاہ ہے‘‘ یہ مقولہ پہلے بھی صادق تھا اور اب تو ایسی حقیقت بن چکا ہے، جس سے انکار ناممکن ہے۔ روزانہ حادثے ہوتے رہتے ہیں، جن میں جانی اور مالی دونوں قسم کے نقصانات ہوتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کل تک ایک بھلا چنگا آدمی ہاتھ پیروں سے صحیح وسالم تھا، آج اچانک کسی حادثے کی زَد میں آگیا اور اپاہج ہوکر رہ گیا۔ اس اپاہج انسان کے ساتھ اس کا خاندان بھی مصائب وحوادث کا شکار ہے، نہ پیٹ بھرنے کو روٹی ہے اور نہ تن ڈھانپنے کو کپڑا رہا، اسی طرح ایک بڑا صنعت کار جو کل تک ایک بڑی انڈسٹری کا مالک تھا، اچانک کارخانہ میں آگ لگ گئی، مشینری اور سارا سامان جل کر راکھ ہوگیا، اور وہ اب نان جویں کو بھی محتاج ہے، پھر ہر روز بسوں، موٹروں کے حادثے ہماری زندگی کا روز مرہ بن چکے ہیں، آخر ان نقصانات کی تلافی کس طرح ہو اور اس کا حل شریعت اسلامی میں کیا ہے؟

اس کا حل یہی ہے کہ امدادِ باہمی اور تعاون علی الخیر کے جذبہ کے تحت ایسے ادارے قائم کیے جائیں جو اربابِ خیر اور مال داروں سے عطیات وصول اور ان سے جمع شدہ رقوم کو تجارت اور انڈسٹری میں لگائیں ، ان اداروں کا کام یہ ہو کہ وہ تحقیقِ حال کے بعد نقصان زدہ افراد اور خاندانوں کی مالی امداد کریں۔ اس سلسلہ میں عام ادارے بھی بنائے جاسکتے ہیں اور خاص بھی۔ خاص کی صورت یہ ہو کہ تاجر اپنا الگ ادارہ بنائیں، صنعت کار اپنا الگ۔                      (جواہر الفقہ، ج: ۴، ص: ۴۹۵تا ۴۹۷، طبع: مکتبہ دارالعلوم، کراچی)

حضرت مفتی ولی حسن  رحمۃ اللہ علیہ   کے درج بالا فتوی میں ’’امدادِ باہمی‘‘ اور ’’تعاون علی الخیر‘‘ کا صاف وشفاف اور ہر قسم کے اشکال سے محفوظ متبادل حل موجود ہے۔ اس میں روایتی انشورنس کی نقالی کا شائبہ ہے نہ تجدد پسند علماء کی طرح کسی حیلہ گری کی ضرورت ٹھہرتی ہے، صرف خیرخواہانہ جذبے کی ضرورت ہوگی اور مختلف رفاہی اداروں کے طرز پر خدمتِ خلق کے جذبے کے تحت اربابِ خیر اور مال داروں سے عطیات وصول کیے جائیں اور ان سے جمع شدہ رقوم کو تجارت اور انڈسٹری میں لگایا جائے اور یہ ادارے تحقیقِ حال کے بعد نقصان زدگان کی مالی امداد کریں۔ یہ امداد صرف عطیہ اور چندہ دینے والے مال داروں کے ساتھ خاص نہ ہو، بلکہ ان کے شعبے کے ان مستحق لوگوں کو بھی فائدہ پہنچایا جائے جو عطیہ/ چندہ نہیں دے سکتے، مثلاً: کلاتھ مارکیٹ کے بڑے تاجر مل کر انڈسٹری لگائیں اور اس مارکیٹ کے تمام نقصان زدگان کی بلاامتیاز مدد کی جائے، اسی طرح فیکٹری مالکان بھی ایسی انجمن قائم کرلیں تو ہر طبقہ اپنے نقصانات کی تلافی کے لیے حقیقی تعاون وتبرع سے مستفید ہوسکے گا اور اسے انشورنس کی نقالی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

یہ تفصیل اس مقصد کے تحت ذکر کی گئی ہے کہ مروَّجہ تکافلی نظام کو جائز قرار دینے کے لیے ’’مجلسِ تحقیقِ مسائلِ حاضرہ‘‘ کے اکابر کا نام جو استعمال کیا جاتا ہے، اس میں حقیقت ومغالطے کا تناسب جاننے میں مدد مل سکے۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آخر میں مروَّجہ تکافل کمپنیوں کی تصدیق وترویج کے لیے اکابر ومشائخ کا نام استعمال کرتے ہوئے انشورنس کی نقالی وتقلید کرنے والے حضرات کی خدمت میں حضرت مفتی محمد شفیع  رحمۃ اللہ علیہ   کا وہ توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں جو انہوں نے اپنے زمانے کے انشورنس کمپنی کے ذمہ داروں کے لیے لکھا تھا اور کمپنی کے کاروبار کے لیے اکابر علماء اور اہل فتویٰ کا نام غلط استعمال کرنے پر ارشاد فرمایا تھا:

’’بیمہ کمپنی کے ذمہ دار توجہ فرمائیں

پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں بیمہ کا کاروبار کرنے والے حضرات عموماً مسلمان ہیں۔ خدا کے لیے اس چند روزہ کاروبار پر آخرت کو قربان نہ کریں، حرام معاملات پر حلال کا لیبل لگانے کے بجائے اس کی فکر کریں کہ امدادِ باہمی کی شرعی اور جائز صورت کو اختیار کریں، جو رسالہ ہذا میں لکھ دی گئی ہے۔ اور جو رقمیں لوگوں کی جمع ہوتی ہیں، ان کو تجارت پر لگاکر سود کی بجائے تجارتی نفع تقسیم کریں، جو سراسر فائدہ ہی فائدہ ہے اور پوری قوم کے لیے نفع بخش جائز وحلال معاملہ ہے اور اگر خدانخواستہ وہ خود حلال وحرام سے بے نیاز ہوکر چند روزہ مال ودولت کمانے کو اپنا مقصد بناہی چکے ہیں تو کم از کم اکابر علماء اور اہل فتویٰ پر اپنی رائے تھوپنے اور ان پر تہمت لگانے سے تو پرہیز کریں کہ یہ تحریفِ دین کا دوسرا گناہ ہے جس کی اس کاروبار میں کوئی ضرورت بھی نہیں۔

وہ اپنی اس ذمہ داری کو بھی محسوس کریں کہ ان بزرگوں کی طرف غلط فتووں کو منسوب کرنا اخلاقی کے علاوہ قانونی جرم بھی ہے۔ مسلمانوں کو آزمائش میں نہ ڈالیں کہ وہ اس معاملہ کو عدالت میں چیلنج کرنے پر مجبور ہوں۔ اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو مال ودولت کی ایسی محبت سے بچائے جو اُن کی آخرت کو برباد کرے۔‘‘  (جواہر الفقہ، ج: ۴، ص:۵۲۹، طبع: مکتبہ دارالعلوم، کراچی)

اللّٰہم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔۔۔۔۔۔۔ واللّٰہ اعلم

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین