بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مرزائی ریشہ دوانیاں اور سرکاری چشم پوشی!

 

مرزائی ریشہ دوانیاں اور سرکاری چشم پوشی!

 

موجودہ حکومت کے برسرِاقتدار آتے ہی یوں لگتا ہے گویا قادیانی فتنہ پروَر ٹولے کو پر لگ گئے ہیں۔ آئے دن ان کی سازشیں اور شرارتیں اندرون وبیرونِ ملک طشت از بام ہوتی رہتی ہیں، ان کی سازشوں اور شرارتوں کا یوں بڑھنا کوئی معمولی واقعہ یا کوئی سادہ سی بات نہیں، اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی محرک ضرور ہے جو خفیہ طورپر کام کررہا ہے۔
آخر سوچنے کی بات ہے کہ موجودہ حکومت نے آتے ہی اقتصادی کمیشن میں جہاں دوسرے ماہرینِ اقتصادیات کے نام شامل کیے‘ وہاں عاطف قادیانی سمیت کچھ اور قادیانیوں کے نام بھی شامل کیے۔ اور یہ عاطف میاں وہ ہے جس کے بارہ میں جناب عمران خان صاحب کنٹینر پر کھڑے ہوکر کہا کرتے تھے: ’’یہ عاطف میاں ہماری حکومت کے وزیرخزانہ ہوں گے۔‘‘ وہ بعض وجوہ کی بناپر وزیر خزانہ تو نہ بن سکا، لیکن جناب عمران خان کی حکومت نے اسے اقتصادی کمیشن میں شامل کرلیا۔ جب اس کے خلاف عوام کادباؤبڑھا تواس کا نام اقتصادی کمیشن میں شامل نہ کیے جاسکنے کی وجہ سے وہ کمیشن ہی ختم کردیا۔ اسی پر بس نہیں، بلکہ اس حکومت کے دور میں ایک سزا یافتہ مجرم عبدالشکور نامی قادیانی شخص جو جیل میں ہوتا ہے، اس کی سزا مکمل ہونا ابھی باقی ہوتی ہے کہ اسے نہ صرف جیل سے رہائی کا پروانہ تھمادیا جاتا ہے، بلکہ بڑے عزوافتخار اور تکبر وغرور کے نشے میں امریکہ کے صدر ڈونلڈٹرمپ کے دربار میں رسائی بھی دلائی جاتی ہے، اور پھر وہ بین الاقوامی میڈیا کے سامنے پاکستان پر الزامات لگاکر ہمارے پیارے ملک پاکستان کی توہین کرتا ہے۔
اس کے بعد اسی سال جب حج فارم جاری کیا جاتا ہے تو اس حج فارم میں موجود ختم نبوت کا حلف نامہ اُڑادیا جاتا ہے۔ علمائے کرام اور عوام کے بھرپور احتجاج کے بعد وزیرمذہبی امور لایعنی سی وضاحتیں کرتے ہیں اور پھر خود ہی قائمہ کمیٹی کے سامنے اقرار کرتے ہیں کہ پہلے حلف نامہ اصل فارم سے بھی اُڑادیا گیا تھا، میں نے احتجاج کیا اور اس کے بعد اصل فارم میں اسے بحال کیا گیا، اور وعدہ کیا کہ میں تحقیقات کراؤں گا، لیکن آج تک تحقیقات نہ کرائی جاسکیں۔ اور اب حال ہی میں پوری دنیا کی طرح جہاں پاکستان بھی کرونا کی وبا کے خوف میں مبتلا ہے، وہاں وزارتِ مذہبی امور کے تحت اقلیتی کمیشن کے لیے سمری بنتی ہے تو اس میں دوسری اقلیتوں کے علاوہ قادیانیوں کا نام بھی شامل کرلیا جاتا ہے، میڈیا میں اس خبر کے آنے کے بعد جب وزیرمذہبی امور سے اس کے بارہ میں استفسار کیا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اس کے بارہ میں مشاورت (ڈسیجن) ہوئی تھی، لیکن فیصلہ نہیں ہوا تھا، اور یہ بھی کہا کہ پانچ چھ کابینہ ارکان کی یہ رائے تھی، لیکن اکثریت نے اسے مسترد کردیا، پھر سوال ہوا کہ سمری میں کس نے نام ڈالے؟ تو وہ کہنے لگے : پتہ نہیں، میں تحقیقات کراؤں گا۔
یہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر وزیر موصوف صحیح کہہ رہے ہیں تو عین ان کی وزارت کے نیچے کون سے قادیانیوں کے ایسے کارندے ہیں جو قادیانیت نوازی کررہے ہیں، بلکہ اس طرح خلافِ آئین اور خلافِ قانون حرکت کرکے حکومت ، ملک اور قوم کو بھی اضطراب میں مبتلا کررہے ہیں۔ کیا وہ اتنے جری ہوگئے ہیں کہ حکومتی کاموں میں بھی مداخلت کرنے لگے ہیں؟! اسی لیے علمائے کرم اور آئین ساز اسمبلی کے معزز اراکین نے ۱۹۷۴ء میں ان کو غیرمسلم اقلیت میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ ان کو کلیدی عہدوں سے بھی ہٹایا جائے۔ یہ جب تک ان عہدوں پر براجمان رہیں گے ، اس وقت تک ملک اور قوم کو آزمائش کی بھٹی میں ڈالتے رہیں گے، ان حرکتوں اور کرتوتوں کے سامنے آنے سے ہمیشہ کی طرح آج بھی ان کی بات سو فی صد درست ثابت ہورہی ہے۔
عجیب مذاق ہے کہ ایک گروہ جو ایک ملک کے آئین اور قانون کو نہیں مانتا، لیکن اپنے مفادات سمیٹنے کی خاطر اس ملک کے کلیدی عہدوں پر براجمان ہے، گویا مسلمانوں کی اکثریت پر ایک اقلیت حکومت کررہی ہے، حالانکہ جسٹس میاں محبوب احمد کی عدالت نے ۲ دسمبر ۱۹۸۱ء میں ایک فیصلہ دیا تھا کہ: ’’کوئی قادیانی مسلم اکثریت والے گاؤں کا نمبردار نہیں بن سکتا۔‘‘ (سی ایل سی ۱۹۸۲ء، ص:۳۵۷)
جب ایک مسلم اکثریت والے گاؤں کا ایک اقلیت سے تعلق رکھنے والا قادیانی نمبردار نہیں بن سکتا، تو مسلم اکثریت والے ملک کے وفاقی محکمے ہوں یا صوبائی اور شہری محکمے ‘ ان کے کلیدی عہدوں پر قادیانی کیسے براجمان ہوسکتے ہیں، یہ حکومت اور اربابِ اقتدار سے سوال ہے۔
قادیانیوں کے اقلیتی کمیشن میں شمولیت کے بارہ میں جیسے ہی خبر میڈیا میں آئی تو جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے رئیس حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب دامت برکاتہم (امیر مرکزیہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت) اور مجلس کے مرکزی راہنماؤں کی طرف سے ۲۹اپریل ۲۰۲۰ء کو یہ بیان جاری کیاگیا کہ: ’’حکومتی حلقہ سے اس خبر کا آنا کہ ایک اقلیتی کمیشن میں قادیانیوں کو بھی شامل کرلیا گیا ہے، یہ محلِ نظر ہے اور مسلمانوں کے لیے تشویش کا باعث ، اس لیے کہ پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلے اور دستورِ پاکستان کو نہ ماننے کی بنا پر قادیانی آئینِ پاکستان کے منکر اور باغی ہیں اور آئین کے باغیوں کو کسی کمیشن کا رکن بنانا کسی طور پر درست نہیں۔ پاکستان کا آئین قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیتا ہے اور آج تک انہوں نے اپنی اس حیثیت کو تسلیم نہیں کیا۔ آئین کے باغی اور آئین شکن گروہ کو حکومت کے کسی کمیشن میں شریک کرنا یہ ان کی آئین شکنی پر حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔ جب سے قادیانیوں کو اقلیت قرار دیا گیا ہے، آج تک قادیانیوں کو کسی کمیشن میں شامل نہیں کیا گیا۔ اب وہ اپنی اس آئینی حیثیت کو تسلیم نہ کریں اور آئین کے انکار کے باوجود انہیں کمیشن کا ممبر بنانا گویا ان کے لیے راستہ مہیا کرنا ہے کہ آئندہ وہ امن کمیٹیوں میں، علماء بورڈ میں،مکالمہ بین المذاہب میں اور پاکستان کے تمام پلیٹ فارموں کو وہ استعمال کرسکیں، یہ قادیانیوں کو مسلمانوں پر مسلط کرنے کی اور حکومت کی قادیانیت نوازی کی بدترین مثال ہے۔ ریاستِ مدینہ کی مدعی گورنمنٹ سے ایسے اقدام کی بالکل توقع نہیں تھی۔ انہوں نے یہ اقدام کرکے اسلامیانِ وطن کے ساتھ ناقابلِ تلافی اور ناقابلِ معافی زیادتی کا ارتکاب کیا ہے۔ حکومت انہیں کمیشن میں شامل کرنا چاہے تو ہمیں خوشی ہوگی، لیکن پہلے قادیانیوں سے وہ یہ تسلیم کرائے کہ ہم بطورغیر مسلم کے اس اقلیتی کمیشن میں شامل ہورہے ہیں، ہمیں خوشی ہوگی کہ انہیں کمیشن کا ممبر بنادیا جائے۔ لیکن اگر وہ یہ تسلیم نہیں کرتے اور پھر بھی انہیں ممبر بنایا جاتا ہے تو یہ پاکستان کے آئین اور پاکستان کی بنیادوں کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہوگا اور اسے ہم مسترد کرتے ہیں، حکومت کو چاہیے کہ اپنے اس ناروا فیصلے پر نظرِ ثانی کرے۔‘‘
حکومت نے اگرچہ بعد میں قادیانیوں کو اس اقلیتی کمیشن میں شامل نہیں کیا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ قانون کی رو سے ایسا کرنے کے مجاز بھی ہیں یا نہیں؟ وکلاء حضرات کا کہنا یہ ہے کہ قانونی طور پر بھی قادیانیوں کو حکومت کسی کمیشن میں داخل کرنے کی مجاز نہیں ہے، کیونکہ ہر اقلیت دستور کے آرٹیکل ۳۶ کے تحت پہلے حکومت کو درخواست کرے گی کہ میرا تعلق فلاں اقلیت سے ہے، مجھے ان کے تحت رجسٹرڈ کیا جائے، اقلیت میں رجسٹرڈ ہونے کے بعد کسی حکومتی ذمہ داری یا کمیشن میں شامل ہوسکتے ہیں۔ جب قادیانیوں نے اپنے آپ کو اقلیت کے طور پر رجسٹرڈ نہیں کرایا تو وہ کمیشن میں کیسے شامل ہوسکتے ہیں؟ یہ ایسے ہی ہے جیسے میٹرک پاس کیے بغیر کوئی فرسٹ ائیر یا سیکنڈائیر کے امتحان میں شریک ہوجائے۔ جس طرح یہ خلافِ ضابطہ اور خلافِ قانون ہے، اسی طرح وہ بھی خلافِ ضابطہ اور خلافِ قانون ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کا اصرار اور حکومت کا یہ اقدام پاکستانی قوم کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتاہے۔
قادیانیوں کو اقلیتی کمیشن میں شامل کرنے کی ان کوششوں کے ردِ عمل میں موجود پاکستانی قوم میں پائے جانے والے اضطراب کو محسوس کرتے ہوئے مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والے پنجاب اسمبلی کے معزز رکن جناب حافظ عمار یاسر صاحب کی جانب سے تحفظِ ناموسِ رسالت اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے حق میں قرارداد پیش کی گئی، جسے پورے ایوان نے متفقہ طور پر منظور کرلیا، تاریخ میں محفوظ کرنے کے لیے اسے یہاں نقل کیا جاتا ہے، قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ:
’’ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اے مسلمانو! حضرت محمد رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول ہیں اور نبیوں کی مہر ہیں اور اللہ ہر بات کو خوب جاننے والا ہے۔(یعنی مہر لگ گئی اور یہ راستہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیاہے، یہاں سے اب کسی اور نبوت کے اِجرا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا) (سور الاحزاب آیت :۴۰)۔ جامع ترمذی اور سنن ابوداؤد میں حضرت ثوبان  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ:’’میری امت میں سے تیس افراد ایسے اٹھیں گے جو کذاب (انتہائی جھوٹے)ہوں گے۔ ان میں سے ہر شخص اپنے بارے میں یہ گمان کرتا ہو گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، اب میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔‘‘ حضرت محمد رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی عظمت اور فضیلت کا پہلو اس اعتبار سے ہے کہ نبوت آپ پر کامل ہو گئی ہے، رسالت کی آپ پر تکمیل ہو گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم قرآن و حدیث شریف میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے ضمن میں خاص طور پرتکمیل، اکمل جیسے الفاظ بکثرت استعمال ہوئے ہیں، جیسا کہ قرآن شریف میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ:’’آج کے دن ہم نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کر دیا ہے اور آپ پر اپنی نعمتوں کا اتمام فرما دیا ہے۔‘‘ یہ ایوان وفاقی کابینہ کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے جنہوں نے قادیانیوں کو اس بنا پر اقلیتی کمیشن میں شامل نہیں کیا۔ قادیانی نہ آئینِ پاکستان کو مانتے ہیں نہ اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کرتے ہیں۔ یہ ایوان اعادہ کرتا ہے کہ آئے روز ناموسِ رسالت پر کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا کر دیا جاتا ہے، کبھی حج فارم میں تبدیلی کر دی جاتی ہے، کبھی کتب میں سے خاتم النبیین کا لفظ نکال دیا جاتا ہے، لیکن آج تک ان سازشیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے،لیکن ہمیں تحفظِ ناموسِ رسالت کی بھیک مانگنی پڑتی ہے۔ یہ ہم سب کے لیے شرم کا مقام ہے۔ یہ ایوان وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے، جو لوگ ان سازشوں میں ملوث ہیں ان کو بے نقاب کر کے سخت سے سخت سزا دی جائے۔ اقلیتی کمیشن میں ہندو، سکھ اور مسیحی بیٹھے ہیں، ہم نے کبھی ان پر اعتراض نہیں کیا، کیونکہ وہ اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہتے۔ ہم اقلیتوں کو آئین میں دیئے گئے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں۔یہ ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ اگر قادیانیوں کا سربراہ یہ لکھ کر بھیج دے کہ وہ آئینِ پاکستان کو مانتے ہیں اور اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کرتے ہیں تو ہمیں ان کے اقلیتی کمیشن میں بیٹھنے پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ ختم نبوت کا معاملہ ہمارے لیے ریڈ لائن ہے۔ تحفظِ ختمِ نبوت، تحفظِ ناموسِ رسالت، تحفظِ ناموسِ اصحابِ رسول،تحفظِ ناموسِ اہلِ بیت اطہار اورتحفظِ ناموسِ امہات المومنین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے بڑھ کر ہمارے لیے کوئی چیز نہیں، اس پر ہمارا سب کچھ قربان ہے۔ اس پر کسی کو ابہام نہیں ہونا چاہیے۔ اس موقع پر اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے کہا کہ ہم سب ناموسِ رسالت اور عقیدہ ختم نبوت کے محافظ ہیں۔ وفاقی کابینہ میں اکثر وزرا ء نے اس ترمیم کی مخالفت کی۔کابینہ نے طے کیا کہ جب تک قادیانیوں کا سربراہ تسلیم نہیں کرتا کہ وہ غیر مسلم ہیں، تب تک وہ قومی اقلیتی کمیشن میں نہیں شامل ہوسکتے۔ قادیانی آئینِ پاکستان کو جب تک تسلیم نہیں کرتے وہ کمیشن میں نہیں آسکتے۔ ایجنڈا ختم ہونے پر اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا۔‘‘ (روزنامہ انتخاب، ۱۲ مئی، ۲۰۲۰ء)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’کے پی کے ‘‘ کے سرکاری اسکوں میں ایک بار پھر چوتھی کلاس کی اسلامیات کے نصاب سے عقیدہ ختمِ نبوت کے متعلق مضمون میں تحریف کی گئی ہے اور یہ کسی قادیانی یا قادیانی نواز کی کارستانی ہوسکتی ہے۔ دونوں کتابیں میرے سامنے ہیں اور دونوں میں فرق واضح کیا جاتا ہے۔ ۱۸-۲۰۱۷ء کے چوتھی کے اسلامیات کے نصاب کی کتاب میں صفحہ نمبر:۱۳ پر انبیاء ورسل  علیہم السلام  پر ایمان کے عنوان کے تحت عبارت ہے:
’’ سب سے آخر میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری رسول اور نبی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، قیامت تک آنے والے انسانوں کی رہنمائی کا واحد ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب قرآن مجید اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اورسیرت ہے۔ ان باتوں پر یقین رکھنا عقیدہ ختم نبوت کہلاتا ہے،جو شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری پیغمبر نہیں مانتا وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ جھوٹا اور اسلام سے خارج ہے۔‘‘
۲۰-۲۰۱۹ء کے چوتھی کے اسلامیات کے نصاب کی کتاب میں یہی عبارت یوں ہے:
’’ سب سے آخر میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری رسول اور نبی ہیں، یعنی قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کی رہنمائی کا واحد ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا پیغام یعنی قرآن مجید اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وسیرت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کرنے سے دنیا وآخرت میں کامیابی اور نجات مل سکتی ہے۔‘‘
آپ نے دونوں عبارتوں میں موازنہ کرلیا، ایک تو نئے نصاب میں خط کشیدہ عبارت پوری حذف کردی گئی ۔
۲:- آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ’’نازل ہونے والی کتاب‘‘ کو بدل کر ’’کا لایا ہوا پیغام یعنی۔۔۔۔۔‘‘ کردیا۔
۳:- سنت اور سیرت ہے کہ بعد عبارت حذف کرکے اس کی جگہ ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ ‘‘ آگے عبارت بڑھائی گئی جو قادیانیوں کے منشا ومطلب کو تو پورا کررہی ہے، لیکن مسلمانوں کے عقیدہ ختم نبوت پر چھری چلائی گئی ہے۔
۴:- اور پھر صفحہ: ۱۴ پر سوال نمبر:۶ ’’آخری پیغمبر کون ہیں؟ عقیدہ ختمِ نبوت سے کیا مراد ہے؟‘‘ پورا اُڑادیا گیا۔
اس جعل سازی پر کے پی کے اسمبلی میں جمعیت علمائے اسلام کی معزز ہ رکن محترمہ حمیرا خاتون نے نکتۂ اعتراض اُٹھایا تو اسپیکر مشتاق غنی نے انہیں جواب دیا کہ اسلامیات کی کتاب میں سے ختم نبوت کے الفاظ حکومت کی اجازت کے بغیر ختم کیے گئے تھے ، وزیرِتعلیم نے الفاظ کو دوبارہ نصاب میں شامل کرنے کا حکم دے دیا ہے، جب کہ تبدیلی کے ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کی ہدایت کردی ہے۔ ادھر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے تعلیم ضیاء اللہ بنگش نے جماعت چہارم کی اسلامیات کی کتاب سے ختم نبوت اور عقیدہ ختم نبوت کا باب نکالنے کے واقعے کا سخت نوٹس لیا ہے اور ایڈیشنل سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ محکمہ ایجوکیشن کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی قائم کی ہے جو معاملے کی مزید تحقیقات کرے گی اور اس میں ملوث اہلکاروں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔مشیرِ تعلیم نے کہا کہ عقیدہ ختم نبوت ہمارے ایمان کاحصہ ہے اور اس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا اور جو بھی ذمہ دار ہے اس کو ضرور سزا دیں گے۔ انہوں نے تمام اسکولوں سے مذکورہ جماعت چہارم کی اسلامیات کی کتاب واپس لینے اور صوبے کے تمام اسکولوں کو ۲۰۱۸ء کی اسلامیات کی کتاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے اسٹاک سے مہیا کرنے کے احکامات بھی جاری کیے ہیں۔
بہرحال اہلیانِ پاکستان کے سوچنے کا مقام ہے کہ حکومتی ذمہ داران کی ناک کے نیچے ہمارے ایمان اور عقیدے پر دن دہاڑے ڈاکا ڈالا جاتا ہے، لیکن بقول ان کے ان میں سے کسی کو اس کا پتہ ہی نہیں ہوتا، جب مسلمان عوام احتجاج کرتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ حکومت کی اجازت کے بغیر یہ کام ہوا ہے اور آخروہ کون سے خفیہ ہاتھ ہیں جو اس طرح کی مسلسل کارروائیاں کررہے ہیں، آخر ان کو بے نقاب کیوں نہیں کیا جاتا اور انہیں کڑی سزائیں کیوں نہیں دی جاتیں؟! کیا اس وقت کا انتظار ہے کہ عوام خود ان کے اوپر ہاتھ ڈالیں گے ، تب حکومت کو سمجھ آئے گی؟! خدارا ایسے حالات نہ بنائیں کہ عوام اور ایسی خفیہ کارروائیاں کرنے والے باہم دست وگریباں ہوں اور عوام چن چن کر ایسے افراد کو خود بے نقاب کرکے عبرت کا نشان بنائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے ملک میں امتناعِ قادیانیت آرڈی نینس ۱۹۸۴ء کے تحت قادیانیوں کو اپنے مذہب کی تبلیغ کی بالکل اجازت نہیں، ایسا کرنے والے کو تین سال تک جیل اور مالی جرمانہ عائد ہوتا ہے، لیکن اس حکومت میں پاکستان میں بھی قادیانیوں کے چینل کھولے جارہے ہیں، جن پر حکومتی افراد اور مقتدر طبقہ کو احساس دلانے اور ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے مرزا فاروق حیدر چیئرمین فورتھ پلر میڈیا واچ ڈاگ کی درج ذیل درخواست کافی ہے:
’’ جناب عالی پیمرا کے چیئرمین محمد سلیم بیگ اور فخر الدین مغل ایک عرصہ سے قادیانیوں کے چینلز کو غیرقانونی طور پر اور جانتے ہوئے کہ بغیر لائسنس کسی چینل کی سرپرستی کرنا اور خاص طور پر قادیانیوں کو بغیر لائسنس کے ملک میں ڈش اور کیبل پر چلانے کی سرپرستی کرنا قانوناً جرم ہے۔ اس کے باوجود وہ آنکھیں بند کرکے اس تماشہ کو دیکھتے رہے، جناب عالی! مزید یہ کہ فخر الدین مغل قادیانی جو کہ پیمرا آفیسر ہے اور اس نے احمدی جماعت کے ساتھ مل کر پاکستان میں نشریات چلانے کی سازش کی جس کے قادیانی ہونے کا ثبوت درخواست کے ساتھ لف ہے، پیمرا کے دیگر آفیسرز اور ملازمین کو فخر الدین مغل قادیانی کی سازش کے متعلق معلوم ہوا تو دفتر میں لڑائی جھگڑا بھی ہوا اور فخر الدین مغل کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی بجائے چیئرمین سلیم بیگ نے نہ صرف اس معاملے کو دبادیا، بلکہ فخر الدین مغل کو پانچ سال کی چھٹی پر امریکہ بھجوادیا اور اس نے امریکہ میں سیاسی پناہ لے رکھی ہے اور وہ ابھی بھی پیمرا کا ملازم ہے۔
جناب عالی! گزارش ہے کہ قادیانی/ احمدیہ چینلز کی نشریات کو فی الفور بند کرتے ہوئے قادیانیوں کے چینلز کا   Equipmen\Cable Installation  مارکیٹ سے قبضہ میں لی جائے اور ڈسٹری بیوٹرز/ کیبل ڈش آپریٹرز کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہوئے قادیانی / احمدیہ چینلز کی نشریات کے سیٹلائٹ بکس جن گھروں میں لگارکھے ہیں، وہاں سے برآمد کرکے قبضہ میں لیے جائیں اور قادیانی/ احمدیہ چینلز کے سہولت کار فخرالدین مغل قادیانی کو بھی فوری پیمرا سے برطرف کیا جائے۔‘‘ 
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                               العارض :مرزا فاروق حیدر
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                        چیئرمین فورتھ پلر میڈیا واچ ڈاگ
یہ مطالبہ کہ قادیانیوں کو کلیدی عہدوں سے ہٹایا جائے‘ یہ کوئی بلاجواز مطالبہ نہیں، بلکہ اس کا محرک یہ ہے کہ ہر قادیانی کسی محکمہ میں ملازم بعد میں ہوتا ہے اور اپنے جھوٹے نبی مرزا قادیانی کی جھوٹی نبوت کا مبلغ پہلے ہوتا ہے اور وہ اپنے عہدہ اور اسٹیٹس کو استعمال کرتے ہوئے قادیانیت کی تبلیغ کرتا ہے، جیسا کہ وفاقی شرعی عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں کہا کہ:
’’ مذہب کی تبلیغ پر پابندی کا محرک بھی اسی طرح کی سوچ ہے۔ قادیانیوں نے خود کو مسلمان کہنے اور مسلمانوں کو یہ تسلی دینے کہ احمدیت کو ماننے کا معنی اسلام کو ترک کرنا یا ایمان کے بدلے کفر کو اختیار کرنا نہیں، بلکہ بہتر مسلمان بننے کا موقع ہے، کی حکمت عملی کی بدولت ان میں اور زیادہ تر پنجاب میں کچھ کامیابی حاصل کی۔ اس مقصد کے کے لیے وہ تعلیم یافتہ مسلمانوں کے دلوں میں سخت فرقہ واریت اور علماء کی مسلسل شدت کے خلاف موجود نفرت کے روایتی سروں کو چھیڑتے ہیں اور انہیں اپنی تبلیغ، جسے وہ اسلام میں آزاد خیالی قرار دیتے ہیں، کی جانب راغب کرتے ہیں۔ یہ حکمت عملی‘ جس نے انہیں کچھ فائدہ دیا ہے، اس سوداگر کے اس فراڈ سے گہری مماثلت رکھتی ہے جو اپنے گھٹیا سامان کو ایک شہرت یافتہ فرم کا اعلیٰ قسم کا معروف سامان ظاہر کرکے چلتا کرتا ہے، قادیانی یہ تسلیم کرلیں کہ ان کی تبلیغ اسلام کے لیے نہیں، بلکہ کسی اور مذہب کی طرف ہے، تو بے خبر مسلمان بھی اپنے ایمان کو چھوڑ کر کفر قبول کرنے سے نفرت کریں گے، بلکہ اُلٹا قادیانیوں کے دلوں سے احمدیت کا طلسم ٹوٹ جائے گا۔‘‘ (قادیانیت کے خلاف اعلیٰ عدالتوں کے تاریخی فیصلے، مرتبہ: فیاض اختر ملک، ص: ۲۳۰-۲۳۱)
افسوس یہ ہے کہ حکومتِ وقت ، اربابِ اقتدار اور ان کے حواریوں کو اب بھی ندامت نہیں، اس لیے کہ انہیں احساس ہی نہیں کہ ہماری حکومت میں خلافِ دستور وخلافِ قانون کوئی کام ہورہا ہے، جس کی وجہ سے وہ معاشی بدحالی، اسکینڈل پر اسکینڈل ، وبائی امراض اور ٹڈی دل کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب کی گرفت میں ہیں۔ حق تعالیٰ شانہ دل کے اندھے پن سے محفوظ رکھے، اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ یا اللہ! ہمارے اہلِ وطن اور حکومت کے قصور معاف فرما، ہمارے ملک کے اربابِ حل وعقد کو فتنۂ قادیانیت کو سمجھنے، ان سے بچنے اور اپنے ملک کو ان کی سازشوں سے محفوظ فرما۔ یا اللہ! ہمیں حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم  کے طفیل اس ملک پر ، نیک، عادل، دینی حمیت اور ملکی وقار سے سرشار حکمران نصیب فرما، جو ملک، قوم اور مسلمانوں کو نیکی اور شرافت کی راہ پر ڈالیں، مظلوموں کے ساتھ عدل وانصاف کریں اور کمزوروں کی مدد اور اعانت کریں، وماذٰلک علی اللّٰہ بعزیز۔
 

وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین