بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

بینات

 
 

مرابحہ مؤجَّلہ اِرتقائی،واقعاتی اور تجزیاتی مطالعہ (چوتھی قسط)

مرابحہ مؤجَّلہ

 

اِرتقائی،واقعاتی اور تجزیاتی مطالعہ  

(چوتھی قسط)


اب ذرا آج کے بینکوں کی دنیا میں آئیے! ہم بالفرض بلاشک وشبہ اور بلااعتراض تسلیم کرلیتے ہیں کہ مروّجہ مرابحہ مؤجلہ کا طریقۂ کار سود میں داخل نہیں ہوتا اور جائز ہے، لیکن اس جواز کو لامحدود زمانے تک فرضی طور پر درست قرار دینا ان الفاظ کے ساتھ:
’’ہم شرکت ومضاربت پر ہمیشہ زور دیتے آئے ہیں، اور اب بھی زور دیتے ہیں، لیکن میں سالہا سال اور غیر سودی بینکاری کے نشیب وفراز دیکھتے رہنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ اگر دنیا بھر کے بینک غیر سودی بینکوں میں تبدیل کردیئے جائیں اور فرض کریں کہ وہ اپنی سرمایہ کاری صرف مرابحہ اور اجارہ ہی کی بنیاد پر ان کی صحیح شرائط کے ساتھ کرتے رہیں، اور ان باتوں کی پابندی کریں جن کی پابندی آج بھی غیر سودی بینکوں پر شرعاً لازم ہے، تب بھی اگرچہ وہ اسلام کا اعلیٰ درجے کا مثالی نمونہ نہ ہو، پھر بھی دنیا بھر سے سرمایہ دارانہ نظام کی وہ بیشتر خرابیاں مٹ جائیں گی جنہوں نے آج پوری دنیا کو معاشی بحران کی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور ان شاء اللہ! ایک نیا نظام وجود میں آجائے گا جو شریعت کی برکتوں سے بڑی حد تک مالا مال ہوگا۔‘‘ (۱) 
اس تفصیل کی روشنی میں نام نہاد اسلامی بینکوں کے موجودہ شرعی ذمہ داران سے یہ سوال ہے، جس ڈگر پر موجودہ بینک کاری ہورہی ہے، کیا اس سے سود خور ذہنیت کی حوصلہ افزائی نہیں ہوگی؟ کیا وہ طریقہ جو شرعاً درست ہونے کے باوجود تین وجوہ سے نظامِ بینکاری کی بنیاد نہیں بن سکتا تھا‘ اب اس طریقے پر نظامِ بینکاری کی بنیاد رکھیں تو کیا درست ہوجائے گا؟ ایسی کیا تبدیلی رونما ہوگئی کہ جس کی وجہ سے وہ طریقہ جو شرعاً درست ہونے کے باوجود اس وقت (۱۹۸۱ء) نظامِ بینکاری کی بنیاد کے طور پر درست نہ تھا اور آج (۲۰۱۹ء) وہ طریقہ بینکاری کی بنیاد کے طور پر درست ہے؟!
یہ ایک طالب علمانہ اشکال ہے، یہ اعتراض ہر اس طالب کو پیش آرہا ہے جو بھی مذکورہ بالا اقتباسات کا بغور مطالعہ کرتا ہے یا کرے گا۔
اب آگے حضرت والا دامت برکاتہم نے جو تین وجوہ ذکر کیے ہیں، وہ ملاحظہ ہوں:
’’۱:- اُدھار بیچنے کی صورت میں قیمت بڑھا دینا خود فقہائے کرام کے درمیان مختلف فیہ رہا ہے، اگرچہ اکثر فقہاء اسے جائز کہتے ہیں، لیکن چوںکہ اس میں مدت بڑھنے کی وجہ سے قیمت میں زیادتی کی جاتی ہے، اور اس طرح اگرچہ یہ ٹھیٹھ معنی میں سود نہ ہو، لیکن اس میں سود کی مشابہت یا سود کی خودغرضانہ ذہنیت ضرور موجود ہے ۔ 
اور ایسا معاملہ جس کے جواز میں فقہائے کرامؒ کا اختلاف ہو، اور جس میں سود کی کم از کم مشابہت تو پائی ہی جاتی ہو، اسے شدید ضرورت کے مواقع پر بدرجۂ مجبوری اختیار کرلینے کی تو گنجائش نکل سکتی ہے، لیکن اس پر اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی بنیاد کھڑی کردینا اور اسے سرمایہ کاری کا ایک عام معمول بنا لینا کسی طرح درست نہیں۔
۲:-بینک بنیادی طور پر کوئی تجارتی ادارہ نہیں ہوتا، بلکہ اس کا مقصد تجارت، صنعت اور زراعت میں سرمائے کی فراہمی ہوتا ہے، اگر ایک تجارتی ادارہ جو تجارت ہی کی غرض سے وجود میں آیا ہو اور جس کے پاس سامانِ تجارت موجود رہتا ہو وہ ’’بیع مؤجل‘‘ کا مذکورہ طریقہ اختیار کرے تو اس کی نوعیت مختلف ہے، لیکن بینک جو نہ تجارتی ادارہ ہے اور نہ سامانِ تجارت اس کے پاس موجود رہتا ہے‘ وہ ’’بیع مؤجل‘‘ کا یہ طریقہ اختیار کرے تو ایک کاغذی کارروائی کے سوا اس کی کوئی حقیقت نہیں ہوگی، جس کا مقصد سود سے بچنے کے ایک حیلے کے سوا کچھ اور نہیں۔ اس قسم کے حیلوں کی شدید ضرورت کے مواقع پر تو گنجائش ہوسکتی ہے، لیکن سارا کاروبار ہی حیلہ سازی پر مبنی کردینا کسی طرح درست نہیں ہوسکتا۔ 
۳:-جب ہم ’’غیر سودی بینکاری‘‘ کا نام لیتے ہیں اور بینکنگ کو اسلامی اصولوں کے مطابق چلانے کی بات کرتے ہیں تو اس کا منشأ یہ نہیں ہوتا کہ چند حیلوں کے ذریعے ہم موجودہ طریقِ کار کو ذراسا تبدیل کرکے سارا نظام جوں کا توں برقرار رکھیں، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ سرمایہ کاری کے پورے نظام کو تبدیل کرکے اسے اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھا لیں، جس کے اثرات تقسیمِ دولت کے نظام پر بھی مرتب ہوں، اور سرمایہ کاری کا اسلامی تصور یہ ہے کہ جو شخص کسی کاروبار کو سرمایہ فراہم کررہا ہے وہ یا تو نفع کا مطالبہ نہ کرے، یا اگر نفع کا مطالبہ کرتا ہے تو نقصان کے خطرے میں بھی شریک ہو، لہٰذا ’’غیر سودی بینکاری‘‘ میں بنیادی طور پر اس تصور کا تحفظ ضروری ہے۔ اب اگر بینک کا سارا نظام ’’مارک اپ‘‘ کی بنیاد پر استوار کرلیا جائے تو سرمایہ کاری کا یہ بنیادی اسلامی تصور آخر کہاں اطلاق پذیر ہوگا؟ کیا ہم دنیا کو یہی باور کرائیں گے کہ مروّجہ بینکنگ سسٹم کی خرابیوں پر پورے عالم اسلام میں جو شور مچ رہا تھا وہ صرف اس لیے تھا کہ ’’انٹرسٹ‘‘ کے بجائے ’’مارک اپ‘‘ کا حیلہ کیوں استعمال نہیں کیا جارہا؟ کیا اس حیلے کے ذریعے نظامِ تقسیمِ دولت کی مروّجہ خرابیوں کا کوئی ہزار واں حصہ بھی کم ہوسکے گا؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں، تو خدا را سوچئے کہ ’’مارک اپ‘‘ کا حیلہ استعمال کرکے ہم اسلامی نظامِ سرمایہ کاری کا کیا تصور دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں؟
اسی لیے ہمارے فقہائے کرام نے یہ صراحت فرمائی ہے کہ اِکا دُکا مواقع پر کسی قانونی تنگی کو دور کرنے کے لیے کوئی شرعی حیلہ اختیار کرلینے کی تو گنجائش ہے، لیکن ایسی حیلہ سازی جس سے مقاصدِ شریعت فوت ہوتے ہوں، اس کی قطعاً اجازت نہیں۔ 
واقعہ یہ ہے کہ اسلام کو جس قسم کا نظامِ سرمایہ کاری مطلوب ہے‘ وہ ’’مارک اپ‘‘ کے ’’میک اپ‘‘ سے حاصل نہیں ہوگا، اس کے لیے محض قانونی لیپ پوت کی نہیں، انقلابی فکر کی ضرورت ہے۔ اس غرض کے لیے کاروباری اداروں کو مجبور کرنا ہوگا کہ وہ شرکت یا مضاربت کی بنیاد پر کام کریں …‘‘(۲) 
مذکورہ بالا اقتباس سے معلوم ہوا کہ بیع مؤجل یا بنام دیگر مرابحہ مؤجلہ جب بینکوں میں (حقیقی نفع کے طور پر) سرمائے کی فراہمی کے طور پر استعمال کیا جائے تو وہ محض ایک حیلہ ہوگا اور مستقل بنیاد کے طور پر اسے اختیار کرنا کسی طور پر درست نہیں ہوگا (اقتباس نمبر ۲ کو دوبارہ بغور مطالعہ فرمائیں) 
پروفیسر رفیع اللہ شہاب نے نظریاتی کونسل کے عبوری دور کے لیے پیش کردہ تجاویز اور حیلوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’بقیہ دو سے لے کر نو تک (یعنی) آٹھ تجاویز ایسی ہیں کہ جو موجودہ سرمایہ داری نظام کے بینکاری نظام کو ایک بدلی ہوئی شکل میں پیش کرتی ہیں۔ ان میں اسلام کو بھی کھینچ تان کر لایا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود اسلامی تعلیمات سے ان کی مناسبت پیدا نہیں ہوسکتی۔‘‘ (۳)
پروفیسر صاحب کی دیگر تقریرات سے بالکلیہ اتفاق سے قطع نظر‘ مذکورہ عبارت سے اتنی بات ضرور معلوم ہوتی ہے کہ دو مثالی طریقوں سے ہٹ کر جو تجاویز دی گئی ہیں وہ اصل اسلامی تعلیمات کی روح سے مناسبت نہیں رکھتیں، بلکہ ان میں اسلام کو کھینچ تان کر لایا گیا ہے، البتہ عبوری دور کے لیے پیش کیے گئے تھے، تاکہ فوری اور سخت مشکلات کا سامنا نہ ہو اور مثالی طریقوں کی تنفیذ آسانی اور سہولت کے ساتھ ہوسکے۔ 

بینکوں میں بیع مرابحہ / بیع مؤجل۔۔۔۔ مزید وضاحت 

۱۹۸۵ء میں پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کی کتاب ’’بلا سود بینکاری (عبوری خاکہ)‘‘ منظر عام پر آئی۔ اس کتاب میں انہوں نے ’’بیع مرابحہ / بیع مؤجل‘‘ کے عنوان سے مرابحہ اور اس کی شرائط پر بحث کرنے کے بعد اس کے محدود الاستعمال ہونے کی تصریح کی ہے: 
’’بنا بریں کاروبار وتجارت سے متعلقہ ان معاملات میں جہاں مشارکہ یا قرضِ حسنہ وغیرہ کے ذرائع ناممکن العمل ہوں بیع مؤجل کی مذکورہ بالا صورت کو احسن شرائط کے ساتھ اپنایا جاسکتا ہے۔‘‘(۴)
ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کی اسی کتاب کے آغاز میں جناب جاوید القادری صاحب نے حقیقتِ حال کی طرف توجہ دلانے کے لیے ’’آپ کی توجہ کے لیے‘‘ کے عنوان سے صاف الفاظ میں ذکر کیا ہے کہ یہ نظام محض عبوری دور کے لیے ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: 
’’اس نظام کی حیثیت محض عبوری تھی اور طے یہ پایا تھا کہ حکومت مستقل بنیادوں پر غیر سودی بینکاری کے نفاذ کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گی۔ یہ عبوری خاکہ بلا سود بینکاری کی منزل تک پہنچنے کا محض ایک ذریعہ تھا۔ صاف ظاہر ہے کہ اگر منزل ہی نظر سے اوجھل ہوجائے اور ذریعہ بجائے خود منزل قرار پاجائے تو اس کی افادیت ہی ختم ہوکر رہ جاتی ہے اور وہ ایک مذاق بن کر رہ جاتا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ حکومت اس عبوری ڈھانچے کے نفاذ کے بعد فوری طور پر بلاسود بینکاری کے مستقل نظام کے نفاذ کے لیے کوششیں شروع کردیتی، لیکن یوں لگتا ہے جیسے وہ اسی پر مطمئن ہو کر بیٹھ گئی ہے اور اس نظام کو مستقل بنیادوں پر منظم کرنے کا بظاہر کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔‘‘ (۵)
اسی بات کی طرف جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب نے بھی شروع کتاب میں ’’ضروری عرض داشت‘‘ کے عنوان کے تحت ان الفاظ کے ساتھ اشارہ کیا ہے:
’’لیکن یہ بھی اشد ضروری ہے کہ ان مراحل کو عبوری دور ہی سے تعبیر کیا جائے، نہ کہ انہیں مستقل اقدامات سمجھ کر انہی پر اکتفا کرلیا جائے، ورنہ اندریں صورت نہ صرف منزل نظر سے اوجھل ہوجائے گی، بلکہ ان ذرائع کی افادیت بھی برقرار نہ رہ سکے گی۔‘‘ (۶)

بیع مؤجل / مرابحہ کی نئی تعبیروتکییف

۱۴۱۲ھ مطابق ۱۹۹۱ء میں ’’مجلسِ تحقیقِ مسائلِ حاضرہ‘‘ نے بلا سود بینکاری کے حوالے سے کیے جانے والے اجلاس میں بھی مرابحہ کو بطور مثالی طریقۂ تمویل پیش نہیں کیا، بلکہ ناممکن العمل معاملات میں اس کی تجویز پیش کی۔ چنانچہ اجلاس کی روداد میں لکھا ہے:
’’جن معاملات میں شرکت یا مضاربت پر عمل ممکن نہیں ہے، وہاں ’’مرابحۂ مؤجلہ‘‘ پر عمل کی تجویز پیش کی گئی ہے۔‘‘ (۷)
۱۴۱۳ھ اور ۱۴۱۴ھ مطابق ۱۹۹۲ء اور ۱۹۹۳ء میں جامعہ دارالعلوم کراچی میں کچھ حضرات کے لیے جدید معاشیات کے موضوع پر کچھ دروس ہوئے، بعد میں اس کورس کے اسباق ’’اسلام اور جدید معیشت وتجارت‘‘ کے نام سے مرتب ہو کر کتابی شکل میں منظرِ عام پر آئے۔ اس مجموعہ میں مرابحہ مؤجلہ پر بحث کرتے ہوئے‘ اس کے طریقِ کار کی نزاکت کو ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے:
’’لیکن یہ انتہائی نازک طریقہ ہے، اس میں ذرا سی بے احتیاطی اس کو سودی نظام سے ملادیتی ہے۔‘‘ (۸)
۱۹۹۸ء میں اس موضوع پرایک اور کتاب ’’اسلامک فائنانس‘‘ منظرِ عام پر آئی، جس کا اردو ترجمہ ’’اسلامی بینکاری کی بنیادیں‘‘ کے نام سے کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں مرابحہ مؤجلہ پر مفصل بحث کی گئی ہے اور جا بجا اس بات کی صراحت کی ہے کہ مرابحہ بنیادی طور پر مثالی طریقۂ تمویل نہیں ہے، بلکہ سود سے بچنے کا ایک وسیلہ اور حیلہ ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
’’یہ بات کسی صورت نظر انداز نہیں ہونی چاہیے کہ مرابحہ اپنی اصل کے اعتبار سے طریقۂ تمویل نہیں ہے، یہ تو صرف سود سے بچنے کا ایک وسیلہ اور حیلہ ہے، ایسا مثالی ذریعۂ تمویل نہیں ہے جو اسلام کے معاشی مقصد کی تکمیل کرتا ہو۔ اس لیے معیشت کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے عمل میں اسے ایک عبوری مرحلے کے طور پر استعمال کرنا چاہیے اور اس کا استعمال انہی صورتوں تک محدود رہنا چاہیے جہاں مشارکہ اور مضاربہ قابلِ عمل نہیں ہیں۔‘‘ (۹)
اسی کتاب میں چند صفحات کے بعد ارشاد ہے:
’’مرابحہ اپنی اصل کے اعتبار سے کوئی طریقۂ تمویل نہیں ہے، یہ ایک سادہ بیع ہے جو اصل لاگت پر اضافے کے تصور پر مبنی ہے۔ لیکن اس میں مؤجل ادائیگی کا تصور شامل کرکے اسے صرف ان صورتوں میں طریقۂ تمویل کے طور پر استعمال کرنے کا راستہ نکالا گیا ہے، جہاں کلائنٹ (مشتری، خریدار) واقعی کوئی چیز خریدنا چاہتا ہے، اسی لیے نہ تو اسے مثالی طریقۂ تمویل کے طور پر اختیار کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسے ہر قسم کی تمویل کے لیے عمومی طریقے کے طور پر اختیار کیا جاسکتا ہے، اسے مشارکہ اور مضاربہ پر مبنی مثالی تمویلی نظام کی طرف ایک عبوری قدم کے طور پر اختیار کیا جاسکتا ہے، وگرنہ اس کا استعمال انہی صورتوں تک محدود رہنا چاہیے جہاں مشارکہ اور مضاربہ کام نہیں دیتے۔‘‘ (۱۰)
مرابحۂ مؤجلہ کی بحث کے اختتام پر صاحبِ کتاب نے مرابحہ کی حیثیت آشکارا کرنے کے بعد احتیاط کی بھرپور تاکید کرتے ہوئے فرمایا: 
’’یہ بات پوری احتیاط کے ساتھ مدنظر رکھنی چاہیے کہ مرابحہ ایسا معاملہ ہے جو سرحد پر واقع ہے، اور بیان کردہ طریقۂ کار سے معمولی سا بھی ہٹنے سے قدم سودی تمویل کے ممنوعہ علاقے میں واقع ہوجاتے ہیں، اس لیے یہ معاملہ پوری توجہ اور احتیاط کے ساتھ کرنا چاہیے اور شریعت کے کسی بھی تقاضے میں کوتاہی نہیں برتنی چاہیے۔‘‘ (۱۱)
۲۰۰۴ء میں یا اس کے کچھ آگے پیچھے ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کے اسلامی بینکاری کے موضوع پر کئی محاضرات ہوئے۔ وہ قانون، فقہ اسلامی اور معاشیات پر ماہرِ فن کا درجہ رکھتے ہیں، مزید یہ کہ پاکستان میں اسلامی بینکاری کے سفر کے بہت سے واقعات کے چشم دید گواہ بھی ہیں، اس لیے ان کی بات کو خاص مقام، اعتبار و استناد حاصل ہے۔
مروجہ اسلامی بینکوں میں رائج مرابحہ کا تعارف کرواتے ہوئے وہ فرماتے ہیں:
’’ایک اور طریقہ جس پر آج کل بہت زیادہ عمل درآمد ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ وہ مرابحہ کا طریقہ ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ طریقہ کار نامناسب بل کہ غلط ثابت ہوا ۔۔۔۔۔۔ اس کا نتیجہ مثبت نکلنے کے بہ جائے منفی نکل رہا ہے۔ اس وقت مرابحہ کے نام پر جو کاروبار ہورہا ہے وہ بیشتر اسلامی بینکوں کا اگر ۹۹ نہیں تو ۸۰، ۹۰ فیصد تو ضرور ہے۔ آج بینکوں کے ۸۰، ۹۰ فیصد کام مرابحہ کی بنیاد پر ہورہے ہیں اور مرابحہ کی جو بھی شکل رائج ہے وہ اپنے چند ظواہر سے قطعِ نظر اپنی روح اور نتائج کے اعتبار سے روایتی سودی کاروبار سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ اسی کی وجہ سے اسلامی بینکوں کے معاملات پر اعتراض یا سوالیہ نشان کی گنجائش بھی محسوس ہوتی ہے۔‘‘ (۱۲)
مرابحہ کی حیثیت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’اس کا ایک حیلہ تجویز کیا گیا جو میرے خیال میں بہت کمزور حیلہ تھا، اور مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں کہ وہ افسوس ناک حیلہ ہے۔‘‘ (۱۳)
حضرت غازی صاحب نے آگے اس بات پر گفتگو فرمائی ہے کہ اگر اس حیلے کی بھی پوری پابندی ہوئی ہوتی تو بھی غنیمت تھا، لیکن اس پر بھی پوری پابندی نہیں ہوئی۔ اور اگر پوری پابندی ہو بھی تو کیا یہ کوئی مثالی طریقۂ تمویل ہے؟ آگے علی سبیل التسلیم ڈاکٹر غازی صاحب نے اِن الفاظ کے ساتھ اظہارِ خیال کیا ہے:
’’اگر یہ ساری چیزیں سو فیصد اس طریقۂ کار کے مطابق ہوں جب بھی یہ اسلامی بینکاری کا کوئی آئیڈیل یا مثالی متبادل نہیں ہے۔ یہ محض ایک حیلہ تھا، جو بعض لوگوں نے تجویز کیا اور بینکوں کے اس اصرار یا تامل کی وجہ سے کہ ہم بہ راہِ راست کاروبار میں حصہ نہیں لے سکتے، اس حیلے کی ضرورت پڑی، جس کی وجہ سے بعض حضرات کو اسلامی بینکاری پر اعتراض کا موقع ملا۔‘‘ (۱۴)
محترم قارئین! نظریاتی کونسل کی رپورٹ سے لے کر اب تک ہم نے جتنی کتابوں سے اقتباسات نقل کیے ہیں، وہ تمام اقتباسات اس ایک حقیقت پر متفق نظر آتے ہیں کہ مروجہ اسلامی بینکوں میں تاجروں کو سرمائے کی فراہمی کے لیے مرابحہ کے نام سے جو معاملہ ہورہا ہے، اس مرابحہ کی ابتدائی حیثیت محض ایک حیلہ کی ہے، جس کا تمام مطلوبہ شرائط کے باوجود استعمال محدود ہونا چاہیے۔ اس کی تجویز محض عبوری دور کے لیے دی گئی تھی، مستقل بنیاد کے طور پر اس کا استعمال کرنا اس کے صحیح ہونے کے باوجود اسے غلط ٹھہراتا ہے اور عمل ومآل کے اعتبار سے بینکاروں کو سودی سرحد میں داخل کروانے کا ذریعہ بنتا جارہا ہے۔ 
اس تقریر دل پذیر سے اتنی بات تو طے پاگئی کہ مرابحہ اگر اپنے مطلوبہ شرائط کے ساتھ ہو تو تاجروں کو سرمائے کی فراہمی کا اسلامی بہانہ ہونے کی بنا پر اس کی حیثیت محض ایک حیلہ کی ہے، جس کا استعمال محدود ہونا چاہیے۔ اس کی تجویز عبوری دور کے لیے دی گئی تھی، مستقل بنیاد کے طور پر اس کا استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ 

حواشی و حوالہ جات

۱:- غیر سودی بینکاری، مفتی محمد تقی عثمانی صاحب، معارف القرآن: ص: ۳۶۳
۲:- فقہی مقالات، مفتی محمد تقی عثمانی، میمن اسلامک پبلشرز، ج: ۲، ص: ۲۵۹ تا ۲۶۱ 
۳:- اسلامی ریاست کا مالیاتی اور بینکاری نظام، پروفیسر رفیع اللہ شہاب، دوست ایسوسی ایٹس، اردو بازار لاہور، اشاعت ۱۹۹۶ء : ص: ۱۹۲
۴:- بلا سود بینکاری عبوری خاکہ، ڈاکٹر محمد طاہر القادری، منہاج القرآن، لاہور، اشاعت بار سوم، ۱۹۸۷ء، ص: ۶۳
۵:- بلا سود بینکاری عبوری خاکہ ، ڈاکٹر محمد طاہر القادری، عنوان: ’’آپ کی توجہ کے لیے‘‘ کے تحت
۶:- بلاسود بینکاری عبوری خاکہ، ص:۱۸
۷:- احسن الفتاویٰ، مفتی رشید احمد صاحبؒ، ایچ ایم سعید کمپنی، ج: ۷، ص: ۱۱۹
۸:- اسلام اور جدید معیشت وتجارت، مفتی محمد تقی عثمانی، مکتبہ معارف القرآن، جولائی ۲۰۱۰ء، ص: ۱۷۱
۹:- اسلامی بینکاری کی بنیادیں، مفتی محمد تقی عثمانی، مکتبۃ العارفی، فیصل آباد، ص: ۹۳  
۱۰:- اسلامی بینکاری کی بنیادیں، ص:۱۳۸         ۱۱:- اسلامی بینکاری کی بنیادیں، ص:۱۴۰
۱۲:- اسلامی بینکاری ایک تعارف، ڈاکٹر محمود احمد غازی، ص: ۱۷۱
۱۳:- ماخذ سابق، ص: ۱۷۲        ۱۴:- ماخذ سابق، ص: ۱۷۳                                (جاری ہے)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین