بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مرابحہ مؤجَّلہ اِرتقائی،واقعاتی اور تجزیاتی مطالعہ     (دوسری قسط)

مرابحہ مؤجَّلہ

اِرتقائی،واقعاتی اور تجزیاتی مطالعہ     (دوسری قسط)

 

 

اسلام کا بنیادی معاشی نقطۂ نظر جان لینے کے بعد اب ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ سرمایہ دارانہ نظام کا تاریخی پس منظر کیا ہے؟ سرمایہ دارانہ نظام کے اصول اور خصوصیات کیا ہیں؟ سرمایہ دارانہ اور عادلانہ نظامِ معیشت کے درمیان حدِّ فاصل اور فرق کیا ہے؟

سرمایہ دارانہ نظام کا تاریخی پسِ منظر 

دنیا کے عادلانہ نظام کے مقابلہ میں سرمایہ دارانہ نظام نے ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں اُبھرنے اور دنیا پر چھاجانے کی سعی کی ہے اور اس کو اپنی اس سعی میںکامیابی بھی ہوتی رہی ہے۔ قریبی زمانے میں ایسی سعی وکوشش کا ترقی یافتہ نظام ’’فسطائیت ‘‘ کے نام سے موسوم ہے، جو یورپ کی حکومتوں میں جرمنی اور اٹلی پر خصوصیت کے ساتھ حاوی ہے اور انگلستان وفرانس کو بڑی حد تک فتح کرلیا ہے اور امریکہ اور جاپان بھی اس کے لیے گہوارہ بنے ہوئے ہیں۔
یورپ میں تقریباً پندرہویں صدی عیسوی سے دورِ جہالت ختم اور دورِ علم وترقی شروع ہوگیا تھا اور بعض یورپین حکومتیں دنیا کی جدید دریافت اور حصولِ زر ومال کے لیے اِدھر اُدھر تگ ودو میں منہمک نظر آنے لگی تھیں، اس وقت انگلستان میں جاگیرداری اور شاہی استبدادیت کا دور دورہ تھا، مگر آہستہ آہستہ تجارتی اور کاروباری طبقہ مضبوط ہوتا جارہا تھا اور بعض سیاسی حالات نے ان کی قوت کو اور زیادہ مضبوط بنادیا تھا اور وہ ملک کی بہت بڑی طاقت سمجھے جانے لگے تھے، ان کا بیشتر کاروبار وتجارت ’’اُون کی تجارت‘‘ تھا۔ خاندانِ اسٹوارٹ جب انگلستان پر حکمران ہوا تو اس نے تاجروں کی بڑھتی ہوئی قوت سے خائف ہوکر تجارت پر قانونی پابندیاں عائد کرنی شروع کردیں، نتیجہ یہ نکلا کہ تاجر پیشہ طبقہ بغاوت پر آمادہ ہوگیا اور ۱۶۴۴ء میں انگلستان کی مشہور خانہ جنگی میں انہوں نے فتح پائی اور جاگیرداری کا خاتمہ کردیا اور شاہی نام کو برقرار رکھتے ہوئے شاہی اقتدار کو موت کے گھاٹ اُتاردیا۔ اب ان کو اپنی تجارت کے فروغ دینے کا کافی موقع میسر آیا اور قوانینِ حکومت کے ذریعہ ان کو بیش از بیش مدد ملی۔
اگرچہ انگلستان کے اس دور میں جاگیرداری سسٹم ختم ہوچکا تھا، مگر تجارت کے اس دور میں تجارت کا مفہوم عوام کی فلاح وبہبود نہ تھا، بلکہ مخصوص افراد اور خاص طبقہ کی برتری تھا ، اس لیے اس طبقہ نے ذاتی اور نجی کارخانے کھول کر دولت کمانی شروع کی اور قوانین کی مدد سے اس کی ترقی کے ممکن ذرائع بہم پہنچائے، لیکن ابھی تک چونکہ کارخانوں میںصرف ہاتھ ہی سے کام ہوتا تھا، اس لیے آمدنی بھی محدود ہوتی تھی اور مال بھی حسبِ ضرورت تیار نہ ہوپاتا تھا اور دولت وسرمایہ کے پجاری فروانیِ دولت کے دوسرے بہترین ذرائع کے لیے بے قراری کے ساتھ متلاشی نظر آتے تھے۔
تقریباً ڈیڑھ سو برس بعد یعنی اٹھارہویں صدی کے آخر میں مشینوں کی ایجاد شروع ہوگئی اور اب دستی کارخانوں کی جگہ مشینی کارخانوں نے لے لی اور اس طرح ان تاجروں اور سرمایہ داری کے مخصوص طبقہ نے دولت کے بے شمار خزانے حاصل کرنے شروع کردیئے۔ یہ ایک قدرتی بات تھی کہ جب مشینوں کے ذریعے کام شروع ہوگیا تو دست کاروں پر آفت نازل ہوگئی (۱) اور چھوٹے چھوٹے سرمایہ داروں کو اپنا کام بند کردینا پڑا اور افلاس کی مصیبت سے محفوظ رہنے کے لیے مشینی کارخانوں میں ایک مزدور کی حیثیت سے وہ اپنی ’’محنت‘‘ کو کم سے کم قیمت پر بیچنے کے لیے مجبور ہوئے اور کارخانہ دار ہونے کے بجائے مشین مالک کے غلام بن کر رہنے کے سوا کوئی چارۂ کار نظر نہ آیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب جب کہ مشینوں کا دور شروع ہوا تو زمینداروں نے کاشت بھی مشینوں کے ذریعہ شروع کردی اور کسانوں کی رہی سہی معاشی سبیل کو اس طرح ختم کردیا گیا اور اب ان کے لیے بھی بجز غلامانہ مزدوری کے اور کوئی چارۂ کار نہ رہا اور پھر بھی ایک بہت بڑی تعداد کی قُوت لایموت کے لیے سامان مہیا نہ ہوسکا اور طرفہ تماشا یہ کہ مشینوں کے اس صنعتی انقلاب نے ان دونوں ’’کاریگروں‘‘ اور ’’کسانوں‘‘ کو دیہات و قصبات کی آزاد اور پُرفضا زندگی کو خیرباد کہہ کر شہروں کے غلیظ اورگندے مقامات میں غلامی کی طرح آباد ہونا پڑا۔
صنعتی انقلاب کا یہ وہ ابتدائی دور تھا جس میں فیکٹریوں کے متعلق نہ قوانین تھے اور نہ مزدوروں کی ترقی یافتہ یونین تھی، لہٰذا سرمایہ داروں نے من مانی حکومت کی اور اپنی فراوانیِ دولت کے لیے مزدوروں پر بے پناہ مظالم روا رکھے، اُن سے چودہ سے لے کر سولہ گھنٹے تک عموماً کام لیا جاتا اور بعض اہم کاموں کے موقع پر مسلسل بیس سے تیس گھنٹے تک بھی ان کو مصروف رہنا پڑتا، اور اس طرح ضعیف وناتواں افراد بہت جلد موت کے منہ میں چلے جاتے تھے۔ طرفہ تماشا یہ کہ اس بہیمانہ محنت کرانے کے بعد ان کو کم سے کم اُجرت دی جاتی تھی اور رہنے کے لیے ایک چھوٹی کوٹھڑی یا ایک ایسا کمرہ دیا جاتا تھا جس میں بہ مشکل لیٹنے کے لیے جگہ میسر آسکتی تھی اور وہ غلاظت ، عفونت اور کمروں میں ہوا کے نفوذ کے لیے جگہ نہ ہونے کی وجہ سے جہنم زار بنے ہوتے تھے۔
سرمایہ داری کا یہ وہ بھیانک نقشہ ہے جو سب سے پہلے انگلستان میں بروئے کار آیا اور اس کے بعد یورپ کی تمام حکومتوں پر اصول بن کر چھا گیا، چونکہ سرمایہ داری کے اس سسٹم میں مفادِ عامہ اور عوام کی فلاح وبہبود کا کوئی سوال ہی نہ تھا، بلکہ ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت سے ناجائز فائدہ اُٹھاکر تمام ذرائع پیدائش کو اپنی ذاتی مفاد کے لیے خاص کرلیا جاتا تھا، اس لیے فیکٹریوں اور مشینوں میں جو سامان تیار ہوتا تھا وہ کم سے کم اُجرت دے کر زائد سے زائد مال تیار کرانے اور ذاتی فائدہ حاصل کرنے کے اُصول پر عالمِ وجود میں آتا تھا، اس لیے گوداموں میں مال کی فراوانی ہونے لگی اور نکاسی کی محدود راہوں کی وجہ سے مال ضائع ہونے لگا، نیز اس فراوانی سے مزدوروں اور غریبوں کو مطلق فائدہ نہ پہنچا اور وہ اپنی ضروریات کے لیے ان چیزوں کی خریداری سے اب بھی اسی طرح محروم رہے جس طرح مال کے بنانے کے ابتدائی دور میں تھے۔ لہٰذا سرمایہ داری کے اس بھوت نے دوسرے ممالک پر لالچ اور حرص کی نگاہ ڈالنی شروع کردی اور ’’ہل من مزید‘‘ پکارتے ہوئے ان کو محکوم بنانے کے لیے قدم آگے بڑھایا اور اپنی جوع الارض (زمین کی بھوک) کوپورا کرنے کے لیے اپنے ملک کے آزاد کاروباری لوگوں کو غلام بنانے کے بعد کمزور ملکوں اور قوموں کو غلام بنانا شروع کردیا اور اٹھارہویں انیسویں صدی میں افریقہ جیسے براعظم میں یورپین نوآبادیات کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ہندوستان جیسا بڑا ملک بھی آخر اسی استعمار کی نظر ہوگیا اور اس طرح تھوڑے سے عرصہ میں ساری دنیا ایک طرح انگلستان کے سرمایہ داروں کی خصوصاً اور دوسری سرمایہ دار طاقتوں کی عموماً تجارتی منڈی بن گئی۔ (۲)

سرمایہ دارانہ نظام کے اُصول وخصوصیات

حضرت مولانا محمدحفظ الرحمن سیوہاروی رحمہ اللہ نے سرمایہ دارانہ نظام کے درج ذیل تین اصول لکھے ہیں:
۱:- تمام ذرائع پیداوار افراد کے ہاتھوں میں اس طرح آزاد ہوں کہ ان کا مفاد مخصوص افراد کے حق میں ثابت ہو، نہ کہ جماعت اور سماج کی اکثریت کے حق میں۔
۲:- پیداوار نجی فائدہ کے اصول پر ہو، نہ کہ عوام کی ضروریات کے فائدہ کے اُصول پر اور اس لیے وہ ضروریات کے تخمینہ کی مطابقت کی بجائے ذاتی اغراض کے اندھا دھند طریقہ پر ہو۔
۳:-ان ہر دو مقاصد کو کامیاب بنانے کے لیے ایسے طرزِ حکومت کی طرح ڈالی جائے، جس میں قوانین کے ذریعے سرمایہ داری کی حفاظت وترقی کا سامان فراہم ہوسکے۔ (۳)
سرمایہ دارانہ نظام کی چند خصوصیات درج ذیل ہیں:
۱:- ملک میں سرمایہ داروں کی جاگیرداری کی حفاظت، اُن کے اہداف کا حصول، ان کے اموال کی نگہبانی، ان کے مصالح کی نگہداشت، ان کی کمائی، مالی حالات اور امتیازی شان کا تحفظ ہے۔
۲:- سرمایہ داروں کا مزدور طبقہ پر اپنی بالادستی قائم کرنا اور اپنے منافع، جاگیر اور امتیازات کے حصول کے لیے ان کو کام کے لیے سازگار ماحول اور منصفانہ اور خاطر خواہ اُجرت فراہم کیے بغیر ان کی جاں گسل متواتر محنت کو بروئے کار لانا، یعنی مزدور کا خون جلے، اس کاپسینہ بہے، اس کی جان پگھلے، لیکن مزے سرمایہ دار لوٹے۔ علامہ اقبال مرحوم کی آنکھوں میں مظلوم مزدور کا یہی انسانیت سوز منظر گردش کررہا تھا، جس نے ضبط کے بندھن کو توڑ کر ان کو دردِ دل کہنے پر مجبور کردیا تھا:

تو قادر و عادل مگر تیرے جہاں میں

ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے حالات
کارخانے کا ہے مالک مردکِ ناکردہ کار

عیش کا پتلا ہے محنت ہے اسے ناسازگار
حکم حق ہے لیس للإنسان إلا ماسعٰی

کھائے کیوں مزدور کی محنت کا پھل سرمایہ دار

۳:- وافر منافع، کثرتِ املاک اور وسیع امتیازات کے حصول کے لیے مہنگی ترین اشیاء کی پیداوار پر توجہ مرکوز کرنا۔
۴:- ضروریاتِ زندگی کی پیداوار کو کم قیمتی کی بناپر معطل کرنا، جب کہ لوگوں کو اس کی زیادہ حاجت ہوتی ہے۔ (۴)
 سرمایہ دارانہ اور عادلانہ نظامِ معیشت کے درمیان حدِّ فاصل اور فرق کیا ہے؟ آگے ہم اس سوال کے جواب کے درپے ہوں گے۔ آئیے! حدِّ فاصل اور فرق جاننے کی کوشش کریں:

سرمایہ دارانہ اور عادلانہ نظامِ معیشت میں حدِّ فاصل اور فرق

ابتدائے عالمِ انسانی میں ہمیشہ دو نظریئے کار فرما ہیں:
۱:- عادلانہ نظام        ۲:- سرمایہ دارانہ نظام
پہلے نظریئے کا مقصد دنیا میں عادلانہ نظام ہو، یعنی چھوٹے بڑے، امیروغریب کا امتیاز نہ ہو، بلکہ حقِ معیشت کی مساوات قائم رہے، وہ اس کا طالب نہیں کہ سب کی معیشت کے سامان ایک ہی طرح کے ہوں، مگر اس کا اصل پہلو یہ ہے کہ سب کی ترقی کی راہیں سب پر یکساں طور پر کھلی رہیں۔
دوسرا نظریہ یہ کہ دنیا کے کارخانے میں قدرتِ کاملہ کے ہاتھوں انسانی مخلوق کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے، کچھ خدائی اور آقائی کے لیے پیدا کیے گئے ہیں اور کچھ بندگی، محکومی اور تابعداری کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ بعض انسانی گروہ دولت وثروت میں کھیلیں، جائز وناجائز طریقے سے دولت سمیٹیں اور خدائی نعمتوں کو صرف اپنے ہی لیے مخصوص کرلیں، اور دوسرا طبقہ مفلس ومحتاج رہے اور نانِ جویں کے لیے بھی ترسے اور ہمیشہ غریب ونادار رہیں، یہ نظریہ طاغوتیوں اور شیطانوں کا ہے۔ (۵)
یہ دو متضاد نظریئے اور دو مختلف نظام ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ عادلانہ اور سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت میں حدِّ فاصل بنیادی طور پر ’’حلال وحرام کی تمییز‘‘ ہے، لیکن اس کے علاوہ بھی ان دونوں نظاموں میں حد درجہ کا تفاوت، نشیب وفراز بلکہ زمین وآسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ ذیل میں ملاحظہ فرمائیے:

اسلام کا اقتصادی نظام

۱:-دولت وذرائعِ دولت کا مخصوص طبقہ میں محدودہوکر عوام کی معاشی ہلاکت کا باعث بننا حرام ہے۔

۲:-انفرادی ملکیت پر شرائط کی حدود عائد ہیں۔

۳:- انفرادی ملکیت اجتماعی حقوق کے زیرِ اثر ہے۔

۴:-اقتصادی نظام کی بنیاد عوام کے مفاد اور حاجات کے انسداد پر قائم ہے۔

۵:-عام معاشی خوشحالی ضروری ہے۔

۶:-معاشی دستبرد کے ذریعہ حاکمیت ومحکومیتِ اقوام لعنت ہے۔

۷:-اکتناز (جمع خزانہ) واحتکار (اجتماعی حقوق سے باز رہنا) کی مطلق گنجائش نہیں۔

۸:-نسلی، خاندانی اور جغرافیائی امتیازات اس سلسلہ میں قابل تسلیم نہیں۔

 

فسطائی (سرمایہ دارانہ ) اقتصادی نظام

۱:-دولت وذرائعِ دولت کو مخصوص طبقہ کی انفرادی واجتماعی اغراض کے لیے ہونا از بس ضروری ہے۔

۲:-انفرادی ملکیت لامحدود ہے۔

۳:-انفرادی ملکیت اجتماعی حقوق اور مفادِ عامہ سے مستغنی وبالاتر ہے۔

۴:-اقتصادی نظام کی بنیاد مخصوص افراد اور خاص طبقہ کے مفاد پر قائم ہے۔

۵:-عوام کی معاشی تباہی وکساد بازاری اس کا لازمی نتیجہ ہے۔

۶:-معاشی دستبرد کے ذریعے غلامی اور اقوام کی محکومی لازمی وضروری ہے۔

۷:-اکتناز واحتکار ضروری اور موجبِ سعادت امورِ اقتصادی ہیں۔

۸:-نسلی، جغرافیائی اور طبقاتی امتیازات ضروری ہیں۔ (۶)

بینک اور سرمایہ کاری

گزشتہ صفحات میں ہم یہ بات بھرپور وضاحت کے ساتھ جان چکے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام محض ایک استحصالی نظام ہے۔ انسانیت سوز اور ظالمانہ نظام ہے جو اسلامی نظامِ اقتصاد کے سراسر خلاف اور اس کی ضد ہے۔ اب آگے ہم مطالعاتی تناظر میں اس بات کوجاننے کی سعی کریں گے کہ کیا بینک سرمایہ دارانہ ادارہ ہے؟ بینک کیسے سرمایہ کاری کرتا ہے؟ کیا بینک کی سرمایہ کاری عالمِ انسانیت پر اثر انداز ہورہی ہے؟
جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی جو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ’’اسلامک بینکنگ ڈیپارٹمنٹ‘‘ کے چیئرمین (سربراہ) ’’الشریعہ اپیلنٹ بینچ‘‘ کے رکن، جنرل مشرف کے دور میں ’’وزیر مذہبی اُمور‘‘ اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن رہے ہیں اور ہمارے روایتی علوم سے بھی انہیں درس گانہ تعلق تھا، انہوںنے بینک کاری نظام کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ’’صاحب الدار أدرٰی بما فیہا‘‘ کے مصداق اُن کی بات کو استناد کا درجہ حاصل ہے۔ اس لیے ذیل میں ان کی زبانی ’’بینک اور سرمایہ کاری‘‘ کا تعارف پیش کرتے ہیں، ڈاکٹر صاحب کا اقتباس طویل سہی، مگر بینک کاری کے تعارف، روح وغرض، مقصد وہدف ، وسعت واثر اندازی اور سرمایہ اندوزی کے جامع فوائد پر مشتمل ہے، اس لیے طویل اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ یہ بات تو ہم میں سے ہر ایک جانتا ہے کہ جس ادارے کو ہم بینک کہتے ہیں، یہ ایک خالصتاً مغربی ادارہ ہے، مغربی دنیا ہی میںپروان چڑھا ہے اور معاشیات کے جس تصور پر مبنی ہے وہ بھی خالصتاً ایک مغربی تصور ہے اور مغربی اصطلاحات ہی میں اس تصور کو بیان کیا جاسکتا ہے، لہٰذا یہ بات پہلے ہی مرحلے میں واضح طور پر جان لینی چاہیے کہ بینک اپنی اصل، آغاز اور روح کے اعتبار سے ایک مغربی ادارہ ہے۔
اسلامی تاریخ میں نہ اس نام کا کوئی ادارہ تھا، نہ یہ لفظ مسلمانوں کے لیے مانوس تھا، اور نہ اُن مقاصد کے لیے جوبینک کاری کے ذریعہ حاصل کیے جاتے ہیں، کوئی جداگانہ ادارہ اسلامی دور میں موجود تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب بینک سے مراد ہے وہ ادارہ جوقرضوں کا کاروبار کرتا ہو اور قرضوں کا لین دین کرتا ہو۔ یہ بینک کاری کے نظام کا آغاز تھا، جیسے جیسے مغربی دنیا کی معاشیات ترقی کرتی گئی، بینکوں کا ادارہ بھی ترقی کرتا گیا اور یہ بات ہم میں سے ہر ایک کے علم میں ہے کہ مغربی دنیا کے بڑے بڑے ممالک ایک طویل عرصے دنیائے اسلام کے مختلف علاقوں پر استعماری قوتوں کے طور پر قابض رہے ہیں۔ دنیائے اسلام کے بڑے بڑے علاقوں اور وہاں کے وسائل کو انہوں نے اپنے تصرف میں لاکر خوب خوب استعمال کیا، اور وہاں سے حاصل کی ہوئی دولت کو اپنی تجارت اور صنعت میں لگایا اور اس طرح بین الاقوامی تجارت کو ایک باقاعدہ ادارے کی شکل دے دی۔
یہ ایک ایسی بین الاقوامی تجارت تھی، جس کا مقصد ایک خاص نسل کی پرورش اور خدمت تھا، انسانیت کی خدمت نہ تھا، چناں چہ انگریزوں نے ہندوستان سے، فرانسیسیوں نے شمالی افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ سے، ولندیزوںنے مشرقِ بعید سے دولت جمع کرکے اپنے اپنے ملکوں میں بھیجنی شروع کی اور اپنے اپنے ملکوں کی معیشت کو انتہائی مضبوط اور بہتر بنیادوں پر قائم کرلیا۔ دنیائے اسلام تیزی سے فقروفاقے اور معاشی پس ماندگی کا شکار ہوتی گئی اور مغرب کے استعماری ممالک اسی رفتار سے ترقی کرتے گئے۔
چوں کہ اس تجارت کا اصل مقصد دنیائے اسلام کے وسائل کو مغرب میں منتقل کرنا تھا، اس لیے اس پورے نظام کی اُٹھان اور اس پورے نظام کی ساخت یہ تھی اور ہے کہ کم زور اور بے اثر افراد واقوام کے سرمائے کو کھینچ کر طاقت ور اور بااثر قوموں تک منتقل کیا جائے۔ یہ اس پورے بینک کاری نظام کی روح اور اسپرٹ ہے۔ ۱۹۹۱ء یا ۱۹۹۲ء کے اعداد وشمار کے مطابق کیا صورت حال تھی ؟! وہ بطور مثال عرض کرتا ہوں، تازہ ترین اعداد وشمار اس وقت مجھے دست یاب اور مستحضر نہیں ہیں۔ وہ ان اعداد وشمار سے یقینا خاصے مختلف، منفی اور زیادہ ہول ناک ہوں گے۔
سن ۱۹۹۱ء ، ۱۹۹۲ء کے اعداد وشمار یہ تھے کہ پورے روئے زمین پر جو دولت اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے، جو وسائل روئے زمین پر پائے جاتے ہیں، ان کا ۸۱ فیصد دنیا کی ۱۹ فیصد آبادی کے کنٹرول میں تھا اور دنیا کی ۸۱ فیصد آبادی بقیہ ۱۹ فیصد وسائل کے اندر رہ کر زندگی گزارنے پر مجبور تھی۔ اور وہ ۱۹ فیصد وسائل بھی تیزی کے ساتھ دنیائے مغرب میں منتقل ہورہے ہیں اور پورے تسلسل کے ساتھ ہورہے ہیں۔ بینک کاری کا عالمی نظام یہی کام کرتا ہے۔ اس کی ساخت اور اُٹھان ہی ایسی ہے کہ وہ وسائل اور دولت کو مرتکز کرکے بڑے بڑے بینکوں کو منتقل کرتا رہتا ہے۔ یہ بڑے بڑے بینک جو پوری دنیا کی مالیات ومعیشت کو کنٹرول کرتے ہیں، مغرب کے بااثر لوگوں کے قبضے میں ہیں۔ بینک کاری نظام کی بنیاد اور اساس یہی ہے، جس کی طرف بہت کم لوگ توجہ دیتے ہیں۔
آپ پاکستان کی مثال لیں، پاکستان ایک زمانے میں خاصی معاشی پریشانی سے گزرا ہے۔ ۱۹۹۲ء اور ۱۹۹۳ء سے لے کر ۱۹۹۹ء تک ایک زمانہ ایسا تھا جب پاکستان کے پاس غیرملکی زرِ مبادلہ کے وسائل اتنے محدود تھے کہ ہفتے دو ہفتے سے زیادہ کی تجارت کی ادائیگیوں کے لیے کافی نہیں تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ملک کے پاس زرِ مبادلہ کی مد میں چھ سو، سات سو ملین، یا ساٹھ ستر کروڑ ڈالرز سے زیادہ کا سرمایہ نہیں تھا، بلکہ ایک وقت تو ایسا بھی آگیا تھا کہ حکومتِ پاکستان کے پاس چند ملین ڈالر سے زیادہ کا زرِ مبادلہ نہیں تھا۔ آج (۲۰۰۴ء میں) کہتے ہیں کہ الحمد للہ پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کوئی دس مہینے کی ادائیگی کے لیے کافی ہوگئے ہیں اور چودہ بلین یا چودہ ارب ڈالرز تک ان کی مقدار پہنچ گئی ہے۔ اس پر اربابِ حکومت آئے دن بہت خوشی اور اطمینان کا اظہار کرتے ہیں، کارپردازانِ ریاست آئے دن مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ یقینا یہ اطمینان کی بات ہے اور ہمیں اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے، لیکن یہ تکلیف دہ حقیقت نہیں بھولنی چاہیے کہ یہ بارہ، چودہ یا پندرہ ارب ڈالرز جو زرِ مبادلہ کی شکل میں حکومتِ پاکستان کے پاس بتائے جاتے ہیں، یہ پاکستان کے اندر کہیں نہیں ہیں، یہ مغربی دنیا کے بینکوں میں ہی جمع ہیں۔ یہ بینک آف امریکہ میں ہیں، یہ بینک آف انگلینڈ میں ہیں اور دنیا کے بڑے بڑے یہودی بینکوں کے پاس جمع ہیں۔ اگر وہ بہ یک جنبشِ قلم ان حسابات کو منجمد یا منسوخ کردیں یا اس رقم کو ضبط کرلیں یا فریز کردیں تو حکومتِ پاکستان صرف شورمچانے اور واویلا کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتی اور یہاں جلوس نکالنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا جاسکتا۔
یہ صورتِ حال سرمائے کی منتقلی کے اس پورے نظام کا ایک لازمی اور منطقی نتیجہ ہے جو عالمی بینکاری کی بنیاد ہے۔ یہ وہ سرمایہ ہے جو حکومتِ پاکستان نے یا پاکستان کے لوگوں نے اپنی قربانیوں سے بچایا ہے یا محفوظ کیا ہے، صرف اس لیے کہ ہمارے زرِ مبادلہ کا نظام چلتا رہے، بین الاقوامی تجارت چلتی رہے۔ ہماری خون پسینے کی کمائی سے حاصل ہونے والا یہ سارا سرمایہ بھی مغربی ملکوں میں ہے۔ یہی صورتِ حال چھوٹی سطح پر بھی پائی جاتی ہے۔
ہوتا یہ ہے کہ عام افراد سے ان کی بچتیں حاصل کی جاتی ہیں۔ یہاں فرض کیجیے کہ پانچ سو آدمی جمع ہیں، ان پانچ سو آدمیوں میں سے ہر ایک کی چھوٹی چھوٹی بچتیں ہیں، کسی کی ایک ہزار کی، کسی کی دو ہزار کی ہے، پانچ ہزار کی ہے۔ یہ ساری رقم بینکوں میں جمع ہے، مثلاً دس بینکوں میں جمع ہے، ان دس بینکوں کے سرمائے کا ایک بڑا حصہ ایک بڑے بینک میں جمع ہے، پھر چند بڑے بڑے بینکوں کا سرمایہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں جمع ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا سرمایہ بینک آف انگلینڈ اور بینک آف امریکہ میں جمع ہے۔ اس لیے ہماری اور آپ کی جتنی بھی سیونگ یا بچت ہے، وہ بالآخر دنیا کے چند بڑے بینکوں کے کنٹرول میں چلی جاتی ہے۔ چند بڑے سرمایہ داروں کی گرفت میں اس سرمائے کی لگامیں رہتی ہیں، وہ جس طرح چاہیں سرمائے کے اس گھوڑے کو یا سرمائے کی اس ٹرین کو چلاسکتے ہیں۔
یہ بینکنگ کے نظام کا ایک بنیادی خاصہ ہے۔اور اس نظام کی ساری اُٹھان پچھلے تین چار سو سال میں اسی بنیاد پر ہوئی ہے کہ مشرق اور جنوب کے ممالک کے، دنیا کے کم ترقی یافتہ ممالک اور کمزور اقوام سے سرمائے کو کھینچا جائے۔ ان کی دولت کو ہر تدبیر سے چوسا جائے اور چوس چوس کر اس کو دولت کے ایک بہت بڑے تالاب میں ڈالا جائے۔ دولت کا وہ بڑا تالاب بھی آزاد اور خودمختار نہ ہونے پائے، بلکہ اس میں نالیاں بناکر ایک زیادہ بڑے تالاب میں پہنچائی جائیں۔ اس بڑے تالاب سے ایک ایسے مرکزی تالاب میں پہنچائی جائیں، جس کی چابیاں اور کنجیاں ہمارے یا آپ کے ہاتھ میں نہیں ہیں، کسی اور کے ہاتھ میں ہیں۔
یہی بینکاری کا وہ نظام ہے جس پر دنیا کا معاشی نظام چل رہا ہے۔ یہ معاشی نظام سود، بینکاری اور آزاد منڈی کی معیشت کی سہ گانہ بنیادوں پر قائم ہے۔ یہ بنیادیں مغربی دنیا کے لیے اصولِ ایمان کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان کے بارے میں مغربی دنیا کسی نرمی، مصالحت یا مداہنت کے لیے تیار نہیں ہے، اس نظام کے تحفظ کی خاطر وہ سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہیں۔
اس وقت مغربی دنیا کے لیے جو بات سب سے زیادہ بنیادی حیثیت رکھتی ہے، جو گویا اب ان کا دین وایمان بن گئی ہے، وہ دو چیزوں کا تحفظ ہے: ۱:- سیکولر ڈیموکریسی، یعنی لامذہبیت پر مبنی اور دین ودنیا کی تفریق وتقسیم کے تصور پر استوار جمہوری نظام۔ ۲:- اور آزاد منڈی کی معیشت پر کاربند سودی نظام، اس وقت ان دونوں امور کا ہر قیمت پر تحفظ کرنا مغربی دنیا اپنے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ سمجھتی ہے۔ آج ان کا دین ان ہی اصولِ دوگانہ پر مبنی ہے۔ آج مغرب کی بالادستی اور قوت کا دارومدار عسکری قوت پر اتنا نہیں ہے جتنا اس کی معاشی قوت پر ہے، اس معاشی قوت کو حاصل کرنے اور برقرار رکھنے کے بڑے بڑے وسائل دو ہیں، ایک تو بینکاری اور مالیات کا یہ عالمی نظام جس نے پوری دنیا کو ایک مضبوط نظام میں جکڑ رکھا ہے۔ دوسرے وہ بڑی بڑی تجارتی کمپنیاں (ملٹی نیشنلز) جن کی حیثیت اب روز بہ روز وہی ہوتی جارہی ہے، جو آج سے اڑھائی سو سال قبل ایسٹ انڈیا کمپنی کی تھی۔
مزید رہی سہی کسر اب گلوبلائزیشن یا عالمگیریت کے نام سے آنے والی نئی پالیسیوں اور منصوبوں نے پوری کردی ہے۔ تجارت کے بین الاقوامی معاہدوں اور معیار بندی کے عالمی منصوبوں کے ذریعے مشرقی ممالک کی رہی سہی آزادی کو بھی ختم کردینے کے اقدامات تیزی سے کیے جارہے ہیں، اور فرصتِ تحمل کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے۔ جب تک اس نظام سے مکمل چھٹکارا حاصل نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک دنیائے اسلام کی مکمل آزادی اور اس کی تہذیب کے نمود واظہار کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ اس نظام سے چھٹکارا کیسے حاصل کیا جائے؟ ظاہر ہے کہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے، یہ بہت مشکل کام ہے۔ اس منزل تک پہنچنے کے لیے بڑی بڑی قربانیاں دینی پڑیں گی۔ ممکن ہے یہ قربانیاں ان قربانیوں سے بہت بڑی اور زیادہ ہوں، جو بیسویں صدی میںسیاسی آزادی کے لیے دی گئی تھیں۔ متنبّی کا مصرع استعمال کرتے ہوئے میں کہہ سکتا ہوں کہ اس منزل کو حاصل کرنے کے لیے بہت سے ہفت خواں طے کرنے پڑیں گے کہ اس راستے میں بڑے بڑے پہاڑ ہیں، ریگستان ہیں، تلواریں ہیں اور گردنیںمارنے والے ہیں اور گردنیں مارنے کا کام ہے۔ یہ سب کچھ اس تبدیلی کے راستے میں برداشت کرنا پڑے گا، مسائل ومشکلات کے اس سمندر سے گزر کر جانا ہی پڑے گا، یہ ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔
اس معاملے میں جنہوں نے چار سو برس کی طویل مدت اور ہزاروں تجربات سے گزرنے کے بعد یہ نظام بنایا ہے، وہ آپ کو آسانی سے اس کی اجازت نہیں دیں گے کہ آپ جب چاہیں اس نظام سے چھٹکارا حاصل کرکے آزاد ہوجائیں اور ان کے لیے دولتِ فراواں کے اس راستے کو بند کردیں۔ ان نالیوں کو بند کردیں جن نالیوں سے آپ کا سرمایہ ان کے ہاں جارہا ہے۔ (۷)
جناب ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کی زبانی ’’بینک اور سرمایہ کاری‘‘ کی کہانی آپ نے پڑھی۔ اس کہانی کا حاصل یہ ہے کہ بینک سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد واساس ہے۔ اس بنیاد کو کمزور یا ختم کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا آگ کا دریا عبور کرنا۔
بینک اپنی سرمایہ کاری کس شاطرانہ انداز سے کرتا ہے؟ عوام اور خاص کر غریب عوام کی دولت کو کیسے سمیٹتا ہے؟ اس بات کی وضاحت کے لیے مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کی کتاب سے ایک اقتباس پیشِ خدمت ہے:
’’رہا یہ قضیہ کہ بینکوں کے سودی کاروبار سے غریب عوام کا نفع ہے کہ انہیں کچھ تو مل جاتا ہے، یہی وہ فریب ہے جس کی وجہ سے انگریز کی سرپرستی میں اس منحوس کاروبار نے ایک خوبصورت شکل اختیار کرلی ہے کہ سود کے چند ٹکوں کے لالچ میں غریب یا کم سرمایہ داروں نے اپنی اپنی پونجی سب بینکوں کے حوالے کردی، اس طرح پوری ملت کا سرمایہ سمٹ کر بینکوں میں آگیا۔ اور یہ ظاہر ہے کہ بینک کسی غریب کو تو پیسہ دینے سے رہے، غریب کا تو وہاں گزر بھی مشکل ہے، وہ تو بڑے سرمایہ اور بڑی ساکھ والوں کو قرض دے کر ان سے سود لیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پوری ملت کا سرمایہ چند بڑے پیٹ والوں کا لقمہ بن گیا، جو آدمی دس ہزار کا مالک ہے، وہ دس لاکھ کا کاروبار کرنے لگا، اس سے جو عظیم الشان نفع حاصل کیا، اس میں سے چند ٹکے بینکوں کو دے کر باقی سب اپنا مال ہوگیا، بینک والوں نے ان ٹکوں میں سے کچھ حصہ ساری ملت کے پیسے والوں کو بانٹ دیا۔
 یہ جادو کا کھیل ہے کہ سرمایہ دار خوش کہ اپنا سرمایہ صرف دس ہزار تھا، نفع کمایا دس لاکھ کا، اور فریب خوردہ غریب اس پر مگن کہ چلو کچھ تو ملا، گھر میں میں پڑا رہتا تو یہ بھی نہ ملتا۔ لیکن اگر سود کے اس ملعون چکر پر کوئی سمجھ دار آدمی نظر ڈالے تو معلوم ہوگا کہ ہمارے یہ بینک ’’بلڈ بینک‘‘ بنے ہوئے ہیں، جن میں ساری ملت کا خون (بلڈ) جمع ہوتا ہے اور وہ چند سرمایہ داروں کی رگوں میں بھرا جاتا ہے، پوری ملت غربت وافلاس کا شکار ہوجاتی ہے اور چند مخصوص سرمایہ دارپوری ملت کے خزائن پر قابض ہوتے جاتے ہیں۔ جب ایک تاجر دس ہزار کا مالک ہوتے ہوئے دس لاکھ کا بیوپار کرتا ہے تو غور کیجیے کہ اگر اس کو نفع پہنچا تو بجز سود کے چند ٹکوں کے وہ سارا نفع اس کو ملا، اور اگر یہ ڈوب گیا اور تجارت میں گھاٹا ہوگیا تو اس کے تو صرف دس ہزار گئے، باقی نولاکھ نوے ہزار تو پوری قوم کے گئے، جس کی کوئی تلافی نہیں۔ (۸)
بینک کی سرمایہ کاری مزدور ومحنت کش غریب کسان کے بچوں کے منہ سے روزی کا آخری لقمہ کیسے چھینتی ہے؟ ڈاکٹر محمود الحسن عارف اس کا نقشہ اِن الفاظ سے کھینچتے ہیں:
’’ ایک غریب اور محنت کش انسان رات دن ایک کرکے ساری ساری رات پہرہ دے کر اور اپنی فصلوں سے جو محدود آمدن حاصل کرتا ہے، بینکوں کا موجودہ نظام اس کے اور اس کے بچوں کے منہ سے روزی کا آخری لقمہ بھی چھین لیتا ہے اور وہ محنت کشوں کی بچائی ہوئی رقم دوبارہ سرمایہ دار کے حوالے کردیتا ہے جو اس کے ذریعے بڑی بڑی فیکٹریاں اور ادارے قائم کرکے اسی کو لوٹنے کا ایک اور ذریعہ حاصل کرلیتا ہے۔ اس طرح بینکوں کا موجودہ نظام مکمل طورپر لوٹ کھسوٹ اور استحصالی نظام کے اس پروگرام کا حصہ ہے جو یورپ کے سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت کا ایک تحفہ ہے۔ (۹)

حواشی و حوالہ جات

۱:-مشین کاری کا مزدور پر کیا اثر ہوا؟ بابائے سوشلزم کارل مارکس نے اپنی کتاب ’’داس کیپیٹل‘‘ اُردو ترجمہ: ’’سرمایہ‘‘ میں صفحہ: ۹۵ سے ۱۲۰ تک اس پر کھل کر لکھا ہے، مطالعہ کیجیے: اردو ترجمہ: ’’سرمایہ‘‘ تصنیف: کارل مارکس ، ترجمہ: جوہر میرٹھی، طباعت: فکشن ہاؤس، لاہور، ۲۰۰۰ء
۲:-اسلام کا اقتصادی نظام، مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ، مکتبہ رحمانیہ، ص:۳۹۱- ۳۹۵
۳:-ماخذ بالا، ص:۳۹۱            

۴:-الاقتصاد فی الاسلام لحمزۃ الجمیعی، دارالانصاف ، طبع اول، ص:۴۸-۴۹
۵:-اسلام کا معاشی نظام، ڈاکٹر آدم، ادارہ فروغِ ادب، اشاعت ۲۰۰۶ء، ص:۱۲۹-۱۳۰
۶:-اسلام کا اقتصادی نظام، مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ، مکتبہ رحمانیہ، ص:۳۹۷- ۳۹۸
۷:-اسلامی بینک کاری ، ایک تعارف، ڈاکٹر محمود احمد غازی، زور اکیڈمی پبلی کیشنز، اشاعت دوم ۲۰۱۳ء، ص:۱۲۰-۱۲۸
۸:-مسئلہ سود، حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ، مکتبہ معارف القرآن، اگست ۲۰۱۵ء، ص:۳۷-۳۸
۹:-سہ ماہی فقہی مجلہ: ’’منہاج‘‘ لاہور، جنوری اپریل ۱۹۹۲ء، اسلامی معیشت نمبر، مضمون : موجودہ بینکنگ اور اسلامی بینکاری ، مضمون نگار: ڈاکٹر محمود الحسن عارف، ص:۱۸-۱۹                                                                       (جاری ہے)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین