بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مرابحہ مؤجَّلہ اِرتقائی،واقعاتی اور تجزیاتی مطالعہ     (تیسری قسط)

مرابحہ مؤجَّلہ

 

اِرتقائی،واقعاتی اور تجزیاتی مطالعہ     (تیسری قسط)


ان تفصیلات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ بینک کا ادارہ درحقیقت سرمایہ داری کا ادارہ ہے، بلکہ سرمایہ کو عوام سے کھینچ کر سرمایہ داروں کی گود میں ڈالنے کا ایک بہانہ ہے، خالص مغربی سرمایہ داری ذہنیت کے تحت خالص سودی کاروباری مہم کا دوسرا نام ہے، اس لیے بحیثیت ادارہ اپنی حیثیتِ کذائیہ کے ساتھ اہلِ اسلام کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتا، مگر دوسری طرف دنیا میں جال بھی بن چکا ہے، اب کیا کریں؟ تو اس سوال کا جواب دینے کے لیے پہلے علماء مصر سامنے آئے، جن کی تفصیل اگلی سطروں میں ملاحظہ فرمائیں:

بینک کو اسلامی بنانے کی پہلی کوشش

جب بینک ایک عالمی ادارہ کے طور پر متعارف ہوا تو لوگوں کا اشتیاق و احتیاج بھی اس کی طرف بڑھنے لگا اور لوگوں نے اس کو قبول کرنا شروع کیا۔ دنیائے اسلام میں سب سے پہلے مشرقی ممالک میں مصر نے اس کو قبول کیا، چنانچہ چند علمائے مصر نے بینکوں کے تجارتی سود کو سود ماننے سے ہی انکار کردیا، ان کے سرخیل مفتی عبدہٗ مصری اور ان کے شاگرد شیخ رشید رضا تھے۔ شیخ الازہر سید محمد طنطاوی بھی اسی فکر کے حامی بن گئے۔ مصر میں اس پر خوب مباحثے ہوئے، تقریباً ۴۰ سال تک یہ فکر مصر میں رہی۔ ۱۹۲۰ء میں یہ فکر برِصغیر منتقل ہوئی۔ 
علماء مصر کے عربی موقف کو اردو تعبیر میں منتقل کرنے کی یہ خدمت جناب جعفر شاہ پھلواری اور جناب یعقوب شاہ پھلواری نے سرانجام دی۔ جناب جعفر پھلواری نے اپنی کتاب ’’کمرشل انٹرسٹ کا فقہی جائزہ‘‘ میں اس بات کو بڑے شد ومد کے ساتھ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ بینک کا منافع سود نہیں۔ اسی فکر کو مشہور صحافی، ادیب اور شاعر مولانا ظفر علی خان نے بھی لیا اور اس پر خوب لکھا، بلکہ باقاعدہ تحریک بھی چلائی۔ جناب ڈپٹی نذیر احمد صاحب نے بھی اسی نظریہ کو قبول کیا۔
اس فکر کی تردید میں مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  نے قلمی خدمات سرانجام دیں۔ حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دام ظلہٗ نے بھی اسی فکر کی تردید میں ایک جوابی مفصل تحریر لکھی، جو حضرت مفتی اعظم نور اللہ مرقدہٗ کی تحریر کا بہترین تتمہ ہے۔ ’’مسئلہ سود ‘‘ کے نام سے یہ تحریریں کتابی شکل میں شائع ہوئیں۔یہ فکری جنگ چلتی رہی، بالآخر ۱۹۶۹ء کے دسمبر میں اسلامی نظریاتی کونسل نے بالاتفاق یہ فیصلہ کیا کہ بینک انٹرسٹ ربا ہے اور بینک انٹرسٹ اپنی تمام شکلوں میں حرام ہے۔ (۱)

اسلامی نظریاتی کونسل اور بینک کی اسلام کاری 

پاکستانی معیشت سے خاتمۂ سود کے لیے جنرل محمد ضیاء الحق نے ۲۹ ستمبر ۱۹۷۷ء کو اسلامی نظریاتی کونسل سے کہا کہ وہ قرآن وسنت کے پیش کردہ معاشی اصولوں کی روشنی میں ایک ایسا اقتصادی ڈھانچہ تیار کرے جو سود کی آمیزش سے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی ترقی پذیر معیشت کے لیے موجبِ استحکام اور باعثِ ترقی ہو۔ اس کام کے لیے تین سال کی مدت مقرر کی اور اعلان کیا کہ اس کے بعد قومی معاشیات سے سود کا لین دین بالکل ختم کردیا جائے گا۔(۲)
اسلامی نظریاتی کونسل نے بینکوں سے خاتمۂ سود کے لیے اسلامی اصولوں کی روشنی میں ایک رپورٹ تیار کی۔ جون ۱۹۸۰ء میں یہ رپورٹ پیش کی گئی۔ اس رپورٹ میں کونسل نے بینکوں کے معاملات کو دو بنیادوں پر چلانے کی تجویز پیش کی، پہلی بنیاد نفع ونقصان میں شرکت اور دوسری بنیاد قرضِ حسن تھی۔لیکن تین سال کے عبوری دور کے لیے چند دیگر طریقے بھی تجویز کیے جن کی حیثیت صرف حیلوں کی تھی اور مقصد یہ تھا کہ اصل اسلامی نظامِ معاش کی تنفیذ بسہولت ہوسکے۔ اس بات کا اظہار رپورٹ کے ’’پیشِ لفظ‘‘ میں ڈاکٹر تنزیل الرحمن صاحب نے اِن الفاظ کے ساتھ کیا:
’’اگرچہ کونسل کی رائے یہ ہے کہ اسلام کے اقتصادی نظام میں سودی لین دین کا مثالی نعم البدل نفع نقصان میں شرکت یا قرضِ حسنہ کی بنیاد پر سرمایہ کی فراہمی ہے، لیکن ان مشکلات کے پیشِ نظر جو اِن مثالی طریقوں کے فوری اور سختی کے ساتھ ترویج سے ہماری اقتصادی زندگی کے بعض دوائر میں پیش آسکتی ہیں، کونسل نے ماہرینِ اقتصادیات وبینک کاری کی اس تجویز سے اتفاق کیا ہے کہ سود سے پاک مجوزہ نظامِ بینک کاری میں بعض دوسرے طریقے مثلاً: پٹہ داری، ملکیتی کرایہ داری، بیع مؤجل، سرمایہ کاری بذریعہ نیلام کاری اور عمومی شرح منافع پر، اس واضح شرط کے ساتھ سرمایہ کاری کہ حقیقی نفع نقصان معلوم ہوجانے پر لین دین بے باق کیا جائے گا، زیرِاستعمال رہیں گے۔ تاہم کونسل نے اس خطرے کے پیشِ نظر کہ مبادا یہ دوسرے طریقے سودی لین دین کے ازسرِنو رواج کے لیے چور دروازے کے طور پر استعمال ہوں، اس امر پر زور دیا ہے کہ یہ فیصلہ پالیسی کے طور پر ہوجانا چاہیے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نفع نقصان میں شرکت یا قرضِ حسنہ کی صورت میں سرمایہ کاری کے رواج کو بتدریج وسعت دی جائے گی اور یہ تمام دوسرے متبادل طریقے بالآخر ختم کردیئے جائیں گے۔‘‘ (۳)
اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ سے ہمیں معلوم ہوا کہ مثالی نعم البدل کے طریقے دو ہیں:
۱:- نفع نقصان میں شرکت (یعنی شراکت ومضاربہ )        ۲:- قرضِ حسن
باقی دیگر جو طریقے پیش کیے گئے، مثلاً: بیع مؤجل، ملکیتی کرایہ داری وغیرہ تو وہ محض عبوری دور کے لیے تھے، جیسے کہ درج بالا اقتباس کے آخر میں کہا گیا ہے کہ: ’’دوسرے متبادل طریقے بالآخر ختم کردیئے جائیں گے۔‘‘
قارئین! عبوری دور کے لیے پیش کیے گئے متبادل طریقوں میں سے ایک طریقہ ’’بیع مؤجل‘‘ کا ہے جو بعد میں ’’مرابحہ مؤجلہ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا اور آج بھی ’’مرابحہ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جو اس تحریر کا اصل موضوع ہے۔ آگے تحریر میں ہم اس مرابحہ کو کبھی بیع مؤجل ، کبھی مرابحہ مؤجلہ اور کبھی صرف مرابحہ سے تعبیر کریں گے، یہ ایک ہی چیز ہیں، کوئی الگ الگ نہیں ہیں۔ اس قدر بات جان لینے کے بعد اب ہمارے لیے بینکوں میں رائج مرابحہ کی حیثیت معلوم کرنا دشوار نہیں ہے۔

بینکوں میں رائج مرابحہ کی حیثیت

اب ہم بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ بینکوں میں رائج مرابحہ کی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ مثالی طریقۂ تمویل ہے؟ یا یہ محض ایک حیلہ ہے؟یہاں چھپے ہوئے حقائق کیا ہیں؟
ان سوالوں کا جواب جاننے کے لیے ہم بتدریج نظریاتی کونسل سے لے کر عصرِ حاضر کے اکابر علماء تک کی کتابوں پر نظر دوڑاتے ہیں، تاکہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہوسکے کہ مرابحہ کی حیثیت کیا ہے؟
اسلامی نظریاتی کونسل نے جون ۱۹۸۰ء میں جو رپورٹ پیش کی تو اس میں ’’بیع مؤجل‘‘ کا جو غیرمثالی طریقہ پیش کیا تو عبوری دور کی قید کے ساتھ ساتھ اس کے محدود استعمال پر بھی خوب زور دیا۔ رپورٹ کے اس حصہ کو پڑھیئے:
’’ اگرچہ اسلامی شریعت کے مطابق سرمایہ کاری کے اس طریقے کا جواز موجود ہے، تاہم بلاامتیاز اسے ہر جگہ کام میں لانا دانشمندی سے بعید ہوگا، کیونکہ اس کے بے جا استعمال سے خطرہ ہے کہ سودی لین دین کے ازسرِنو رواج کے لیے چوردروازہ کھل جائے گا، لہٰذا ایسی احتیاطی تدابیر اختیار کی جانی چاہئیں کہ یہ طریقہ صرف ان صورتوں میں استعمال ہو جہاں اس کے سوا چارہ نہ ہو، تاکہ من مانی کارروائیوں اور ایک نئی صورت میں سودی لین دین نہ ہو، اس کے علاوہ اشیاء کی قیمتِ خرید پر بینک کے منافع کی شرح کا تعین بڑی احتیاط کے ساتھ کیا جانا چاہیے اور سختی کے ساتھ اس کی نگرانی ہونی چاہیے، تاکہ سودی لین دین کے دوبارہ آغاز کے امکان کا سدِباب ہوسکے،لہٰذا اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایسے ذیلی شعبوں اور اشیاء کی تخصیص وتعیین کی جانی چاہیے،جن کو ’’بیع مؤجل‘‘ کی صورت میں سرمایہ فراہم کرنے کی اجازت ہو اور وقتاً فوقتاً اس فہرست پر نظرثانی بھی ہوتی رہنی چاہیے۔‘‘ (۴)
مذکورہ بالا اقتباس سے درج ذیل باتیں معلوم ہوئیں:
۱:- بلاامتیاز بیع مؤجل کے طریقے کو ہر جگہ کام میں لانا دانش مندی سے بعید ہوگا۔
۲:- بیع مؤجل کے بے جا استعمال سے خطرہ ہے کہ سودی لین دین کا چور دروازہ کھل جائے۔
۳:- اشیاء کی قیمتِ خرید پر بینک کے منافع کی شرح کا تعیُّن بڑی احتیاط کے ساتھ ہونا چاہیے۔
۴:-  سختی کے ساتھ اس کی نگرانی ہونی چاہیے۔ یہ طریقہ صرف ان صورتوں میں استعمال ہو جہاں اس کے سوا چارہ نہ ہو۔
۵:- اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایسے ذیلی شعبوں اور اشیاء کی تخصیص وتعیین کی جانی چاہیے، جن کو ’’بیع مؤجل‘‘ کی صورت میں سرمایہ فراہم کرنے کی اجازت ہو، یعنی اسٹیٹ بینک کو چاہیے کہ وہ ایک فہرست بنائے، جس میں مخصوص شعبوں اور معیّن اشیاء کا ذکر ہو کہ ’’بیع مؤجل‘‘ کے ذریعہ سے صرف اِن شعبوں اور اشیاء کے لیے سرمایہ فراہم کرنے کی اجازت ہے۔ مطلقاً ہر شعبہ اور ہر چیز کے لیے بیع مؤجل کی صورت میں سرمایہ فراہم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
بیع مؤجل کو اِن حدود وقیود کے ساتھ استعمال کی اجازت کیا اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ بیع مؤجل (مرابحہ مؤجلہ) کو بینکوں میں سب سے بڑا طریقۂ تمویل بنایا جائے، جیسے کہ آج کل بینکوں میں بیع مؤجل کا حجم ۸۰، ۹۰ فیصد سے کم نہیں ہے۔
کونسل نے حکومتِ وقت کی خدمت میں یہ رپورٹ پیش کرکے طے کیا تھا کہ دسمبر ۱۹۸۱ء کے آخر تک چند واضح مرحلوں میں سود کو اس کی تمام اقسام اور صورتوں کے ساتھ کلیتاً ختم کردیا جائے۔ اور ساتھ یہ بھی وضاحت کی تھی کہ مثالی طریقوں سے ہٹ کر جو طریقے تجویز کیے گئے ہیں وہ عبوری دور کے لیے ہیں، تاکہ سودی بنیاد پر قائم پاکستانی معیشت کو بتدریج ترک کرکے سود سے پاک نظام کے قیام میں سہولت اور آسانی پیدا کی جائے، لیکن جب عبوری دور کا مقررہ وقت گزر گیا اور مثالی طریقوں کو ترقی نہ دی گئی، بلکہ عبوری دور کے لیے تجویز کردہ طریقوں کو پذیرائی بخشی گئی اور ان کو سودی لین دین کا ذریعہ بنا لیا گیا تو اس صورتِ حال کے پیشِ نظر کونسل نے نظر ثانی کے نام سے ۲۴؍ دسمبر ۱۹۸۳ء کو ایک اجلاس منعقد کیا اور اس میں ایک دستاویز بنام: ’’انسدادِ سود سے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ ۱۹۸۰ء پر نظر ثانی‘‘ لکھ کر حکومتِ وقت کو یاد دلایا کہ رپورٹ کے مطابق اطمینان بخش پیش رفت نہیں ہوئی۔ نظرِثانی کی رپورٹ کا وہ حصہ ملاحظہ ہو کہ جس میں ’’بیع مؤجل‘‘ کے غیر محدود استعمال پر شکوہ کیا گیا ہے: 
’’کونسل نے عبوری مدت میں بیع مؤجل اور اسی طرح کے بعض دیگر طریقے اپنانے کی منظوری اس لیے دی تھی کہ نئے نظام کو رواج دینے میں سہولت ہو، لیکن ساتھ ہی اس امر پر بھی زور دیا تھا کہ ایسے طریقوں کا استعمال غیر متعینہ مدت تک جاری نہ رہنا چاہیے، کیونکہ اس سے نہ صرف یہ کہ سود خوری کا ایک چور دروازہ کھل جائے گا، بلکہ اسے سودی نظام کو دوام بخشنے کے لیے ایک مؤثر ذریعے کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
کونسل یہ سمجھتی ہے کہ اگرچہ استیصالِ سود کے لیے مقررہ وقت کو گزرے اب کافی دن ہوچکے ہیں، لیکن اب تک اس سلسلے میں جو پیش رفت ہوئی ہے، اسے کسی طرح اطمینان بخش نہیں کہا جاسکتا۔ بیع مؤجل کا طریقہ جس کی اجازت بعض اقسام کے لین دین میں ایک عارضی طریقِ کار کی حیثیت سے دی گئی تھی، تجارتی بینکوں نے اسے اپنے نام نہاد سود سے پاک لین دین کا سب سے بڑا ذریعہ بنا لیا ہے۔ کونسل یہ رائے رکھتی ہے کہ چونکہ اب تک پاکستان اور دیگر مسلم ممالک سود سے پاک بینکاری کے میدان میں کافی تجربہ حاصل کرچکے ہیں، لہٰذا اب ضروری ہے کہ بینکاری اور مالیات کے موجودہ نظام کو بدل کر پاکستان میں بینکاری اور مالیات کا ایسا نظام رائج کیا جائے جو کلی طور پر اسلامی اصول وتصورات سے ہم آہنگ ہو۔‘‘ (۵)
نظرِ ثانی کی رپورٹ میں ایک صفحہ کے بعد ’’بیع مؤجل‘‘ کے عنوان سے واشگاف پرشکوہ الفاظ میں کونسل نے حکومتِ وقت سے سفارش کی ہے:
’’کونسل کی سفارش یہ تھی کہ بیع مؤجل کا طریقہ بڑی احتیاط کے ساتھ صرف ایسی استثنائی صورتوں میں استعمال کیا جانا چاہیے جہاں اس کے سوا چارہ نہ ہو، لیکن ’’نفع نقصان میں شرکت‘‘ کے لین دین میں اسے پالیسی کے طور پر ایک بنیادی عامل کی صورت میں اپنا لیا گیا ہے۔ ملک کے اسلامی حلقے اس امر کا حقیقی خطرہ محسوس کررہے ہیں کہ اگر نفع نقصان میں شرکت کے لین دین میں سود کے بجائے مارک اپ (بیع مؤجل) کے طریقے کا وسیع پیمانے پر استعمال جاری رہا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سود کو حقیقی معنوں میں ختم کرنے کے بجائے صرف اس کا نام بدل دیا گیا ہے۔ مارک اپ کے تحت نفع ونقصان میں شرکت کا نظام پرانے سودی نظام کو ایک نئے نام سے دوام بخشنے کی ایک صورت ہے۔ اس طریقے کی بنیاد جس اصول پر رکھی گئی ہے، وہ اگرچہ حنفی اور حنبلی مذاہبِ فقہ کے نزدیک بعض استثنائی صورتوں میں ممنوع نہیں، لیکن وسیع پیمانے پر اس کا بے دریغ استعمال ہرگز جائز نہیں۔ اس لیے کہ مارک اَپ کا نظام اپنے جوہر اور خصوصیات کے اعتبار سے سودی نظام سے پوری مطابقت رکھتا ہے۔‘‘ (۶)
رپورٹ میں آگے چل کر کونسل نے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ اگر ہم بینکوں کو اسلامی بنانا چاہتے ہیں تو مارک اَپ (بیع مؤجل) کا نظام اس کا کوئی حل نہیں، چنانچہ رپورٹ میں ہے:
’’امر واقعہ یہ ہے کہ مارک اَپ کا طریقہ تجارت کی ابتدائی قسم کی ایک صورت ہے جس کی بعض محققین نے خاص حالات میں اجازت دی ہے۔ لیکن اس کے جواز پر دوسرے محققین نے اعتراض بھی کیا ہے۔ بہرحال یہ ایسا طریقہ ہے، لین دین کے ایسے معاہدے سے تعلق رکھتا ہے جو مال کے بیچنے والے اور خریدار کے درمیان ہو۔ بینک تجارتی ادارے نہیں، وہ بنیادی طور پر مالی ادارے ہیں جن کا کام عوام سے رقمیں جمع کرکے مال تیار کرنے والے اداروں کو فراہم کرنا ہے، لہٰذا یہ حقیقت بالکل واضح ہوجانی چاہیے کہ اگر ہم بینکوں کے نظام کو اسلامی بنانا چاہتے ہیں تو مارک اَپ کا نظام اس کا کوئی حل نہیں، اس کے لیے ہمیں کوئی ایسا طریقہ دریافت کرنا ہوگا جس کے تحت بینکاری کے اداروں کا ’’سرمایہ کاری کرنے والا کردار‘‘ بھی محفوظ رہے اور سود کا بھی خاتمہ ہوجائے جو اسلام کی رو سے حرام ہے۔
یہ بات افسوس ناک ہے کہ خاتمۂ سود کے لیے کونسل نے جو عملی نقشہ کار تجویز کیا تھا، اسے بالکل نظر انداز کردیا گیا ہے اور اس کے بجائے ایسے طریقے اپنا لیے گئے ہیں جو ہمیں منزل سے قریب کرنے کے بجائے برعکس نتائج پیدا کر رہے ہیں۔‘‘ (۷)
مذکورہ بالا تمام اقتباسات میں ’’عملی نقشے‘‘ سے مراد شرکت ومضاربت یعنی تجارتی نظام ہے، جسے نظر انداز کردیا گیا ہے اور اس کی جگہ عارضی عبوری طریقے مارک اَپ (بیع مؤجل) کو اپنا لیا گیا ہے جو منزل سے دوری کا باعث بن رہی ہے، یعنی بیع مؤجل (مرابحہ مؤجلہ) کا طریقۂ کار مثالی طریقۂ تمویل نہیں ہے، بلکہ یہ عبوری دور کے لیے پیش کردہ ایک عارضی طریقۂ کار ہے، جس کی حیثیت محض ایک حیلہ کی ہے، تاکہ اصل طریقۂ تمویل (نفع نقصان میں شرکت) کی تنفیذ بسہولت ہوسکے۔ اس کی مزید وضاحت آئندہ اقتباسات میں بخوبی ہوجائے گی۔ 
بینکوں میں جب بیع مؤجل کے اس طریقۂ کار کو نہ صرف یہ کہ اصل بنیاد بنا کر استعمال کیا گیا، بلکہ اس کے طریقِ کار میں ان شرائط کا بھی لحاظ نہیں رکھا گیا جو اس کو محدود فقہی جواز عطا کرسکتی تھیں تو اس وقت ’’غیر سودی کاؤنٹرز‘‘ کے نام سے شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم نے ایک مفصل تحریر لکھی، جس کے بعض اقتباسات ذیل میں نقل کیے جاتے ہیں:
’’یکم جنوری سے نافذ ہونے والی اسکیم کا جائزہ لیتے ہیں تو نقشہ بالکل برعکس نظر آتا ہے۔ اس اسکیم میں نہ صرف یہ کہ ’’مارک اَپ‘‘ ہی کو غیر سودی کاؤنٹرز کے کاروبار کی اصل بنیاد قرار دے دیا گیا، بلکہ ’’مارک اَپ‘‘ کے طریقِ کار میں ان شرائط کا بھی لحاظ نظر نہیں آتا جو اس ’’مارک اَپ‘‘ کو محدود فقہی جواز عطا کرسکتی تھیں، چنانچہ اس میں مندرجہ ذیل سنگین خرابیاں ۔۔۔۔۔‘‘ (۸)
اسکیم کی سنگین خرابیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت والا دامت برکاتہم لکھتے ہیں:
’’پھر اگر بالفرض اسکیم سے یہ شرعی قباحتیں دور کردی جائیں، تب بھی اُصولی مسئلہ یہ ہے کہ اس اسکیم میں شرکت اور مضاربت کو غیر سودی بینکاری کی اصلی اساس قرار دینے کے بجائے ’’مارک اَپ‘‘ (بیع مؤجل، از راقم) کو اسکیم کی اصل بنیاد قرار دیا گیا ہے، اور غیر سودی کاؤنٹرز کا بیشتر کاروبار اسی قانونی حیلے کے گرد گھما دیا گیا ہے۔ … اس طریقِ کار کا حاصل یہ ہے کہ ملک میں شرکت ومضاربت کے دائرے کو توسیع دینے کا کوئی پروگرام پیشِ نظر نہیں ہے، بلکہ جو ادارے اس وقت شرکت یا مضاربت کے طریقے پر کام کررہے ہیں، غیر سودی کاؤنٹرز کی جتنی رقم ان اداروں میں لگ سکے گی وہ ان میں لگادی جائے گی اور باقی سارا کاروبار ’’مارک اَپ‘‘ کی بنیاد پر ہوگا۔ اور معاملہ یہ نہیں ہوگا کہ بینک کا اصل کاروبار شرکت یا مضاربت کی بنیاد پر ہو، اور جُزوی طور پر ضرورت کے وقت  ’’مارک اَپ‘‘ کا طریقہ اختیار کیا جائے گا، بلکہ ’’مارک اَپ‘‘ کاروبار کی اصل بنیاد ہوگا اور جزوی طور پر شرکت یا مضاربت کے طریقے کو بھی اختیار کرلیا جائے گا، جس کا حاصل یہ ہے کہ بینکاری کے نظام کو بدل کر اسے مثالی اسلامی اصولوں کے مطابق بنانے کے بجائے چند حیلوں کے سہارے موجودہ نظام جوں کا توں باقی رہے گا۔یہاں یہ سوال ہوسکتا ہے کہ اگر ’’بیع مؤجل‘‘ کا مذکورہ بالا طریقہ شرعاً جائز ہے اور اسے بعض مقامات پر اختیار کیا جاسکتا ہے تو پھر پورے نظامِ بینکاری کو اس کی بنیاد پر چلانے میں کیا قباحت ہے؟ اور اس کے جائز ہونے کے باوجود شرکت یا مضاربت ہی پر کیوں زور دیا جارہا ہے؟ 
اس کا جواب یہ ہے کہ ’’بیع مؤجل‘‘ کا مذکورہ طریقہ جس میں کسی چیز کو اُدھار بیچنے کی صورت میں اس کی قیمت بڑھا دی جاتی ہے، اگرچہ ٹھیٹھ اصطلاحی معنی کے لحاظ سے سود میں داخل نہیں ہوتا، لیکن اس کے رواجِ عام سے سود خور ذہنیت کی حوصلہ افزائی ہوسکتی ہے، اس لیے یہ کوئی پسندیدہ طریقِ کار نہیں ہے، اور اس کو پورے نظامِ بینکاری کی بنیاد بنا لینا مندرجہ ذیل وجوہ سے درست نہیں …‘‘ (۹)
حضرت والا دامت برکاتہم نے آگے تین وجوہ بیان کرکے اس طریقِ کار کو پورے نظامِ بینکاری کی بنیاد بنانے کے درست نہ ہونے کو ثابت کیا ہے۔ ان وجوہ کو پڑھنے سے پہلے ہم کچھ دیر کے لیے یہاں ٹھہر کر ایک بات پہ غور وخوض کرتے ہیں۔ حضرت والا دامت برکاتہم نے یہاں جو سوال قائم کیا ہے اور پھر اس کا جواب دیا ہے، اس پر ذرا غور کیجئے۔ غور کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ بیع مؤجل کا طریقہ اگرچہ ٹھیٹھ اصطلاحی معنی کے لحاظ سے سود میں داخل نہیں ہوتا، لیکن اس کے رواجِ عام سے سود خور ذہنیت کی حوصلہ افزائی ہوسکتی ہے، اس لیے یہ کوئی پسندیدہ طریقِ کار نہیں ہے اور اس کو پورے نظامِ بینکاری کی بنیاد بنا لینا تین وجوہ سے درست نہیں ہے۔ 

حواشی و حوالہ جات

۱:-تلخیص از : اسلامی بینک کاری، ڈاکٹر محمود احمد غازی، ص:۱۵۴ تا ۱۵۷۔ نظریاتی کونسل رپورٹ، ڈاکٹر تنزیل الرحمن، ص:۱۰۸۔ مسئلہ سود، مفتی محمد شفیع صاحب، ص:۱۰۱-۱۰۲
۲:-تفصیل کے لیے: اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ کا خلاصہ، ترتیب: ڈاکٹر تنزیل الرحمن، صدیقی ٹرسٹ، اشاعت اول، ص:۹-۱۴
۳:-ایضاً، ص:۱۳        ۴:-ایضاً، ص:۲۹        ۵:- ایضاً،ص: ۹۵ - ۹۶
۶:- ایضاً، ص: ۹۶        ۷:- ایضاً، ص: ۱۱۴
۸:-فقہی مقالات، مفتی محمد تقی عثمانی صاحب، میمن اسلامک پبلشرز، جولائی ۱۹۹۶ء، ج:۲، ص: ۲۵۴ - ۲۵۵
۹:- ایضاً، ج: ۲، ص: ۲۵۹                                                                                     (جاری ہے)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین