بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مذاہبِ اربعہ ایک مختصر تعارف              (دوسری قسط)

مذاہبِ اربعہ

ائمہ، تلامذہ، فقہی مناہج، اُمہات الکتب

ایک مختصر تعارف              (دوسری قسط)

فقہ شافعی کی اُمہات الکتب:
فقہ شافعیؒ کی اہم کتابیں یہ ہیں:
الأم ،امام محمد بن ادریس شافعیؒ (م:۲۰۴ھ)
مختصر المدني،ابو ابراہیم اسماعیل یحییٰ المزنیؒ (م:۲۶۴ھ)
المہذب ،ابواسحاق ابراہیم شیرازیؒ (م:۴۷۶ھ)
التنبیہ فی فروع الشافعیۃ، ابو اسحاق ابراہیم شیرازیـؒ (م:۴۷۶ھ)
نہایۃ المطالب درایۃ المہذب، امام الحرمین عبد الملک الجوینیؒ (م:۴۷۸ھ)
الوسیط فی فروع المذہب،امام ابوحامد بن محمد الغزالیؒ(م:۵۰۵ھ)
الوجیز ،امام ابوحامد الغزالیؒ (م:۵۰۵ھ)
المحرر ،ابو القاسم عبد الکریم رافعیؒ(م:۶۲۳ھ)
فتح الحزیز فی شرح الوجیز، ابو القاسم عبد الکریم رافعیؒ (م:۶۲۳ھ)
روضۃ الطالبین،امام ابوزکریا محی الدین بن شرف نوویؒ (م:۶۷۶ھ)
منہاج الطالبین،امام نوویؒ (م:۶۷۶ھ)
التحقیق ،امام نوویؒ (م:۶۷۶ھ)[امام نوویؒ کی کتابوں میں یہ سب سے معتبر کتاب سمجھی جاتی ہے]
تحفۃ المحتاج لشرح المنہاج (احمد بن محمد بن حجر الہیثمیؒ (م:۹۷۴ھ)
مغنی المحتاج ،شمس الدین محمد الشربینی الخطیبؒ (م:۹۷۷ھ)
نہایۃ المحتاج ،شمس الدین محمد جمال محمد بن احمد رملیؒ (م:۱۰۰۴ھ)
متاخرین شوافع کے ہاں ’’مغنی المحتاج‘‘ اور ’’نہایۃ المحتاج‘‘ کو فقہ شافعی کے سب سے مستند ترجمان کی حیثیت سے قبول عام حاصل ہے۔(۱)
امام احمدؒ ، مؤسسِ فقہ حنبلی
امام احمد بن حنبلؒ بغداد میں ۱۶۴ھ کو پیدا ہوئے، وہیں تربیت پائی اور وہیں ربیع الاول کے مہینے میں ۲۴۱ھ کو وفات پائی۔ آپ کے کوفہ، بصرہ، مکہ، مدینہ، یمن، شام، جزیرہ جیسے علمی شہروں کی طرف کئی اسفار ہوئے۔ امام شافعیؒ کی بغداد آمد پر اُن سے فقہ حاصل کی۔ آپ کے شیوخ کی تعداد ۱۰۰ سے متجاوز ہے۔ احادیث کے جمع وحفظ میں مگن رہے، حتیٰ کہ زمانے کے ’’امام المحدثین‘‘ بن گئے۔
حدیث اور فقہ میں امام تھے۔ ابراہیم حربیؒ فرماتے ہیں: ’’امام احمدؒ کو دیکھ کر مجھے ایسے لگا گویا کہ اللہ تعالیٰ نے اولین وآخرین کا علم ان میں جمع کیا ہے۔‘‘امام شافعیؒ جب بغداد سے مصر کوچ کرکے آئے تو فرمایا: ’’میں نے بغداد میں اپنے پیچھے ابن حنبلؒ سے زیادہ تقویٰ والا اور فقاہت والا کوئی نہیں چھوڑا۔‘‘
مامون، معتصم اور واثق کے زمانے میں فتنۂ قرآن میں جب ان پر ضرب اور قید وبند کی صعوبتیں آئیں تو انہوں نے پیغمبرانہ صبر کا ثبوت دیا۔ ابن المدینیؒ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے دو آدمیوں کے ذریعے اسلام کو عزت دی، فتنۂ ارتداد میں حضرت صدیق اکبرq کے ذریعہ اور فتنۂ خلقِ قرآن میں ابن حنبلؒ کے ذریعہ۔‘‘ (۲)
امام احمدؒ کے عظیم تلامذہ
فقہی مذہب کی تکمیل کی بنسبت امام احمدؒ کی توجہ حدیث کی طرف زیادہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ امام احمدؒ ‘علی بن المدینیؒ اور یحییٰ بن معینؒ کے ساتھ توثیقِ رجال، تضعیفِ رواۃ اور کشف العلل پر بحث ومباحثہ کے لیے ایک اجتماعی مجلس میں بیٹھتے۔ یہ مجلسیں ہوتی رہیں، حتیٰ کہ فتنۂ خلقِ قرآن رونما ہوا اور یہ مجالس ختم ہوگئیں۔ حالات سخت گیر ہوئے۔ امام احمدؒ بجائے تلامذہ کو جمع کرنے اور مذہب کی تدوین کے حالات کی زَد میں آئے۔ آپ کے کئی بڑے تلامذہ اسی فتنہ میں شہادت پاگئے، حتیٰ کہ قریب تھا کہ آپ کے مذہب کی روایت آپ کے دو بیٹوں عبد اللہ اور صالح میں منحصر ہوکر رہ جاتی۔ (۳)
ان ہی حالات کے پیشِ نظر امام احمدؒ اپنے مذہب کی فقہ پر کوئی کتاب مرتب نہ کرسکے۔ البتہ ان کے درج ذیل تلامذہ ان کے مذہب کی روایت وتالیف کی کوشش میں لگے رہے:
۱:صالح بن احمد بن حنبلؒ (المتوفی:۲۶۶ھ)، جو امام احمدؒ کے بڑے فرزند ہیں اور فقہ وحدیث کے کئی مسائل اپنے والد سے نقل کیے ہیں۔
۲:عبد اللہ بن احمد بن حنبلؒ (المتوفی:۲۹۰)، جنہوں نے اپنے والد سے صرف احادیث روایت کی ہیں۔
۳:ابوبکر احمد بن محمد الاثرم الخراسانی البغدادیؒ، جنہوں نے امام احمدؒ سے فقہ کے مسائل اور بہت سی احادیث روایت کی ہیں۔ امام احمدؒ کے مذہب پر حدیث کے شواہد کی روشنی میں ’’السنن في الفقہ‘‘ کے نام سے کتاب تالیف کی ہے۔
۴:عبد الملک بن عبد الحمید بن مہران المیمونیؒ (م:۲۷۴ھ)، جو بیس سال امام احمدؒ کی صحبت میں رہے۔
۵:ابوبکر احمد بن محمد المروذیؒ (م:۲۷۴ھ)، جو فقہ وحدیث کے امام تھے اور فقہ حنبلی پر قابلِ قدر تصانیف لکھیں۔ حنابلہ کے ہاں جب مطلقاً ’’ابوبکر‘‘ بولاجائے تو مراد ’’مروذی‘‘ ہوتے ہیں۔
۶:حرب بن اسماعیل الحنظلی الکرمانیؒ، المتوفی:۲۸۰ھ۔
۷:ابو اسحاق ابراہیم بن اسحاق الحربیؒ (م:۲۸۵ھ)، جن کو تبحر فی الفقہ سے زیادہ تبحر فی الحدیث حاصل تھا۔ لغت وعربیت کے عالم تھے۔
ان کے بعد ابوبکر احمد بن محمد بن ہارون الخلالؒ (م:۳۱۱ھ) آئے جنہوں نے امام احمدؒ کے تلامذہ سے فقہ کو جمع کیا، اس لیے ان کو ’’جامع الفقہ الحنبلي‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتاہے۔ پھر ابوبکر خلالؒ کے جمع کردہ مسائل کی تلخیص دو حضرات نے کی:
۱:ابوالقاسم عمر بن الحسین الخرقی البغدادیؒ (م:۳۳۴ھ)۔ ان کی تلخیص کی شرح ابن قدامہؒ نے اپنی کتاب ’’المغنی‘‘ میں کی۔
۲:ابوبکر عبد العزیز بن جعفر المعروف غلام الخلالؒ (م:۳۶۳ھ)، یہ خرقی کے دوست تھے۔(۴)
ان کے بعد مذہب حنبلی میں نمایاں خدمات سرانجام دینے والے حضرات یہ ہیں:
۱:عبد القادر جیلانیؒ، ۲:یحییٰ بن ہبیرہ الدوریؒ، ۳:ابن الجوزیؒ، ۴:ابن قدامہ المقدسیؒ، ۵:ابن تیمیہؒ، ۶:ابن القیمؒ، ۷:ابن رجب ؒ ۔(۵)
حنابلہ کا فقہی منہج
فقہ حنبلی کی بنیاد آٹھ اصولوں پر رکھی گئی ہے:
۱:کتاب اللہ،۲:سنتِ رسول a، ۳:فتویٰ صحابیؓ،۴:اجماع، ۵:قیاس، ۶:استصحابِ حال، ۷:مصالحِ مرسلہ، ۸:سدِ ذریعہ۔
امام احمدؒ نے فقہ میں کوئی کتاب تالیف نہیں کی، بلکہ ان کے شاگردوں نے ان کا مذہب ان کے اقوال، افعال اور جوابات سے اخذ کیاہے۔
امام احمدؒ کی حدیث میں کتاب ’’المسند‘‘ ہے، جس میں ۴۰ ہزار سے زائد احادیث ہیں۔ امام احمدؒ حدیث مرسل اور درجہ حسن کی ضعیف حدیث کو قابلِ عمل سمجھتے تھے۔ باطل اور منکر حدیث پر عمل نہیں کرتے تھے، قیاس کے مقابلے میںمرسل اور ضعیف حدیث کو ترجیح دیتے تھے۔ (۶)
علامہ ابن القیم جنبلیؒ نے ’’إعلام الموقعین‘‘ میں فقہ حنبلی کے بنیادی اُصول پانچ ذکر کیے ہیں اور پھر ہرایک اصل کے بیان کے لیے ایک مستقل فصل قائم کی ہے۔ (۷) ان پانچ اصولوں کا حاصل اور لبِ لباب حضرت استاذ محترم مفتی رفیق احمد بالاکوٹی صاحب مدظلہٗ کے نپے تلے الفاظ میں یہ ہے:
۱:ظاہرِ نصوص         ۲:صحابہؓ کے اتفاقی فتاویٰ یا جن کا خلاف منقول نہ ہو۔
۳:اختلافِ صحابہؓ کی صورت میں وہ فتویٰ جو قرآن وسنت کے زیادہ قریب ہو۔
۴:اگر صحابہ کرامs سے صریح فتویٰ نہ مل سکے تو حدیثِ مرسل نیز ضعیف حدیث کو بھی لے لیتے ہیں، بشرطیکہ وہ شدید الضعف ومنکر نہ ہو۔
۵:جب کوئی نص اور سلف کا قول نہ ملے تو پھر قیاس سے کام لیتے ہیں، لیکن ایسا بامرِ مجبوری ہی کرتے ہیں، جہاں نص یا قول سلف نہ ملے وہاں زیادہ تر سکوت اختیار فرماتے ہیں، رائے سے اجتناب فرماتے ہیں ۔(۸)
فقہِ حنبلی کی اُمہات الکتب
فقہ حنبلی کی اہم مطبوعہ کتابیں اس طرح ہیں:
مختصر الخرقی ،ابوالقاسم عمر بن حسین خرقی  ؒ (م:۳۳۴ھ)
فقہ حنبلی میں یہ کتاب متن کا درجہ رکھتی ہے اور بعد میں فقہ حنبلی پر جو کام ہوا ہے، وہ زیادہ تر اسی کتاب کے گرد گھومتا ہے۔
کتاب الروایتین والوجہین ، قاضی ابو یعلیٰ محمد حسن بن فراء ؒ (م:۴۵۸ھ)
جیساکہ نام سے ظاہر ہے، اس کتاب میں قاضی ابو یعلیٰ نے امام احمدؒ سے منقول مختلف اقوال کے درمیان ترجیح وتطبیق کی خدمت انجام دی ہے۔
الکافی ،موفق الدین ابن قدامہ مقدسیؒ (م:۶۲۰ھ)
المقنع،موفق الدین ابن قدامہؒ
المغني،موفق الدین ابن قدامہؒ
یہ مختصر خرقی  ؒ کی سب سے مبسوط شرح ہے اور نہ صرف فقہِ حنبلی بلکہ فقہِ اسلامی کی چند منتخب تین کتابوں میں ایک ہے، جس میں نصوص وآثار اور سلف کی آراء اور ان کے دلائل، تفصیل اور انصاف کے ساتھ نقل کیے گئے ہیں۔
العمدۃ، موفق الدین ابن قدامہؒ (م:۶۲۰ھ)
المحرر ، مجد الدین ابوالبرکات عبد السلامؒ (م:۶۵۲ھ)
الشافي (معروف:الشرح الکبیر) عبد الرحمن بن امام ابی عمر مقدسیؒ (م:۶۸۲ھ)
مجموعۃ فتاوی، شیخ الاسلام احمد بن تیمیہؒ (م:۷۲۸ھ)
اس مجموعہ میں علامہ ابن تیمیہؒ کے فتاویٰ کے علاوہ ان کی دوسری تحریریں بھی شامل ہیں اور مجموعی طور پر ۳۵ جلدوں میں طبع ہوئی ہے۔
الفروع ،شمس الدین ابن مفلح حنبلیؒ (م:۷۶۳ھ)
الإنصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف، علاء الدین سعدی مرداویؒ (م:۸۸۵ھ)
تصحیح الفروع ،علاء الدین سعدی مرداویؒ (م:۸۸۵ھ)
الاقناع ،موسیٰ بن احمد مقدسیؒ (م:۹۶۸ھ)
منتہی الإرادات فی جمع المقنع ،تقی الدین بن نجارؒ (م:۹۷۲ھ)
کشاف القناع عن متن الاقناع ،منصور بن یونس بہوتی  ؒ (م:۱۰۵۱ھ)
شرح منتہی الإرادات ، منصور بن یونس بہوتی  ؒ 
ویسے متاخرین حنابلہ کے یہاں الإنصاف، الاقناع اور منتہی الإرادات فقہ حنبلی کی نقل وترجیح میں زیادہ مستند سمجھی گئی ہیں۔ (۹)
حوالہ جات
۱:-قاموس الفقہ،ج:۱،ص:۳۸۷            ۲:-الفقہ الاسلامی وادلتہ،ج:۱،ص:۳۸
۳:-اصول الافتاء،ج:۱،ص:۳۴            ۴:-الفقہ الاسلامی وادلتہ،ج:۱،ص:۳۹،۴۰
۵:-اصول الافتاء، ج:۱،ص:۳۴            ۶:-الفقہ الاسلامی،ج:۱،ص:۳۹
۷:-اعلام الموقعین،ج:۱،ص:۲۳،۲۶            ۸:-ماہنامہ بینات، جمادی الاولیٰ ۱۴۴۰ھ، ص:۳۷
۹:-قاموس الفقہ،ج:۱،ص:۳۸۹،۳۹۰                                                   (جاری ہے)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین