بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

بینات

 
 

مدارس کی رجسٹریشن اور سوسائٹی ایکٹ


مدارس کی رجسٹریشن اور سوسائٹی ایکٹ


الحمد للہ وسلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی

 

موجودہ حکومت نے چھبیسویں آئینی ترمیم لانے کے لیے خوب محنت کی، مشکل ترین سیاسی ماحول میں یہ ترمیمی بل پاس کرنا ایک طرح سے مشکل ترین عمل تھا، اس مشکل سے نکلنے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے وفود صبح شام علماء دین کی سیاسی قیادت کی دہلیز پر حاضر ہوتے رہے۔ سیاسی مخالفین کی اس آمد و رفت کے نتیجہ میں جہاں سیاسی دوریاں قربتوں میں بدلنے لگیں، وہاں ترمیمی بل کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن بھی علماء کی سیاسی قیادت کے سیاسی تجربات سے خوب خوب مستفید بھی ہوئے اور محظوظ بھی ہوئے۔ ہماری مذہبی سیاسی قیادت کے اس مفاہمتی کردار کی وجہ سے ترمیمی بل حکومت کی طرح اپوزیشن کے لیے بھی قابلِ قبول ٹھہرا اور اپوزیشن کی خاموش سیاسی تائید سے ہم کنار ہوا اور یہ ترمیمی بل اکتوبر ۲۰۲۴ء میں دونوں ایوانوں سے منظور ہوا۔ اس ترمیمی بل میں جمعیت علماء اسلام کے قائد اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سرپرستِ اعلیٰ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہٗ نے ترمیمی مسودے میں دینی مدارس کی رجسٹریشن کے دیرینہ مسئلے کو بھی باقاعدہ ترمیم کا حصہ بنایا اور دونوں ایوانوں نے مولانا کی مجوزہ ترمیم کو قبول کرتے ہوئے یہ منظور کیا کہ دینی مدارس کی رجسٹریشن ۱۸۶۰ء کے سوسائٹی ایکٹ کے تحت ہوگی۔ 
صدرِ پاکستان کے پاس دستخطوں کے لیے جب چھبیسویں ترمیم اور اس کے ساتھ یہ بل پہنچا، باقی پر دستخط ہوگئے، لیکن مدارس کے بل پر ایک غلطی کی نشان دہی کی گئی، اسپیکر قومی اسمبلی نے اُسے ٹھیک کرکے اس کی درستی اور اس کے ساتھ آئین کا حوالہ دے کر ایوانِ صدر کو بھیج دیا۔ قائدِ جمعیت نے اعلان کر رکھا تھا کہ ۸؍ دسمبر ۲۰۲۴ء سے پہلے اس بل پر صدرِ پاکستان کے دستخط نہ ہوئے تو آٹھ دسمبر ’’اسرائیل مردہ باد کانفرنس‘‘ پشاور سے اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کیا جائے گا۔ اُدھر ’’وفاق المدارس العربیہ پاکستان‘‘ اور ’’اتحادِ تنظیماتِ مدارسِ دینیہ‘‘ کے صدر حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ نے حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہٗ سے رابطہ کیا اور اصرار فرمایا کہ ۱۷؍ دسمبر ۲۰۲۴ء کو ’’اتحادِ تنظیماتِ مدارسِ دینیہ‘‘ کی باڈی کا اجلاس ہے، اس کے فیصلوں تک انتظار کیا جائے اور کسی راست اقدام کا فیصلہ اس کے اعلامیہ کی روشنی میں کیجئے گا۔ 
پاکستان کے تمام مکاتبِ فکر کے دینی مدارس و جامعات کی تنظیمات اور وفاقوں پر مشتمل ’’اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان‘‘ نے اپنی سپریم کونسل کے اجلاس مؤرخہ ۱۶؍ دسمبر ۲۰۲۴ء بروز بدھ، بعد نمازِ مغرب بمقام جامعہ عثمانیہ اسلام آباد میں مندرجہ ذیل قرارداد اتفاقِ رائے سے منظور کی: 
’’سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ ۱۸۶۰ء کے تحت ترمیمی سوسائٹیز رجسٹریشن بل مؤرخہ ۲۰، ۲۱؍ اکتوبر ۲۰۲۴ء کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہوا اور اسی روز قومی اسمبلی کے اسپیکر کے دستخط سے حتمی منظوری کے لیے ایوانِ صدر ارسال کر دیا گیا۔ مؤرخہ ۲۸؍ اکتوبر ۲۰۲۴ء کو صدر کی طرف سے ایک غلطی کی نشاندہی کی گئی، قومی اسمبلی کے اسپیکر نے آئین اور قانون کے تحت اسے قلمی غلطی گردانتے ہوئے اس کی تصحیح کردی اور تصحیح شدہ ترمیمی بل مؤرخہ یکم نومبر ۲۰۲۴ء کو ایوانِ صدر ارسال کردیا، جسے صدر نے حسبِ قاعدہ قبول بھی کرلیا، بعدازاں صدر کی طرف سے دس دن کے اندر مذکورہ ترمیمی بل پر کوئی مزید اعتراض موصول نہیں ہوا، البتہ ۱۳؍ نومبر ۲۰۲۴ء کو نئے اعتراضات لگادیے گئے جو کہ میعاد گزرنے کی وجہ سے غیر مؤثر تھے ، نیز ایک کے بعد دوبارہ اعتراض لگایا بھی نہیں جاسکتا تھا، لہٰذا یہ بل اب قانونی شکل اختیار کرچکا ہے۔ حوالے کے لیے ’’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ‘‘ کی نظیر موجود ہے۔ نیز اسپیکر نے علی الاعلان اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان کے نزدیک یہ باقاعدہ ایکٹ بن چکا ہے اور انہیں صرف ایک ہی اعتراض موصول ہوا تھا اور دوسرا اعتراض آج تک اُنہیں نہیں ملا۔ پس ہمارا مطالبہ ہے کہ قانون کے مطابق بلاتاخیر اس کا گزٹ نوٹیفیکیشن جاری کیا جائے، تاکہ فوری طور پر اس پر عمل درآمد شروع ہو۔‘‘
گورنمنٹ نے ایک اعتراض یہ بھی کیا کہ مدارس تعلیمی ادارے ہیں تو ہم ان کو وزارتِ تعلیم میں رجسٹر کرنا چاہتے ہیں، جب کہ مدارس سوسائٹی ایکٹ کے ساتھ رجسٹر ہونا چاہتے ہیں۔ اس اعتراض کا جواب اور موجودہ تمام صورت حال کا جواب اتحادِ مدارسِ دینیہ کے صدر حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے اس اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے دیا ہے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر بطور مضمون اس شمارہ میں شاملِ اشاعت ہے۔ 
سوسائٹی ایکٹ کے تحت صرف مدارس ہی نہیں، بلکہ پاکستان میں بڑے بڑے عصری تعلیمی ادارے بھی اسی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہیں: ۱-سندھ مدرسۃ الاسلام، ۲- دی سٹی اسکول، ۳- بیکن ہاؤس، ۴- غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ، ۵- علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، ۶- الخدمت فاؤنڈیشن اسکولز، ۷- پاکستان ایجوکیشن سوسائٹی۔ یہ سب تعلیمی ادارے اگر سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹر ہوکر تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں تو پھر وفاق المدارس کے تعلیمی اداروں سے کس کو کس چیز کا خوف ہے؟ اس کے علاوہ کئی ادارے اگرچہ تعلیمی تو نہیں، لیکن یہ بھی سوسائٹیز ایکٹ کے تحت ہی رجسٹرڈ ہیں، مثلاً: ۱- ایدھی فاؤنڈیشن، ۲- چھیپا ویلفیئر ایسوسی ایشن، ۳- اُخوت فاؤنڈیشن، ۴-انجمن حمایتِ اسلام، ۵- پاک کریسنٹ سوسائٹی۔ یہ تمام ادارے بھی سوسائٹیز ایکٹ کے تحت آزادانہ کام کررہے ہیں، اگر یہ معاشرے کی بہتری کا کام کررہے ہیں تو مدارس بھی تو معاشرے کی اصلاح کا سب سے بنیادی اور ضروری کام کر رہے ہیں۔ اگر مدارس وزارتِ تعلیم کے تحت رجسٹر ہوتے ہیں تو اس کے ممکنہ نقصانات میں سے چند ایک یہ معلوم ہوتے ہیں:
1: یہ کہ سرکار کی مدد لے کر مدارس کی آزادی سلب ہوجائے گی۔ 
2: یہ کہ نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم دونوں میں مدارس کی خود مختاری ختم ہو جائے گی۔ ایک اسکول اور کالج کی طرح سرکار کا نظام اور نصاب اپنانا پڑے گا۔
3: یہ کہ جن اسٹیک ہولڈرز نے پاکستان کے عصری نظامِ تعلیم کو دائو پر لگا دیاہے ،وہی لوگ مدارس کے نظام کا کباڑا کردیں گے۔
4: یہ کہ مدارس کو رجسٹریشن رینیول اور آڈٹ کے ان مشکل ترین مراحل کا سامنا کرناہوگا، جس کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
5: یہ کہ آپ مدرسے کے لیے کسی قسم کی فنڈنگ اور ذرائع آمدن پیدا کرنے کے مجاز نہیں ہوں گے، جیسا کہ ایک اسکول اور کالج والے چندہ نہیں کرسکتے، مدرسوں کا بھی یہی حشر ہوگا۔
6: یہ کہ مدرسے کاکردار محدود ہوگا، اس طرح کہ آپ صرف تعلیمی سرگرمی تک محدود رہیں گے، یہاں تک کہ آپ کے مدرسے کی مسجد بھی مدرسے کے دائرہ اختیارمیں نہیں آسکے گی۔
7: یہ کہ کسی بھی قومی ایشو پہ موقف دینے میں مدرسہ کا دارالافتاء اآزاد نہیں ہوگا، جو سرکار کا مؤقف ہوگا وہی مدرسے کو اپنانا پڑے گا۔ مدارس جب کہ سول سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہیں تو وہ اپنے نصابِ تعلیم اور نظامِ تعلیم میں آزاد ہیں اور یہ کہ مدارس خود مختار ہیں، تمام تعلیمی، تربیتی، تدریسی اور امتحانی ضابطے اپنے ماحول کے مطابق طے کرتے ہیں۔ صرف وفاق المدارس کے امتحانی نظام کی کوئی نظیر دنیا بھر میں موجود نہیں۔ اسی طرح یہ کہ مدارس اپنے ذرائع آمدن پیدا کرنے میں آزاد ہیں اور دستیاب وسائل کے مطابق کام کررہے ہیں۔ ٹرسٹ، مسجد، یتیم خانہ، لنگر، ڈسپنسری، ناداروں اور بیواؤں کی کفالت، قدرتی آفات میں متأثرین کی بحالی، ایمبولینس سروس کی فراہمی جیسی درجنوں سرگرمیاں آسانی کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں، جبکہ مدرسہ اگر اسکول کالج کی طرح وزارتِ تعلیم کے تحت چلایا جاتا ہے تو وزارتِ تعلیم کے تحت ان جیسی سرگرمیوں کا کوئی امکان نہیں،اسی طرح قومی اور ملی ایشوز پر اہلِ مدارس کھل کر اپنا موقف دے سکتے ہیں اور دے رہے ہیں اور مسلم قوم و عوام کی راہنمائی کرنے میں آزاد ہیں۔
مزید یہ کہ تعلیمی دنیا میں ہماری عصری جامعات کی کارکردگی کسی ترجیح کی حامل نہیں ہے، جبکہ ہمارے ملک کے کئی دینی مدارس اسلامی دنیا کی اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔ باہر سے لوگ دینی علوم کے لیے پاکستان آتے ہیں، جبکہ پاکستانی شہری عصری علوم کے لیے دنیا کے ہر کونے یہاں تک کہ افغانستان میں بھی گئے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف گورنمنٹ کی دو رُخی پالیسی کا اس سے اندازہ لگائیں کہ سرکاری اسکولوں کو پرائیویٹ کیا جارہا ہے، جبکہ پرائیویٹ مدارس کو سرکاری تحویل میں لینے کے ناکام جتن کیے جارہے ہیں اور اصلاحات کی باتیں ہو رہی ہیں ،کیا یہ کھلی منافقت نہیں؟
ہمارے ملک کا تعلیمی نظام بھی عجیب ہے۔ ایک جانب اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں ہیں جو سرکاری، نیم سرکاری، نجی اور پھر طبقاتی تقسیم پر مشتمل ہیں۔ دوسری جانب دینی مدارس ہیں جن کو عموماً اس نظام سے باہر ایک ’’غیر‘‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ بعض حکومتوں نے چند دینی مدارس کواپنی تحویل میں لیا، جیسے ریاستِ سوات میں گورنمنٹ دار العلوم الاسلامیہ سیدو شریف، پھر ان میں بعض کو یونیورسٹی میں تبدیل بھی کرلیا، جیسے جامعہ اسلامیہ عباسیہ بہاولپور، سندھ مدرسۃ الاسلام وغیرہ ،ان کی حالت دیکھ کر دینی مدارس نے بجا طور پر یہ پوزیشن لی کہ ہم آزاد رہیں گے اور آزادی کے ساتھ کام کریں گے۔ گزشتہ حکومت کے دور میں یکساں نصابِ تعلیم کے لیے بھی کوششیں کی گئیں ،لیکن اس کی زیادہ مزاحمت دینی مدارس کے بجائے اشرافیہ کے اسکولوں نے کی۔
ذرائع ابلاغ میں صدر کی طرف سے یہ اعتراض نقل کیا جارہا ہے کہ مدارس کی رجسٹریشن صوبائی معاملہ ہے، اس لیے اس پر قانون سازی صوبوں کو کرنا چاہیے۔ اس عذر میں وزن نہیں ہے، کیونکہ کوئی ایسا قانون نہیں ہے جو اُسے صوبائی معاملہ بناتا ہے۔ یہ اعتراض تو مدارس سے زیادہ یونیورسٹیوں پر عائد ہوتا ہے جن پر ابھی تک ہایئر ایجوکیشن کمیشن کو مسلط کیا گیا ہے، حالانکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد انہیں صوبوں کے تحت ہونا چاہیے تھا۔ دوسرا اعتراض یہ نقل کیا گیا ہے کہ یہ ترامیم اسلام آباد میں نافذ قانونِ وقف سے متصادم ہیں۔ یہ عذر بھی وزن نہیں رکھتا، کیونکہ قوانین کی تعبیر و تشریح عدالت کا کام ہے۔ مقدمہ اصل میں تعلیمی اداروں کی خود مختاری کا ہے جو یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کو لڑنا چاہیے تھا، لیکن ان کے ذمے کا قرض اہلِ مدارس تنہا ادا کررہے ہیں۔
اب تک کی صورت حال یہ ہے کہ ۲۰؍ دسمبر ۲۰۲۴ء کو جب وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی خواہش پر حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے وزیر اعظم ہائوس میں اپنے وفد کے ہمراہ اُن سے ملاقات کی، اس کے بعد کہا گیا کہ وزیراعظم صاحب نے وزارتِ قانون کو ہدایات دےد ی ہیں کہ اس معاملے کو آئین اور قانون کے مطابق حل کیا جائے اور ہمارے حلقوں نے اس اعلامیہ کو خوش آئند قراردیا۔ اب یہ خبر آئی ہے کہ صدرِ پاکستان اس مقصد کے لیے ایک آرڈیننس جاری کریں گے اور اس کے بعد سابقہ ایکٹ بننے والے ڈرافٹ میں پارلیمنٹ سے ایسی ترامیم کرائی جائیں گی جن کی بدولت نہ صرف یہ کہ مدارس کے خدشات دور ہوسکیں گے، بلکہ مدارس کو اپنے تعلیمی وانتظامی کردار کے حوالہ سے آئینی تحفظ بھی میسر آئے گا اور یہ کہ جو مدارس وزارتِ تعلیم کے ساتھ منسلک ہونا چاہتے ہیں، وہ وزارتِ تعلیم کے ساتھ منسلک ہوجائیں اور جو سوسائٹی ایکٹ کے تحت منسلک ہونا چاہیں وہ اس کے ساتھ منسلک ہوجائیں، گویا ہر مدرسہ اور ادارہ بااختیار ہوگا۔ اللہ تعالیٰ خیر اور بہتری کا معاملہ فرمائے، آمین یا رب العالمین!

وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد و علٰی آلہٖ و صحبہٖ أجمعین

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین