بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مدارسِ عربیہ کے لیے لائحہ عمل !

مدارسِ عربیہ کے لیے لائحہ عمل !(۱)

     بسم اللہ الرحمن الرحیم                                          ۲۲؍ رجب ۱۳۸۹ھ      گرامی مآثر مخدوم ومحترم زیدت مفا خر کم العالیۃ!               السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ!     عرصہ گزرا کہ والا نامہ باعث شرف ہوا تھا، مجھے بے حدندامت اور افسوس اور اپنی تقصیر کا اعتراف ہے کہ جواب میں اتنی شدید تاخیر ہوئی۔عمر میں آپ کا یہ پہلا والا نا مہ آیا تھا، مجھے فوراً جواب دینے کی کوشش کر نی چاہیے تھی اور شاید میری عمر میں ہی کسی خط کے جواب میں اتنی شدید تاخیر کا یہ پہلا موقع ہوگا، بہر حال نادم ومقصّر ہوں، لیکن تاخیر در اصل صرف اس لیے ہوئی کہ میں چاہتا تھا کہ تعمیل حکم کے لیے مفصل عریضہ لکھوں اور اس کے لیے فرصت ونشاط کا متلاشی رہا، ایک طرف جامعہ کے سالانہ امتحان کا قرب، کتابوں کے ختم کرانے کی فکر اور دوسری طرف دوسرے مشاغل، کچھ مفید کچھ غیر مفید کاموں کا ہجوم، طبیعت میں نشاط کا فقدان، علمی کسل وغیرہ موانع پیش آتے رہے،ورنہ آپ کا نامۂ کرم جواب طلب خطوط میں سب سے پہلے رکھا تھا، امید ہے کہ میرے ان اعذ ار کی وجہ سے آپ معاف فرما کر ممنون کرم فرمائیں گے۔جس وقت آپ کا یہ نصاب مر تب ہو چکا تھا، بر ادرم مولانا صاحب نے ایک کاپی ارسال کی تھی، اس وقت سر سری سی کچھ تر میم پیش کی تھی اور ایک مختصر خط میں چند اصولی باتیں پیش کی تھیں۔ تجو یز نصاب کا مسئلہ بے حد اہم اور وقت کا شد ید تقاضا اور اہم ضرورت ہے، اور جیسا کچھ ہو سکے کوشش کر کے طے کر نے کی ضرورت ہے۔اتفاق سے مجھے عرصہ سے اس کا احساس اور شغف رہا ہے، لیکن اس ضرورت کے لیے سنجیدہ دماغ، مخلص حضرات اور تجر بہ کار اصحاب جمع ہو کر کوئی خاکہ تیار کریں تو بہتر ہوگا۔ انفرادی کو شش نہ تو مفید ہو سکتی ہے نہ مؤ ثر، نہ امت کے لیے قابل قبول۔ نصاب کے بارے میں تو میں بعد میں عرض کروں گا اور شاید اس مر اسلہ میں اس کی نوبت نہ آئے، لیکن میرے خیال میں نصاب سے زیادہ اہم چند باتیں ہیں جو تعین نصاب کے لیے اصول موضوعہ کا کام دیتی ہیں، اس لیے عرض کرتا ہوں اور یہ مقصد نہیں کہ وہ چیزیں

حاشیہ(۱)حضرت مولانابنوری v نے ایک نہایت قابل احترام بزرگ کے نام مدارس عربیہ کی افادیت کومزیدبڑھانے کے سلسلے میں مندرجہ بالاگرامی نامہ تحریر فرمایا۔  آنجناب کے پیش نظر نہیں ہیں، لیکن شاید زیادہ تو جہ نہ ہو یا کم ازکم لا زم فائدۃ الخبر کے درجہ میں خیال فرمائیں:      ۱:- نصاب کوئی بھی ہو، لیکن اساتذہ کے انتخاب میں زیادہ غور کی ضرورت ہے، اس کے لیے مندرجہ ذیل امور کا لحاظ ضروری ہے:     الف:… مفوضہ کتابوں کی تد ریس میں اعلیٰ درجہ کی مہارت رکھتے ہوں، جس کا حاصل یہ ہے کہ استعداد بہت اعلیٰ ہو۔     ب:… مخلص ہوں اور دل سے چاہیں کہ طلبہ کو علم آجائے۔     ج:…جن علوم کو پڑھاتے ہوں ان سے شغف وطبعی مناسبت ہو، غرض یہ کہ محض وقت گزارنا یا معاش کی ضرورت کو پورا کرنا مقصد نہ ہو۔ استعد اد،اخلاص، شوق ومنا سبت ‘یہ تین باتیں مد رسین کے لیے معیار انتخاب ہوں۔     ۲:- طلبہ کی آسائش وراحت کا پورا خیال رکھا جائے، اگر مدرسہ میں سوطلبہ کے لیے وسعت اور راحت کا انتظام نہ ہو تو بیس رکھے جائیں، لیکن ان کی عملی نگرانی بہت سخت کی جائے۔ درسوں میں حاضری، رات کا مطالعہ، امتحانات میں نہایت سختی کی جائے، اور تسامح نہ کیا جائے، مثلاً اگر سہ ماہی میں فیل ہوگیا تو ششما ہی کے لیے تنبیہ کی جائے کہ اگر ششما ہی میں فیل ہو گیا تو سالانہ امتحان میں نہ لیا جائے گا، اس میں کوئی مراعات ہر گز نہ کی جائے کہ یہی مراعات سمِ قاتل ہے۔     ۳:- اساتذہ کو کتابیں پڑھا نے کے لیے اتنی دی جائیں کہ آسانی سے ان کا مطالعہ کر سکیں اور ان کے متعلقات کو دیکھ سکیں اور ان کو صرف اس کتاب کے حواشی وشرح پر کفایت نہ کرنی چاہیے، بلکہ فن کی اعلیٰ کتابیں پیش نظر رکھنی چاہئیں۔     ۴:- ہر درجہ کے مناسب طلبہ کو بھی مطالعہ کے لیے کتابیں دینی چاہئیں اور ان میں امتحان ضروری ہو، یعنی بغیر تدریس کے صرف مطالعہ سے وہ ان کتابوں پر عبور حاصل کرلیں اور امتحان دیں۔     ۵:- طلبہ کی اخلاقی نگرانی بہت شدید ہونی چاہیے۔ اسلامی حلیہ اور دینی وضع میں کوئی مسامحت بر داشت نہیں کی جاسکتی، بلکہ غبی محنتی کو بر داشت کیا جائے اور ذکی مستعد آزاد کو نہ رکھا جائے۔ مدرسہ میں قواعد وضوا بط ایسے ہوں کہ نماز کی پابندی اور لباس وپو شاک میں علمی وضع کی حفاظت ملحوظ ہو۔     ۶:- مسابقت کے امتحانات مقرر ہوں، نیز ہر سہ ماہی،ششماہی امتحانات میں طلبہ کی اعلیٰ کامیابی پر وظیفہ دینا چاہیے۔     ۷:- ہر سال امتحانات میں ایک پر چہ امتحان کا محض عام استعد ادو قابلیت کا رکھنا چاہیے، جس کا کسی خاص کتاب سے تعلق نہ ہو، ہاں! اس درجہ کی اہلیت ضروری ہے۔     ۸:- عربی بولنے کی قابلیت مقاصدمیں شامل کرنی چاہیے، تین سال کے بعد تد ریس کی زبان عربی ہونا چا ہیے۔      ۹:-عربی ادب پر خاص معیار سے تو جہ دینی ہو گی، تقریر وتحریر کی تر بیت دی جائے اور اس کے لیے بہت تفصیل طلب اور مہم تنبیہات کی حاجت ہے جو بعد میں عرض کروں گا۔     ۱۰:- ہر زمانہ کا ایک فن ہوتا ہے، اس زمانہ کا مخصوص فن تاریخ وادب ہے، اس پر توجہ زیادہ کرنی ہو گی۔     ۱۱:- قرآن کریم کا ترجمہ ابتدا سے شروع کر نا چاہیے اورتین چار سال میں ختم کر نا چاہیے۔ بغیر کسی تفسیر کے محض ترجمہ ابتدائً زیر درس ہو نا چاہیے اور قابلیت بڑھا نے کے لیے مخصوص اجزا اور سورتوں کا انتخاب کرنا چاہیے اور لغوی وادبی تحقیق کے ساتھ پڑھا نا چا ہیے۔     ۱۲:- طلبہ کے مطالعہ کے لیے ایک دارا لمطالعہ مخصوص ہو، ان کے لیے مفید کتا بیں اور عربی مجلات وجرائد رکھنے چاہئیں۔     ۱۳:- مدرسہ کے سالانہ بجٹ میں ایک رقم مستقل بسلسلہ اصلاحِ نصاب اور تبدیل کتب علیحد ہ کرنا ضروری ہو، یہ اس لیے کہ نصاب کی مشکلات میں سب سے زیادہ مشکل مرحلہ ہمارے غریب مدارس کے لیے قلتِ سر مایہ کا ہے۔      ۱۴:- تین نصابوں کی ضرورت ہے:     الف:…ایک سہ سالہ نصاب :جس میں فقہ، قرآن وحدیث،تاریخ،صرف ونحو، معانی، ادب، عقائد اور فرائض شامل ہوں، تاکہ جو شخص صرف اپنی ضرورت کے لیے عالم بننا چاہتا ہو، وہ علم حاصل کر سکے، تعلیم وتد ریس کو پیشہ نہیں بنانا چاہتا ہو، بلکہ تجارت وغیرہ میں زندگی بسر کرنا چاہتا ہو۔     ب:…مدرس وعالم بننے کی لیے نصاب زیادہ سے زیادہ ہشت سالہ ہو۔     ج:…تیسر انصاب درجہ تکمیل کا ہے، ایک سال کا اور دو سال کا، اس میں مفتی، محدث، ادیب، مؤ رخ، وغیرہ اسی قسم کے چند شعبے ہوں۔حاصل یہ ہے کہ نصاب خواہ کوئی بھی ہو، لیکن اگر ان امور کی رعایت کی جائے تو ان شاء اللہ! اچھے عالم نکل سکیں گے۔      طلبہ میں تکثیر سواد کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، بلکہ معیارِ انتخاب کے مطابق کو شش کرنی چاہیے، چا ہے جتنے بھی کم ہوں۔ جو طلبہ ذہین وذ کی اور مستعد ہوں، ان کی تر غیب اور حوصلہ افزائی کے لیے مختلف وجو ہ کو پیش نظر رکھنا ضروری ہو گا، مثلاً: مخصوص وظیفہ جاری کرنا،درجہ تکمیل میں جانے کی تر غیب دینا، بلکہ درجہ تکمیل میں باقاعدہ ایسا وظیفہ دیا جائے جو ضروریاتِ زندگی کے لیے کفایت کرے۔ ایک اہم بات جو سلسلۂ تعلیم میں ضروری ہے اُسے لکھنا بھول گیا، وہ یہ کہ ابتدائی کتابیں قابل اساتذہ کے پاس ہوں، مثلاً: ہر بڑے استاد کو ایک چھوٹی کتاب دی جائے،اس میں طرفین کا فائدہ ہوگا،طلبہ کو تجر بہ کار استاذ سے استفادہ کا موقع ملے گا اور مدرس کا کا م ہلکا ہوجائے گا، بجا ئے ایک بڑی کتاب کے چھوٹی کتاب ہو گی، جس میں اُسے زیادہ دماغ سوزی نہیں کرنی پڑے گی، اور جب مدرس مخلص ہو گا تو یہ سوال پیدا نہیں ہوسکتاکہ بڑی کتابیں پڑھا نے والا چھوٹی کتابیں پڑھا نا اپنی تو ہین سمجھے۔      نصاب کے بارے میں ایک چیز قابل گزارش ہے کہ موجودہ نصاب میں سوائے چند کتابوں کے کوئی ایسی کتاب نہیں جس سے بہتر قدماء کی عمدہ تالیفات نہ مل سکتی ہوں۔نصاب کی تر میم میں یہ بات پیش نظر رکھنا بے حد ضروری ہے کہ کتابیں ایسی داخل درس ہوں جن میں کتاب کی لفظی بحثیں کم ہوں اور مصنف کے الفاظ کے مطالب بیان کر نے میں وقت زیادہ صرف نہ ہو، مثلاً: اگر اختصار شدید سے کاغذ کم خرچ کیا گیا، لیکن تفہیم میں دماغ اور وقت کتنا زیادہ لگا، اتنا وقت اگر حفظ مسائل پر خرچ ہوگا تو زیادہ بہتر ہوگا۔ ملکہ وبصیرت مختصراتِ مخلّہ سے کبھی حاصل نہیں ہوسکتی۔ زیادہ تر کوشش اس کی ہونی چاہیے کہ تفہیم مقاصد ومسائل میں پورا انشراح حاصل ہو، اگر چہ جز ئیات کا استیعاب نہ ہو سکے۔ بعض متونِ درسیہ میں اگر چہ استقصاء مسائل زیادہ ہے، لیکن پہلا مقصد حاصل نہیں ہوتا اور وہ زیادہ ضروری ہے۔رہا معاشیات واقتصاد یات وسیاسیات کا داخل نصاب ہونا تو یہ مرحلہ اتنا مشکل نہیں،امت کو اس کی اتنی ضرورت بھی نہیں، کیونکہ اس کے لیے بہت مل جاتے ہیں، مشکل تو ’’رسوخ فی العلم ‘‘ہے۔ ہمیں صحیح العلم،راسخ العلم، ذکی اور مخلص علما تیار کرنے ہیں۔ یہ چیزیں مطالعہ کی ہیں، بآسانی بعد الفراغ حاصل کی جاسکتی ہیں۔ یہ چند باتیں اس وقت مختصر فرصت میں نہایت استعجال وار تجال کے ساتھ پیش کر رہا ہوں، امید ہے کہ مزاج گرامی بعافیت ہوں گے۔ والسلام خیر ختام۔۱۳۸۹ھ  دینی مدارس کے علما وطلبا کے لیے لمحہ فکر یہ      بلاشبہ دینی مدارس کا وجود سر اپا خیر وبرکت اور ان کا منصب تعلیم وتعلم نہایت ہی اونچااور لائق فخر ہے۔ یہ دینی مدارس انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی وراثت کے امین، شریعت الٰہی کے محافظ اور امت محمد یہ lکے معلم ہیں۔ قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں دین کی تعلیم وتعلم کے جو فضائل آئے ہیں، ان سے کسی کو انکار کی مجال نہیں، لیکن یہ منصب جتنا عالی ہے، اس کی قیمت بھی اتنی ہی اونچی ہے، اور وہ صرف رضاء الٰہی اور نعیم جنت ہی ہوسکتی ہے۔ اگرا س گو ہر بے بہا کی قیمت متاع دنیا کو ٹھہرالیا جائے تو اس سے بڑھ کر کو تاہ نظری اور کیا ہوسکتی ہے ؟ حدیث میں صاف وصریح وعید وار دہے کہ: ’’من تعلم علما مما یُتبغی بہ وجہ اللّٰہ لایتعلمہ إلا لیصیب بہ عرضًا من الد نیا لم یجد عرف الجنۃ‘‘ (مسند احمد، ابو داؤد، ابن ماجہ عن ابی ہریرۃؓ)  یعنی ’’جس نے وہ علم حاصل کیا جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو سکتی ہے، مگر وہ اس کو صرف متاعِ دنیا کے لیے حاصل کرتا ہے تو اس کو جنت کی خوشبو بھی نصیب نہ ہو گی‘‘۔ سنا ہے کہ حضرت فقیہ عصر محدث وقت عارف باللہ مولانا خلیل احمد v سے کسی نے خواب بیان کیا کہ درس گاہ کی تپا ئیوں کے سامنے طلبہ کی بجائے بیل بیٹھے ہیں،فرمایا: إنا للّٰہ، اب لوگ علم دین کو پیٹ کے لیے پڑھنے لگے۔      ہمارے اکا بر کے لیے علم وتد ریس، تصنیف وتالیف،دعوت وار شاد اور امامت وخطابت کے مشاغل کبھی شکم پر وری اور جاہ طلبی کا ذریعہ نہیں رہے، بلکہ یہ خالص دینی مناصب تھے اور بزرگوں کے اخلاص وتقویٰ،خلوص وللہیت، ذکر وشغل اور اتباع سنت نے ان مناصب کے وقار کو اور بھی چار چاند لگا رکھے تھے، لیکن افسوس ہے کہ کچھ عرصہ سے دینی مدارس کی روح دن بد ن مضمحل ہوتی جارہی ہے، اسا تذہ وطلبہ میںشب خیزی، ذکر وتلاوت، زہد وقنا عت،اخلاص وللہیت اور محنت وجا نفشانی کی فضا ختم ہو رہی ہے۔ نما ز فجر کے بعد تلاوتِ قرآن کریم کی جگہ عام طور پر اخبار بینی لے رہی ہے،ریڈ یو اور ٹی وی جیسی منحوس چیز یں جد ید تمدن نے گھر گھر پہنچا دی ہیں اور ہمارے دینی قلعے،دینی مدارس بھی ان وباؤں سے متاثر ہورہے ہیں۔ یہ وہ دردناک صورت حال ہے جس نے ارباب بصیرت، اہل دل کو بے چین کر رکھا ہے۔ ہمارے مخد وم گرامی منزلت حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکر یا کا ند ھلوی (متع اللّٰہ الأمۃ بحیاتھم الطیبۃ المبارکۃ) نے اسی تأثر کی وجہ سے راقم الحروف کے نام ایک مفصل والا نامہ تحریر فرمایا ہے، ارباب مدارس کی توجہ اور اصلاح کے لیے اسے ذیل میں نقل کیاجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو اربابِ مدارس کے لیے وسیلۂ عبرت ونصیحت اور تو جہ بنائے، آمین۔ مکتوب مبارک      ’’مدارس کے روز افزوں فتن، طلبہ کی دین سے بے رغبتی وبے تو جہی اور لغویات میں اشتغال کے متعلق کئی سال سے میرے ذہن میں یہ ہے کہ مدار س میں ذکر اللہ کی بہت کمی ہوتی جارہی ہے، بلکہ قریباً یہ سلسلہ معدوم ہو چکا ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ بعض میں تو اس لائن سے تنفر کی صورت دیکھتا ہوں جو میرے نزدیک بہت خطر ناک ہے۔ ہند وستان کے مشہور مدارس دارالعلوم،مظاہرا لعلوم، شاہی مسجد، مراد آباد وغیرہ کی ابتدا جن اکا بر نے کی تھی، وہ سلوک کے بھی امام الا ئمہ تھے، انہی کی برکات سے یہ مدارس ساری مخالف ہواؤں کے باوجود اب تک چل رہے ہیں۔      اس مضمون کو کئی سال سے اہل مدارس، منتظمین اور اکا بر ین کی خدمت میں تقریر ًاوتحریر ًاکہتا اور لکھتا رہا ہوں ۔ میر اخیال یہ ہے کہ آپ جیسے حضرات اس کی طرف تو جہ فرمادیں تو زیادہ مؤ ثر اور مفید ہوگا۔ مظا ہر العلوم میں تو میں کسی درجہ میں اپنے ارادہ میں کامیاب ہوں اور دارالعلوم کے متعلق جناب  الحاج مولانا قاری محمد طیب صاحب سے عرض کر چکا ہوں اوربھی اپنے سے تعلق رکھنے والے اہل مدارس سے عرض کرتا رہتا ہوں۔ روز افزوں فتنوں سے مدارس کے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ مدارس میں ذکر اللہ کی فضا قائم کی جائے۔شرورو فتن اور تباہی وبر بادی سے حفاظت کی تد بیر ذ کر اللہ کی کثرت ہے۔جب اللہ تعالیٰ کا نام لینے والا کوئی نہ رہے گا تو دنیا ختم ہو جائے گی۔ جب اللہ تعالیٰ کے پا ک نام میں اتنی قوت ہے کہ ساری دنیا کا وجودا س سے قائم ہے تو مدارس کا وجود تو ساری دنیا کے مقابلہ میں دریا کے مقابلہ میں ایک قطرہ بھی نہیں، اللہ تعالیٰ کے پاک نام کو ان کی بقاء وتحفظ میں جتنا دخل ہو گاظا ہر ہے۔     اکابر کے زمانہ میں ہمارے ان جملہ مدارس میں اصحابِ نسبت اور ذاکر ین کی جتنی کثرت رہی ہے، وہ آپ سے بھی مخفی نہیں اور اب اس میں جتنی کمی ہو گئی وہ بھی ظا ہر ہے، بلکہ اگر یوں کہوں کہ اس پاک نام کے مخالف حیلوں اور بہانوں سے مدارس میں داخل ہوتے جارہے ہیں تو میرے تجر بہ میں تو غلط نہیں، اس لیے میری تمنا ہے کہ ہر مدرسہ میں کچھ ذا کر ین کی تعداد ضرور ہوا کرے۔      طلبہ کے ذکر کر نے کے تو ہمارے اکا بر بھی خلاف رہے ہیں اور میں بھی موافق نہیں، لیکن منتہی طلبہ یا فارغ التحصیل یا اپنے سے یا اپنے اکا بر ین سے تعلق رکھنے والے ذاکرین کی کچھ مقدار مدار س میں رہا کرے اور مدرسہ ان کے قیام کا کوئی انتظام کر دیا کرے۔ مدرسہ پر طعام کا بار ڈالنا تو مجھے بھی گوارا نہیں، طعام کا انتظام تومدرسہ کے اکابر میں سے کوئی شخص ایک یاد و اپنے ذمہ لے لے یا باہر سے مخلص دوستوں میں سے کسی کو متوجہ کر کے ایک ایک ذکر کرنے والے کا کھا نا کسی کے حوالہ کر دیا جائے، جیسا کہ ابتدا میں مدار س کے طلبہ کا انتظام اسی طرح ہوتا تھا، البتہ اہل مدارس ان کے قیام کی کوئی صورت اپنے ذمہ لے لیں جو مدرسہ ہی میں ہو، اور ذکر کے لیے کوئی ایسی مناسب جگہ تشکیل کریں کہ دوسرے طلبہ کا کوئی حرج نہ ہو، نہ سونے والوں کا، نہ مطالعہ کرنے والوں کا۔      جب تک اس نا کارہ کا قیام سہار ن پور میں رہا تو ایسے لوگ بکثرت رہتے تھے جو میرے مہمان ہو کر ان کے کھانے پینے کا انتظام تو میرے ذمہ تھا، لیکن قیام اہل مدرسہ کی جانب سے مدرسہ کے مہمان خانہ میں ہو تا تھا، اور وہ بد لتے سد لتے رہتے تھے، صبح کی نماز کے بعد میرے مکان پر ان کے ذکر کا سلسلہ ایک گھنٹہ تک ضرور رہتا تھا، اور میری غیبت کے زمانہ میں بھی سنتاہوں کہ عزیز طلحہ کی کوشش سے ذاکر ین کی وہ مقدار اگر چہ نہ ہو، مگر ۲۰، ۲۵ کی مقدار وز انہ ہو جاتی ہے، میرے زمانہ میں تو سو، سوا سوتک پہنچ جاتی تھی اور جمعہ کے دن عصر کے بعد مدرسہ کی مسجد میں تو دو سو سے زیادہ کی مقدار ہو جاتی تھی اور غیبت کے زمانہ میں بھی سنتا ہوں کہ ۴۰، ۵۰ کی تعداد عصر کے بعد ہوجاتی ہے، ان میں باہرکے مہمان جو ہوتے ہیں وہ دس بارہ تک تو اکثر ہو ہی جاتے ہیں۔ عز یز مولوی نصیر الدین سلمہٗ، اللہ تعالیٰ اس کو بہت جزائے خیر دے، ان لوگوں کے کھانے کا انتظا م میرے کتب خانہ سے کرتے رہتے ہیں، اسی طرح میری تمنا ہے کہ ہر مدرسہ میں دو چار ذاکرین ضرور مسلسل رہیں، داخلی اور خارجی فتنوں سے بہت امن کی امید ہے،ورنہ مدارس میں جو داخلی اور خارجی فتنے بڑھتے جارہے ہیں، اکا بر سے زمانہ میں جتنا بعد ہوتا جائے گا اس میں اضافہ ہی ہوگا۔     اس نا کارہ کو نہ تحریر کی عادت، نہ تقریر کی، آپ جیسا یا مفتی محمد شفیع صاحب جیسا کوئی شخص میرے اس مافی الضمیر کو زیادہ وضاحت سے لکھتا تو شاید اہل مدارس پر اس مضمون کی اہمیت زیادہ واضح ہوجاتی۔ اس نا کارہ کے رسالہ ’’فضائل ذکر‘‘ میں حافظ ابن قیم v کی کتاب ’’الوابل الصیّب‘‘ سے ذکر کے سو کے قریب فوائد نقل کیے ہیں، جن میں شیطان سے حفاظت کی بہت سی وجوہ ذکر کی گئی ہیں، شیاطینی اثرہی سارے فتنوں اور فساد کی جڑہیں۔ فضائل ذکر سے یہ مضمون اگر جناب سن لیں تو میرے مضمون بالا کی تقویت ہو گی، اس کے بعد میر امضمون تو اس قابل نہیں جو اہل مدارس پر کچھ اثر انداز ہو سکے۔ آپ میری درخواست کوزوردار الفاظ میں نقل کر اکر اپنی یا میری طرف سے بھیج دیں تو شاید کسی پر اثر ہوجائے۔      دارالعلوم، مظا ہر علوم اور شاہی مسجد کے ابتدائی حالات آپ کو مجھ سے زیادہ معلوم ہیں کہ کن صاحب نسبت اصحاب ذکر کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ انہی کی برکات سے یہ مدارس اب تک چل رہے ہیں۔ یہ ناکارہ دعاؤں کا بہت محتاج ہے، بالخصوص حسن خاتمہ کا کہ گور میں پاؤں لٹکائے بیٹھا ہے۔                     حضرت شیخ الحدیث مدظلہ،بقلم حبیب اللہ۔ ۳۰ نو مبر ۱۹۷۵ئ، والسلام،مکۃ المکرمۃ ٭٭٭

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین