بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مختلف معاشروں کا اختلاط اور نقصان

مختلف معاشروں کا اختلاط اور نقصان

قرآن مجید میںحضرت یوسف علیہ السلام کا قول منقول ہے: ’’وَأْتُوْنِیْ بِأَہْلِکُمْ أَجْمَعِیْنَ‘‘۔ ترجمہ: ’’اور تم اپنے تمام خاندان کو میرے پاس لے آؤ‘‘۔سورۂ یوسف کی آیت کے اس آخری حصے کو حضرت یوسف ؑکا دعوت نامہ بھی کہا جاسکتا ہے، جس کے ذریعے آپؑ اپنے تمام خاندان کو مصر آنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ برادرانِ یوسف ؑ نے جب یہ دعوت نامہ اپنے والد کو پیش کیا تو حضرت یعقوب ؑ اپنے سارے خاندان کے ساتھ مصر چلے گئے اور اپنے فرزند حضرت یوسف ؑ سے دوبارہ ملاقات ہوئی اور یوں ستائیس (۲۷) سالوں پر محیط جدائی کا زمانہ ختم ہوگیا۔ مصر میں دورانِ قیام عزیز مصر نے حضرت یوسف ؑ سے اصرار کیا کہ اب تم اپنے خاندان کو مصر میں ہی آباد کرو، عزیز مصر کا اصرار دیکھ کر حضرت یوسف ؑ نے اپنے والد بزرگوار اور خاندان کو نصیحت کی کہ جب عزیز مصر آپ سے مصر میں ہی رہنے کی درخواست کرتے ہوئے زمین اور مقام کے انتخاب کے لئے کہے تو تم اپنی رہائش کے لئے فلاں حصہ طلب کرنا اور کہنا کہ چونکہ ہم قبائلی زندگی کے عادی ہیں، عام شہری زندگی سے الگ رہنا ہی پسند کرتے ہیں۔ حضرت یوسف ؑ کی اس نصیحت میں قابل فکر یہ بات ہے کہ آپؑ نے اپنے خاندان کو شہر سے الگ رہنے کا مشورہ کیوں دیا؟ شہری زندگی پر آپؑ کے کیا تحفظات تھے؟ مصری قوم کے ساتھ مل جل کررہنے میں کیا حرج تھی؟صاحب قصص القرآن مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒ نصیحت ِ یوسف ؑ کی وجہ لکھتے ہوئے وضاحت کرتے ہیں کہ اس سے حضرت یوسف ؑ کا مقصد یہ تھا کہ اس طرح مصریوں سے الگ رہنے میں بنی اسرائیل اپنی زندگی پر قائم، مصری بت پرستی سے متنفر ، مصری بداخلاقی اور مبتذل شہری عادات وخصائل سے محفوظ رہیںگے اور اپنی شجاعانہ بدویانہ زندگی کو کبھی نہیں بھولیں گے۔حقیقت تویہ ہے کہ نصیحت ِ یوسف ہر اس ملک وملت کے لئے قانون واصول کی حیثیت رکھتی ہے جو اپنے مذہب اور اپنی تہذیب کی محافظ ہو۔ آپ کی یہ وصیت زمانۂ گزشتہ میں بھی مؤثر تھی اور اب بھی مؤثر ثابت ہوگی۔     بہرحال خاندانِ یوسف کو مصر میں زمانہ گزرتا گیا، رفتہ رفتہ اسرائیلی آبادی بڑھتی گئی اور آبادی کا یہ سلسلہ مصری قوم میں بھی بڑھتا گیا، ماضی دور ہوتا گیا اور حال مستقبل کو قریب لاتاگیا، دوقوموں کی دوریاں قربتوں میں بڑھتی گئیں، نتیجتاً غیر اختیاری طور پر پر دو تہذیبیں ضم ہوگئیں، دریچے ایک دوسرے کے صحن وگلیوں میں کھلنے لگے، ایک کی چھت دوسرے گھر کا صحن بننے لگی۔پھر ایک بادشاہت ایسی آئی جس میں اسرائیلیوں کی شہریت کی منسوخی اور سلب آزادی کے منصوبے بننے لگے اور اسرائیلیوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا جانے لگا۔ قرآن کریم نے ظالم بادشاہ کے ظلم کی حقیقت سے تمام انسانیت کو آگاہ کیا: ’’ اور یاد کرو جب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی، جو تمہیں بدترین عذاب دیتے تھے، جو تمہارے لڑکوں کو مار ڈالتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتے تھے، اسی نجات میں تمہارے رب کی بڑی آزمائش تھی‘‘۔                     (البقرۃ۴۹) فرعون کے ظلم وستم اور اسرائیلیوں کی غلامی کے متعلق حضرت مولاناحفظ الرحمن سیوہاروی ؒ مصری عالم ‘عقیق احمد یوسف آفندی کی تورات کی تحقیق کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ جس فرعون نے بنی اسرائیل کے ساتھ عداوت کا معاملہ کیا اور ان کو سخت مصائب میں مبتلا رکھا، اسی فرعون نے اسرائیلیوں سے دو شہروں (رعمیس اور فیثوم) کی تعمیر بھی کروائی۔ مزید لکھتے ہیں کہ: جس فرعون کے دور میں بنی اسرائیل مصائب میں مبتلا تھی، وہ فرعون مصری حکمرانوں کا انیسواں (۱۹) خاندان تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اسی کے زمانے میں پیدا ہوئے اور اسی کی آغوش میں پرورش پائی تھی اور یہی وہ فرعون ہے جس کو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام نے اسلام کی دعوت دی تھی اور اسی سے بنی اسرائیل کی آزادی ورہائی کا مطالبہ کیا تھا اور اسی مطالبہ کا ذکر قرآن میں بھی ہے: ترجمہ:’’ پھر دونوں فرعون کے پاس آؤ، پس کہوہم بلاشبہ جہانوں کے پروردگار کے پیغمبر اور ایلچی ہیں، (یہ پیغام لے کر آئے ہیں کہ) تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے، فرعون نے کہا :کیا ہم نے تجھ کو اپنے یہاں لڑکا سانہیں پالا اور تو ہمارے یہاں ایک مدت نہیں رہا‘‘۔                          (الشعرائ:۱۶،۱۷،۱۸) بالآخر بحکمِ خداوندی حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو فرعون سے آزاد کرانے کے لئے اُنہیں بحر قلزم کی طرف لے کرچلے اور پھر آگے چل کر یہ واقعات پیش آئے: عبورِ قلزم اور آزادی کے بعد بنی اسرائیل کا پہلا اور حیران کن مطالبہ حضرت مولاناسیوہاروی ؒ بحوالہ تورات لکھتے ہیں کہ جب بنی اسرائیل سلامتی کے ساتھ بحر قلزم پار کرگئے اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے فرعون اور سب کی فوج کو غرق ہوتے، نعشوں کو تیرتے دیکھا تو بتقاضائے فطرت بے حد مسرت اور خوشی کا اظہار کیا ، پھر اس کے بعد حضرت موسی ؑ نے پوری قوم کو جمع کرکے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو جس نے تم کو اس زبردست فتنے سے نجات دی۔ بعد ازاں حضرت موسی ؑ نے اپنی قوم کو لے کر بیابانِ شور سے ہوتے ہوئے سیناء کی راہ لی۔ قوم نے جب وہاں کے بت کدوں میں پرستاران صنم کو بتوں کی پوجا میں مشغول دیکھا تو کہنے لگے: موسیٰ! ہم کو بھی ایسے ہی معبود بنادے، تاکہ ہم بھی اسی طرح ان کی پرستش کریں۔ قرآن نے بھی اس کو نقل کیا ہے:  ترجمہ:’’ اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پار کردیا، پھر ان کاگزر ایک ایسی قوم پر ہوا جو اپنے بتوںسے لگے تھے تو کہنے لگے موسیٰ! جیسے ان کے معبود ہیں، ایسے ہی ہمارے لئے بھی بنادے،موسیٰ نے کہا: افسوس تم پر! بلاشبہ تم جاہل قوم ہو، بے شک ان لوگوں کا طریقہ تو ہلاکت کا طریقہ ہے اور یہ جو کچھ کررہے ہیں باطل ہے (اور یہ بھی) کہا کہ باوجود اس کے کہ تم کو خدانے تمام کائنات پر فضیلت دی ہے ، پھر بھی میں تمہارے لئے خدائے واحد کے سوا اور معبود تلاش کروں؟  (الاعراف:۱۳۸،۱۳۹،۱۴۰) بت پرستی گناہوں کی فہرست میں سخت ترین گناہ ہے، بارگاہ خداوندی میں ناقابل معافی جرم ہے، کبیرہ گناہوں کی فہرست میں سب سے پہلا گناہ شرک ہے تو آخر وہ کیا وجہ تھی؟ وہ کیا اور کب کے اثرات تھے کہ سلسلۂ انبیاء علیہم السلام کی حامل معزز قوم بنی اسرائیل اسی بت پرستی کا مطالبہ کر بیٹھی۔ بات اصل یہ ہے کہ اگرچہ بنی اسرائیلی نبیوں کی اولاد تھے اور ابھی تک ان میں وہ اثرات ایک حد تک باقی تھے جو ان کو باپ ، دادا سے ملے تھے، مگر ساڑھے چار سو برس سے دو قوموںاور تہذیبوں کا انضمام، دو الگ الگ عقائد وفکر کا اختلاط اور مصری بت پرستوں کے حاکمانہ اقتدار میں غلام رہنے کی وجہ سے بنی اسرائیل میں بت پرستی کا جذبہ بھی سرایت کرچکا تھا اور یہ مطالبہ اسی رہن سہن اوراختلاط کا اثر تھا، جو آج پجاریوں کو دیکھ کر ان میں ابھر آیا تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ناپاک مطالبہ کر بیٹھے۔ قارئین کرام! مضمون کی ابتدا میں حضرت یوسف علیہ السلام کی اپنی قوم کو کی جانے والی نصیحت کہ شہر سے الگ رہنے کو ترجیح دی جائے، تاکہ بنی اسرائیل مصری اختلاط سے الگ رہے، درحقیقت آج بھی مذہبی تشخص کی بقا ونشو ونما کے لئے ضروری ہے کہ نصیحت یوسف کو اپنے حق میں بھی سمجھاجائے۔ ملک وملت کے تحفظ کے لئے غیر مسلم اقوام کے مادر پدر آزاد ماحول کی یلغار کو روکنے کے لئے قلم، زبان اورمنبر ومحراب کے ذریعے عوام میں شعور بیدار کیا جائے کہ اسلامی ثقافت واسلامی شناخت ہی ہماری پہچان ہے۔ ہر صورت اپنی ثقافت وشناخت کو برقرار رکھا جائے اور دیگر تہذیبوں کے غلط اثرات سے محفوظ رکھا جائے۔ ٭٭٭

ُ

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین