بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

محض تصاویر دیکھ کرمشین کا حتمی کاروبارکرنا!

محض تصاویر دیکھ کرمشین کا حتمی کاروبارکرنا!

    کیا فرماتے ہیں علماء کرام اور مفتیان عظام اس بارے میں کہ:     ۱:- ہمارا کاروبار مشینری کا ہے، ہم باہر سے مشینری منگوا کر یہاں فروخت کرتے ہیں، مشینری کی تصاویر کو کمپیوٹر پر دیکھ کر پھر سودا طے کرتے ہیں، جس شخص کے ساتھ کسی چیز کا سودا کرنا ہوتا ہے، اس کی مشین کی تصویر بذریعہ انٹرنیٹ دیکھنے کے بعد قیمت متعین کی جاتی ہے، آرڈر پہلے دیتے ہیں، چیز بعد میں آتی ہے، قیمت پہلے ادا کردی جاتی ہے، خیارِ رؤیت کو وہ بائع نہ جانتا ہے اور نہ مانتا ہے، پاکستان آکر وہ چیز چاہے اسی معیار کی ہوجو انٹرنیٹ پر دکھائی گئی تھی یا نہ ہو، بہر صورت یہ چیز خریدنے والے کی ہوگئی، نہ واپس کی جاسکتی ہے اور نہ قیمت میں کٹوتی کی جاسکتی ہے۔ کیا اس طرح کا عقد جائز ہے؟ اگر ناجائز ہے تو جواز کی کیا صورت ہوگی؟     ۲:- بسااوقات بائع ایسی صورت میں جب مشین معیاری نہ ہو، تو قیمت کے گھٹانے پر راضی ہوجاتا ہے، کیا یہ جائز ہے؟ جبکہ خریدی ہوئی چیز یا مشین کسی بھی صورت واپس نہیں ہوسکتی۔     ۳:- بسااوقات مشین کی بیع طے ہوجاتی ہے، ادائیگی نہیں ہوتی یا آدھی ادائیگی ہوتی ہے، لیکن بائع کمپنی کی طرف سے یہ مشین خریدنے والے کی ہوگئی، بھلے رقم بعد میں ادا کریں۔ کیا اس صورت میں یہ مشین مشتری کسی اور کو فروخت کرسکتا ہے؟ جبکہ ابھی تک مشتری نے مشین کی کل قیمت بائع (کمپنی)کو ادا نہیں کی اور تجارتی اصول کے مطابق مشتری اس مشین کا بہرحال مالک ہے اور واپسی ناممکن ہے۔     ۴:- بسااوقات کوئی کمپنی مشتری کو تصویر دکھا کر خیار رؤیت دیتی ہے، اس طرح کہ اگر پسند نہ ہو تو قیمت میں کٹوتی پر کمپنی راضی ہے، واپسی پر نہیں، یعنی اقالہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ اس صورت میں چونکہ چیز باہر ملک سے پاکستان آچکی ہے، جس پر کافی خرچ آچکا ہوتا ہے، لہٰذا مشین ناقابل واپسی ہوتی ہے، البتہ قیمت کے اعتبار سے کمی کی جاسکتی ہے، لیکن کبھی بعض کمپنیاں ایسی ہوتی ہیں جو خیار رؤیت نہیں دیتیں اور قیمت میں بھی باوجود عیب وغیرہ کے کوئی کمی نہیں کرتیں، کیا اس طرح عقد جائز ہے؟ اگر ناجائز ہے تو جواز کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟                                             مستفتی:حاجی نثار، کراچی الجواب باسمہٖ تعالٰی     ۱، ۲:- واضح رہے کہ انٹرنیٹ پر تصاویر دیکھ کر مشین کا معیار اور سودا طے کرکے اس شرط پر مشینری منگوانا کہ خریدار کو دیکھنے کے بعد غیر معیاری ہونے کی صورت میں کسی قسم کے اعتراض کا حق نہیں ہوگا، شرعاً ناجائز ہے، نیز منگوائی گئی چیز یامشین کے ناپسند ہونے کی صورت میں قیمت میں کمی کردی جائے یہ بھی ناجائز ہے۔ اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ فروخت کرنے والی پارٹی کو معیاری چیز بھیجنے کا پابند بنایاجائے، مطلوبہ معیار سے کم ہونے یا تعارف میں ذکر کردہ تفصیل کے خلاف ہونے کی صورت میں معاملہ کرنے کی پابندی کا استثناء کرلیا جائے یا پھر جیسے بھی ہو خریدار پارٹی بیع فاسد ہونے کے باوجود اسے لے لے اور آگے مناسب دام میں بیچ دے، بیع فاسد ہونے کے باوجود ناقابل واپسی املاک پر خریدار کا قبضہ وحق فقہاء کی تصریحات کے مطابق اگلے تصرفات کے لیے تسلیم کرلیا جاتا ہے۔’’فتح القدیر‘‘ میں ہے: ’’ ثم جملۃ المذاہب فیہ أن یقال: کل شرط یقتضیہ العقد کشرط الملک للمشتری لایفسد العقد لثبوتہٖ بدون الشرط وکل شرط لایقتضیہ العقد وفیہ منفعۃ لأحد المتعاقدین أو للمعقود علیہ ہو من أہل الاستحقاق یفسدہٗ۔‘‘(ج:۶، ص:۷۷، ط:بیروت) ’’فتاویٰ شامی‘‘ میں ہے: ’’وإذا قبض المشتری المبیع برضا بائعہ صریحا أو دلالۃ فی البیع الفاسد ولم ینہہ ملکہ … (و) یجیب (علی کل واحد بیدہا فسخہ قبل القبض أو بعدہ مادام المشتری فی ید المشتری الخ۔‘‘            (فتاویٰ شامی، ج:۵، ص:۹۱، ط:سعید) ’’فتاویٰ عالمگیری (ص:۳، ص:۱۴۷، ط:رشیدیہ)‘‘ میں ہے: ’’وإذا أذن لہ بالقبض فی المجلس أو بعد الافتراق عن المسجد صح قبضہ ویثبت الملک قیاسا واستحساناً إلا أن ہنا الملک یستحق النقص الخ‘‘۔     ۳:- اپنے قبضہ وتحویل میں آنے کا انتظار کریں، جب مشین خریدار کے شرعی وقانونی قبضہ وتحویل میں آجائے تو قیمت کی ادائیگی سے قبل بھی بیچ سکتے ہیں، جب تک خریدی جانے والی چیز خریدار کے قبضہ میں نہ آئے تو بیع نہ کی جائے، البتہ وعدۂ بیع کرسکتے ہیں، جس کا پورا کرنا اخلاقاً ضروری ہوگا اور اس وعدہ کے پورا کرنے کے لیے بحیثیت مسلمان اپنے آپ کو پابند سمجھا جائے۔فتح القدیر ( ج:۶، ص:۱۳۵، ط:بیروت)میں ہے: ’’فصل ومن اشتری شیئًا مما ینقل ویحول لم یجز لہٗ بیعہٗ حتی یقبضہٗ لأنہٗ علیہ الصلاۃ والسلام نہٰی عن بیع مالم یقبض ولأن فیہ غرر انفساخ العقد علٰی اعتبار الہلاک‘‘۔     ۴:- منگوائی گئی مشین کے غیرمعیاری اور ناقص ہونے کی صورت میں خیارِ رؤیت کی بنیاد پر مشین کی خریداری کا سابقہ معاملہ ختم کردیں اور از سر نو دونوں فریق آزادانہ حیثیت میں نئے بھاؤ تاؤ کے ذریعہ نیا معاملہ کرلیں، تو یہ جائز ہوگا۔       الجواب صحیح                  الجواب صحیح                  کتبہ محمد عبد المجید دین پوری           محمد انعام الحق                 محمد عمر                              متعلم تخصص فقہ اسلامی، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری، ٹاؤن کراچی

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین