بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خانؒ .... اِک عہد جو تمام ہوا

محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خانؒ

اِک عہد جو تمام ہوا


محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان مرحوم کا نام پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ وہ پاکستان کے معروف ایٹمی سائنس دان اور اس کے نامور ہیرو رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت سے نواز کر دُنیا بھر کی عالمی طاقتوں کے درمیان ایک نمایاں مقام و مرتبہ دلایا۔بلاشبہ اُن کی ملکی و قومی اور ملی خدمات کو ہمیشہ سراہا جائے گا اور اُن خدمات سے ہم پاکستانی کبھی عہدہ برآ نہیں ہوسکتے ، بلکہ اُن کی خدمات کے سامنے ہماری گردنیں ہمیشہ جھکی رہیں گی۔
ڈاکٹر صاحب مؤرخہ ۲۷؍اپریل ۱۹۳۶ء (اور سرکاری کاغذات کے مطابق یکم اپریل ۱۹۳۶ء ) کو ہندوستان کی مشہور ریاست ’’بھوپال‘‘ میں پیدا ہوئے۔والد کا نام عبد الغفور خان (ہیڈ ماسٹر سپرنٹنڈنٹ آف سکولز) اور والدہ کا نام زلیخا بیگم ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے ۴ بھائی ہیں:عبد الرؤف خان(مرحوم) عبد اللطیف خان، عبد الحفیظ خان، عبد القیوم خان۔ ۲؍بہنیں ہیں: ثریا بیگم، رضیہ بیگم۔ ۲؍ بیٹیاں ہیں: دینا خان اور عائشہ خان ۔ 
ڈاکٹر صاحب نے ۱۹۴۸ء میں پرائمری کی تعلیم گنوری (Ginnori) بھوپال میں حاصل کی۔ ۱۹۵۰ء میں جہانگیریہ مڈل سکول بھوپال سے مڈل کیا۔ ۱۹۵۲ء میں حمیدیہ ہائی سکول بھوپال سے میٹرک کیا، اور پھر میٹرک کے فوراً بعد ۱۹۵۲ء ہی میں پاکستان کی طرف ہجرت کی۔ ۱۹۶۰ء میں ڈے جی کالج کراچی (Dayaram jeth mal college karachi) سے بی ایس سی کیا۔۱۹۵۹ء سے ۱۹۶۱ء تک کراچی کے محکمہ وزارتِ پیمانہ جات ( پیمائش و اوزان) میں ملازمت اختیار کی۔ ۱۹۶۲ء تا ۱۹۶۳ء برلن مغربی جرمنی ٹیکنیکل یونیورسٹی سے میٹالرجیکل کا ڈپلومہ کیا، جہاں سے اسکالر شپ ملی اور وہیں رہنے لگے۔ اور اس دوران ہی ’’برلن‘‘ سے روزنامہ جنگ کے لیے ’’مکتوبِ برلن‘‘ کے عنوان سے ڈائری لکھی۔ 
۱۹۶۴ء میں ہیگ (ہالینڈ) میں ہینی خان (Hende rina) نامی ایک خاتون سے شادی کی۔ نکاح جمال الدین حسن( فرسٹ سیکرٹری پاکستانی سفارت خانہ ہیگ) نے پڑھایا۔ منجملہ گواہانِ نکاح کے ایک نام قدرت اللہ شہاب (سفیرِ پاکستان ہالینڈ) کا بھی ہے۔ ۱۹۶۷ء میں فزیکل میٹالرجی ٹیکنیکل یونیورسٹی ڈیلفٹ (Daelfet) ہالینڈ سے ایم ایس سی کیا۔ اسی سال پاکستان واپس آکراسٹیل ملز کراچی میں ملازمت حاصل کرنے کی کوشش کی ، لیکن کامیابی نہ ملی تو مجبوراً دوبارہ ہالینڈ چلے گئے۔
 اسی دوران برطانیہ، ہالینڈ اور بیلجیم نے مشترکہ طور پر ایک ’’ڈچ کمپنی‘‘ وی، ایم، ایف کو یورینیم کی افزودگی کے لیے ’’سینٹری فیوج‘‘ بنانے کا ٹھیکہ دیا، اِس فرم نے ایف، ڈی ، او (فزیکل ڈائنا میکل ریسرچ لیبارٹری) کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا اور ’’المیلو‘‘ کے مقام پر پراجیکٹ شروع کیا۔ اپریل۱۹۷۲ء تا ۱۹۷۶ء کو نیدرلینڈ (ہالینڈ) ’’المیلو‘‘ کے ’’ ایف، ڈی، او‘‘ یورینیم انرچمنٹ پلانٹ میں ملازمت اختیار کی۔ ’’المیلو‘‘ میں ’’ڈچ، بیلجیم، اور انگریز سائنس دان مل کر کام کرتے تھے، اُن کی دستاویزات اُن کی مادری زبانوں میں تھیں، اُن کے ترجمہ کے لیے اُن زبانوں کو سمجھنے والے کسی شخص کی ضرورت پڑی تو یہ ضرورت ڈاکٹر صاحب کو سونپ دی گئی، جہاں اُنہیں انتہائی حساس اور اہم پروجیکٹ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ 1972ء میں اُنہوں نے Leuven یونیورسٹی بیلجیم سے پی ایچ ڈی کی۔ 
۱۹۷۴ء میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے رابطہ قائم ہوا اور مئی ۱۹۷۶ء میں باقاعدہ پاکستان میں کام کا آغاز کیا۔ ۱۹۷۶ء کو جب بھارت نے ایٹمی دھماکہ کیا تو ڈاکٹر صاحب کے دل میں اپنے دیس کو ’’ایٹمی قوت‘‘ بنانے کی خواہش پیدا ہوئی ، اس کی تکمیل کے لیے وہ مئی ۱۹۷۶ء کو پاکستان آئے اور ۳۱؍ جولائی ۱۹۷۶ء کو انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز (E.R.L) قائم ہوئی۔۳۱؍جولائی ۱۹۷۶ء تا ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۹۸ء بطور پراجیکٹ ڈائیریکٹر ریسرچ لیبارٹری کہوٹہ سے وابستہ رہے۔ کہوٹہ لیبارٹری میں انتہائی راز داری اور محنت سے کام شروع کیا، جہاں ڈاکٹر صاحب اور اُن کے رفقاء کو مسلسل اٹھارہ، اٹھارہ گھنٹے کام کرنا پڑتا۔ ۱۹۷۸ء کو لیبارٹری پر سینٹری فیوج کے تحت یورینیم افزودہ کرنے کا تجربہ کامیاب ہوا ، پھر ایک سال بعد ایٹمی پلانٹ بھی بن گیا۔یکم مئی ۱۹۸۱ء کو جنرل ضیاء الحق مرحوم نے ڈاکٹر صاحب کی خدمات کے اعتراف کے طور پر کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری کا نام’’ ڈاکٹر اے کیو خان (یعنی ڈاکٹر عبد القدیر خان) لیبارٹری رکھا۔ ۱۴؍اگست ۱۹۸۹ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ہلالِ امتیاز سے نوازا۔
۲۵؍ جولائی ۱۹۹۳ء کو ڈی ایس سی یونیورسٹی آف کراچی ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۹۴ء کو انتخاب کلام شعراء مرتب کیا۔۱۴؍ اگست ۱۹۹۶ء کو صدر فاروق احمد لغاری نے نشانِ امتیاز سے نوازا۔ ڈاکٹر صاحب کی مدتِ سروس ۱۹۹۶ء میں ختم ہونے والی تھی، لیکن پہلے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے ۳؍ سال اور پھر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے ۲؍ سال اُن کی مدتِ ملازمت میں توسیع کردی۔ ۱۹۹۷ء میں پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کے بلا مقابلہ صدر رہے۔
 ۶؍اپریل ۱۹۹۸ء کو ڈاکٹر صاحب نے غوریI، 1500 کلو میٹر (بلاسٹک میزائل تجربہ) کیا۔ لیکن جنرل پرویز مشرف (جو اس وقت منگلا کور کمانڈر کے طور پر مدعو تھے اور حواس باختہ تھے تو انہوں ) نے اس پر ڈاکٹر صاحب سے اختلاف کیا ، جس کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے فرمایاکہ ہم آیۃ الکرسی کا ورد کر رہے ہیں اور اُدھر کعبۃ اللہ میں حج ہورہا ہے، اس لیے گھبرانے کی چنداں ضرورت نہیں، اللہ خیر کرے گا۔ اِس طرح ڈاکٹر صاحب نے اللہ کا نام لے کر بلاسٹک میزائل کا تجربہ کیا جو کامیاب رہا۔ ۱۴؍اپریل ۱۹۹۸ء کو غوری II غوری بلاسٹک میزائل کا تجربہ کیا ۔اس کے ساتھ ساتھ بکتر شکن اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائل کا بھی تجربہ کیا۔
 ۲۸؍مئی ۱۹۹۸ء کو پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے اور یوں ڈاکٹر صاحب کی کاوشیں پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کی صورت میں رنگ لائیں۔ ۱۴؍اگست ۱۹۹۸ء کو صدر محمد رفیق تارڑ نے نشانِ امتیاز سے نوازا۔ اور اس طرح ڈاکٹر صاحب پاکستان کی تاریخ میں دوسری مرتبہ نشانِ امتیاز حاصل کرنے والی پہلی شخصیت بن گئے۔ ۱۱؍دسمبر ۱۹۹۸ء کو ڈی ایس سی بقائی میڈیکل یونیورسٹی سے ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی ڈگری حاصل کی۔ ۶؍مارچ ۱۹۹۹ء کو ڈی ایس سی ہمدرد یونیورسٹی سے ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی ڈگری حاصل کی۔ ۱۶؍ اپریل ۱۹۹۹ء کو ڈی ایس سی گومل یونیورسٹی سے ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی ڈگری حاصل کی۔ ۲۰۰۰ء کومرتب شدہ نوادرات کے ۴؍ ایڈیشن شائع کیے۔
 ۶؍ دسمبر ۲۰۰۰ء کو ڈی ایس سی یونیورسٹی آف انجینئرنگ ٹیکنالوجی لاہور سے ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی ڈگری حاصل کی۔ ۲۰۰۰ء میں اسلامک ڈویلپمنٹ بینک کے سائنس و ٹیکنالوجی کے ایڈوائزر ی پینل کے چیئرمین رہے۔ ۲۵؍مارچ ۲۰۰۱ء کو ڈی ایس سی سر سید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کراچی سے ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی ڈگری حاصل کی۔۱۴؍ اکتوبر ۱۹۹۸ء تا ۳۱؍ مارچ۲۰۰۱ء ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹری کہوٹہ کے چیئرمین رہے۔ مئی ۲۰۰۰ء کو غوری III (4000 کلومیٹر) غوری تھری پر پچاس فیصد کام مکمل ہوچکا تھا کہ چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف نے یہ کہہ کر کہ: ’’ اب اسرائیل کو تباہ کرنا چاہتے ہو‘‘ مزید فنڈز جاری نہ کیے۔۲۰۰۱ء میں جنرل پرویز مشرف نے بیرونی دباؤ میں آکر ڈاکٹر صاحب کو اُن کے عہدہ سے سبکدوش کرکے اپنا مشیر مقرر کیا۔
ڈاکٹر صاحب یکم اپریل ۲۰۰۱ء تا ۲۹؍ نومبر ۲۰۰۲ء برائے دفاع اور اُمور کے، آر، ایل چیف ایگزیکٹو کے مشیر خاص رہے۔ اکتوبر ۲۰۰۳ء کو ڈی ایس سی بلوچستان یونیورسٹی سے ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی ڈگری حاصل کی۔ ۳۰؍ نومبر ۲۰۰۲ء تا یکم فروری ۲۰۰۴ء برائے دفاعی حکمت عملی وزیر اعظم کے مشیر خاص رہے۔ لیکن یکم فروری ۲۰۰۴ء کو اُن پر ایٹمی راز اِفشا کرنے اور دوسرے ممالک کی طرف منتقلی کے الزامات لگائے گئے اور یوں جنرل پرویز مشرف نے اُنہیں مشیر کے عہدے سے بھی بر طرف کردیا، حالاں کہ ڈاکٹر صاحبؒ نے خود اِس بات کو ببانگِ دُہل فخریہ انداز میں کہا تھا کہ: 
’’ہم بھوپالیوں کو دو چیزوں پر فخر ہے:ایک تو یہ کہ ہمارے یہاں آج تک کوئی غدار پیدا نہیں ہوا، اور (دوسرے) ہمیں اِس پر بھی فخر ہے کہ ہمارے یہاں آج تک کوئی قادیانی پیدا نہیں ہوا۔‘‘
بہرحال بعد ازاں مؤرخہ ۴؍فروری ۲۰۰۴ء بروز بدھ کو جنرل پرویز مشرف نے چوہدری شجاعت حسین کی مدد سے ڈاکٹر صاحب سے زبردستی اعترافی بیان دلوایا، اور اِس طرح ڈاکٹر صاحب نے پاکستانی قوم سے حکومتی دباؤ اور جبر کے تحت معافی مانگی۔ اور یوں ۱۹۷۶ء سے ۲۰۰۴ء تک ایک ہیرو کی حیثیت سے قوم کے دلوں پر راج کرنے والے ڈاکٹر عبد القدیر خان اپنی رہائش گاہ پر نظر بند کردیئے گئے، چنانچہ جب ڈاکٹر صاحب سے یہ سوال کیا گیا کہ : ’’ڈاکٹر صاحب!کبھی کسی کارنامے کے بعد دکھ یا پچھتاوا ہوا؟‘‘ تو ڈاکٹر صاحب نے اس کے جواب میں یہ دکھ بھرے الفاظ کہے کہ: ’’جی ! ایک ہی عظیم کارنامے پر ہمیشہ دکھی رہتا ہوں کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنوایا ہے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب کی تصریح کے مطابق اصل میں ملکی ایٹمی راز جنرل پرویز مشرف اور اُن کے ساتھیوں نے اِفشا کیے تھے۔ اِس بات کا دعویٰ اُنہوں نے اپنی اہلیہ ’’ہینی خان‘‘ کے نام ایک خط میں کیا جو اُنہوں نے ۲۰۰۴ء میں حفاظتی نقطہ نظر سے لکھ کر اپنی بڑی بیٹی ’’ڈاکٹر دینا خان‘‘ کے اُس وقت حوالے کیا جب وہ دبئی روانہ ہورہی تھیں، مگر ایئر پورٹ پر اُن کے سامان سے وہ خط برآمد کرلیا گیا ، جس کے بعد وہ خط جنرل پرویز مشرف کی میز اور اُس کے بعد امریکہ تک پہنچ گیا۔
 ڈاکٹر صاحب نے خط میں یہ بھی انکشاف کیا کہ جنرل پرویز مشرف اُن کو امریکہ کے حوالے کرنے پر تلے ہوئے تھے، اور بقول وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی کے اِس مکروہ عمل کے لیے ایک جہاز بھی تیار کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے مزیدکہا کہ اِس بات کی تصدیق سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی مجھے فون کرکے کرچکے تھے، چنانچہ وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی کو جب ڈاکٹر صاحب کے Exit Order پر بطورِ وزیر اعظم دستخط کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے اپنی کابینہ کی باہمی رائے سے ایسا کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ 
بہرحال۲۰۰۵ء کو نظر بندی کے ایام میں ڈاکٹر صاحب نے ’’صبح غزل‘‘ نامی کتاب شائع کی، اور نومبر ۲۰۰۸ء سے باقاعدہ کالم نگاری شروع کی اور روزنامہ جنگ میں ’’سحر ہونے تک‘‘ کے عنوان سے کالم لکھنے شروع کیے، جن کا پہلا مجموعہ مئی ۲۰۱۰ء میں شائع ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کے بطورا نجینئر اور سائنس دان ۲۰۰ کے قریب تحقیقی مقالے بین الاقوامی ریسرچ جرنلز میں چھپ چکے ہیں۔ انہوں نے میٹالرجی، ایڈوانسڈ میٹریلزفیز ٹرانسفارمیشن پر لکھی گئی کتابوں کی تدوین کی۔ایریکن سوسائٹی آف میٹل کے وہ ممبر رہے۔ انہوں نے بین الاقوامی یونیورسٹیز میں ۱۰۰ سے زائد لیکچرز دیئے۔ انسٹیٹیوٹ آف میٹریلز لندن کے وہ ممبر رہے۔ کینیڈین انسٹیٹیوٹ آف میٹلز اور جاپان انسٹیٹیوٹ آف میٹلز کے بھی وہ ممبر رہے۔
ڈاکٹر صاحب (Kazakh National Academy Of Sciences) کے پہلے ایشیائی فیلو رہے۔ اسلامک اکیڈمی آف سائنسز کے منتخب فیلو رہے۔ کورین اکیڈمی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے آنریری ممبر رہے۔ بہت سی یونیورسٹیز کے بورڈ آف گورنرز کے رکن اور قائد اعظم یونیورسٹی کے سینڈیکیٹ کے ممبر رہے۔ سر سید یونیورسٹی ، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد، ہمدرد یونیورسٹی، اور غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کی ایگزیکٹو کمیٹی اور بورڈ آف گورنرز کے ممبر رہے۔ ڈاکٹر صاحب کو ملک بھر کے قومی اداروں اور تنظیموں کی جانب سے ۶۲؍ گولڈ میڈلز اور ۳؍ گولڈ کراؤنز (سونے کے تاج) پہنائے گئے۔
 ڈاکٹر صاحبؒ گزشتہ چند ماہ سے علیل تھے تو ان کے بارے میں وقتاً فوقتاً دُشمنوں کی طرف سے ان کے انتقال کی جھوٹی خبریں سوشل میڈیا پر گردش کرتی نظر آتی رہیں، چنانچہ چند دن پہلے بھی جب اِس قسم کی جھوٹی خبر مشہور ہوئی تو اُس کے بارے میں خود ڈاکٹر صاحب نے اپنا ایک ویڈیو پیغام نشر کروایا، جس میں انہوں نے انتہائی دکھ کا اظہار کیا اور کہا کہ: 
’’آپ یقیناً افواہیں سن سن کر پریشان ہوں گے، مجھے بھی کل سے بہت فون آرہے ہیں اور کچھ نمک حرام، احسان فراموش اور بے غیرت لوگ جو ہیں وہ میرے بارے میں بری بری خبریں لگاتے ہیں کہ جی بیمار ہوگیا اور یہ بھی لگایا کل کہ جی وہ فوت ہوگیا، ایسی کوئی بات نہیں، اللہ پاک کا ہزار ہزار شکر ہے کہ میں بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں، حیات ہوںاور ابھی کئی سال اللہ تعالیٰ مجھے ان شاء اللہ!ضرور زندہ رکھے گا، تاکہ اِن لوگوں کے دل جلا سکوں ، باقی حالت سب ٹھیک ہے، آپ بے فکر رہیں۔ ایسی کوئی بات ہوئی تو ضرور ہمارے گھر سے یا ہماری بیگم کی طرف سے اس کا اعلان ہوگا ۔ یہ اخبار ہے آج کا، آپ دیکھ لیں ، میں نے یہ اخبار پکڑا ہوا ہے، اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ خبر جو میں دے رہا ہوں یہ آج کی ہے، تو آپ بے فکر رہیں بس مجھے دعا میں یاد رکھیے کہ اللہ پاک مجھے بھی اور آپ سب کو بھی حفظ و امان میں رکھے، ہر شر سے محفوظ رکھے ۔‘‘
اِس کے بعد ڈاکٹر صاحبؒ نے روزنامہ جنگ میں ’’کون کہتا ہے؟‘‘ کے عنوان سے ایک کالم میں لکھا کہ: 
’’میں پچھلے دنوں اچانک سخت بیمار ہوگیا،دو مرتبہ ویکسین لگوائے ہوئے تھا ، مگر ایک رات اِس قدر طبیعت خراب ہوئی کہ تقریباً بے ہوش ہوگیا، رات کو فوراً K.R.Lاسپتال لے جایا گیا، وہاں ڈاکٹروں نے حالت خطرناک بتلائی اور سابق سرجن جنرل پاکستان آرمی جنرل ریاض احمد چوہان (جو K.R.Lکی میڈیکل سروسز کے بانی ہیں )نے فوراً آرمی سے رابطہ کیا۔ پاکستان ملٹری اسپتال کے ماہر جنرل ارشد نسیم فوراً آئے اور مشورے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ مجھے فوراً M.H میں ٹرانسفر کردیا جائے، رات ۲ بجے وہاں لے جایا گیا ، پورا محکمہ حرکت میں آگیا۔ جنرل ارشد نسیم ، کرنل کشور سجاد، ڈاکٹر ملک عباس، ڈاکٹر علی ، میجر فرخ، نرسنگ اسٹاف، امیر حمزہ اور وسیم سجاد وغیرہ دن رات میری تیمار داری میں لگے رہے۔ جنرل ارشد نسیم نہایت قابل ماہر ڈاکٹر ہیں، خوب صورت، کام اور عمل میں ماہر ، خوش مزاج ہیں۔ سب ہی مجھے دیکھنے کی خواہش کر رہے تھے، مگر جنرل ارشد نے سخت پابندی لگادی تھی ۔ بیماری کی خبر عوام تک پہنچ گئی، مگر ایوانوں تک آج تک نہیں پہنچی۔ پورے ملک میں کروڑوں لوگوں نے میری صحت یابی کی دعا کی۔ کئی مرتبہ اگرچہ مجھے یہ احساس ہوا کہ میرا وقت پورا ہوگیاہے۔ میں نے مگر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ مجھے تھوڑی سی مہلت دے دے کہ گناہ گار ہوں، خطا کار ہوں، کچھ توبہ استغفار کا وقت مل جائے اور چند فلاحی کاموں کی تکمیل بھی کرسکوں۔ اللہ تعالیٰ نے فریاد سن لی، نہ صرف میری بلکہ کروڑوں لوگوں کی دعائیں بھی سن لیں۔‘‘ (روزنامہ جنگ راولپنڈی، ۴؍اکتوبر ۲۰۲۱ء بروز سوموار)
یقیناً اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر صاحب کی اور اُن کے کروڑوں عقیدت مند عوام کی دعائیں ضرور سنی ہیں، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اُنہیں چند دن کی زندگی مزید عطا فرمائی ، اور اُنہیں توبہ و استغفار کرنے کا ضرور موقع دیا ، جس سے اُمیدکی جاسکتی ہے کہ اِن چند گنے چنے ایام میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے کریم پروردگار کی بارگاہ میں حاضری دے کر اپنے لیے مغفرت و بخشش کا سامان ضرور کیا ہوگا:

سپردم بتو ’’مایۂ خویش‘‘ را
تو دانی حساب کم و بیش را
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین