بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

محدث العصر حضرت بنوریؒ  اخلاص و ادب کی اعلیٰ مثال

محدث العصر حضرت بنوریؒ 

اخلاص و ادب کی اعلیٰ مثال

 

گزشتہ سال ۱۴۳۹ھ کے تعلیمی سال کے اختتام پر دورۂ تدریبیہ کے موقع پر پیرِ طریقت ،حضرت مولانا شمس الرحمن العباسی مدظلہٗ نے دورہ حدیث کے طلبہ کو اپنی قیمتی نصائح سے محظوظ فرمایا تھا، جن میں محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری v اور ان کے اساتذہ کے سبق آموز واقعات، نیز اخلاص و ادب سے متعلق زریں باتیں بھی شامل تھیں۔ افادۂ قارئین کے لیے پیش خدمت ہیں۔           [ادارہ]

محترم علماء ِ کرام اور عزیز طلباء!
اللہ جل جلالہٗ وعم نوالہٗ نے انسان کو ساری کائنات کا دولہا بنایا ہے اور ساری کائنات کا نظام اس کی زندگی پر موقوف رکھا ہے، اگر یہ انسان ٹھیک چلے گا تو کائنات کا نظام ٹھیک چلے گا اور اگر یہ بگڑا ہوا ہوگا تو ساری کائنات کا نظام بگڑجائے گا۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ: میں جب اپنے گھر جاتا ہوں تو سمجھ لیتا ہوں کہ میں نے آج کوئی گناہ کیا ہے، اس لیے کہ جب میں اللہ پاک کی نافرمانی کرتا ہوں تو گھر والے میرے مخالف ہوتے ہیں، میرا ادب و احترام نہیں کرتے اور جب میں اللہ کا فرماں بردار رہتا ہوں اور گھر جاتا ہوں تو گھر والے سب میرے ساتھ ٹھیک ہوتے ہیں۔ آج لوگوں کو ایک دوسرے سے شکایتیں ہیں اورآپس میں جھگڑے ہیں، میاں بیوی اور باپ بیٹے کی لڑائیاں، بھائیوں اور دوستوںکے جھگڑے، یہ کیاہیں؟ اندر سے اعمال بگڑے ہوئے ہیں، اس بگاڑ کی وجہ سے میاں بیوی میں بھی لڑائی ہے، باپ بیٹے میں بھی لڑائی ہے اوربھائی بھائی میں بھی لڑائی ہے، لیکن جب اعمال بن جاتے ہیں تو پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کی زندگیاں ہمارے سامنے ہیں کہ غزوۂ یرموک میں حضرت ابوکعب رضی اللہ عنہ  اپنے چچازاد بھائی کو دیکھنے کے لیے گئے، پانی ساتھ لے گئے تو دیکھا کہ ان کا آخری وقت ہے، دنیا سے جارہے ہیں، پانی طلب کیا، ان کو پانی دینے لگے تو ساتھ والے ایک اور زخمی صحابیؓ نے آہ کی، تو انہوں نے اشارہ کیا کہ یہ پانی مجھے نہیں، میرے بھائی کو دے دو، وہ اس دوسرے کو دینے گئے، تو اس کے قریب میں ایک اور صحابیؓ زخمی تھے، انہوں نے آہ کی تو اس دوسرے نے کہا: نہیں، اس تیسرے کو دو، چلتے چلتے یہ ہوا کہ وہ سب بغیر پانی پئے ہی دنیا سے چلے گئے۔ یہ جو اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: ’’ وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی أَنْفُسِھِمْ وَ لَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ‘‘ کہ ’’دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ خود بھوک سے ہوں۔‘‘ یہ صفت کب پیدا ہوتی ہے؟ جب آدمی کے اندر کا نفس ٹھیک ہوجاتا ہے ۔ ہم ٹھیک ہو جائیں گے، نظامِ کائنات ٹھیک ہو جائے گا، ہم بگڑتے رہیں گے تو نظامِ کائنات بھی بگڑتا جائے گا۔
میں آپ کو اپنے شیخ کا بتاتا ہوں، ہمارے شیخ محدث العصر حضرت علامہ محمد یوسف بنوریؒ نے بخاری شریف کے درس میں ہمیں یہ بات بتائی کہ دارالعلوم دیوبند سے جو طالب علم فارغ ہوجاتے تو اساتذہ اُن کو فرماتے کہ: آپ نے علم ظاہری پڑھ لیا، لیکن ابھی تک آپ مکمل نہیں ہوئے جب تک جا کر کسی اللہ والے کی صحبت میں رہ کر اپنی اصلاح نہ کرائیں۔ اس زمانے میں تین خانقاہیں معروف تھیں: ایک شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیv کی خانقاہ۔ دوسری رائے پور کی شیخ عبدالرحیم رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ  اور شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ  کی خانقاہ۔ اور تیسری سہارن پور کی حضرت شیخ (مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ ) اور ان کے شیخ مولانا خلیل احمد سہارن پوریv کی خانقاہ۔ جب تک ان کی صحبت میں طالب علم چھ ماہ نہیں رہتا، اس وقت تک استاذ کہتا کہ تمہارا علم مکمل نہیں ہوا، کیونکہ ظاہری علم تو ظاہری نقوش ہیں، اس کی حقیقت کب ملے گی؟ جب آدمی کسی اللہ والے کی صحبت میں رہ کر اپنے دل کی اصلاح کرے گا۔
ہمارے حضرت شیخ بنوری رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا کہ: میں جب ڈابھیل سے فارغ ہوا، پہلے تو دیوبند میں ہی اپنے شیخ حضرت انور شاہ کشمیریv سے پڑھتے تھے، پھر وہ کسی مسئلہ کی وجہ سے دیوبند چھوڑ کر ڈابھیل چلے گئے تو فرمایا کہ: میں بھی اُن کے ساتھ وہاں چلاگیا۔ ہمارے حضرت شیخ  ؒ کو اللہ نے بہت بڑی ذہانت دی تھی، حافظہ بہت زیادہ تھا، علم کے سمندر تھے، فرماتے تھے کہ: مجھے اپنی زندگی کے چار سال کے بعد کی عمر کی ساری زندگی یاد ہے، چار سال سے پہلے کی زندگی کی ترتیب یاد نہیں، اس کے بعد ساری زندگی کا ایک ایک منٹ مجھے یاد ہے۔ اور فرماتے تھے کہ: میں جس مسئلہ کو سال کے شروع میں بیان کرتا ہوں، پورے سال مجھے یاد رہتا ہے کہ یہ مسئلہ میں نے کتنی مرتبہ بیان کیا، ایسا اللہ نے حافظہ دیا تھا، فرمایا: میں ڈابھیل میں بخاری شریف اپنے شیخ حضرت انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ  سے پڑھتا تھا، اپنے شیخ پر فدا تھے، ہم نے حضرت کو دیکھا کہ تین نام آتے تو اپنے ہوش میں نہیں رہتے تھے: ایک آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق تھے۔ لوگ کہتے ہیں کہ: علماء دیوبند عاشق رسول نہیں ہیں، میرے پاس وہ جنگ اخبار موجود ہے کہ جب حضرتؒ کا انتقال ہوا، اُن کی میت کراچی لائی گئی تو اس دن جنگ اخبار کی سرخی تھی کہ: ’’ایک بہت بڑے عاشقِ رسول کا انتقال ہو گیا ہے۔‘‘ عشقِ رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) بے انتہا تھا اور روضۂ اقدس (l) پر جب جاتے تھے تو باقاعدہ بات کا جواب ملتا تھا، ایسی محبت تھی حضور a سے، سلام پڑھتے تھے، پھر اپنی بات پیش کرتے تھے اور اس کے دو واقعے سنائے، فرمایا کہ: ایک دفعہ میں عمرہ پر گیا ، یہ جتنی تعمیرات ہیں (بنوری ٹاؤن کی)، پرانی تعمیرات ہیں، حاجی عبدالمجید سولیجاؒ نے ساری تعمیر کی نگرانی کی، فرمایا: میں ان کو اپنے ساتھ لے گیا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  پر صلاۃ و سلام پڑھا اور اس کے بعد عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! اس عبدالمجید سولیجا نے ہمارے ایک مدرسہ کی بہت خدمت کی، جواب آیا: مولانا بنوری! فکر مت کرو، ہم نے ان کو پورا پورا بدلہ دے دیا ہے۔ یہ جواب آیا، یہ خود سنایا، ان کانوں نے سنا۔ 
اور دوسرا واقعہ مولانا عزیر گل رحمۃ اللہ علیہ  کے ساتھ، جن کو اسیرِ مالٹا کہتے ہیں۔ شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ  کے ساتھ مالٹا میں یہ بھی گئے ہوئے تھے، یہ مولانا عبد الحق نافع گل رحمۃ اللہ علیہ  کے بڑے بھائی تھے۔ ہمارے حضرت شیخ کے اس مدرسہ کی بنیاد کے تین ساتھی تھے: ایک مولانا عبدالحق نافع گلؒ، ایک حضرت بنوریؒ اور ایک مولانا لطف اللہؒ تھے۔ یہ تین بنیادی لوگ تھے۔ حضرت مولانا عزیر گلؒ نے شیخ الہندؒ کی بڑی خدمت کی، خدمت پر آپ کو اپنے استاذ کا ایک قصہ سناؤں، کہتے ہیں: رات کو میں اپنے استاذ کے پاؤں دبا کر، سر پر مالش کر کے، سلا کر پھر جا کر آرام کرتا، ایک دن حضرت شیخ الہندv نے فرمایا کہ: دہلی میں میرے کچھ کاغذات دفتر میں موجود ہیں اور اس کی مجھے ضرورت ہے، لیکن دہلی بہت دور ہے، اب کہاں سے لاؤں؟ دیکھو! جب آدمی ادب کرتا ہے، استاذ کا احترام کرتا ہے تو اللہ کی مدد اس کے ساتھ شاملِ حال ہوجاتی ہے، تو جب اپنے شیخ کے پاؤں وغیرہ مالش کرکے اُنہیں سلادیا تو خود روانہ ہوگئے۔ اللہ نے بڑی صحت و جوانی دی تھی، ہم نے ان کی زیارت کی تھی، حضرت مفتی احمدالرحمن صاحبؒ کے نکاح میں تشریف لائے تھے۔ ایک ان کے والد مولانا عبدالرحمن کیمل پوری، ان کو کامل پوری کہتے تھے، ان کے شیخ حضرت تھانویؒ تھے۔ ایک مولانا عزیر گلؒ، یہ سامنے جہاں دارالافتاء ہے، یہاں اُن کے لیے چارپائیاں بچھائی گئیں اور یہاں دونوں آرام فرماتے تھے، بہت خوبصورت چہرہ گلاب کے پھول کی طرح، لمبا قد۔ توکاغذات لینے روانہ ہو گئے، پیسے تو جیب میں تھے نہیں، پیدل روانہ ہوگئے۔ دیوبند اور دہلی کے درمیان اسی(۸۰) میل کا فاصلہ ہے، مگر اللہ پاک جب لے جانے پر آتا ہے تو ’’کرامات الأولیاء حق‘‘ تو گئے اور جا کر دفتر سے وہ کاغذات لے آئے اور جب ان کے شیخ، شیخ الہندؒ    تہجد کے لیے اُٹھے تو وضو کروا کر کاغذات اُن کے سامنے پیش کیے، تو شیخ الہندؒ نے پوچھا: بھئی کیسے لائے تم؟ کہا: آپ نے ایک خواہش ظاہر کی، میں اللہ کے حکم سے روانہ ہو گیا، یہ کتنا فاصلہ طے کیا؟ ۱۶۰ میل آنا جانا، تو جب آدمی استاذ کا ادب کرتا ہے، احترام کرتا ہے تو اس کے ساتھ اللہ کی مدد ہو جاتی ہے۔
ادب پر ایک قصہ سنا رہا تھا، ہمارے شیخ حضرت بنوریv نے سنایا کہ: میں ڈابھیل میں اپنے شیخ حضرت انور شاہ کشمیریv سے بخاری پڑھتا تھا، حضرتؒ کی طبیعت خراب ہو گئی، بخاری شریف کچھ دن کے لیے مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ  کو دی گئی۔ مولانا شبیر احمد عثمانیؒ خود بھی بہت بڑے عالم، فلسفی اور اپنے وقت کے امام اور شیخ الاسلام تھے، لیکن حضرت انور شاہ کشمیریؒ کے مقابلے کے تو بہرحال نہ تھے، لیکن ان کے بارے میں بھی ہم نے اپنے استاذ مولانامحمد ادریس میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ  سے سنا کہ: مولانا شبیر احمد عثمانیؒ فرماتے تھے کہ: دین کاکوئی مسئلہ لے آؤ، میں عقل اور نقل دونوں سے اُسے ثابت کروں گا۔ جب پاکستان بنا تو یہ بانیانِ پاکستان میں سے تھے، جب اسمبلی جاتے تھے اورکوئی ان کے سامنے اسلام کے خلاف بات کرتا تھا تو مولانا شبیر احمد عثمانی  ؒ کھڑے ہو جاتے تھے اور اس کی بات کے خلاف عقل اور نقل کے دلائل دے کر اس کا باطل ہوناثابت کردیتے، چنانچہ لوگ تنگ آگئے۔ یہ بات ہمیں ہمارے دورہ کے استاذ مولانا بدیع الزمان صاحبؒ نے سنائی، تو ان پر پابندی لگائی گئی کہ آپ یہاں فی البدیہ تقریر نہیں کریں گے، آپ کو ہم تقریر دیں گے، آپ اس کی تیاری کر کے تقریر کریں گے۔ تو حضرت عثمانی  ؒ اتنے بڑے عالم تھے اور حضرت انور شاہ کشمیریؒ تو علم کے سمندر تھے، وہ تو فرماتے تھے کہ: سال کے شروع میں جو بات کرتا ہوں، سارا سال مجھے یاد رہتا ہے کہ یہ بات میں نے کتنی دفعہ دہرائی ہے۔ سولہ سال بعد بھی جب کوئی مسئلہ پوچھتا تو صفحہ اور لکیر کے ساتھ مسئلہ یاد رہتا تھا۔ تو ہمارے حضرت شیخ بنوریؒ نے فرمایا کہ: جب بخاری شریف ان کی طرف منتقل ہو گئی ۔۔۔ کیونکہ اللہ نے ذہن بہت بڑا دیا ہوا تھا، حافظہ بڑا قوت کا تھا، فرماتے تھے کہ: میں نے معارف السنن کے لیے ایک ایک رات میں حدیث کے ہزار ہزار صفحات پڑھے اور وہ بھی ایسے مرور نہیں کیا، باقاعدہ اس سے مسائل اخذ کیے، اتنا قوی حافظہ تھا۔۔۔ تو کہا کہ: میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ یہ گھنٹہ تو میرے شیخ سے بدل دیا گیا ۔۔۔ مولانا شبیر احمد عثمانیؒ بھی ان کے شیخ تھے، کچھ ان سے بھی پڑھا تھا، لیکن بخاری شریف تو حضرت انور شاہ کشمیریؒ پڑھاتے تھے ۔۔۔ تو کہا کہ میرے دل میں نفس اور شیطان نے ڈالا کہ اس گھنٹے میں مت جاؤ، اس میں خود حدیث کی شروح کا مطالعہ کرو تو فرماتے تھے کہ: اس گھنٹہ میں میں اتنا شروح کا مطالعہ کرلیتا کہ ان کی پڑھائی سے میرا مطالعہ زیادہ ہو جاتا تھا۔ یہ میرے نفس میں آیا، تو میں ان سے زیادہ مطالعہ کر لیتا تھا، اس لیے میں نے جانا چھوڑ دیا، دو تین دن جب نہیں گیا، رات کو سویا تو میں نے خواب میں حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒ کو دیکھا، حضرت نے خواب میں فرمایا ۔۔۔ بڑی محبت تھی، اُن کو بھی اور اِن کو بھی، فرمایا: بیٹے یوسف! تم سبق میں کیوں نہیں جاتے؟ میں نے عرض کیا کہ: حضرت! میں ان سے زیادہ مطالعہ کر لیتا ہوں، فرمایا کہ: تمہارا مطالعہ اپنی جگہ، لیکن استاذ کے سبق میں جو سبق کا اور علم کا نور ملے گا وہ تمہارے مطالعہ میں نہیں ملے گا، لہٰذا سبق میں جایا کرو۔ 
اور استاذ کے ادب پر بتاؤں آپ کو۔ حضرت عربی ایسے بولتے تھے جیسے مادری زبان۔ یہاں مصر کے ایک استاذ تھے، ہمارے ایک استاذ تھے، وہ ہمیں ادب پڑھاتے تھے، مولانا محمد احمد اور ایک اور مصر کے قاری تھے عطاء الرزق؟؟، جنہوں نے یہاں دس سال تک ہمارے بنوری ٹاؤن میں نماز پڑھائی، ان سے عربی بولتے، وہ حیران ہو جاتے، حضرتؒ کی عربی ان سے بھی زیادہ فصیح تھی۔ فرماتے تھے کہ: میں نے عربی کی کوئی خاص ادب کی کتاب نہیں پڑھی، میں نے مقامات کے چند مقامات سرحد میں پڑھے ہیں، نہ حماسہ پڑھی، نہ متنبی پڑھی۔ اور فرماتے تھے کہ: پڑھانے والا استاذ ہوتا تھا، وہ بہت سی لغات کی بے چارہ غلط تشریح کرتا تھا اور مجھے اس سے زیادہ صحیح آتا تھا، لیکن ہم نے ادب کی وجہ سے وہ مقامات پڑھے، استاذ کے سامنے کچھ نہیں کہا، اللہ پاک نے اس ادب کی برکت سے علم ادب کے دروازے میرے لیے کھول دئیے۔ 
میرے دوستو! بزرگو! میں عرض کر رہا تھا کہ یہ علم جو ہے، اس کے اندر جب تک باطنی علم نہ ملے اس وقت تک یہ ظاہری علم ہے۔ ہمارے حضرت شیخ  ؒ کا واقعہ عرض کر رہا تھا، فرما رہے تھے کہ: جب ڈابھیل سے فارغ ہوا تو میں نے اپنی اصلاحِ نفس کے لیے تھانہ بھون خط بھیجا۔ خط کیوں بھیجا؟ حضرت تھانویؒ مزاج اور اُصول کے بڑے پابند تھے اور اپنے اُصول میں بڑے سخت تھے، خانقاہ میں بغیر اجازت کے کوئی جا نہیں سکتا تھا، جس کو جانا ہوتا تھا، وہ پہلے اجازت لیتا تھا۔ اس کے بعد حضرت اجازت دیتے تھے اور پھر وہ خانقاہ میں جاتا تھا۔ اب اسی سے ایک واقعہ بیچ میں آیا، ایک نواب اپنے ساتھ بہت سے خدام تھانہ بھون لایا، حضرت تھانویؒ کو معلوم ہوا، فرمایا: نواب صاحب! میں ملاقات نہیں کروں گا، تم نے ملنے کی اجازت نہیں لی اور میری خانقاہ کا اُصول یہ ہے کہ بغیر اجازت کے میں کسی کو خانقاہ میں آنے نہیں دیتا، میں تم سے نہیں ملوں گا۔ وہ نواب تھا اور یہ فقیر بادشاہ تھا۔ نواب صاحب نے بڑی معافی مانگی، حضرت! مجھے یہ نہیں پتہ تھا، مجھ سے غلطی ہوگئی، آپ معاف کر دیں، میں آئندہ ایسے نہیں کروں گا۔ حضرتؒ نے فرمایا: نہیں بھئی، میں نہیں ملوں گا۔ واپس جاؤ اور جا کر خط بھیجو، پھر میں اجازت دوں گا، پھر آجانا۔ اس بے چارے نے سوچا کہ یہ اتنے ملازم میں ساتھ لایا ہوں، یہ واپس لے جاؤں گا، میری بدنامی بھی ہوگی، تکلیف بھی ہوگی، تو اس نے جا کر تھانہ بھون کے اسٹیشن پر چولہے لگائے، وہیں پکانے والوں کو بلایا اور وہیں کھانا پکاتے تھے اور وہیں خیموں کے نیچے بیٹھ کر کھاتے تھے۔ ہم نے دیوبند کے صد سالہ جشن کے موقع پر اس اسٹیشن کو دیکھا۔ ہمارے بزرگوں نے بڑے استغناء کے ساتھ زندگی گزاری ہے۔ پھر نواب صاحب وہاں سے روز خط بھیجتے تھے کہ حضرت! معاف کر دیں، اب تو اجازت دے دیں۔ حضرت تھانویؒ نے ایک ہفتے تک اجازت نہیں دی، ایک ہفتہ کے بعد اجازت دی کہ اچھا!! اب آجاؤ۔ ایسے اصول تھے اُن کے، آدمی کی اصلاح کرتے تھے۔ دل کے اندر تکبر، نخوت نہ ہو، اللہ والوں کی بے ادبی نہ ہو۔ 
تو ہمارے حضرت شیخ بنوریؒ نے فرمایا کہ: میں نے اپنی اصلاح کے لیے تھانہ بھون حضرت تھانویؒ کو خط بھیجا کہ میں آپ کی خانقاہ میں آنا چاہتا ہوں، تو حضرت تھانویؒ نے خط کے پیچھے جواب لکھا کہ میرے پاس تھانہ بھون کیوں آنا چاہتے ہو؟ اگر اس لیے آنا چاہتے ہو کہ میں بزرگ ہوں، اللہ والا ہوں، تو میں بزرگ نہیں ہوں۔۔۔ اللہ والے اپنے آپ کو بزرگ نہیں سمجھتے، کیونکہ تواضع اور عاجزی ان میں ہوتی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں تو سب سے زیادہ کمتر ہوں۔ حضرت مدنیؒ کے مکتوبات آپ پڑھیں، ہر ہر مکتوب کے آخر میں ایک شعر لکھا ہے:
یظن الناس بی خیرا و إنی

لشر الناس إن لم یعف لی
’’لوگ میرے بارے میں گمان کرتے ہیں کہ: میں بہت اچھا آدمی ہوں، میں تو سب سے برا آدمی ہوں، اگر اللہ نے معاف نہیں کیا۔‘‘
یہ حضرت مدنی  ؒجن کے بارے میں ہمارے شیخ حضرت بنوریؒ فرماتے تھے کہ: میں علم میں دیکھتا ہوں تو حضرت انور شاہ کشمیریؒ کو آسمان پر دیکھتا ہوں اور حضرت مدنیؒ کو زمین پر اور تصوف میں دیکھتا ہوں تو حضرت انور شاہ کشمیریؒ کو زمین پر اور حضرت مدنیؒ کو آسمان پر، لیکن وہ کیا کہتے تھے؟! اور اپنے نام کے ساتھ لکھتے تھے: ’’ننگِ اسلاف حسین احمد مدنی۔‘‘ 
اللہ والے اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے اور اسی تواضع پر’’ من تواضع للّٰہ رفعہ اللّٰہ‘‘ ۔۔۔ جو تواضع اختیار کرے گا، اللہ اس کو بلند کرے گا۔ ہمارے حضرت شیخ کا واقعہ سناتا ہوں۔ یہ مفتی عاصم زکی صاحب کے والد نواب محمد زکی صاحب نے ایک دفعہ دعوت کی، ہمارے بڑے حضرت عبدالغفور مدنی  ؒ کے مرید تھے، دعوت میں میرے والد صاحب کو بھی کہا، ڈاکٹر عبدالحیؒ کو بھی کہا، حضرت بنوریؒ کو بھی کہا، میں چھوٹا سا تھا، میں بھی اپنے والد صاحب کے ساتھ گیا، پہلے ہم جب پہنچ گئے تو ڈاکٹر عبدالحیؒ تشریف لائے۔ ڈاکٹر عبد الحیؒ ۔۔۔۔ بہت بڑے اللہ والے تھے، عارفی ان کا لقب تھا۔ ڈاکٹر صاحبؒ کا وہ جملہ مجھے ابھی بھی یاد ہے، ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ: میں نے مجدد الف ثانی  ؒ کے مکتوبات شریف پڑھے، ان میں حضرتؒ نے لکھا ہے کہ: میں نے تصوف کے سارے مقامات دیکھ لیے، میں نے تصوف کی ابتدا بھی دیکھی، انتہا بھی، اس کی ابتدا بھی اتباعِ سنت ہے اور انتہا بھی اتباعِ سنت ہے۔ یہ مجھے ابھی بھی یاد ہے ۔۔۔۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت بنوریؒ تشریف لائے، میرے والد صاحب کے ساتھ بڑی محبت تھی، عام طور پر اردو میں بات کرتے تھے، میرے والد صاحب کے ساتھ پشتو میں بات کرتے تھے، تو تواضع کو دیکھو، میرے والد صاحب نے پوچھا: کیا حال ہیں؟ حضرت بنوریؒ نے جواب دیا، مجھے یاد ہے، میں نے اپنے کانوں سے سنا، ارشاد فرمایا: ہمارا کیا حال ہے، ہماری حیوانیت بڑھتی جارہی ہے، انسانیت ختم ہوتی جارہی ہے۔ یہ حضرت بنوریؒ اپنے بارے میں فرما رہے تھے، اتنا علم کا پہاڑ، تقویٰ کا پہاڑ اور استغناء کا پہاڑ، کسی چیز کی کوئی پرواہ نہیں:
کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف

کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے
بھٹو صاحب نے ایک دفعہ دھمکی دی کہ مولانا! تم بہت اچھلتے ہو، میں تمہارے مدرسہ پر پابندی لگا دوں گا۔ حضرتؒ نے فرمایا: بھٹو صاحب! تم میرے مدرسہ پر تو پابندی لگا دوگے، بنوری پر تو نہیں لگا سکتے، بند کر دو میرا مدرسہ، میں دور کہیں درخت کے نیچے بیٹھ جاؤں گا، لوگوں سے کہوں گا کہ آؤ! مجھ سے دین سیکھو۔ دین سیکھنا صرف تعمیر میں نہیں ہے، میں چٹائی پر درخت کے سائے کے نیچے بیٹھ جاؤں گا اور اللہ کا دین خدا کے بندوں کو سکھاؤں گا۔ کوئی کلمہ سیکھے گا، کوئی سورۂ فاتحہ سیکھے گا۔ دین صرف بخاری شریف پڑھانے کا نام نہیں، وہ اپنی جگہ بڑا کام ہے، اس کا انکار نہیں، لیکن دین تو سورہ فاتحہ پڑھانے کا نام بھی ہے، دین تو ایک مسئلہ بتانے کا نام بھی ہے۔ 
ایک دفعہ مولانا سعید احمد خان صاحبؒ جو پورے سعودی عرب کے تبلیغی کام کے امیر تھے، علماء میں بیان کر رہے تھے، فرمانے لگے کہ: جو ایک مسئلہ دین کا سیکھنے کے لیے جائے گا، چاہے وہ طالب علم نہ بنے، لیکن ایک مفتی کے پاس ایک مسئلہ سیکھنے کے لیے جائے گا، اس کے قدموں کے نیچے بھی فرشتے پر بچھائیں گے۔ جو حدیث میں آیا ہے کہ طالب علم کے لیے فرشتے اکرام میں اپنے پر بچھاتے ہیں، فرمایا کہ: یہ بھی طالب علم بن گیا ۔ ساتھ یہ بھی فرماتے تھے کہ: دو آدمیوں کی غلطیوں سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ در گزر فرمائیں گے: ایک طالب علم، کیونکہ یہ آدمی سیکھ رہا ہے۔ اور ایک فرمایا: عاشق، جس کو اللہ رسول(a) کا عشق ہے۔ محبت میں کبھی غلطی کر لیتا ہے، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ ہے کہ ایک لکڑ ہارا ہے، اللہ سے بات کر رہا ہے: اے اللہ! آپ کدھر ہیں؟ اگر مجھے دکھائی دیں تو میں آپ کے سر کی مالش کردوں، میں آپ کے پیر دبا دوں، میں آپ کے بالوں سے جوویں نکالوں۔ حضرت موسیٰ m تو جلالی پیغمبر تھے، انہوں نے کہا: او کافر! یہ کیا کہہ رہا ہے؟ یہ کفریہ کلمات کہہ رہا ہے، اللہ نہ تیرے دبانے کے محتاج ہیں اور نہ اس کے سر میں جوویں ہوتی ہیں، نہ اس کے سر پر مالش کرنے کی ضرورت ہے اور لکڑہارا بے چارہ سیدھا سادا اللہ کے عشق اور محبت میں باتیں کر رہا تھا، اس نے اپنا گریبان پھاڑا اور جنگل کی طرف چلا گیا کہ میں تو ساری زندگی اللہ سے یہی گفتگو کر رہا تھا۔ مولانا رومؒ نے یہ واقعہ لکھا ہے۔ 

وحی آمد سوئے موسیٰ از خدا

بندۂ ما را زِ ما کردی جدا
تو برائے وصل کردن آمدی

نے برائے فصل کردن آمدی

تو اللہ نے وحی بھیجی: اے میرے پیغمبر! تو نے میرے بندہ کو مجھ سے جدا کیا، وہ مجھ سے راز و نیاز کی باتیں کر رہا تھا، میں اس کی باتوں پر خوش ہو رہا تھا، وہ بے چارہ ناسمجھ تھا۔ جاؤ! اس کو پھر مجھ سے ملا دو، نا سمجھ تھا۔ تو مولانا سعید احمد خانؒ فرماتے تھے کہ: بے چارہ محبت بھی کرتا تھا، غلطی بھی کرتا تھا، تو محبت میں اللہ تعالیٰ بھی معاف کرتا تھا۔ تو میں نے سنا کہ: مولانا سعید احمد خانؒ کے پاسپورٹ میں جو لکھا ہوتا ہے کہ کیا پیشہ ہے؟ لکھا ہوتا تھا: ’’طالب علم‘‘ کسی نے پوچھا کہ: حضرت! آپ تو اب فارغ ہوگئے، کہا: نہیں، میں ساری زندگی طالب علم ہوں، اور کیوں لکھتا ہوں؟! اس لیے کہ قیامت کے دن اگر اللہ کے سامنے میری پیشی ہو تو میں طالب علم ہوں گا، اللہ تعالی میری غلطیوں سے درگزر فرمائے گا۔ مولانا حضرت شیخؒ کے شاگرد بھی تھے اور خلیفہ بھی۔ 
خیر! بیچ میں باتیں آجاتی ہیں، تو ہمارے حضرت شیخ بنوریؒ نے فرمایا کہ: حضرت تھانویؒ نے جواب دیا کہ: کیوں آتے ہو؟ اگر مجھے کوئی بزرگ سمجھتے ہو تو میں بزرگ نہیں، اگر مال دار سمجھتے ہو تو میں فقیر آدمی ہوں۔ہمارے شیخ کا جواب سنو: اللہ نے کیسا ذہن دیا تھا، ہم ہوتے تو حیران ہو جاتے، میرے پاس تو اس کا کوئی جواب نہیں۔ ہمارے شیخ  ؒ نے اس کے پیچھے جواب لکھا کہ: ’’حضرت! آپ نے جو لکھا کہ میں بزرگ نہیں ہوں، یہ آپ نے اپنے ذہن سے لکھا ہے، آپ کے ذہن میں یہ بات ہے اور میں آپ کے پاس اپنے ذہن سے آنا چاہتا ہوں، آپ کے ذہن سے نہیں آتا اور میرے ذہن میں آپ اللہ والے ہیں، لہٰذا آپ مجھے اجازت دے دیجئے۔‘‘ تو حضرت تھانویؒ نے اس کے پیچھے لکھا: بیا بیا کہ خانہ خانۂ تو است (آجاؤ ،آجاؤ، تمہارا اپنا گھر ہے) تو حضرتؒ نے فرمایا کہ: خانقاہِ تھانہ بھون میں اجازت لے کر گیا۔ 
ہمارے حضرت تھانویؒ مجددِ وقت تھے، انہوں نے اس سلسلۂ تصوف میں یہ ایجاد کیا کہ ان کے ہاں دو قسم کے خلفاء ہوتے تھے: ایک مجازِ صحبت، ایک مجازِ بیعت، یعنی ایک کو تو صرف صحبت، یعنی مجلس کرانے کی اجازت تھی اور ایک کو بیعت کی بھی۔ ہمارے شیخ ان کی صحبت میں زیادہ نہیں رہے، چند دن کی ملاقات میں ہی حضرت تھانویؒ نے مجازِ صحبت بنا دیا۔ پھر ہمارے حضرت شیخؒ کو حضرت مولانا شفیع الدین جو حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے خلیفہ تھے، انہوں نے خلافت دی، لیکن حضرت شیخ  ؒ بیعت نہیں کراتے تھے، کیونکہ علم کا ان پر غلبہ تھا۔ بہت کم بیعت کراتے تھے، دو چار ہی مرید ہوں گے۔ تو حضرتؒ نے بھی فرمایا کہ میں بھی گیا تھانہ بھون میں۔ 
تو آپ سے عرض یہ ہے کہ ایک تو ظاہری علم ہے اور ایک اس کے ساتھ باطنی اصلاح ہے، اور اصلاح کس کی ہے؟ قلب کی، دل کی اصلاح ہے۔ ابھی آپ فارغ ہو جائیں گے،دین کی خدمت کریں گے، خدمت کے ساتھ ساتھ کسی اللہ والے سے تعلق ضرور قائم رکھیں، اس کے بغیر کیا ہوگا؟! ہمارے حضرت شیخ مفتی ولی حسن ٹونکیv بہت بڑے اللہ والے تھے، علم و فقاہت کے سمندر تھے، ہمارے استاذ حضرت مولانا فضل محمد سواتیv فرماتے تھے کہ: کھنڈر میں خزانہ ہیں، کیا معنی؟ ظاہر میں ایسے سیدھے سادے نظر آتے تھے، پان اِدھر گرا، یہاں کپڑوں میں لگا ، فقیر لگتے تھے، لیکن اندر فقاہت بھری ہوئی تھی۔ ہمارے حضرت شیخ مفتی ولی حسن ٹونکیv فرماتے تھے کہ: دنیا میں جتنے فتنے پھیلے ہیں، یہ سب ذہین علماء نے کیا ہے، اس کا بانی دیکھوگے تو کوئی ذہین عالم ہوگا، تو فرماتے تھے کہ: جس ذہین عالم نے کسی اللہ والے کی صحبت اختیار نہیں کی اور خالی اپنی ذہانت اور علم پر بھروسہ کیا تو اس کا علم دنیا میں فتنہ بن گیا اور اس کے ساتھ فرماتے تھے کہ: جتنے دنیا میں اس وقت فتنے چل رہے ہیں، کسی نہ کسی ذہین عالم نے اس کی بنیاد ڈالی ہے۔ صحبت نہیں رکھی اللہ والوں کے ساتھ تو یہ علم اس کا فتنہ بن گیا۔ وہ علم جو کہ راہِ حق نہ دکھائے وہ علم جہالت ہے۔ 
مولانا سحبان محمود صاحبؒ جو ناظم تھے دارالعلوم کے، بڑے اللہ والے تھے، حضرت ڈاکٹر عبد الحی عارفی  ؒ کے خلیفہ تھے، طلبہ کو نصیحت فرما رہے تھے، ان کے سارے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ: تم نے ابھی علم کا ایک ظاہری چھلکا پڑھا ہے، اس کا باطن کب تمہیں ملے گا؟! جب تم کسی اللہ والے کی صحبت میں جاؤ گے۔ اسی لیے اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ’’قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَکَّاھَا‘‘ تحقیق کامیاب ہوگیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا ۔تو میں عرض کر رہا تھا کہ: آدمی کسی اللہ والے کی صحبت میں نہ ہو، اس کی ساری علم کی محنت بعض اوقات برباد ہو جاتی ہے۔ 
آپ نے بارہا سنا ہوگا کہ تبلیغ والے تین آدمیوں کا واقعہ بہت بیان کرتے ہیں، تین آدمی جہنم میں جائیں گے: ایک عالم، ایک سخی اور ایک شہید ۔۔۔۔۔ اللہ پاک نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جوامع الکلم دیئے تھے، یعنی مختصر جملے اور ان میں بہت بڑے خزانے، اب یہ واقعہ بیان کیا، یہ جوامع الکلم میں سے ہے، میں اس کا نکتہ بیان کرتا ہوں۔ جتنی عبادات ہیں، وہ تین قسم کی ہیں: ایک لسانی عبادت، ایک بدنی عبادت، ایک مالی عبادت۔ اس حدیث شریف میں تینوں کا بیان ہے۔ عالم کا زیادہ تر تعلق لسانی عبادت سے ہے، شہید کا بدنی عبادت سے ہے، سخی کا مالی عبادت سے ہے۔ پھر عبادت ایک وقت کی نہیں، ساری زندگی کی ہے۔ عالم نے ساری زندگی علم پڑھا، پڑھایا۔ شہید نے اپنی جان دے دی، اور کیا دے سکتا ہے۔ مالدار نے ساری زندگی خرچ کیا۔ ساری زندگی کی عبادت، لیکن حدیث شریف میں آتا ہے کہ:۔۔۔۔۔ قیامت کے دن جب تینوں اللہ تعالیٰ کے سامنے آئیں گے تو اللہ تعالیٰ پوچھے گا عالم سے کہ: میں نے تمہیں علم دیا۔۔۔۔۔ علم کیا ہے؟ اللہ کا نور ہے، اس کی قیمت میرے دوستو! قیامت کے میدان میں معلوم ہوگی، دیکھیں، شہید کی شفاعت کی مقدار بتائی گئی، حافظِ قرآن کی بتائی گئی، حاجی کی بتائی گئی، لیکن عالم کی نہیں بتائی، عالم کے علم کا جتنا فائدہ ہوگا اس کے بقدر لوگ جنت میں جائیں گے، کسی کے پیچھے محلہ جائے گا جنت میں، کسی کے پیچھے علاقہ جائے گا، کسی کے پیچھے گاؤں جائے گا، کسی کے پیچھے ملک جائے گا۔ مولانا الیاسؒ نے انتقال سے پہلے فرمایا کہ: لوگ اپنے گھر چھوڑ رہے ہیں، میں پورا علاقہ میوات چھوڑ رہا ہوں، یہ قیامت کے دن میرے نامۂ اعمال میں ہوگا۔ تو عالم کی بہت بڑی قدر ہے، اس لیے امام شافعی vکا شعر ہے:
شکوت إلی وکیع سوء حفظی

فأوصانی إلٰی ترک المعاصی
فإن العلم نور من إلٰہ

و نور اللّٰہ لا یعطی لعاصی
فرماتے ہیں کہ: میں نے اپنے استاذ وکیع کو شکایت کی کہ: میرا حافظہ کمزور ہے، تو انہوں نے کہا کہ: گناہ چھوڑ دو، آگے وجہ بیان کی کہ علم اللہ کا نور ہے، اللہ کی ذاتِ عالی سے نکلا ہوا یہ دینی علم ہے، تو میرے دوستو! اللہ کا نور اللہ کے نافرمان کو نہیں ملتا، تو یہ اللہ کا نور ہے جو اللہ نے آپ کے سینے میں رکھا ہے، اس کا پتہ قیامت کے میدان میں چلے گا۔ میرے محبوب a نے فرمایا: فضل العالم علی العابد کفضلی علی أدناکم،کہ ایک عالم کو ایک عابد پر ایسی فضیلت ہے جیسے مجھ کو تم میں سے ادنیٰ پر۔ اعلیٰ بھی کہہ سکتے تھے، وہ تو سارے نبیوں کے سردار ہیں، نبی کا بھی کہہ دیتے تو پھر بھی کوئی بات نہ تھی، لیکن پھر بھی فرماتے ہیں کہ: تم میں سے ایک ادنیٰ شخص پر۔ کہاں نسبت ادنیٰ کی، کہاں ہمارے آقاaکی؟! اتنا بڑا مقام ہے، لیکن ساتھ عمل بھی ہو۔۔۔۔۔۔ تو میں عرض کر رہا تھا، اللہ فرمائیں گے: میں نے علم دیا تھا کیا کیا؟ وہ کہے گا: میں نے پڑھا پڑھایا، اللہ فرمائیں گے: نہیں، میرے لیے نہیں کیا، تو نے اپنے نام و نمود کے لیے کیا، جا ! منہ کے بل جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ حضرت شیخؒ نے لکھا ہے کہ: حدیث میں یہی آتا ہے کہ منہ کے بل جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ نام کے لیے کیا تھا، تمہارا نام دنیا میں ہو چکا۔ اور شہید کو کہا جائے گا کہ تجھے جوانی اور صحت دی، کیا کیا؟ وہ کہے گا کہ: یا اللہ! میں نے گردن کٹا دی، اللہ فرمائیں گے: نہیں، میرے لیے نہیں کیا، اپنی بہادری دکھانے کے لیے کیا۔ حکم ہوگا کہ اسے جہنم لے جاؤ۔ اور مالدار کو کہا جائے گا کہ: میں نے تمہیں حلال مال دیا تھا ۔۔۔۔۔۔ اللہ نے حلال مال کو اپنا فضل فرمایا ہے:’’ فَإِذَا قُضِیَتِ الصَّلَاۃُ فَانْتَشِرُوْا فِیْ الْأَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ۔‘‘ ۔۔۔’’جب نمازِ جمعہ پڑھ لو تو زمین میں پھر کر اللہ کا فضل تلاش کرو۔‘‘ اس کی تفسیر مفسرین نے حلال مال کی ہے، حلال مال بھی اللہ کا فضل ہے، خرچ کرے گا تو دنیا میں خیر کا ذریعہ ہوگا۔۔۔۔۔۔ وہ کہے گا: میں نے تو ساری زندگی خرچ کیا، حکم ہوگا کہ اس کو جہنم میں ڈال دو، میرے لیے نہیں، نام کے لیے کیا۔ 
تو میرے دوستو! آپ سے درخواست ہے، میری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ پاک نے آپ کو علم کی دولت سے نوازا۔ ہمارے علماء فرماتے ہیں: یہ آدھا ہے۔ اور اس پر میں یہی عرض کرتا ہوں کہ ہمارے شیخ حضرت بنوریؒ اتنے علم کے خزانہ کے باوجود- جب کسی بات پر شروع ہو جاتے، ہم سمجھتے جیسے سمندر بہہ رہا ہے، لیکن پھر- بھی اللہ والوں کی صحبت میں رہے، ان کی جوتیاں سیدھی کیں۔ شیخ الحدیث صاحبؒ جن کی کتابیں آج دنیا میں چوبیس گھنٹے پڑھی جاتی ہیں، ڈھائی سو ملک ہیں، سب ملکوں میں یہ کتاب پہنچی ہوئی ہے، سارا ثواب ان کے نامہ اعمال میں پہنچے گا، لیکن انہوں نے بھی کس کے جوتے سیدھے کیے؟ مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ، مولانا الیاسؒ، جن کی تبلیغ آج پوری دنیا میں پہنچی ہوئی ہے۔ ان کے بارے میں حضرت شیخؒ نے آپ بیتی میں لکھا ہے کہ: آخری عمر تک اپنے شیخ کی بتائی ہوئی ترتیب نہیں چھوڑی، چشتیہ سلسلہ تھا ان کا،عصر سے مغرب تک ’’لا إلٰہ إلا اللّٰہ‘‘کی ضربیں لگاتے۔ حضرت شیخ  ؒ نے لکھا ہے کہ: میں نے دو آدمیوں کو دیکھا کہ اللہ نے سب مقامات دئیے، پھر بھی اپنے شیخ کے بتائے ہوئے ذکر کا طریقہ نہیں چھوڑا: ایک مولانا الیاسؒ اور ایک میرے والد مولانا یحییٰ  ؒ۔ عصر سے مغرب تک یہ ذکر کیا کرتے تھے: لا إلٰہ إلا اللّٰہ ، لا إلٰہ إلا اللّٰہ۔ 
اور میں آخر میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ ہمارے اس مدرسہ کے اس وقت تک جتنے مہتممین آئے، یہ سب کسی اللہ والے کی صحبت میں رہے۔ حضرت بنوریؒ کا تو میں نے بتایا، ان کے بعد مفتی احمد الرحمن صاحبؒ تھے‘ مولانا فقیر محمد صاحبؒ ۔۔۔۔۔۔ حضرت تھانویؒ کے خلیفہ جو ’’بَکَّاء‘‘ کے نام سے مشہور تھے، جب نماز کا سلام پھر جاتا، فوراً روتے، چیخیں لگاتے، اللہ نے ایسا دل دیا ہو اتھا۔ مولانا فقیر محمدؒ سے ایک مرتبہ نواب فیصل، جو کہ حضرت تھانویؒ کے مرید تھے، معلوم نہیں انتقال ہوگیا یا حیات ہیں، وہ بھی خلیفہ تھے، مولانا فقیر محمدؒان کے گھر میں تھے، ان سے کسی نے پوچھا کہ: آپ جب چلے جائیں گے تو ہم کن سے رجوع کریں گے؟ تو انہوں نے فرمایا: مفتی احمد الرحمنؒ سے، جن کو ایک سال پہلے ہی ہمارے شیخؒ نے بھی اپنے بعد نائب بنایا تھا۔ پھر تیسرے نمبر پر حضرت مولانا حبیب اللہ مختارؒ، وہ بیعت تھے حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز رائے پوریؒ (سرگودھا) سے۔ اور اب موجودہ ہمارے ڈاکٹر صاحب، ہمارے ’’الطریقۃ العصریۃ‘‘ کے استاذ، شہیدِ اسلام حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانویؒ سے بیعت تھے۔ 
میرے دوستو! بزرگو! ابھی آپ فارغ ہو جائیں گے۔ آخری نصیحت اپنے شیخ کی آپ کو بتاؤں، اسی درسگاہ میں بخاری شریف کی آخری حدیث پڑھاتے ہوئے ہمارے شیخ  ؒ نے فرمایا کہ: دیکھو! طالب علمو! تم اب فارغ ہو جاؤگے، جا کر کہیں دین کی خدمت تلاش کرو گے، لیکن میری ایک آخری نصیحت سن لو، جہاں بھی اللہ پاک دین کی خدمت بغیر طلب کے دے، مسجد میں جھاڑو دینے کا کام اللہ دے دے، وضو خانہ کی صفائی کا کام اللہ دے دے، مسجد کی صفائی کا کام اللہ دے دے - یہ ہمارے شیخ کے الفاظ ہیں بخاری شریف کی آخری حدیث پڑھاتے ہوئے- مسجد میں مؤذنی کا کام اللہ دے دے، مسجد میں امامت کا کام اللہ دے دے، کسی مدرسہ میں تدریس کا کام اللہ دے دے، کوئی بھی خطابت کا کام اللہ دے دے، یہ سارے دین کے شعبے ہیں، آگے جلال میں آئے، واللہ! باللہ! تاللہ! -تینوں قسمیں کھائیں- بنوری‘ بخاری پڑھاتے ہوئے اگر دل میں اخلاص نہیں ہوگا تو جہنم کے نچلے آخری طبقہ میں جائے گا اور وہ مسجد میں جھاڑو دینے والا مسجد کا خادم، جو وضو خانہ صاف کرتا ہے، مسجد میں جھاڑو دیتا ہے، اگر اخلاص کے ساتھ دیتا ہے تو جنت کے اعلیٰ درجوں میں جائے گا۔ 
میرے بزرگو! دوستو! آپ فارغ ہوجائیں گے، بہت سے ساتھی کہتے ہیں کہ ہمیں جگہ نہیں ملی، بھائی جگہ تو بہت ہے، آپ تیار نہیں، اپنے گھر میں بیٹھ جاؤ، کسی مسجد میں بیٹھ جاؤ۔ دیکھو! میں آپ کو اس پر ایک قصہ سناؤں، قاری عبد الرحیم صاحب، جن کا مدرسہ ہے، کہنے لگے: میرا ہندوستان میں ایک بہت بڑا مدرسہ تھا، تین لاکھ روپے کی عمارت تھی، جب میں وہاں سے پاکستان آیا، کچھ دن مکی مسجد میں پڑھایا، وہاں میں نے جھگی بنائی۔ جھگی کتنی؟! دو چارپائی کی، بیچ میں‘ میں نے ایک پردہ لگا دیا۔ میں ملنے گیا، مجھے اپنا قصہ سنایا۔ کہا: ایک چارپائی کی جگہ میں چھ آدمی آتے تھے، وہ میں نے پڑھانے کے لیے رکھی۔ اچھا!! عجیب بات یہ ہے کہ خود حافظ قرآن نہیں تھے، مگر سینکڑوں حفظ میں ان کے شاگرد تھے۔ وہ جگہ میں نے کھولی کہ بچے آئیں گے، میں ان کو نورانی قاعدہ پڑھاؤں گا، قرآن پاک سکھاؤں گا۔ اور ایک چار پائی کی جگہ میں نے اپنی اہلیہ کے لیے رکھی، اولاد نہیں تھی۔ میں نے یہ قرآن پڑھانا شروع کیا اور کہا کہ: اے اللہ میاں! میرے بس میں تو یہی تھا، آدھا بیوی کے لیے، آدھا دین کے لیے۔ کہا: میں کچھ دن پڑھاتا رہا، ایک آدمی آیا، کہا: قاری صاحب! میں نے سنا ہے کہ آپ نے ایک مدرسہ کھولا ہے؟ میں نے کہا: ہاں!۔ کہا: کہاں ہے؟ میں نے کہا: یہ ہے۔ کہا: یہ کوئی مدرسہ ہے؟ میں نے کہا: یہ طالب علم بیٹھے ہیں۔ کہا: یہ تو آپ کی جھگی ہے۔ کہا: آپ کی اجازت ہو تو میں آپ کے لیے ایک کمرہ بنا دوں؟ میں نے کہا: تمہاری مرضی، ہمیں تو ضرورت نہیں ہے۔ ہمارا کام اس سے بھی چل جائے گا۔ تو اس نے کہا: نہیں، آپ مجھے اجازت دیں ایک کمرہ بنانے کی۔ تو ایک کمرہ بنایا۔ ان کے پاس طالب علم بڑھ گئے، ایک اور اللہ کا بندہ ان کے پاس آیا، اس نے کہا: حضرت! میں نے سنا ہے کہ آپ نے مدرسہ بنایا ہے؟ تو میں نے کہا: ہاں!۔ تو کہا: اجازت دیں، میں ایک کمرہ بنا دوں؟ میں نے کہا: بنا دو۔ کرتے کرتے سارا مدرسہ بن گیا۔ اور اس کے لیے چندہ تو میں کرتا نہیں تھا، کسی کے پاس جاتا نہیں تھا، اس کے لیے کیا ہوتا! روز لوگ آتے، کتنے طالب علم ہیں؟ صبح میری دعوت ہے۔ شام کو دوسرے آتے، ہماری دعوت ہے۔ جس وقت میں ملنے گیا تو ایک ماہ تک صبح شام کا کھانا بک تھا اور بکریاں الگ کھڑی تھیں۔ 
آپ تھوڑا قدم اُٹھاؤ گے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے، میرے بندے! تو ایک قدم اٹھائے گا، میں دو قدم اٹھاؤں گا، تو ایک ہاتھ آئے گا، میں دو ہاتھ آؤں گا، تو چل کر آئے گا، میں دوڑ کر تیرے پاس آؤں گا۔ تو میرے دوستو! ہمارے اندر خدمت کا جذبہ ہوگا، اللہ ہمیں محروم نہیں کریں گے۔ اور اب اس پر بہت سارے واقعات ہیں ہمارے شیخ کے۔ مجھے ایک جگہ جانا ہے، تو میں نے آپ کے سامنے چند باتیں عرض کردیں ۔
 اللہ نے آپ کو علم کی دولت نصیب فرمائی ہے، تاج آپ کے سر پہنایا ہے، اس کے ساتھ آپ فارغ ہو جائیں۔ اللہ کے دین کی خدمت میں اخلاص کے ساتھ لگ جاؤ، یہ فکر مت کرو کہ کھاؤں گا کہاں سے، ضروریاتِ زندگی کہاں سے پوری ہوں گی۔ ہمارے شیخ اس کے لیے مثال دیتے تھے کہ: ایک آدمی ایک کتے کو اپنے گھر کے دروازہ پر باندھ دے، وہ اس کے گھر کی چوکیداری کرے، تو وہ آدمی جتنا بھی کنجوس ہوگا، وہ اس کتے کو بھوکا نہیں چھوڑے گا، گھر کی ہڈیاں اس کے سامنے ڈالے گا، بچی کھچی روٹیاں اس کے سامنے ڈالے گا، لیکن اپنے کتے کو بھوکا نہیں چھوڑے گا۔ خدا کی اتنی غیور ذات اور اتنی سخی ذات ہے، ہم اس کے دین کے لیے اپنے آپ کو وقف کریں گے تو کیا وہ ہم کو بھوکا مارے گا؟ تو آپ اپنے آپ کو دین کے لیے وقف کریں گے، اخلاص اور للہیت کے ساتھ اللہ کا دین پڑھائیں گے، اللہ آپ کے دنیا و آخرت کے سارے مسائل حل کریں گے۔

و آخر دعوانا أن الحمد للّٰہ رب العالمین

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین