بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

محبتِ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے عملی تقاضے  اور ہماری غفلت


محبتِ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے عملی تقاضے  اور ہماری غفلت

 

مومن کا دل محبتِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  میں سرشار ہونا‘ لازمی اور فطری بات ہے، اور یہ محبت علی وجہ الاتم تمام مادی نسبتوں اور چیزوں سے بڑھ کر ہونا‘ کمالِ ایمان کی نشانی اور عند اللہ مطلوب ہے: 
’’لَایُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ۔‘‘  (صحیح بخاری) 
’’تم میں سے کوئی کمالِ ایمان کو اس وقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک میں اُس کے نزدیک اس کے والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ عزیز نہ ہوجاؤں۔‘‘
 حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے عرض کیا: 
’’یارسول اللہ! میری ذات کے بعد مجھے آپ سے سب سے زیادہ محبت ہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: تمہارا ایمان کامل نہیں، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے عرض کیا: آپ مجھے اپنی ذات سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر مایا: اللہ کی قسم تمہارا ایمان اب مکمل ہوا۔‘‘ 
قدرتی دستور اور عشقِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کا پہلا مطالبہ عمل ہی ہے۔ صرف زبانی دعوائے محبت یا تصدیقِ قلبی و اقرارِ لسانی کافی ہوتا تو عہدِ نبوت سے آج تک کوئی منافق اور کافر نہ ہوتا، جب تک کہ کردارِ عملی کا اظہار نہ ہو، مومن اور منافق میں امتیاز، موحد اور مشرک میں امتیاز کیسے ہوتا؟! عمل پیمانہ ہے مومنِ صادق اور منافق کے درمیان، عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کے باب میں زبانی دعوائے محبت اس پھول کی مانند ہے جو کاغذ سے بنا ہو، جس میں خوشبو چھو کربھی نہ گزری ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ شیطان عمل ہی سے مومن کو روکتا ہے، اور اللہ کے یہاں بھی بندہ مستحقِ اجر عمل ہی کے بعد ہوتا ہے۔ علم بغیر عمل کے حجت ہوگا۔ بے عملی کی زندگی موجب غضبِ الٰہی ہے اور باعث ِ رسوائی ہے، انسان کی طبیعت میں یہ بات فطرتاً داخل ہے کہ وہ اپنے ادنیٰ سے محسن کا بھی زندگی بھرممنون ہوتا ہے، اس کے حکم اور ہر اشارہ کو روبہ عمل لانے کے لیے بے تاب ہوتا ہے، لیکن جہاں محسنِ اعظم امام الانبیاء  صلی اللہ علیہ وسلم  کے حکم کو ماننے اور اطاعت کرنے کی بات آتی ہے تو پھر انجان ہوجاتے ہیں۔ 
ساری کائنات پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے احسانات نصف النہار کے سورج کی طرح عیاں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت دل کا اطمینان ہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے عقیدت شرطِ ایمان ہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے حکم پر عمل آوری وصف ِ مسلمان ہے۔ حضرات صحابہ کرام ؓ میںآقا صلی اللہ علیہ وسلم  سے کامل محبت اور سچے عشق کے ساتھ ساتھ بھرپور عمل بھی تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے نہ صرف حکم بلکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف منسوب ہر عمل کو بھی اپنی عملی زندگی کا حصہ بنایا۔ انفرادی ہو یا اجتماعی زندگی ، شخصی معاملات ہوں یا ملکی یا بین الاقوامی معاہدات ، حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد ، مصلے پر ہو یا بسترِ حرم پر، ہر موقع پرحضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیرت اور اُسوہ کواپنے دامنِ عمل سے پیوستہ رکھا۔ بعد والوں کے لیے وہ مقدس جماعت مینارۂ منزل بن گئی۔ اتباعِ سنت کے لیے انہیںنہ بادشاہ کی پرواہ ہے ، نہ باپ کی، آقا صلی اللہ علیہ وسلم  کے حکم کو بجا لانے میں نہ دریا حائل ہوتا تھا، نہ جنگل وبیاباںاور صحراء نہ گلستاں، اسی بنا پرباطل ان کے رعب سے لرز اُٹھتا۔
قر آنِ پاک میں بے شمار مقامات پر اللہ رب العزت نے ایمان باللہ کے ساتھ عملِ صالح کا ذکر بکثرت کیا ہے:
’’ اِنَّ  الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ کَانَتْ لَھُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا۔‘‘(الکہف:۱۰۷) 
ترجمہ: ’’جو لوگ ایمان لائے ہیں اور کیے ہیں بھلے کام، ان کے واسطے ہے ٹھنڈی چھاؤں کے باغ مہمانی۔‘‘
ایک اور جگہ پرفرمایا: ساری انسانیت خسران میں ہے سوائے ایمان اور عملِ صالح کے:
’’اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ اِلَّاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ۔‘‘          (العصر:۲،۳) 
ترجمہ: ’’مقرر انسان ٹوٹے میں ہے، مگر جو لوگ کہ یقین لائے اور کیے بھلے کام۔‘‘
ایک مقام پر یوں ذکر کیا :
 ’’وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا  مِّنْ  ذَکَرٍ أَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولٰٓئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ یُرْزَقُوْنَ فِیْھَا بِغَیْرِ حِسَابٍ۔‘‘         (المومن:۴۰) 
’’جو نیک کام کرتا ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ مومن ہوایسے لوگ جنت میں جاویں گے (اور) وہاں بے حساب ان کو رزق دیا ملے گا۔‘‘        (تھانویؒ) 
ایک مقام پر اپنی ذات سے محبت کرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اگر تم مجھ سے محبت کرتے ہو تو میرے حبیب( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اتباع کرو:
’’قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ  غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔‘‘ (آل عمران:۳۱) 
ترجمہ: ’’تو کہہ اگر تم محبت رکھتے ہو اللہ کی تو میری راہ چلو، تاکہ محبت کرے تم سے اللہ اور بخشے گناہ تمہارے۔‘‘
اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مومنین کو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت پر دو انعامات سے نوازنے کا وعدہ کیا ہے: ایک اپنی محبت اوردوسرا گناہوں کی مغفرت ۔ ایک حدیث پاک میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:  
’’لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِہٖ۔‘‘                   (مشکوٰۃ) 
ترجمہ: ’’تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوتا جب تک تمہاری خواہشات اور جذبات اس دین کے تابع نہ ہوجائیں جس کو میں لے کر آیا ہوں۔‘‘
اس کا عملی نمونہ ہم کو دیکھنا ہے تو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کی زندگی دیکھیں کہ انہوں نے کیسے لازوال نمونے بعد والوں کے لیے چھوڑے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ  کو کدّو پسند نہ تھا، آقا  صلی اللہ علیہ وسلم  کو تلاش کر کے کھا تا دیکھ کر آپ  ؓ کو بھی شوق ہوگیا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما  محض اتباعِ سنت کی غرض سے اس مقام پر بیٹھے جہاں آقا  صلی اللہ علیہ وسلم  ایک سفر کے دوران قضائے حاجت کے لیے گئے تھے، کچھ دیر آپ ؓ بھی اسی مقام پر بیٹھ گئے۔ (حیاۃ الصحابہؓ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے حجرِ اسود کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا اگر میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم  کو بوسہ کرتے ہوئے نہ دیکھتا۔ (الشفاء) 
قاضی عیاض ؒ نے ’’شفاء‘‘ میں فرمایا: واقعتاًکسی سے محبت ہوجاتی ہے تو محبوب کی محبوبات و مرغوبات، حتیٰ کہ مباحا ت سے بھی محبت ہوجاتی ہے۔ ایک سچے عاشقِ رسول کا جذبہ یہ ہوتا ہے اور ہوناچاہیے کہ وہ کردار کاغازی بنے، نہ کہ محض گفتار کا۔ آقا  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ہر ادا اور ہر حکم کو اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں عملی طور پر بجا لائے۔ آقا کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشادِ گرامی ہے:
’’اَلْمُتَمَسِّکُ بِسُنَّتِيْ عِنْدَ فَسَادِ أُمَّتِيْ فَلَہٗ أَجْرُ شَہِیْدٍ۔‘‘ (معجم اوسط للطبرانی بحوالہ معارف الحدیث) 
’’ لوگوں کے فساد کے وقت جو میری سنت کو اپنائے گا اللہ اُسے شہیدکا ثواب عطا فرمائے گا۔‘‘
مقامِ افسوس ہے کہ آج ہماری دین کے اعتبار سے حس مفقود ہوگئی ۔ سنن ،مستحبات،مباحات تو دور کی بات ہے ، فرائض کابھی پتہ نہیں۔ صلہ رحمی ،ایثار ، ہمدردی ، تالیفِ قلب تو دور کی بات‘ حقوقِ واجبہ ولازمہ تک بھی ادا نہیں ہوتے۔ منکرات پر نہ دل ناراض ہوتا ہے، نہ بے دینی کے ماحول میں بے چینی ہوتی ہے۔ معروفات کی تلقین ہے نہ دینی فضاء سے وابستگی۔ سچی محبت عمل پر اُبھارتی ہے ،سچا عشق اطاعت کا پابند بناتا ہے، ورنہ زبانی دعویٰ، محض دعویٰ ہے اور کچھ نہیں۔ اللہ ہمیں توفیقِ عمل نصیب فرمائے۔ آمین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین