بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

محبتِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم!

محبتِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم!


یہ بات ہر شک وشبہے سے بالا ہے کہ محبت ایک مابعد الطبیعی حقیقت اور وجدانی کیفیت ہے ، اُسے منطقی اسلوب اور قانونی پیرائے میں سمویا اور سمجھایا نہیں جاسکتا۔ اس کی جامع ومانع تعریف ممکن نہیں، اس کی تعریف آپ اپنا وجود وصدور ہے، خواجہ یحییٰ بن معاذؒ کا ارشاد ہے:
’’المحبۃ حالۃ لایعبر عنہا مقالۃ۔‘‘
ترجمہ: ’’محبت ایک حال ہے، اس کی تعریف لفظوں میں ممکن نہیں۔‘‘
مولانا رومیؒ فرماتے ہیں:
در نگنجد عشق در گفت و شنید
عشق دریائیست قعرش ناپدید
’’عشق کا وصف کہنے سننے میں نہیں آتا، عشق ایسا سمندر ہے، جس کی گہرائی بے پایاں ہے۔‘‘
تخلیقِ عالم کی اصل واساس عشق ومحبت پر ہے۔ ہر شئے کے قیام وبقا کا باعث کششِ عشق ہے۔ محبت کا مادہ انسان میں اسی روز ودیعت فرمادیا گیا تھا، جب روزِ ازل میں محبوبِ حقیقی نے اپنی صفاتِ عالیہ، یعنی جمال واحسان کا ظہور فرمایا تھا، انسان اسی خواہشِ ظہور کا فعال مظہر ہے۔ گویا محبت وجود کی اولین حرکت، زندگی کا نقطۂ آغاز اور ایسا ربانی فیضان ہے، جو صورت وحقیقت دونوں سطحوں پر وارد ہوکر، انسان کے تمام نقائص کا ازالہ کرکے اس مرتبۂ کمال تک پہنچاتی ہے، جو اُسے مظہرِ حق بننے کے لیے عطا کیاگیاہے۔ تمام حرکت وعمل اسی حب اور عشق کا نتیجہ ہے اور دنیا کی ظاہری صورتیں اسی بے مثل حقیقت کا عکس:
جرعۂ مے ریخت ساقئِ اَلست
بر سر ایں خاک شدہ ہر ذرہ مست
’’ساقئِ اَلست نے مے معرفت کا چھینٹا اس خاک پر ڈالا، جس سے اس کا ذرہ ذرہ مست اور سرشار ہوگیا۔‘‘
 پھر اس مشتِ خاک کو کار نامہ ہائے محبت کے لیے کرلیا گیا اور قلب ونظر کی دولت عطا کی گئی، تاکہ محبت کے تقاضے ، ایمان واعمال دونوں سطحوں پر بہ تمام وکمال ظاہر ہوکر جذبۂ محبت کی صداقت ورفعت کا ثبوت پیش کر سکیں، جس میں مزید ترقی اور صعود‘ معرفت اور عشق کا حال پیدا کردے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے حبِ الٰہی کو مومن کی پہچان اور ایمان کی جان قرار دیا ہے:
’’وَالَّذِیْنَ أٰ مَنُوْا أَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ۔‘‘      (البقرۃ:۱۶۵)
’’اور ایمان والے اللہ سے شدید محبت کرتے ہیں۔‘‘
آیتِ مبارکہ سے پتا چلا کہ قرآن مجید کا بنیادی مقصد اور اساسی تصورِ تزکیہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہے، نہ کہ والہانہ اطاعت۔ اطاعت وتابع داری تو اس محبت کا لازمی ثمرہ ہوگی۔ محبت کی طلب اور رغبت کا اصول یہ ہے کہ عاشق محبوب کے دوامی لقاء کا متمنی ہوتا ہے، وصلِ محبوب اور مشاہدۂ مطلوب ہی اس کی دیرینہ آرزو اور اطمینان اور سکینت کا سامان ہوتا ہے، اس کی خواہش ہوتی ہے کہ محبوب کے انداز واطوار کو اختیار کرکے اپنی ذات کو محبوب کی صفات سے قائم کرلے اور بہ قدرِ محبت اس کے رنگ میں رنگین ہوجائے۔ بالفاظِ دیگر، محبوب کا مطاع ہونا محض ایک فطری ووجدانی امر نہیں، بلکہ محسوس ومشاہد بھی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ پیکرِ محسوس نہیں ہے کہ اُسے دیکھ کر، سن کر اُس کی اطاعت واتباع کی جاسکے۔ سو اس فیاضِ ازل اور محبوبِ حقیقی نے بہ طورِ احسان وامتنان، اس اضطراب کے ازالے کے لیے اپنی محبت کو رسول اللہa کی اتباع سے مشروط فرمادیاہے، اپنے رسول a کی زبانِ مبارک سے اعلان کروایا:
’’قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔‘‘                 (آل عمران:۳۱)
’’کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، خود اللہ تم سے محبت کرے گا۔‘‘
اس آیتِ مبارکہ میں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ ایمان کی اصل روح محبتِ الٰہی ہے اور اس محبت کی شرط یہ ہے کہ اس کے ساتھ کوئی ایسی محبت جمع نہ ہونے پائے جو اس کی ضد ہو، بلکہ جو شئے محبوب سے تعلق میں حارج ہو، وہ عاشق کے دشمن کے زمرے میں داخل ہوجائے۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ ہے، ان کو رسول اللہ a کی اتباع کرنی چاہیے، اللہ تعالیٰ سے محبت کا واحد راستہ اتباعِ رسول (a)ہے۔ اس اتباع کی برکت سے اللہ تعالیٰ سے تمہارا دعوائے محبت ہی سچا ثابت نہیں ہوگا، بلکہ تم خود محبوبِ الٰہی بن جاؤ گے۔ بالفاظِ دیگر اللہ تعالیٰ سے محبت اور اللہ تعالیٰ کی محبوبیت کا ایک ہی راستہ ہے: اتباعِ رسول (a)۔ آپ a کی اتباع عین اتباعِ الٰہی ہے:
’’مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰہَ۔‘‘                (النساء:۸۰)
’’جس نے رسول (a) کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘
اتباعِ خداوندی کاتصور رسول اللہa کی اطاعت واتباع کے بغیر محال اور ایک مجرد خیال ہے۔ رسول اللہ a کے متعلق فرشتوں کی گواہی ہے:
’’فمن أطاع محمداً a فقد أطاع اللّٰہ، ومن عصی محمداً a فقد عصی اللّٰہ ومحمد a فرق بین الناس۔‘‘ (الصحیح للبخاری، محمد بن اسماعیل البخاریؒ ،کتاب الاعتصام بالکتاب والسنہ، ج:۲، ص:۱۰۸۱، لاہور: مکتبۃ الحسن س-ن)
’’جس نے حضرت محمد a کی اطاعت کی اس نے یقینا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے حضرت محمد a کی نافرمانی کی اس نے فی الحقیقت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور آپa کی ذاتِ گرامی (اچھے اور برے) لوگوں کے درمیان معیارِ امتیاز ہے۔‘‘
اس لیے مدعیانِ محبتِ خداوندی کو اتباعِ نبوی (a) لازم ہے اور اتباعِ کامل چونکہ شدید محبت کے بغیر ممکن نہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیa کی زبانِ صداقتِ ترجمان سے اعلان کروایا کہ ایمان‘ رسول اللہ a سے ایسی محبت کا نام ہے کہ مال وعیال اور نفس وجاں تک اس محبوبِ جہاں کے سامنے حقیر وذلیل اور ہیچ وارزاں ہوجائیں۔ رسول اللہ a کا ارشاد ہے:
’’لایؤمن أحدکم حتی أکون أحب إلیہ من ولدہٖ ووالدہٖ والناس أجمعین۔‘‘ 
( الصحیح لمسلم، مسلم بن حجاج القشیریؒ ، باب وجوب محبۃ رسول اللہ، ج:۱، ص:۴۹، کتاب الایمان، ملتان: دارالحدیث س-ن )
’’ تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا، جب تک اس کو میری محبت اپنے والدین ، بچوں اور تمام لوگوں سے زیادہ نہ ہو جائے۔‘‘
جس دل کی زمین میں ایسی محبت کا بیج پڑا ہو، وہاں اس کے برگ وبار اور ثمرات کا احوال وکیفیات کی صورت میں ظہور پذیر ہونا ناگزیر ہے، کیونکہ بہ قول سیدنا حضرت عیسیٰ مسیح علیہ الصلاۃ والسلام: ’’درخت اپنے پھل سے پہچاناجاتاہے۔‘‘ ہر معنوی اور روحانی حقیقت ظاہری آثار اور جسمانی علامات سے پہچانی جاتی ہے، اسی لیے رسول اللہ a نے فرمایا:
’’المرء علی دین خلیلہٖ فلینظر أحدکم من یخالل۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح،ولی الدین الخطیب،  ص:۴۲۷، قدیمی کتب خانہ کراچی، س-ن)
’’انسان اپنے دوست (محبوب) کے طور طریقے اپنا لیتا ہے، اس لیے ہر شخص اس کا خیال رکھے کہ کسے اپنا دوست بنا رہا ہے۔‘‘
اس فیاضِ ازل نے صاف بتلادیا کہ میرا رسول a تمہارا رہبرِ کامل ہے، اس کی ذات ہرجہت میں تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے:
’’لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ۔‘‘                   (الاحزاب:۲۱)
ترجمہ:اور تمہارے لیے رسول اللہ a کی زندگی میں بہترین نمونہ (موجود) ہے۔‘‘
اس لیے زندگی کے ہر شعبے اور حیات کے ہرگوشے میں آنکھیں بند کرکے رسول اللہ a کی اطاعت کی جائے، کیونکہ آپa کی اطاعت وغلامی ہی میں عین اطاعتِ الٰہی ہے۔ اسلام کی شانِ اعجازہی یہ ہے کہ اس نے اپنے ماننے والوں کو اظہار واندازِ محبت کے تمام اسلوب اور طریقے خود ہی سکھا دئیے ہیں، تاکہ عقیدت ومحبت کا نذرانہ محبوب کے معیار کے مطابق اس کی بارگاہ میں پیش ہوکر شرفِ قبول پاسکے۔ اہلِ محبت کے لیے یہ دلیل مُقنع ہے کہ محبت مُستلزمِ اتباع ہے۔ محبت بلااتباع‘ دھوکا اور خام خیالی ہے، کیونکہ :
لوکان حبک صادقًا لأطعتَہٗ

إن المحب لمن یحب مطیعٗ
’’اگر تیری محبت میں صداقت ہوتی تو تُو اپنے محبوب کی فرمانبرداری کرتا، کیونکہ محب محبوب کا مطیع ہوتا ہے۔‘‘
اسی طرح اطاعت بلامحبت بھی اہلِ نظر اور صاحبانِ قلب کے نزدیک مرتبۂ کمال سے فروتر ہونے کے باعث مردود و مطرود ہے۔ بسا اوقات آدمی خارجی دباؤ کے زیرِ اثر جبراً اطاعت پر آمادہ ہوجاتا ہے، اس کے باطن میں تسلیم ورضا کاشائبہ تک نہیں پایا جاتا، جوں ہی اس دباؤ سے آزادی ملتی ہے، طبیعت پھر سے سرکشی اور بغاوت پر مائل ہوجاتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت a پر تنہا ایمان لانے کو کافی نہیں بتلایا، بلکہ آپ a کی تعظیم وتکریم اور حمایت ونصرت کے ساتھ اتباع واطاعت بجالانے والوں کو دائمی فلاح کامژدہ سنایا ہے:
’’فَالَّذِیْنَ أٰ مَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوْا النُّوْرَ الَّذِیْ أُنْزِلَ مَعَہٗ أُولٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ‘‘۔                                                     (الاعراف:۱۵۷)
’’سو جولوگ اس نبی پر ایمان لاتے ہیں، ان کی عزت وتکریم بجالاتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کا اتباع کرتے ہیں جو اُن کے ساتھ بھیجا گیا ہے، ایسے لوگ پوری فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
اطاعت واتباع کا داعیہ تو محبت وتکریم کے نتیجے میں از خود پیدا ہوگا، کیونکہ محبوب کی اقتدا واتباع اہلِ عقل کے نزدیک مسلم ہے، اطاعت بلا محبت ‘ محض ضابطہ وقانون ہوتی ہے، حقیقی اطاعت واتباع نہیں۔ اصل چیز جو علامتِ ایمان اور مومن کی شناخت ہے، وہ ہے حب النبی a۔ حضرت امام بخاری v نے بخاری شریف میں ایک باب باندھا ہے: ’’باب حب الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الإیمان‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔ ’’رسول اللہ a سے محبت جزوِ ایمان ہے۔‘‘ (صحیح البخاری، ج:۱، ص:۶، طبع:مکتبۃ الحسن، لاہور)
اس محبت اور عشق کا معیار اہل السنت کے پیشوا اور حنفیہ کے مایہ ناز مقتدا سیدنا ملا علی قاری علیہ الرحمۃ (متوفی:۱۰۱۴ھ) یہ بیان فرماتے ہیں:
’’علامۃ حب النبی(a) حب السنۃ ، وعلامۃ حب السنۃ حب الآخرۃ ، وعلامۃ حب الآخرۃ بغض الدنیا ، وعلامۃ بغض الدنیا أن لایأخذ منہا إلا زادا یبلغہ العقبٰی۔‘‘ 
                        (شرح عین العلم وزین الحلم،ج:۲، ص:۳۷۵،طبع: ادارۃ الطباعۃ المنیریہ،مصر)
’’حبِ رسول اللہ a کی علامت یہ ہے کہ سنت سے محبت ہو [یہ نہیں کہ بدعات کی رونق پر فریفتہ ہو] اور سنت سے محبت کی علامت آخرت کی محبت ہے اور آخرت کی محبت کی علامت یہ ہے کہ دنیا سے بغض ہو اور بغضِ دنیا کی علامت یہ ہے کہ دنیا سے فقط اتنا ہی لے کہ عقبیٰ تک پہنچنے کی ضرورتیں پوری ہوسکیں۔‘‘
ایمان بالرسالۃ کا مقتضا رسول اللہ a سے ایسی محبت کرنا ہے کہ ایمان حال بن کر پورے وجود اور اس کے فعال عناصر، ذہن، ارادے اور طبیعت پر غالب ہوکر خیالات وخواہشات اور جذبات واحساسات میں ایسے رَچ بس جائے کہ :
شاخِ گل میں جس طرح بادِ سحر گاہی کا نم
اس کے بعد ایک مومن ’’سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا‘‘ کا مکمل مظہر بن جاتا ہے، اس سے محویت واستغراق کے عالم میں بھی کوئی ایسا فعل ظہور میں نہیں آتا جو منافیِ شریعت ہو، کیونکہ اس کی مراد اور اس کا مقصود صرف محبوب اور منشائے محبوب ہے اور جب فقط محبوب ہی مقصود و مراد ہے تو اہلِ عشق اپنے اختیار سے دست کش ہوکر کامل سپردگی اور تفویض کی کیفیت میں زندگی گزاردیتے ہیں، جیسے: ’’المیت بیدالغسال۔‘‘ حضرت مولانا رومی v فرماتے ہیں:
’’عاشق خود را برکار ومختار نبیند، برکار معشوق را داند۔‘‘             (فیہ مافیہ، ص:۱۰۰)
’’عاشق اپنے آپ کو کسی کام پر مختار نہیں سمجھتا، بلکہ معشوق کو فعل کا مختار سمجھتا ہے۔‘‘
عاشق کامل اپنے جذبات واحساسات کو پامال کرکے رضائے محبوب کا طالب ہوتا ہے، چاہے اس میں کیسی ہی کلفت ہو۔ محبت میں حدود ومحبت کا عدمِ لحاظ عارفین وعاشقین کے نزدیک دعوائے محبت کو باطل کردیتا ہے۔ عارف شیرازی v فرماتے ہیں:
فکرِ خود و رائے خود در عالم رندی نیست
کفر ست دریں مذہب خود بینی و خود رائی
’’رندی کی دنیا میں خود اپنی فکر اور اپنے اصول اور رائے کا دخل ممنوع ہے، اس مذہب میں خود بینی وخود رائی کفر ہے۔‘‘
یہاں کا تو بس ایک اصول ہے:
لطف آنچہ تو اندیشی حکم آنچہ تو فرمائی
’’مہربانی وہی ہے جو تو خیال کرے اور حکم وہی ہے جو تو دے۔‘‘
جہانِ عشق میں خود پسندی اور خود رائی کی کوئی گنجائش نہیں، خود وضعی کا رویہ انسان کو خود غرضی اور نفس پرستی کی بدترین کیفیات میں مبتلا کرکے خود پرست باور کراتا ہے، عاشق کا مذہب رضائے محبوب ہوتا ہے۔
خود کو محبوب کی رضا ومنشأ کے سپرد کردینے سے عاشق‘ صفتِ عشق کی تجلیات سے مستنیر ہوتا ہے، نفسِ مطمئنہ کے اکرام سے نوازا جاتا ہے اور ’’یُحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗ‘‘ کی سعادت وبشارت کا مصداق بن جاتا ہے۔ ایسی شدید محبت اور کامل اطاعت کے آمیختے سے پروان چڑھنے والے مومنین کے معیاری ومنتہائی نمونے حضرات صحابہ واہل بیت sہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول a کی محبت اور کفر ، گناہ، عصیان اور نافرمانی سے دوری واِغماض از حکم شریعت نہیں ، از راہِ طبیعت حاصل تھی۔ اللہ تعالیٰ نے جس دین کو اتمام کی سعادت اور رضا کی سند سے نوازا، اس دین کی اضافت صریح طور پر صحابہs کی طرف ہے: ’’اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ‘‘ ۔۔۔۔۔ ایمان ان کے دلوں کی طلب اور قلوب کی زینت بنادیا گیا تھا، انہی کو ’’أُولٰئِکَ ہُمُ الرَّاشِدُوْنَ‘‘ کا زریں تمغہ عنایت فرمایا گیا کہ رشد وہدایت ان ہی کے طریق میں منحصر ہے۔ رسول اللہ a نے ’’ماأنا علیہ وأصحابی‘‘ فرماکر ان کے طریقے کو نجات یافتہ لوگوں کا طریق قرار دیا اور قرآن نے اس سے روگردانی کرنے والوں کو ’’سبیل المنافقین‘‘پر چلنے والا بتلایا ۔ محبت واطاعت کی دنیا میں معیارِ حق صحابہ s ہیں۔ ان کے اقوال واعمال حجت، اتباع واجب اور اختلاف ونزاع میں تصفیے کی کلید ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودq (متوفی:۳۲ھ) کا ارشاد ہے:
’’لایزال الناس صالحین متماسکین ما أتاہم العلم من أصحاب النبیؐ ومن أکابرہم ، فإذا أتاہم من أصاغرہم ہلکوا ۔‘‘
’’لوگ نیک اور اسلام پر قائم رہیں گے جب تک علم ان کے پاس اصحابِ رسول کی طرف سے اور اُن لوگوں کے اکابر کی طرف سے آئے گا، اور جب ان اصاغر سے اُبھرنے لگے (جو اوپر والوں سے علم نہیں لیتے) تو ہلاک ہوجائیں گے۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہم سب کو رسول اللہ a کی ذات مبارک سے ایسا حقیقی اور والہانہ تعلق اور آپa  کی ایسی کامل محبت عطا فرمائے جو ہمارے اندر آپ a کی اتباع و اطاعت کا داعیہ پیدا کردے، جو محبت کا جوہر اور عشق کا مقتضا ہے، آمین بجاہ النبی الأمین صلی اللّٰہ علیہ وآلہ و صحبہ وبارک وسلم۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین