بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مجموعۂ محاسن شخصیت

مجموعۂ محاسن شخصیت

    حضرت چچاجان رحمہ اللہ کی شہادت کو دو ہفتے ہونے کو ہیں، دل اُداس ہے، قلب وجگر شکستہ، ارادے مضمحل، مسکراہٹیں بے رونق اور ہنسی بے جان ہے، بظاہر سب کچھ ٹھیک ہے، لوگ کھارہے ہیں، پی رہے ہیں، جی رہے ہیں، مگر پھر بھی ہر چیز افسردہ لگ رہی ہے۔ صاف محسوس ہوتا ہے کہ سب لوگ اپنا غم چھپانا چاہتے ہیں، مگر بے جان مسکراہٹوں سے دل کا کرب کب چُھپ سکتا ہے؟ دل اُداس ہے، مگر شفقت سے حال پوچھنے والے کوہم سے چھین لیا گیا۔ کلیجہ زخموں سے چور چور ہے، مگر مرہم رکھنے والے کوہم سے دُورکردیا گیا۔ چہارسُو اندھیرا ہی اندھیراہے ،مگر ایک دنیا کومعطر کرنے والا پھول مَسَل دیا گیا۔ آہ! بادہ خوار، شکستہ دل بیٹھے ہیں، مگر ساقی کواُن سے جدا کردیا گیا۔ دل کاموسم چونکہ اُداس ہے، اس لئے ہر چیز اُداس ہی اُداس نظر آتی ہے: کلیاں اُداس اُداس ہیں غنچے بجھے بجھے یہ ہے اگر بہار تو کس کو خزاں کہیں     باغِ دل پہ خزاں کا راج ہے، ہر طرف سناٹوں کا بسیرا ہے اور میں ’’ماضی‘‘ کی حسین یادوں کی کرچیاں ’’حال‘‘ کے صفحات پر سجانے کی کوشش کررہا ہوں۔ اس کام کی بلندی اور اپنی پستی کو دیکھ کر بھی منفعل ہوں۔ صاحبِ مضمون اتنی عظیم شخصیت ہے کہ ہمالیہ کی بلندی جس کی عظمت کے سامنے شرمندہ ہے اور لکھنے والا ایک طالب علم جسے علم وعمل سے کچھ مناسبت ہی نہیں۔ افتاء وتدریس کے بادشاہ کا تذکرہ وہ لکھنے بیٹھا ہے جو صرف علم ووفن سے ناواقف ہی نہیں، شاہراہِ تحریر کے نشیب وفراز سے اَن جان اور آداب تحریر سے نابلد بھی ہے۔ چچاجان شہید رحمہ اللہ کے تذکرہ نگاروں میں نام لکھوانے کی خاطر اسی ٹوٹی پھوٹی اور بے ربط تحریر کو پیش خدمت کررہا ہوں۔      حضرت چچاجان شہیدنوراللہ مرقدہٗ کی شخصیت مجموعہ محاسن بلکہ ایک ’’حسین گلدستہ‘‘ تھی، جس میں رنگہا رنگ کے خوبصورت پھول جمع کردیئے گئے تھے۔ اُن کے پاس سب کچھ تھا: علم،عمل،اخلاص، نسبت، شجاعت،حق گوئی، فقاہت، نجابت، ذوق اور دلیری۔ اور ان تمام اوصاف میں آپ کا نمایاں اور بے مثال وصف ’’علم‘‘ تھا، جس کی جھلک آپ کے فتاویٰ، مجالس،بیانات،گفتگو اور آپ کی تدریس وغیرہ میں نظر آتی تھی۔آپ بیک وقت محدث، مفتی، مدرس، مصلح اور اپنے اکابر کے صحیح جانشین تھے۔ ایک عالَم آپ کی علمی وروحانی سخاوتوں سے بہرہ ورتھا، اُن کے علوم وفیوض سے ایک عالم فیض یاب ہوا، لیکن میری بد قسمتی کہ سوائے اُس ٹوٹی پھوٹی خدمت کے جو اَب میری’’ زندگی کا سہارا‘‘ ہے، اور کچھ بھی اُن سے حاصل نہ کرسکا۔ذیل میں حضرت چچاجان شہید رحمہ اللہ کے ’’مختصر حالات‘‘ کے بعد ’’بعض اوصاف حسنہ‘‘ کی ایک جھلک پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔بندہ ابھی ابتدائی درجات کا طالب علم ہے، قلم کی جولانیوں سے ناواقف ہے، لہٰذاقارئین کرام تحریرکو ’’فن تحریر‘‘ کی روشنی میں دیکھنے کی بجائے ’’محبت وعقیدت‘‘ کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں۔اور اس میں تحریری چاشنی تلاش کرنے کی بجائے حضرت چچاجان شہیدؒ کے قابل تقلید اوصاف کو عمل میں لانے کی سعی فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق رفیق مرحمت فرمائے۔ ولادت تا شہادت:     جون۱۹۵۱ء میں فاضلِ دیوبند، حضرت مولانامحمدعظیم صاحب رحمہ اللہ کے گھر ’’دین پور شریف‘‘ میں ایک بچے کی پیدائش ہوتی ہے، جس کا نام ’’عبدالمجید‘‘ رکھا جاتا ہے۔ وہ بچہ ملک کی مشہور ومعروف دینی درسگاہ ’’جامعہ مخزن العلوم خان پور‘‘ میں حضرت قاری عبیداللہ صاحب سے قرآن پاک کی تعلیم کے حصول کے بعد حضرت مولاناعبیداللہ درخواستیؒ کی آغوش میں چلا جاتا ہے، وہ اُسے فارسی، صرف ونحواور دیگر علوم وفنون کی تعلیم دیتے ہیں۔ استاذ کی بچے پر توجہ اور بچے کی اُستاذ کے ساتھ وفا کا اندازہ اس سے لگائیے کہ: استاذ’’جامعہ مخزن العلوم‘‘ میں پڑھاتے ہیں تو بچہ ’’مخزن‘‘ میں اُن کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرتا ہے، کسی وجہ سے استاذ ’’مخزن العلوم‘‘چھوڑ کر قریبی ایک گاؤں ’’تاج گڑھ‘‘ جا بیٹھتے ہیں تو بچہ وہاں پہنچ جاتا ہے،استاذ ’’جامعہ فاروقیہ لیاقت پور‘‘ کی مسند تدریس پر جلوہ افروز ہوتے ہیں تو یہ بچہ وہاں بھی ہونہار شاگردوں کی پہلی صف میں نظر آتا ہے، استاذ’’سہجہ‘‘ کی تاریک فضاؤں میں علوم کی روشنی پھیلاتے ہیں تو یہ لائق تلمیذ وہاں بھی صفِ اول میں دکھائی دیتا ہے۔ مولاناعبیداللہ درخواستی ؒ کا یہ قابل فخر شاگرد ’’جامعہ انوریہ طاہروالی‘‘ میں شیخ المعقولات مولاناحبیب اللہ گمانویؒ، جامع المعقول مولانا منظور احمد نعمانیؒ، اور ماہرعلوم عقلیہ مولاناحاجی محمد احمد صاحب مدظلہم سے بھی شرفِ تلمذ حاصل کرکے فنون میں قابلیت پیدا کرلیتا ہے۔     مولانامحمدعظیم ؒ کا یہی قابل رشک بیٹا ’’جامعہ عربیہ احیاء العلوم ظاہرپیر‘‘ میں شیخ التفسیرجامع المعقول والمنقول حضرت مولانامنظوراحمد نعمانی صاحب مدظلہم سے بھی فیض یاب ہوکر علوم وفنون میں مضبوط استعداد ومہارت کے ساتھ دین اور اہل دین کے ساتھ عشق ووفا کا سبق بھی لیتا ہے۔منظورَین کا یہ نُورِ نظر حافظ الحدیث حضرت درخواستی رحمہ اللہ کے پاس دومرتبہ ’’دورۂ تفسیر‘‘ میں شریک ہو کر قرآنی علوم ومعارف کو جذب کرتا ہے۔ ۱۹۶۷ء میں دین پورشریف کا یہ سپوت عظیم دینی درسگا’’جامعہ علوم اسلامیہ، علامہ بنوری ٹاؤن،کراچی‘‘ میں درجہ سادسہ میں داخل ہوکر اپنی تعلیم جاری رکھتا ہے۔۷۱/۱۹۷۰ء میں دورۂ حدیث شریف اور۷۴/۱۹۷۳ء میں تخصص کے بعد اپنے عظیم الشان مادرِ علمی سے سند فراغت حاصل کرکے ’’عبدالمجید‘‘ سے ’’مولانامفتی عبدالمجید‘‘ بن جاتے ہیں۔     فراغت کے متصل بعد مفتی عبدالمجید صاحب اپنے ہم نام عظیم بزرگ حکیم العصر مولاناعبدالمجید لدھیانوی مدظلہم کے حکم پر ’’جامعہ حسینیہ شہدادپور‘‘ میں مسند تدریس پہ رونق افروز ہوجاتے ہیں۔ ایک دوسال وہاں تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں۔پھر ایک سال پرانے تبلیغی مرکز خان پور میں اور ایک سال ظاہرپیر میں پڑھاتے ہیں۔جب مولاناعبدالمنان صاحب رحمہ اللہ اپنے نواسے (مولانامفتی عبدالمجید صاحب) کو ظاہر پیر لے جاتے ہیں تو حضرت نعمانی مدظلہم سے عرض کردیتے ہیں کہ: ’’یہ یہاں فی سبیل اللہ پڑھائے گا، آپ صرف اس کے ذمہ سبق لگادیں۔‘‘چنانچہ مفتی عبدالمجید صاحب روزانہ دین پور شریف سے ظاہر پیر جاتے اور سبق پڑھا کر واپس آجاتے ہیں۔پھر فیصلۂ خداوندی کے تحت کچھ عرصہ تدریس کا سلسلہ منقطع رہتا ہے، اس دوران ڈاکٹر سیف اقبال رازی ؔصاحب کے ساتھ ڈسپنسری کا کام کرتے ہیں، پھر اپنے آبائی گاؤں ’’دین پور شریف‘‘ میں پڑھانا شروع کردیتے ہیں اور۱۹۸۷ء تک وہیں درس وتدریس سے وابستہ رہتے ہیں۔۱۹۸۸ء میں ’’جامعہ اشرفیہ سکھر‘‘ میں مسند تدریس پر جلوہ افروز ہوتے ہیں۔۹۶/۱۹۹۵ء میں آپ کو باصرار اپنے مادرِ علمی، عالمی دینی درسگاہ ’’جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی‘‘ لے جایا جاتا ہے اور جاتے ہی ’’نائب رئیس دارالافتائ‘‘ کا منصب جلیل آپ کے سپرد ہوجا تا ہے۔۹۷/۱۹۹۶ء میں ’’جامع مسجدالحمرائ‘‘ کی امامت وخطابت کی مسند سنبھالتے ہیں۔ کچھ عرصہ صبح قرآن پاک کا اور شام کو مشکوٰۃ شریف کا درس دیتے ہیں، پھر تین دن قرآن پاک کا اور تین دن مشکوٰۃ شریف کا اور آخر میں صرف مشکوٰۃ شریف کا درس دیتے رہے ہیں۔۴/۵سال ’’جامعہ درویشیہ‘‘ کے ’’شیخ الحدیث‘‘ کے منصب پر فائز رہتے ہیں۔۱۰سال ’’معہدالخلیل‘‘ کے ’’صدرمفتی‘‘ کی ذمہ داری بھی نبھاتے ہیں۔ اور ۳۱جنوری۲۰۱۳ء کو اپنے فرزندوں بھائی محمد عمیر،مولانامحمدزبیر، مولوی محمدعزیراور بھائی محمدشعیب کو روتا چھوڑ کر زبانِ حال سے یہ کہتے ہوئے شہادت کا تاج سر پر سجالیتے ہیں    ؎ کلیوں کو میں خونِ جگر دے کے چلا ہوں صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی ذوقِ عبادت:      اس بات سے ہر ذی فہم واقف ہے کہ انسان کی انسانیت کا سارا دارومدار عبادت وبندگی پر ہے، جو شخص جذبۂ عبادت سے جتناخالی ہے وہ انسانیت سے اتنا ہی عاری ہے۔ اور جو شخص جذبۂ عبادت سے جس قدر بھر پور ہے وہ اسی قدر انسانیت سے معمور ہے اور کمالات انسانی سے آراستہ ہے۔ اور یہی عبادت وبندگی انسان کی تخلیق کا مقصد وحید ہے، جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے :’’ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإنْسَ إلَّا لِیَعْبُدُوْنَ‘‘ (الذاریات:۵۶) (اور نہیںپیدا کیا میں نے جنات اور انسانوں کو مگر اس لئے کہ وہ میری بندگی کریں )عبادت وبندگی رسول اللہ اکی امتیازی شان تھی، اس لئے (عبدہ ورسولہ) کے ممتاز خطاب سے سرفراز فرمایا گیا۔     جیساکہ اللہ رب العزت اپنی شانِ ربوبیت اور معبودیت میں یکتا اور بے مثل ہے، اسی طرح رسول اللہ ااپنی شانِ عبدیت وبندگی میں کامل اور بے مثال تھے۔پھر جو شخص بارگاہِ نبوی اسے جس قدر وابستہ ہوا اُسی قدر ذوقِ عبادت سے آراستہ ہوا۔ حضرت چچاجان شہیدؒ کے ذوقِ عبادت کو وہ لوگ خوب جانتے ہیںجو اُن کی خدمت میں صبح وشام رہتے تھے ۔آخر میں ایک ٹریفک حادثہ میں زخمی اور علیل ہوگئے تھے، لیکن اس کے باوجود بھی شوقِ عبادت کی چنگاری ٹھنڈی نہیں ہوئی۔ یہ اللہ والوں کی علامت ہے کہ اُنہیں مرتے دم تک فکر عبادت رہتی ہے ۔اور یہی عبادت کی حقیقت ہے کہ انسان کا دل ہر وقت یادِ الٰہی سے معمور رہے اور ہر وقت اوامر خدا وندی کے امتثال اور بجا آوری کے لئے تیار رہے ۔     آپؒ کے ہاں معمول تھا کہ جمعہ کے دن ،جمعہ کی نماز کے بعد وسیع وعریض دسترخوان لگا کرتا تھا، جملہ احباب واعزہ آپ کی اس دعوت میں شرکت کرتے تھے۔ دسترخوان کے انتظار میں بیٹھے بھی آپ وقت ضائع نہیں فرماتے تھے، بلکہ قرآن پاک اٹھاکر تلاوت شروع فرمادیا کرتے تھے۔کاؤنٹنگ تسبیح اکثراوقات آپ کے ہاتھ سے بندھی رہتی، کام کے ساتھ ساتھ ذکرواذکار کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا۔     تہجد کے لئے بیدار ہوتے، تہجد کے بعد قرآن پاک کی تلاوت فرماتے اور جلد ہی مسجد تشریف لے جایا کرتے تھے۔ تہجد کے وقت گھر والے دودھ گرم کرکے پیش کرتے، کبھی تاخیر ہوجاتی تو فرمایا کرتے تھے کہ: مجھے ٹھنڈا دودھ ہی دے دیا کرو! تواضع وانکساری :     انسان کی انسانیت اور برتری وسر بلندی کا اصل راز تواضع وانکساری میں مضمر ہے، چنانچہ رسول اللہ ا کا ارشاد ہے :’’جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو ضرور رفعت وسربلندی عطا فرماتے ہیں‘‘۔ یہی تواضع وانکساری اصلی شانِ عبدیت ہے، جو شخص بھی اپنی حقیقت کا شناسا ہوگا وہ مجسمۂ تواضع ہوگا اور کبر اور بڑائی سے بالکل مبرا ہوگا ،جو عبدیت کے بالکل منافی اور متضاد ہے۔ حضرت چچاجان شہیدؒ بھی تواضع اور انکساری کا مجسمہ تھے، آپ کا در ہر عام وخاص کے لئے ہر وقت کھلا رہتا تھا،جب بھی کسی نے فون کیا، شدیدترین مصروفیت کے باوجودفوراً سنتے اور نہایت خوش دلی سے جواب مرحمت فرمایاکرتے تھے۔     آپ کو قریب سے دیکھنے پر معلوم ہوتا تھا کہ اس پاک شخصیت کا خمیر ’’ادب‘‘اور ’’تواضع‘‘ سے گوندھا گیا ہے۔ آپ کمالات ومحاسن کے ایسے جامع تھے کہ آپ کی تواضع ، سادگی، بذلہ سنجی اور ہنس مکھ طبیعت کے پردے ہٹا کر آپ تک کوئی پہنچ جاتا تو وہ اپنے سامنے ایک ’’گہراسمندر‘‘ پاتا، سکون اور گہرائی کا عجیب مرقع۔ ہزاروں افراد کو ’’عالم‘‘بنانے کے باوجود اپنے آپ کو ان سب سے کمتر وحقیر سمجھنے والی اس ہستی کی کون کون سی صفات کا ذکر کروں؟ چند بے جان الفاظ میں افسوس جلیل! کہیں مضمون  محبت کا ادا ہوتا ہے؟ آدابِ مسجد:     چچاجان شہید رحمہ اللہ آدابِ مسجد کا بھی خوب خوب خیال رکھتے تھے۔بارہا آپ کے اس قابل تقلید ولائق رشک معمول کا مشاہدہ کیا گیا کہ جب بھی مسجد میں تشریف لے جاتے تو موبائل گھر ہی چھوڑ جایاکرتے تھے،حالانکہ اس قدر کثرت سے فون آتے کہ شاید ہی کوئی وقت ایسا ہوجس میں فون نہ آئے، لیکن آپ خالق سے لَو لگانے کے دوران مخلوق سے تعلق وربط کو پسند نہیں فرماتے تھے۔روایات میں آتا ہے: ’’حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: نبی کریم ا گھروالوںسے محوگفتگو ہوتے تھے، جیسے ہی اذان کی آواز کانوں میں پڑتی تو آپ یوں ہوجاتے، جیسا کہ ہمیں جانتے ہی نہیں ہیں ‘‘گویا مخلوق سے ہٹ کر کامل توجہ خالق کی طرف ہوجاتی تھی۔ اسی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے چچاجان شہید رحمہ اللہ کی کوشش بھی یہی ہوتی تھی کہ مسجد میںخالص خدائے وحدہٗ لاشریک کی طرف متوجہ رہیں: ذکرِ باری سے تر و تازہ رہی تیری زباں سنت نبوی کا مظہر تھی تری ہر اِک ادا     اسی طرح جب گھٹنوں میں تکلیف ہوئی تو عصا کے سہارے چلتے تھے، لیکن جب بھی مسجد میں داخل ہوتے تو احترامِ مسجد میں اول تو عصا کو گھر ہی چھوڑ جاتے تھے، اگر مجبوراً لے جانا پڑتا تو مسجد کی حدود سے باہر تک استعمال فرماتے تھے، مسجد میں بالکل استعمال نہیں فرماتے تھے۔  سادگی:     بعض لوگ جو آپ سے غائبانہ تعارف رکھتے تھے، اُن کے ذہن میں یہ ہوتا تھا کہ حضرت مفتی عبدالمجید جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے ’’استاذالحدیث‘‘ اور ’’مفتی‘‘ ہیں، بڑے اعلیٰ اور عمدہ لباس اور شاہانہ انداز میں رہتے ہوں گے، لیکن جب وہ دیکھتے کہ یہی شخصیت ایک سادہ سے لباس میں، معصومانہ اور باوقار صورت میں، شریفانہ لہجے میں، پھول جیسا چہرہ لئے،سیدھے سادے طرز میںآنے والے لوگوں سے محو گفتگو ہے تو حیران ہوئے بغیر نہ رہتے۔آپؒ سفر کے لئے خصوصی سواری کے انتظام کا تکلف بھی نہ فرماتے، آسانی سے جو سواری بروقت میسر ہوتی اُسی پر سفر فرمالیتے تھے، غرض ہرقسم کے تصنع، بناوٹ اور تکلفات سے کوسوں دور تھے: تھے سراپا دلکشی اور پیکرِ اخلاق تھے دھیمی دھیمی گفتگو تھی اور لہجہ رس بھرا اکابرکا احترام:     ’’الدین کلہ أدب‘‘ کا قاعدہ مسلم ہے، ہر سمجھدار جانتا ہے کہ دنیا وآخرت کی تمام کامیابیوں کا دار ومدار ’’ادب‘‘ و’’احترام‘‘ پر ہے۔ تاریخ عالم پر نظر دوڑانے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں انہی شخصیات کو مقام ومرتبہ نصیب ہوا، جنہوں نے اپنے والدین، اساتذہ،مشائخ اور اکابر کے احترام کو ہرمقام پر ملحوظ رکھا۔حضرت چچاجان شہید رحمہ اللہ میں بھی اکابر کا ادب کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔جب کبھی اپنے مرشد کی خدمت میں ’’دین پور شریف‘‘ حاضری دینے جاتے تو احتراماً عصاساتھ نہ لے جاتے، چاہے جتنی ہی تکلیف ہو۔ حضرت اقدس میاں سراج احمد دین پوری مدظلہم العالی کی خدمت میں آپ حاضری دیتے تو وہ ضعف اور علالت کے باوجودآپ کوملنے کے لئے اُٹھنے یا سیدھے ہوکر بیٹھنے کی کوشش فرماتے، جب آپ نے یہ دیکھا تو حضرت میاں صاحب کی اس تکلیف کے خیال سے سامنے جانے سے گریزفرما نے لگے، اور جب بھی حاضری دیتے، پشت کی جانب جاکر تشریف فرماہوتے تھے۔     اس بات سے اہل علم وتحقیق خوب واقف ہیں کہ علم وتحقیق کے سفر میں ایسے مراحل بھی آتے ہیں جہاں ایک طالب علم کو دوسرے طالب علم سے، یا ایک عالم کو دوسرے عالم سے اختلاف کرناپڑتا ہے، اور بعض اوقات اپنے بڑوں سے بھی اختلاف کرنا پڑتا ہے،اس سلسلے میں حضرت چچاجان شہید رحمہ اللہ کا طرزِ عمل یہ تھاکہ: نہ تو کسی کا ادب واحترام اُس سے اختلاف رائے کے اظہار میں مانع ہوا اور نہ کبھی اختلاف رائے نے ادب واحترام میں ادنیٰ رخنہ اندازی کی۔ بڑوں کے علاوہ جب کسی معاصر عالم سے مجتہد فیہ مسئلے میں کوئی اختلاف ہوتا تو آپ ادب واحترام کو پوری طرح ملحوظ رکھتے اور کوئی ایسا اقدام نہ فرماتے، جس سے اُس کے علمی مقام کو ٹھیس پہنچے یا عوام میں اس کا اعتماد مجروح ہو۔ شوقِ علم وذوقِ مطالعہ:     علمی شوق اور عبادت کا ذوق آپ کے رگ وجاں میں پیوست تھا۔ زمانۂ طالب علمی کی خوب محنت، جہد مسلسل اور بے پناہ علمی شوق نے ہی آپ کو اپنے ہی مادرِ علمی کی افتاء وحدیث کی بلند ترین مسند پر لابٹھایا تھا۔ زمانۂ طالب علمی کے بعد بھی آپ کا علمی شوق برقرار رہا، بلکہ اُس میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔کتب بینی بھی مستقل فرماتے رہتے تھے،ابھی چند ماہ قبل جب آخری بارہمارے گھر ’’خان پور‘‘ تشریف لائے تو اپنے مطالعہ کے ذوق کی تسکین کے لئے بندہ کے والد ماجد کی کتب پر نظر دوڑائی، اوپر اوپر مجلہ ’’صفدر‘‘ کا ’’شیخ الحدیث نمبر‘‘ پڑا ہوا تھا، جو حال ہی میں حمزہ بھائی نے استاذمحترم حضرت مولانامحمدحنیف صاحب رحمہ اللہ (شیخ الحدیث:دارالعلوم مدنیہ، بہاول پور) کی یاد میں شائع کیا ہے، چچا جان شہید رحمہ اللہ نے اٹھایا اور پڑھنا شروع کردیا، حتیٰ کہ آپ کی روانگی کا وقت آگیا۔ سفر کی تیاری، مہمانوں کی آمد، ملاقات، سب کے باوجود مطالعہ جاری رہا، یہاں تک کہ ۳۰۰سوصفحات کا ’’خاص نمبر‘‘ مکمل ہوا، اُدھر آپ روانہ ہوگئے۔ اس سے جہاں آپ کے شوقِ مطالعہ کا علم ہوتا ہے، وہیں اکابر اہل السنۃ والجماعۃ سے آپ کی بے پناہ محبت وعقیدت کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ رسوخ واستحضار علم اورذہانت وفطانت:     علم تو آپ کا اوڑھنا بچھونا تھا،علمی قابلیت کے ساتھ ساتھ فطری ذکاوت بھی غضب کی تھی۔علوم متداولہ میں جس علم سے حضرت چچاجان شہید رحمہ اللہ کو سب سے زیادہ شغف رہا اور جس میں اللہ تعالیٰ نے اُن سے دین کی عظیم الشان خدمت لی، وہ علم فقہ ہے،چنانچہ آپ کی یہی حیثیت دنیا میں زیادہ مشہور ہوئی اور ’’مفتی‘‘آپ کے نام کا حصہ بن کر زبانِ زدِ عام ہوگیا۔ ویسے تو آپ کو تمام علوم وفنونِ اسلامی میں وسعت نظر حاصل تھی، لیکن ممتازذکاوت اورذہانت نے آپ کو فقہ کا شیدائی بنادیاتھا۔ جزئیات کے ساتھ کلیات پر پوری دسترس تھی اور اصولِ فقہ آپ کا مزاج علمی بن چکے تھے۔ سوال نامہ پرنظر پڑتے ہی مسئلہ سمجھ جاتے، جواب پڑھتے اور فوری اصلاح دیتے جاتے۔فقہی جزئیات کا استحضار بھی کمال کا تھا،ایک ہی مسئلہ کے کئی کئی نظائر وشواہد بیان فرمادیتے تھے۔ہرقسم کے مسائل حتیٰ کہ میراث تک کے مسائل چٹکی بجانے میں حل فرمادیتے تھے۔ آپ کے شاگرد بتاتے ہیں کہ کبھی ہم نے آپؒ کو کسی مسئلہ میں تردد کا شکار ہوتا نہیں دیکھا، اور نہ ہی ایسا ہوا کہ بعد میں غور وفکر کے بعد سابقہ رائے سے رجوع کی نوبت آئی ہو: جس کے گفتارِ فقاہت کا عجب اعجاز تھا جس کے پاکیزہ عمل پر دین کو خود ناز تھا     یہی وجہ ہے کہ ملک عزیز پاکستان کے مدارس کے سرخیل ’’جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی‘‘ جیسے عالمی اور عظیم الشان ادارہ کے حضرات آپؒ کو باصرار لے گئے۔ ہدایہ اورترمذی شریف جیسے اہم اور دقیق اسباق آپ کے زیرتدریس رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ’’جامعہ درویشیہ‘‘ کے شیخ الحدیث کے منصب پر بھی فائز رہے۔  تقویٰ:     گزشتہ سطور سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت چچاجان شہید رحمہ اللہ کی شخصیت بنیادی طور پر ایک ’’علمی شخصیت‘‘ تھی۔آپ کی ساری عمر درس وتدریس اور افتاء جیسے کاموں میں بسر ہوئی۔استقامت اور پابندی کے ساتھ مطالعہ کرنے کی نظیریں اس دور میں بہت کم ملیں گی،لیکن اس زبردست علمی انہماک کے باوجود یہ حقیقت ہرآن آپ کے ذہن میں مستحضر رہتی تھی کہ یہ کتابی علم، اس میں پختگی، رُسوخ ،استحضار اور وسعت مطالعہ محض خول ہی خول ہے، اور جب تک اس میں عمل اور خشیت اللہ کی روح پیدا نہ ہو، اس وقت تک انسان خواہ کتنا ہی بڑا عالم، مفتی اور محقق بن جائے، اس کی ساری علمی تحقیقات بے وزن اور بے جان رہتی ہیں،اسی طرح جو علم انسان کی عملی زندگی پر اثر انداز نہ ہو، وہ بے کار ہے۔      کہنے کو تو یہ بات سبھی کہتے ہیں کہ: ’’عمل کے بغیر علم بے کار ہے‘‘لیکن ایسے لوگ کم ہوتے ہیں جن کی زندگی میں یہ بات پیوست ہوچکی ہو۔ حضرت چچاجان شہید رحمہ اللہ کی ہر ہرادا میں یہ حقیقت جلوہ گر نظرآتی تھی۔ علم وتحقیق کے کام سے اس درجہ وابستگی کے باوجود آپ کو اس علم وتحقیق سے نفرت تھی، جو انانیت اور خود بینی پیدا کرے۔ سنن کی پابندی:     اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:  ’’قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔(آل عمران:۳۱) ترجمہ:’’(اے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم!اپنی امت سے) فرمادیجئے کہ اگرتم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں محبوب بنالے گا‘‘۔     گویااللہ تعالیٰ کی محبت کی علامت’’اتباعِ سنت‘‘ ہے۔ جو جس قدر اتباع سنت کااہتمام کرے گا، وہ اسی قدر اللہ کے ہاں محبوب ومقرب ہوجائے گا۔حضرت چچاجان شہید رحمہ اللہ کی زندگی بھی ’’اتباع سنت‘‘ سے بھرپور تھی۔ کھانے، پینے، سونے اور مسجد میں داخل ہونے سے لے کر نمازپڑھنے، حتیٰ کہ معاملات تک میں آپؒ ’’اتباعِ سنت‘‘ کا خاص اہتمام فرماتے تھے۔     بندہ کے والد ماجد فرماتے ہیںکہ: ایک مرتبہ حضرت چچاجان شہید رحمہ اللہ ہمارے گھر تشریف لائے، آپؒ کا معمول تھا کہ روزانہ صبح غسل فرماکر کپڑے تبدیل کرتے تھے، اُس روز غسل کے لئے جانے سے قبل بیت الخلاء کی طرف گئے ،بیت الخلاء کے دروازے کے پاس پہنچتے ہی الٹے پاؤں واپس لوٹے اور فرمایا: اوہو! والد صاحب نے پوچھا : کیا ہوا؟ تو فرمایا: بے خیالی میں ننگے سر ہی جارہا تھا،پھر سر پر تولیہ رکھ کر گئے۔     حضرت چچاجان شہید رحمہ اللہ اس سال حرمین کے سفر سے واپسی پر جب ہمارے گھر ’’خان پور‘‘ تشریف لائے تورات کو عشاء سے قبل فرمایا: تھکاوٹ بہت ہے، میں فقط فرض وسنن کے بعد کچھ دیر آرام کروں گا، بستر لگادو! مَیں نے اُن کی تھکاوٹ کے خیال سے عشاء کے فرائض میں تلاوت مختصر کی، یعنی قصارمفصل میں سے پڑھا، تو بعد میں مجھے فرمایاکہ: بھئی! پڑھنے کی رفتار کچھ بڑھالیا کرو، لیکن وہی سورتیں پڑھا کرو جو مسنون ہیں۔     اُس رات آپ نے بستر تیار کروالیاتھا، لیکن فرائض وسنن کے بعد گھر تشریف نہیں لے گئے، بلکہ وہیں رُک گئے اور مکمل تراویح پڑھ کر پھر گھر تشریف لے گئے۔ دورانِ تراویح مجھ سے ایک جگہ حرکت کی غلطی ہوگئی، آپ حالانکہ حافظ نہیں تھے، لیکن آپ نے شدیدتھکاوٹ کے باجود کمالِ توجہ سے اُسے نوٹ فرمالیا۔ رات کو جب ہم آپ کو دبانے لگے تو مجھے فرمایا: لگتا ہے کہ فلاں مقام پر تم نے حرکت کی غلطی کی ہے، کیا ایسا ہوا ہے؟ میں نے کچھ سوچنے کے بعد عرض کیا: جی! پھر پوچھا کہ: اب اس کاکیا کروگے؟ میں نے عرض کیا: کل ان شاء اللہ اس مقام کو دوبارہ پڑھوں گا، فرمایا: ہاں! ٹھیک ہے، کل اُسے دوہرالینا۔      اسی مجلس میں یہ بھی فرمایا:آج میرا ارادہ تھا کہ ابھی لیٹ جاؤں، ذرا تھکاوٹ اتر جائے تو پھر اطمینان سے تراویح پڑھوں، اسی لئے بستر لگانے کا بھی کہہ دیا، لیکن تم نے جب شیخ محمد علی مدنی صاحب کے لہجے میں قرآن پاک پڑھا تو میرا جی نہ چاہا کہ میں جاکر سوجاؤں، لہٰذا تمہارے پیچھے تراویح پڑھی۔       اسی طرح ہماری مسجدکے امام صاحب کو آپ نے دیکھا کہ وہ درمیان درمیان سے پڑھتے تھے اور رفتار بہت ہی کم رکھتے تھے، یعنی مشق کے انداز میں پڑھتے تھے، تو والدماجد سے فرمایا: امام صاحب سے عرض کریں کہ:مسنون سورتیں پڑھاکریں، اُن کا ثواب زیادہ ہے، اور رفتار کچھ بڑھا لیں، یعنی حدر میں پڑھا کریں: پیشِ نظر وہ رکھتا تھا سیرت رسول کی ہر ہر عمل میں اُس کے تھی سنت رسول کی غلطیوں پر ٹوکنے کاانداز:     ’’امربالمعروف‘‘ کی طرح ’’نہی عن المنکر‘‘ بھی اہم شرعی فریضہ ہے، لیکن اس فریضے کی ادائیگی بڑی حکمت اور للہیت چاہتی ہے، اور جب تک اللہ تعالیٰ کی توفیق شامل حال نہ ہو ، اس نازک فریضے کی ادائیگی میں اعتدال وتوازن کی حدود پر قائم رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔     حضرت چچاجان شہید رحمہ اللہ موقع ومحل کی مناسبت سے مخاطب کا لحاظ رکھتے ہوئے تنبیہ فرماتے تھے ۔جس کے بارے میں سمجھتے کہ یہ نرمی، شفقت اور پیار سے سمجھے گا تو اُسے بے حد مشفقانہ لہجے میں اس کی غلطی سے آگاہ فرمادیتے اور درستگی کی تلقین کرتے ۔ اور اگر کبر ونخوت اور مال ودولت کے نشہ میں چورکوئی دنیا دار اپنی بڑائی جتانے لگتا تو اس کے وہ لتے لیتے کہ آئندہ کے لئے وہ ایسی حرکت بالخصوص علماء کے سامنے بدتمیزی وبدتہذیبی سے باز آجاتا تھا،اس سے آپ کی ’’خود داری‘‘ اور ’’استغنائ‘‘ کا بھی اندازہ ہوتا ہے:  امیروں سے یہ بے پرواہ شہنشاہوں سے مستغنی فقیروں  سے  مروّتِ  انکساری  دیکھتے  جاؤ     کافی عرصہ سے آپ کو بھی فون پر دھمکیاں مل رہی تھیں، لیکن آپ عام طور پرکسی سے ذکر نہیں فرماتے تھے،بلکہ آپ کے ایک شاگرد نے بتایا کہ ایک مرتبہ بنوری ٹاؤن کے ایک بڑے استاذالحدیث کے پاس نامعلوم خط آیا، جس میں دھمکی دی گئی تھی کہ: ’’ہم تمہارے بڑے مفتی کو قتل کریں گے۔‘‘ اُن استاذ صاحب نے مسکراتے ہوئے وہ خط حضرت شہید ؒ کو دیا اور مزاحاً فرمایا:لوجی! آپ کا بُلاوا تو آگیا ہے، لیکن اس سب کے باوجود: ڈرایا دار سے تو وہ ہنسا خوب تھی اس کے دل میں ایسی جاں نثاری وہ دشمن سے بھی ملتا مسکرا کر ملی حق سے اُسے وہ بُردباری     پھر جب پرودگار کی طرف سے بُلاوا آگیا تو ہنسی خوشی جان جان آفریں کے سپرد کردی۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان کے نقش قدم پر ثابت قدم رکھے، اور ہم سب کو باہمی اتفاق واتحاد سے چچاجان کے مشن کو زندہ وتابندہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین : سکونِ زیست کی دولت لُٹا کے بیٹھ گئے ہم ایک گوہرِ یکتا گنوا کے بیٹھ گئے قریب کر کے محبت سے ایک دُنیا کو عجیب بات ہے خود دُور جا کے بیٹھ گئے ہمارا جی نہیں لگتا یہاں آپ کے بغیر اور آپ ہو کہ کہیں دل لگا کے بیٹھ گئے رواں رہے گا یونہی قافلۂ دین پوری عدُو نہ سمجھیں کہ ہم چوٹ کھا کے بیٹھ گئے

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین