بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

مجموعۂ محاسن حضرت مولانامفتی صالح محمدشہید

 مجموعۂ محاسن  حضرت مولانامفتی صالح محمدشہیدؒ

    ۱۸؍ربیع الاول ۱۴۳۴ھ بمطابق ۳۱؍جنوری ۲۰۱۳م بروزجمعرات استادِ محترم حضرت مولانا مفتی صالح محمد صاحب کاروڑی نور اللہ مرقدہٗ استادو رفیق دارالافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی محض ۴۲؍ سال کی عمرمیںمادرِعلمی سے جامعہ اسلامیہ درویشیہ جاتے ہوئے خلعۂ شہادت سے سرفراز ہوکر اپنے ہزاروں متعلقین کو غم زدہ چھوڑ کراپنے مخدوم اور خادم کے ہمراہ لبوںپر دل آویزتبسم لئے پر سکون چہرے کے ساتھ رفیقِ اعلیٰ سے ملاقات کے لئے چل دئیے ۔إناللّٰہ وإناإلیہ راجعون۔     حضرت مفتی صاحب شہید رحمہ اللہ سے عمر کے اس مختصر دورانیہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی نشر واشاعت کے سلسلہ میں جوعظیم کام لئے ہیں، بیشک یہ حضرت شہید رحمہ اللہ کی عند اللہ قبولیت کی واضح دلیل ہے اور آپ رحمہ اللہ نے شہرت اور نام ونمود سے مستغنی ہو کر جس پوشیدگی اور اخفاء کے ساتھ ان خدمات کو انجام دیا ہے، یہ آپ کے اخلاص اور للّٰہیت کی کھلی دلیل ہے، جس پر آپ کی مظلومانہ شہادت نے ناقابلِ تردید تصدیقی مہر بھی ثبت کردی ہے۔ حضرت شہید رحمہ اللہ کی ساری زندگی دین سیکھنے ،سکھانے اور اس کی نشرواشاعت میں گزری ۔ آپ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے ،آپ بیک وقت مدرس بھی تھے ،مفتی بھی تھے ،حَکَم بھی تھے،مؤلف بھی تھے،خطیب بھی تھے ،مسجد ومدرسہ کے منتظم اور صدر بھی تھے ۔غرضیکہ آپ کی شخصیت صفاتِ حسنہ کا ایک ایسا مجموعہ تھی، جس کی ہر ہر صفت اپنی جگہ بے مثال تھی ۔     حضرت شہید رحمہ اللہ نے ۱۹۹۳ء میں جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن سے سندِ فراغت حاصل کی اور اس کے بعد جامعہ ہی میںحضرت مولانا مفتی عبد السلام صاحب چاٹگامی مد ظلہ العالی اور حضرت مولانامفتی نظام الدین صاحب شامزئی شہید رحمہ اللہ کی زیرِ نگرانی تمرینِ فتاویٰ کی تربیت حاصل کی۔فراغت کے بعد تقریباً ۴؍ سال تک آپ اپنی دیگر مصروفیات کے ساتھ ساتھ محض اپنے شوق کی بنیاد پراپنے اساتذہ کے زیرِتربیت فتویٰ نویسی کی مشق بھی کرتے رہے ۔آپ کے شوق ،ثابت قدمی، اوربہترین استعدادکی بنیاد پر اساتذہ کرام نے آپ پراعتمادکا اظہار کرتے ہوئے۱۹۹۸ ء میں آپ ؒ کو مادرِعلمی میں بحیثیت رفیق دارالافتاء خدمت کا مستقل موقع فراہم کیا،آپ نے اپنے اساتذہ کے اعتماد کی بھرپور لاج رکھی اور تادمِ شہادت اس خدمت کو پوری تندہی کے ساتھ اس طرح سر انجام دیاکہ حق ادا کردیا ۔آپ رحمہ اللہ دن بھر درس و تدریس اور فتاویٰ کے علمی میدان میں خدما ت کی ادا ئیگی میںبے انتہا مصروف رہا کرتے تھے۔آپؒ کی انتھک محنت کا کچھ معمولی سا اندازہ آپ کی ان خدمات کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے جوبوقتِ شہادت آپ کے ذمہ تھیں۔ ۱:۔ دارالافتاء بنوری ٹاؤن میں کل وقتی مصروفیت :     دار الافتاء میں جواہم ترین خدمات آپ کے سپرد تھیں،وہ مندرجہ ذیل ہیں :     ٭ دستی جمع ہونے والے فتاویٰ کی تصحیحات،اور اس سلسلہ میں طلبہ کی راہ نمائی کرنا۔     ٭مسائل معلوم کرنے کے لئے آنے والی خواتین کو سننا اور ان کے مسائل کو حل کرنا ۔     ٭متنازع مسائل میں تحکیم کرنا۔     ٭ فون پر مسائل بتانا۔     ٭زبانی معلومات کے لئے آنے والوں کی شرعی مسائل میں رہنمائی کرنا ۔ ۲:۔ تدریس:     مندرجہ ذیل کتب آپ کی زیرِ تدریس تھیں:     ٭جامع الترمذی۔حدیث مبارکہ کی یہ معرکۃ الآراء کتاب دو جگہ آپ کے زیرِ تدریس تھی :     ۱:…جامعہ اسلامیہ درویشیہ سندھ مسلم سوسائٹی (جہاں جاتے وقت یہ حادثہ فاجعہ پیش آیا)     ۲:… جامعہ احیا ء العلوم للبنات پیر کالونی ۔     ٭ شرح عقود رسم المفتی ودیگر کتب تخصص فی الفقہ الاسلامی  (جامعہ اسلامیہ درویشیہ میں )     ٭ نورالانوار ( جامعہ بنوری ٹاؤن میں ) ۳:۔اشراف ونگرانی:     آپ رحمہ اللہ جامعہ اسلامیہ درویشیہ میں تخصص فی الفقہ الاسلامی کے مشرف ونگران بھی تھے۔ ۴:۔ خطابت:     مسجد نور کٹی پہاڑی میں آپ خطابت کے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔ ۵:۔منتظم:      آپ رحمہ اللہ مسجد نور کے صدر اور منتظم بھی تھے،اور اس مسجد کے ساتھ آپ نے حفظ و ناظرہ کا ایک مدرسہ بھی قائم کیاہوا تھا اور اس کی نسبت اپنے محبوب استاذ حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن صاحب رحمہ اللہ کی طرف کی ہو ئی تھی ۔ اس ادارے کامکمل انتظام و انصرام حضرت شہید رحمہ اللہ کے ہاتھ میں تھا، اس مدرسہ میں فی الوقت۷۰۰ بشمول سایۂ پدری سے محروم ۸۰؍ یتیم طلباء زیرِتعلیم ہیں ۔حضرت نے یہ کام اس قدر پوشیدگی کے ساتھ انجام دیا کہ آپ کے بہت سارے قریبی اور بے تکلف ساتھی بھی آپ کی حیات میں اس سے لاعلم اور بے خبر رہے ،اور بہت سوں پر یہ عقدہ آپ کی حیاتِ جاودانی کے بعد کھلا۔ یقینا یہ حضرت شہید رحمہ اللہ کے لئے ایسا صدقہ جاریہ ہے جس سے وہ اُس عالم میں بھی ہر لحظہ مستفید ہو رہے ہوںگے اور ان شاء اللہ!ہوتے رہیں گے۔     آپ کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی ذہانت اور قوی حافظہ عطا فرما یا تھا ، جزئیات میں آپ کا استحضار کمال کا تھا، حوالہ جات کی تخریج میں آپ کو ملکہ حاصل تھا، جس کا واضح اور بین ثبوت آپ رحمہ اللہ کی وہ شاندار خدمات ہیںجو آپ نے اردو میں فتاویٰ کی معیاری ترین کتاب ’’کفایت المفتی ‘‘اور’’ فتاویٰ رحیمیہ ‘‘جیسی اھم کتاب کی تخریج کرکے ادا کی ہیں ، اس کے علاوہ اردو میں فتاویٰ کی ضخیم ترین کتاب’’ فتاویٰ محمودیہ‘‘ کے معتد بہ حصے کی بھی تخریج فرما چکے تھے کام زیرِتکمیل تھا کہ جامعہ فاروقیہ سے فتاویٰ محمودیہ کا تخریج شدہ نسخہ طبع ہوگیا ،آپ رحمہ اللہ کا مقصد چونکہ اس خدمت سے شہرت کا حصول نہ تھا، بلکہ ایک علمی ضرورت کو پورا کرنا تھا اس لئے آپ نے یہ فرما کر کہ’’ مقصد حاصل ہو گیا‘‘ اس پر کام بند کردیاتھا ۔قدیم مسائل کے ساتھ ساتھ جدید مسائل پر بھی آپ کی گہری نگاہ تھی اور پیش آمدہ جدید مسائل پرآپ کی رائے انتہائی وقیع اور وزنی ہو ا کرتی تھی ۔آپ کے متحرک قلم سے نکلنے والے بیش بہا فتاویٰ جات کے علاوہ ’’کلوننگ ‘‘ کے موضوع پرایک مستقل رسالہ بھی ’’استنساخ‘‘کے نام سے طباعت کے زیور سے آراستہ ہو کراس اہم ترین موضوع پر بہت سوں کی رہنمائی کا ذریعہ بن چکاہے۔     اس قدر دینی وعلمی خدمات کے ساتھ ساتھ آپ رحمہ اللہ کے تجارتی مشاغل بھی تھے، جنہیں آپ جامعہ کا وقت پورا کرنے کے بعد رات گئے تک سر انجام دیتے تھے۔اس قدر مصروفیت کا نتیجہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آپ مسکراہٹ اور خوش طبعی کے نام سے بھی واقف نہ ہو تے لیکن یہ حضرت شہید رحمہ اللہ کا کمال تھا ،کرامت تھی کہ اس قدرجسمانی مشقت اورذہن کو تھکا دینے والی مصروفیات کے با وجود آپ کے چہرے کی بشاشت میں کوئی فرق نہ آتا اور آپ جس مجلس میں بیٹھتے اپنی دلچسپ گفتگو اور منفرد اندازسے شرکاء کے لبوں پر تبسم بکھیر دیتے۔ حضرت شہید رحمہ اللہ کی باغ بہار شخصیت، خوش مزا جی ،برادرانہ بے تکلفی ،وسعتِ مطالعہ ،ذہانت وذکاوت اور حاضر جوابی کااندازہ تو وہی لوگ کرسکتے ہیں جنہیں حضرت کے ساتھ نجی مجالس میں بیٹھنا نصیب ہوا ہو،بلا شک و شبہ جس نجی مجلس میں آپ موجود ہوتے میرِمجلس آپ ہی ہوتے۔      حضرت شہید رحمہ اللہ جن شخصیات سے متأثر تھے ان میں علم وعمل اور سیاست میںشیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ، حضرت مولانا مفتی محمودرحمہ اللہ اورحضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمہ اللہ جبکہ ادب وخطابت میں مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ،اور علوم وفنون میں مولانا شمس الحق افغانی رحمہ اللہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں، مذکورہ بالا شخصیات کا تذکرہ حضرت شہید رحمہ اللہ کثرت کے ساتھ انتہائی عقیدت اور جوش و خروش سے فرمایا کرتے تھے، نیزتاریخ ،سیاست اورتہذیب و ثقافت آپ رحمہ اللہ کے پسندیدہ ترین موضوعات تھے جن پر آپ بلا تکان گفتگو فرما یا کرتے تھے۔ اہلِ علم خاص طور پرشعبہ افتاء سے وابستہ حضرات اس بات سے بخوبی واقف ہیںکہ فتویٰ کے میدان میں عرف و عادات کی واقفیت کس قدر اہمیت کی حامل ہے،حضرت ممدوح شہید رحمہ اللہ کی منجملہ خصوصیات اور امتیازات میں سے ایک بہت بڑی خصوصیت اور شانِ امتیازی عرف وعادت سے بھرپور واقفیت تھی ،اقوامِ عالم کی تہذیب پر آپ رحمہ اللہ کی معلومات انتہائی حیرت انگیز تھیں،دنیا کے ہر خطہ میں بسنے والی اکثراقوام کی تہذیب وثقافت اور رسم و رواج سے باخبر تھے خاص کر پاکستان اورافغانستان میں بسنے والی معروف اقوام میں شاید ہی کوئی قوم ایسی ہوگی جس کی تاریخ اور تہذیب سے آپ کو واقفیت نہ ہو آپ کی یہ مہارت آپ کے فتاویٰ کی قوت کو بھی دو بالا کر دیا کرتی تھی۔       آپ رحمہ اللہ کی شخصیت کا مختصرا تجزیہ کیا جائے تو ایک ایسی خود داراور خوش مزاج شخصیت سامنے آتی ہے جو ’’والدین کے لئے قابل ِفخر فرزند،بیویوں(آپ رحمہ اللہ نے دو نکاح فرمائے تھے)کے لئے خیال رکھنے والا شوہر،اولاد کے لئے مشفق اور فکر مندباپ،اساتذہ کے لئے قابلِ اعتماد شاگرد،طلباء کے لئے مصلح اور جان سے عزیز تراستاد،دوستوں کے لئے ہمدرد اور مخلص ساتھی ِ عامۃ الناس کے لئے نافع مفتی اور بعد میں آنے والوں کے لئے قابلِ تقلید ‘‘ تھی۔اسی وجہ سے حضرت شہید رحمہ اللہ کی شہادت سے متأثر ہو نے والوں کی فہرست بھی بہت طویل ہے ایک طرف ضعیف والدین کی آنکھیں اپنے فرمانبردار بیٹے کی فرقت کے غم سے اشک آلود ہیں تو دوسری طرف اہلِ خانہ اپنے غم گسار کے یوں اچانک چلے جانے سے آزردہ ہیں ،ایک طرف معصوم بچے والد کے پر شفقت سائے سے محرومی پر انگشت بدنداں ہیں تو دوسری طرف روحانی فرزندگان محبوب استاذ سے محرومی پرحیران و پریشان ہیں ،ایک طرف دوستوں کے قلوب میرِ محفل کی یاد میں مجروح ہیں تو دوسری طرف رفقاء کے سینے پرخلوص رفیق کی جدائی کے تصور سے چھلنی ہیں: تم کیا گئے کہ رونقِ ہستی چلی گئی     اس ناکارہ کی شومئ قسمت کہ حضرت شہید رحمہ اللہ کی پرلطف رفاقت کا صرف ڈیڑھ سال ہی میسر آسکا، لیکن اس قلیل عرصہ میں حضرت شہید رحمہ اللہ کی پدرانہ شفقت اور برادرانہ بے تکلفی کے باعث محبت اور انسیت کا ایسا گہرا تعلق قائم ہو چکا تھا کہ گویا صدیوں کی آشنائی ہے ۔حضرت رحمہ اللہ کی باکما ل،زندہ دل شخصیت کے بارے میں لکھتے ہوئے یادوں کا ایک طوفان ہے جس کی موجیں ذہن کے پنہاں خانوں سے امڈ امڈ کرصفحہ قرطاس پربہنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میںلگی ہوئی ہیں لیکن دل جو حکم ہے اس کا فیصلہ یہ ہی ہے کہ: ’’قلم بشکن سیاہی ریز کاغذ سوز دم درکش حمید ایں قصۂ عشق است در دفتر نمی گنجد‘‘     اللہ تعالی حضرت ممدوح شہید رحمہ اللہ کی خدمات وشہادت کو قبول فرمائے آپ کے پسماندگان کو صبر جمیل عطاء فرمائے اورآپ کے لگائے ہوئے باغات کو تا قیامت سر سبز رکھے ۱ور آپ رحمہ اللہ اس کے ثمرات سے محظوظ ہوتے رہیں (آمین ) 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین