بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مجاہدہ  ۔۔۔ تزکیۂ نفس کا ذریعہ

مجاہدہ 

تزکیۂ نفس کا ذریعہ


قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’ اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں ہم ان کو اپنے (قرب وثواب یعنی جنت کے) راستے ضرور دکھا ویں گے اور بے شک اللہ تعالیٰ (کی رضا و رحمت) ایسے خلوص والوں کے ساتھ ہے۔ ‘‘  (العنکبوت:۶۹)
جہاد کے اصلی معنی ہیں: 
’’دین میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے میں اپنی پوری توانائی صرف کرنا۔‘‘ 
اس میں وہ رکاوٹیں بھی داخل ہیں جو کفار و فجار کی طرف سے پیش آتی ہیں، کفار سے جنگ و مقاتلہ اس کا اعلیٰ فرد ہے۔ اور وہ رکاوٹیں بھی داخل ہیں جو اپنے نفس اور شیطان کی طرف سے پیش آتی ہیں۔ 
جہاد کی ان دونوں قسموں پر اس آیت میں یہ وعدہ ہے کہ ہم جہاد کرنے والوں کو اپنے راستوں کی ہدایت کر دیتے ہیں، یعنی جن مواقع میں خیر وشر یا حق و باطل یا نفع و ضرر میں التباس ہوتا ہے، عقلمند انسان سوچتا ہے کہ کس راہ کو اختیار کروں؟ ایسے مواقع میں اللہ تعالیٰ اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں کو صحیح، سیدھی، بے خطر راہ بتا دیتے ہیں، یعنی ان کے قلوب کو اسی طرف پھیر دیتے ہیں جس میں ان کے لیے خیر و برکت ہو۔(معارف القرآن، ج:۶، ص: ۷۱۶)
اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مجاہدۂ نفس کے بغیر سالک کوئی مرتبہ حاصل نہیں کرسکتا، لہٰذا نفس کی مخالفت عبادت کی تمام قسموں کی بنیاد اور مجاہدے کے تمام درجوں کا کمال ہے۔ بندہ اس مقام تک رسائی کے بغیر راہِ حق کو نہیں پاسکتا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے نفس کی مخالفت کا حکم دیا ہے۔
ایک بزرگ نے اس کی مثال اس طرح دی کہ ایک کاغذ کو موڑ دیا جائے، اب اگر اس کاغذ کو سیدھی جانب موڑتے رہیں گے تو کبھی وہ سیدھا نہیں ہوگا اور اگر اس کو مخالف سمت میں موڑیں گے تو وہ سیدھا ہو جائے گا۔ اسی طرح نفس کا کاغذ بھی گناہوں کی طرف مڑا ہوا ہے، اس کو مخالف سمت موڑیں گے تو یہ نفس سیدھا ہو جائے گا، یہی مجاہدہ ہے۔ 
’’غنیۃ الطالبین‘‘ میں حضرت شیخ ابوعلی دقاق رحمۃ اللہ علیہ  کا ایک قول روایت کیاگیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ: 
’’جس شخص نے اپنے ظاہر کو مجاہدہ کے ذریعے آراستہ کیا، اللہ تعالیٰ اس کے صلہ میں اس کے باطن کو مشاہدہ کے ساتھ آراستہ فرمادے گا۔‘‘
ایک غزوہ سے واپسی پر حضور نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  سے فرمایا: 
’’اب ہم جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف لوٹ رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جہادِ اکبر کیا ہے؟ فرمایا: ’’وہ نفس سے مجاہدہ ہے۔‘‘     (أخرجہ البيہقي في الزہد)
حضرت فضالہ بن عبید  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں: 
’’میں نے رسول اﷲ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’(بڑا) مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے خلاف جہاد کرتا ہے۔‘‘                         (أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند: ۶ /۲۰)
سیدنا علی بن ابی طالب  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں: 
’’(اگلے زمانوں میں) سب سے پہلے تم جس چیز کا اِنکار کرو گے وہ جہاد بالنفس ہوگا۔‘‘ (ابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم:۱۹۶)
امام سفیان ثوریؒ کہتے ہیں: 
’’بے شک تمہارا دشمن وہی نفس ہے جو تمہارے پہلوؤں کے درمیان ہے۔ تم اپنے دشمن کے ساتھ جنگ سے بھی بڑھ کر اپنی نفسانی خواہشات کے ساتھ جنگ کرو۔‘‘ (ابن بطال في شرح صحيح البخاري، کتاب الرقاق، باب من جاہد نفسہٗ في طاعۃ اﷲ)
ان تمام احادیث سے معلوم ہواکہ نفس کی پیروی کرنا بہت بڑی حماقت ہے اور دنیا و آخرت میں ذلت ورسوائی کا باعث ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اپنا کا محاسبہ کرے اور دیکھے کہ اس نے اپنی کل کی دائمی زندگی کے لیے آگے کیا بھیجا ہے؟
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین