بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

ماہِ شعبان کے احکام و فضائل 

ماہِ شعبان کے احکام و فضائل 


 شعبان کی وجہ تسمیہ اور لفظِ شعبان کی حقیقت:

شعبان المعظم ہجری سال کا آٹھواں مہینہ ہے، شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ نے اپنی کتاب ـ ’’ماثبت بالسنۃ‘‘ میں حضرت انس بن مالکؓ کے حوالہ سے یہ بیان فرمایا ہے کہ روزہ دار کی نیکیوں (کے ثواب) میں درخت کی شاخوں کی طرح اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ شعبان کے مہینے میں بہت سی نیکیاں تقسیم کی جاتی ہیں، جیسے رمضان کے مہینے میں گناہ جلا دیئے جاتے ہیں، اس وجہ سے اس کو شعبان کہتے ہیں ۔
 شعبان کا لفظ عربی گرائمر کے اعتبار سے ’’شعب‘‘ سے بنا ہے، جس کے لفظی معنی شاخ در شاخ کے ہیں، اس مہینے میں چونکہ خیرو برکت کی شاخیں پھوٹتی ہیں، اور روزہ دار کی نیکیوں میں درخت کی شاخوں کی طرح اضافہ ہوتا ہے، اس وجہ سے اس کو شعبان کہا جاتا ہے۔

ماہِ شعبان کی فضیلت واہمیت:

اللہ تعالیٰ نے انسان کی زندگی کو بڑا قیمتی بنایا ہے، اس کو اپنی رحمتِ خاصہ اور برکتِ تامہ سے نوازنے کی لیے مختلف مواقع عطا فرمائے ہیں، پہلی اُمتوں کی عمریں لمبی اور جسمانی قوتیں مضبوط ہوتی تھیں، اس کے مقابلے میں اُمتِ محمدیہ کی عمریں بھی کم ہیں، اور صحت کے اعتبار سے بھی کمزور ہیں، اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کے طفیل آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی امت کو خاص انعامات اور اعزازات سے نوازا ہے کہ محنت تھوڑی اور بدلہ لا محدود، بے انتہا اجروثواب کی سعادت اس امت کو حاصل ہے۔ چونکہ شعبان کا مہینہ رمضان کا مقدمہ ہے، جیسا کہ شوال کا مہینہ رمضان کا تتمہ ہے، اسی وجہ سے اس مہینے کو خاص فضیلت حاصل ہے۔
 رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایا کہ: 
’’شعبان کے چاند کا شماررکھو، رمضان کے لیے۔‘‘                 (سننِ ترمذی)
یعنی جب ماہِ شعبان کی تاریخ صحیح ہو گی تورمضان میں غلطی نہیں ہوگی، چنانچہ :
’’رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  شعبان کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ کسی ماہ (کے چاند) کا اتنا خیال نہ فرماتے تھے۔‘‘                                                       (سننِ ابوداؤد) 
ان روایتوں سے قولاً وفعلاً اس ماہ کے چاند کا اہتمام ثابت ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا   روایت کرتی ہیں کہ:’’ میں نے ایک رات رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو نہ پایا تو پھر ناگہاں وہ بقیع میں پائے گئے، تب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: اے عائشہ! کیا تمہیں اس بات کا ڈر تھا کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کریں گے؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے خیال کیا کہ شاید آپ ازواجِ مطہرات میں سے کسی کے پاس تشریف لے گئے ہوں گے، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ: بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب کو آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں، اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ گنہگاروں کی بخشش فرماتے ہیں۔‘‘
مؤرخین نے لکھا ہے کہ قبیلہ کلب کے پاس تقریباً بیس ہزار بکریاں تھیں۔
حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے کہ: 
’’آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے نہیں رکھتے تھے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  (تقریباً) پورے شعبان کے روزے رکھتے تھے اور فرماتے: نیک عمل اتنا ہی کیا کرو، جتنی تمہاری طاقت ہے، کیونکہ اللہ ثواب دینے سے تھکے گا نہیں، تم ہی تھک جاؤگے۔‘‘   (بخاری، ج:۲)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نوّر اللہ مرقدہٗ بعض بزرگوں سے منقول خاص نوافل کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: 
’’اوراد کی بعض کتابوں میں جو پندرہویں شعبان میں خاص نوافل کی تحریر ہے، یہ کوئی قید نہیں ہے، اور جو چیز شرعاً بے قید ہو، اس کو بے قید ہی رکھو، چونکہ حدیث میں نوافل کی کوئی قید نہیں آئی، بلکہ جو عبادت آسان ہو وہ کر لو، اس میں نوافل بھی آگئے، اور وہ بھی کسی ہیئت کے بغیر۔‘‘                                                         (حقیقتِ عبادت: ۴۶۶)
 شبِ براءت اسلام میں ایک مبارک رات ہے، جس کی فضیلت بہت سی احادیث سے ثابت ہے، بعض لوگ سرے سے اس مبارک رات کے کسی قسم کی فضیلت کے ہی قائل نہیں، جبکہ بعض لوگ اس کو شبِ قدر کے ہم پلہ سمجھتے ہیں، یہ دونوں موقف درست نہیں، بموجبِ حدیث اس رات میں بے شمار گناہ گاروںکی مغفرت اور مجرموں کی بخشش کی جاتی ہے، اور جہنم کے عذاب سے چھٹکارا ملتا ہے، اس لیے عرف میں اس کا نام شبِ براءت مشہور ہو گیا، احادیث میں اس رات کا کوئی مخصوص نام نہیں، بلکہ ’’لیلۃ النصف من شعبان‘‘ کہہ کراس کی فضیلت بیان کی گئی، (ایک سال کی) زندگی، موت، رزق کے فیصلے اسی رات میں ہو تے ہیں۔ 
حضرت عائشہ صدّیقہ ؓروایت کرتی ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ اس رات (پندرہویں شعبان) میں کیا ہے؟ عائشہ صدّیقہ ؓنے عرض کی کہ : اے اللہ کے رسول! اس رات میں کیا ہے؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: جس بچے نے اس سال میں پیدا ہونا ہوتا ہے، وہ اس رات میں لکھا جاتا ہے، اور اس سال میں جو بنی آدم ہلاک ہونے والا ہوتا ہے، اس کا نام لکھا جاتا ہے، اور اس رات میں ان کے اعمال اُٹھالیے جاتے ہیں، اور اسی رات میں ان کے رزق نازل ہوتے ہیں، پھر عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا کہ: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کوئی بھی ایسا نہیں کہ جو اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل ہو، پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: کوئی بھی ایسا نہیں کہ جو اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں جا سکے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ کلمہ تین دفعہ ارشاد فرمایا، تو میں نے کہا کہ آپ بھی اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں نہیں جاسکیں گے؟ پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنا ہاتھ مبارک سر پر رکھ کر فرمایا: اور میں بھی نہیں جا سکوں گا، مگر اس صورت میں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت سے ڈھانپ لے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ کلمہ تین دفعہ ارشاد فرمایا۔ (رواہ البیہقی فی الدعوات الکبیر)

شبِ براءت کے کام 

۱:-عبادت ودعاکرنا

اکثر علماء، فقہاء اورمحدثین کی رائے یہ ہے کہ شعبان کی پندرہویںرات فضیلت والی رات ہے، اس میں تنہا عبادت (نوافل، دعا وغیرہ) باعثِ خیروبرکت اور مستحب عمل ہے، اگر اس کو واجب سمجھا جائے، تو یہ بدعت بن جائے گا۔

۲:-قبرستان جاکر دعائے مغفرت کرنا

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  پندرہ شعبان کی رات کو خلافِ معمو ل زندگی میں صرف ایک بار قبرستان تشریف لے گئے، ہر سال آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا معمول نہ تھا، اس وجہ سے اس کو ہر سال لازم سمجھ کر کرنا‘ دین میں اضافہ کرنا ہے، علماء نے لکھا ہے کہ صرف مرد حضرات کبھی کبھار جایا کریں۔ 

۳:-پندرہویں شعبان کے روزے کا حکم:

پندرہ شعبان کے دن روزہ رکھنے کا ذکر ایک ضعیف حدیث میں ملتا ہے، محدثین حضرات نے صرف ایک راوی کے قوتِ حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے اس کو ضعیف کہا ہے، چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  سے منقول ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:جب شعبان کی پندرہویںرات ہو، تواس رات کو قیام( عبادت) میں گزارو، اور اس کے دن میں روزہ رکھو، اس لیے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کی تجلی آفتاب کے غروب ہونے کے وقت سے ہی آسمانِ دنیا پر ظاہر ہوتی ہے، پس فرماتا ہے: خبردار!کوئی بخشش مانگنے والا ہے کہ اس کو بخش دوں؟ خبردار!کوئی رزق لینے والا ہے کہ اس کو رزق دوں؟ خبردار! کوئی مصیبت زدہ ہے کہ(وہ عافیت کی دعا مانگے، اور میں) اس کو چھڑادوں؟ خبردار!کوئی فلاں فلاں حاجت والا ہے؟ طلوعِ صبح صادق تک اللہ تعالیٰ یہی آواز دیتا رہتا ہے (رات بھر یہی رحمت کا دریا بہتا رہتا ہے)۔ (رواہ ابن ماجہ، وروح المعانی )
 فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
’’المرغوبات من الصّیام أنواع: أوّلھا صوم المحرّم، والثاني صوم رجب، والثالث صوم شعبان الخ۔‘‘                          (ج: ۱، ص:۱۰۳، ط: عالمگیری)
اس سے معلوم ہوا کہ پندرہ شعبان کا روزہ فقہاء کے ہاں شرعاًمطلوب اور مرغوب ہے، نیزاکابرِ امت کا اسی پر تعامل ہے، گویا کہ اسے تلقی بالقبول حاصل ہے اور حضرات محدّثین کے اصول کے مطابق ضعیف حدیث کو اگر تلقی بالقبول حاصل ہو جائے، تو وہ حدیث صحیح کے حکم میں ہو جاتی ہے، (ویسے بھی فضائلِ اعمال میں ضعیف حدیث کا معتبر ہونا بھی مسلّم ہے)، جیسا کہ اعلاء السنن کے مقدمہ (ص:۳۹) پر ہے:
’’قد یحکم للحدیث بالصحۃ إذا تلقاہ الناس بالقبول وإن لم یکن لہٗ إسناد صحیح۔‘‘
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ، حضرت مفتی محمد شفیع  ؒ، حضرت مفتی محمود گنگوہی ؒودیگر علماء کی تصریحات کے مطابق اس دن روزہ رکھنا مستحب ہے، رکھ لیا جائے تو ثواب ہے، اور نہ رکھیں تو گناہ نہیں۔

شبِ براءت کی برکات سے محروم افراد

حضرت عبداللہ بن عمرو  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ:
’’شعبان کی پندرہویں رات اللہ عز وجل اپنی مخلوق کی طرف رحمت کی نظر فرماتے ہیں، سوائے دو شخصوں کے باقی سب کی مغفرت فرماتے ہیں: ۱-کینہ پرور ، ۲-دوسرے کسی کو نا حق قتل کرنے والا۔‘‘                                          (مسند احمد بن حنبل، ج: ۲، ص:۱۷۶)

شبِ براءت کی بدعات:

۱:-آتش بازی:آتش بازی مجوسیوں کی نقل ہے، اور آگ قہرِ الٰہی کا نشان ہے، اسی وجہ سے فقہاء نے لکھا ہے کہ قبرستان میں آگ لے جانامنع ہے اور آگ کے ساتھ کھیلنا یہ اہلِ اسلام کا کام نہیں، بہر حال حدیث پاک میں آتا ہے: 
’’مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ۔‘‘ 
ترجمہ: ’’جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا، وہ انہی میں سے ہوگا۔‘‘ 
نیزیہ آتش بازی ہندوؤںکی مشہور تہوار دیوالی کی نقل ہے۔اور اس کے علاوہ یہ آتش بازی، بم، پھلجھڑی اورپٹاخے پھوڑنا کئی گناہوں کا مجموعہ ہے: ۱:عبادت میں مشغول لوگوں کی عبادت میں بلا وجہ دخل اندازی کا گناہ ہے۔ ۲:اہلِ محلہ اور مریضوں کو بلا وجہ ایذا پہنچانے کا گناہ ہے۔ ۳:اپنی جان کو بلاوجہ خطرے میں ڈالنے کا گناہ ہے۔ ۴:بلاوجہ اسراف کا گناہ ہے، یہ رسم نہ صرف یہ کہ ایک بے لذّت گناہ ہے، بلکہ اس کی دینی ودنیوی تباہ کاریاں بھی ہمیشہ آنکھوں کے سامنے آتی ہیں۔
۲:-چراغاں کرنا:مسجدوں، بازاروں، گھروںاور خاص خاص مقامات کو سجایا جاتا ہے، قمقمے روشن کیے جاتے ہیں، لائٹ کا اضافہ کیا جاتا ہے، ضرورت سے زائدگھروں سے باہر دروازوں پر کئی کئی چراغ روشن کیے جاتے ہیں، اور بعض جگہ تو مکانوں کی چھتوں پر موم بتیاں جلائی جاتی ہیں، اور دیواروںپرقطار در قطارچراغ رکھ دئیے جاتے ہیں، یہ چراغاں اسلامی شعار نہیں، یہ سب بے جا اسراف اور فضول خرچی ہے، اس کو قرآن پاک یوں بیان کرتا ہے: 
’’اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیَاطِیْنِ‘‘       (بنی اسرائیل: ۲۷)
ترجمہ: ’’بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔‘‘
ایک اور مقام پر قرآن پاک نے اس کو یوں بیان کیا ہے: 
’’وَلَاتُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَایُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ‘‘              (الاعراف:۳۱)
ترجمہ: ’’اور اسراف نہ کرو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘
علی بن ابراہیمؒ نے کہا ہے کہ روشنی کی بدعت اوّل برامکہ سے شروع ہوئی جو ایک آتش پرست قوم گزری ہے، وہ قوم مسلمان توہو گئی، لیکن آتش پرستی کے اثرات پھر بھی ان کی زندگی میں نمایاں تھے، یہ لوگ اس موقع پر خاص طورسے روشنی کا اہتمام کرتے تھے، عباسی خلیفہ ہارون الرشید اور مامون الرشید کے دورِخلافت میں قومِ برامکہ کو عروج حاصل تھا، جس کی وجہ سے یہ منکرات اہلِ اسلام میں رواج پا گئیں۔
۳:-حلوہ: بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کا دندان مبارک جب شہید ہوا تھا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حلوہ نوش فرمایا تھا، اس کی کوئی اصل نہیں، نیزاس کا اعتقاد شرعاًجائز نہیں اور عقلاً بھی ممکن نہیں، کیونکہ دندان مبارک کی شہادت کا واقعہ شوّال کا ہے، شعبان کا نہیں۔
۴:- مسجدوں میں اجتماع کا اہتمام:مبارک راتوں میں عبادت کا اہتمام اپنے گھروں میں کرنا چاہیے، بالخصوص شبِ براءت کے موقع پر، کیونکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے حجرۂ مبارکہ میں ہی اس رات کی عبادت کی تھی، مسجد میں آپ تشریف نہیں لے گئے تھے، اب اگر اجتماع کا التزام ہو تو وہ بدعت شما رہوگا۔
۵:-نوافل کی جماعت:مبارک راتیں ہوں یا عام دن، عورتوں کا گھروں میں صلوٰۃالتسبیح کی جماعت کرانااور مردوں کا مسجدمیںصلوٰۃالتسبیح کی جماعت میں شریک ہونا یہ درست نہیں ہے، کیونکہ علماء عورتوںکے جماعت سے نماز پڑھنے کومنع فرماتے ہیںـ، جبکہ عندالاحناف نوافل کی جماعت نہیں۔
۶:-قبروں پر پھول ڈالنا: حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒنے قبروں پر پھول اور چادریں چڑھانے کو سنت کی ضد قرار دیا ہے۔
۷:-حضرت حمزہ ؓکی فاتحہ: بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت امیر حمزہؓ کی شہادت ان دنوں میں ہوئی ہے، یہ ان کی فاتحہ ہے، اس کی کوئی اصل نہیں، اوّل تو تعیُّنِ تاریخ کی ضرورت نہیں، اور دوسرا خود یہ واقعہ بھی غلط ہے، کیونکہ آپ ؓکی شہادت کا واقعہ شوال کا ہے، شعبان کا نہیں۔
۸:-مُردوں کی روح: بعض لوگ اعتقادرکھتے ہیںکہ شبِ براءت وغیرہ میں مُردوں کی روحیں گھروں میں آتی ہیں اور دیکھتی ہیںکہ کسی نے ہمارے لیے کچھ پکایا ہے کہ نہیں؟ اس کی بھی کوئی اصل نہیں ہے۔
۹:-شبِ براءت کی فاتحہ: بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جب شبِ براءت سے پہلے کوئی مر جائے تو جب تک اس کے لیے فاتحہ شبِ براءت نہ کیا جائے، وہ مُردوں میں شامل نہیں ہوتا، اور صرف اسی پر بس نہیں، بلکہ بعض جگہ پر تو رواج ہے کہ اگر تہوار سے پہلے کوئی مر جائے تو کنبہ بھر میں پہلا تہوار نہیں منایا جاتا ہے، جب کہ حدیث پاک میں مذکور ہے کہ جب مردہ مرتا ہے تو مرتے ہی اپنے جیسے لوگوں میں جاپہنچتا ہے، یہ نہیں کہ شبِ براءت تک اَٹکا رہتا ہے ۔
۱۰:-ریاوتفاخر: اکثر اہلِ ثروت وبرادری کے لوگ ایک دوسرے کو بطور معاوضہ لیتے اور دیتے ہیں اور نیت اس میں یہی ہوتی ہے کہ فلاں شخص نے ہمارے یہاں بھیجا ہے، اگر ہم نہ بھیجیں گے تو وہ کیا کہے گا، الغرض اس میں بھی ریا اور تفاخر ہو جاتا ہے، کیونکہ نیت میں ہی خرابی ہے۔
۱۱:- مسور کی دال:بعض لوگ اس تاریخ میں مسور کی دال ضرورپکاتے ہیں، اس کی بھی کوئی اصل نہیں ہے۔
۱۲:-برتنوںکا بدلنا:یہ صرف کفّار کی نقل ہے۔
۱۳:-گھر لیپنا:یہ صرف کفّار کی نقل ہے۔
۱۴:-بی بی عائشہؓ کی روٹیاںبنانا: اس کی بھی کوئی اصل نہیں ہے، یہ سب باتیں بے بنیاد اور غلط ہیں۔
۱۵:-قبرستان میں رات گزارنا:بعض لوگ شبِ برأ ت میں قبرستان جانے کا بڑا اہتمام کرتے ہیں، جماعتیں اور گروہ بنا کر قبرستان جاتے ہیں، او ر ساری ساری رات قبرستان کی حا ضری میں صرف کر دیتے ہیں، عبادت کا موقع ہی نہیں ملتا۔
۱۶:-محفل نعت خوانی:بعض لوگ شبِ براءت کو لاؤڈاسپیکر کھول کر محفلِ نعت خوانی کا اہتمام کرتے ہیں، اور بعض لوگ لاؤڈ اسپیکر پرساری رات قرآن مجید پڑھ کر قرآن خوانی اور شبینہ کا اہتمام کرتے ہیں، جس سے دوسروں کی عبادات، ذکر واذکار اور آرام میں خلل واقع ہوتا ہے، عبادت کے نام پر دوسروں کو اذیت اور تکلیف دینے کا سبب بنتے ہیں، جو کہ حرام ہے۔ 
۱۷:-چھ رکعات کا اہتمام:بعض لوگ شبِ براءت کوبعد نمازِ مغرب بڑے اہتمام کے ساتھ چھ رکعتیں پڑھتے ہیں، پہلی دو رکعت درازیِ عمر کی نیت سے، دوسری دو رکعت دفعِ بلا کی نیت سے، اخیر کی دو رکعت کسی کا محتاج نہ ہونے کی نیت سے، اور ہر دو رکعت کے بعد سورۂ یاسین بھی پڑھی جاتی ہے، شریعتِ مطہرہ میں اس کا کوئی ثبوت نہیں، البتہ اس رات میں جتنی چاہیں نفل نمازیں پڑھ سکتے ہیں، درازیِ عمر، وسعتِ رزق، اور آفات وبلیات سے حفاظت کی دعا وغیرہ کر سکتے ہیں، جیسا کہ عام دنوں میں کرسکتے ہیں۔ (فتاویٰ رحیمیہ)
ربِ لم یزل پروردگارِ عالم ہم سب کو شعبان کے برکات نصیب فرمائے، اور صحت وعافیت کے ساتھ رمضان المبارک کے روزے رکھنے اور دیگر عبادات کی توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العٰلمین!
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین