بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مُداوا…!!

مُداوا…!!

اس وقت ملک کے مجموعی حالات جس غیر اطمینان بخش کیفیت سے دوچارہیں،اس نے ہر ذی شعور کو ذہنی وقلبی ہیجان میں مبتلا کررکھاہے۔ طرح طرح کے شدائدوتکالیف میں پوری قوم جکڑی ہوئی ہے۔ہرطرف بے سکونی وبدامنی اوربے چینی نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔بے لگام گرانی،انسانی جان کی ارزانی اوربڑھتی ہوئی مفلسی نے قوم کے ہر طبقے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، جب کہ قلبی مایوسی اورفکری انتشارنے عملی طور پر ہمیں مفلوج کردیاہے۔ عمومی صورت حال یہ ہے کہ ہرشخص حالات کا ذمہ دار دوسرے کوٹھہرانے میں لگا ہوا ہے، ہر فرد اجتماعی وانفرادی مصائب وآلام کادوش دوسرے کو دے رہاہے،ہرکوئی اپنی پاکی داماں کی حکایت بیان کرنے میں لگاہواہے۔ اگرایک طرف حکمرانوں اوراربابِ منصب واقتدارکی بے حسی اورنااہلی اپنا رنگ دکھارہی ہے تو دوسری جانب ہمارے عمومی مزاجوں میںموجود جھوٹ، دھوکا، خیانت اورشخصی واجتماعی حیثیتوں میںمفوضہ فرائض کے سلسلے میں کوتاہی جیسے اخلاقی امراض ،ہماراملی وجود اورقومی تشخص گہنارہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت معاشرے پرسرسری نظردوڑانے سے جو صورت اُبھر کر سامنے آتی ہے ،وہ من حیث القوم ہماری تنزلی اورپستی کی مکمل داستان سنارہی ہے۔ بلاشک وشبہ مادرِوطن پوری دنیا میں اپنے نظریاتی تشخص کے باعث ایک منفرد اور بلند مقام رکھتی ہے۔ اس کی بنیاد جس پاک کلمے پر رکھی گئی تھی،آج بھی وہی اس کی پہچان اورتعارف ہے۔ عالم اسلام ’’پاکستان‘‘ کو ایک قائد اورلیڈرکی حیثیت سے دیکھتاہے۔دنیا بھر کے لاکھوں مظلوم مسلمان پاک سرزمین کو اپنی امیدوں کامرکز ومرجع سمجھتے ہیں۔ اللہ ربُّ العالمین نے وطن عزیز کو جہاں معدنی وقدرتی وسائل سے مالامال کیاہے،وہاں اس کی جھولی میں ایسے تابندہ اوردرخشندہ ستارے بھی موجودہیں،جن کی خدمات وصلاحیتوںکی ایک دنیا قائل ہوچکی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ کفراوراہل کفر کی روزاول سے یہ مذموم کوشش اورنامشکورسعی رہی ہے کہ وہ اس خداداد سرزمین کو تہس نہس کردیں۔ہمارے پیارے ملک سے اس کاوقارومقام چھین لیں۔ ملکی تاریخ کے گزرے چھ عشرے، اپنے اندر ایسی بہت سی کہی اَن کہی داستانوں کوچھپائے ہوئے ہیں۔سقوطِ مشرقی پاکستان ہو یا امریکا کی نام نہاد انسدادِ دہشت گردی میں شراکت داری،مسئلہ کشمیر ہویا بلوچستان،کراچی میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورت حال ہویاشمالی علاقہ جات میں امریکی ڈرون حملے،سانحہ ایبٹ آبادہویا سانحہ سلالہ چیک پوسٹ، غرض کون ساموقع اورمقام ہے جہاں بدی کے ہرکاروں نے ارض پاک کو زَک اورنقصان پہنچانے سے چوک کی ہو؟۔ تصویرکا دوسرارخ یہ ہے کہ چالاک دشمن کی طرف سے کہیں اہل وطن کے فکری ونظریاتی رُخ کو موڑنے کی سازش کی گئی تو کہیں عصبیت ولسانیت کا سحرپھونکا گیا۔ حیرت ہوتی ہے کہ وہ قوم جس نے کلمہ طیبہ کی بنیا داورنعرے پر یہ ملک حاصل کیا،آج باہمی افتراق وتشتت اورآویزش کاشکارہے۔جس دین کے ماننے والوں کو آپس میں بھائی بھائی کہاگیا،امروز اُسی کے نام لیوا ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نظرآرہے ہیں،جگہ جگہ رنگ ونسل اورقوم وقبیلہ کو علامت وپہچان بناکر حقوق کامطالبہ کیا جارہا ہے۔ اسلامی بھائی چارگی ،روحانی اُخوت ومحبت اورایمانی اتحادواتفاق کی فضاناپیدہے۔ اسی طرح مکاراعدائے ملت ودین نے مغرب زدہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے، قوم کے اذہان وافکارکی تطہیر کا کام بھی مسلسل جاری رکھاہوا ہے۔مادرپدرآزاد الیکٹرانک میڈیا اپنی اسکرین پرایسے ایسے حیاسوز اورایمان کُش مناظر پیش کررہاہے،جس کاتصور ایک اسلامی معاشرے میں محال سمجھاجاتاہے۔ہماری نسلِ نو فحش اورجنسی انارکی پر مشتمل فلمیں ،ڈرامے اورشو دیکھ کر جہنم کے جس گڑھے میں گررہی ہے، اس کا تصور ہی روح کوزخمی کردیتاہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مادیت پرستی اورظاہر بینی کے مظاہر کوا س قدر عام کیاگیاکہ اخلاقی اورباطنی قدریں فناہوکررہ گئیں ہیں۔ عامۃ الناس کو اہل اللہ ،علماء اورصلحاء سے کاٹ کر ایسی پتنگ کی مانند بنادیاگیاہے ،جس کو لوٹنے کے لئے ابلیسی چیلے ہرجگہ موجودہیں۔غلط اوربے بنیادپروپیگنڈاکرکے خیرکے مراکز کو دہشت گردی کے اڈے قراردے دیاگیاہے۔ڈاڑھی ،ٹوپی اورپگڑی کو ہدف تنقید بنادیاگیاہے،جس کاافسوس ناک نتیجہ یہ نکل رہاہے کہ شعائرِ دین اوراہلِ دین کی عظمت وعقیدت قلوب سے نکل گئی ہے۔دین سے دوری، شریعت مطہرہ کے احکام سے غفلت اوراسوہ حسنہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام سے بے اعتنائی نے ہمیںاس عقابِ خداوندی میں مبتلاکردیاہے کہ جس کا مشاہدہ اِس دَم ہرآنکھ کررہی ہے۔ اس میں دورائے نہیں ہوسکتیںکہ ان تمام اندھیریوں اورمایوسیوں کی موجود گی میں اگراُمید کی کوئی کرن ہے تو وہ صرف اورصرف اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرماں برداری اوروفاشعاری ہے۔سچے دل سے توبہ اورندامت وشرمندگی کے آنسوبہاکر ربّ تعالیٰ کی مرضی حاصل کی جاسکتی ہے۔قرآن وسنت کے مطالعے سے صاف پتاچلتاہے کہ رحمتِ خداوندی سے ناامیدی ایک صاحب ایمان کے لئے حرام ہے۔ جب تک مسلمان استغفار،رجوع اورانابت الیٰ اللہ کو حرزجان بنائے رکھتے ہیں،خداتعالیٰ کی رحمت اورعنایت ان پر برابر متوجہ ہوتی رہتی ہے،ان کے دشمن کی ہرسازش ناکام ونامراد ہوجاتی ہے اورپھر اللہ ربّ العالمین بذاتِ خود اہل ایمان کی نصرت وامداد فرماتے ہیں۔ لیکن اس کے لئے پہلی اورآخری شرط یہ ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات اورسنت مطہرہ کی پابندی، پاسداری اورالتزام کو اپناشعار بنالیں۔ امرواقعہ یہ ہے کہ شریعت مطہرہ کی پیروی اوراتباع ہی اس مشکل گھڑی سے ہمیں نجات دے سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر شخص اپنے نفس کا خود محاسبہ واحتساب کرے ۔ہرچھوٹا بڑے کو اوربالادست ماتحت کو مطعون کرنے کی بجائے اپنے کرداروعمل کا جائزہ لے۔آخرت کا یقین واستحضار اورحق تعالیٰ کے حضور جواب دہی کا یقین دلوں میں جاگزیں کیاجائے، تویقیناہماری موجودہ درماندگی ،محتاجگی اوربے سروسامانی کا مُداواہوسکتاہے۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین