بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

بینات

 
 

مَحرم کے بغیر عورت کا سفر اور اسلامی نظریاتی کونسل کی اجازت


مَحرم کے بغیر عورت کا سفر

اور اسلامی نظریاتی کونسل کی اجازت


چند ماہ قبل وزارتِ مذہبی امور کی جانب سے عورت کے سفرِ حج سے متعلق رائے طلب کرنے پر اسلامی نظریاتی کونسل نے خواتین کو بغیر مَحرم کے حج کے سفر پر جانے کی مشروط اجازت دی۔ کونسل نے اپنی رائے میں یہ لکھا کہ ایسی عورت جسے قابلِ اعتماد خواتین کی رفاقت حاصل ہو اور جسے سفر اور حج کے دوران کسی فساد یا خطرے کا اندیشہ نہ ہو وہ بغیر مَحرم حج کے لیے جاسکتی ہے۔ (روزنامہ جنگ، مورخہ ۱۵؍جون ۲۰۲۳ء، جمعرات، ص:۱۰، کراچی ایڈیشن)
مزید یہ کہ اب مورخہ ۱۵؍ نومبر کو دوبارہ یہ خبر وزارتِ حج کی جانب سے دی گئی ہے کہ عورت بلامَحرم اپنے شوہر یا مَحرم کی اجازت سے سفر کرسکتی ہے۔ خبر کی تفصیل درج ذیل ہے :
’’اسلام آباد (رانا غلام قادر) اسلامی نظریاتی کونسل نے خواتین کو مَحرم کے بغیر حج پر جانے کے معاملہ کی وضاحت کردی ہے اور مشروط اجازت دے دی۔ وا لدین یا شوہر اجازت دیں، قابلِ اعتماد خواتین کی رفاقت حاصل، فساد یا خطرے کا اندیشہ نہ ہو، اسلامی نظریاتی کونسل نے وزارتِ مذ ہبی امور کے استفسار پر تحریری جواب دے دیا۔ حالیہ ایام میں وزارتِ مذہبی امور کے نام لکھے گئے اسلامی نظریاتی کونسل کے خط میں کہا گیا کہ اگر کسی عورت کو حج پر جانے کے لیے مَحرم میسر نہ ہو تو اگرچہ احناف و حنابلہ کے معروف مسلک کے مطابق ا س پر حج فر ض نہیں، تاہم شوا فع و مالکیہ و جعفریہ کے دلائل اور ظروف زمانہ کے تغیر کے پیش نظر شر یعت میں اس کے جواز کی گنجائش موجود ہے، البتہ اس گنجائش کو اس شرط کے ساتھ مشروط کرنا چاہیے کہ اس عورت کے وا لدین یا شادی شدہ ہو نے کی صورت میں اس کا شوہر اس کی اجازت دیں۔ نیز اسے قابلِ اعتماد خواتین کی رفاقت حاصل ہو اور کسی قسم کے فساد یا خطرے کا اندیشہ نہ ہو۔ وزارتِ مذہبی امور کی حج انتظامیہ کے لیے لازم ہو گا کہ ایسی عورت جس گروپ کے ساتھ حج پر جارہی ہے، اس گروپ کے بارے میں زیادہ چھان بین کرے اور گروپ کے بارے میں پوری طرح اطمینان کرنے کے بعد ہی اسےحج پر جانے کی اجازت دے۔‘‘  (روزنامہ جنگ، ۱۶؍نومبر ۲۰۲۳ء)
کونسل کی جانب سے دی گئی اس رائے اور وزارت کی جانب سے بغیر مَحرم سفر کی اجازت کے بعد حج کے سفر کے لیے کوشاں خواتین کی بڑی تعداد نے اہلِ علم سے بالخصوص اہلِ افتاء سے اس بابت دریافت کیا کہ آیا مَحرم کے بغیر حج کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟! اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ اس مسئلہ سے متعلق ائمہ اربعہ بالخصوص احناف کا موقف پیش کیا جائے ۔ 

عورت کا سفر اور ہدایاتِ نبوی

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول روایات سے ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ عورت کے لیے تین دن تین رات کا سفر کرنا اس وقت جائز ہے جب اس کے ساتھ محارم میں سے کوئی موجود ہو۔ نیز ان روایات میں بوڑھی یا جوان کی تخصیص نہیں۔ نیز ان روایات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بااعتماد قافلہ یا خواتین وغیرہ کے ساتھ سفر کی اجازت کی مرحمت نہیں فرمائی۔ ان میں سے چند روایات درج ذیل ہیں : 
صحیح بخاری میں ہے :
’’عن ابن عمر رضي اللہ عنہما: أن النبي صلی اللہ عليہ وسلم قال: لا تسافر المرأۃ ثلاثۃ أيام إلا مع ذي محرم۔‘‘ (صحیح البخاري، باب في کم یقصر الصلاۃ، حدیث :۱۰۸۶، ج:۲، ص:۴۲، ط:دار طوق النجاۃ)
’’حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: عورت تین دن کا سفر اس وقت تک نہ کرے جب تک اس کے ساتھ کوئی مَحرم موجود نہ ہو۔‘‘
وفیہ أیضاً:
’’عن ابن عباس رضي اللہ عنہما، قال : قال النبي صلی اللہ عليہ وسلم: لاتسافر المرأۃ إلا مع ذي محرم، ولا يدخل عليہا رجل إلا ومعہا محرم، فقال رجل: يا رسول اللہ! إني أريد أن أخرج في جيش کذا وکذا، وامرأتي تريد الحج، فقال: اخرج معہا ۔‘‘ (صحیح البخاري، باب حج النساء، حدیث :۱۸۶۲، ج:۳، ص:۱۹، ط:دار طوق النجاۃ)

’’حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: کوئی عورت اپنے محرم رشتہ دار کے بغیر سفر نہ کرے اور کوئی شخص کسی عورت کے پاس اس وقت تک نہ جائے جب تک وہاں ذی محرم موجود نہ ہو۔ ایک شخص نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میں فلاں لشکر میں جہاد کے لیے نکلنا چاہتا ہوں، لیکن میری بیوی کا ارادہ حج کا ہے، تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: تو اپنی بیوی کے ساتھ (حج کو) جا ۔‘‘
سننِ ترمذی میں ہے :
’’ عن أبي سعيد الخدريؓ، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم: لا يحل لامرأۃ تؤمن باللہ واليوم الآخر أن تسافر سفراً يکون ثلاثۃ أيام فصاعداً إلا ومعہا أبوہا، أو أخوہا، أو زوجہا، أو ابنہا، أو ذو محرم منہا.‘‘ (سنن الترمذي، باب ماجاء في کراھیۃ أن تسافر المرأۃ وحدھا، ج:۳، ص:۴۶۴، ط:مطبعۃ مصطفی البابي الحلبي، مصر)
’’ حضرت ابو سعید خدری  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : جو عورت اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتی ہے اس کے لیے حلال نہیں کہ تین دن یا زیادہ کا سفر کرے، مگر اس حال میں  کہ اس کے ساتھ اس کاوالد، بھائی ، شوہر، اس کابیٹا یا کوئی اور محرم ہو۔‘‘
سنن ابن ماجہ میں ہے:
’’عن أبي سعيدؓ، قال: قال رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم: لا تسافر المرأۃ سفر ثلاثۃ أيام، فصاعداً، إلا مع أبيہا أو أخيہا، أو ابنہا، أو زوجہا، أو ذي محرم۔‘‘ (سنن ابن ماجۃ، باب المرأۃ تحج بغیر ولي، ج:۲، ص:۹۶۸، ط: دار إحیاء الکتب العربیۃ)
’’حضرت ابو سعید خدری  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: عورت تین دن یا اس سے زیادہ کا سفر اپنے والد، یا بھائی یا بیٹے یا شوہر یا کسی محرم کے بغیر نہ کرے۔‘‘
مسند احمد بن حنبل میں ہے :
’’ عن عبد اللہ بن عمرؓ عن النبي -صلی اللہ عليہ وسلم - قال: لاتسافر المرأۃُ ثلاثاً إلا ومعہا ذو مَحْرَمٍ ۔‘‘ (مسند أحمد بن حنبل، مسند عبداللہ بن عمرؓ، ج:۴، ص:۳۶۵، ط: دارالحدیث، القاہرۃ)
’’ حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہما  سے مروی ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: عورت تین دن کا سفر اس وقت تک نہ کرے جب تک اس کے ساتھ کوئی محرم موجود نہ ہو ۔‘‘
ان روایات سے مشترکہ طور پر یہ امر معلوم ہوا کہ عورت کے لیے تین دن یا زیادہ کا سفر مع محرم کے جائز ہے، محرم کے بغیر جائز نہیں، جیساکہ صحیح بخاری، سنن ترمذی، سنن ابن ماجہ اور مسند احمد بن حنبل کی روایت میں تصریح ہے، حتیٰ کہ صحیح بخاری کی درج کردہ دوسری روایت میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو جہاد میں جانے کے بجائے اپنی اہلیہ کے ساتھ حج پر جانے کا حکم دیا، تاکہ وہ بلامحرم سفر نہ کرے، نیز ان روایات میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نےبااعتماد خواتین یا افراد کے بارے میں نہ سوال فرمایا اور نہ حکم ارشاد فرمایاکہ عورت ان کے ساتھ سفر کرلے۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے محارم میں سے بعض کا صراحتاً ذکر بھی فرمادیا کہ ان محارم کے ساتھ سفر کیا جائے، جیساکہ ترمذی اور ابن ماجہ کی روایات میں موجود ہے۔ 
صحیح بخاری کی مندرجہ بالا پہلی روایت کے ذیل میں علامہ بدرالدین عینی رحمۃ اللہ علیہ  نے لکھا ہے کہ:
’’ ذکر ما يستنبط منہ: احتج بہ أبو حنيفۃ وأصحابہ وفقہاء أصحاب الحديث علی أن المحرم شرط في وجوب الحج علی المرأۃ إذا کانت بينہا وبين مکۃ مسيرۃ ثلاثۃ أيام ولياليہا، وبہٖ قال النخعي والحسن البصري والثوري والأعمش ۔‘‘ (ج:۷، ص:۱۲۶، ط: دار إحیاء التراث العربي، بیروت)
علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ  کی اس عبارت کا حاصل یہ ہے کہ مذکورہ بالا روایت سے یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ عورت پر حج کے وجوب کے لیے سفرِ شرعی کی صورت میں محرم کا ہونا شرط ہے ۔ اور یہی حضرت حسن بصری، امام نخعی اور امام اعمش رحمہم اللہ کا موقف ہے۔ نیز علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ  نے استدلال میں صحیح بخاری کی مذکورہ بالا دوسری روایت بھی ذکر کی، جس میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو جہاد کے بجائے اپنی اہلیہ کے ساتھ سفرِ حج کاحکم فرمایا، اس روایت کو ذکرکرکے علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں:
 ’’فدل ذٰلک علی أنہا لا ينبغي لہا أن تحج إلا بہٖ، ولولا ذٰلک لقال رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم: وما حاجتہا إليک لأنہا تخرج مع المسلمين، وأنت فامض لوجہک فيما اکتتبت، ففي ترک النبي صلی اللہ عليہ وسلم أن يأمرہٗ بذٰلک وأمرہٗ أن يحج معہا دليل علی أنہا لا يصلح لہا الحج إلا بہٖ۔‘‘  (حوالۂ بالا)
یعنی اس روایت سے بھی معلوم ہوا کہ عورت کے لیے شوہر یا محرم کے بغیر حج پر جانا درست نہیں، ورنہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  شوہر کو جہاد پر اور عورت کو مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ حج کی اجازت مرحمت فرماتے۔

احناف کا موقف

ان احادیث کی روشنی میں احناف کا موقف یہی ہے کہ عورت کو شوہر یامحرم کے بغیر سفرِ شرعی کی ہر گز اجازت نہیں، چاہے عورت جوان ہو یا بوڑھی ہو، عورتوں کےقافلے کے ساتھ ہو یا تنہا سفر کرے، شوہر کی اجازت یا عدمِ اجازت کا بھی کوئی اعتبار نہیں۔ نیز وہ سفر چاہے تعلیم کے لیے ہو، تجارت کے لیے، یا کسی بھی دنیاوی مقصد کے لیے، حتیٰ کہ اگر سفرِ حج ہو تب بھی محرم کے بغیر سفر کی اجازت نہیں ہے۔ اور اگر مَحرم میسر نہ ہو، یا اس کا خرچہ اُٹھانے کی طاقت نہ ہو تو عورت انتظار کرے گی اور موت تک مَحرم میسر نہ ہوا تو حجِ بدل کی وصیت کرے گی۔ اور اگر عورت یہ سفرشوہر یا مَحرم کے بغیر کرتی ہے، تو اس صورت میں اگرچہ فریضۂ حج بظاہر ذمہ سے ساقط ہوجائے گا۔ یہ حج، حجِ مبرور نہیں کہلائے گا، بلکہ مکروہِ تحریمی ہوگا۔ 
یہ صاف، دوٹوک اور واضح موقف ہے، جس میں کسی قسم کا کوئی استثناءنہیں ہے۔ یہی حضرات احناف متقدمین و متاخرین کا موقف ہے، چنانچہ امام سرخسی ؒ نے ’’المبسوط ‘‘میں اس کی صراحت کی ہے کہ ہر وہ سفر جو عورت کا اختیاری سفر ہو، اضطراری نہ ہو، اس میں شوہر یا محرم کا ہونا لازم ہے۔ نیز امام سرخسیؒ نے اس کی بھی صراحت کی ہے کہ جو مقصود محرم سے ہے وہ ہر گز عورتوں کے قافلے سے حاصل نہیں ہوسکتا، بلکہ عورتیں جتنی زیادہ ہوں گی اتنا ہی فتنے کا اندیشہ بھی زیادہ ہوگا۔ اور فتنے کا انسداد صرف اس صورت میں ممکن ہے، جب فتنے سے حفاظت کرنے والا شوہر یا محرم موجود ہو۔ امام سرخسیؒ کی عبارت ملاحظہ ہو :
’’ وحجتنا في ذٰلک حديث ابن عباس - رضي اللہ عنہما - أن النبي - صلی اللہ عليہ وسلم - قال: لا يحل لامرأۃ تؤمن باللہ واليوم الآخر أن تسافر فوق ثلاثۃ أيام ولياليہا إلا ومعہا زوجہا أو ذو رحم محرم منہا، فقام رجل فقال :إني أريد الخروج في غزوۃ کذا، وإن امرأتي تريد الحج فماذا أصنع؟ فقال - صلی اللہ عليہ وسلم - اخرج معہا، لا تفارقہا، ففي ہٰذا دليل علی أنہم فہموا من السفر الذي ذکرہ سفر الحج حتی قال السائل ما قال، وفي أمر رسول اللہ - صلی اللہ عليہ وسلم - الزوج بأن يترک الغزو، ويخرج معہا دليل علی أنہٗ ليس لہا أن تخرج إلا مع زوج أو محرم۔
والمعنی في ذلک أنہا تنشئ سفراً عن اختيار فلا يحل لہا ذلک إلا مع زوج أو محرم کسائر الأسفار بخلاف المہاجرۃ، فإنہا لا تنشئ سفراً، ولکنہا تقصد النجاۃ ۔۔۔ وہٰذا لأن المرأۃ عرضۃ للفتنۃ، وباجتماع النساء تزداد الفتنۃ، ولا ترفع إنما ترفع بحافظ يحفظہا، ولا يطمع فيہا، وذٰلک المحرم، وتفسيرہٗ من لا يحل لہ نکاحہا علی التأبيد بسبب قرابۃ أو رضاع أو مصاہرۃ، ألا تری أنہ يجوز لہ أن يخلو بہا لأنہ لا يطمع فيہا إذا علم أنہا محرمۃ عليہ أبداً فکذٰلک يسافر بہا۔ ‘‘ (المبسوط، کتاب الحج، باب المحصر،ج:۴،ص:۱۱۱،ط:دار المعرفۃ، بیروت، لبنان)

علامہ ابن نجیمؒ لکھتے ہیں:
’’‎(قولہٗ: ومحرم أو زوج لامرأۃ في سفر) أي وبشرط محرم إلی آخرہٖ لما في الصحيحين لا تسافر امرأۃ ثلاثاً إلا ومعہا محرم، وزاد مسلم في روايۃ أو زوج . وروی البزار: ’’لا تحج امرأۃ إلا ومعہا محرم، فقال رجل: يا رسول اللہ! إني کتبت في غزوۃ وامرأتي حاجۃ قال: ارجع فحج معہا۔‘‘ فأفاد ہٰذا کلہٗ أن النسوۃ الثقات لا تکفي ۔۔۔ ولأنہٗ يخاف عليہا الفتنۃ وتزاد بانضمام غيرہا إليہا ولہٰذا تحرم الخلوۃ بالأجنبيۃ وإن کان معہا غيرہا من النساء والمحرم من لا يجوز لہٗ مناکحتہا علی التأبيد بقرابۃ، أو رضاع، أو مصاہرۃ ... وأطلق المرأۃ فشمل الشابۃ والعجوز لإطلاق النصوص والمرأۃ ہي البالغۃ؛ لأن الکلام فيمن يجب عليہ الحج، فلذا قالوا في الصبيۃ التي لم تبلغ حد الشہوۃ تسافر بلا محرم، فإن بلغتہا لا تسافر إلا بہٖ، والمراد خطاب وليہا بأن يمنعہا من السفر، فإن لم يکن لہا ولي فلا تستصحب في السفر، لا أن المراد أنہا يحرم عليہا؛ لأنہا غير مکلفۃ حتی تبلغ وبلوغہا حد الشہوۃ لايستلزمہ، وقيد بالسفر وہو ثلاثۃ أيام بلياليہا۔‘‘ (البحرالرائق شرح کنز الدقائق، واجبات الحج، ج:۲، ص:۳۳۹، ط: دار الکتاب الإسلامي)
’’المحیط البرہاني‘‘ میں ہے :
’’ والمحرم في حق المرأۃ شرط، شابۃ کانت أو عجوزاً إذا کان بينہا وبين مکۃ مسيرۃ ثلاثۃ أيام ۔‘‘ (المحیط البرہاني، کتاب الحج، الفصل الأول في بیان شرائط الوجوب، ج:۲، ص:۴۱۹، ط:دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
احناف کے موقف کا حاصل یہ ہے کہ ہر سفرِ شرعی کے لیے شوہر یا محارم میں سے کسی کا ہونا شرط ہے، بالغہ عورت عمر کے کسی بھی مرحلہ میں ہو اسے اس حکم سے استثنا نہیں، نیز خواتین کا قافلہ یا بااعتماد جماعت محرم کے قائم مقام نہیں ہوسکتی، حتیٰ کہ حضرات فقہائے کرام ؒ نے محرم کے لیے یہ شرط بھی لگائی ہے کہ وہ فاسق فاجر نہ ہو، اس لیے کہ فاسق فاجر پر اطمینان نہیں ہوتا، لہٰذا محرم ہو، مگر وہ فاسق و فاجر ہو تو اس کے ساتھ بھی سفر کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
اور مَحرم سے مراد وہ شخص ہے جس سے نکاح کرنا ابدی طور پر حرام ہو۔ اب یہ حرمت چاہے نسب کی وجہ سے ہو، جیسے باپ، دادا، بیٹا، بھائی، چچا، ماموں وغیرہ، یا ازدواجی رشتے کی بنیاد پر ہو، جیسے داماد، سسر یا رضاعت کی وجہ سے ہو۔ اور جس شخص سے نکاح ممنوع ہو، مگر کسی خاص عارض کی وجہ سے وقتی طور پر نکاح کی اجازت نہ ہو، وہ محرم نہیں کہلائے گا، جیسے دیور، اس لیے کہ یہ محرماتِ ابدیہ میں شامل نہیں ہے ۔

حنابلہ کا موقف 

امام احمدبن حنبل ؒ کا موقف بھی یہی ہے کہ عورت کے لیے بلامَحرم سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے، چنانچہ امام احمد بن حنبلؒ سے جب سوال کیا گیا کہ محرم کے بغیر عورت حج پر جاسکتی ہے یا نہیں؟ تو انہوں نے منع فرمادیا۔ نیز فقہ حنبلی میں بھی صراحت ہے کہ عورت جوان ہو یا بوڑھی بلامَحرم اسے سفر کی اجازت نہیں ہے ۔ جیساکہ ’’الإقناع‘‘ میں اس کی صراحت ہے ۔ 
فقہ حنبلی کی کتب کے حوالہ جات ملاحظہ ہوں :
’’المغني لابن قدامۃ‘‘ میں ہے:
’’ مسألۃ-قال: (وحکم المرأۃ إذا کان لہا محرم کحکم الرجل) ظاہر ہٰذا أن الحج لا يجب علی المرأۃ التي لا محرم لہا؛ لأنہ جعلہا بالمحرم کالرجل في وجوب الحج، فمن لا محرم لہا لا تکون کالرجل، فلا يجب عليہا الحج. وقد نص عليہ أحمد، فقال أبو داود: قلت لأحمد: امرأۃ موسرۃ، لم يکن لہا محرم، ہل يجب عليہا الحج؟ قال: لا. وقال أيضا: المحرم من السبيل. وہٰذا قول الحسن، والنخعي، وإسحاق، وابن المنذر، وأصحاب الرأي ۔۔۔ والمذہب الأول، وعليہ العمل۔۔۔‘‘(المغني، ج:۵، ص:۳۰، ط:دار عالم الکتب للطباعۃ والنشر، الریاض)
’’المحرر في الفقہ علٰی مذہب الإمام أحمد بن حنبل‘‘ میں ہے:
’’وتزيد المرأۃ باعتبار محرم مکلف مسلم باذل للخروج ونفقتہ عليہا والمحرم زوجہا ومن تحرم عليہ أبدا لا من تحريمہا بوطء شبہۃ أو زنا۔‘‘ (کتاب المناسک، ج:۱، ص:۲۳۳، ط:مکتبۃ المعارف، ریاض)
’’الإنصاف في معرفۃ الراجح من الخلاف‘‘ میں ہے :
’’ويشترط لوجوب الحج علی المرأۃ وجود محرمہا.‘‘ ہٰذا المذہب مطلقا يعني أن المحرم من شرائط الوجوب کالاستطاعۃ وغيرہا وعليہ أکثر الأصحاب ونقلہ الجماعۃ عن الإمام أحمد وہو ظاہر کلام الخرقي وقدمہٗ في المحرر والفروع والفائق والحاويين والرعايتين وصححہٗ في النظم وجزم بہٖ في المبہج والإيضاح والعمدۃ۔‘‘ (ج:۳، ص:۲۹۱، ط:دار احیاء التراث العربی، بیروت)
امام احمد بن حنبل ؒ کے نزدیک سفرِ حج نیز دیگر تمام اسفار بھی جب سفرِ شرعی کی مسافت کے ہوں، شوہر یا محرم کے بغیر جائز نہیں، جیساکہ ان کی کتب سے یہ بات واضح ہے۔ اور احناف کی مانند ان کا استدلال بھی ان نصوص سے ہے جن میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو بلامحرم سفر سے منع فرمایا ہے ۔ 

شوافع کا موقف

امام شافعیؒ کا موقف یہ ہے کہ اگر کسی عورت کو قابلِ اعتماد دیگر خواتین کی رفاقت حاصل ہو، تو یہ خاتون ان خواتین کے ساتھ سفر کرسکتی ہے ۔ یہی موقف امام شافعیؒ سے ان کی کتاب ’’الأم‘‘ میں منقول ہے۔ نیزحضرات شوافع کی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک بااعتماد عورت ہو تب بھی حج پر جانے کی اجازت ہے، البتہ شوہر سے اجازت حاصل کی جائے، اگرچہ اجازت کے سلسلہ میں فقہ شافعی میں کچھ تفصیلات بھی ہیں۔ تاہم ایک عورت کے ساتھ جانے کی بھی اجازت دی گئی ہے۔ نیز اگر کوئی عورت نہ ہو اور محرم بھی نہ ہو، پھر عورت کو سفر کی اجازت نہیں ہے ۔ یہی شوافع کا راجح موقف ہے، اور یہ اجازت بھی صرف حجِ واجب تک محدود ہے ۔ حجِ تطوُّع (نفلی حج) میں اس کی اجازت نہیں۔ نیز شوافع کے ہاں دیگر اسفار مثلاً سفرِ تجارت وغیرہ میں محرم کا ہونا لازم ہے، بغیر محرم کے سفر کرنا ہی جائز نہیں ہے، یعنی دیگر اسفار میں ان کا موقف احناف اور حنابلہ والا ہے ۔ چنانچہ ’’الأم للشافعي‘‘ میں ہے :
’’ ‎(قال الشافعي - رحمہ اللہ تعالی -) : وإذا کان فيما يروی عن النبي - صلی اللہ عليہ وسلم - ما يدل علی أن السبيل الزاد و الراحلۃ وکانت المرأۃ تجدہما و کانت مع ثقۃ من النساء في طريق مأہولۃ آمنۃ فہي ممن عليہ الحج عندي واللہ أعلم۔ ‘‘            (الأم، باب حج المرأۃ، ج:۲، ص:۱۲۷، ط: دارالمعرفۃ، بیروت)
’’الحاوي الکبیر‘‘ میں ہے :
’’ فأما إذا أرادت المرأۃ أن تبتدئ بالحج، فإن کان فرضاً جاز أن تخرج من ذي محرم، أو مع نساء ثقات ولو کانت امرأۃ واحدۃ، إذا کان الطريق آمناً، ولا يجوز أن تخرج بلا محرم ... فأما إن کان الحج تطوعاً، لم يجز أن تخرج إلا مع ذي محرم، وکذٰلک في السفر المباح، کسفر الزيارۃ والتجارۃ، لا يجوز أن تخرج في شيء منہا إلا مع ذي محرم، ومن أصحابنا من قال: يجوز أن تخرج مع نساء ثقات، کسفر الحج الواجب، وہو خلاف نص الشافعي۔ ‘‘ (الحاوي الکبیر في فقہ مذہب الإمام الشافعي، ج:۴، ص:۳۶۴، ط:دارالکتب العلمیۃ، بیروت) 
امام شافعیؒ کے مذہب کا حاصل یہ ہے کہ حجِ فرض میں اگر مَحرم میسر نہ ہو تو شوہر کی اجازت سے قابلِ اعتماد عورتوں کے ساتھ سفر کرنے کی اجازت ہے، اور ایک عورت ہو، تب بھی کافی ہے۔ اور اگر یہ دونوں صورتیں نہ ہوں تو تنہا یا مردوں کے ساتھ سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ نیز فرض حج کے علاوہ دیگر اسفار جن میں نفلی حج بھی شامل ہے، ان تمام اسفار میں محرم یا شوہر کا ہونا لازم ہے۔ 

مالکیہ کا موقف

امام مالک ؒ کا موقف بھی یہی ہے کہ عورت کے لیے باوثوق عورتوں کے ساتھ سفرِ حج کی اجازت ہے، چنانچہ ’’المدونۃ‘‘ میں ہے کہ امام مالکؒ سے حج کے سلسلہ میں سوال کیا گیا کہ جس عورت کے ساتھ ولی نہ ہو وہ حج کیسے کرے؟ امام مالکؒ نے فرمایا کہ باوثوق عورتوں کے ساتھ سفر کرسکتی ہے۔ یہاں بھی یہ بات واضح رہے کہ فقہ مالکی میں بھی بااعتماد عورتوں کےساتھ سفر کی اجازت صرف حج تک ہی محدود ہے، جیساکہ ان کی کتب میں صراحت موجو دہے، دیگر اسفار کے لیے محارم میں سے کسی کا ہونا ان کے ہاں بھی لازم ہے ۔ 
’’المدونۃ‘‘ میں ہے:
’’ قلت: فما قول مالک في المرأۃ تريد الحج وليس لہا ولي؟ قال: تخرج مع من تثق بہٖ من الرجال والنساء۔‘‘ (المدونۃ، کتاب الحج، ج:۱، ص:۴۵۷، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
’’الکافي في فقہ أہل المدینۃ‘‘ میں ہے:
’’ ولا يخلو الرجل بامرأۃ ليست منہ بمحرم ولا تسافر المرأۃ إلا مع زوج أو مع ذي محرم منہا إلا سفرہا إلی الحج خاصۃ، فإنہا إذا لم يکن لہا ذو محرم من الرجال خرجت مع جماعۃ النساء۔ ‘‘ (الکافي في فقہ أہل المدینۃ، ج: ۲، ص:۱۱۳۴، ط: مکتبۃ الریاض الحدیثۃ، الریاض)
مذاہبِ اربعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ :
احناف اور حنابلہ کے نزدیک عورت کے لیے سفرِ حج (فرض ہو نفل )سمیت تمام اسفارمیں محرم یا شوہر کا ہونا لازم ہے۔ مَحرم کے بغیر عورت کا سفر کرنا جائز نہیں۔ نیز حج کی صورت میں حج کی فرضیت بھی مَحرم سے مشروط ہے۔ 
امام شافعیؒ اور امام مالک ؒ کا موقف صرف فرض حج میں یہ ہے کہ اگر شوہر یا محرم میسر نہ ہوتو عورت قابلِ اعتبار خواتین کے ساتھ شوہر کی اجازت سے سفر کرسکتی ہے۔ اور اگر قابلِ اعتماد خواتین میسر نہ ہوں تو سفر جائز نہیں۔ نیز دونوں حضرات کے نزدیک فرض حج کے علاوہ دیگر تمام اسفار میں محرم کی شرط موجو دہے، دیگر اسفار شوہر یا محرم کی معیت کے بغیر جائز نہیں ہیں۔ 
دلائل کی روشنی میں حضرات احناف اور حنابلہ کا موقف ہی راجح ہے، اور نصوص کے زیادہ قریب ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت نے عورت کو سفر میں محرم کی شرط کا پابند اس لیے بنایا ہے، تاکہ اس کی عزت و عصمت کی حفاظت رہے، عورت کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بوقتِ ضرورت کسی پریشانی وغیرہ میں اس کا خیال رکھا جاسکے، بیماری یا ایسی پریشانی کی صورت کہ عورت کو اٹھانے، ہاتھ لگانے کی ضرورت ہو، تو اجنبی کے مَس (چھونے) سے عورت محفوظ رہے۔ سفر پرامن بھی ہو اور اطمینان بخش بھی ہو، ظاہر ہے کہ محرم کے بغیر قدم قدم پر فتنے کا اندیشہ موجود رہتا ہے۔ محرم کی موجودگی کی بنا پر عورت تہمت، بدگمانی اور بدنامی سے محفوظ رہے ۔ محرم کے بغیر بسااوقات سفر میں اجنبیوں کے ساتھ بات چیت کی نوبت آجاتی ہے جو کہ شریعت میں فتنہ کا باعث ہونے کی بنا پر حرام ہے، لہٰذا ان تمام امور کے لیے شوہر یا محرم کا ہونا ان پریشانیوں سے نجات دلاتا ہے، اور ان ساری وجوہات کےساتھ ساتھ یہ بھی ملحوظ رہے کہ اصل شریعت کا حکم وہ نص ہے جو اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے منقول ہے، جس میں آپ نے عورت کو بلامحرم سفر کرنے سے منع فرمایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے فرمان میں کسی خاص مقصد یا کسی خاص عمر کی تعیین نہیں، بلکہ علی الاطلاق ہر عاقلہ بالغہ عورت اس فرمان کی مخاطب ہے ۔
نیز عصرِ حاضر میں اگرچہ وسائل واسباب نے سفر کی طوالت کو ختم کردیا اور چند گھنٹوں میں دنوں/مہینوں کا سفر طے ہوجاتا ہے، مگر اس زمانے میں فتنے پہلے سے زیادہ رونما ہوچکے ہیں، اس لیے فی زمانہ پہلے سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے دور مبارک میں، جو کہ وحی کا دور تھا، جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات اقدس خود موجود تھی، صحابہ کرام ؓ جیسی مقدس، مطہر جماعت موجود تھی، ان حالات میں شوہر کو پابند کیا گیاکہ وہ جہاد فی سبیل اللہ کی بجائے اپنی بیوی کے ساتھ سفرِ حج کرے تو آج کے پُرفتن دور میں کیسے شوہر یا مَحرم کی شرط سے عورت کو آزاد کیا جاسکتا ہے؟! غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ محرم کی شرط سے استثنا کی صورت میں بہت سارے فتنوں کا اندیشہ ہے، بلکہ یقیناً فتنوں سے عورتوں کو دوچار ہونا پڑتا ہے، جیساکہ آئے روز اخبارات میں درج واقعات سے ایک منصف مزاج مسلمان اندازہ کرسکتا ہے۔ محرم کی شرط کو ہٹانا عورت کی حفاظتی دیوار کو منہدم کرنے کے مترادف ہے ۔
حالانکہ اسلامی نظریاتی کونسل اس سے قبل اس مسئلہ میں یہ اتفاق کرچکی تھی کہ بغیرمحرم کے عورت کو حج کی شرعاً اجازت نہیں ، حتیٰ کہ کوئی عورت اپنے بہنوئی کے ساتھ بھی سفرِ حج نہیں کرسکتی، چنانچہ کونسل کی جانب سے شائع شدہ رپورٹ (۱۹۸۷-۱۹۸۸ء) میں ہے:
’’کسی عورت کا اپنے بہنوئی کے ساتھ حج کے لیے جانا:
موضوع بالا سے متعلق وزارتِ مذہبی امور کا استفسار کونسل کو ان کے خط نمبر ایف۵-۴/اے ڈی جے مورخہ ۲۰؍اپریل ۱۹۸۷ء کے ذریعہ موصول ہوا۔
وزارت کے اس استفسار میں کونسل سے یہ دریافت کیا گیا تھا کہ از روئے شریعت کوئی عورت اپنے بہنوئی کے ساتھ حج کے لیے جاسکتی ہے؟ اور کیا رشتے کے لحاظ سے بہنوئی محرم ہوتا ہے؟ کونسل نے موضوع بالا پر اپنے اجلاس منعقدہ اسلام آباد بتاریخ ۲۴؍ اگست ۱۹۸۷ء (مطابق ۲۰؍ذی الحجہ ۱۴۰۷ھ) زیرصدارت پروفیسر ڈاکٹر عبدالواحد ہالے پوتا چئیرمین غور کیا۔ اور حسب ذیل رائے دی: ’’بغیر محرم کے عورت پر حج فرض نہیں، نہ محرم کے بغیر سفر کرنا اس کے لیے شرعاً جائز ہے اور بہنوئی محرم نہیںہے۔‘‘ (سالانہ رپورٹ، ۰۸-۱۴۰۷ھ/ ۸۸-۱۹۸۷ء، اسلامی نظریاتی کونسل ، حکومت پاکستان، اسلام آباد، ص:۱۵-۱۶)
اور اب اسی سابقہ فیصلہ کے برعکس کونسل نے اس شرعی ممانعت کو ظروفِ زمانہ اور زمینی حقائق کے پیش نظر بدل کر یہ فیصلہ صادر کیا کہ قابلِ اعتماد خواتین کے ساتھ سفر کرسکتی ہے ، اور وزارتِ مذہبی امور نے اس بنا پر خواتین کو بغیرمحرم کے سفر کی اجازت دے دی۔
لہٰذا نگران وزارتِ مذہبی امور کا یہ کہناکہ دیگر مذاہب کے دلائل اور ظروفِ زمانہ کے تغیر کے پیش نظر بغیر محرم سفرِ حج کی اجازت ہے، اس پر غور کرنا چاہیے اور ملک کے مستند اور معتمد اہلِ علم واہلِ افتاء حضرات کی ایک جماعت تشکیل دینی چاہیے جو ان تمام امور پر شرعی دلائل کی روشنی میں اپنی تحقیق پیش کرے جس کی روشنی میں وزارتِ مذہبی امور اپنے اس موقف پرنظر ثانی کرے۔ نیزوزارتِ حج نے انتظامیہ کو پابند کیا ہے کہ جو عورت محرم کے بغیر کسی گروپ کے ساتھ جارہی ہو، اس گروپ کے بارے میں زیادہ چھان بین کی جائے، اور گروپ کے بارے میں مکمل اعتماد حاصل کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ انتظامیہ یہ چھان بین کس انداز سے اور کیسے کرے گی؟ گروپ کے ایک ایک فرد کے بارے میں احوال کا علم کیسے ہوگا؟ گروپ کے بارے میں انتظامیہ کیسے اعتماد حاصل کرسکتی ہے؟اس لیے محرم کی شرط کو برقرار رکھنا لازم ہے، اور محرم یا شوہر کی شرط سے ان تمام اندیشوں سے جان چھوٹ جاتی ہے۔ اسی میں تمام شرور و فتن کا سدِباب ہےاور عورت کی عزت وعصمت کی حفاظت بھی اسی میں مضمر ہے ۔ 
جس ملک میں فقہ حنفی کی اتباع کرنے والوں کی کثرت ہو، اور پُرفتن ماحول بھی ہو جس سے ہرمسلمان آگاہ ہے، اس ملک میں شوہر یا محرم کی شرط کو ختم کرنا مزید فتنوں کا ذریعہ ہوگا، نیز بلاکسی شرعی مجبوری کے فقہ حنفی سے عدول کی بھی گنجائش نہیں ہے۔ فقہائے کرام نے فقہ حنفی سے خروج اور کسی اور مذہب پر عمل کے لیے بہت ساری شرائط ذکر کی ہیں، جن کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں، کیا احناف کے مذہب پر عمل کرنا دشوار ہوچکا ہے ؟یا اس پر عمل کی صورت میں شدیددشواری کا سامنا ہے ؟یا عموم بلویٰ کی کیفیت ہے؟کیا ضرورت اس درجہ کی ہے کہ مذہبِ حنفی کے بجائے دیگر مذاہب پر عمل کا کہاجائے؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے، اس لیے سفر کے اس مسئلہ میں محرم کی شرط کو ختم کرنا، فقہ حنفی سے عدول کرکے مالکیہ و شوافع کے موقف پر بلامحرم سفر کی اجازت دینا ان شرائط کی روشنی میں درست نہیں ہے ۔ 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین