بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

’’لولا محمد لما خلقتُ آدم‘‘ کی تحقیق و تنقیح

’’لولا محمد لما خلقتُ آدم‘‘ کی تحقیق و تنقیح

 

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
۱:- کیا ایسا کہنا جائز ہے کہ: ’’اگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو حضرت آدم علیہ السلام یا دوسرا کوئی نبی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘؟! ۔۔۔۔ ’’لابقولہٖ لولا نبینا لم یخلق آدم علیہ السلام وہو خطأ۔‘‘ (البحر الرائق، کتاب السیر، باب احکام المرتدین، ج:۵،ص:۲۰۴)
۲:-اس بات کی دلیل شرعی کیا ہے؟ نیز کیا ایسا کہنا جائز ہے؟ ’’باقی انبیاء علیہم السلام کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ اور طفیل سے نبوت وکمالات ملے۔‘‘
’’(لابقولہ لو لا نبینا لم یخلق آدم) قال في التتارخانیۃ وفي جواہر الفتاوٰی: ہل یجوز أن یقال: لولا نبینا محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم لما خلق اللّٰہ تعالٰی آدم؟ قال: ہٰذا شيء یذکرہ الوعاظ علٰی رؤوس المنابر یریدون بہ تعظیم محمد علیہ الصلاۃ والسلام ، والأولٰی أن یحترزوا عن أمثال ہٰذا، فإن النبي علیہ الصلاۃ والسلام وإن کان عظیم المنزلۃ والمرتبۃ عند اللّٰہ تعالٰی کان لکل نبي من الأنبیاء علیہم السلام منزلۃ ومرتبۃ خاصیۃ لیست لغیرہٖ، فیکون کل نبي أصلاً بنفسہٖ۔‘‘ (منحۃ الخالق علی البحر الرائق)
۳:-’’لولا محمد ما خلقتُ آدم‘‘ کے مضمون میں جو روایات وارد ہیں، کیا وہ ثابت ہیں؟ اور اگر بالفرض ثابت ہوں، اُن سے علمِ ظنی حاصل ہوگا یا علمِ قطعی؟ اور کیا ’’اولیت فی الخلق‘‘ کے عقیدے کے لیے ان روایات سے قطعی دلیل حاصل ہوتی ہے؟ (نوادر الحدیث، از شیخ الحدیث مولانا یونس جونپوریؒ، ص:۴۵۱-۴۵۹)                

مستفتی: علی (صوابی)

الجواب حامدًا ومصلیًا

صورتِ مسئولہ میں سائل نے جن کلمات کے متعلق سوال کیا ہے، ان کلمات کا مضمون روایات سے ثابت ہے، اس بارے میں اکابرین کے ارشادات ملاحظہ ہوں:
محدث العصر حضرت علامہ محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ حدیث ’’لولاک‘‘ سے متعلق لکھتے ہیں:
’’ابھی یاد آیا کہ ماہِ رمضان کے کسی پرچہ میں سائل نے حدیث ’’لولاک لما خلقت الأفلاک‘‘ پر ’’اتفاقی موضوع‘‘ ہونے کا حکم لگایا تھا۔ اسنادی حیثیت سے قطع نظر کر کے آپ نے جو توجیہ فرمائی تھی، وہ پسند آئی تھی۔ اُس وقت خیال آیا کہ حدیث مذکور سے متعلق کچھ عرض کردیا جائے، لیکن یاد نہیں رہا، آج یاد آنے پر اجمالاً اتنا عرض کیے دیتا ہوں کہ بالکل یکطرفہ فیصلہ نہ ہو، اور کسی قدر اسنادی اعتبار سے بھی حقیقت سامنے رہے۔
۱:- ’’لولاک لما خلقت الأفلاک‘‘ کے لفظ سے تو حدیث نہیں ہے، البتہ اس کے ہم معنی الفاظ سے کتبِ حدیث میں موجود ہے:
الف: ۔۔۔۔۔ مستدرک حاکم، جلد:۲، ص:۶۱۵ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے: 
’’قال: أوحی اللّٰہ إلٰی عیسٰی: یا عیسی! آمن بمحمد وأمر من أدرکتہ من أمتک أن یؤمنوا بہ، فلولامحمد ما خلقت آدم ولولا محمد ما خلقت الجنۃ ولا النار۔‘‘
حاکم ابو عبد اللہ روایت کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’ہذا حدیث صحیح الإسناد ولم یخرجاہ۔‘‘ حافظ ذہبیؒ اگرچہ فرماتے ہیں: ’’أظنہٗ موضوعاً علٰی سعید۔‘‘ لیکن کوئی وجہ اپنے گمان کی تائید میں بیان نہیں فرماسکے۔
حافظ تقی الدین سبکیؒ اپنی کتاب ’’شفاء السقام‘‘ میں اور شیخ سراج الدین بلقینیؒ اپنے فتاویٰ میں حافظ ابو عبداللہ حاکمؒ کی تائید میں اس کی تصحیح فرماتے ہیں: ’’ومثلہٗ لایقال رأیًا فحکمہ الرفع۔‘‘ 
ب:۔۔۔۔۔ نیز مستدرک حاکم، ج:۲، ص:۶۱۵میں اور مجمع الزوائد ج:۸، ص: ۲۵۳ میں بحوالہ طبرانی حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا ایک طویل اثر ہے، جس میں حضرت آدم علیہ السلام کو یوں خطاب ہواہے: ’’ولولا محمد ما خلقتک‘‘ حاکم نے اس کی بھی تصحیح فرمائی ہے۔ اس میں عبد الرحمن بن زید بن اسلم راوی ضعیف ہے، موضوع ہونے کا حکم پھر بھی مشکل ہے۔ عبد الرحمن بن زید ترمذی ، ابن ماجہ کے رجال میں سے ہے۔
ج:۔۔۔۔۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک اثر ’’زرقانی شرح مواہب‘‘ میں ہے:
’’إن اللّٰہ قال لنبیہٖ من أجلک أسطح البطحاء وأموج الموج وأرفع السماء وأجعل الثواب والعقاب۔‘‘ (ماہنامہ بینات، ص:۱۱-۱۲، تاریخ اشاعت: جمادی الاولیٰ ۱۴۳۸ھ)
’’فتاویٰ محمودیہ ‘‘میں ہے:
’’سوال:۔۔۔۔۔۔’’لولاک لما خلقت الأفلاک‘‘ اور ’’لولاک لما خلقت الدنیا‘‘ ان دونوں میں سے کس کے الفاظ صحیح ہے، حدیث پاک کی کس کتاب میں مذکور ہے؟
الجواب حامدًا ومصلیًا: ۔۔۔۔۔۔’’لولاک لما خلقت الأفلاک‘‘ کو حضرت تھانویؒ نے امداد الفتاویٰ میں (۳/۹۰) اور مولانا شاہ عبدالعزیزؒ نے فتاویٰ عزیزی (۴/۱۲۹) میں موضوع لکھا ہے۔ علامہ شوکانیؒ نے ’’الفوائد المجموعۃ في الأحادیث الموضوعۃ‘‘ ص:۱۰۸ میں موضوع بتایا ہے، لیکن ملا علی قاریؒ نے موضوعاتِ کبریٰ (ص:۷۰) میں تحریر فرمایا ہے:
’’لولاک لما خلقت الأفلاک، قال الصنعاني: ’’موضوع‘‘ کذا في الخلاصۃ، لٰکن معناہ صحیح، قد روی الدیلمي عن ابن عباسؓ مرفوعًا: أتاني جبرئیلؑ، فقال: یا محمد! لولاک لما خلقت الجنۃ، لولاک لما خلقت النار، وفي روایۃ ابن عساکر: لولاک لما خلقت الدنیا۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ اس کے الفاظ موضوع ہیں، مگر معنی صحیح ہے، اس عبارت سے حدیث ’’لولاک لما خلقت الدنیا۔‘‘ کا حال بھی معلوم ہوگیا کہ ابن عساکر نے اس کو روایت کیا ہے۔‘‘ (فتاویٰ محمودیہ ،ج:۴، ص:۸۴-۸۵)
’’امداد الفتاویٰ‘‘ میں ہے:
’’سوال:۔۔۔۔۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باعثِ ایجادِ عالم ہیں یا نہیں؟اور حدیث ’’لولاک لما خلقت الأفلاک‘‘ پایۂ ثبوت تک پہنچتی ہے کہ نہیں؟ اور یہ حدیث کس کتاب میں ہے؟
الجواب:۔۔۔۔۔ آپ کی اولیتِ خلق تو بعض روایات سے معلوم ہوتی ہے، جیساکہ بعض رسائل میں بحوالہ ’’مواہبِ لَدُنّیہ بتخریج عبد الرزاق‘‘ بروایت حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول دیکھا گیا ہے کہ سب سے اول حق تعالیٰ نے تیرے نبی کا نور پیداکیاہے، لیکن حدیثِ مذکور فی السوال کہیں نظر سے نہیں گزری، بظاہر موضوع معلوم ہوتی ہے۔‘‘ واللہ اعلم (امداد الفتاویٰ، ج:۵، ص:۷۹) 
’’الیواقیت الغالیۃ‘‘ میں ہے:
’’بہرحال قدماء محدثین میں سے ابن جریری طبریؒ وغیرہ اور ان کے بعد حافظ ابن تیمیہؒ (۱/۱۰۰) حافظ ابن کثیرؒ (ج:۷،ص:۹۸) وغیرہ نے اول المخلوقات کے متعلق بہت سارے اقوال ذکر کیے ہیں، لیکن کسی نے بھی اس حدیث سے تعرض نہیں کیا۔ ہاں! یہ ضرور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء میں سب سے مقدم ہیں، اگرچہ بعثت میں سب سے مؤخر ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں:
’’کنت أول النبیین في الخلق وآخرہم في البعث۔۔۔۔الخ۔‘‘
بہرحال اگر روایات ثابت ہوجائیں تو اس سے اولیت فی الخلق کا علمِ ظنی حاصل ہوتا ہے، اس سے کوئی قطعی بات ثابت نہیں ہوتی۔‘‘ (مستفاد از ’’الیواقیت الغالیۃ‘‘، ج:۲، ص:۱۲،۱۳)

الجواب صحیح

الجواب صحیح

کتبہ

 ابوبکرسعید الرحمن

محمد انعام الحق

عرفان اجمل

 الجواب صحیح

 

تخصصِ فقہ اسلامی

 عبد القادر

 

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین