بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

لفظِ اللہ، لفظِ دین اور لفظِ اسلام کی تشریح ...  ایک جامع، علمی اور اصلاحی خطاب


لفظِ اللہ، لفظِ دین اور لفظِ اسلام کی تشریح ...  ایک جامع، علمی اور اصلاحی خطاب

 

’’محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری قدس سرہ نےسن۱۹۷۵ء میں پیرسٹن، انگلینڈ میں لفظِ جلالہ، لفظِ دین اور لفظِ اسلام کی تشریح پر مشتمل ایک جامع، پرمغز، علمی اوراصلاحی خطاب فرمایا تھا، جسے افادۂ عام کی غرض سے کیسٹ سے نقل کرکے کسی قدر ضروری حذف وترمیم کے بعد قارئینِ بینات کے لیے شائع کیا جارہا ہے ۔ ‘‘ [ادارہ]


 حق تعالیٰ جلّ ذکرہ نے یہ اعلان فرمایا ہےکہ اب اُمّتِ محمدیہ کے لیےجو طریقہ رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا ہے، وہی دینِ اسلام ہے۔ اس کے علاوہ جتنےطریقے اس سے پہلے دنیا کے اندرحق تعالیٰ نے جاری کیے تھے، حضرت سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک جو ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبردنیا میں تشریف لائے ہیں۔ ہر دور میں حق تعالیٰ جل ذکرہ نے ہر امت کے لیےایک قانون عطا فرمایاہے، اس قانون کی جوبنیادتھی وہ تو بہرحال حق تعالیٰ کی توحید، رسالت اور آخرت کا اعتقاد ہے ، البتہ جو احکام تشریعی ہیں وہ عبادات ہیں یا معاملات ہیں، ہر زمانے میں حق تعالیٰ نے اس زمانے کے لوگوں کی عادتوں اور مزاجوں کی اصلاح کے لیے جو قانون مناسب سمجھا، وہ عطا فرمایا ۔ (وہ اس وقت دین تھا)۔

لفظِ جلالہ کی تشریح اور اس کی قدرت کے عجائبات کاتذکرہ 

تین کلمات کی شرح کی ضرورت ہے: ۱:-لفظِ ’’اللہ‘‘، ۲:-لفظِ ’’دین‘‘ اور ۳:-لفظِ ’’اسلام‘‘۔ ا للہ اس ہستی کا نام ہے جس نے انسانوں کے لیے تمام زمین وآسمان ، چاند سورج اور جو نظام اس دنیا کے اندر موجود ہے (وہ بنایا)، (کائنات کا نظام) نہایت ہی عجیب وغریب اور محیّر العقول نظام ہے اور اس نظام کے حقائق واسرار تک دنیا کی عقلیں ابھی تک نہیں پہنچ سکی ہیں، اور نہ ہی پہنچ سکیں گی۔ آج بہت بڑے بڑے سائنس دان جتنی ترقی کر رہے ہیں اورجتنا آگے بڑھ رہے ہیں‘ حق تعالیٰ کی مخلوق اور آسمان وزمین کے حقائق ان پر اُتنے ہی زیادہ منکشف ہورہے ہیں، تو وہ اپنے جہل کا اعتراف کررہے ہیں۔ حالانکہ حق تعالیٰ کے اسرار، خدائی اسرار اور اس دنیا کے اندر جو عجائبات ہیں، ہمارا بالکل ابھی بچپن کادور ہے اور ابھی آگے تک جانے کے لیے لاکھوں سال چاہئیں ۔ 
آپ تعجب کریں گے کہ حق تعالیٰ کی مخلوقات میں جو سب سے ذلیل مخلوق ہے، جوسب سے زیادہ کمزور ترین مخلوق ہے، میری مراد حشرات ہیں، یعنی کیڑے مکوڑے، سانپ اور بچھو، زمین پر رینگنے والی چیزیں، آج تمام اہلِ سائنس اعتراف کرتے ہیں کہ ان کی تحقیقات کے لیے اور ان کے حقائق معلوم کرنے کے لیے، ان کےافعال و منافع اورخواص معلوم کرنے کے لیے نسلِ انسانی کو دو لاکھ سال کی زندگی مزید چاہیے۔ یااللہ! دو لاکھ سال تو کیڑے مکوڑوں کے لیے چاہئیں تو اللہ کی قدرت کے جو حقائق ہیں، اس کے لیے کتنے سال چاہیے ہوںگے؟! تو اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہستی ہے جس نے اس دنیا کے عجائب خانے کو، اس دار العجائب کو، اس میوزیم کو کیسا عجیب بنایا ہے کہ آج دنیا اس کو جتناسمجھتی ہے اور جتنا آگے احوال سے واقف ہوتی ہے اور جتنا حقائق کا انکشاف ہوتا رہتا ہے‘ وہ اپنے جہل کا اقرار کرتی ہے۔ اللہ وہ ذات ہے جس نے اس دنیا کو اتنا عجیب بنایا ہے کہ تمام اولین وآخرین اس کے حقائق ہیں (جس کے مظاہر ختم ہونے والے نہیں ہیں) تو اس کی قدرت کے عجائبات کیسے ہوں گے؟ اللہ نے ہمارے رزق کے لیے کیا کیا ذرائع بنائے، جن کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے، اللہ نے جس طریقے سے اس کائنات کو ہم انسانوں کے لیے بسایا ہے اور ہمارے لیے جو کچھ پیدا فرمایا ہے، گویا کہ زمین وآسمان میں عجائبات رکھ دئیے ہیں اور ہمیں عقل دے دی بس، وہ عقل سوچے گی اور دھیان کرے گی۔ عقلِ انسانی کہاں سے کہاں پہنچ گئی؟! اور نامعلوم کہاں سے کہاں پہنچے گی ؟! ابھی تو اس عقل نے اتنی ترقیات کرلی ہیں اور ایسی چیزیں بنائی ہیں جنہیں جانتا کوئی نہیں ہے اور بھی وہ کیا کچھ بنوا لائیں گے، یہ سب کچھ گویا کہ حق تعالیٰ کی خالقیت کےحقوق بتائے کہ اللہ پاک ایسا خالق ہے کہ عقل کو اللہ نے پیدا کیا ہے اور عقل کی نفسیات کو بھی اللہ نے پیدا کیا ہے ۔
انسان کے اندر روح کوبھی اللہ نے پیدا کیا ہے ، وہ روح کیسی ہے؟ آج تک تما م دنیا اس کے حقائق میں حیران ہے ۔ ایک زمانہ تھا کہ ہندوستان میں انگریز کہتے تھے: ’’جو چیز آنکھوں سے نظر نہیں آتی، اس کا وجود ہی نہیں ہے۔‘‘ وہ روح کو نہیں مانتے تھے،حالانکہ دنیا میں بہت سی چیزیں ہیں جو نظر نہیں آتیں، میری آنکھ کے بیچ میں جو خلا ہے آپ کو نظر آرہا ہے؟ کیا نظر آرہا ہے؟ تو روح کیا نظر آتی؟ اس کے بعد جب تحقیقات شروع کیں تو ایک دور ایسا بھی آیا کہ چار سو انسانوں نے فرانس اور روم کے اندر روح کے بارے میں تحقیق شروع کی اور آخر میں اعتراف کرلیا کہ ایک ایسی چیز موجود ہے جس کی حقیقت ختم نہیں ہوسکتی، حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے تحقیقات کیں اور بہت بڑے سے بڑے وسائل دیکھے اور آج وہ کہاں سے کہاں پہنچے۔
یہ کیسی بدنصیب قوم ہے کہ حق تعالیٰ کے ان بنیادی حقائق کو ماننے کے باوجود ’’یَعْلَمُوْنَ ظَاھِرًا مِّنَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا‘‘ دنیا کے ظاہر کوجانتے ہیں، دنیا کےبھی ظاہر کو، دنیا کی حقیقت کو بھی نہیں جانتے، ’’یَعْلَمُوْنَ ظَاھِرًا مِّنَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا‘‘ کچھ ظاہر کو ، ’’یَعْلَمُوْنَ الظَّاہِرَ‘‘ نہیں فرمایا، ’’یَعْلَمُوْنَ ظَاھِرًا مِّنَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا‘‘، دنیا کے کچھ ظاہر کو جانتے ہیں، ’’وَھُمْ عَنِ الْاٰخِرَۃِ ھُمْ غٰفِلُوْنَ‘‘ ، اور یہ بد نصیب آخرت سے بالکل غافل ہیں، کچھ نہیں جانتے کہ آخرت کیا ہے! اس لیےتو آج عقل اُن پر غالب ہے۔ 
حق تعالیٰ جل ذکرہ نے اس کائنات کو اس اندازکے ساتھ بنایا ہے ، اس کانام اللہ ہے، اس ذات نے جب اس فانی دنیا (وہ دنیا جو توڑنے پھوڑنے کے لیے ہے)میں عجائبات رکھ دئیے ہیں، وہ عالم جو توڑنے پھوڑنے کے لیے نہیں ہے، جو ابدالآباد باقی رہنے کے لیے ہے، جوہمیشہ رہے گا اور جس کے لیےہمارے حساب والوں کے ہاں کوئی نظیرہی نہیں ہے، ارب کہو، کھرب کہو، جو بھی کہو، اس کے لیے کوئی نظیر نہیں ہے، سوائے اس کے کہ نہ ختم ہونے والی زندگی ہے اور وہ بھی حق تعالیٰ جل ذکرہ کے تمام صفاتِ کمال کے سو کے سو حصے ظاہر ہوں گے، دنیا میں اللہ کی صفات میں سے ہر صفت کا سوواں حصہ ظاہر ہوا ہے، قدرت ہے، خالقیّت ہے، رازقیّت ہے، رحمت ہے،رافت ہے، صبر ہے، ان کا سوواں حصہ ظاہر ہوا ہےاور آخرت میں حق تعالیٰ کے تمام سو کے سو حصےظاہر ہوں گے، اس اللہ نے اُس عالم کوایسے چھوڑدیا ؟! اس کے لیے حق تعالیٰ جل ذکرہ نے انبیاء کرام( علیہم السلام ) کو مبعوث فرمایا، اس کی صفتِ ہادی نے ہدایتِ خلق کے لیےاور کائنات کی ہدایت کے لیے جو ہستیاں بھیجیں، وہ انبیاء ورسل ہیں، ایسی ہستیوں کا انتخاب فرمایا کہ جو اللہ سے متعلق ہوں اور بندوں کو اللہ کی طرف راستہ بتلائیں ۔
 

انبیاء اور رسل کامعنی ومفہوم اور اس کی تشریح 

بات ذرا لمبی ہے، تفصیل تو نہیں سناسکتا ہوں کہ انبیاء ورسل کیا ہیں؟ حق تعالیٰ اس مرتبے کے لیے اپنے بندوں میں سے ایسے انسانوں کو منتخب فرماتا ہے، جن کاظاہر وباطن اس دنیا کے اندر بے نظیر ہوتا ہے، جن کا ظاہر بھی بہترین، روح کی صفائی، قلبی صلاحیّت، دماغ پاکیزہ،عقل باکمال، بدن کی طاقت، ظاہری جسمانی قوت میں کمال، یہ سب ان کو حاصل ہوتا ہے، ان کا انتخاب فرماتا ہے، تاکہ میرا پیغام میرے بندوں کو پہنچادیں۔ اس بشر کو دو کمالات عطا فرماتا ہے، اس کونفس سے اور شیطان سے معصوم کرتا ہے، اس پر نفس وشیطان کا تسلُّط نہیں ہوتا۔ لیکن جو عام انسان ہے، ہم بھی انسان ہیں، اس کے ساتھ نفس بھی ہے، شیطان بھی ہے، اس کا تسلُّط بھی ہے، تو عام انسان معصوم تو نہیں ہیں۔ البتہ اُس ہستی (نبی ورسول) کو حق تعالیٰ نفس کی خواہشات سے بھی اور شیطان کے اثرات سے بھی عصمت فرماتا ہے، معصوم بناتا ہے۔ شیطانی اثرات پیدا تو ہوتے ہیں، لیکن شیطان وہاں سے ذلیل ہوکر، رسوا ہوکرکے چلا جاتا ہے، کچھ نہیں کرسکتا، حتیٰ کہ ایک حدیث میں آتا ہے، صحابیؓ نے پوچھا: یارسول اللہ! آپ کا بھی شیطان ہے؟ فرمایا: میرا بھی شیطان ہے، آخر میں،’’ فأسلمَ فلا يألُو إلّا بخير‘‘، وہ منقاد وذلیل ہوگیا ، وہ مجھ کو خیر ہی بتلاتا ہے، مجھ کو شر نہیں بتاسکتا، انبیاء کرام بشر تو ہوتے ہیں، لیکن نفس اور شیطان کے اثرات سے معصوم ہیں۔ عصمت کا معنی یہ ہے کہ اس سے گناہ ہو نہیں سکتا، گناہ کی صلاحیت اس میں نہیں، حق تعالیٰ اُنہیں پاک کرلیتا ہےاور ان کوذریعہ بناتا ہے، ان کے ذریعے پیغامات ہوتے ہیں، براہِ راست اللہ سے ہم کلامی ہوتی ہے اور کبھی فرشتوں کے ذریعے سے اور کبھی کبھی القاء کرتا ہے، کبھی دل میں بات ڈالتا ہےاور بندوں کو اللہ کا پیغام پہنچاتا ہے، ان کا نام ہے انبیاء ورُسُل۔

لفظِ نبی کا ماخذِ اِشتقاق اور معنی

تفصیل تو بہت ہے، لیکن ذرا دو چار لفظ اور کہہ دوں، علماء حضرا ت موجود ہیں۔ نبی کا معنی کیا ہے؟ علماء نے جو تحقیق کی ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ نبی مشتق ہے لفظِ’’نَبَأ‘‘ سے، ’’نَبَأ‘‘کے معنی خبر اور خبر ایسی جس میں فائدہ ہو۔ فائدہ بھی عظیم الشان ہواور غیب کی بات ہو۔تو نبی کے معنی ہوں گے (وہ خبر فعیل بمعنی مفعول ہے) ایسی ہستی یا شخصیت جو خبر دے اور خبر فائدے کی ہو، فائدہ بھی عظیم الشان ہو اور وہ بالغیب ہو،عقل سے بات نہ معلوم ہوسکتی ہو، اس کا مطلب یہ ہے: وہ ہستی معصوم ہوتی ہےنفس وشیطان سے، وہ غیب کی خبر یں دیتا ہے، حق تعالیٰ سے تعلق قائم ہوجاتا ہے، بندوں اور اللہ کے درمیان واسطہ ہوتا ہے، ان کے ذریعے سےاللہ تعالیٰ ہدایات بھیجتا رہتا ہے اُمت کو، مخلوقات کو۔ بس اتنی بات سمجھ لیجیےکہ نبی اور رسولوں کا سلسلہ یہ ہے۔ اللہ جل ذکرہ نے ان کے ذریعے سے ہمیں اپنا طریقہ بتلادیاکہ اللہ کا منشا کیاہے؟ اللہ کی عبادت کیسی کرنی چاہیے؟ عقیدہ کیا چیز ہے؟ اللہ کی صفات کیا ہیں؟ اللہ کے کمالات کیسے ہیں؟ اللہ کے اسماءِحسنیٰ کیسے ہیں؟ مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ یہ سب کچھ تفصیلات عقل نہیں معلوم کرسکتی، یہ تفصیلات جس نے بتلائی ہیں اُس کا نام دین ہے۔

 لفظِ دین کا معنی ومفہوم اور اس کی تشریح

دین کا معنی وہ انسان کے لیے ایک طریقۂ زندگی ہے، جو حق تعالیٰ سے اللہ کے حکم کے مطابق، انبیاء کی ہدایات کے مطابق تعلق قائم کرے، اللہ کے بندوں سے تعلق قائم کرے، اپنوں سے کرے، پرایوں سے کرے، دوست سےکرے، دشمن سے کرے، مسلمانوں سے کرے، کافروں سے کرے،معاملات کرے، اخلاقی تعلق قائم کرے، یہ سب کچھ کا نام دین ہے، تو دین کا معنی ہے انسان کا وہ طریقۂ زندگی جو اللہ کے حکم کے مطابق ہو، جو طریقۂ زندگی اس لیے اختیار کرتا ہے کہ یہ اللہ کی منشا کے مطابق ہے۔ یہ اس دین کا معنی ہے جوبمعنی تمہارا ملّت اورتمہارا طریقۂ کار زندگی میں ہے وہ دین ’’الاسلام‘‘ ہے، تو اس کے بعد بات ختم ہوجاتی ہے کہ یہ چیز ہے کہ دین کی باتیں اب عقل سے نہیں معلوم ہوتیں، بلکہ بعض اوقات عقل عاجز ہوتی ہے، عقل خلاف نہیں کرتی، لیکن عقل کی صلاحیت نہیں معلوم کرسکتی،عقل میں بھی جتنی طاقت اللہ نے رکھی ہے، تو جہاں عقل کی سرحد ختم ہوجاتی ہے، تمام اعضاء ہٹ جاتے ہیں، وہاں سے نبیوں کی سرحد شروع ہوتی ہے، تو جو ہدایت اللہ نے انبیاء کے ذریعے سےدی ہے، اس کانام دین ہے۔

لفظِ جلالہ کے معنی کا حاصل
 

اب آپ نے اللہ کو پہچان لیا ہوگا کہ وہ ہستی جوصفاتِ کمال کا مالک ہے، وہ واحد ہے، ایک ہے، لاشریک ہے اورقدیم ہے، ازلی ہے، ابدی ہے، وہ عالم بالغیب ہے، وہ سمیع وبصیر ہے، وہ حی و قدیر ہے، کائنات کا مالک ہے، تمام کائنات کو اس نے پیدا کیا ہے، اس نے گویا کہ انسان کے لیے انبیاء کو بھیجاہے، تا کہ وہ اس دنیا کے منافع کے علاوہ آخرت کے منافع کا مستحق بن جائے۔ دنیا کےمنافع سے مطلب یہ ہے کہ طاقت کافی ہے،لیکن اس کے بعد دوسرا جو عالم تھا جس کانام قیامت ہے، جس کا نام آخرت ہے، اُس سے منافع حاصل نہیں کرسکتا، سمجھ ہی نہیں سکتا، تو بندہ وہاں کیا اور کیسےکرےگا؟ اس کے لیے اللہ نے انبیاء کو بھیجا ہے، اس کا نام طریقۂ دین ہے ۔

لفظِ اِسلام کا معنی ومفہوم اور اس کی تشریح

دو مختلف طریقے تھے ہر زمانے کے اندر، موسیٰ علیہ السلام کے لیے اور دین تھا، انجیل کےاور احکام تھے، تورات کے کچھ اور احکام تھے، اُس سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کے لیے کچھ اور احکام تھے، سلیمان علیہ السلام کے لیے کچھ اور احکام تھے، ہرزمانے کے مختلف رہے ہیں، لیکن حق تعالیٰ نے اُمّتِ محّمدیہ کے لیے جس مذہب کا انتخاب فرمایا ہےاُس کا نام اللہ نے ’’الإسلام‘‘ رکھا ہے۔ ویسے ہر مذہب اپنے زمانے میں اسلام ہے، لیکن نام جو ہے اسلام، وہ صرف اِس دین کا ہے، ایک مشکل حل کرنے کے لیے اشارہ کررہا ہوں، وہ بات بھی لمبی ہے ۔ اسلام کے معنی مجھے اب سمجھانا ہے اور اس کی تشریح مجھے کچھ کرنی ہے۔

 

تکمیلِ دین کے اعلان کا ایک عظیم اور تاریخی دن 

’’ اسلام‘‘ گویا کہ اس دین کا نام رکھا ’’الإسلام ‘‘،اور یہ اعلان بھی کیاگیا اُس میدان میں جس سے بہتر سرزمین اس وقت میں نہیں تھی، یعنی عرفات کے میدان میں۔ اس دن کیا گیا جس سے بہتر تاریخِ عالم میں کوئی دن آیا نہیں ، جمعہ کا دن بھی تھا اور عرفہ کا دن بھی تھا۔ عصر کے بعد کا وقت تھا۔ اس شخص کو کیا جو اوّلین وآخرین کے سیّد، سیّد الاولین والآخرین محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ وقت مبارک عصر کا تھا۔ نو تاریخ ذی الحجہ کی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا تریسٹھواں برس تھا۔ آپ کی نبوت کا تئیسواں برس تھا۔ ذی الحجہ کی نوتاریخ تھی، جمعہ کا دن تھا، عرفہ کا دن تھا، عرفات کی وادی تھی، عصر کا وقت تھا اور آپ اپنی اونٹنی قصواء پر اللہ کی مناجات میں مشغول تھے، وہاں پر اعلان ہوا: ’’اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا‘‘ ، ’’اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ‘‘ ، آج میں نے تمہارا دین مکمل کردیا ، وہ جو تھوڑا تھوڑا دنیا کے اندر بھیجتے رہے ہردور کے اندر، اُسے کامل ترین شکل کے اندر (اب بھیجا) اب بات مکمل ہوگئی ، اب اس میں کوئی کسر باقی نہیں رہی ۔ اب اس میں اتنی بھی (کمی) نہیں کہ تم کسی اور سے جاکر بھیک مانگو،گویاکہ اسلامی قانون کو کوئی نقصان ہے،کوئی کسرہے، کوئی کوتاہی ہے، اس کو پورا کرلیں(ایسی بات نہیں ہے)، ’’اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ‘‘ ، اشارہ میں نے کردیا چند باتوں کی طرف۔ ’’وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ‘‘ اور نبوت کی، ہدایت کی جو نعمت میں نے دنیا کے لیے مقرر کی تھی، آج میں نے پوری کردی، بس ختم، اب نہ کوئی ہدایت دینے والا، نہ کوئی رسالت لانے والا، نہ کوئی نبوّت آنے والی، سب ختم ہوگیا۔ اور تمہارے لیے ایک طریقہ مقرر کردیا گیا، جتنے راستے پہلےکھلے تھے وہ بند کردئیے گئے، کوئی مذہب اب دنیا میں باقی نہیں رہے گا، وہ سارے دروازے بند کردئیے، ایک دروازہ کھلا رہے گا ’’الإسلام‘‘ ،’’وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا‘‘ ، تمہارے لیے اب میں نے ’’الإسلام‘‘ کو دین مقرر کردیا ہے، تمہارا دین اب دینِ اسلام ہوگا اور کوئی دین اب نہیں ہوسکتا ہے،یہ تاریخی اعلان تاریخی وقت پر، تاریخی سر زمین پر، تاریخی زمانہ کے اندراللہ نے فرمایا اور ایک لاکھ صحابہؓ اس کے سننے والے اورمجمع موجود تھا، روئے زمین پر اس سے بہتر مجمع کوئی پیدا نہیں ہوا ، اس کا نام ’’الإسلام‘‘ رکھا، تو ہمارے دین کا نام ’’الإسلام‘‘ رکھا گیا۔
اسلام کے معنی کیا ہیں؟ اسلام کے معنی تو یہ ہیں کہ اپنا آپ کسی کو سونپ دینا، حوالہ کردینا۔ حق تعالیٰ نے اس دین کا نام دینِ اسلام رکھا، گویا کہ ایک قسم کا وعدہ ہے مسلمان کے ساتھ، جس کا معنی یہ ہوگا کہ اس نے اپنے آپ کو ’’مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلہِ‘‘ ،اس نے اپنی جان اور مال کو اللہ کے حوالہ کردیا، اس نے اپنی جان کو بھی حوالہ کردیا ، اپنے مال کو بھی حوالہ کردیا، اپنے وقت کو بھی حوالہ کردیا ،تو گویا کہ اسلام کے معنی یہ ہیں، اس دین کا نام اسلام ہے، اس دین کا تقاضا یہ ہے کہ وہ شخص سرسے پیر تک اپنے آپ کو ہمہ تن حق تعالیٰ کے حوالہ کردےکہ میں تیرا بندہ، تو میرا خالق، تو میرا رازق، میں تیرا غلام وتیرا بندہ ہوں، اب میری جان تیری، تھی ہی تیری دی ہوئی ، میرا تو کوئی حق نہیں ہے، تو گویا کہ اسلام کا معنی یہ ہوگیا کہ ہم نے جان، مال اور وقت اللہ کو دے دیا ہے۔
یہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ جان اس کی دی ہوئی تھی، جان کس نے پیدا کی ہے؟ حق تعالیٰ نے پیدا کی ہے اور کیسے پیدا کی؟ کیسی پیدا کی؟دوچیزیں ہیں اس کے اندر، ایک جسم ہے اور ایک روح ہے۔ جسم تو یہ ہے کہ تم نے کچھ کھانا کھالیا، پیٹ میں ڈال دیا، کھانا پانی آیا، وہ چھ سات گھنٹے کے اندر خون بن گیا، وہ خون کدھر پہنچ گیا؟ ہاتھ میں پہنچ گیا ، وہ ہاتھ سے کہیں اور جاکر کسی اور جگہ پہنچ گیا، سفید چیز بن گئی، وہ سفید چیز ایک جگہ پہنچ جائے گی، چھوٹی سی چیز ناپاک جگہ پہنچ جائے گی، اللہ پاک نےاس جگہ تک پہنچاکر چند مہینوں کے اندر ایک جیتا جاگتا انسان بنادیا ،جی اِتنا کرم! یہ کس نے نظام بنایا؟ یہ پیٹ کس نے بنایا؟ کس نے معدہ بنایا؟ کس نے جگر بنایا؟ کس نے دل بنایا؟ کس نے قطرہ خون کا، پھر خون سے منی بنادیا؟ کئی قطرے خون سے ایک قطرہ منی کا بنادیا اور کہاں سے کہاں پہنچادیا اور وہاں کیسے پرورش کی؟ اُس تنگ وتاریک جگہ کے اندر، اُن ظلمات کے اندر کیسے پرورش کی؟ کیسے انتظام کیا اور کیسے خوبصورت بچہ پیدا کردیا اور اس کے اندر کیسے جان ڈال دی؟ روح جو ہے اس کے پاس ہے، عقل حیران، اس کی تفصیلات کو بیان نہیں کرسکتی تو روح بھی اللہ کی، جان بھی اللہ نے پیدا کی ہے ، اس کا کرم ہے کہ یہ جان ہمیں دیتے ہیں کہ ہم مکّلف ہیں، ہم مالک ہیں، اسی کی جان تھی، اسی کی بنائی ہوئی تھی، اس کے بعد پھر چودہ پندرہ سال میں جان دے دیتے ہیں اور ہم نے کچھ کمایا؟ مال کمایا تو مال کیسے کمایا؟ یہ تمہارے دل میں جو ارادہ آیا، وہ ارادہ کس نے دیا؟ تمہاری آنکھوں (نے دیکھا)، دماغ نے سوچ کر کام کیا، ہاتھوں سے اُٹھایا ، پاؤں سے چلے، دماغ سے سوچا اور دکانداری کی، یہ ہاتھ کس نے دئیے؟ پاؤں کس نے دیئے؟ دماغ کس نے دیا؟ آنکھ کس نے دی؟ اور کان کس نے دئیے ؟ سوچ کس نے دی؟ ارادہ کس نے دیا؟ توفیق کس نے دی؟ صحت کس نے دی؟ تندرستی کس نے دی؟ اللہ نے، تو سب کچھ اسی کا ہے، یہ بھی اس کا کرم ہے کہ باوجود اس سب کچھ کے کہ سب کچھ ان کا ہے،پھر ہم کو مالک بنایا جاتا ہے، پھر ہم سے سودا کرتا ہے۔

سورۂ توبہ کی ایک آیت کی روشنی میں اسلام کے معنی کی وضاحت
 

اب اسلام کا معنی سمجھیں گے،سورۂ توبہ کے اندر ہے: ’’اِنَّ اللہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ ط یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ قف وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْاٰنِ ط وَمَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ مِنَ اللہِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ ط وَذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ. ‘‘ عجیب انداز سےبڑا وعظ ذکر کیا ، فرماتے ہیں: بلاشبہ اللہ نے خرید لیا، ’’مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ مسلمانوں سے ،’’اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَھُمْ‘‘ ان کے جانوں مالوں کو، ’’بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ‘‘ کہ ان کو جنت ملے گی ۔ یااللہ! اللہ خریدار ہے ، مال اس کا ہے ، دل اس کا ہے، مخلوق اس کی ہےاور ہم کو مالک بناکر ہم سے سودا کرتا ہےکہ تم مالک بنو، تم سے خریدتے ہیں، اللہ خریدار تو ہم بیچنے والے۔ اچھا بیچنے والے کس چیز کو؟ اُس جان ومال کو، کس جان ومال کو؟ کس زندگی کو؟ جس میں سراپا پریشانی، حزن،غم، تکلیف، درد، تعصّب، تحسّد۔ وہ زندگی، ایسی زندگی؟ جان ومال تو ہمارا ہے، آج بیوی کا انتقال ہوگیا اور آج بچے کا انتقال ہوگیا، اور آج بیوی کا آپریشن ہو رہا ہے، آج گردوں کا آپریشن ہورہا ہے ، آج یہ ہورہا ہے، آج وہ ہورہا ہے،آج بخار چڑھاہے، آج سر میں درد ہے، آج ڈاکٹر کی ضرورت ہے، توبہ توبہ!! آج نقصان ہوا، آج ذرا تھوڑا سا بڑھ گیا، آج حکومت نے یہ الزامات کردئیے، ہمارا لائسنس بند کردیا، آج وہ، وہ، وہ۔ 

دنیا اور جنت کی زندگی اور نعمتوں میں موازنہ

ساری دنیا پریشانیوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے اور اس میں زندگی کتنی؟ پچاس ساٹھ سال۔ کتنا بڑا کرم ہے کہ پچاس ساٹھ سال کی زندگی فانی، جو بھری ہوئی ہو اَعذاب سے، اَعذار سے، حالات سے، اوجاع سے، مصائب سے، اَفکار سے، دردوں سے، غموں سے،کربوں سے، بے چینی سے، ذلتوں سے، اللہ تعالیٰ ہم سے ایسی معمولی چیز (اس زندگی کو) جنت کے بدلے میںخریدتا ہے ، یا سبحان اللہ!! اللہ نے کتنا بڑا کرم فرمایا کہ اس کا جنت کے بدلے میں خریدار ہے، کیا نسبت دنیا کی اور کیا نسبت جنت کی؟! کیا نسبت ہے دنیا کی نعمتوں کی اور کیا نسبت ہے جنت کی نعمتوں کی؟! یوں تو سنا ہوگا قرآن تو بھرا پڑا ہےاور عجیب عجیب تفصیلات آتی ہیں اور جو سب کو جمع کیا جائے تو انسان کی عقل حیران رہ جاتی ہے۔ 
پہلی زندگی تمہاری دنیا میں کتنی ہے؟ پچاس سال، ساٹھ اور پچاس ساٹھ میں کوئی بچپنا گزرتا ہے، کوئی نیند میں گزرتا ہے، خیر پچاس ساٹھ سال، سو سال زندگی ہے۔ آخرت کی زندگی کتنی ہوگی؟ لاکھ، کروڑ، ارب، کھرب، کوئی حساب ہی نہیں، اچھا یہ زندگی ہےدنیوی، وہاں تمام سکون کی اور تمام راحت والی زندگی، اس زندگی کے اندر عزّت ہے، ذلّت نہیں، اس کے اندر بقاء ہے، فناءنہیں،اس زندگی کے اندر علم ہے جہل نہیں،اس زندگی کے اندر راحت ہے تکلیف نہیں،یا اللہ! ایسی زندگی ہے۔ 
اچھا! مجھے بتاؤ تمہارا اس دنیا کے اندر کوئی ایسا بادشاہ ہے؟! آج یہ پورا عالم ہے، جس کا محیط چوبیس ہزار ا سکوائر فٹ ہےاور جس کا یہ قُطُر ہے آفتاب نکلنے کے لیے، تیرہ ہزار میل کچھ ہے، جی یہ چھوٹی سی دنیا، کوئی بادشاہ ہےجو اس پر حاکم ہو؟! تم اس کولے لو، ابوجہل کو لے لو، برطانیہ کو لے لو، وہ برطانیہ جس کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا، بد نصیب مرحوم آج جاکر تو دنیا میں بندہوگیا، اس میں اس کو وہ کچھ بھی حاصل تھا جو اور دنیا میں نہیں تھا، اس جیسی کوئی بادشاہی نہیں تھی اور آج دنیا دوسو بادشاہتوں کے اندرتقسیم ہوگئی ہے، دوسو پر؟! چھوٹی دنیا ہے، جو تمہارے پاس ہے۔ اور جنت میں کیا ہوگی؟ ادنیٰ سے ادنیٰ جنتی کو دنیا کی دس گنا جگہ ملے گی۔

آخری جنتی کوملنے والی جنّت کا ذکر بخاری کی روایت کی روشنی میں

ادنیٰ سے ادنیٰ جنتی کو دنیا کی دس گنا جگہ ملے گی، یا اللہ! ادنیٰ جنتی کا مطلب کیا ہے؟اس کا تفصیلی تذکرہ حدیثوں میں ہے، ’’آخر دخولِ الجنّۃ‘‘ جو سب سے بعدمیں جنّت میں جائے گا ،یعنی وہ ہزاروں سال دوزخ میں جلے گا، تکلیف برداشت کرے گا، یہ وہ جنتی ہوگا ،أعاذنَا اللہُ وإیّاکم۔ وہ سخت گھڑی برداشت کرے گا، پھرجب اللہ کی رحمت حاصل ہوگی تو اس وقت کہے گا: یا اللہ! اے ارحم الراحمین!عقیدہ اچھا ہوگا، لیکن عمل اچھانھیں ہوگا، منکراتِ شرائع بہت کیے ہوں گے، اس کی سزا میں جلے گا دوزخ میں، وہ عرض کرے گا : یا اللہ! میرا چہرہ جل گیا، بدن سارا جل گیا،مجھ پر اتنا رحم فرمادو کہ میرا چہرہ جو ہےدوزخ سے باہر کی طرف ہوجائے، تاکہ دوزخ کی تکلیف میں چہرہ نہ جائے، اللہ فرمائیں گے: بندہ! اور کچھ نہیں مانگے گا؟ کہے گا: بس اللہ! اتنا ہی مانگوں گا، کہے گا: قسم؟! وہ قسم کھا کر کہے گا: تیری عزت وجلال کی قسم!بس میں اور کچھ نہیں مانگوں گا، بس میرا چہرہ دوزخ کی گرمی سے بچ جائے، چہرہ بچالیا جائے گا، باقی دوزخ میں کردیا جائے گا، سالوں ہزاروں سال گزر جائیں گے،پھر کہے گا: یا اللہ! مجھے دوزخ کے دروازے کے ذرا آگے کردو، اے بندہ! تو نے تو ابھی قسمیں کھائی تھیں اور تونے کہا تھا: میں اور کچھ نہیں مانگوں گا، ابھی اور مانگتا ہے؟! اب کہے گا: یا اللہ! مجھے معاف کردے، مجھے شقی مت بنادے، یا اللہ! مجھے بد بخت اور بد نصیب مت بنا، یا اللہ! مجھے دوزخ کے دروازے تک پہنچا، فرکّز رکّزۃً،جب دروازے تک پہنچے گا وہاں کھڑا رہے گا، کچھ تیزی سے بچ جائے گا، پھر بعد میں چپ رہے گا خاموش، ہزاروں سال، پھر کہے گا: یا اللہ! مجھے ذرا جنت کے دروازے تک پہنچادے، اےبندہ! ماأکذبَک ؟! بڑا جھوٹا ہے! بڑا غبن کرنے والا! تو نے قسمیں کھائی تھیں اور تو نے کہا تھاآئندہ اور کچھ نہیں مانگوں گا، اب اور مانگتا ہے؟! 
یہ قصہ بخاری کی حدیث میں آتا ہے، افسانہ نہیں ہے۔ بخاری کی حدیث میں الفاظ آتے ہیں جس کا ترجمہ سناتا ہوں ۔خیر! معاملہ یہاں تک کہ جنت کے دروازے تک چلاجائے گا، جب جنت کے دروازے تک چلاجائے گااور دیکھے گا اَو ہو! یہاں تو ایسی راحتیں ہیں، ایسی عزتیں ہیں، باغ وبہار ہیں، ایسے عجیب چمن ہیں اور درخت ہیں اور پھول ہیں اور خوشبودار چیزیں ہیں!! کچھ تھوڑا سا جھانک کر دیکھ لے گا، پھر چپ، خاموش رہے گا ، وعدہ کرچکا ہے، سال ہا سال گزر جائیں گے، پھر کہے گا: یااللہ! مجھے اندر جگہ دے دے، یابني آدم! ماأکذبَک؟ تو نے قسمیں نہیں کھائی تھیں؟ پھر معافی؟ یا اللہ! مجھےمعاف کردے، مجھے شقی مت بنادے، مجھے جگہ دے دے، حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بھڑکے گی، تعیین نہیں ہے ، اس کی رحمت ایک جزء نہیں کہ تعیین ہو، فرمائیں گے: جاؤ! جنت میں، ادخلِ الجنّۃ،جب چلاجائے گا ، شروع میں جنت ہے، وہاں جگہ ہے، وہاں جگہ ہے، خیر واپس آئے گا اور واپس آکرکہے گا: یا اللہ! وہاں تو جگہ نہیں ہے؟! اللہ تعالیٰ کہے گا: جا تو! کتنی جگہ ہے، جا! میں نے تجھے دنیا جتنی اس جنت کے اندر جگہ دی ہے ، وعشرۃُ أمثالِہا اور دس گنا اور جگہ دی ہے، اللہ اکبر! اس جنتی کے بارے میں میں نے کہاکہ سب سے آخر میں جانے والاہوگا، اس کو دنیا سے دس گنا زیادہ جگہ ملے گی، ہے کوئی بادشاہ دنیا کے اندر کوئی اور بھی؟

جنت کے محلاّت، خدّام اور اشیاءِ خوردونوش کاذکر 
 

اچھا! تم تاریخ عالم سے، اسکندر سے صدرِ اعظم اور آخر تک پوچھو، پوری دنیا میں کوئی ایسا بادشاہ گزرا ہے جس نے مکانات ایسے بنائے ہوں کہ ایک اینٹ سونے کی ہو، ایک چاندی کی ہو؟! ہے کوئی؟! جنت کے محلاّت جو ہوں گے ایک اینٹ سونے کی ہوگی اور ایک چاندی کی ہوگی۔ دنیا میں تم نے کبھی ایسا بادشاہ بھی دیکھا ہے؟ وہ گویاکہ اپنے چمنوں کے اندر، اپنےفرشوں کے اندر، زمین کے اندر ایسا قصر بنائے، وہ قصر کیسے بنے گا؟ دنیا میں تو سوچو! حق تعالیٰ جل ذکرہ نے جنت کے اندر، ایک قصر ہے جس کی زمین سے بلندی ساٹھ میل ہوگی، یہ ہے ارتقاء اللہ، ایسا قصرکوئی دنیا میں ہے؟! خادمات کیسی دیں گے؟ اگر ایک خادمہ کا رُخ دنیا کی طرف ہو جائے تو سورج کی روشنی ماند پڑجائے، اللہ اکبر! یہ جنت کی نعمتیں ہیں ! کھانے کیسے ہوں گے؟ ادنیٰ جنتی کے دسترخوان پرستّر قسم کے کھانے ہوں گے،ہرلقمے کی نئی لذت ہوگی، نئی ایک طرابت حاصل ہوگی، یاسبحان اللہ! یہاں تو ایک لقمہ زیادہ کھائے تو ڈاکٹر صاحب کی ضرورت ، وہاں زیادہ کھاؤ، سب ہضم ہوگا، نہ پیشاب، نہ پاخانہ، خوشبودار پسینہ بدن سے نکلے گا، سبحان اللہ، یہ ہے جنّت کی نعمت۔ جی! 
اور وہاں اللہ نے فرمایا: ’’وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَشْتَھِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنَ‘‘ آج امام صاحب نے جو آیت پڑھی، وہ اس لیے نہیں کھاتے’’وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَشْتَھِیْٓ اَنْفُسُکُمْ‘‘ وہاں جنت کے اندر جو تمہارا جی میں آئے ، ’’وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنَ‘‘ جو تم مانگو، یہ اس ذات کی مہربانی ہے تمہارے اوپرجو کریم ہے، جو تم مانگو، جو تم چاہو وہاں تم کو دیا جائے گا اور اس کی تفصیل حدیث میں آتی ہے: ’’أعددتُ لعبادي الصّالحین ما لاعینٌ رأت ولاأذنٌ سمِعت ولا خطرَ علٰی قلب بشر‘‘ میں نے تیار کیں اپنے بندوں کے لیے، نیک بندوں کے لیے جنت کے اندر وہ نعمتیں ’’مالاعینٌ رأت‘‘ جو کسی آنکھ نے دیکھی بھی نہیں، کسی بھی آنکھ نے، وہ امریکہ کی یا برطانیہ کی آنکھ ہو، روس کی آنکھ ہو، یا فرعون کی آنکھ ہو، ہامان کی آنکھ ہو، کسی آنکھ نے دنیا میں، بڑے سے بڑے بادشاہ دبدبے والا جو گزرا ہو، اس کی آنکھ نے بھی نہیں دیکھیں وہ نعمتیں، چلو آنکھ کی بات نکل گئی، سن لیتے ہیں کیسی باتیں ہیں؟فرمایاکہ: ’’ولا أذنٌ سمِعت‘‘ نہ کسی کان نے وہ نعمتیں سنی ہوں گی، چلو سنی نہیں تو دل میں خیال آئے گا ،نہیں ’’ولاخطرَ علٰی قلب بشر‘‘ ان نعمتوں کا دل میں تصور بھی نہیں آسکتا، خبر دی ہوئی ہے رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے۔
یہ نعمتیں تمہارے لیے سوسال نہیں، ہزار سال نہیں، لاکھ سال نہیں، کروڑ سال نہیں، ارب نہیں، کھرب نہیں، بلکہ نہ ختم ہونے والی زندگی کے اندر یہ مادی نعمتیں ہوں گی اور جو روحانی نعمتیں ہوںگی، وہ تفصیلات چھوڑ دو، نہ تم روحانی نعمتوںکو جانتے ہو، نہ مادّی کو ، تو بتلاؤ یہ دنیا اوروہ، کوئی نسبت ہے؟ تم سوچونا، غور کرو، کوئی نسبت ہے؟ حدیث میں تو آتا ہے کہ یہ ساری دنیا اور جوکچھ جی چاہے اس میں ہے دیکھ لو توساری زندگی اِس کو چھوڑ دو اور رات دن جنّت میں رہو۔ فرمایا کہ : ’’لوکانتِ الدُنیا تعدِل عندَ اللہ جَناحَ بَعُوضۃٍ ما سقی الکافرَ منہا شربۃَ ماء ‘‘، اگر حق تعالیٰ کے نزدیک اس دنیا کا وزن ایک مچھر کے پر کے برابر ہوتا تو کافر کو ایک گھونٹ پانی نہ پلاتا۔ حدیث میں آتا ہے ایک سمندر ہے، سمندر میں تم انگلی ڈبودو’’ فَلینظُر بِمَ یرجع الإصبع‘‘ تاکہ جو تمہاری انگلی میں لگا ہے وہ تمہیں اس نے دیا ، آگے سمندر ہے، وہ دیکھو! حق تعالیٰ کے قربان جائیے! کیسا سوال ہے؟جان اس کی دی ہوئی، مال اس کا دیا ہوا، وقت اس کا دیا ہوا، ابد الآباد کی جنت کےمقابلے میں وہ ہم سے اس غم خانے کو خریدتا ہے ۔

اُمّت کی ذلّت ورسوائی کا ایک سبب

’’اِنَّ اللہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَھُمْ‘‘ اللہ پاک نے خرید لیا مسلمانوں سے، ان کے جانوں کو، مالوں کو، ’’بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ‘‘ کہ ان کو جنت ملے گی، جب خرید لیا ہے اب جہاد کرتے ہیں ، ’’یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ‘‘ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے، ’’فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ‘‘ ماریں گے تو غازی بنیں گے اورنہیں تو شہید ہوں گے۔ افسوس! آج بدنصیبی ہماری کہ آج اس نعمت سے ہم محروم ہوگئے، آج ہم ذلیل ہوگئے اور ذلیل اس لیے ہوگئے کہ ہم نے جہاد کو چھوڑا، اگر ہم جہاد کو نہ چھوڑتے تو آج دنیا میں اقتدار ہمارا ہوتا۔ اللہ نے فرمایا تھا: ’’وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللہِ وَعَدُوَّکُمْ وَاٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ ج لَا تَعْلَمُوْنَھُمْ ج اَللہُ یَعْلَمُھُمْ ط وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ‘‘ جہاد کے لیے حکم دیا کہ تیاری کرو اور تم مظلوم نہیں بنوگے، بااقتدار بنو گے، ظالم تم پر مسلّط نہیں ہوگا، ہم نےجہاد چھوڑدیا، اللہ نے ہمیں گھسیٹ لیا، عزت بھی ختم ‘ ذلت آگئی، راحت بھی ختم‘ مصیبت آگئی، اور جوکچھ تھا وہ سب کچھ ہم سے چھین لیا گیا، جوسلطنتیں تھیں چھین لیں۔ 
یہ اللہ پاک نے جو تم سے وعدہ کیا ہے کہ تمہیں جنت ملے گی ’’وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا‘‘ یہ اللہ کا وعدہ ہے سچّا، یااللہ! وہ پہلی بات کوئی کم تھی جو اللہ کی بات، قرآن کی بات اور قرآن سے بڑی کوئی بات ہے؟! اس میں کوئی شک کرتا ہے؟ انسان شک کرے تو کافر ہوجائے، لیکن اللہ پاک نے اس کی اورتائید فرمائی ، ’’وَعْدًا عَلَیْہِ‘‘ یہ اللہ کا وعدہ ہے، ذمہ ہے اللہ پر اور پھر فرمایا : ’’حَقًّا‘‘ سچّا وعدہ ہے، پھر فرمایا: ’’فِی التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْاٰنِ‘‘، یہ وعدہ جو ہے اللہ کا تمام آسمانی کتابوں کے اندر ذکر ہے، تورات میں بھی ذکر ہے، انجیل میں بھی ذکر ہے، قرآن میں ذکر ہے، یااللہ! تو گویا کہ تمام وحی اور آسمانی کتابیں شاہد ہیں اس بات کی کہ اللہ پاک نے وعدہ سچّا کرلیا مسلمانوں سے ، فرمایا : ’’فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمْ‘‘، اب تم خوش ہوجاؤ ہمارے سودے کے ساتھ کہ کتنا بڑا سودا ہے، جب صحابہ کرامؓ نے سنا تو چیخ اُٹھےکہ ’’تجارۃٌ رابِحۃٌ، تجارۃٌ رابِحۃٌ‘‘ کتنی بڑی تجارت، عظیم تجارت ہے، اَجی وقت کا بزنس ہے، کتنا کامیاب! ’’فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ‘‘، جو تم نے اللہ سے سودا کیا، وَذٰلِکَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ، یہ ہے بڑی کامیابی۔

اسلام کے معنی کا حاصل
 

اسلام کا معنی اب ظاہر ہوگیا کہ اپناسب کچھ ہم نے اللہ کو دے دیا، اللہ نے خرید لیا، ہم نہ جان کے مالک، نہ مال کے مالک، یہ ہماری حماقت ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم مالک ہیں ۔ اب کوئی یہ بات نہ کرے کہ اب زمانہ ایسا آگیا کہ ہم سے جان کا بھی مطالبہ ہے، تھوڑا بہت مال کا مطالبہ کبھی کبھی ہوتا ہے کہ کچھ زکوٰۃ دے دو، کچھ خیرات دے دو،کچھ صدقات دے دو،کچھ تبرّعات دے دو، کچھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ اور وقت بھی، کیا وقت ہے؟ بہت ہوا، اللہُ أکبر اللہُ أکبر اور حَیَّ علی الصّلاۃ، حَیَّ علی الصلاۃ، آجاؤ! نماز کی طرف، سب کام کرو، پھر جاؤ، بس جاکر کےچار رکعت پڑھ لو، پانچ نمازوں میں دعوت دی ہے، کتنا وقت لگتا ہے پانچ نمازوں میں چو بیس گھنٹے میں؟ سارا ملا لو تو ایک گھنٹہ بھی نہیں بنتا،اور زیادہ نوافل تمہاری حضوری کی شان اور زیادہ کردو، پانچ نمازیں ہیں، اتنا وقت تو نہیں، اور بہت کچھ کیا، تیر مارا تو حج پر چلے گئے، آخر میں،کچھ زمزم پی لیا، کچھ طواف بھی کرلیے اور کچھ حج کرلیا، بس اور کچھ تم نے کونسا وقت صرف کرلیا؟ یہ اس کا کرم ہے کہ یہ بھی مقبول ومنظور ہے۔ تو غرض کہ گویا اسلام کے معنی کہ ہم نے اپنا سب کچھ اپنی سمجھ کے مطابق اللہ کے حوالے کردیا ، اس لیے اس دین کا نام دینِ اسلام ہوگیا۔

سورۂ توبہ کی ایک اور آیت کی روشنی میں اسلام کے معنی کی وضاحت    

ایک اورجگہ قرآن مجید میں ایک اور آیت ہے، جو اس سے بھی واضح ہے، فرمایا: ’’قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَاؤُکُمْ وَاَبْنَاؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللہُ بِاَمْرِہٖ ط وَاللہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ‘‘ بڑا عجیب اللہ نے وعظ فرمایا،فرمایا کہ آپ علی العموم اعلان کردو، کہو ان مسلمانوں سے، انہوں نے سارے مراحل دیکھ لیے، ساری کائنات دیکھ لی، پھر بھی اعلان کردو، ’’اِنْ کَانَ اٰبَاؤُکُمْ وَاَبْنَاؤُکُمْ‘‘ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے ’’وَاَزْوَاجُکُمْ‘‘ تمہاری بیویاں، تمہاری بہو ’’وَعَشِیْرَتُکُمْ‘‘ تمہارا کنبہ قبیلہ ’’وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا‘‘ تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں’’وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا‘‘ تمہارا وہ بزنس جس کو تم نے بیچا ہے، کہیں نقصان نہ ہوجائے ’’وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ‘‘ تمہارے وہ محلات اور قصور جن کو تم بہت پسند کرتے ہو ’’اَحَبَّ اِلَیْکُمْ‘‘ اللہ اور رسول سے زیادہ محبوب ہے اور ان کی محبت مانع آتی ہے دین کے کام کرنے سے کہ یہ میرا بیٹا ہے، یہ کیا کرے گا؟ میرا باپ بوڑھا ہے، یہ کیا کرے گا؟ میری بیوی تنہا رہ جائے گی، کہیں ایسا نہ ہو کہ میں مرجاؤں، جہاد کروں، شہید ہوجاؤں، یہ بیوہ ہوجائے گی، کیا کرے گی؟ اور میرا اپنا قبیلہ کیا کہے گا؟ یہ کنبے یہاں رہ جائیں گے، فرمایا کہ سب چیزیں اگر خدا اور رسول سے مقدم ہیں ’’فَتَرَبَّصُوْا‘‘ پھر اس انتظار کرو کہ تمہارا کوئی فیصلہ ہوجائے،اللہ تعالیٰ فاسق ونافرمان قوم کو توفیق نہیں دیتا۔ 
دنیا کے اندر جتنی چیزیں ہوتی ہیں یہی مانع ہوجاتی ہیں کہ بیوی ہے، باپ ہے، بیٹا ہے، کنبہ قبیلہ ہے، بھائی ہے، انڈسٹری ہے، تجارت ہے، مکانات ہیں، موٹریں ہیں، فرنیچر ہے، یہ راحتیں اور آسائشیں ہیں، اگر اللہ اور رسول سے زیادہ محبوب ہیں ’’فَتَرَبَّصُوْا‘‘ پھر اس کا انتظار کرو کہ ’’حَتّٰی یَاْتِیَ اللہُ بِاَمْرِہٖ ط وَاللہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ‘‘ جب یہ ہوگیا اور (دنیا کی چیزیں) زیادہ محبوب ہوگئیں، اللہ نے یہ کچھ کردیا، اب ذلیل ہو رہے ہیں، اب مسلمانوں کی پچاس قوّتیں ہیں ، سب ذلیل، سب رسوا، سب حیران،سب پریشان، اللہ نے مال بھی دیا، دولت بھی دی، حسن بھی دیا، ہمت بھی دی، لیکن یہ سب کچھ کیا ہوگیا۔ تو اب اسلام کا معنی واضح ہوگیا اور یہ ہمارے دین کی بنیاد ہے: ’’لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَادُّوْنَ مَنْ حَادَّ اللہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَلَوْ کَانُوْٓا اٰبَائَھُمْ اَوْاَبْنَائَھُمْ اَوْ اِخْوَانَھُمْ اَوْعَشِیْرَتَہُمْ ط اُولٰٓئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْاِیْمَانَ‘‘
غرض کہ بہت سی جگہ قرآن کریم میں اس موضوع کو واضح کیا گیا کہ مسلمان کے لیے کوئی چیز مانع نہ ہونا چاہیے، اللہ کی محبت سب پر غالب، نہ جان، نہ مال، نہ بیوی، نہ بچے، اسلام کی تاریخ میں کیا کچھ قربانیاں دی گئیں، تو اسلام کا معنی یہ ہوگیا کہ اپنا سب کچھ ہم نے اللہ کودے دیا، اللہ اس کا مالک ہے، بات سمجھے؟! اللہ نے ہمارے دین کا نام دینِ اسلام رکھا تو فرمایا :’’اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ‘‘ دین تو حق تعالیٰ کے نزدیک ’’الإسلام‘‘ ہے، یہ کامل دین ہے، اس میں کوئی کسر باقی نہیں ۔

 وآخرُ دعوانا اَنِ الحمد للہِ ربِّ العالمین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین