بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

لال مسجد انتظامیہ اور حکومت کے درمیان مذاکرات کیوں ناکام ہوئے؟

لال مسجد انتظامیہ اور حکومت کے درمیان مذاکرات کیوں ناکام ہوئے؟


اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد میں واقع جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے حالیہ المناک سانحہ کے موقع پر لال مسجد انتظامیہ اور حکومت کے مابین مصالحت کی وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے علماء کرام نے بہت کوششیں کیں اور مصالحتی فارمولا متفقہ طور پر طے ہوگیا‘ مگر اسے اچانک کالعدم کردیا گیا۔ مفتی اعظم پاکستان وصدر جامعہ دار العلوم کراچی حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم ان مذاکرات میں شروع سے آخر تک اہتمام کے ساتھ شریک تھے‘ حضرت نے اپنے مشاہدات کی روشنی میں اپنے جمعہ کے خطاب میں پیش آمد ہ حالات اور ان کی وجوہ واسباب پر مشتمل فکر انگیز اور چشم کشا تفصیلات بیان فرمائیں جو نذرِقارئین ہیں۔

بزرگان محترم وبرادرانِ عزیز!
مجھے معلوم ہے کہ آپ حضرات لال مسجد سے متعلق حالات جاننے کے لئے بے تاب ہیں اور یہ جو خونی کھیل کھیلا گیا ہے اس سے رنجیدہ اور بے تاب ہوں گے۔ یقینا پورا پاکستان بے تاب ہے۔ اخبارات‘ ریڈیو‘ ٹیلی ویژن کے ذریعے واقعات بڑی حد تک آپ حضرات کے سامنے آچکے ہیں۔۔لیکن ہمیں میڈیا سے شکایت ہے اور اپنے ذرائع ابلاغ سے بھی شکایت ہے کہ حق بات کو جتنا کھول کربیان کرنا چاہئے اتنا کھول کربیان نہیں کرتے‘ بات کو دوٹوک انداز میں واضح نہیں کرتے‘ بلکہ گنجلک چھوڑ دیتے ہیں اور بعض ذرائع ابلاغ نے تو اس سانحہ کے موقع پر معاندانہ روش اختیار کر رکھی ہے‘ خاص طور پر علماء‘ دین دار طبقہ اور باوقار شخصیات کے خلاف ایسی روش اختیار کررکھی ہے جیسے کسی دشمن کے خلاف ہوتی ہے‘ یہ ایک المناک صورت حال ہے‘ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے نجات عطا فرمائے۔
اللہم انا نجعلک فی نحورہم ونعوذبک من شرورہم۔
اس صورت حال کی فریاد ہم اللہ کے سوا کسی سے نہیں کرسکتے‘ کیونکہ ہمارے پاس طاقت نہیں‘فوج نہیں‘ اسلحہ نہیں اور اسلحہ کا استعمال اپنی حکومت کے خلاف جائز بھی نہیں‘ ان حالات میں سوائے اس کے کوئی اور چارہٴ کار ہمارے پاس نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی سے فریاد کریں اور اسی سے پناہ طلب کریں اور اپنے اپنے گناہوں سے اللہ تعالیٰ کے حضور صدق دل سے توبہ کریں‘ کیونکہ جتنے مصائب آتے ہیں‘ جتنی مشکلات اور مصبتیں آتی ہیں وہ خود انسانوں کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں‘ ہمارے پاکستان میں سرکاری سطح سے لے کر نچلی سطح تک جس بڑے پیمانے پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہورہی ہے تو ایسے حالات میں جو بھی حوادث اور سانحات پیش آجائیں وہ غیر متوقع نہیں۔ ابھی بارش اور ہواؤں کا طوفان چل ہی رہا تھا اور ملک کا تقریباً آدھا حصہ اس میں تباہی کا شکار ہورہا تھا کہ یہ دوسرا مسئلہ لال مسجد کا کھڑا ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ میں باربار کہہ چکا ہوں کہ رسول اللہ ا نے یہ سارے فتنے پہلے ہی بتا دیئے تھے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب ایک فتنہ ختم نہیں ہوگا‘ دوسرا آجائے گا‘ دوسرا ختم نہیں ہوگا کہ تیسرا‘ فتنے آئے دن‘ لگاتار ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کرآئیں گے۔ ۱۲/مئی کو بے گناہوں کے خون کی جو ہولی کھیلی گئی ہے جسے پوری دنیا میں ٹی وی نے نشر کیا سب نے دیکھ لیا۔ حتی کہ قتل کرنے والے لوگوں کے چہرے بھی دکھا دیئے گے‘لیکن آج تک ان میں سے کوئی نہیں پکڑا گیا۔ گویا کہ کچھ ہوا ہی نہیں‘ جبکہ لال مسجد والوں نے مطالبات بہت اچھے کئے تھے جو ہمارے دین اور ایمان کا تقاضہ ہے‘ لیکن طریقہ جو انہوں نے اختیار کیا وہ بزرگوں اور علماء کے طریقے کے خلاف تھا۔سب نے ان کو اس غلط طریقہ کار کو اپنانے پر ٹوکا‘ سمجھایا مگر وہ نہیں مانے۔لیکن پھر بھی ان کا جرم کیا تھا؟ اور طریقہ جو غلط تھا وہ کیا تھا؟ بچوں کی لائبریری پر انہوں نے جو قبضہ کیا تھا۔ ہم مانتے ہیں کہ وہ غلط تھا بدکاری کے اڈے کو چلانے والی ایک خاتون کو انہوں نے پکڑا تھا‘ اس کے خلاف مطالبہ کرنا اور جو کوشش ہوسکتی تھی جائز ذرائع سے‘ قانونی طریقے سے ایسی کوششیں کرنا برحق تھا‘ لیکن اسے خود پکڑنا غلط تھا۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ برسوں سے اس محلہ کے لوگ پولیس اور انتظامیہ کے پاس شکایتیں لے کرجارہے تھے‘ مگر کوئی شنوائی نہیں ہورہی تھی‘ اڈہ معمول کے مطابق چل رہا تھا‘ محلے کے لوگ پریشان تھے‘ شرفاء پریشان تھے‘ رات میں کتنے ہی بدکاری کرنے والے یہاں آتے تھے‘اور ایک لڑکی نے تو آکر اپنی یہ دردناک داستان بھی سنائی تھی کہ: ”اس کو دھوکے سے اس اڈے پر لے جایا گیا پھر زبردستی اس کی عزت لوٹی گئی اور اس کے برہنہ فوٹو اتارے گئے اور اس کو کہا گیا کہ: اب تم ماں باپ کوبتاؤگی تو فوٹو ہم شائع کردیں گے‘ اور پھر اس کو بلیک میل کرتے رہے اور بار بار اس کی عزت لوٹنے کے لئے بلاتے رہے اور یہ بیچاری مجبور تھی ‘ فریاد لے کر جامعہ حفصہ میں آئی“۔ لیکن ان تمام کے باوجود ہم کہتے ہیں کہ شمیم نام کی عورت کو انہوں نے پکڑا‘ یہ غلط تھا۔ یہ کام ان کا نہیں تھا‘ اگر حکومت نہیں پکڑ رہی تھی تو آپ اخبارات میں دیتے کچھ اور طریقہ اختیار کرتے‘ لیکن یہ کام آپ کی حد سے باہر تھا‘ اس سے فتنہ پھیلتا‘ لڑائی ہوتی‘ اور حکومت سختی پر آمادہ ہوتی اور حکومت جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے وہ آپ کو معلوم ہے ! پھر نتیجہ جو کچھ نکلنا تھا وہ نکلا۔ تیسرا کام انہوں نے یہ کیا کہ مساج (Massag) سینٹر‘ (مخلوط مساج سینٹر جس میں بدن پر مالش کی جاتی ہے)‘ مالش کرنے والی کون ہیں؟ چینی عورتیں اور کروانے والے کون ہیں؟ مسلمان مرد‘ اسلام آباد کے مرد‘ تقریباً ننگے ہوکر یہ مساج ہوتا ہے۔ تو یہ قانون کے بھی خلاف تھا‘ آئین پاکستان کے بھی خلاف تھا اور دینی تعلیمات وروایات کے بھی خلاف تھا‘ ہر اعتبار سے جرم تھا‘ جنہوں نے اس سینٹر کو لائسنس دیا تھا‘ انہوں نے بھی جرم کیا تھا‘ لال مسجد والوں کی غلطی بس یہ تھی کہ وہ ان چینی عورتوں کو پکڑ کر اپنے پاس لے آئے اور برقعہ پہنا کر واپس کردیا۔ چوتھا کام یہ ہوا کہ پولیس کے آدمیوں نے لال مسجد کے طلبہ کو گرفتار کیا‘ تو انہوں نے جواباً پولیس والوں کو گرفتار کیا۔۔یہ چوتھی غلطی تھی۔ تو غازی برادران کی کل غلطیاں کتنی ہوئیں؟ ایک یہ کہ شمیم کو پکڑ کرلائے‘ مگر مارے پیٹے بغیر ان کو واپس کردیا‘ دوسری یہ کہ چینی مساج سینٹر کی خواتین کو لے کر آئے‘ اور ان کو مارے پیٹے بغیر واپس کردیا‘ تیسری یہ کہ اپنے طلباء کو چھڑانے کے لئے پولیس کے بعض لوگوں کو پکڑا‘ چوتھی غلطی یہ تھی کہ لائبریری پر قبضہ کیا‘ یہ چاروں غلطیاں ہم مانتے ہیں۔ ہم ان کی کوئی تاویل نہیں کرتے‘ ہم ان کو بتاتے رہے کہ تم غلط کررہے ہو‘ تمہیں یہ حق نہیں پہنچتا‘ حکومت کے اندر حکومت قائم کرنا‘ ریاست کے اندر ریاست قائم کرنا‘ یہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا ہے‘ اس کو شریعت جائز نہیں کہتی۔ عجیب بات ہے آج مغربی دنیا‘ ہمارے قلم کار‘ کالم نگار‘ صحافی‘ اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ یہ کہہ رہے ہیں کہ دیکھئے مدرسے بدنام ہوگئے‘ مدرسے ایسے ہوتے ہیں‘ لاقانونیت پھیلانے والے ہوتے ہیں‘ اسلحہ بندی کرنے والے ہوتے ہیں‘ زبردستی کرنے والے ہوتے ہیں‘ تشدد پسند ہوتے ہیں‘ انتہاء پسند ہوتے ہیں۔ تو مدارس کے بارے میں دنیا میں کیا تصور قائم ہوگا؟ مجھ سے ایک ٹی وی والوں نے اسی قسم کا ایک سوال کیا‘ تو میں نے کہا کہ: مجھے تعجب ہے کہ آپ یہ بات کہہ رہے ہیں‘ حالانکہ یہ بات آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ جامعہ حفصہ کی ان چار باتوں کو سب نے مل کر غلط کہا‘ جس پر ذرائع ابلاغ گواہ ہیں۔ وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے جو مدارس ملحق ہیں‘ ان میں جامعہ فریدیہ (اور طالبات کے لئے جس کے کیمپس کا نام جامعہ حفصہ تھا) ایک بڑا مدرسہ تھا‘اس میں اور اس کی شاخوں میں تقریباً دس ہزار طلباء وطالبات زیر تعلیم تھیں‘ لیکن وفاق المدارس نے صرف اس وجہ سے اس مدرسہ کے الحاق کو ختم کردیا کہ وفاق المدارس ان کی اس لاقانونیت کو صحیح نہیں سمجھتا تھا‘اس انتہاء پسندی کو صحیح نہیں سمجھتا تھا‘ اس تشدد کو جائز نہیں کہتا تھا‘ چنانچہ وفاق المدارس نے صرف اسی وجہ سے اس مدرسے کا رجسٹریشن منسوخ کردیا‘ اساتذہ‘ طلبہ وطالبات کی درخواستیں اور فون مسلسل آتے رہے‘ کہ ہمارا سال ضائع ہونے سے بچا لیجئے‘ لیکن ہم نے کہا نہیں‘ حالانکہ کارروائی جامعہ حفصہ میں ہو رہی تھی‘ لیکن کاروائی کرنے والے چونکہ مولانا عبد العزیز صاحب تھے‘ وہی جامعہ حفصہ کے بھی مہتمم تھے اور جامعہ فریدیہ کے بھی‘ اس لئے ہم نے جامعہ فریدیہ کے الحاق کو بھی منسوخ کردیا اور ان کے طلباء وطالبات کو بھی سالانہ امتحان میں شامل کرنے سے انکار کردیا‘ یہ ایک بہت مشکل فیصلہ تھا مگر ہمیں کرنا پڑا۔ وفاق المدارس نے اپنا اعلامیہ بار بار شائع کیا‘ یہ سب باتیں جو میں غازی برادران کی غلطیوں کے بارے میں کہہ رہا ہوں‘ وفاق المدارس نے اپنے اعلامیہ میں بیان کردی تھیں‘ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وفاق المدارس اپنے کسی مدرسے کی انتہاء پسندی کو‘ دہشت گردی کو جائز قرار نہیں دیتا‘ نہ صرف یہ کہ جائز قرار نہیں دیتا‘ بلکہ ایسے کسی مدرسے کے الحاق کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے‘ جس کے اندار انتہاء پسندی ہو‘ یا تشدد کا راستہ اختیار کیا جارہا ہو یا قانون کو ہاتھ میں لینے کا ڈھنگ اختیار کیا جارہاہو۔ پھر نہ صرف وفاق المدارس بلکہ‘ پورے ملک کے تمام مدارس اور علماء نے‘ بلکہ تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے جامعہ حفصہ کے منتظمین کے اس غلط طریقہ کار کی مذمت کی‘ اس کو غلط کہا‘ کیا یہ اس بات کی کھلی دلیل نہیں کہ تمام مدارس دینیہ اور تمام علماء کرام‘ انتہاء پسندی کے خلاف ہیں‘ تشدد کے خلاف ہیں‘ لاقانونیت کے خلاف ہیں‘ قانون کو ہاتھ میں لینے کے خلاف ہیں۔ اس واقعہ سے تو پوری دنیا میں یہ پیغام جانا چاہئے کہ تمام مدارس اور علماء انتہاء پسندی اور دہشت گردی اور تشدد کے راستہ کو غلط سمجھتے ہیں اور اتنا غلط سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے پرانے ساتھیوں کو بھی اپنے وفاق سے الگ کردیا۔ میں نے ٹی وی والوں سے کہا کہ: آپ دنیا کو یہ پیغام دیجئے اور جو زمینی حقیقت ہے‘ اسے واضح کیجئے۔ لیکن ہماری حکومت نے یہ کیا کہ لال مسجد کے حضرات کے ان چار مطالبات میں سے کسی ایک مطالبہ پر بھی کوئی کاروائی نہیں کی‘ آج تک پاکستان کے لوگوں کو اس بات کا انتظار ہے کہ کسی طرح یہ معلوم ہو کہ آنٹی شمیم کے اڈے کی سرپرستی جو حکام برسوں سے کررہے تھے‘ وہ کون سے حکام تھے؟ جنہوں نے اس اڈے کو چلانے کی اجازت دے رکھی تھی۔اس میں کون لوگ حرام کاری کے لئے آتے جاتے تھے ؟ کیا وہ سب بے گناہ ہیں؟ معصوم ہیں؟ انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا؟ کیا جرم صرف انہوں نے کیا جو شمیم کو اپنے پاس امن وامان کے ساتھ لے کر آئے اور اس سے توبہ کراکر اس کو واپس کردیا۔
بتایئے! اس میں جرم کس کا زیادہ ہے؟ اڈہ چلانے والوں کا؟ یا جامعہ حفصہ کی انتظامیہ کا؟
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد کے اندر مسجدیں شہید کی گئیں‘ اللہ کے گھروں کو شہید کیا گیا۔ تو یہیں سے لال مسجد وجامعہ حفصہ کی انتظامیہ نے تحریک کا آغاز کیا‘ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے اس ایک طرفہ رویہ نے انہیں تحریک چلانے پر مجبور کیا۔ ہماری حکومت کا طریقہ ٴ کار یہ ہے کہ جب تک لاقانونیت کا راستہ اختیار نہ کیا جائے‘ تو ڑپھوڑ نہ کی جائے‘ اس وقت تک یہ کوئی مطالبہ سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے‘ یہ بات ہم نے وزیر اعظم سے بھی کہی ‘ بلکہ مشترک میٹنگ میں بھی کہی تھی‘(جس میں صدر‘ وزیر اعظم ان کے کئی وزراء اور فوجی جنرل بھی شریک تھے) کہ حکمران جس طریقہ کو اپناتے ہیں اگر یہ طریقہ رہے گا تو کبھی ملک میں امن وامان قائم نہیں ہوسکتا‘ آپ سنجیدہ گفتگو میں ہماری بات سنتے نہیں‘ دلائل کی بات مانتے نہیں‘ قرآن وسنت کی بات کو کان دھر کر سننے کے لئے تیار نہیں‘ آئین اور قانون کی کوئی بات آپ سننے کے لئے تیار نہیں‘ اپنی من مانی اور خلاف اسلام پالیسیوں پر آپ ڈٹے رہیں گے تو نتیجہ کیا ہوگا؟ نتیجہ یہ ہوگا کہ عوام اٹھ کھڑے ہوں گے‘ جذباتی اور جو شیلے لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے‘ قانون اپنے ہاتھ میں لے لیں گے پھر وہ نہ ہماری سنیں گے‘ نہ آپ کی سنیں گے۔ چنانچہ جامعہ حفصہ میں یہی ہوا‘ مسجدیں شہید کی گئیں‘ لوگوں نے اس پر احتجاج کیا‘ ذمہ داران سے باتیں کیں‘ علماء نے بھی افسران بالا سے ملاقاتیں کیں‘ مگر ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی‘ تو جامعہ حفصہ کی انتظامیہ نے جواباً کہا کہ: تم نے ہمارے اللہ کے گھروں کو شہید کیا ہے‘ ہم تمہاری لائبریری پر قبضہ کرتے ہیں۔ جامعہ حفصہ کے حضرات کی بات صحیح تھی‘ طریقہ غلط تھا‘ علماء کرام نے اور ان کے بزرگوں نے‘ بلکہ وفاق المدارس العربیہ کے ارکان نے جاکر سمجھایا‘ لیکن وہ یہ کہتے تھے کہ: آپ یہ بتلایئے! کہ کیا یہ حکمران ایسے ہیں کہ سختی کے بغیر بات سنیں؟ ماننے کا مسئلہ تو بعد کی بات ہے سننے کے لئے تیار نہیں ہیں‘ آپ بتایئے! کہ ہم کیا کریں؟ ہم نے کہا کہ: آپ صبر سے کام لیں‘ اللہ سے دعا مانگیں اور قانونی راستے سے نہ ہٹیں‘ لیکن وہ یہ بات ماننے کے لئے تیار نہ ہوئے۔ اب سوال یہ کہ حکومت کے نزدیک ان کے کتنے جرائم تھے؟ چار جرائم تھے کہ شمیم کو پُر امن طریقے سے لے کر آئے اور پھر پُر امن طریقہ سے واپس پہنچادیا۔ چینی عورتوں کو بھی پُر امن طریقے سے لے کر آئے اور پُر امن طریقہ سے واپس کردیا‘ ان کی خاطر مدارات بھی کرتے رہے۔ چلڈرن لائبریری پر قبضہ کیا‘ اس میں کوئی تخریب کاری نہیں کی‘کوئی عمارت کو نقصان نہیں پہنچایا‘ کسی کو تکلیف نہیں پہنچی‘ ان تمام کاموں میں کسی کو ایک کانٹا تک نہیں چبھا‘ کسی ایک کو تھپڑ تک نہیں لگایا‘ ڈنڈوں کا شور تو پوری دنیا میں ہوگیا کہ۔ ڈنڈابردار شریعت ! ڈنڈابردار شریعت۔ لیکن کوئی ایک مثال بتلایئے کہ ان طلباء نے کوئی ڈنڈا استعمال کیاہو۔ ہمیں بتایاجائے کہ ان چار میں سے کوئی ایک جرم بھی ایسا ہے جس کی سزا پاکستان کا قانون سزائے موت تجویز کرتا ہو؟ لیکن قانون سے بالا تر ہو کر ماروائے عدالت صرف اس جرم پر سینکڑوں طلباء وطالبات اور حفاظِ قرآن کا خون کردیا گیا‘ بتایئے! یہ کہاں کا انصاف ہے؟ اور یہاں کراچی میں ۱۲/ مئی کو خون کی ہولی کھیلی گئی‘ چالیس یا اس سے زیادہ لاشیں گرادی گئیں‘ قتل کرنے والوں کو دنیا نے دیکھ لیا‘ ٹی وی نے دکھلادیا‘ آج تک کوئی قاتل گرفتار نہیں ہوا‘ یہ کہتے ہیں کہ جامعہ حفصہ کے لوگوں نے حکومت کی رِٹ (Rit) کو چیلنج کیا تھا‘ تو کیا چالیس لاشیں گرانے والوں نے تمہاری رٹ کوچیلنج نہیں کیا تھا؟ یہاں اپنی رٹ کی حفاظت کی تمہیں کوئی ضرورت محسوس نہ ہوئی؟ لیکن چونکہ کراچی کے ان مظلوموں کی کوئی داد رسی کرنے والا نہیں تھا‘اور قاتل غنڈوں کی پشت پناہی کرنے والی‘ غیرملکی طاقتیں تھیں‘ اس واسطے تمہیں نہ ان مظلوم چالیس سے زیادہ لاشوں پر رحم آیا اور نہ ان ظالم قاتلوں پر تمہیں کچھ غصہ آیا اور نہ تمہیں اپنی رٹ کی کوئی پرواہ ہوئی کہ تمہاری رٹ کو چیلنج کیاجارہاہے۔ آج تمہاری رٹ کو نیٹو کی فوجیں چیلنج کررہی ہیں‘ بے گناہ پاکستانی مسلمانوں پر وہ بمباری کررہی ہیں‘ اور میزائل برسارہی ہیں‘ کتنے پاکستانی مسلمان شہید ہوچکے ہیں‘ ہوائی جہازوں سے بھی بمباری کی ہے۔ وہاں تمہیں اپنی رٹ کی فکر نہیں ہوئی‘ اس لئے کہ تم ان کی رٹ کا تحفظ کررہے ہو اور تم اپنی پاک سرحدوں پر اپنی رٹ سے دست بردار ہو چکے ہو‘ وہاں تمہیں غیرت نہیں آتی‘ تمہیں اپنے قانون کی عزت پامال ہوتی نظر نہیں آتی‘ ہاں! اپنے مظلوم بھائیوں ‘ بہنوں اور بیٹوں‘ بیٹیوں کے اوپر تمہاری بہادری چلتی ہے‘ بے گناہوں پر‘ عورتوں پر‘ بچوں پر‘ نہتوں پر‘ تمہاری بہادری جوش مارتی ہے۔ وہ پاکستانی فوج جس نے اللہ کے فضل وکرم سے ۱۹۶۵ء کے جہاد میں اپنی طاقت‘ اپنی مہارت‘ اپنی بہادری‘ اپنی قربانی‘ اپنے ایمان کا لوہا منوایا تھا۔ اور آج تک الحمد للہ! ہماری فوج کے بارے میں یہی تأثر ہے‘ کہ مجموعی طور پر ہماری فوج ایمان سے سرشارہے‘ اور دنیا کی بہترین فوجوں میں داخل ہے۔اس فوج کو پاکستان کے عوام نے اپنا پیٹ کاٹ کر‘ ٹیکس دے دے کر پالا اور نوازا ہے‘ یہ ہماری امانت ہے‘ ہماری پونجی ہے‘ ہماری طاقت ہے‘ ہماری سرحدوں کی محافظ ہے‘ ہمیں اس پر فخر ہے‘ لیکن تم ہماری اس فوج کو بزدلانہ‘ ظالمانہ اور احمقانہ مہمات میں استعمال کررہے ہو‘ ہماری اس بہترین فوج کو جو قوم نے دشمنان اسلام کے لئے تیار کی تھی‘ جس فوج کو پاکستان کی حفاظت کے لئے تیار کیا گیا تھا‘ آج تم اس بہترین فوج کودشمنوں کے حکم پر چلانے کی فکر میں ہو اور اس کے آٹھ سو سے زیادہ جوانوں اور افسروں کا خون کروا چکے ہو‘ آج تمہاری بہادری کشمیر میں نہیں چلتی‘ کارگل سے ساری فوجیں لے کر آگئے‘ نہ تمہاری بہادری پاکستان کی مغربی سرحدوں کی حفاظت پر چلتی ہے کہ تم نیٹو کی فوجوں کو پاکستان کی مقدس سرحدوں کو روندنے سے روک سکو‘ تمہاری بہادری اب چل رہی ہے‘ باجوڑ کے مدرسہ پر‘ وہاں کے مظلوم طلباء کو قتل کرنے پر‘ تمہاری بہادری اب چل رہی ہے ‘ جامعہ حفصہ کے مدرسہ پر‘ وہاں کے مظلوم طلباء وطالبات پر‘ یہ تمہاری بزدلانہ‘ ظالمانہ اور سفاکانہ حرکتیں ہیں‘ تم پھر یہ کہتے ہو کہ امن وامان قائم رہنا چاہئے‘ امن وامان پامال کرنے کے سارے راستے تو تم اختیار کررہے ہو‘ پھر ہم سے کہتے ہو کہ امن وامان قائم کرنے میں علماء اپنا کردار ادا کریں۔ حکومت کی ان غلط حرکتوں کے باوجود امن وامان کو قائم کرنے کے لئے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے قضیہ میں علماء اپنا کردار ادا کرنے اتوار کو اسلام آباد گئے‘ پہلے تو چوہدری شجاعت حسین سے بات ہوئی ان کو ہم (وفاق المدارس العربیہ کے ارکان) نے اپنی تجاویز دیں‘ انہوں نے کہا کہ: یہ بات میں صدر تک پہنچاتا ہوں‘ اور ہم نے جو فارمولا پیش کیا تھا‘ وہ ان کی سمجھ میں آگیا اور کہا کہ: میں حکام بالا سے بات کرتا ہوں۔ رات کو ہمارے پاس وفاقی وزیر مذہبی امور اعجاز الحق صاحب آگئے‘ ان کے سامنے بات رکھی‘ بالآخر تھوڑی سی رد وقدح کے بعد وہ بھی قائل ہوگئے کہ فارمولا ایسا ہے کہ اس پر عمل ہوسکتا ہے‘ حکومت کی رٹ بھی برقرار رہے گی‘ قانون کا احترام بھی برقرار رہے گا اور کشت وخون سے بھی بچ جائیں گے اور معاملہ ختم ہوجائے گا‘ مگر انہوں نے کوئی وعدہ نہیں کیا‘ بلکہ صرف یہ کہا کہ: وزیر اعظم سے ہم آپ کی ملاقات کراتے ہیں‘ تو میں نے اعجاز الحق صاحب سے کہا کہ: یہ بتلایئے کہ! وزیر اعظم فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ: ”سو فیصد وہ فیصلہ کی پوزیشن میں ہیں“۔ انہوں نے اگلے دن پیر کے روز‘ وزیر اعظم سے ہمارے وفد کی ملاقات کرادی‘ وہاں بھی وہ فارمولا رکھا گیا‘ اس میں انہوں نے اپنی مشکلات بیان کیں جو اعجاز الحق صاحب بھی بتارہے تھے‘ مگر ان سب مشکلات کا حل طے کرلیا گیا‘ وزیر اعظم کے ساتھ اس میٹنگ میں طے ہوگیا کہ عبد الرشید غازی کو گرفتار نہیں کریں گے (کیونکہ اس نے ٹیلیفون پر ہم سے باربار کہا کہ میں جان دے دوں گا مگر گرفتاری نہیں دوں گا)۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ مولانا عبد العزیز صاحب کو گرفتار کرکے جس طریقہ سے ان کی بے عزتی کی گئی اور جس انداز سے ان کی PTV پر تضحیک کی گئی‘ اور طلباء کو گرفتار کرکے ان کی قمیص اتاراتار کر‘ ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر‘ ذلیل رسوا کرکے ان کو ٹی وی پر دکھا یا گیا‘ اس وجہ سے وہ اس بات پر جم گئے تھے کہ: ”ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے“۔ عبد الرشید غازی مرحوم نے فون پر مجھ سے باربار کہا کہ میں گرفتاری دینے کے لئے تیار نہیں ہوں‘ ہرگز تیار نہیں ہوں‘ میں جان دے دوں گا‘ گرفتاری نہیں دوں گا۔ البتہ اس کے لئے تیار ہوں کہ مجھے‘ میری بیوی‘ بچوں کو‘ میرے ضروری سامان سمیت میرے گاؤں میں پہنچادیا جائے‘ میں جامعہ حفصہ کو بھی چھوڑتا ہوں‘ جامعہ فریدیہ کو بھی چھوڑتا ہوں‘ لال مسجد کو بھی چھوڑتا ہوں ‘ چلڈرن لائبریری کو بھی چھوڑتا ہوں‘ جتنا اسلحہ ہے‘ وہ بھی آپ کے سپرد کردوں گا‘ مجھے اپنے گھر جانے دیا جائے‘ البتہ جامعہ حفصہ کو اور جامعہ فریدیہ کو میں وفاق المدارس کی تحویل میں دوں گا‘ تاکہ مدرسوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے‘ مسجد محکمہٴ اوقاف سنبھال لے‘ وہ اس کا انتظام چلائے‘ چنانچہ یہ معاہدہ طے پایا‘ زبانی بات بھی ہوگئی اور وزیر اعظم نے کہا کہ: اس پر عمل شروع کیجئے‘ یہ ظہر کے بعد کا وقت تھا۔ پھر اس پر عملدر آمد کے لئے چوہدری شحاعت حسین صاحب اور وزیر مذہبی امور اعجاز الحق صاحب ‘ محمد علی درانی صاحب وزیر اطلاعات اور وزیر مملکت برائے اطلاعات ونشریات طارق عظیم اور ہمارا وفد گاڑیوں میں جلوس کی شکل میں لال مسجد کے قریب گیا‘ ممنوعہ علاقہ ہمارے لئے کھول دیا گیا‘ لیکن آگے جاکر جہاں سے لال مسجد جانے کا مرحلہ تھا‘ وہاں سے ہمیں پیدل جانا تھا‘ مگر رینجرز کا حاکم اعلیٰ (کون تھا وہ کس عہدہ کا آدمی تھا مجھے نہیں معلوم) اس نے آگے جانے سے روک دیا اور کہا کہ: آپ آگے نہ جائیں‘ وزیروں سے بھی کہہ دیا اور چوہدری شجاعت حسین سے بھی‘ اس کے انداز سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا اس کو معلوم ہی نہیں کہ ہمارا کوئی معاہدہ ہو رہا ہے‘ اس پر کوئی عملدر آمد ہونا ہے‘ اس کو اس معاہدہ سے کوئی سروکار معلوم نہیں ہوتا تھا‘ وہ کہہ رہا تھا: آگے نہیں جاسکتے‘ کیوں نہیں جاسکتے؟ کہا کہ رسک (Risk) ہے‘ (ہمیں یہ خطرہ ہے کہ وہ آپ کو یرغمال بنالیں گے) تو ہمارے ساتھ جو علماء کراچی سے گئے ہوئے تھے‘ انہوں نے کہا کہ: ہم یہ خطرہ قبول کرنے کے لئے تیار ہیں‘ اور ہمیں امید ہے کہ وہ ہمیں یرغمال نہیں بنائیں گے‘ آخر وہ ہمارے بھائی ہیں‘ ہم جاتے ہیں اور بات کرتے ہیں اور یہ ساری باتیں ان کو بتاتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ: نہیں‘ یہ نہیں ہوگا۔ ہم نے اپنے ساتھیوں کو اجازت دے دی تھی کہ اگر آپ اپنی ذمہ داری پر جانا چاہتے ہیں تو چلے جائیں‘ لیکن ہمارے بعض ساتھیوں نے راز داری سے آکر مجھ سے کہا کہ: ایک چیز کا خطرہ ہے کہ مسجد کے آس پاس‘ درختوں کے پیچھے سب جگہ یہ رینجرز کے اہلکار موجود ہیں‘ قوی اندیشہ یہ ہے کہ ان ہی میں سے کوئی ہمارے ان ساتھیوں پر فائر کرکے مار ڈالے گا اور الزام عبد الرشید غازی پر لگادیا جائے گا۔ یہ خطرہ واقعی توجہ طلب تھا‘ اس لئے ہم نے ان ساتھیوں کو یہ خطرہ مول لینے سے روک دیا اور طے پایا کہ قریب میں ایک مکان جو رینجرز کی تحویل میں تھا‘ اس میں بیٹھ کر مصالحتی فارمولے کی تحریر لکھیں گے اور طریقہٴ کار اسی اصول کے تحت طے ہوگا جو وزیر اعظم کے ساتھ میٹنگ میں طے پاچکا ہے‘ وزراء کے مشورہ سے مولانا زاہد الراشدی اور طارق عظیم وزیر مملکت برائے اطلاعات ونشریات نے یہ مسودہ تیار کیا‘ ایک ایک لفظ پر سب کا غور وفکر ہوا‘ مشورہ ہوا‘ جہاں پر جس کو جو تحفظات تھے‘ ان کو دور کیا گیا۔ اسی دوران عبد الرشید غازی کا ایک نمائندہ آگیا‘ اس کے ذریعہ مسلسل عبد الرشید غازی سے ٹیلیفون پر رابطہ کرتے رہے‘ ان کے فون کی بیٹری ختم ہوگئی تھی‘ باہر سے ایک فون اندر بھیجا گیا تاکہ ان سے اطمینان سے بات چیت ہوسکے‘ تمام باتوں سے انہوں نے بھی اتفاق کرلیا۔ البتہ عبد الرشید غازی مرحوم ہم سے فون پر مسلسل یہ اصرار کررہے تھے کہ آپ وزراء کو لے کر یہاں آجائیں‘ تاکہ میں اسلحہ دکھا دوں کہ میرے پاس کونسا اسلحہ ہے‘ کیونکہ مجھے یقین ہے کہ یہ لوگ مجھے یا تو مار دیں گے یا دھوکے سے گرفتار کر لیں گے اور بعد میں اسلحہ یہاں لاکر میڈیا کو دکھا دیں گے کہ یہ اسلحہ اندر سے برآمد ہوا ہے‘ آپ سے میری درخواست ہے کہ خدا کے لئے آپ یہاں تشریف لائیں‘ تاکہ میں اسلحہ دکھادوں ‘ لیکن وہاں جانے کا راستہ بند کردیا گیا تھا‘ ہمارے لئے بھی اور وزراء کے لئے بھی اور میڈیا کے لئے بھی۔ بالآخر معاہدہ تحریر ہوگیا‘ ساری بات طے ہوگئی‘ ہم نے بھی بڑی خوشی کا اظہار کیا اور اعجاز الحق صاحب تو یہاں تک کہنے لگے کہ آج اگر یہ مسئلہ حل ہوجائے تو میں دودن کے بعد عمرے کے لئے روانہ ہوجاؤں گا‘ایک ہفتے سے جو ذہنی پریشانی ہے‘ وہ ختم ہوجائے گی۔ اب اس متفقہ تحریر پر دستخط کرنے کا وقت آیا تو یہ حضرات نیچے یا اوپر ہی کے صحن میں چلے گئے‘ یہ ایک چھوٹا سا دو منزلہ مکان تھا‘ بالائی کمرے میں ہم تھے (جس میں مسودہ لکھا جارہا تھا) اب یہ حضرات تھوڑی دیر بعد اوپر آکر کہنے لگے کہ: ہمیں ایوانِ صدر جانا ہے اور صدر سے اس کی اجازت لینی پڑے گی‘ ہمیں تعجب ہوا کہ وزیراعظم نے بھری مجلس میں یہ فیصلہ کیا اور اسی فیصلہ کے مطابق یہ ساری تفصیلات لکھی گئیں‘ وزراء کی کمیٹی نے مسودہ ہمارے ساتھ مل کر طے کیا‘ چوہدری شجاعت حسین بھی اس پوری کارروائی میں شریک رہے وہ ہمارے ساتھ موجود ہیں‘ اب ایوانِ صدر سے اجازت لینے کی کیا ضرورت؟ جب کہ وزیر اعظم نے میٹنگ میں ایک بات یہ بھی کہی تھی کہ آج ہمارا صدر پرویز سے بھی اس معاملہ میں مشورہ ہوچکا ہے‘ عبد الرشید غازی صاحب بھی تیار ہو چکے تھے‘ اور اب ہم نے اس موضوع پر گفتگو شروع کی تھی کہ مسجد کے اندر طلبہ سارے بھوکے ہوں گے‘ ان کے لئے کھانے کا انتظام کرنا ہوگا۔ مدرسہ میں طالبات اور خواتین بھوکی ہوں گی‘ ان کے لئے بھی کھانے کا انتظام کرنا ہوگا‘ یہ بھی طے ہوگیا تھا کہ چار حکومتی ارکان اور چار افراد ہم‘ ان طالبات کو اپنی تحویل میں لیں گے اور انہیں محفوظ مقام پر منتقل کرکے ان کے سرپرستوں کے حوالے کردیں گے اور طلباء کو بھی یہی کمیٹی اپنی تحویل میں لے گی اور محفوظ مقام تک پہنچا دے گی۔ ان پر اگر کوئی مقدمہ ہوا تو دیکھا جائے گا اور جن پر کوئی مقدمہ نہ ہوا‘ انہیں چھوڑدیا جائے گا۔ البتہ جن پر اس واقعہ سے پہلے کا مقدمہ ہوگا تو انہیں نہیں چھوڑا جائے گا۔ اب یہ حضرات یہ کہہ کر صدر جنرل پرویز کے پاس چلے گئے کہ ہم آدھے گھنٹے میں واپس آجائیں گے۔ ہم دن بھر بے آرام رہے تھے اور اس سے پہلے والی رات بھی جاگتے رہے تھے‘ اب یہ اذیت ناک وقفہ بیچ میں آگیا۔ اور خطرہ ہونے لگا کہ: ایوانِ صدر میں کہیں گڑ بڑ تو نہیں ہوجائے گی‘ تقریباً ڈھائی گھنٹے بعد وہ واپس آئے اور جب وہ حضرات آئے تو ان کارنگ بدلا ہوا تھا‘ وہ ایک صفحے پر تین نکات لکھ کر لائے تھے‘ الفاظ تو خوبصورت تھے‘ جیسے کہ آج کل سرکاری لوگوں کے ہوا کرتے ہیں‘ لیکن حاصل ان کا یہ تھا کہ جن باتوں کی پیش کش عبد الرشید غازی کو کی گئی تھی‘ ان تمام باتوں سے انکار کردیا گیا تھا۔ مثلاً اس نئی تحریر میں پہلا نکتہ یہ لکھا تھا کہ: عبد الرشید غازی اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ باہر نکلیں گے‘ ان کو اور ان کے گھروالوں کو ان کے ذاتی سامان سمیت ”گھر“ میں رکھا جائے گا‘ ہم نے کہا کہ: کون سے گھر میں رکھا جائے گا؟ عبد الرشید غازی تو پہلے سے کہہ چکے ہیں کہ میں کسی نظر بندی کو قبول نہیں کروں گا اور کسی سرکاری گھر یا بنگلے میں نہیں رہوں گا‘ بلکہ اپنے گاؤں کے گھر میں چلا جاؤں گا‘ چنانچہ مصالحتی فارمولے میں یہ لکھا جا چکا تھا کہ: ان کو ان کے گاؤں کے گھر میں رکھا جائے گا‘ جب کہ اس مسودہ میں لکھا تھا کہ ”گھر“ میں رکھا جائے گا۔ہم نے پوچھا کہ کس گھر میں؟ طارق عظیم کہنے لگے کہ: کسی گھر میں رکھا جائے گا‘ تو ہم نے کہا کہ: لکھو ان کے گاؤں کے گھر میں رکھا جائے گا۔ کہنے لگے کہ: نہیں‘ صاحب! یہ نہیں ہوسکتا اور اس میں کوئی لفظ آگے پیچھے نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کوئی لفظ کم وبیش ہوسکتا ہے‘ کیونکہ یہ ہم وہاں سے حتمی منظوری کے بعد لے کر آئے ہیں اور اس تحریر کی فوٹو کاپی ایوانِ صدر میں محفوظ کرلی گئی ہے‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی‘ اور مجھ سے طارق عظیم نے چپکے سے کہا کہ: دیکھئے! ہمیں صرف آدھے گھنٹے کی مہلت دی گئی ہے‘ اس کے اندر ”ہاں“ یا ”نہ“ کروا لیجئے اور پھر کہا کہ: پندرہ منٹ گزر چکے ہیں‘ تو میں نے کہا کہ: دیکھئے! یہ وہ معاہدہ تو رہا نہیں جس پر ہم نے عبد الرشید غازی سے بات کی تھی اور ان کو بمشکل تیار کیا تھا‘ اب یہ ایک نئی چیز آئی ہے‘ اس کی ذمہ داری ہم قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں‘عبد الرشید غازی کا نمائندہ یہاں موجود ہے‘ اس کو مسودہ دکھا لیجئے‘ اگر یہ عبد الرشید غازی سے منظور کروالیتے ہیں تو بہت اچھی بات ہے۔ چنانچہ عبد الرشید غازی سے فون پر رابطہ کیا گیا‘ مگر انہوں نے اس نئی تحریر کو ماننے سے صاف انکار کردیا۔ ابھی ہماری یہ بات ہورہی تھی کہ ایک کمانڈر فوج یا رینجرز کا اللہ بہتر جانتا ہے‘ کمرہ میں آکے کھڑا ہوگیا‘ (چھوٹا سا کمرہ تھا‘ جس میں مشکل سے ہم چار علماء اور چار حکومتی نمائندے تھے)اور مخصوص انداز میں ہمیں اور اپنی گھڑی دیکھنے لگا۔۔ گویا وہ اشارہ کررہا تھا کہ براہ کرم آپ تشریف لے جائیں۔۔ چنانچہ ہم نے بھی آپس میں یہ طے کیا کہ ابھی یہاں ٹھہرنا بیکار ہے‘ ان کی نیتیں خراب ہیں‘ ہمارے بعض ساتھیوں نے جو نیچے زمینی منزل میں تھے‘ بعد میں بتایا کہ: ایک فوجی افسر نے آکر ان سے کہا کہ: آپ لوگ چلے جائیں‘ بہرحال نیچے کمرے میں ساتھی ہمارے منتظر تھے‘ ان کو ساتھ لیا اور گاڑیوں میں بیٹھ کر انتہائی رنج وغم کے ساتھ چلے آئے‘ اس وقت رات کے تقریباً ڈھائی بج چکے تھے‘ اب ہم نے طے کیا کہ جس ہوٹل میں ہمارا قیام ہے‘ وہاں پہنچ کر باہم مشورہ کریں گے۔۔ (اس ہوٹل میں اپنے قیام کا انتظام ہم نے خود کیا تھا‘ حکومت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں تھا‘ مصارف سفر وغیرہ کا انتظام بھی ہم نے خود کیا تھا)۔ امکانی طور پر امید کی ایک ہلکی سی کرن اب بھی باقی تھی‘ وہ یہ کہ عبد الرشید غازی کا نمائندہ وہاں چوہدری شجاعت حسین اور وزیروں کے پاس موجود تھا‘ وہ فون پر عبد الرشید غازی سے دوبارہ رابطہ کررہا تھا‘ عبد الرشید غازی ہمارے سامنے تک تو اس نئے مسودے سے حتمی طور پر سختی سے انکار کر چکے تھے‘ اور کہہ چکے تھے کہ یہ دھوکہ بازی ہے‘اس نئے مسودے کا حاصل سوائے اس کے نہیں کہ مجھے گرفتار کیا جائے‘ اور میں اسے قبول نہیں کرتا‘ میں گرفتاری کے مقابلے میں شہادت کو ترجیح دوں گا۔ اسی کے بعد وہاں سے مایوس ہوکر ہم واپس ہوئے تھے‘ لیکن یہ ہلکی سی امید ذہن میں آنے لگی تھی کہ شاید دونوں فریقوں کے درمیان نئے مسودے پر کوئی سمجھوتہ ہوجائے‘ ہم نے اپنے موبائلوں کو بند کردیا تھا‘ کیونکہ مختلف ٹی وی چینلز باربار رابطے کررہے تھے اور ہمیں خطرہ تھا کہ اگر ہم نے ابھی سے یہ کہہ دیا کہ مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں تو جو ایک ہلکی سی امید مصالحت کی دل میں آرہی ہے‘ اس کو نقصان پہنچے گا‘ اسی اندیشے کے پیش نظر ہم سب سے اپنے اپنے موبائل بند کردیئے اور یہ طے کیا کہ کوئی بھی انفرادی طور پر اس بات کا اعلان نہیں کرے گا۔ اب فجر کی نماز کا وقت ہوگیا تھا‘ تو طے کیا کہ نماز فجر پڑھ کر ہم کچھ دیر کے لئے اپنے کمروں میں چلے جائیں گے پھر مشورہ کرکے اعلان کیا جائے گا‘ اچانک مجھے پتہ چلا کہ وہاں تو حملہ شروع ہوچکا ہے‘ زبردست بمباری اور گولہ باری ہورہی ہے‘ جیسے کسی دشمن ملک پر چڑھائی کی جاتی ہے اور خوفناک تباہی پھیل رہی ہے‘ ٹی وی پر ان المناک مناظر کے ساتھ طرح طرح کے تخمینے اور قیاس آرائیاں ہورہی تھیں کہ یہ کیا قصہ ہوا؟ ابھی تھوڑی دیر پہلے تو یہ بات ہورہی تھی کہ مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں‘ اب اچانک یہ کیا ہوا؟ اندازے سے کوئی کچھ‘ کہہ رہا تھا‘ کوئی کچھ‘ سخت کنفیوژن پھیلا ہوا تھا۔ میں نے سوچا کہ ہم نے تو یہ طے کیا تھا کہ کوئی انفرادی طورپر اعلان نہیں کرے گا‘ مشورہ کرکے پریس کانفرنس میں اعلان کیا جائے گا‘ مگر اب جبکہ حملہ پوری شدت سے شروع ہوچکا ہے‘ سارا ملک کنفیوژن میں مبتلا ہے‘ لوگ سخت پریشان ہیں اس لئے میں نے اپنے موبائل کا سوئچ کھول دیا‘ کھولتے ہی فوراً جیو ٹی وی کا فون آگیا‘ وہ پوچھ رہے تھے کہ کیا قصہ پیش آیا؟ یہ تو آپریشن شروع ہوگیاہے ‘میں نے سارا واقعہ بیان کردیا‘ اس وقت صبح کے تقریباً ۵/بجے تھے‘ اور فوراً ہی انہوں نے یہ خبر دنیا کو سنادی‘ تو آٹھ بجے کے قریب جناب حامد میر آگئے اور بڑے دکھ سے کہنے لگے کہ دیکھئے یہ وزراء کتنا جھوٹ بول رہے ہیں‘ خدا کے لئے صورتحال بتلایئے‘ وہ کیمرہ بھی ساتھ لائے تھے‘ میں نے ان کو وہ ساری روئیداد جو صبح ۵/ بجے میں جیو کو فون پر سنا چکا تھا‘ مزید تفصیل کے ساتھ جناب حامد میر کو سنا دی‘ انہوں نے ا سکو ریکارڈ کر لیا اور کہا کہ میں آدھے گھنٹے میں اس کو نشر کردوں گا‘ مگر انہوں نے شام کو کسی وقت نشر کیا جبکہ اس سے پہلے ہماری پریس کانفرنس بھی ہوچکی تھی۔ یہ ساری المناک درد بھری روئیداد ہے‘ مجھ سے کسی ٹی وی چینل کے نمائندے نے پوچھا کہ آپ اس خون ریزی کی ذمہ داری کس پر ڈالتے ہیں؟ میں نے کہا‘ ایوانِ صدر پر۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے‘ ہم پر اور ہمارے وطن پر رحم فرمائے‘ اور جو خطرات منڈلارہے ہیں‘ اللہ ان سے بچالے،آمین۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین