بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

بینات

 
 

لا حول ولاقوۃ إلا باللہ کے فضائل


لا حول ولاقوۃ إلا باللہکے فضائل


نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ورضامندی کے حصول، آخرت کی ابدی ودائمی نعمتیں پانے، جنت میں بلند درجات حاصل کرنے اور کم وقت میں زیادہ ثواب حاصل کرنے کے لیے مختلف اعمال واذکار بیان فرمائے ہیں، اور انہیں کرنے کی ترغیب وتاکید کی ہے۔ انہی اذکار واوراد میں سے ایک ’’لا حول ولا قوۃ إلا باللہ‘‘ کا ورد ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں اس کلمہ کے بہت فضائل وارد ہوئے ہیں، یہ کلمہ دنیا وآخرت کی بہت سی نعمتوں کے حصول کا ذریعہ ہے، لہٰذا ذیل میں اس کے فضائل ذکر کیے جارہے ہیں۔

لا حول ولا قوۃ إلا باللہکا مفہوم

لا حول ولا قوۃ إلا باللہکا ترجمہ اس طرح کیا جاتا ہے کہ :’’گناہوں سے بچنے کی طاقت اور اچھے اعمال کرنے کی قوت صرف اللہ تعالیٰ ہی کے ذریعہ ہے۔‘‘
اس کلمہ کے معنی ومفہوم میں غور کیا جائے تو واضح ہوگا کہ اس کلمہ کے ذریعے بندہ اپنی صلاحیت، لیاقت اور قدرت کی نفی کرتا ہے، ہر خوبی واچھائی کا اپنی ذات سے انکار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف اپنی محتاجی ظاہر کرتا ہے، اور اپنی عاجزی وانکساری کا برملا اقرار اور اپنی بےبسی ولاچاری کا کھلے الفاظ میں اعتراف کرتا ہے۔ اور بزبانِ حال کہتا ہے کہ اے اللہ! میں ایک عاجز وکمزور بندہ ہوں، مجھے گناہوں سے بچنے اور اچھے اعمال کرنے کی توفیق عطا فرما؛ کیونکہ آپ کے علاوہ کوئی نہیں جو انسان کو گناہوں اور برے کاموں سے بچاسکے، اور نیک اعمال کرنے کی قوت دے سکے۔
الغرض یہ کلمہ یعنی ’’لا حول ولا قوۃ إلا باللہ‘‘ الفاظ کے اعتبار سے مختصر ہے، لیکن اس کا مفہوم بہت وسیع ہے، اور اللہ تعالیٰ حمد وثناء کو عمدہ طریقہ سے اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ اسی وجہ سے احادیثِ مبارکہ میں لا حول ولا قوۃ إلا باللہ کا کثرت سے وِرد کرنے کی بہت تاکید آئی ہے۔
 

لا حول ولا قوۃ إلا باللہ جنت کا خزانہ

متعدد احادیث مبارکہ میں لا حول ولا قوۃ إلا باللہ کو جنت کا خزانہ کہا گیا ہے، چنانچہ بخاری شریف وغیرہ میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہمراہ ایک سفر میں تھے، جب وہ کسی بلندی پر چڑھتے یا کسی وادی میں اُترتے تو باآوازِ بلند تکبیر کہتے، یہ دیکھ کر حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے فرمایا:
’’أيہا الناس اربعوا علی أنفسکم، فإنکم لا تدعون أصم ولا غائبا، ولکن تدعون سميعًا بصيرًا‎۔‘‘
ترجمہ: ’’اے لوگو! اپنے اوپر نرمی کرو، کیونکہ تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکارتے، بلکہ تم اس کو پکار تے ہو جو سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔‘‘
حضرت ابوموسیٰ اشعری  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ یہ فرماکر حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  میرے پاس تشریف لائے، اس وقت میں اپنے دل میں ’’لا حول ولا قوۃ إلا باللہ‘‘ کہہ رہا تھا تو آپ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ  کا نام لے کر فرمایا کہ اے عبداللہ بن قیس!
’’ألا أدلک علی کلمۃ ہي کنز من کنوز الجنۃ؟ لا حول ولا قوۃ إلا باللہ‎‘‘(۱)
ترجمہ: ’’میں تمہیں ایسا کلمہ نہ بتاؤں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے، وہ ’’لا حول ولا قوۃ إلا باللہ‘‘ ہے۔‘‘
اس حدیث شریف میں ترغیب دی گئی ہے، جس طرح انسان کی کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ خزانہ جمع کرے؛ تاکہ دنیا میں خوشحال اور عیش وراحت سے زندگی گزارے، اسی طرح انسان کو چاہیے کہ وہ اس کلمہ یعنی ’’لا حول ولا قوۃ إلا باللہ‘‘ کا کثرت سے ورد کرے، تاکہ آخرت میں ابدی راحت نصیب ہو، جنت میں اعلیٰ درجات اور زیادہ نعمتوں کا حصول ہو۔

’’لا حول ولا قوۃ إلا باللہ‘‘  جنت کا دروازہ

’’لا حول ولا قوۃ إلا باللہ‘‘ کی ایک فضیلت یہ ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے جنت کا دروازہ کہا ہے، چنانچہ مشہور صحابی حضرت سعد بن عبادہ  رضی اللہ عنہ  کے فرزند قیس بن سعد سے روایت ہے کہ ان کے والد نے انہیں نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت پر مامور کیا تھا۔ وہ فرماتے ہیں کہ: ایک مرتبہ میں دو رکعت نماز پڑھ کر فارغ ہوا اور لیٹنے لگا تو اس دوران آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  میرے پاس سے گزرے اور مجھے متوجہ کرکے فرمایا:
’’ألا أدلک علٰی باب من أبواب الجنۃ؟ قلت: بلٰی؟ قال: لا حول ولا قوۃ إلا باللہ۔‘‘ (۲)
ترجمہ: ’’کیا میں تمہیں جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازے کے متعلق نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں! بتائیے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’لا حول ولا قوۃ إلا باللہ۔‘‘
اور یہی فضیلت حضرت معاذ بن جبل  رضی اللہ عنہ  سے مروی روایت میں بھی ہے۔ (۳)
ایک دوسری حدیث میں مزید یہ بات بھی آئی ہے کہ جب بندہ ’’لا حول ولا قوۃ إلا باللہ‘‘ کہتا ہے تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’أسلم عبدي واستسلم‘‘ یعنی میرے بندے نے فرمانبرداری کی اور سرِ تسلیم خم کیا۔ مکمل حدیث درجِ ذیل ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں:
’’أن رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم، قال: ألا أعلمک - أو قال: ألا أدلک - علی کلمۃ من تحت العرش من کنز الجنۃ؟ تقول: لا حول ولا قوۃ إلا باللہ، فيقول اللہ عز وجل: أسلم عبدي واستسلم‎۔‘‘ (۴)
ترجمہ: ’’حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسا کلمہ نہ بتادوں جو عرش کے نیچے جنت کے خزانہ میں سے ہے؟ تم لا حول ولا قوۃ إلا باللہ کہو، جسے سن کر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے فرمانبرداری کی اور سرِ تسلیم خم کیا۔‘‘

’’لا حول ولا قوۃ إلا باللہ‘‘ جنت کا درخت

’’لا حول ولا قوۃ إلا باللہ‘‘ کا کثرت سے ورد کرنے کی حضرت ابراہیم  علیہ السلام  نے بھی نصیحت فرمائی ہے، اور اسے جنت کا درخت کہا ہے، جیساکہ حضرت ابوایوب انصاری  رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ شب معراج میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا جب حضرت ابراہیم  علیہ السلام  کے پاس سے گزر ہوا تو حضرت ابراہیم  علیہ السلام  نے جبرائیل  علیہ السلام  سے پوچھا کہ تمہارے ساتھ یہ کون ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  ہیں، یہ سن کر حضرت ابراہیم  علیہ السلام  نے حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے فرمایا:
’’مر أمتک أن يکثروا غراس الجنۃ، فإن تربتہا طيبۃ، وأرضہا واسعۃ، فقال رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم لإبراہيم: وما غراس الجنۃ؟ ، قال: لا حول ولا قوۃ إلا باللہ۔‘‘ (۵)
ترجمہ: ’’اپنی امت کو حکم کیجئے کہ وہ کثرت سے جنت کے پودے لگائیں؛ کیونکہ جنت کی مٹی عمدہ اور زمین کشادہ ہے، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا کہ جنت کے پودوں سے کیا مراد ہے ؟ تو انہوں نے بتایا کہ ’’لا حول ولا قوۃ إلا باللہ‘‘  کہنا۔‘‘

’’لا حول ولا قوۃ إلا باللہ‘‘ ننانوے بیماریوں سے نجات

’’لا حول ولا قوۃ إلا باللہ‘‘ کی ایک بڑی فضیلت یہ بھی ہے کہ یہ کلمہ ننانوے بیماریوں اور تکالیف سے نجات کا ذریعہ ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے روایت کرتے ہیں:
’’من قال لا حول ولا قوۃ إلا باللہ، کان دواء من تسعۃ وتسعين داء أيسرہا الہمّ‎۔‘‘(۶)
یعنی ’’لا حول ولا قوۃ إلا باللہ‘‘ ننانوے (دنیوی و اُخروی) بیماریوں کی دوا ہے، جن میں سب سے ادنیٰ اور ہلکی بیماری غم ہے۔‘‘
اسی طرح ایک دوسری روایت میں بھی یہ فضلیت آئی ہے، چنانچہ حضرت جابر بن عبد اللہ  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ریت کی تپش اور گرمی کی شکایت کی، اور چاہا کہ ظہر کی نماز کچھ ٹھنڈ میں پڑھی جائے تو اس وقت آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس شکایت کا لحاظ نہیں فرمایا، اور اسے دور نہیں کیا، اور فرمایا:
’’أکثروا من قول لا حول ولا قوۃ إلا باللہ، فإنہا تدفع تسعۃ وتسعين بابًا من الضر، أدناہا الہمّ‎۔‘‘ (۷)
ترجمہ: ’’لا حول ولا قوۃ إلا باللہ‘‘ کثرت سے پڑھا کرو؛ کیونکہ وہ ننانوے تکلیفوں کو دور کرتا ہے، جن میں سے سب سے ادنیٰ تکلیف پریشانی ہے۔‘‘

’’لا حول ولا قوۃ إلا باللہ‘‘ اور رزق کی کشادگی

’’لا حول ولا قوۃ إلا باللہ‘‘ کا ورد کرنے اور اسے پڑھنے سے اجر وثواب کے ساتھ دنیاوی تکالیف سے نجات اور نعمتوں کا حصول بھی ہوگا، چنانچہ یہ کلمہ فقر وفاقہ اور تنگدستی سے حفاظت اور رزق کی کشادگی کا باعث بھی ہے، جیساکہ حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے روایت کرتے ہیں:
’’من أبطأ عنہ رزقہٗ فليکثر من قول: لا حول ولا قوۃ إلا باللہ‎۔‘‘(۸)
یعنی ’’جس شخص کو رزق کی تنگی ہو تو اسے چاہیے کہ وہ کثرت سے ’’لا حول ولا قوۃ إلا باللہ‘‘ کہے۔‘‘

’’لا حول ولا قوۃ إلا باللہ‘‘ بقائے نعمت کا ذریعہ

’’لا حول ولا قوۃ إلا باللہ‘‘ کے فضائل میں سے ایک بڑی فضیلت یہ ہے کہ اس کا بکثرت ورد کرنے سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا دوام اور استمرار حاصل ہوگا، بندہ ان سے محروم نہیں ہوگا؛ کیونکہ احادیث میں اسے دنیا وآخرت کی نعمتوں کے بقا ودوام کا سبب قرار دیا گیا ہے، چنانچہ حضرت عقبہ بن عامر  رضی اللہ عنہ  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے روایت کرتے ہیں:
’’من أنعم اللہ عليہ بنعمۃ، فأراد بقاءہا، فليکثر من قول: لا حول ولا قوۃ إلا باللہ، ثم قرأ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم:’’ وَلَوْلَآ إِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَکَ قُلْتَ مَا شَاءَ اللہُ لَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللہِ  ۔‘‘(۹)
ترجمہ: ’’جس شخص کو اللہ تعالیٰ کوئی نعمت عطا فرمائے اور وہ اس کے باقی رہنے کا خواہشمند ہو تو اس کو چاہیے کہ لا حول ولا قوۃ إلا باللہ   کثرت سے پڑھے، پھر حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ آیت تلاوت فرمائی:’’وَلَوْلَآ إِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَکَ قُلْتَ مَا شَآءَ اللہُ لَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللہِ‘‘ (الکہف:۳۹) ’’اور جب تم اپنے باغ میں داخل ہوئے تھے تو تم نے ’’ماشاء اللہ لا قوۃ إلا باللہ‘‘ کیوں نہ کہا؟‘‘ ( یعنی جو اللہ چاہتا ہے، وہی ہوتا ہے، اللہ کی توفیق کے بغیر کسی میں کوئی طاقت نہیں)۔‘‘
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ احادیثِ مبارکہ میں ’’لا حول ولا قوۃ إلا باللہ‘‘ پڑھنے کی بہت تاکید آئی ہے، اور اس کے دنیاوی واُخروی بہت سے فوائد وفضائل حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بیان فرمائے ہیں، لہٰذا ہم سب کو چاہیے کہ کثرت سے اس مبارک کلمہ کا ورد کریں۔

حواشی وحوالہ جات

۱- صحيح البخاري، کتاب الدعوات، باب الدعاء إذا علا عقبۃ، رقم الحديث: ۶۳۸۴، (۸/۸۲)، الناشر: دار طوق النجاۃ، ط: ۱۴۲۲ھ
۲- سنن الترمذي، (۵/۴۶۳)، أبواب الدعوات، باب في فضل لا حول ولا قوۃ إلا باللہ، رقم الحديث: ۳۵۸۱، الناشر: دار الغرب الإسلامي- بيروت، ط: ۱۹۹۸م
۳- مسند أحمد، (۳۶/۳۲۱)، حديث معاذ بن جبلؓ، رقم الحديث: ۲۱۹۹۶، الناشر: مؤسسۃ الرسالۃ- بيروت، ط: ۱۴۲۱ھ- ۲۰۰۱م
۴- المستدرک علی الصحيحين للحاکم، (۱/۷۱)، کتاب الإيمان، رقم الحديث: ۵۴، الناشر: دار الکتب العلميۃ- بيروت، ط: ۱۴۱۱ھ- ۱۹۹۰م
۵- صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان، (۳/۱۰۳)، باب الأذکار، رقم الحديث: ۸۲۱، الناشر: مؤسسۃ الرسالۃ- بيروت، ط: ۱۴۱۴ھ- ۱۹۹۳م
۶- المستدرک علی الصحيحين للحاکم، (۱/۷۲۷)، کتاب الدعاء والتکبير، رقم الحديث: ۱۹۹۰م
۷- المعجم الأوسط للطبراني، (۴/۳۳)، باب الحاء، من اسمہ الحکم، رقم الحديث: ۳۵۴۱
۸- المعجم الأوسط للطبراني، (۶/۳۳۳)، باب الميم، من اسمہٗ محمد، رقم الحدیث: ۶۵۵۵
۹- المعجم الأوسط للطبراني، (۱/۶۵)، باب الألف، من اسمہ أحمد، رقم الحديث: ۱۵۵، الناشر: دار الحرمين- القاہرۃ

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین