بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

قول وعمل کاتضاداوراسلام

قول وعمل کاتضاداوراسلام

    آسمانی وحی میں جن بڑے بڑے جرائم کو حق تعالیٰ کے شد ید غضب وناراضی کا سبب قرار دیا گیا ہے ان میں سے قول وعمل کے تضاد کو بھی ذکر فرمایا گیا ہے، قرآن کریم میں سورۂ صف میں ارشاد ہے: ’’یٰٓا أَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ أَنْ تَقُوْ لُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۔‘‘                                                          (الصف:۲،۳) ’’ اے ایمان والو! ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو، خدا کے نزدیک یہ بہت نا راضی کی بات ہے کہ ایسی بات کہو جو کرو نہیں۔‘‘     درحقیقت نفاق بھی یہی چیز ہے کہ زبان پر کچھ ہے اور دل میں کچھ ہے ،منا فقوں کے لیے سزا اور وعید بھی قرآن کریم میں شد ید آئی ہے :  ’’إِنَّ الْمُنٰـفِقِیْنَ فِیْ الدَّ ْرکِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ۔‘‘ (النسائ:۱۴۵) ’’ بلاشبہ منا فقین دوزخ کے سب سے نچلے طبقہ میں جائیں گے ۔‘‘ نفاق کی تین صورتیں      اسلام کی اصطلاح میں الحاد اور زندیقیت کا بھی یہی مفہوم ہے، چنانچہ فقہاء کرام نے زندیق اسی کو بتایا ہے جو زبان سے اسلام کا دعویٰ کرے اور دل میں کفر چھپائے، گو یا قول وعمل کے تضاد کا نا م نفاق ہے اور اس کی تین صورتیں ہیں: اول یہ کہ قلبی اعتماد تو صحیح ہو مگر عمل دعویٰ کے خلاف ہو، یہ نفاق فی العمل ہے۔دوم یہ کہ دل سے خد ااورر سولa کی بات پر سرے سے اعتقادہی نہ ہو، بلکہ صرف ظاہرداری کے لیے ایمان واسلام کے زبانی دعوے کیے جائیں، یہ نفاق اعتقادی کہلاتا ہے جو کفر خالص ہے اور اس کے لیے دوزخ کے سب سے نچلے طبقہ کی وعید ہے۔ سوم یہ کہ ایک شخص دل میں عقیدۂ کفر رکھتا ہے، مگر ظاہری طور پر اسلام کا انکار نہ کرے، بلکہ بظاہر اسلام کا اقرار کرے اور قرآن وحدیث کی نصو ص میں تاویل و تحریف کر کے انہیں اپنے عقائد باطلہ پر چسپاں کرے، یہ زندقہ اور الحاد کہلاتا ہے جو نفاق فی التعبیر سے پیدا ہو اورنفاق کا یہ درجہ سب سے اشد ہے، چنانچہ منافق کی تو بہ بالاتفاق مقبول ہے، لیکن زندیق کی تو بہ بعض علماء کے نزدیک لائق التفات نہیں۔ ان تین مراتبِ نفاق میں فرق یہ ہے کہ نفاقِ عملی کی صورت میں ایمان واعتقادباقی ہے اور عمل کے بہت شعبے بھی موجود ہیں، مگر کسی خاص شعبۂ عمل میں نفاق ہے اور نفاقِ اعتقادی میں نہ ایمان ہے نہ اسلام، نہ عقیدہ ہے، نہ عمل صرف ظا ہر داری کے لیے دعویٰ ہی دعویٰ ہے، یعنی خالص کفر کے باوجود اسلام کا دعویٰ کیا جاتا ہے اور تیسرا مر تبہ اس سے بھی بد تر ہے کہ اس میں نفاق اعتقادی کے ساتھ نصوص میں تحریف کا اضافہ ہوجاتا ہے، گو یا خالص کفر کو تاویلات کے ذریعے اسلام ثابت کیا جاتا ہے، الغرض قول وعمل کا تضاد ہو یا نفاق ہو حق تعالیٰ کے نزدیک بد ترین جرم ہے، شد ید غضبِ الٰہی کا سبب ہے ۔     آج مسلمانوں کا بظا ہر عام جرم یہی ہے کہ زبان سے اسلام کا دعویٰ ہے، لیکن عمل وہ ہیں جن سے کا فر بھی شرمائے اور افراد واشخاص ہوں یا حکومتیں، راعی ہوں یا رعایا سب آج اس عظیم معصیت میں مبتلا ہیں، نفاق عملی میں تو قریباً سبھی مبتلا ہیں کہ زبان سے دعوے کچھ کیے جاتے ہیں اور عمل کچھ اور ہوتا ہے، لیکن بہت سے لوگ تو واقعۃً نفاقِ اعتقادی کے مریض ہیں، یعنی وہ مسلمان صرف اس لیے کہلاتے ہیں کہ ان کو مسلمانوں سے واسطہ ہے، ورنہ ان کے دل میں اسلام نہیں، نہ رسول اللہ a کے دین کی عظمت ہے، نہ رسول اللہ a کے فر مودات کا اعتقاد ہے ،اور بہت سے لوگ اسلام کی پیمائش نفس وشکم کے پیما نے سے کرتے ہیں، گویا انسان کو دینِ اسلام کی اطاعت وفر ما نبرداری کے لیے پیدا نہیں کیا گیا، بلکہ خود اسلام کو انسانی خواہشات کے پیچھے چلنے کے لیے نازل کیا گیا ہے، وہ مسلمانوں پر یہ فرض عائد نہیں کرتے کہ وہ اپنی زندگی اسلام کے ڈھا نچے میں ڈھالیں، بلکہ وہ اسلام پر یہ فرض عائد کرتے ہیں کہ وہ انسانی خواہشات کے سانچے میں ڈھلتا رہے، یہ موجودہ دور میں زند قہ کی ترقی یا فتہ شکل ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ آج عمومی طورپر مسلمان نفاقِ عملی یا اعتقادی میں مبتلا ہے، آج ہمیں جوذلت ونکبت نصیب ہورہی ہے، درحقیقت اس منا فقا نہ طرزِ زندگی کی سزا ہے ۔ پاکستان کیوں حاصل کیا گیا اور اَب تک کیا ہوا؟     ماضی قریب میں متحدہ ہندوستان میں ہم نے یہی نعرے لگائے کہ مسلمانوں کے لیے ایک مستقل جداگا نہ سر زمین کی اس لیے ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے نفاذ کے لیے اسلام کی حکومت قائم ہو اور سر سے پیر تک اسلامی معاشرہ کی تشکیل ہو، اس موقع پر ہم نے بڑے بلند با نگ دعوے کیے تھے کہ حق تعالیٰ کے قوانینِ عدل کا اجرا ہوگا، اسلامی شعا ئر کا احیاء ہوگا، اسلامی اتحاد کا خواب پورا ہوگا، اسی مقصد کے لیے جلسے کیے، جلوس نکالے، کوششیں کیں، قراردادیں پاس کیں، جان ومال اور عزت وآبرو کی قربانیاں دیں، جو کچھ ہوا اور جو کچھ کیا اس کی تاریخ آپ کے سامنے ہے، بہرحال جد وجہد ٹھکا نے لگی، حق تعالیٰ نے غلامی کے طویل دور کے بعدآزادی کی نعمت نصیب فرمائی اور ایک بڑی عظیم سلطنت عطا فرمائی۔ ۱۲؍کروڑ کی قابل قدر، اطاعت شعار، فرمانبردار رعیت عطا فرمائی جس نے کارخانے بنائے، کاروبار کو ترقی دی، مملکت کو آباد کیا، اس کو چار چاند لگائے، باہر کی دنیا میں اس کا وقار قائم کیا، مسجدیں  بنائیں، مدر سے تعمیر کرائے اور اتنا کمایا کہ اپنے ٹیکسوں سے حکومت کے خزانوں کو معمور کیا اور قوم کی محنتوں سے ملک کہاں سے کہاں پہنچا، ماضی وحال کی تاریخ آپ کے سامنے ہے، غرض دین و دنیا کی سعادتوں سے مملکت کو ہم کنار بنایا، لیکن جس بنیادی مقصد کا بار بار اعلان کیا جاتا تھا کہ اسلامی حکومت قائم ہو گی اور یوں عالمِ اسلام سے اتحاد ہوگا، اس کے لیے حکمرانوں اور حکومتوں نے کیا کیا؟ اپنے وعدوں کو کہاں تک پوراکیا؟ یہاں کو ن کون سے اسلامی قوانین جاری ہوئے؟ کفر والحاد کو کہاں تک ختم کیا گیا؟ اسلامی معاشرت قائم کرنے کے لیے کیا کیا اقدام کیے گئے؟ ان تمام سوالات کا جواب حسرت ناک نفی میں ملے گا، آخر امتحان کا یہ عبوری دور تھا، کون سی نعمت تھی جو حق تعالیٰ نے نہ دی ہو؟ کون سی فرصت تھی جو نہ ملی ہو؟ لیکن واحسرتاہ! کہ ربع صدی سے زیادہ عرصہ گزر گیا، مگر پاکستان کے مقصدِ وجود کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوا، کون سا وعدہ پورا کیا گیا؟ کون سی اسلامی عدالت قائم ہوئی؟ زانی اور شرابی کو کون سی سزادی گئی؟ بداخلاقی کا کیا انسداد کیا گیا؟ ظلم، عدوان، رشوت ستانی، کنبہ پروری، بے حیائی وعریانی، سود خوری وبدمعاشی کو ختم کرنے کے لیے کون سا قدم اٹھایا گیا؟ بلکہ اس کے بر عکس یہ ہوا کہ سود خوری، شراب نوشی، بد اخلاقی اور بے حیائی کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی گئی، بلکہ سرکاری ذرائع سے اس کی نشر واشاعت میں کوئی کسر باقی نہیں اٹھا رکھی گئی۔ ’’بینات‘‘کے صفحات میں ان در دناک داستانوں کو بار بار دہر ایا گیا ہے۔ فسق وفجور اور گناہوں کے اثرات      آخر اس فسق وفجور کی کثرت اور خدافراموش زندگی کی لعنت سے دشمنانِ اسلام ( ہندوستان، امریکہ، روس) کے گٹھ جوڑ سے ایک جھٹکا لگا، اور اس بے نظیر مملکت کا ایک حصہ کاٹ دیا گیا اور بقیہ حصہ کو شر وفساد، اختلاف وانتشار، ہوشربا گرانی اور قحط میں مبتلا کردیا گیا، امن وامان ختم ہوگیا، کسی کی نہ جان محفوظ نہ کسی کا مال محفوظ، نہ کسی کی آبر و محفوظ، بڑی بڑی صنعتیں نیشنلائز کی گئیں مگر نتیجہ صفر، زمینداروں اور کسانوں کے درمیان باہم دست وگریباں کی فضا پیدا ہوگئی، مزدوروں اور کارخانہ داروں کے درمیان بے اعتمادی کی لہر دوڑ گئی، حکمرانوں کی عزت واحترام کا جذبہ رعایا کے دلوں سے نکل گیا، آخر یہ سب کچھ کیوں ہوا اور کس لیے ہوا؟     جواب صاف اور واضح ہے کہ ہم نے نفاق سے کام لیا، اسلام سے روگر دانی کی، رسول اللہ a  سے بے وفائی کی، خدا تعالیٰ کو دھوکا دیا، قول وعمل کے تضاد کو شعار بنایا اور منا فقا نہ زندگی کو اختیا ر کیا: کارہا باخلق آری جملہ راست باخدا تزویر و حیلہ کے رواست      آخر حق تعالیٰ کے قانونِ عدل کاظہور شروع ہوگیا، قرآن کریم بار بار حق تعالیٰ کے اس قانونِ عدل کا صاف اعلان کرتا ہے کہ جب حق تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی جائے اور قانونِ خداوندی کی توہین کی جائے تو اس کا انجام یہی ہوتا ہے کہ وہ نعمتیں ان سے چھین لی جاتی ہیں اور ان کے بدلے میں عذابِ شد ید اس قوم پر مسلط کر دیا جاتاہے،ارشاد ہے: ’’لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِ یْدٌ۔‘‘             (ابراھیم:۷) ’’ اگر شکر کر و گے تو تمہیں زیادہ انعام دوں گا اور اگر نا شکری کرو گے تو میرا عذاب بڑا سخت ہے ۔‘‘      دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’ فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا بِہٖ فَتَحْنَا عَلَیْھِمْ أَبْوَ ابَ کُلِّ شَیْئٍ حَتّٰی إِذَا فَرِحُوْا بِمَا أُوْتُوْا أَ خَذْنَاھُمْ بَغْتَۃً فَإِذَاھُمْ مُّبْلِسُوْنَ فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔‘‘                                                   (الانعام:۴۴،۴۵) ’’ پھر جب وہ لوگ ان چیزوں کو بھول گئے جن کی ان کو نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے، یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر جو اُن کو ملی تھیں خوب اترا گئے تو ہم نے ان کو دفعۃً پکڑ لیا ۔ پھر وہ بالکل حیرت زدہ رہ گئے پھرظالم لوگوں کی جڑ کٹ گئی اور اللہ کا شکر ہے ۔‘‘     نیزارشادہے:  ’’وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً قَرْیَۃً کَا نَتْ أٰمِنَۃً مُّطْمَئِنَّۃً یَّأْ تِیْھَا رِزْقُھَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللّٰہِ فَأَذَا قَھَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ۔‘‘         (النحل:۱۱۲) ’’ اور اللہ تعالیٰ ایک بستی والوں کی حالتِ عجیبہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ بڑے امن واطمینان میں تھے ،ان کے کھانے پینے کی چیزیں بڑی فراغت سے ہر چہار طر ف سے ان کے پاس پہنچا کرتی تھیں سوانہوں نے خدا کی نعمتوں کی بے قدری کی، اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو ان حرکات کے سبب ایک محیط قحط اور خوف کا مز ہ چکھا یا ۔‘‘      کیا یہ ارشادات ہماری تنبیہ اور گو شمالی کے لیے کافی نہیں؟ کیا دن بدن ہمارا قدم نحوست وادبار کی طرف نہیں بڑھ رہا؟ کیا ہم نے خدا کی متواتر نعمتوں کی ناشکری میں کوئی کسر چھوڑی ہے؟ کہاں گئی وہ قرر دادِمقاصد جو شیخ الا سلام حضرت عثمانیv کی کوششوں سے پاس ہوئی تھی؟ کہاں ہے وہ تعلیماتی بورڈ جس پر لاکھوں رو پیہ خرچ کیا گیا تھا؟ کہاں ہے وہ اسلامی کو نسل جس پر لا کھوں روپیہ سالانہ خرچ ہورہا ہے؟ کیا یہ سب کچھ نفاق نہیں ہے؟ غضبِ الٰہی کو دعوت دینے والی کون سی برائی ہے کہ اس کو نہ اپنایا ہو اور نیکی وفلاح وبہبود کا کون ساکام ہے جسے ہم نے نہ ٹھکرایا ہو؟ نہ معلوم کہ غفلت کے پردے کب چھٹیں گے اور بدنصیب قوم کا طالعِ سعید کب طلوع ہو گا؟

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین