بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

2 ذو الحجة 1446ھ 30 مئی 2025 ء

بینات

 
 

قربانی کے لیے گائے وقف کرنا

قربانی کے لیے گائے وقف کرنا

سوال

بعض لوگ بقرہ عید میں گائے مدرسے کو وقف کرتے ہیں، ساتھ میں قربانی کی نیت بھی کرتے ہیں، اب معلوم یہ کرنا ہے کہ آیا اس کی قربانی درست ہو جائے گی؟ یا صرف وقف کر نادرست ہوگا یا قربانی؟ براہِ کرم رہنمائی کریں۔

جواب

واضح رہے کہ وقف اشیاء غیر منقولہ کا جیسے زمین، گھر، دکان وغیرہ کا وقف کرنا جائز ہے، اسی طرح وہ اشیاء جو ان اشیاء منقولہ کے تابع ہیں، جیسے زمین کے آلات وغیرہ، ان کا وقف بھی جائز ہے۔ اور اشیاء منقولہ میں سے گھوڑے اور جنگی ہتھیار کا وقف کرنا بھی جائز ہے۔ ان کے علاوہ جن اشیاء منقولہ کے وقف کا عرف ہو اُن کا وقف کرنا بھی جائز ہے ، اور جن اشیاء منقولہ کا عرف نہیں، جیسے حیوان، کپڑے وغیرہ ان کا وقف کرنا جائز نہیں، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر کسی شخص نے جانور مدرسہ کے لیے وقف کیا تو اس کا وقف کرنا درست نہیں ہوگا، کیونکہ جانور کے وقف کا ہمارے ہاں عرف اور تعامل نہیں، جانور واقف کی ملکیت رہے گا۔ قربانی کا حکم یہ ہے کہ قربانی کرنے والا شخص مدرسے والوں کو وکیل بنائے کہ یہ جانور میری طرف سے ذبح کرو اور اس کا گوشت طلباء کو کھلاؤ تو اس صورت میں قربانی کی نیت کرنے سے قربانی ہو جائے گی اور گوشت طلباء کے لیے صدقہ ہو گا۔ 
ملاحظہ: اس مقصد کے واضح یا پیش نظر ہونے کے بعد اگر ایسی قربانی کو وقف قربانی کہا جائے تو یہ محض لفظی تسامح شمار ہوگا، ایسی وقف قربانی جائز ہوگی۔
’’فتاویٰ ہندیہ‘‘ (ج : ۲،ص: ۳۶۱، کتاب الوقف، طبع: ماجدیۃ) میں ہے:
’’رجل وقف بقرۃ علی أن ما يخرج من لبنہا وسمنہا وشيرازہا يعطی أبناء السبيل إن کان ذلک في موضع تعارفوا ذلک جاز کما يجوز ماء السقايۃ، کذا في الظہيريۃ۔‘‘ 
’’فتاویٰ شامی‘‘ میں ہے:
’’وقف کل (منقول) قصدا (فيہ تعامل) للناس (کفأس وقدوم)۔ (قولہ: کل منقول قصدا) إما تبعا للعقار فہو جائز بلاخلاف عندہما کما مر لا خلاف في صحۃ وقف السلاح والکراع أي الخيل للآثار المشہورۃ، والخلاف فيما سوی ذٰلک، فعند أبي يوسف لا يجوز وعند محمد يجوز ما فيہ تعامل من المنقولات واختارہٗ أکثر فقہاء الأمصار کما في الہدايۃ وہو الصحيح کما في الإسعاف، وہو قول أکثر المشايخ کما في الظہيريۃ؛ لأن القياس قد يترک بالتعامل۔‘‘          (ج:۴، ص: ۳۶۳، طبع : ایچ ایم سعید)
ملاحظہ: قربانی کی نیت سے جانور وقف کرنے کا مطلب گوشت کو صدقہ کرنا ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

فتویٰ نمبر :6279/1441                         دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین