بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

2 ذو الحجة 1446ھ 30 مئی 2025 ء

بینات

 
 

قربانی کے لیے مالی حیثیت اور قربانی کی کم از کم شرائط

قربانی کے لیے مالی حیثیت اور قربانی کی کم از کم شرائط 

سوال

قربانی کی کم از کم شرائط کیا ہیں؟ اور کتنی مالی حیثیت پر قربانی واجب ہوتی ہے؟ 

جواب 

واضح رہے کہ قربانی ہر اُس عاقل، بالغ، مقیم، مسلمان، مرد اور عورت پر واجب ہے جو نصاب کا مالک ہے، یعنی ساڑھے سات تولہ سونا ( 87.4875 گرام)، یا ساڑھے باون تولہ چاندی (612.4125 گرام) یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو، یا ر ہائش کے مکان سے زائد مکانات یا جائیدادیں وغیرہ ہوں، یا ضرورت سے زائد گھریلو سامان ہو، جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو یا مالِ تجارت شیئرز وغیرہ ہوں تو اس پر ایک حصہ قربانی کرنا لازم ہے۔ (تجارتی سامان خواہ کوئی بھی چیز ہو، اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے تو اس کے مالک پر بھی قربانی واجب ہوگی۔
نیز قربانی واجب ہونے کے لیے نصاب کے مال، رقم یا ضرورت سے زائد سامان پر سال گزرنا شرط نہیں ہے، اور تجارتی ہونا بھی شرط نہیں، ذوالحجہ کی بارہویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے مال ہو جائے تو اس پر قربانی واجب ہے، چنانچہ اگر قربانی کے تین دنوں میں سے آخری دن (۱۲؍ذو الحجہ) بھی کسی صورت سے نصاب کے برابر مال یا ضرورت سے زائد سامان کا مالک ہو جائے تب بھی اس پر قربانی واجب ہے۔
بنا بریں جس کے پاس رہائشی مکان کے علاوہ زائد مکانات موجود ہیں، ضروری مکان کے لیے پلاٹ کے علاوہ دیگر پلاٹ ہیں، ضروری سواری کے علاوہ دوسری گاڑیاں ہیں، خواہ یہ سب تجارت کے لیے ہوں یا نہ ہوں، بہر حال ایسا شخص قربانی کے حق میں صاحبِ نصاب ہے، اور اس پر قربانی کرنا شرعاً واجب ہے۔ نیز واضح رہے کہ ایسا شخص گھر میں ایک ہو یا ایک سے زائد، درج بالا شرائط کی موجودگی کی وجہ سے اگر ایک گھر میں متعدد صاحبِ نصاب لوگ پائے جاتے ہوں تو سب پر علیحدہ علیحدہ قربانی واجب ہے، اور ایسی صورت میں از روئے شرع ایک ہی قربانی سارے گھر والوں کی طرف سے کافی نہیں ہوگی۔ ’’رد المحتار‘‘ میں ہے:
’’وشرائطہا الإسلام والإقامۃ و اليسار الذي يتعلق بہٖ وجوب (صدقۃ الفطر) ۔۔۔ (لا الذکورۃ، فتجب علی الأنثی ) ۔ قال في الرد (قولہٗ:و شرائطہا) أي شرائط وجوبہا، ولم يذکر الحريۃ ۔۔۔ ولا العقل والبلوغ لما فيہما من الخلاف ۔۔۔ (قولہ: واليسار) بأن ملک مائتي درہم أو عرضا يساويہا غير مسکنہ وثياب اللبس أو متاع يحتاجہ إلٰی أن يذبح الأضحيۃ ولو لہٗ عقار يستغلہٗ، فقيل: تلزم لو قيمتہ نصابا ۔۔۔۔۔ فمتی فضل نصاب تلزمہ ولو العقار وقفا، فإن وجب لہ في أيامہا نصاب تلزم وصاحب الثياب الأربعۃ لو ساوی الرابع نصابا غنی وثلاثۃ فلا، والمرأۃ موسرۃ بالمعجل لو الزوج مليا وبالمؤجل لا ۔‘‘ (رد المحتار:۶-۳۱۲، فتاویٰ ہندیۃ: ۵ -۲۹۲، البحر:۸ -۱۷۴)                                                    فقط واللہ اعلم

فتویٰ نمبر :8284/1436                         دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین