بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

قربانی واجب ہونے کی شرائط اور مالی حیثیت

قربانی واجب ہونے کی شرائط اور مالی حیثیت


کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:

قربانی کی کم از کم شرائط کیا ہیں ؟ اور کتنی مالی حیثیت پر قربانی واجب ہوتی ہے؟ شکریہ

 مستفتی:خرم(لانڈھی، کراچی)

الجواب باسمہٖ تعالٰی

واضح رہے کہ قربانی ہر اُس عاقل ، بالغ ، مقیم، مسلمان، مرد اور عورت پر واجب ہے جو نصاب کا مالک ہے ، یا اس کی ملکیت میں ضرورت سے زائد اتنا سامان ہے، جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے، یعنی ساڑھے سات تولہ سونا (87.4875گرام ) یا ساڑھے باون تولہ چاندی (612.4125گرام ) یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو ، یا رہائش کے مکان سے زائد مکانات یا جائیدادیں وغیرہ ہوں، یا ضرورت سے زائد گھریلو سامان ہو ، جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا مالِ تجارت، شیئرز وغیرہ ہوں تو اس پر ایک حصہ قربانی کرنا لازم ہے ۔ (تجارتی سامان خواہ کوئی بھی چیز ہو، اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے تو اس کے مالک پر بھی قربانی واجب ہوگی ۔)
نیز قربانی واجب ہونے کے لیے نصاب کے مال ، رقم ، یا ضرورت سے زائد سامان پر سال گزرنا شرط نہیں ہے، اور تجارتی ہونا بھی شرط نہیں، ذوالحجہ کی بارہویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے مالک ہوجائے تو اس پر قربانی واجب ہے، چنانچہ اگر قربانی کے تین دنوں میں سے آخری دن (۱۲ذی الحجہ) کو بھی کسی صورت سے نصاب کے برابر مال یا ضرورت سے زائد سامان کا مالک ہوجائے تب بھی اس پر قربانی واجب ہے ۔ 
بنا بریں جس کے پاس رہائشی مکان کے علاوہ زائد مکانات موجود ہیں ، ضروری مکان کے لیے پلاٹ کے علاوہ دیگر پلاٹ ہیں ، ضروری سواری کے علاوہ دوسری گاڑیاں ہیں، خواہ یہ سب تجارت کے لیے ہو یا نہ ہو ، بہر حال ایسا شخص قربانی کے حق میں صاحبِ نصاب ہے ، اور اس پر قربانی کرنا شرعاً واجب ہے ۔ 
نیزواضح رہے کہ ایسا شخص گھر میں ایک ہو یا ایک سے زائد ، درج بالا شرائط کی موجودگی کی وجہ سے اگر ایک گھر میں متعدد صاحبِ نصاب لوگ پائے جاتے ہوں تو سب پر علیحدہ علیحدہ قربانی کرنا واجب ہے ، اور ایسی صورت میں از روئے شرع ایک ہی قربانی سارے گھر والوں کی طرف سے کافی نہیں ہوگی۔ ’’رد المحتار‘‘ میں ہے : 
’’وشرائطھا الإسلام والإقامۃ والیسار الذي یتعلق بہٖ وجوب ( صدقۃ الفطر ) ۔۔۔۔۔ (لاالذکورۃ فتجب علی الأنثٰی )۔ قال في الرد: (قولہ: وشرائطھا ) أي شرائط وجوبھا، ولم یذکر الحریۃ ۔۔۔۔۔ ولا العقل والبلوغ لما فیھما من الخلاف ۔۔۔۔۔ ( قولہ والیسار) بأن ملک مائتي درھم أو عرضا یساویھا غیر مسکنہ وثیاب اللبس أو متاع یحتاجہ إلٰی أن یذبح الأضحیۃ ولو لہٗ عقار یستغلہٗ فقیل: تلزم لو قیمتہ نصابا ۔۔۔۔۔ فمتٰی فضل نصاب تلزمہٗ ولو العقار وقفا ، فإن واجب لہ فی أیامھا نصاب تلزم وصاحب الثیاب الأربعۃ لو ساوی الرابع نصابا غنی وثلاثۃ فلا، والمرأۃ موسرۃ بالمعجل لو الزوج ملیا وبالمؤجل لا۔‘‘ (رد المحتار ، ج:۶، ص:۳۱۲۔ فتاویٰ ہندیہ ،ج:۵،ص:۲۹۲ ۔البحر ،ج:۸، ص:۱۷۴)
’’وفیہ أیضا : أن الأضحیۃ لھا وقت مقدر کالصلوۃ والصوم والعبرۃ للوجوب في آخرہٖ من کان غنیا آخرہ تلزمہ۔‘‘ ( رد المحتار،ج:۶،ص:۳۱۵)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے : 
’’ولا یشترط أن یکون غنیا في جمیع الوقت حتی لوکان فقیرا في أول الوقت ثم أیسر في آخرہ تجب علیہ۔‘‘ (فتاویٰ ہندیہ،ج:۵،ص:۲۹۲-۲۹۳۔ بدائع، ج:۵،ص:۶۴)

 

 

فقط واللہ اعلم 

 الجواب صحیح

 الجواب صحیح

کتبہ

 ابوبکر سعید الرحمن

محمد شفیق عارف

 

انس انور بدخشانی

  

 دارالافتاء

  

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاون کراچی

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین